Saturday 8 March 2014

امن کی راہ



کوئی دس پندرہ دن  پہلے کی بات ہے کہ ایک جگہ چند خواتین کی بیٹھک میں شامل ہونے کا اتفاق ہوا- تقریبا سب ہی دینی مزاج کی خواتین تھیں-  باتوں باتوں میں یہ بات نکل آئی کہ آج کل لوگ اصل دین سے بے بہرہ ہیں اس لئے پریشان رہتے ہیں- اور یہ کہ ہمیں صحیح دینی لوگوں کی صحبت میں رہنا چاہیے- میں نے ان سے کہا کہ میرا خیال ہے کہ سب سے ملنا چاہیے اسلئے کہ ہر جگہ سے کوئی نہ کوئی اچھی بات سننے کو مل جاتی ہے- کہیں جانے یا کسی سے ملنے سے ایمان نہیں بگڑتا- تو مجھ سے پوچھا کہ میرا مسلک کیا ہے-  میں نے کہا میں صرف مسلمان ہوں اور میرا مسلک اسلام ہے- اس پر ذرا سا سخت رد عمل آیا کہ اس طرح تو آپ انکے اعمال میں شامل ہو جاتی ہیں جبکہ ہمیں الله اور اسکے رسول کی بات ماننے والوں کے ساتھ رہنا چاہیے- یقینا ان میں سے کسی کی نیّت بری نہیں تھی اور ان کا ارادہ بھلائی کا ہی تھا- میں نے جوابا کہا کہ دیکھیں اگر لوگوں سے ملیں گے نہیں تو دنیا کیسے چلے گی اور ضروری نہیں کہ ہم کسی سے مل کر بری بات سیکھیں، ہو سکتا ہے کوئی ہم سے اچھی بات سیکھ لے-  جس پر ایک خاتون نے مجھ سے کہا کہ آپ  اپنا عقیدہ درست کرلیں آپ کی ساری پریشانیاں ختم ہو جائیں گی- اور میں سوچتی رہ گئی کہ سب سے درست عقیدہ تو انبیاء کرام کا تھا- لیکن ان جیسی تکالیف خدا کسی کو نہ دکھاۓ- 

بعد میں مجھے یہ خیال آیا کہ صرف طالبان ہی نہیں- ہم سب ہی اپنی اپنی جگہ اپنی مرضی کا نفاذ شریعت کرتے رہتے ہیں-  طالبان تو صرف علامت کے طور پر سامنے آۓ ہیں- شاید یہ دکھانے کہ طالبان کا جو کام ہمیں اذیّت دے رہا ہے اور سب کے لئے پریشانی کا باعث بن گیا ہے وہ کام ہم سب ہی کسی نہ کسی سطح پر کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کے لئے تکلیف کا باعث بنے ہوۓ ہیں-  بالکل اسی طرح جیسے سیاستدان ہماری بد عنوانیوں کی علامت بن کر دنیا میں ہماری نمائندگی کر رہے ہیں-   


پھر ابھی دو تین دن پہلے حاشر آتے ہی بولا کہ باجی آپکو پتہ ہے ایف ایٹ میں پولیس والوں پر حملہ ہوا ہے- میں نے کہا کس نے کیا تو کہنے لگا دو بندے بم باندھ کر آۓ تھےانہوں نے خود کو بھی مار لیا اور پولیس والوں کو بھی اڑادیا -  میں نے پھر سوال کیا کہ لیکن انہوں نے ایسا کیوں کیا- تو حاشر کہتا ہے کہ  اسلئے کہ پولیس بھی تو ان پر حملے کرتے اور بم پھاڑتے ہیں-  میں نے اس سے کہا کہ آپ کے خیال میں پولیس نے اگر کسی پر حملہ کیا یا مارا تو اس کی وجہ کیا ہوگی اور آپ کے خیال میں پولیس کو کیا تھانوں میں ہاتھ پر ہاتھ رکھہ کر بیٹھہ جانا چاہیے-  ہمایوں نے میری ہاں میں ہاں ملائی کہ حاشر پولیس برے بندوں کو مارتے ہیں ہماری حفاظت کے لئے- 


ایک دس گیارہ سال کے بچے کے منہ سے یہ جواب سن کر مجھے حیرت بھی ہوئی اور خوف بھی آیا کہ نہ جانے کتنے لوگ اس طرح سوچتے ہونگے- اس نے پولیس پر حملہ کرنے والوں کے لئے دہشت گردوں کا لفظ بھی نہیں استعمال کیا اور نہ ہی یہ سمجھا کہ ان دونوں نے خودکشی کی -بلکہ اس کے لہجے میں ایک تھرل تھی-بالکل جیسے فلموں میں ہیرو جس کو چاھتا ہے مارتا پھرتا ہے اور لوگ ہمیشہ اس کے لئے تالیاں بجاتے ہیں اور اسی کو حق پر سمجھتے ہیں-   

اور اسی ہفتے کی بات ہے کہ ہماری بلڈنگ کی پڑوسن جو کہ بیوہ اور مطلقہ نہ ہونے کے باوجود ویسی ہی زندگی گذار رہی ہیں اور کافی سال پہلے کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوگئیں تھیں- کو انکی مالک مکان نے فلیٹ خالی کرنے کا نوٹس دے دیا-  ایک مہینے کا وقت دیا تھا-  انکو اس فلیٹ میں دو سال ہو گۓ - خیر میرے فلیٹ کا جو ایجنٹ ہے اسی نے انکو ہمارے ہی کا مپاؤنڈ میں دو دن پہلے ایک فلیٹ دلوا دیا-  اور وہ دو دن سے سامان ادھر سے ادھر لے جانے میں مصروف ہیں-  انکے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں- شوہر نے ہمیشہ ساتھہ رہنے کی شرط یہ رکھی کہ نہ تو میں خرچہ دونگا اور نہ ہی کوئی ذمہ داری اٹھاؤنگا-  اور اگر میرا پورا نہ ہوا تو وہ بھی تجھی کو پورا کرنا پڑے گا- اور کردار کے الزامات الگ- لہٰذا ان خاتون نے شوہر کو تو گھر سے نکالا اور خود محنت کر کے چاروں بچے پالے-  یہاں تک کے اسلام آباد میں شرعی نقاب کرتے ہوۓ پبلک ٹرانسپورٹ بھی چلائی- اسلام آباد کے بہت سے ڈرائیور انھیں جانتے بھی ہیں اور انکی کردار کی تعریف بھی کرتے ہیں-  بہت اچھی ڈرائیونگ کرتی ہیں اور ایک ڈرائیونگ انسٹیٹوٹ میں ملازم ہیں-  

آج میں ان سے بات کرنے گئی تو وہ کافی اپ سیٹ تھیں- انکی مالک مکان جو کہ بہت دینی ہیں، نے مکان کراۓ پر دیتے وقت وعدہ کیا تھا بڑی بڑی باتیں کی تھیں کہ آپ میری بہنوں کی طرح ہیں- جب تک چاہیں رہیں- ہمیں تو بس شریف لوگ چاہیے وغیرہ وغیرہ- اس وقت انھیں یہ معلوم نہ تھا کہ دو سال میں مکان کے کراۓ اتنے بڑھ جائیں گے- اور قانون کے مطابق تو کرایہ دو تین فیصد بڑھتا ہے سال میں-  ایک مہینے پہلے انہوں نے کہا کہ گھر خالی کردیں کیونکہ ہمیں بیچنا ہے کہیں چھ سات لاکھ روپے دینے ہیں اور بھی مجبوریاں ہیں وغیرہ وغیرہ-  اور کل ہماری پڑوسن کو پتہ چلا کہ ان سے مکان خالی کرواکے انہی کی ایک سٹوڈنٹ کو کافی زیادہ کراۓ پر دے دیا ہے- وہ اسے ڈرائیونگ سکھا رہی تھیں تو اس نے بتایا کہ اسے ہماری بلڈنگ میں فلیٹ مل گیا ہے اور اسی مہینے شفٹ ہونا ہے- ہماری پڑوسن نے ایڈریس پوچھا تو وہ انہی کے گھر کا تھا- میں نے اپنے ایجنٹ سے پوچھا تو کہنے لگا "میم ٹھیک تو ہے، یہ کیا کہ ایک گھر میں رہے چلے جائیں سالوں- ہمارا دل تو چاہتا ہے کہ کراۓ دار چھ مہینے میں مکان خالی کردے- تاکہ ہمارا کمیشن بنے-  میں نے کہا بھائی یہ چار دن کی زندگی ہے اور پھر قبر، جہاں بڑی کٹ لگنی ہے - تو بولا جب کی جب دیکھی جاۓ گی-  

