Thursday, 6 February 2014

عالمی اسلامی خلافت اور عالمی دجالی نظام

"آج تمھارے دین کی طرف سے کافروں کی آس ٹوٹ گئی- تو ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو- آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا- اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمھارے لئے اسلام کو دین پسند کیا"-
سوره المائدہ - ٣ 

عالمی حکومت یا خلافت کی تعریف 

اسلام کی عالمی خلافت یا کسی کی بھی ایک عالمی حکومت یا ایک متحدہ عالمی نظام  کی تعریف کیا ہے؟ ساری دنیا کے انسان ایک حکومت کے اندر آجائیں- ایک نظام کے ما تحت بن کر کام کریں اور اس نظام کے مقابلے پر اپنے رنگ و نسل، زبان، علاقوں اور فرقوں کو دوسرے درجہ کی حیثیت دیں- اپنے ملکوں اور شہروں کے بجاۓ اس ایک نظام کے دفاع کے لئے تیّار رہیں بلکہ اپنے ملکوں اور شہروں کے دفاع کے لئے بھی اسی نظام کی طرف دیکھیں اور اسی پر بھروسہ کریں -

یہ خواب بہت پرانا ہے اور نہ جانے کتنے حکمرانوں نے دیکھا اور ناکام ہوۓ-

مجھے یقین نہیں کہ پچھلی پندرہ صدیوں میں، خلافت راشدہ کے بعد سے، کسی مسلمان حکمران نے اس بارے میں سنجیدگی سے سوچا ہو- اسی سنجیدگی سے جتنی سنجیدگی سے ہمارے چاروں خلفاء راشدین سوچا کرتے تھے-  شاید اس میں الله کی کوئی حکمت ہو-  شاید انسانوں کواور مسلمانوں کو یہ سمجھانا مقصود ہو کہ اللہ بے نیاز ہے اس سے کہ کوئی اسے سجدہ کرے یا نہ کرے، اسکی رضا کے جئے یا مرے یا منہ پھیر لے-  اور یہ کہ الله کا دین تو دین فطرت ہے کلمہ پڑھنے والا ہو یا کافر یا بے دین، جو اس کے اصولوں پر عمل کرتا ہے کم از کم دنیا کی باگ دوڑ اپنے ہاتھہ میں لے لیتا ہے-

اور یہ کام شیطان نے بری فطرت کے انسانوں سے لے لیا-  

 اسلامی خلافت 

مسلمانوں کی  پہلی باقاعدہ خلافت کی بنیاد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مدینہ میں ڈالی- خلفاء راشدین کے زمانے تک یہ باقاعدہ طور پر پھیلتی رہی- یہ عرصہ مسلمانوں کے باقاعدہ عروج کی کہانی ہے- یہاں تک یہ خلافت وحدت تھی- 

کربلا کے واقعے کے بعد اس عروج کا زوال ہونا شروع ہوگیا- وحدت ختم ہوتی چلی گئی- خلافت آہستہ آہستہ بادشاہتوں میں بٹتی چلی گئی- 

عظیم سلطنتوں میں سے بر صغیر میں مسلمانوں کی مغلیہ سلطنت ١٨٥٧ میں جبکہ مسلمانوں کی سلطنت عثمانیہ ١٩٢٤ میں باقاعدہ طور پر ختم ہو گئی-ان دونوں کا اسلام کی روح اور اس کے مقاصد سے کوئی تعلق نہ تھا- دونوں سلطنتیں چونکہ عام مسلمانوں کے حق میں غیر فعال ہو چکی تھیں لہٰذا ان کا ختم ہونا ایک طبعی امر تھا- 

پاکستان کے وجود میں آنے میں کسی شاہی یا جمہوری نظام کا عمل دخل نہیں تھا- یہ فیصلہ خدائی فیصلوں کی ایک کڑی تھا، جو حضرت آدم علیہ السلام کو روۓ ارضی کی خلافت ملنے سے شروع ہوا اور محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم کی عرب قوم میں خلافت قائم کرنے پر ختم ہوا- اور یوں رسالت اور پیغمبری کے اور ذریعے زمین پر الله کا نظام قائم کرنے کا سلسلہ ختم ہو گیا- 

پاکستان کی بنیاد بننے والا دو قومی نظریہ کوئی نئی بات یا نیا فلسفہ نہیں تھا- یہ نظریہ تو جنّت میں ہی وجود میں آ گیا تھا- آدم بمقابلہ ابلیس- گھمنڈ بمقابلہ حلم- ضد بمقابلہ حکم- فرمانبرداری بمقابلہ نافرمانی- اچھائی بمقابلہ برائی- سورہ المجادلہ کی آیات کے مطابق حزب الله بمقابلہ حزب الشیطان- حق کے مقابلے پر باطل اور مومنین کی جماعت کے مقابلے پر کافروں کی جماعت- اور یہ دو قومیں ہمیشہ ایک دوسرے کے مقابل ہی کھڑی ہوں گی- 

ختم رسالت و نبوت کے کئی مطلب نکلتے ہیں- ایک مطلب تو یہ بھی نکلتا ہے کہ شیطان کے پاس انسانوں کو بہکانے کے تمام حربے ختم ہو چکے ہیں- اب سے لے کر قیامت تک وہ جو بھی چالیں چلے گا وہ پرانی چالوں کی ہی نئی قسم ہوں گی- اور ان سے نمٹنے کے لئے قرآن اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سیرت کافی ہیں- قیامت تک کے لئے  انسانیت کی بھلائی، شیطان سے مقابلہ، زندگی کے ہر شعبے کے قوانین، اخلاقیات- اور بھی جو کچھ ہے ان کا حل ان ہی دو چیزوں میں ہے-  

اس کا ایک اور مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ اب بنی آدم ہر لحاظ سے اس قابل کر دئیے گۓ ہیں کہ کسی رسول یا پیغمبر کی براہ راست شمولیت کے بغیر بھی قرآن اور سنّت کے مطابق حکومتیں چلا سکتے ہیں- ان انسانوں کا کوئی مسلہ ایسا نہیں بچا جس کے لئے جبریل علیہ السلام کے ذریعے رابطے کی ضرورت ہو- آدم علیہ السلام سے لے کر محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم تک انسان جن جن مسائل سے گزر سکتا تھا گذر گیا- شیطان کے حربوں کی طرح انسانوں کے مسائل بھی پرانی مصیبتوں کا نیا روپ ہوں گے- انکے گناہ بھی پرانے گناہوں کی نئی شکل ہوں گے- اور ان کی طرف سے اسلام کے نام پر پیش کے جانے والے نظام بھی پرانے نظاموں کی نئی صورت ہوں گے- 

اور یہ بھی کہ حق اور باطل کی جنگ اگر قیامت تک کے لئے ہےاور کوئی نبی بھی نہیں آنا تو پھر یہ تمام انسانوں کے لئے ایک کھلی للکار ہے- ایک گروہ الله کی بغاوت کا نظام نافذ کرنے کے لئے ہراساں اور پریشان اور دوسرا اس کے مقابلے پر الله کی فرمانبرداری کا نظام نافذ کرنے کے لئے بر سر پیکار- 