اور اس پر تماشہ یہ کہ سب امن کی آس لگاۓ بیٹھے ہیں- سب خود کو معصوم اور جنّتی بھی سمجھ رہے ہیں- 

امن کی تعریف کیا ہے؟  جب ہم کسی ملک یا علاقے یا قوم یا فرد کو پر امن کہتے ہیں تو اس سے ہماری کیا مراد ہوتی ہے؟  

امن کو جنگ یا فساد کی ضد کہا جاتا ہے- اس لحاظ سے امن کا مطلب ہوا جنگ اور لڑائیوں کا نہ ہونا-  اور تمام معاملات کو کسی جبر، تشدّد اور خون خرابہ کے بغیر چلانا- جو کہ حکومتوں اور امن نافذ کرنے والوں اداروں کی ذمہ داری ہے- 

عام گفتگو میں اکثر سننے میں آتا ہے کہ "فلاں بچہ اتنا پر سکون ہے کونے میں بیٹھا اپنی چیزوں سے کھیلتا رہتا ہے نہ ضد کرتا ہے نہ روتا چلّاتا ہے اور نہ ہی چیزیں توڑ پھوڑ کرتا ہے-"  یا پھر یہ کہ "مغربی ممالک بہت پر امن ہیں- وہاں سب اپنے کام سے کام رکھتے ہیں- کوئی روک ٹوک نہیں- کوئی دوسروں کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتا-" یا پھر یہ کہ "فلاں شخص بہت پرسکون ہے- کسی سے کچھ لینا دینا نہیں- بس اپنے میں مگن-"  گویا عام حالات میں لوگوں کا اپنے کام سے کام رکھنا اور دوسروں کے معاملات میں مداخلت نہ کرنا امن اور سکون کی علامت ہے-  اور امن کی اس تعریف کا تعلق لوگوں کے ایکدوسرے کے ساتھہ برتاؤ اور رویے سے ہے- 

ان دونوں تعریفوں کے لحاظ سے امن کا نفاذ کوئی اتنا مشکل کام نہیں ہے- 

لیکن جب حکومتیں جہلاء اور امراء کے ہاتھہ میں چلی جائیں امن نافذ کرنے والے ادارے ان کے زیر اثر ہوں تو ملک میں لوٹ مار اور افراتفری مچنا کوئی انوکھی بات نہیں-  اور ان حالات میں جب عوام ایک طرف تو حکومتی اقدامات پر تکیہ کر کے بیٹھہ جائیں اور مختلف ادوار میں مختلف سیاست دانوں کے ہاتھوں ناچتے ہیں اور دوسری طرف زندگی کے ہر شعبے میں قانون کو ہاتھہ میں لینا اور عدالتوں کے بجاۓ خود جزا اور سزا کے فیصلے صادر کرنا اپنا حق سمجھنے لگیں تو یہ کہلاتا ہے آج کا پاکستان- 

آج پاکستان کی جو حالت ہے اس میں قصور عوام کا ہے - اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاست، حکومت، پولیس یا جو بھی شعبہ ہاۓ زندگی ہیں ان میں کام کرنے والے اور اپنے اپنے اداروں کی نمائندگی کرنے والے آسمان سے نہیں اترتے بلکہ عوام میں سے ہی نکلتے ہیں اور منتخب کئے جاتے ہیں- عوام اپنی انفرادی حالت ، اپنے گھر کے ماحول اور اپنی اولادوں کی  تربیت سے اپنے مستقبل کا اندازہ لگا سکتے ہیں-  جس طرح کسی ایک گھر کی اولادوں کو ملک، قوم، اسلام اور نظریات سے دلچسپی نہیں اور اپنی زندگی کو خوشحال بنانے کے لئے وہ سب کچھ جائز سمجھتے ہیں- تو اس گھر کے لوگ کس طرح کسی دوسرے گھرانے سے توقع کر سکتے ہیں کہ وہاں سے ملک و قوم کا خیال رکھنے والے، ایماندار، مخلص اور ہمدرد پیدا ہونگے- یہی حال سب کا ہے-  وہ جو جھوٹے لائسنس بنواتے ہیں، جھوٹے پیدائش کے سرٹیفکیٹ بنواتے- زمینوں کے جھوٹے کاغذات بنواتے ہیں، جعلی ڈگریاں بنواتے ہیں- وہ بھی عوام میں سے ہوتے ہیں اور جن سے بنواۓ جاتے ہیں وہ بھی کسی گھر کے باپ، بھائی، بیٹے اور شوہر ہوتے ہیں- جھوٹے مقدّمات لڑنے والے، جھوٹی گواہیاں دینے والے، جعلی دوائیں بنانے اور بیچنے والے بھی عوام میں سے نکلے ہوۓ لوگ ہوتے ہیں- وہ مرد اور خواتین جو اسکولوں کے مالک، پرنسپل اور اساتذہ بن کر بچوں کے ذہن، جذبات اور مستقبل سے کھیلتے ہیں اپنے نام اور دولت کے لئے- وہ بھی عوام میں سے ہی ہوتے ہیں-  کتنی مائیں، بہنیں، بیٹیاں اور بیویاں ہیں جو اپنے لڑکوں اور مردوں کو گھر سے نکلتے وقت احساس دلاتی ہیں کہ انھیں حرام نہیں کمانا، باہر جو عورتیں ملیں انکو عزت دینی ہے اپنے گھر کی عورتوں کی طرح- کتنے لوگ اپنے ہی گھر والوں اور رشتہ داروں کی بد عنوانیوں پر انکی روک ٹوک کرتے ہیں، ان کا گریبان پکڑتے ہیں، ان سے حساب مانگتے ہیں-  سب کے سب جب ملک و قوم اور عدل و انصاف سے زیادہ اپنے خاندان اور رشتہ داروں سے اور اپنے مفادات سے وفادار ہوں تو ایسے معاشرے میں امن کی توقع کرنا فضول ہے- کیونکہ لوگ اپنی مجبوریوں کو جواز بنا کر بات ختم کر دیتے ہیں- ایسے معاشروں کا انجام وہی ہوتا ہے جو آج کل پاکستانیوں کا ہے- اور ایسے لوگ دنیا کے جس ملک میں جائیں سکون سے نہیں رہ پاتے-  کیونکہ انکے مفادات، خاندان اور رشتہ داریاں انھیں کسی نظام سے بھی وفادار نہیں رہنے دیتیں- 


ایسی عوام جو اپنی بد فعلیوں کے لئے اپنے محسن اور اپنے قائد کی آخری آرام گاہ کو بھی نہ بخشے-  ایسے لوگ جو پاکستان میں سر سے دوپٹہ اترنے پر فتوے صادر کریں لیکن جب مغربی ممالک کا ویزہ لگے تو وہاں کے زنا، شراب، سؤر، جوا،سود جیسے گلی گلی اور گھر گھر ہونے والے کبیرہ گناہوں کو ذاتی معاملہ قرار دے کر وہاں رہنے کے جواز پیش کریں- ایسے لوگ جنکے لئے پاکستان میں رہ کر اپنے فرقے کو حق اور دوسروں کو کافر سمجھنا ایمان ہو- لیکن جب مغربی ممالک میں رہیں تو یہودیوں، عیسائیوں اور ہندؤں کی حکومتوں کو اسلامی حکومتوں کے مقابلے پر حق پر سمجھیں-  وہاں پھر امن نہیں فساد ہی ہوتا ہے-  