انٹرنیٹ کی ایجاد سے پہلے یہ سب کچھ سمجھنا آسان نہ تھا- لیکن آج انٹرنیٹ کی ہر کھڑکی کے ساتھ ماضی کا ہر دروازہ کھلتا چلا جاتا ہے- اور یوں آج اور کل میں فرق یا مشابہت تلاش کرنا کوئی مشکل کام نہیں رہ گیا- پچھلی چند دہایوں میں جو آزادی، علم، سائنسی شعور دنیا میں پھیلایا گیا ہے اس کی روشنی اتنی واضح ہے کہ کوئی وجہ اب مبہم نہیں رہی- اور جن کے پاس یہ آزادی، یہ علم اور اختیار ہے- ان کا احتساب بھی سب سے زیادہ ہے- 

عالمی نظام کی خصوصیات 

عالمی نظام چاہے دجال کا ہو یا اسلام کا- کچھ خصوصیات ایسی ہیں جن کے بغیر دونوں میں سے کوئی نظام بھی چل نہیں سکتا-

١- ساری دنیا کے انسانوں پر عملا یہ ثابت کر کے دکھانا کہ صرف یہی نظام ہے جو انکی جان، مال اور عزت کی ضمانت دیتا ہے- 
٢- ساری دنیا کے انسانوں کو عملی کوششوں کے ذریعے یہ یقین دلانا کہ اس نظام کے تحت آ جانے سے انکے عقائد، ثقافت اور طرز زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا سواۓ اسکے کہ وہ خود اسے تبدیل کرنا چاہیں- انھیں ہراساں اور خوف زدہ نہیں کیا جاۓ گا- اور نہ ہی ان کا مذاق اڑایا جاۓ گا- 
٣- ساری دنیا کے انسانوں کو اس سوچ پر متفق کرنا کہ ہرانسان دوسرے انسان اور ہر قوم دوسری قوم کی ضرورت ہے اور کوئی بھی ملک صرف اپنے وسائل پر گذارا نہیں کرسکتا- اور اس بناء پر ہر قوم کو دوسری قوم کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے ضروری ہیں- 
٤- ساری دنیا کو اس بات کا یقین دلانا کہ انکے ساتھ کسی جانبداری کے بغیر انصاف کیا جاۓ گا- 
٥- ساری دنیا کے انسانوں کو الله کی زمین پر چلنے پھرنے، کام کرنے کی آزادی دینا-
٦- ایک ایسا ماحول پیدا کرنا کہ جس میں نہ کوئی یہ خوف کھاۓ کہ اس کے ساتھ دھوکہ، فریب، جبر کیا جاۓ گا- اور نہ کوئی دوسروں کے ساتھ ایسا کرنے کا سوچے-  ایک ایسا معاشرہ تیّار کرنا جس میں سب کو یہ بھروسہ ہو کہ اس کی مجبوری کا فائدہ نہیں اٹھایا جاۓ گا-
 ٧- ایک ایسا ماحول ترتیب دینا جس میں انسانوں کے جمالیاتی ذوق کی تسکین ہوسکے- اور فطرت اپنی بھر پور کشش کے ساتھ الله کے تخلیقی قدرتوں کی مظہر ہو- 

وہ دینی لوگ جو بڑے ذوق و شوق سے اسلام کی عالمی خلافت اور شریعت کے نفاذ کا بیڑہ اٹھاۓ ہوۓ کبھی انہوں نے یہ سوچا ہے کہ دنیا کی آٹھہ ارب آبادی کو کس طرح ایک اسلامی حکومت کے تحت رہنے کے لئے آمادہ کریں گے؟ ابھی تو ان کو یہ بھی نہیں پتہ کہ پاکستان میں نفاذ شریعت ہوگیا تو اٹھارہ کروڑ کی آبادی کو کس طرح ساتھ ملاکر چلیں گے- حالانکہ غیر مسلموں نے تو یہ کر کے دکھا دیا- کوئی مانے یا نہ مانے-  مسلمان امن، خوشحالی، سکون اور بنیادی حقوق کی فراہمی کے لئے امریکہ یا مغربی ممالک کا رخ کرتے ہیں- 

قوموں، قبیلوں اور علاقوں میں کوئی نظام، عقیدہ، یا مسلک متعارف کرانے اور اس کے بل پر حکومت کرنے کا دور ختم ہونے جا رہا ہے-  ساری دنیا کے انسانوں کو ایک حکومت کے نیچے اپنی رضا اور خوشی کے ساتھ رہنے پر آمادہ کرنے کا سہرا امریکہ کے سر جاتا ہے- اس کے لئے مغربی دنیا نے کیا کیا قیامتیں ڈھائیں وہ الگ بات ہے لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ عالمی اسلامی خلافت پر یقین رکھنے کے باوجود کسی بھی جگہ کی مسلمان قوم میں یہ صلاحیت اور قابلیت نہیں تھی کہ ایک قوت برداشت رکھنے والا اور قانون کو فوقیت دینے والا معاشرہ قائم کر سکتے- آج کی دنیا کے معاملات سلجھانے کے لئے مسلمان کس حد تک سنجیدہ ہیں؟  ساری دنیا کے انسان غیر سنجیدہ اور بے یقین لوگوں پر مسائل کو حل کرنے کے معاملے میں کس حد تک بھروسہ کر سکتے ہیں؟ آج مسلمان قوم کا حال یہ ہے کہ مکّہ اور مدینہ میں بھی لوگ اپنے سامان کی طرف سے فکرمند ہوتے ہیں کہ چوری نہ ہو جاۓ - یہ تو اپنے گھروں، خاندانوں اور محلوں کو کوئی نظام نہیں دے سکتے- ایک ملک نہیں سنبھال سکتے تو پھر ساری دنیا کو کس طرح ایک حکومت دے سکتے-  جس امت کے لوگوں کے لئے اپنے گھر اور مسجدوں کو چلانے کے لئے کوئی معاشی منصوبہ بندی نہ ہو اس پر قدرت اور دنیا والے کس طرح عالمی معاملات چلانے کے لئے بھروسہ کر سکتے ہیں- جس دنیا پر خلافت کے مسلمان خواب دیکھہ رہے ہیں اس کے بارے ہیں تو یہ نہیں جانتے کہ اس زمین پر کتنی قومیں اور فرقے موجود ہیں، کتنی زبانیں بولی جاتی ہیں، کس ملک کے کس سے کیا تعلقات ہیں، انکی معیشت کیا ہے، انکا قدرتی ماحول کیا ہے- دنیا کے ماحولیات کو کس طرح صحت بخش بنایا جاسکتا ہے-دنیا میں کتنے غار ہیں، کتنے سمندر ہیں اور کتنے گہرےہیں-  ہوا کتنی اونچائی پر جاکر ختم جو جاتی ہے- کون سا پہاڑ کتنا بلند ہے- زمین کی سطح، سمندروں، پہاڑوں، غاروں کے اندر کون سے خزانے دفن ہیں؟ ان سارے کے سارے شماریات کے لئے غیر مسلموں کی کاوشوں پر توکّل کرنا پڑتا ہے-  نہ سوچ اپنی، نہ فکر اپنی، نہ تحقیق اپنی، نہ تجویز اپنی، نہ تدبیر اپنی- اور جو حرکت نظر آتی ہے تو اسکی وجہ بھی  اصلاح سے زیادہ انتقامی مہم اور مقابلہ بازی ہی ہوتی ہے- 

بس احادث میں بیان کی گئی کافروں کی تباہی اور بربادی کے قصّے پڑھ پڑھ کر خوش ہوتے رہتے ہیں کہ کافروں کی ساری کی ساری محنت بیکار جاۓ گی- لیکن یہ کبھی نہیں سوچتے کہ جو محنت ہی نہ کریں اور کافروں کی محنت پر ہی اپنی دنیا داری اور دینداری کی دنیا بسا لیں انکے ساتھ خدا کیا معاملہ کرے گا-  