چند ہزار نمائندوں پر مشتمل حکومت اور پولیس اٹھارہ کروڑ میں سے کس کس کو پکڑے، کس کس کو بند کرے اور کس کس کو سزا سناۓ- اور وہ بھی اس صورت میں جبکہ وہ خود نااہل اور بدعنوان ہوں- 

رسول الله صلی الله علیہ و آله وسلّم کی نبوت سے قبل عرب میں جو معاشرتی نظام قائم تھا اور آج پاکستان میں جو نظام قائم ہے اس میں کیا چیزیں مشترک ہیں-  

١- عرب خدا کے وجود سے منکر نہیں تھے اسی لئے انھیں مشرکین مکّہ کہا جاتا ہے- ہم بھی نہیں ہیں- وہ براہ راست خدا سے تعلق پر یقین نہیں رکھتے تھے- ہم بھی نہیں رکھتے بلکہ وسیلہ ڈھونڈتے ہیں- 

٢- عرب قبائل میں بٹے ہوۓ تھے، ہم بھی اپنے اپنے علاقوں میں بٹے ہوۓ ہیں- 

٣- عرب کے معاشرے میں طبقات تھے، ہمارے معاشرے میں بھی ہیں- 

٤- عرب اپنے خاندان اور نسل کو افضل سمجھتے تھے- ہم بھی یہی کرتے ہیں- 

٥- عربوں میں دولت اور اقتدار کو فضیلت حاصل تھی، ہم میں بھی یہی جذبہ ہے- 

٦- عربوں میں با حیثیت لوگ اپنی مجلسوں میں جو فیصلے کرتے تھے اسی کی افضل مانا جانا تھا- ہمارے ہاں بھی یہی ہوتا ہے- 

٧- عربوں میں با حیثیت لوگوں کو اقتدار دیا جاتا تھا- ہمارے ہاں بھی یہی ہوتا ہے- 

٨- عربوں میں نیکی کا تصوّر تھا اور وہ غریبوں کی مدد بھی کیا کرتے تھے - ہم بھی کرتے ہیں- انکی نیکی سے بھی کسی کا پیٹ تو بھر جاتا تھا لیکن کوئی مفلسی سے خوشحالی کی طرف نہیں آسکتا تھا- ہمارے ہاں بھی نتائج یہی ہیں-  

٩- عربوں میں با حیثیت لوگوں کا ایک الگ حلقہ ہوتا تھا اور باقی عام لوگوں کا الگ- ہمارے ہاں بھی یہی صورتحال ہے- 

١٠- عربوں میں با اثر خاندان سے تعلق رکھنے والیعورتوں کو عزت اور دل لبھانے والی عورتوں کو پروٹیکشن حاصل تھی- ہمارے ہاں بھی یہی رواج ہو گیا ہے-  عام لوگ اس وقت بھی بیٹی کو زندہ دفن کرتے تھا، ہم نے اس عمل کی مختلف شکلیں ایجاد کر لیں ہیں کیونکہ ہم ایک ترقی یافتہ دور میں ہیں- 

١١- عربوں میں مذھب اور سیاست جدا تھے- ہمارے ہاں بھی ہیں-  سیاست کا الگ زمانہ الیکشن اور مذہبی رسومات کے لئے الگ ہلے گلے- 

١٢- عربوں میں ہر قبیلے کا اپنا الگ جھنڈا تھا- ہمارے ہاں یہ تماشہ سیاسی اور دینی گروہوں کی صورت میں موجود ہے- 

١٣- عربوں میں عوام خواص سے  ٹکّر نہ لیتے بلکہ اپنی محفلوں میں ان کے قصّوں اور ان کے آپس کے تعلقات بیان کر کے محظوظ ہوتے- ہماری عوام بھی یہی کرتی ہے-  اب تو یہ سہولت ٹاک شوز کی صورت میں موجود ہے-  حقیقت یہ ہے کہ عوام کی اکثریت کو میں نے کسی نہ کسی سیاسی یا دینی گروہ کا وفادارنہیں تو طرفدار ضرور دیکھا کہ سیاسی پارٹیوں کے بغیر ملک چلے گا اور نہ ہی دینی گروہوں کے بغیر مذہب- 

١٤- عربوں میں جانوروں کے حقوق تھےنہ ہی ہمارے ہاں ہیں- اور نہ ہی کوئی انکے بارے میں سوچتا ہے- جب تک فائدہ دیں تو ٹھیک ہے ورنہ ٹھکانے لگادو- اور یہ رویّہ ہمارا انسانوں کے ساتھہ بھی ہے- 

١٥- عرب اپنے آباء و اجداد کے گن گاتے اور ان کی روایت اور رسم و رواج  سے ہٹ کر زندگی گذارنے کو گناہ سمجھتے- ہم بھی یہی کرتے ہیں- 

١٦- عربوں میں توحید پر یقین رکھنے والے موجود تھے مگر انکے پاس نہ تو کوئی رہنما تھا اور نہ کوئی لائحہ عمل- یہی صورتحال ہمارے ہاں بھی ہے- 

١٧- لوگوں کی اکثریت عام ہونے کے باوجود ان توحید پرستوں کے با کردار ہونے کے باوجود اپنی وفاداریاں خواص کے ساتھہ منسلک رکھتی کیونکہ وہاں کسی نہ کسی طور مالی فوائد موجود تھے-  ہماری اکثریت کے دن رات بھی سیاسی اور دینی اداکاروں کے ساتھ منسلک ہیں- 

امّت کے پہلے حصّے کی اصلاح 

امن کا جو تصور اسلام نے دیا ہے اور اسکے لئے جو طریقہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلّم نے اختیار کیا تھا وہی امن کے قیام کے لئے حرف اوّل اور حرف آخر ہے-  انہوں نے عام لوگوں کو جمع کر کے خواص کے مقابلے پر کھڑا نہیں کیا- علماء اور امراء سے مقابلے اور جلسہ جلوس نہیں کئے- بلکہ عام لوگوں کی زندگی کے طریقے بدل ڈالے اور وہ بھی اس طرح کہ خاص خود بخود عام اور بے حیثیت ہو گۓ- 


حضرت علی نے فرمایا کہ 
 "ہم نے قرآن سے پہلے ایمان سیکھا" 

تو یہ ایمان کیا تھا جو قرآن سے پہلے سکھایا گیا اور اس سے امن کیسے آگیا؟ مکّہ کے تیرہ سال تو اسلام لانے والوں کے لئے کسی عذاب سے کم نہ تھے- فتح و نصرت تو بہت بعد میں ملی ہے- 

چودہ سو سال پہلے عرب میں امن کا تصور کیا تھا؟ کیا سوچ کر ہر طبقے کے لوگ اسلام میں داخل ہو رہے تھے؟ مکّہ کے تیرہ سالوں میں تو اسلام لانے والوں کے لئے بھوک، فاقہ، تشدّد، نفرتیں، الزامات، ملامتیں ذلّت اور خوف ہی خوف تھا-  خوشحالی تو مدینہ جا کے نصیب ہوئی اور وہ بھی رفتہ رفتہ-  

کیوں قرآن میں بار بار یا تو "یا یھا الناس یعنی اے لوگوں" یا پھر "یا یھا الذین اٰمنو یعنی اے وہ لوگوں جو ایمان لاۓ ہو" کہہ کر خطاب کیا گیا ہے- 

اسلام کے تقاضے ظاہری ہوتے ہیں اور سب اسکے گواہ ہوتے ہیں- لیکن ایمان کے تقاضے باطنی ہوتے ہیں کہ کوئی دیکھے یا نہ دیکھے، کوئی سمجھے یا نہ سمجھے، لیکن انسان کا اپنا نفس اور الله انسان کی نیّتوں پر گواہ ہوتے ہیں-  