عالمی اسلامی خلافت  اور عالمی دجالی نظام  

دجال کی عالمی حکومت اور اسلام کی عالمی خلافت - دونوں ایک حقیقت ہیں-  اور اس وقت ساتھ ساتھ چل رہی ہیں-  

ایک طرف رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی احادیث کے مطابق دجال کی حکومت کا جو حال احوال ہے آج ہم سب اس کا تجربہ کر رہے ہیں-  دجال کا کمال یہ ہے کہ اس نے گویا موسیٰ کی قوم سے فرعون ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالے اور انھیں پر بٹھا دیے- اس نے ہر مسلمان قوم میں اسی کے اندر سے حزب الشیطان ڈھونڈ کر اور تراش کر سیاستدانوں اور دوسرے کرداروں کی شکل میں کھڑے کر دئیے ہیں- حزب الشیطان کا ایک حصّہ جرائم، ظلم، جہالت، غفلت، نفرت پھیلانے میں مصروف ہے تو دوسرا حصّہ لوگوں کو تفکر، غور و فکر اور زندگی کے اصل مقاصد سے دور رکھنے میں کوشاں ہے- اور یوں جنگ اور قتل و غارت بڑھتا جا رہا ہے- 

"اور اگر تم نہ نکلو گے تو خدا تم کو بڑی تکلیف کا عذاب دے گا۔ اور تمہاری جگہ اور لوگ پیدا کر دے گا (جو خدا کے پورے فرمانبردار ہوں گے) اور تم اس کو کچھ نقصان نہ پہنچا سکو گے اور خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے"  

سورہ التوبہ ٣٩ 
دوسری طرف رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی احادیث کے مطابق دنیا کا کوئی کونا اور کوئی جھونپڑی ایسی نہ بچے گی کہ وہاں اسلام داخل نہ ہوا ہو- تو یہ بھی ہو رہا ہے-  آج انٹرنیٹ کے ذریعے ساری دنیا حج کے مناظر دیکھتی ہے، مسجد الحرام  اور مسجد النبوی میں کی جانے والی عبادتیں دیکھتی ہے- قرآن کی تلاوت، قرآن فہمی، احادیث کاعلم، پیغمبروں کی باتیں، صحابہ کی زندگیاں، مسلمانوں کی فتوحات، اور نہ جانے کیا کچھ ہے کہ جس سے اب کوئی لا علم نہیں-  غیر مسلم مسلمانوں کی سیرت کی وجہ سے نہیں اپنے مطالعے اور تحقیق کی بنا پر اسلام میں داخل ہو رہے ہیں- اور یہ خود کو ہر قسم کی مجبوری سے آزاد کر مسلمان ہو رہے ہیں لہٰذا اسلام ان کی طاقت بن رہا ہے- 


"اور (اے محمد! اس وقت کو یاد کرو) جب کافر لوگ تمہارے بارے میں چال چل رہے تھے کہ تم کو قید کر دیں یا جان سے مار ڈالیں یا (وطن سے) نکال دیں تو (ادھر تو) وہ چال چل رہے تھے اور (اُدھر) خدا چال چل رہا تھا۔

اور خدا سب سے بہتر چال چلنے والا ہے"
 سورہ الانفال - ٣٠ 

ابراہیم علیہ السلام کا حضرت ہاجرہ اور اسمعیل کو مکّہ میں تنہا چھوڑ جانا، فرعون کے محل میں موسیٰ علیہ السلام کی پرورش، رسول صلی الله علیہ وسلم کی مدینہ ہجرت، صلح حدیبیہ، کربلا کے واقعات، محمد بن قاسم کا سندھ فتح کرنا، پاکستان کا مسلمانوں کی غیروں سے آزادی اور الله کی غلامی کے نام پر وجود میں آنا- اور کافروں کے ہاتھوں گلوبلائزیشن- 

یہ ہوتی ہیں الله کی منصوبہ بندیاں- 

اوران سب کے ساتھ ساتھ امریکہ کا ایک طاقتور متحدہ حکومت کے طور پر ابھرنا، ایک اسلامی نظام خلافت کے کچھ اصولوں پر مبنی نظام کو ساری دنیا میں متعارف کروانا اور اس طرح کہ سارے انسان اس پر بھروسہ بھی کریں-امریکہ میں مساوات اور برداشت پر مبنی ایک معاشرہ تشکیل دینا- مسلمانوں کو اپنے عقائد کے مطابق جینے کی آزادی دینا- اور یہ سمجھ لینا کہ اس طرح مسلمان امن، سکون اور خوشحالی کے ماحول میں اپنے اپنے ملکوں سے لا تعلق ہوکر امریکہ کے وفادار بن جائیں گے اور اس طرح وہ ان ملکوں میں فساد برپا کر کے ان کے وسائل پر قبضہ بھی کر لے گا- 

یہ ہیں دجال کی چالیں-

امریکہ کے نظام کی کامیابی کی وجہ اسکے نظام میں اسلامی خصوصیات کا موجود ہونا اور ناکامی کی وجہ وہ ظلم اور چالیں ہیں جو وہ امریکہ کو ایک کامیاب اور نجات دھندہ حکومت ثابت کرنے کے لئے دنیا کے انسانوں پر کر رہے ہیں- اور اس مقصد کے لئے دنیا بھر کی قوموں میں انھیں میں سے شیاطین صفت لوگوں کو با اختیار بنایا گیا ہے-  اور جب یہ آپس میں نفرتوں اور تعصب کے تماشے کرتے ہیں تو امریکہ نجات دھندہ کے طور پر سامنے آ جاتا ہے-  

جو باتیں اقوام متحدہ کے منشور میں ہیں اور جو امریکہ کے قوانین میں ہیں وہ تو تقریبا وہی ہیں جو چودہ سو سال پہلے اسلام نے دنیا میں متعارف کرائیں- لیکن آج مسلمان اپنے اسلامی منشور سے زیادہ ان دونوں منشوروں کی پرواہ کرتے ہیں اور ان پر ہی بھروسہ کرتے ہیں- 

اب جو بھی صورت حال دنیا کی بن چکی ہے اس میں سے کسی ایک قوم کا بھی لا تعلق رہنا فضول ہے کیونکہ ہر ملک کا ہر انسان اس سے متاثر ہو چکا ہے-  الله بھلا کرے امریکہ کا کہ اس کی خارجہ پالیسیوں نے بقول اقبال "مسلماں کو مسلمان کردیا طوفان مغرب نے" ہر مسلمان کو اسکی زندگی کے اصل مقصد کی طرف راغب کردیا-  ورنہ مسلمان قوموں نے تو آدھی سے زیادہ دنیا پر پھیلی ہوئی اپنی ہی حکومت کو کھو دیا یہ غیر مسلم دنیا کو اپنے ساتھ ملا کر کیسے چلتے-  اس نیو ورلڈ آرڈر نے مسلمانوں کا کام آسان کردیا ہے- لوگوں کے ایک دوسرے کے ملکوں اور رہنے سہنے کے حال احوال جان لئے ہیں- ایک دوسرے کے کھانے چکھ لئے ہیں- ایک دوسرے کے مذاہب اور عقائد کے بارے میں جان لیا ہے-  دنیا کی جغرافیائی شکل بھی دیکھ لی کہ دنیا کے ایک حصّے سے دوسرے حصّے تک کتنے سمندر، دریا، جھیلیں، صحرا اور پہاڑ آتے ہیں اور انھیں کس طرح پار کرنا ہے-  ہر جگہ کے موسم اور اوقات بھی معلوم کر لئے-  لہٰذا اب کرّہ ارض پر کسی ایک نظام کی اجارہ داری قائم ہونا کوئی خواب نہیں رہ گیا- یہ حقیقت ہے کہ ابھی مسلمان ملکوں کی تباہیوں کے نتیجے کے طور پر مزید مسلمان مغربی ممالک کا رخ کریں گے-  اور بالآخر ایک مرتبہ تو ساری دنیا کچھ دنوں کے لئے کفر کے جھنڈے تلے جمع ہو ہی جاۓ گی-  جس کا مقصد اسکے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ دنیا کی آبادی کو اسلامی خلافت سے پہلے ہی ساتھ مل کر رہنے کا تجربہ ہو جاۓ- ایک مرکز کی طرف دیکھنے کی عادت پڑ جاۓ- اس طرح عالمی خلافت کے لئے ہونے والے معرکے میں اسلامی طاقتوں کے مقابلے پر صرف اک ہی طاقت ہوگی -  اور اس کی شکست اسکے تمام شریکوں کی شکست ہوگی-  







Wednesday, 5 February 2014

یوم یکجہتی کشمیر

بہت حیرت ہوئی یہ دیکھ کر کہ بہت سے پاکستانی آج یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر ہندوستانی فلمیں دیکھ کر چھٹی منا رہے ہیں-  ڈرون  اور خود کش حملوں سے، را، موساد اور ایف بی آئی سے اور پاکستان کے سیاستدانوں سے زیادہ مہلک اور خطرناک ہے یہ بے حسی- کشمیریوں کا مذاق تو کسی اور دن بھی اڑایا جا سکتا ہے- 


.

Sunday, 2 February 2014

The Beautiful Words of Allah, The Exalted

May I be among those who will see on the Day of Judgement the Wonderful God who created them and planned for them life and death - and wish same for my parents, my brothers and sisters and our children and grandchildren.  Ameen!


.





























 




Thursday, 30 January 2014

فوجیوں کی مائیں

رسولوں اور نبیوں کے قصے پڑھ پڑھ میں اکثر سوچا کرتی تھی کہ کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ بڑے بڑے رسولوں کی پرورش انکی ماؤں اور گھر والوں سے دور ہوئی- اور نبوت کے فرائض تک شاید ہی کسی کی والدہ زندہ رہی ہوں- 

پھر میں نے خود ہی اس کا جواب سوچا کہ شاید اس لئے کہ پیغمبروں اور رسولوں کی مائیں برداشت نہ کر سکتیں جو تکالیف ، صعوبتیں اور آزمائشیں انکے بیٹوں کو اٹھانی پڑیں اور جتنے سفر اور ہجرتیں انہیں کرنی پڑیں- شاید وہ بے چین ہو کی الله سبحانہ و تعالی سے گلہ کر بیٹھتیں- اور الله کو اسکا اثر دکھانا پڑتا- جس طرح اکیلی حضرت ہاجرہ حضرت اسمعیل کی پیاس سے بے چین ہو کر دوڑتی تھیں- اور الله نے انکی اولاد کی پیاس بجھانے کے لئے تڑپ کو قیامت تک کے لئے حج جیسی بین الا قوامی عبادت کا رکن بنا دیا-   

خاص طور پر رسول الله، محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم کو- جن کو نہ والد دیکھنے کو ملے اور پھر والدہ اور دادا کو بھی جدا کر دیا گیا- نہ کوئی بہن نہ بھائی- بھائی اور بیٹے کا رشتہ بھی حضرت علی ابن ابی طالب نے نبھایا- ان کے جسم پر لگے زخم دیکھ کر انکی بیٹی ٹرپ جاتی تھیں- 

لیکن پھر انکے گھرانے کو دیکھا- تو وہاں تو مائیں موجود تھیں- حضرت فاطمہ بنت محمد، حضرت زینب بنت علی، حضرت فاطمہ بنت حزام (ام البنین)، حضرت رباب- سب پر سلام ہو- انہوں نے اپنے بیٹوں کو کس کس حال میں دیکھا اور کیا کیا برداشت کیا- اور سب سے بڑی بات کہ کس کے لئے یہ سب برداشت کیا- شہرت کے لئے، دولت کے لئے، حکومت کے لئے؟؟؟ یا صرف اور صرف الله کی رضا کے لئے؟

پھر انکے گھرانے سے باہر مومنات جنہوں نے اپنے بیٹوں کو رسول الله کی سالاری میں غزوات میں شہید ہوتے دیکھا- کس لئے؟ شہرت کے لئے، دولت کے لئے، حکومت کے لئے؟؟؟ یا صرف اور صرف الله کی رضا کے لئے؟

پھر زندگی میں آس پاس بہت مائیں دیکھیں- سب کی سب اپنی اولاد کو چاہنے والی، اولاد کے لئے زندہ رہنے والی اور اولاد کے لئے تکلیفیں اٹھانے والی- بلکہ کبھی تو اپنی اولاد کے لئے دوسروں کو تکلیفیں دینے والی اور دوسروں کی زندگیاں برباد کرنے والی- 

 اور پھر ایک دفعہ ایک فوجی کی ماں سے بھی ملاقات ہوئی- بیٹا اپنی چھوٹی سی بچی کو چھوڑ کر لاکھوں بچوں کی سلامتی کے لئے بلوچستان میں پاکستان کی بقاء جنگ لڑ رہا تھا- اور ماں نے یہ دعا مانگنے کے  بجاۓ کہ میرا بیٹا جلد مجھ سے ملے، اسے زندگی کی خوشیاں ملیں، اسے لمبی زندگی ملے- صرف یہ کہا کہ خدا اسے اس کے مقصد میں کامیاب کرے-  کسی بھی انسان کے فوج میں جانے کا، اسلحہ ہاتھ میں لینے کا، دشمن کے خلاف محاذ پر ڈٹنے کا کیا مقصد ہو سکتا ہے- 

مجھے وہ ماں سے زیادہ صحابیہ نظر آئیں- کیونکہ بیٹوں کو خون میں نہایا سوچنے کی ہمت ان ہی میں ہو سکتی ہے- 

اپنی امی کو ہم بہن بھائیوں نے حضرت ہاجرہ کی طرح ذرا ذرا سی تکلیف پر بے چین ہوتے دیکھا- لیکن اپنی زندگی کی جدو جہد کے ساتھ ساتھ دوسرے انسانوں کے ساتھہ بھلائی کرتے بھی دیکھا- 

اور ان سب کے بعد میں اپنے آپ کو دیکھتی ہوں- اپنی اکلوتی بیٹی کو میں اسی طرح چاہتی ہوں جیسے کوئی اپنے بیٹے کو یا وہ خود اپنے بیٹے کو-  