"بلکہ انسان اپنے آپ پر گواہ ہے" سورہ القیامه 

عربی زبان میں الف, میم اور نون کے مادّے سے ایمان بھی بنتا ہے یعنی 'مان لینا' اور اسی مادّے سے امن بھی بنتا ہے یعنی 'سلامتی'- ایمان کا مطلب ہے ماننا اور دل سے ماننا اور پھر اس پر ثابت قدم رہنا- کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہونے والوں کو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلّم کی ذات اور کردار میں کوئی شک نہیں تھا- چاہے سائنسی توجیہات اور غیب کی باتوں سے بھری آیات ان کی سمجھ میں آئیں نہ آئیں- لیکن وہ ان پر ایمان لاتے-  اورزندگی گذارنے کے جن طریقوں کو وہ چھوڑ آتے تھے ان پر پلٹنا کفر سمجھتے تھے- مکّہ کے تیرہ  سالوں میں ایمان لانے والوں کی تعداد کہیں َ١٢٥ آتی ہے اور کہیں اس سے کچھ کم یا زیادہ-  جو کلمہ پڑھ لیتا وہ سیدھا مؤمن ہی کہلاتا- اسکے علاوہ مسلمانوں کی کوئی قسم نہیں تھی-    


حضرت بلال رضی الله عنہ کی زندگی میں اسلام لانے کے بعد ظاہری طور پر کیا تبدیلی آئی تھی- یہ کہ اب انھیں کوئی حقیر نہیں سمجھتا تھا، ان پر اپنا حکم صادر نہیں کرتا تھا-  وہ اپنی خوشی  سے فاقے سہتے، اپنی مرضی سے دوسروں کے کام کرتے جبر سے نہیں- حضرت عثمان رضی الله عنہ کی زندگی میں اسلام لانے کے بعد کیا ظاہری تبدیلی آئی تھی- بھوک، ہجرت، دھمکیاں، خوف، اپنے رشتہ داروں اور مکّے کے لوگوں کی طرف سے نفرت- اور سینکڑوں صحابہ کرام کی زندگیوں کی ظاہری تبدیلی بھی اس سے کم نہیں تھی- حضرت سلمان فارسی کیوں اپنا ملک چھوڑ کر رسول الله صلی الله علیہ وسلّم کے پاس رہے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلّم نے انھیں اپنے اہل بیت میں شامل فرمایا-   کیا مزہ ملتا تھا حضرت ابو بکر الصدیق کو غلام آزاد کروا کر- 

تبوک کے موقع پر جب مال جمع کرنے کا اعلان ہوا تو حضرت عمر فاروق نے اپنا آدھا اور حضرت ابو بکر صدیق نے سارے گھر کا گھر خالی کردیا تھا- اس وقت ایک صحابی ایسے بھی تھے جن کے پاس کچھ بھی نہ تھا تو انھوں نے ایک یہودی کے باغ میں رات بھی محنت کر کے کچھ کھجوریں کمائیں اور وہی صبح رسول الله صلی الله علیہ وسلّم کو چپکے سے پکڑا دیں- رسول نے وہ کھجوریں اس مال پر بکھیر دیں اور کہا کہ اب یہ مال قبول ہوگیا- 

اصحاب صفہ تو رہتے ہی کئی کئی دن کے فاقے سے تھے-  صحابیوں میں سے کچھ دولتمند بھی تھے اور بہت سے بعد میں خوشحال ہو گۓ تھے- لیکن کسی غریب صحابی کی طرف سے یہ شکوہ نہیں کیا گیا کہ یہ دولتمند مسلمان ظالم ہیں، غریبوں مسلمانوں پر رحم نہیں کھاتے- انکے لئے فلاح و بہبود کے ادارے نہیں بناتے-  

وہ کون سا سکون، کون سی تسلّی، کون سا دلاسہ تھا جو ان کو اتنی تکالیف اور پریشانیوں پر بھاری لگتا تھا- 

وہ تھا صرف ایک ہی نکتہ کہ الله کی ذات کو ہر عمل کا اور عمل کی رضا کا مرکز تسلیم کرنا- الله کی ذات کو مکمّل اور واحد تسلیم کرنا- اس بات کو تسلیم کرنا کہ ظاہر و غائب میں جو کچھ ہے وہ صرف الله کی تخلیق ہے، وہ جب چاہے بنا دیتا ہے اور جب چاہے مٹا دیتا ہے-  حق صرف اور صرف الله کا ہے باقی تمام حقوق اسکے نیچے ہیں- سجدہ، رکوع اور بندگی کے تمام طریقے صرف اور صرف الله کے لئے ہیں باقی تمام عقیدتیں احترام کی حد تک ہیں- حکم بھی الله کا ہے اور مرضی بھی الله کی- 

 "لا الہ الّا الله - نہیں کوئی عبادت کے لائق سواۓ الله کے"

الله جو اس کائنات کا مرکز ہے جہاں سے اس کائنات کو مسلسل توانائی مل رہی ہے- وہی الله انسان کے ایمان کا بھی مرکز ہے جہاں سے ایمان کو توانائی ملتی ہے

١-  عقائد کی اصلاح- وحی کے ذریعے جو سب سے پہلی اصلاح کی گئی وہ تھی الله کے ساتھہ تعلق یعنی عقائد کو توحید پر قائم کرنا - برائی کی جو سب سے پہلی جڑ کاٹی گئی وہ شرک تھا- الله کے  لئے اپنے عقیدے کو، نیّتوں کو، اعمال کو خالص کرنا- کسی کو الله کی ذات، اسکی صفات، اسکے حکم، اسکے کام اور اسکی عبادات میں شریک نہ کرنا- کیونکہ خدا ایک ہے تو دین بھی ایک ہی ہوگا- اور یہ بات مکّہ کے لوگوں کے لئے نا قابل فہم بھی تھی اور ناقابل برداشت بھی تھی- سورہ الانبیاء کی بائیسویں آیت کے مطابق اگر الله کے علاوہ بھی اور خدا ہوتے تو فساد مچ جاتا- تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ انسانوں کے گروہ اپنے اپنے طور پر الله کے علاوہ یا اسکے ساتھ کسی نہ کسی طور شریک ٹھرائیں اور زمین پر فساد نہ مچے- اور جو جو اس پیغام کو سمجھتے گۓ ان خدا سے براہ راست تعلق جڑتا گیا اور ان کی زندگیوں میں امن آتا چلا گیا- 

"اگر آسمان اور زمین میںالله کے سوا اور معبود ہوتے تو زمین وآسمان درہم برہم ہوجاتے۔ جو باتیں یہ لوگ بتاتے ہیں خدائے مالک عرش ان سے پاک ہے" سورہ الانبیاء 

٢- تعلقات اور رویّوں کی اصلاح- دوسری جو اصلاح کی گئی وہ تھی انسانوں کے آپس کے تعلقات یعنی انسانوں میں مساوات- تکبّر اور طبقات جو برائی کی دوسری جڑہے اس پر ضرب لگائی گئی-   تمام انسان حضرت آدم علیہ السّلام کی اولاد ہیں- کسی کو کسی پر برتری نہیں- اور جو بھی احساس برتری کی وجوہات ہیں وہ الله کا ہی فضل ہیں، انسان کی اپنی کرامات نہیں- کوئی کسی کا غلام نہیں، سب آزاد ہیں- قانون سب کے لئے ایک ہی ہے اور ہر برائی کرنے والا قابل گرفت ہے- جو اہل منصب اور اہل ثروت ہیں ان پر ذمہ داری کا بوجھ بھی زیادہ ہے اور احتساب بھی - کوئی کسی کو کمتری یا برتری کا احساس نہ دلاۓ- کسی قسم کا اختلاف تفریق کا با عث نہ بنے- عورت اور مرد بھی حقوق اور نیکیوں کے ثواب میں برابر ہیں البتّہ انکی ساخت اور انکی ذمہ داریاں فرق ہیں- یہ بات بھی مکّہ کے لوگوں کے لئے قابل قبول نہیں تھی- اور یہ بات ہمارے معاشرے میں بھی قابل قبول نہیں- 