اس بحث سے الگ کہ فوج کے جرنیلز کا پاکستان کی سیاست اور پاکستان کی بقاء میں کیا کردار رہا ہے- اور ذاتی زندگی میں ان کی کیا مصروفیات ہوتی ہیں-  میں ان سپاہیوں کی ماؤں کو دیکھتی ہوں جو عام ماؤں سے کس قدر مختلف ہیں- ان کا اپنے بیٹوں کو فوج میں بھیجنے کا کیا مقصد ہو سکتا ہے؟  شہرت، دولت، حکومت، تعریفیں، ایوارڈز یا پھر پاکستان کی سلامتی کے لئے بیٹے قربان کردینے کا جذبہ؟ اور پاکستان کی سلامتی کس کے لئے؟ اپنی ذات اور اپنے خاندان کے لئے یا پھر کروڑوں خاندانوں کی آزادی اور دشمنوں سے حفاظت کے لئے؟ کیا ملتا ہے انھیں پاکستان کے لئے اپنے بیٹے ذبح کر وا کے-  

اور میں نے آسمان کی طرف منہ کر کے کہا کہ یا الله اگر آپ نے اپنے علاوہ کسی اور کو سجدہ کرنے کا اختیار دیا ہوتا تو میں پاکستان کے فوجیوں کی ماؤں کو کر دیتی-  جن معلوم ہوتا ہے کہ ان کا بیٹا کن مشکلات سے گزرے گا، کیا کیا سختیاں برداشت کرے گا اور کتنے زخم اپنے جسم پر کھا کر پاکستان کی مٹی کا حق ادا کرے گا- اور یہ بھی جانتی ہیں کہ ان تمام صعوبتوں کے بعد اسے الزمات بھی لگیں گے، اس کی نیت پر بھی شک کیا جاۓ گا، اس کی تمام جدو جہد کو مٹی میں ملانے کی کوشش کی جاۓ گی- 

شاید ان کی ماؤں کا جذبہ اور دعائیں ہیں جن کی وجہ سے یہ چند لاکھ کی فوج اپنا خون بہا کر اٹھارہ کروڑ کی غفلتوں کے کفارے ادا کر رہی ہے-  

پاکستان کو میری جیسی نہیں بلکہ فوجیوں کی ماؤں جیسی ماؤں کی ضرورت ہے-  اور ان کا اجر صرف الله کے پاس ہے- کیونکہ شہادت کا رتبہ صرف الله ہی دیتا ہے اور صرف اسی کی رضا اور دین اور شعائر کے لئے جان دے کر ملتا ہے- خوش قسمتی سے پاکستان بھی الله کی نشانیوں میں سے ایک ہے- 

شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن 
نہ مال غنیمت، نہ کشور کشائی 

Tuesday, 14 January 2014

Words and Languages - الفاظ اور زبانیں

الفاظ اور زبانیں

 الفاظ اور زبانیں علم، احساسات اور خیالات کا ذریعہ اظہار ہیں-  تعلیم کی بات کرتے وقت کچھ باتیں سب کو ضرور مد نظر رکھنی چاہئیں 

١- حضرت آدم کی پیدائش سے لے کر آخری دن تک کی ساری زبانیں الله کی پیدا کی ہوئی ہیں- بہت سی زبانیں دنیا میں بولی جاتی ہونگی لیکن اب ان کا وجود نہیں- بہت سی جو اب بولی جاتی ہیں شاید پیچھے آنے والے دور میں ان کا وجود نہ رہے اور ان کی جگہ کچھ اور نئی زبانیں لے لیں-  کبھی یونانی اور لاطینی زبانیں علم کا ذریعہ تھیں آج ان زبانوں کے ترجمہ انگریزی میں کر کے تعلیم دی جاتی ہے کیونکہ کوئی ان زبانوں کو سیکھنے پر راضی نہیں-  شاید اس لئے کہ یہ دنیا کے معاملات میں اپنا اثر و رسوخ کھو چکی ہیں-  آسمانی کتابیں بھی مختلف زبانوں میں نازل ہوتی رہی ہیں-  لیکن چونکہ قرآن قیامت تک کے لئے ذریعہ ہدایت ہے اور عربی میں ہے اس لئے قرین قیاس یہ ہے کہ عربی زبان قیامت تک بولی جاۓ گی-  اردو میں پچھتر فیصد الفاظ کیونکہ عربی کے ہیں اس لئے اردو کے بارے میں بھی یہ خیال کیا جا سکتا ہے-  اردو زبان پاکستان کی قومی زبان ہے اور یہاں کی ستر فیصد آبادی جو دیہاتوں پر مشتمل ہے اپنی مادری زبان کے علاوہ اردو سے ہی وقف ہے لہذا اردو پر توجہ دینا پاکستان کی ستر فیصد آبادی کو زبان اور حق راۓ دہی دینے کے برابر ہے- اسکے علاوہ یہ تھوڑی بگڑی ہوئی صو رتوں میں جنوبی ایشیا کی زبان کی بھی کہلائی جا سکتی ہے- اردو زبان صحیح طرح سیکھنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے بیک وقت چار زبانوں کے الفاظ سیکھنے کو مل رہے ہوتے ہیں- یعنی عربی، فارسی، ترکی اور سنسکرت

٢- کوئی بھی زبان ترقی ہونے یا نہ ہونے کی سند نہیں ہوتی-  زبان کی ترویج کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ کتنے لوگ اسے بولتے ہیں اور وہ کس حد تک دنیا کے سماجی اور معاشی معاملات پر اثر انداز ہوتی ہے-  آج کل یہی بات انگریزی، عربی، ہسپانوی اور فارسی زبان کے لئے ہی نہیں بلکہ  اردو زبان کے لئے بھی کہی جا سکتی  ہے-  چائنیز حالانکہ سب سے زیادہ بولے جانے والی زبان ہے لیکن کم از کم آج کی تاریخ تک بھی یہ دنیا کے معاملات چلانے لے لئے استعمال نہیں کی جا رہی 

٣- ترقی کا دار و مدار کسی خاص زبان پر نہیں ہوتا- ترقی اگر اسکا نام ہے کہ نئی نئی ایجادات سے گھر بھر لیا جاۓ، معاشرے کے باقی افراد کے مقابلے پر بڑا گھر بنا لیا جاۓ، ان سے زیادہ مقدار میں اور جب دل چاہے جو کھا لیا جاۓ، ان سے زیادہ تعداد میں مہنگے کپڑے بنا لئے جائیں، زیادہ سے زیادہ سونا اور جواہرات اکٹھے کر لئے اور اتنا مال اور جائداد جمع کر لی جاۓ کہ اپنے خیال کے نسلیں بیٹھ کر کھائیں، اتنے اختیارات مل جائیں کہ لوگ ڈر کر عزت کریں یا خاموش ہو جائیں تو سو فیصد یقین کے ساتھ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ایسی ترقی کا کسی بھی خاص زبان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا- یہ حالات اور مواقع کے صحیح استعمال سے ملتی ہے یا پھر نری قسمت سے-  پاکستانی سیاستدان اس کی بہترین مثال ہیں-  نہ تعلیم، نہ تربیت، نہ شعور، نہ تہذیب، نہ کردار، نہ اخلاق، نہ خدا کی فرمانبرداری، نہ لوگوں کے حقوق کا پاس، نہ فرائض کا احساس، نہ آخرت کے احتساب کا خوف-  لیکن دولت، شہرت اور اختیارات کے مالک بن بیٹھے ہوتے ہیں
اگر ترقی دنیا کی طرز پر چل کر ہی دنیا میں کچھ کر دکھا کر دنیا سے ایوارڈ لینے کا نام ہے تو بھی اس کے لئے کسی خاص زبان کا جاننا ضروری نہیں- جن جن کو جس وجہ سے ایوارڈز ملے ہیں ان کی مادری زبانیں کیا تھیں 

لیکن اگر ترقی اسے کہتے ہیں کسی فرد یا افراد کے خیالات، نظریات، تحقیقات اور کام کس حد تک دنیا کے لوگوں کی سوچوں پر اثر انداز ہوتے ہیں اور لوگ ان کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں کسی تو اس کے لئے بھی زبان کی قید نہیں- یہ کام کسی زبان میں کیا جاۓ لوگ اس کی طرف لپکتے ہیں- اس کے دولت، شہرت اور اختیارات بھی شرط نہیں
محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم کی زبان کیا تھی اور وہ کس حد تک عربوں اور باقی دنیا کے درمیان رابطے کا ذریعہ تھی؟ عربی سائنسدانوں کو سائنس کے علم کے لئے بنیاد کہاں سے ملی؟  علامہ اقبال کی شاعری پر ایران، جرمنی اور مصر میں کس زبان میں تحقیق ہورہی ہے اور کیوں؟

البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ترقی کے دو معیار ہوتے ہیں ایک عام عوام کے لئے جو ایک خاص ذہنی سطح سے زیادہ سوچ نہیں پاتی اور اس کے نزدیک ترقی عام لوگوں میں شہرت، عام لوگوں کی تعریف، عام لوگوں کے آگے پیچھے پھرنے، با اختیار لوگوں سے چاہے وہ کتنے ہی بڑے قوم کے مجرم اور کتنے ہی بے کردار ہوں ایوارڈز لینے اور دولت جمع کرنے کا نام ہوتا ہے- انکی زندگی  انسانوں کی پسند نا پسند کے گرد گھومتی ہے 
دوسرا معیار ان لوگوں کے لئے جن کی زندگی کے مقاصد کا عام لوگوں کی پسند نا پسند سے کوئی تعلق نہیں ہوتا انھیں اپنا کام کرنا ہوتا ہے



تعلیمی نظام 

نظام بنیادی طور پر کچھ اصول اور طریقہ کار کا مجموعہ ہوتا ہے جس کا کل مقصود کسی مقصد یا مقاصد کا حصول ہو-  اور یہ چند کرداروں، ان کرداروں کے وضع کے گۓ اصولوں اور ان اصولوں کے چلنے کے لئے بناۓ گۓ طریقوں میں ربط کا نام ہے-  نظام کبھی ایک شخص کے تابع نہیں ہوتا-  اور اگر ہو تو وہ نظام نہیں کہلاتا بلکہ آمریت کہلاتی ہے-  یہاں تک کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی قائم کی گئی خلافت بھی آمریت نہیں بلکہ ایک نظام تھا

تعلیمی نظام بھی والدین، اساتذہ، طلبہ اور اسکول انتظامیہ کے گرد گھومتا ہے- جس میں مقصود طلبہ کی تربیت ہوتی ہے- ذریعہ تعلیم زبان یا زبانیں ہوتی ہیں- اور کتابیں، کاپیاں، چارٹس اور اثاثے یعنی کرسیاں میزیں بورڈز وغیرہ وسائل ہوتے ہیں

ملک بھر میں تعلیمی نصاب کے تبدیل ہونے  کی باتیں ہو رہی ہیں-  کہیں اقدامات کی تعریف اور کہیں اعتراضات- بچوں کی درسگاہیں تجربہ گاہیں بن گئیں ہیں-  وہ بڑے جو اسی تباہ شدہ نظام میں پڑھ لکھ کر بڑے ہوۓ اور کہیں نہ کہیں ملازم ہوۓ  یا کاروبار کر لیا یا سیاستدان بن گۓ، اپنے اپنے طور پر اصلاح کے نام پر تعلیمی نظام کی بہتری کی بات کرتے رہتے ہیں-  اور تقریبا ننانوے فیصد کا اثرو رسوخ مغربی دنیا کی طرف سے ہے

اس نظام کو تباہ شدہ کہنے کی وجوہات بہت عام ہیں
١- پہلی تو یہ کہ اس سے کوئی عملی بہتری کے نتائج سامنے نہیں آۓ- جہاں لوگ بی اے، ماسٹر اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں لے کر رہتے ہیں ان محلوں اور علاقوں کا حال بھی اتنا ہی برا ہے جتنا کسی پسماندہ علاقے کا-  اور بی اے، ماسٹر اور پی ایچ ڈی کرنے والے لوگ بھی پاکستان، پاکستان کی بنیاد اور پاکستان کی بہتری سے اتنے ہی غافل اور بیزار ہیں جتنے کہ غیر پڑھے لکھے،غیر تعلیم یافتہ اور بے شعور لوگ- نظام اسے پھر بھی کہیں گے کیونکہ بہرحال ایک منفی کرداروں کا مجموعہ تو اس نظام سے پروان چڑھ ہی رہا ہے

٢- دوسری وجہ اس نظام کو بہتر بنانے میں کہیں بھی با شعور لوگوں کی کوشش نظر نہیں آتی-  باشعور لوگ وہ جن کی سوچ کا محور اسکولوں کو دولت، شہرت اور سیاست کا ذریعہ بنانا نہیں بلکہ ایک نسل کو صحیح سوچ اور اعلی قدروں کے ساتھ پروان چڑھانا ہو اور وہ اپنا وقت اور وسائل اس پر صرف کریں

٣- تیسری وجہ اس نظام کی روح یعنی اساتذہ کا ذہنی اور علمی معیار ہے- اسلامیات پڑھانے والے اساتذہ کا عربی تلفظ درست نہیں، اسلامی معلومات ناکافی، اسلام پر کوئی تحقیق نہیں-  باقی مضامین پڑھانے والوں کا بھی یہی حال ہے

٤- چوتھی وجہ نصابی کتب ہیں جن کا کوئی سر پیر نہیں- کچھ موضوعات پہلی سے دسویں تک پڑھاۓ جاتے ہیں اور کچھ مشقیں پہلی سے دسویں تک کرائی جاتی ہیں لیکن لاحاصل- نہ کلاس ورک کا طریقه نہ ہوم ورک کا- اساتذہ اور والدین دونوں اسکول ایڈمنسٹریشنز اور حکومت کو ذمہ دار ٹھراتے ہیں-  اور حکومت صرف اور صرف نااہلوں، مجرموں اور جاہلوں کی بھیڑ بھاڑ ہے-  لہذا اس سے کوئی توقع ہی بے کار ہے

٥- پانچویں وجہ درآمد شدہ سلیبس- پاکستان میں کورس کی کتابوں کے نام پر سب سے زیادہ پاکستانیوں کی کمائی آکسفورڈ والوں نے لوٹی یعنی برٹش راج ابھی تک جاری ہے- ٹیکس کی صورت میں نہ سہی، تو اس سے بھی زیادہ بری صورت میں- کوئی پوچھنے والا نہیں کیونکہ سیاستدانوں کے نام پر بٹھاۓ گۓ جاہل غلاموں اور پاکستان کے مجرموں کی مرضی شامل ہے-  اور یقینا یہ غلامان اپنا حصہ کسی نہ کسی صورت وصول کرتے ہی ہونگے