"اور سب مل کر خدا کی (ہدایت کی رسی) کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا اورالله کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو خدا نے تم کو اس سے بچا لیا اس طرح الله تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ"
سورہ آل عمران 

٣- اعمال کی اصلاح- کوئی کسی کو دھوکہ نہ دے، ملاوٹ نہ کرے، ناپ تول میں کمی نہ کرے، ہمسایہ کے گھر کے سامنے کوڑا نہ ڈالے، ہمساۓ کی اجازت کے بغیر اونچی دیوار نہ بناتے کہ اسکی ہوا رک جاۓ، دوسروں کا تجسّس نہ کرے، دوسرے کی پیٹھ پیچھے برائی نہ کرے، منہ پر طعنہ نہ دے، احسان کر کے جتاتے نہیں، وعدہ کی پاسداری کرے، بیمار کی عیادت کرے، ملے تو سلام کرے یعنی ایک دوسرے پر سلامتی بھیجے، جانوروں پر زیادہ بوجھ نہ لادے، سایہ دار درخت لگاۓ، راہ سے نقصان دہ چیز ہٹا دے، ایک دوسرے کی جان، عزت اور مال کی حفاظت کرے، بلاوجہ بحث سے اپنا دامن بچاۓ- دوسرے عقیدے کے لوگوں یا دوسری قوم کا مذاق نہ اڑاۓ اور نہ ہی انکے معبودوں کا- جو کہے وہ کرے- لوگوں کے درمیاں انصاف کرے- ظالم کا ہاتھہ روکے- گواہی دے- پاکدامن عورتوں پر الزام نہ لگاۓ- 

"جب تم نے وہ بات سنی تھی تو مومن مردوں اور عورتوں نے کیوں اپنے دلوں میں نیک گمان نہ کیا۔ اور کیوں نہ کہا کہ یہ صریح طوفان ہے-  یہ (افتراء پرداز) اپنی بات (کی تصدیق) کے (لئے) چار گواہ کیوں نہ لائے۔ تو جب یہ گواہ نہیں لاسکے تو الله کے نزدیک یہی جھوٹے ہیں
-"  سورہ النور 

"اور لوگوں کی دشمنی اس وجہ سے کہ انہوں نے تم کو عزت والی مسجد سے روکا تھا تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ان پر زیادتی کرنے لگو اور (دیکھو) نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اورالله سے ڈرتے رہو۔ 
کچھ شک نہیں کہالله کا عذاب سخت ہے" 
سورہ المائدہ 

"اے ایمان والوں!الله کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جایا کرو۔ اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔ انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے اورالله سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ الله تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے" 
سورہ المائدہ 

"اے وہ لوگوں جو ایمان لاۓ ہو! تم ایسی باتیں کیوں کہا کرتے ہو جو کیا نہیں کرتے- الله اس بات سے سخت بیزار ہے کہ ایسی بات کہو جو کرو نہیں-"
سورہ الصف 

اور اس شخص سے بات کا اچھا کون ہوسکتا ہے جو خدا کی طرف بلائے اور عمل نیک کرے اور کہے کہ میں مسلمان ہوں-  اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہوسکتی۔ تو (سخت کلامی کا) ایسے طریق سے جواب دو جو بہت اچھا ہو (ایسا کرنے سے تم دیکھو گے) کہ جس میں اور تم میں دشمنی تھی گویا وہ تمہارا گرم جوش دوست ہے- اور یہ بات ان ہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو برداشت کرنے والے ہیں۔ اور ان ہی کو نصیب ہوتی ہے جو بڑے صاحب نصیب ہیں- اور اگر تمہیں شیطان کی جانب سے کوئی وسوسہ پیدا ہو تو خدا کی پناہ مانگ لیا کرو۔ بےشک وہ سنتا جانتا ہے- " سوره فصلات 

"اے پیغمبر! جب تمہارے پاس مومن عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کو آئیں کہ خدا کے ساتھ نہ شرک کریں گی نہ چوری کریں گی نہ بدکاری کریں گی نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی نہ اپنے ہاتھ پاؤں میں کوئی بہتان باندھ لائیں گی اور نہ نیک کاموں میں تمہاری نافرمانی کریں گی تو ان سے بیعت لے لو اور ان کے لئے خدا سے بخشش مانگو۔ بےشک خدا بخشنے والا مہربان ہے" 
سورہ الممتحنه 
 
٤- نیّتوں کی اصلاح- رسول الله صلی الله علیہ وسلّم نے فرنایا
   "اعمال کا دارو مدار نیّت پر ہے" (حدیث)
اسکی مثال یوں دی جاتی ہے کہ ایک شخص نے کنواں کھودا کہ لوگ اس کے پانی سے پیاس بجھائیں لیکن کوئی اس میں گر کر مر گیا تو اس کا ذمہ دار کنواں کھودنے والا نہ ہوگا-  کیونکہ اسکی نیّت یہ نہ تھی-  اور اگر ایک شخص نے کسی کو مارنے کی نیّت سے کنواں کھودا حالانکہ لوگ اس سے پانی بھی پیتے ہوں، تب بھی اس کی نیّت کی وجہ سے اسکا مواخذہ ہوگا- 
لہٰذا کسی بھی کام کے لئے نیّت کو الله کی رضا اور دوسروں کی خیر و بھلائی کے لئے خالص کرنا- کیونکہ وہی دلوں کے راز جانتا ہے-  ریاکاری کا تعلق بھی نیّت سے ہوتا ہے اور دوسروں کو اسکا پتہ نہیں چلتا لہٰذا اس سے نفس کو بچانا-  

"وہ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے اور جو (باتیں) سینوں میں 
پوشیدہ ہیں  (ان کو بھی)" 
سورہ غافر 


یہ تھی امّت کے پہلے حصّے کی اصلاح-  امن کے ذرائع- امن کی ضامن خصوصیات- وہ آئینہ جس میں آج کے دور کا کلمہ گو اپنا ظاہر و باطن دیکھ کر اپنے حال اور مستقبل کا اندازہ کر سکتا ہے-  چاہے اسلام کی ظاہری خصوصیات  ہوں یا باطنی- ان باتوں کو سمجھنے کے لئے کسی مولوی یا عالم کے فتوے، مشورے اور تسلی کی ضرورت نہیں- اور نہ ہی کسی اسکول، کالج اور یو نیورسٹی کی تعلیم کی- 


امّت کا پہلا حصّہ ایک ایک صحابی کی صورت میں ان آئینوں سے بھرا پڑا ہے- وہی عام لوگ تھے- اور پھر وہی دنیا کے خاص ترین لوگ بن گۓ- ان کی کرامت یہ تھی کہ امّت کے باقی حصّوں کو یہ بتا گۓ کہ کسی نظام کو قائم کرنے اور چلانے کے لئے اس پر عمل کس طرح کیا جاتا ہے اور اس کے مطابق زندگی کیسے گذاری جاتی ہے-  

جب یہ خصوصیات عوام الناس میں پیدا ہو جائیں تو وہ ہو جائیں مؤمن- اور مؤمنین سے جو وعدے الله نے کئے ہیں ان سے قرآن بھرا ہوا ہے- 


Saturday 15 February 2014

روحانی اور جسمانی بیماریوں کا علاج



امام نووی کی چالیس حدیثوں میں سے ایک حدیث کے مطابق جب انسان ماں کے پیٹ میں خون اور گوشت کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو ایک فرشتہ الله کی طرف سے مقرر کیا جاتا ہے جو اس کا نصیب لکھتا ہے- نصیب عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے حصّہ- اور انسان کی زندگی کا حصّہ ہیں خوشیاں، عیش و آرام، سکون، خواہشات، بیماریاں, غم، صدمات، تکالیف، آزماشیں، حزن و ملامت، حسرت، حادثات-  کبھی یہ سب کچھ انسانوں کے آپس کے معاملات کا نتیجہ ہوتا ہے، کبھی انسان کی انتھک محنت کا یا کاہلی کا، کبھی اسکی نیّت کا تو کبھی بدنیتی اور غفلت کا، کبھی محض دعاؤں کا اور کبھی صرف اور صرف الله کی منشاء-



امام ابو الفرج ابن الجوزی رحمہ الله فرماتے ہیں 
"ابلیس حتی المقدور لوگوں کے پاس آتا ہے اور ان پر قابو پانا چاہتا ہے- اس کا غالب ہونا آدمیوں کی عقل و دانش اور جہل و علم کے موافق کم و بیش ہوتا ہے- اور جاننا چاہیے کہ انسان کا دل ایک قلعہ کی مثل ہے-  اس قلعہ کی چار دیواری ہے اور اس چاردیواری میں دروازے اور روزن ہیں-  اس میں عقل رہتی ہے اور فرشتے اس میں آتے جاتے رہتے ہیں- قلعہ کے ایک طرف رمنہ ہے، اس میں خواہشات اور شیاطین آتے جاتے ہیں- جن کو کوئی نہیں روکتا- قلعہ اور رمنہ والوں میں لڑائی ہوتی ہے اور شیاطین قلعہ کے ارد گرد گھومتے رہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پاسباں غافل ہوجاۓ یا کسی روزن سے آڑ ہٹ جاۓ تو قلعہ میں گھس پڑیں- لہٰذا پاسبانوں کو چاہیے کہ ان کو قلعہ کے جن جن دروازوں کے لئے مقرر کیا گیا ہے ان کی خبر گیری رکھیں اور تمام روزنوں کا خیال رکھیں- اور پاسبانی سے ایک لحظہ کے لئے بھی بے خبر نہ ہوں کیونکہ دشمن موقعہ کا منتظر ہے اور قطا بے خبر نہیں- پھر وہ قلعہ ذکر الہی سے روشن اور ایمان سے پرنور ہے- اس میں ایک جلا کیا ہوا آئینہ ہے جس میں صورتیں نظر آتیں ہیں- جب شیطان رمنہ میں بیٹھتے ہیں تو کثرت سے دھواں کرتے ہیں جس سے قلعہ کی دیواریں سیاہ ہو جاتی ہیں اور آئینہ زنگ آلود ہو جاتا ہے- یہ دھواں ذکر کی ہوا سے زائل ہوتا ہے- اور آئینہ پر ذکر صقیل (پالش) کا کام کرتا ہے-"  




ایک مسلمان کی نظر میں دنیا کے ہر مسلے کا حل قرآن و سنّت میں ہے-  نبی کریم صلی الله علیہ وسلّم ہمارے لئے صرف نبی، رسول اور خطیب ہی نہیں بلکہ روحانی اور جسمانی بیماریوں کے طبیب بھی ہیں- سونے جاگنے، کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے، نماز، تلاوت، دعاؤں اور اذکار کے جو طریقے انہوں نے امّت کو بتاۓ وہ اپنی جگہ مکمّل ہیں اور ان میں کسی شک کی گنجائش نہیں-  اور اگر ہمیں فائدہ نہیں پہنچ رہا تو کمی ہمارے عقیدے اور اعمال میں ہے- 

پچھلی چند دھائیوں سے خاص طور پر برصغیر کے مسلمانوں میں جادو کے واقعات میں انتہائی زیادتی کے نتیجے میں نہ صرف پیروں اور عاملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے بلکہ جادو اور اسکے علاج پر لکھی گئی کتابیں بھی گلی گلی بہت مقبول ہوئی ہیں- ان کتابوں میں کچھ دعائیں اور وظائف مسنون اور کچھ صحابہ اکرام سے منقول ہوتے ہیں-  اس کے علاوہ جن لوگوں نے کتابیں لکھی ہوتی ہیں وہ اپنے تجربات اور وظائف بھی شامل کر دیتے ہیں-  اسی طرح جب لوگ مختلف عالموں، عاملوں اور پیروں کے پاس جاتے تو وہ تعویذ، دھاگے، کڑھے یا کچھ اور چیزیں باندھنے یا پہننے کے لئے دے دیتے ہیں- کچھ جلانے کے لئے اور کچھ زعفران سے لکھی ہوئی آیات پینے کے لئے بھی دیتے ہیں-  کچھ اس میدان میں نئے ہونے کی بناء پر تجربات بھی کر رہے ہوتے ہیں- عالموں اور عاملوں میں ان طریقوں پر آپس میں اختلاف بھی پایا جاتا ہے-  کچھ طریقوں کو غیر شرعی کہا جاتا ہے اور کچھ کو کفر اور شرک قرار دیا جاتا ہے-  

اس بات سے الگ کہ کون سے طریقے حلال ہیں اور کون سے حرام اور کس کے پاس سنّت کے مطابق علم ہے اور کس کے پاس شیاطینی- ایک بات یہ ہے کہ سب عالموں، عاملوں اور پیروں کے پاس کوئی نہ کوئی علم ہے ضرور-  اب کون خوابوں سے استخارہ کرتے ہیں، کون اپنے مؤکلوں اور جن دوستوں سے کام لیتے ہیں، کون اعداد اور ستاروں سے علاج کرتے ہیں-  یہ ایک الگ بحث ہے-  اس بحث میں پڑنے سے پہلے مناسب یہ ہے کہ پہلے قرآن و سنّت کا خود بھی مطالعہ کر لیا جاۓ- 


حضرت علی کرم الله وجھہ نے فرمایا "ہم نے پہلے ایمان سیکھا اور پھر قرآن" 

اور قرآن و سنّت کا مطالعہ کرنے سے بھی پہلے اچھا ہے کہ اپنے دل کا حال اور خیال معلوم کر لیا جاۓ کہ آیا وہ کسی بھی بات کو ماننے کے لئے تیّار بھی ہے یا صرف معلومات براۓ معلومات کے لئے مطالعہ میں وقت صرف کرنا چاہتا ہے- کیونکہ علماء فرماتے ہیں کہ دل کا ماننا ہی اصل ایمان ہے- اور یہ بات ذہن میں رکھے کہ ہر عمل، ہر تعمیر, ہر تحقیق، ہر  تدبیر، ہر صبر، ہر تعبیر کے لئے وقت درکار ہوتا ہے اور یہ انسان کے ذاتی تجربات کے بغیر مکمّل نہیں-   


 اِیمانِ مفصّل

اٰمَنْتُ بِاﷲِ وَمَلٰئِکَتِهِ وَکُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْقَدْرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ مِنَ اﷲِ تَعَالٰی وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ.

’’میں ایمان لایا اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور قیامت کے دن پر اور اس پر کہ اچھی بُری تقدیر اللہ کی طرف سے ہے اور موت کے بعد اُٹھائے جانے پر۔‘‘


جب ایک مسلمان کو یہ اندازہ ہو جاۓ کہ اس کا نصیب الله نے لکھا ہے  اور اس کا بدلنا بھی الله ہی کے اختیار میں ہے اور یہ کہ ہر اچھی بات بھی الله ہی کی طرف سے ہوتی ہے اور ہر بری بات بھی الله ہی جانب سے نازل ہوتی ہے- اور یہ کہ برائی انسان کے اپنے اعمال کا نتیجہ بھی ہوتی ہے اور معاشرے کے اجتماعی افعال کا بھی-  تو پھر اسکے برائی کے ردعمل میں اوروں کی بہ نسبت فرق ہوتا ہے- انسان کی زندگی میں شیطان کا کیا کردار ہوتا ہے-  صرف اتنا کہ وہ وسوسے، برے خیالات، نا امیدی، بغاوت، فحاشی اور نافرمانی پر اکساۓ- اس پر عمل کرنا یا نہ کرنا انسان کے اختیار میں ہے-  