٦- چھٹی وجہ سرکاری اسکولوں کی تباہی اور غیر سرکاری اسکولوں کا فروغ- غیر سرکاری اسکولوں کے خاکہ نصاب کی وجہ سے ہوم ٹیوشنز کا رواج کو عام تو ہوا ہی لیکن ظلم یہ ہوا کہ بچوں کے تعلیمی اوقات بڑھ کر بارہ بارہ گھنٹے تک جا پہنچے-  ایک بچہ جو صبح چھ سات بجے نماز کے لئے تو نہیں اٹھایا جاتا لیکن اسکول کی بس کا انتظار کرنے کے لئے سردی، گرمی، برسات میں کھڑا ہوتا ہے- جس کو پانی کا گلاس اور کھانے کی پلیٹ تو اپنی جگہ رکھنے کی تربیت نہیں دی جاتی لیکن روزانہ وہ کمر پر پانچ سے دس کلو کتابوں کا وزن ڈھوتا ہے-  چھہ بجے کا اٹھا ہوا بچہ ڈھائی تین بجے تک گھر پہنچتا ہے یعنی نو گھنٹے کی مزدوری-  پھر دو ڈھائی گھنٹے کا ٹیوشن اور پھر آدھے گھنٹے کے لئے مولوی صاحب کے حوالے

٧- ساتویں اور سب سے اہم وجہ اس سارے قصے میں بچوں کو نظر انداز کیا جانا- اور اس میں قصور اس غلامانہ سوچ اور تحکمانہ مزاج کا ہے جو پاکستان کے لوگوں کی پہچان بن چکا ہے-  لوگ اس سے زیادہ سوچ نہیں پاتے کہ اسکول نہ ہوں تو علم بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا اور انگریزی بولے بغیر ترقی (جو الله جانے کس خلائی مخلوق کے نام ہے اور پتہ نہیں اسکی حدود کیا ہیں) نہیں ہو سکتی بلکہ ترقی تو کیا ایک دوسرے کو عزت بھی نہیں دی جاسکتی-  لوگوں کو یہ احساس نہیں کہ ان کا اپنا کردار اور گھر کا ماحول بھی تعلیمی نظام کا حصہ ہے-  لوگوں میں یہ شعور نہیں کہ چوبیس گھنٹے کے تعلیمی نظام میں اسکول کا حصہ صرف اور صرف چار گھنٹے ہونا چاہیےجس میں بچے خاص طور پر ابتدائی جماعتوں میں صرف پڑھنا لکھنا اور حساب کتاب سیکھ سکیں - اور شاید ایک گھنٹہ ہوم ورک یعنی گھر کے کام کا کہ دہرائی ہو جاۓ-  باقی انیس گھنٹوں میں سے کم از کم آٹھہ نو گھنٹے سونے کے لئے ہوں اور باقی سیر سپاٹے، کھیل کود اور براہ راست عبادتوں کے لئے

تعلیم اگر سیکھنے کے ذہنی، جسمانی اور روحانی عمل کو کہتے ہیں تو صرف اسکول اور مدارس یہ تمام ضروریات پوری نہیں کرسکتے- بلکہ اس کے لئے پورا ماحول تبدیل کرنا پڑتا ہے-  اسکول تو صرف اور صرف خواندگی میں اضافہ کرسکتے ہیں-  اور انھیں اسی مقصد کے لئے استعمال بھی ہونا چاہیے-  جسمانی نشو و نما کے لئے کھیل کے میدان ہوتے ہیں جبکہ روحانی پرورش کا تعلق صرف مسجد سے ہی نہیں بلکہ سورج چاند ستاروں پر غور، باغات کی سیر، پرندوں اور جانوروں کی دیکھ بھال، صاف ستھری سڑکوں اور گلیوں، مکتبات (لائبریریز) اور لوگوں کے ایکدوسرے کے ساتھ تعلقات اور معاملات سے ہوتا ہے

پاکستان میں تعلیمی نظام کا مطلب ہے 'قومی تعلیمی نظام' یعنی ایسا نصاب جو ہر قومیت ، ہر صوبے اور ہر فرقے میں خواندگی کے تقاضوں کو پورا کر سکے-  اور خاکہ نصاب وضع کرتے بڑوں کی پسند ناپسند سے زیادہ بچوں کی عمر اور دلچسپی کو مد نظر رکھا گیا ہو- اور اگر ابتدائی تعلیم پر توجہ اور عقلمندی کے ساتھ کام کیا جاۓ تو بعد کی تعلیم کسی کے لئے کوئی مسلہ نہ ہو


تعلیمی نصاب 

جس طرح چہرے بدلنے سے نظام نہیں بدلتا بلکہ اس سے بھی بدتر ہو جاتا ہے- اسی طرح کورس بدلنے سے تعلیمی نظام بہتر نہیں ہوتا بلکہ اور بدتر ہو جاتا ہے-  ابتدائی درجات کی تعلیم کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی سی ہے- دس سال تک کی عمر کے بچوں کو اعلی تعلیم کے نام پر گدھا بنا دینا، ان سے مشکل مشکل تعریفیں، بڑے بڑے مضامین رٹوا کر لوگوں کی تعریفیں سمیٹنے کا عادی بنا دینا صرف ظلم ہی نہیں بلکہ ایک غیر قدرتی عمل ہے جس کا نتیجہ کم از کم ذہنی نشو نما کی صورت میں نہیں نکلتا-  تعلیمی نظام بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک ایسا ماحول پیدا کیا جاۓ جو طلبہ اور اساتذہ دونوں کے لئے تکلیف اور بوجھ کا باعث نہ ہو- اساتذہ کو تنخواہ دینے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ گدھوں کی طرح کام کریں-  چار گھنٹے کے اسکول کا مطلب اساتذہ کے لئے چھہ گھنٹے- یعنی بچوں کے جانے کے بعد وہ اسکول ہی میں بیٹھہ کر کلاس کا کام، گھر کا کام چیک کر سکتے ہیں اور روزانہ کی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے بولنے، لکھنے پڑھنے کی مشق (گرومنگ)- آنے جانے کا وقت ملا کر یہ آٹھہ گھنٹے بن جاتے ہیں جو کہ بڑوں کے کام کرنے کے لئے کافی ہیں-  اساتذہ کو اتنا کام دے دینا کہ انھیں گھر لے جا کر کرنا پڑے درست نہیں-  بلکہ ناانصافی اور ظلم ہے-  ان پر ان کے گھر والوں کا  بھی حق ہوتا ہے

١- کم از کم تیسری جماعت تک مضامین کی تعداد کم سے کم کردی جاۓ یعنی اردو پڑھائی اور اردو لکھائی ، انگریزی پڑھائی اور انگریزی لکھائی ، ریاضی، مصوری - یعنی کہ روزانہ چھ فصلیں

٢- کورس کی کتابوں کے بجاۓ ہر کلاس میں اس درجہ کے مطابق مختلف موضوعات پر کتابیں رکھی جائیں اور ان کو پڑھایا جاۓ-  نہ تو بچوں کو انہیں روز کمر پہ لاد کر گھر لے جانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی والدین کو انکو خریدنے کے لئے کچھ خرچ کرنے کی ضرورت- البتہ والدین سے کچھ رقم سالانہ لی جا سکتی ہے ان کتابوں کو استعمال کرنے کی- یہ کتابیں معلومات عامہ، سائنس، معاشرتی علوم، جغرافیہ اور دوسرے مضامین کے تعارف کے لئے کافی ہوں گی-  تیسری جماعت تک کے بچوں کو مضامین کی گروہ بندی میں الجھانے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی یہ ان کی عمر کا تقاضہ ہو تا ہے