شیطان نظر نہ آنے والی مخلوق ہے یہ ہر برائی کی علامت اور انسان کا سب سے بڑا دشمن بھی ہے-  اپنے وعدے کے مطابق یہ دائیں بائیں، آگے پیچھے، اوپر نیچے، غرض ہر طرف سے انسان کو بہکانے کی کوشش کرتا ہے-  کیونکہ اس کی زندگی کا مقصد ہی یہ ہے-  جادو بھی ان بہت سارے طریقوں میں سے ایک ہے - جادوشیطان کی براہ راست پھونک بھی ہے اور انسانوں کے ما بین نفرت اور انتقام کے جذبے کو ٹھنڈا کرنے کا ایک طریقہ بھی- جادو کے علاوہ آسیب، سحر، سایہ اور نظر بھی شیطان ہی کے حربے ہیں- شیطان کے ماننے والے چاہے جنوں میں سے ہوں یا انسانوں میں سے- ان کا ایک دائرہ کار ہوتا ہے اور یہ بھی الله کی قائم کی ہوئی حدوں سے باہر نہیں کام نہیں کر سکتے- 

انسان کے لئے مصیبت میں بہت سی باتوں پر یقین کرنا مشکل ہوجاتا ہے مثلا یہ کہ جو نظر نہ آنے والی مخلوق مجھ پر بھیجی گئی ہے یا خود میرے پیچھے لگی ہے وہ الله کی نظر میں ہے اور الله اس کی ہر حرکت کو دیکھ رہا ہے-  الله ان کو بھی دیکھ رہا ہے جو دشمنی اور حسد میں حد سے گذر کر شیاطین کو اپنا ہتھیار بناتے ہیں اور خود بھی انکے ہتھیار بن جاتے ہیں-  اور وہ صرف اس حد تک نقصان پہنچا سکتے ہیں جتنا الله نے لکھ دیا ہے- 

اور اس بے یقینی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اپنی پریشانیوں کے علاج کے لئے مختلف عالموں، عالموں اور پیروں کے پیچھے بھاگتا پھرتا ہے-  اور یہ سب اس کی کم عقلی، کم علمی اور مجبوریوں کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں-  کوئی اکّا دکّا صحیح بھی ہو سکتے ہیں-  یہ بات جاننا بہت ضروری ہے کہ ہر عالم، ہر عامل اور ہر پیر کے پاس ہر طرح کا علم اور علاج نہیں ہوتا-  جسمانی بیماریوں کی طرح روحانی بیماریاں بھی کئی طرح کی ہوتی ہیں اور ان کے معالج بھی مختلف ہوتے ہیں-  لہذا ہر مسلمان کو اپنی جسمانی بیماریوں کی طرح روحانی بیماریوں کا علم بھی ہونا چاہیے-  تاکہ اس کا علاج قرآن و سنّت کے طریقوں کے مطابق کر سکے یا کرواسکے- 

لوگوں کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ اگر کوئی شخص اپنے علاج کی غرض سے، لاعلمی کی بناء پر اور شدّت غم اور کرب کے عالم میں اگر غیر مسنون طریقے سے وظائف کرے یا کوئی اور طریقے اختیار کر لے تو اس پرکسی قسم کے فتوے نہ جاری کریں اور نہ ہی یہ کہہ کر اس کی ہمّت توڑیں کہ یہ اس طرح اثر نہیں کرے گا، بے کار ہے، الٹا اثر ہوگا وغیرہ وغیرہ-  

کیونکہ جو اثر ایک بیتاب اور بے چین دل سے شدّت کے ساتھہ نکلنے والے الفاظ میں ہوتا ہے وہ سارے علاجوں سے بڑھ کر ہے-  ہو سکتا ہے الله کو کسی کے بار بار بے چین ہو کر پکارنے کا انداز اچھا لگتا ہوکیونکہ انسان پریشانی میں قرآن اور کتابوں میں گھس کر اپنا علاج تلاش کرتا ہے اور یہ کوشش الله کو پسند آتی ہو-  یا کسی مصیبت کو طول دے کر الله اس بندے کے گناہ معاف کرنا چاہتا ہوکیونکہ مصیبت میں انسان کو اپنے گناہ بھی یاد آتے ہیں اور وہ توبہ کی طرف راغب ہو جاتا ہے-  یا اس طرح اسے لوگوں سے ملوا کر ان کے اصل روپ دکھانا چاہتا ہو تا کہ وہ شخص احتیاط کرنا سیکھ جاۓ یا اچھے اور برے کا فرق پہچان سکے- 

دین اسلام میں پانچ وقت نماز، روزانہ قرآن کی تلاوت اور اذکار بہترین وظائف ہیں- اور تہجّد اور صلوۃ الحاجات الله سے مدد کے بہترین طریقے- اور ان کے ساتھ ساتھ خلوص، عاجزی، انکساری، ایمانداری وغیرہ شرط ہیں- اسکے باوجود اگر کسی پر شیطان کا زور چل جاۓ یا کوئی پیدائش کے وقت سے اس کا شکار ہو جاۓ تو پھر جو علامات ظاہر ہوں ان کے لئے کسی صحیح عالم کے ذریعے توڑ کرانا چاہیے-

جب تک کوئی صحیح عالم نہ ملے تو اپنے طور پر ایسے مریض کے لئے جو ظاہری احتیاط لازم ہیں وہ یہ ہیں کہ 
١- ایسے مریض کو کبھی بھی تنہا نہ چھوڑا جاۓ- اور اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ روحانی مریض لوگوں کے درمیان رہے-  اکثر شیاطین مریض کو خود کشی کی طرف مائل کرتے ہیں- 

٢- گھر ہوادار اور روشن ہو کہ سورج کی دھوپ لازمی جسم پر اور گھر کے حصّوں پر پڑے- گھر کواور مریض کے جسم اور کپڑوں کو  خوشبودار بھی رکھا جاۓ- کیونکہ شیاطین اندھیری، بدبودار اور ایسی جگہ پر رہتے ہیں جہاں تازہ ہوا نہ آتی ہو- 

٣- دروازے یا گذرنے والی جگہ اور کونے میں نہ سویا یا سلایا جاۓ- کیونکہ یہ ہر قسم کے مخلوق کی رہ گذر ہوتی ہیں- نیز دروازے کے درمیان کھڑے ہونے سے گریز کیا جاۓ- 

٤- گھرکے اندر داخل ہونے والے دروازے کو بند رکھا جاۓ کیونکہ شیاطین مخلوق دروازوں سے ہی اندر داخل ہوتی ہیں-  گھر میں داخل ہوتے وقت سلام کیا جاۓ چاہے کوئی یا نہ ہو- اور کلمہ طیّبہ اور درود پڑھا جاۓ- 

٥- روزانہ نہایا جاۓ- حتّی الا مکان صفائی اور پاکی کا خیال رکھا جاۓ- ہاتھوں اور پیروں کے ناخن بڑھنے نہ دیے جائیں- ممکن ہو تو روزانہ کپڑے تبدیل کے جائیں- کیونکہ شیاطین گندگی میں رکھ کر ایسے مریض پر مزید قابو پاتے ہیں- 

٦- باتھرومز اگر کمروں میں ہیں تو ان کے دروازے بند رکھیں جائیں- اور ان کے اندر خاموش رہا جاۓ- کیونکہ یہ شیاطین کے رہنے کی جگہیں ہیں- 

٧- کھانے پینے کی چیزوں کو ڈھک کر رکھا جاۓ اور کھلا نہ چھوڑا جاۓ- کھانوں کی بچی ہڈیاں وغیرہ بھی گھر کے اندر نہ رکھی جائیں بلکہ گھر سے باہر رکھی جائیں- کیونکہ ہڈیاں جنوں کی خوراک ہیں- 

٨- گھر میں آہستہ آواز میں بات کی جاۓ- شیاطین تیز آوازوں اور غصّے کی حالت میں مزید قابو پاتے ہیں- 

٩- باقاعدگی سے پرندوں کے لئے باجرہ اور پانی انتظام کیا جاۓ- اور کسی جانور کو تنگ نہ کیا جاۓ- 

١٠- گھر کے باہر بھی گلی میں صفائی کا بندوبست کیا جاۓ- اور جب گندگی کے پاس سے گزریں تو اعوذ با للہ من الشیطان الرجیم پڑھیں- 