٣- ہر فصل یا کلاس کا دورانیہ تیس چالیس منٹ سے زیادہ نہ ہو- اور باقی وقت عملی سرگرمیوں کے لئے

٤- اسکول کا دورانیہ بھی چار گھنٹے سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے-  بچے کے آنے جانے اور تیاری ملا کے یہ ویسے ہی چھ گھنٹے بن جاتے ہیں جو کہ اس عمر کے بچے کے لئے ذہنی اور جسمانی لحاظ سے تھکا دینے والا معمول ہے

٥- ہوم ورک صرف اتنا ہو کہ بچے کو ٹیوشنز کی ضرورت نہ پڑے اور وجہ خود کر سکے

٦- لکھائی سکھانے کے لئے ترتیب وار طریقوں سے لکھنا سکھایا جاۓ- اور لازمی طور پر ایک سالانہ ہدف بنا کر اسے ماہانہ اور ہفتہ وار تقسیم کر دیا جاۓ تاکہ بچوں اور اساتذہ دونوں کے لئے آسانی ہو-  لکھائی حروف سے شروع ہوتی ہے اور پھر الفاظ، مرکبات، آسان جملے، مرکب جملے، ایک جملے کے جوابات، کسی شے، جگہ یا شخص کی تفصیل کے بعد کہیں جا کر مضمون نگاری، خطوط نگاری وغیرہ تک پہنچتی ہے

٧- ہر فصل یا کلاسوں میں دیواریں سادہ رکھی جائیں اور ان پر تصویریں اور کسی قسم کے چارٹ لگانے سے گریز کیا جاۓ- اور کلاس کی ترتیب اس طرح کی ہو کہ بچے چیزیں لے کر واپس بھی رکھیں

٩- کم از کم پہلی جماعت کے طلبہ کے امتحانات وغیرہ نہیں ہونے چاہئیں-  ان کی جانچ پڑتال کے لئے انکے روزانہ کے کام ہی کافی ہوتے ہیں- انھیں فرسٹ سیکنڈ کے چکروں میں لگا کر ان کی بنتی ہوئی شخصیت کو بگاڑنا نہیں چاہیے



تعلیمی نصاب میں تبدیلیاں 

ابتدائی جماعتوں کے بچوں کی عمر سات آٹھ سال تک ہوتی ہے-  اس عمر میں بچوں سے کوئی توقع نہیں رکھنی چاہیے کیونکہ وہ تو ابھی آس پاس کے ماحول سے سیکھنے کے مراحل سے گزر رہے ہوتے ہیں-  انکے اس قدرتی عمل کو جاری رہنا چاہیے-  اور اس میں بہتری کے امکانات صرف اور صرف اس طرح پیدا کے جا سکتے ہیں کہ بڑے اپنا رویہ اور اپنی سوچ درست کر لیں-  حال ہی میں نصاب کی تبدیلی کے حوالے جو اعتراضات کے جارہے ہیں وہ کس حد تک صحیح یا غلط ہیں یہ بھی جذبات سے نہیں بلکہ عقل سے کام لیتے ہوۓ سوچنا چاہیے

١- پہلا اعتراض جو کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ بچوں کو بے دین بنایا جا رہا ہے-  کن کے بچوں کو بے دین بنایا جا رہا ہے- ان مسلمانوں کے جو اپنا سارا وقت ٹی وی اور بھارتی فلموں کو دیکھنے میں گزارتے ہیں- جنھیں مسلمان ملکوں کے نام اور حالات سے دلچسپی نہیں- جنھیں اپنی تاریخ پڑھنے کی فرصت نہیں-  جنھیں یہ بات بھی کہ انکے بچوں کو بے دین بنایا جا رہا ہے اس وقت پتا چلتی ہے جب کوئی شورشرابا ہو اور مہم چلائی جاۓ-  جنکے لئے ستارے صحابہ اکرام نہیں جیسا کہ رسول صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا, بلکہ اداکار،  گلوکار یا کھلاڑی ہوتے ہیں-  تو جن کے والدین کی زندگی اس رنگ ڈھنگ کی ہو انکے بچوں کو بے دین بنا کر بھلا کون بدنام ہو گا-  اور جو مضامین اسلامی یا پاکستانی نکالے گۓ یا نکالے جا رہے ہیں ان سے میں کوئی بھی مضمون ان والدین کی دلچسپی کا نہیں

٢- دوسرا اعتراض یہ  ہے کہ انگریزی کے ذریعے مغربی ثقافت لائی جارہی ہے-  تو یہ کام تو بہت پہلے میڈیا کر چکا ہے-  والدین تو خود یہ چاہتے ہیں کہ پڑھ لکھ لے تو بچہ مغربی ممالک جاۓ-  ظاہر وہ تبلیغ کے لئے تو اسے وہاں نہیں بھیجنا چاہتے-  رہی بات زبان کی تو انگریزی زبان سیکھنے میں کوئی برائی نہیں اور نہ ہی اس کو سیکھ کر دولت کمانے میں- مغربی ثقافت زبان سے نہیں ان اقدار کو اپنانے سے آتی ہے- مغربی ثقافت اور لا دینیت سے بچانا چاہتے ہیں تو حکومت پر زور ڈالیں کہ ہارون  یحییٰ کی کتابیں لائیں ترکی سے- جس طرح ترکی کے ڈرامے لاۓ ہیں- ڈاکٹر عبد السلام کی نہ سمجھ میں آنے والی تھیوری پر تو سبق شامل کردیا کتابوں میں- اب یہ بھی کر لیں-  سالوں سے وہ ڈارون کے نظریے کے خلاف دلیلیں لا رہے ہیں


 کیا ہی اچھا ہو کہ اگر ابتدائی جماعتوں یعنی کم از کم تیسری جماعت تک کے اسکولوں کو صرف اور صرف خواندگی بڑھانے کے لئے استعمال کیا جاۓ  اور دین اور مغربی ثقافت کی بحث کو ان جماعتوں سے  رکھا جاۓ کیونکہ اس عمر کے بچے کتابوں سے زیادہ ماحول سے سیکھتے ہیں اور آس پاس کے عملی مظاہروں کو اپناتے اور ذہن نشین کرتے ہیں-  نہ صرف یہ بلکہ انکے پڑھنے لکھنے کی بے پناہ صلاحیتوں کو بھی ایک محدود سلیبس دے کر ختم نہ کیا جاۓ- اور خواہ مخواہ کے ماہانہ اور سالانہ امتحانات میں انکا وقت نہ ضایع کیا جاۓ - جہاں تک دین اور مغربی ثقافت کا مسلہ ہے تو اسے اسکولوں کے باہر کا ماحول تبدیل کر کے حل کیا جاۓ


Prophet Muhammad (peace and blessings be upon him)

صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
صلی الله علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم 








Tuesday, 24 December 2013

Prayer is Blessing

O my Lord!
You found me lost and guided me,
You found me hopeless and strengthened my heart,
Thank you for the life You have given me,
please make it worth living,
as it pleases You,
help me establish salah,
help me pay zakah,
help me observe fasting in Ramadan,
help me perform Hajj,
help me accomplish that tasks I have taken the stand for,
help me as I can't stand humiliations any more,
I don't want to be among the losers on the Day of Judgment.
AMEEN

Tuesday, 13 August 2013

14th August, 1947

Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen
Ya Allah (SWT)! Please protect Pakistan from all evils.  Ameen