١١- ممکن ہو تو زیتون کا تیل اور شہد کا استعمال کیا جاۓ- 

١٢-روحانی مریض کے حرکات و سکنات، بات چیت اور خیالات میں بے ترتیبی اور بے نظمی پائی جاتی ہے اور اکثر وہ بے ربط اور غیر فطری ہوتے ہیں- مریض کے سامنے منفی باتیں، مایوسی کے قصّے، درد بھری کہانیاں نہ بیان کی جائیں اور نہ ہی موت، دھماکوں اور ڈر اور خوف کی خبریں دکھائی جائیں اور پریشان خیالی سے بچایا جاۓ- اور اسے کسی بھی طرح مصروف رکھا جاۓ- 

اسکے لئے روحانی احتیاط یہ ہیں- 
١- روزانہ کی نمازوں، تلاوت قرآن اور اذکار کی پابندی کی جاۓ- 

٢- کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے، سونے جاگنے، باتھرومز، آنے جانے میں سنّت کے طریقوں پر جس حد تک ہو سکے عمل کیا جاۓ اور ان دعاؤں کی بھی پابندی کی جاۓ-  

٣- سات دن تک بیری کے پتّوں کے پانی کوسر سے لے کر جسم پر بہایا جاۓ-  اور اسی میں سے ایک گلاس پانی پلایا بھی جاۓ- 

٤- شدید غصّے یا جنون کی کیفیت میں سورہ الا نبیاء کی آیت ٦٩ گیارہ مرتبہ پڑھ کر پانی پر دم کر کے پلائی جاۓ اور منہ پر چھینٹے مارے جائیں- اور یہ عمل دن میں کئی مرتبہ بھی کیا جاسکتا ہے- 

٥- آیات کریمہ، بسم الله الرحمن الرحیم، یا جو کچھ بھی پڑھنا چاہ رہے ہیں وہ ایک وقت میں گیارہ سے زیادہ مرتبہ نہ پڑھیں توبہتر ہے- سواۓ اسکے جو رسول صلی الله علیہ وسلّم نے خود فرماۓ کہ ستّر یا سو بار یا کثرت سے پڑھو- اگر زیادہ پڑھنا ہے تو پھر گیارہ مرتبہ کے بعد تھوڑا وقفہ دے دیں- کچھ علماء کا خیال ہے کہ قرآنی آیات، دعائیں اور اذکار صرف اتنی تعداد میں پڑھنے چاہئیں جتنی تعداد میں رسول صلی الله علیہ وسلّم نے فرماۓ ہیں- انکی دلیل یہ ہے کہ ڈاکٹر جو نسخہ دیتا ہے تو مریض کو اتنی ہی مقدار میں دوا کھانی پڑتی ہے- اگر وہ اس مقدار سے کم یا زیادہ کھاۓ گا تو اسکو نقصان ہو گا- 
اور کچھ عامل یا عالم ایسے بھی ہیں جو اس بات سے اتّفاق کرتے ہیں لیکن انکی دلیل یہ ہے کہ یہ غیبی مخلوق آگ کا مزاج رکھتی ہیں اور بہت جلد غصّے اور انتقام پر اتر آتی ہیں-  ان سے الجھنے، للکارنے، قابو کرنے یا ختم کرنے کے بجاۓ ان سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کرنی چاہیے- جب اعتدال میں رہ کر اذکار اور وظائف مسنون طریقے سے کیے جائیں تو یہ مخلوق خود کو بچانے کے لئے پیچھے ہٹ جاتی ہیں اور پھر موقع کی تلاش میں رہتی ہیں کہ کب ان کا شکار غفلت میں ہو- لیکن اگر یہی وظائف ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں پڑھے جائیں تو پھر یہ پریشان ہو کر نہ صرف خود مقابلے پر آتی ہیں بلکہ اپنے لشکر ساتھ لے آتی ہیں- اسی لئے اکثر ٹھنڈے مزاج کے عالم یا عامل ایک وقت میں کوئی بھی چیز تین، سات یا گیارہ کی تعداد میں پڑھنے کا مشوره دیتے ہیں-  

کسی بھی روحانی یا جسمانی بیماری کی شدّت کی صورت میں دو رکعت نفل  صلوۃ الحاجات پڑھ کر الله سے مدد مانگیں-  قرآن میں پیغمبروں کے قصّے اسی لئے بیان کئے گۓ ہیں کہ مسلمان دیکھ لے کہ پیغمبر مصیبت میں الله کو کیسے پکارتے تھے-  پچھلی پوسٹ میں دیے گۓ روزانہ کے اذکار اور عبادات کے علاوہ، 

١- کم از کم تین دن میں سورہ البقرہ پڑھیں اور اسکا اور آیہ الکرسی کا کیا ہوا پانی مریض کو پلائیں- 

٢- وقفہ وقفہ سے " بسم الله الرحمن الرحیم" کا ورد کر کے گھر کے کونوں، خاص طور پر باورچی خانے میں، مریض کے کندھوں اور چہرے پر پھونک ماریں-  

٣- اور کسی صحیح عالم سے ہی اس کا  توڑ کروائیں- 

روحانی اور جسمانی بیماریوں سے علاج کی دعائیں 

علاج سنّت ہے اور جسمانی بیماریوں میں بھی دوا کے ساتھہ ساتھہ دعاؤں کی بھی ضرورت پڑتی ہے-  

مندرجہ ذیل دعائیں ہر نماز کے بعد تین تین مرتبہ پڑھی جائیں اور ان کو پانی اور دواؤں پر دم کر کے پلایا بھی جاسکتا ہے-  



بِسْمِ اللهِ اَرْقِيكَ مِنْ كُلِّ شَئٍ يُوذِيكَ مِنْ شَرِّ كُلِّ نَفْسٍ اَوْ عَيْنٍ حَاسِدٍ بِسْمِ اللهِ اَرْقِيكَ وَاللهُ يَشْفِيكَ


أَذْهِبِ الْبأْسَ رَبَّ النَّاسِ وَاشْفِ اَنْتَ الشَّافِى لَاشِفَاءَ الَّاشِفَاءُكَ شِفاءً لَايُغادِرُ اِلَّاسَقَمًا

اللَّهُمَّ اِنِّى اَعُوذُبِكَ مِنْ يَومِ السُّوءِ وَ مِنْ لَيْلَةِ السُّوءِ وَ مِنْ سَاعَةَ السُّوءِ وَ مِنْ صَاحِبِ السُّوءِ وَ مِنْ جَارِ السُّوءِ فِى دَارِ الْمُقَامَةِ

اللَّهُمَّ اِنِّى اَعُوذُبِكَ مِنَ الْبَرَصِ والْجُذَامِ والْجُنُونِ وَ مِنْ سَيِّئِ الْاَسْقَامِ

سونے سے پہلے تین مرتبہ
اللَّهُمَّ اِنِّى اَعُوذُبِكَ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ وَ سَيِّآتِ الْاَحْلَامِ فَأِنَّهَا لَاتَكُونُ شَيْأً

کثرت سے پڑھیں 
لَاحَولَ وَلَاقُوَّةَ اِلَّا بِاللهِ - أَستَغْفِرُالله

اسکے علاوہ بھی بہت سی دعائیں اور کلمات ہیں جو کثرت سے پڑھے جا سکتے ہیں- 

چند بیماریوں کا علاج 
١- ہائی بلڈ پریشر کو نارمل کرنے کے لئے ہفتے میں کم از کم ایک مرتبہ لوکی، ترئی یا توری اور ٹنڈے کھائیں- 
٢- جوڑوں کے درد کے لئے دس بارہ چیریز صبح و شام کھائیں- شدّت میں مقدار زیادہ کر لیں- 
٣- یورک ایسڈ کے لئے تربوز، خربوزہ، چیریز، سردا، گرما قسم کے پھل کھائیں- جن میں پانی زیادہ ہوتا ہے-  اس کے ساتھ ساتھ سفید تل, دو تین کھجوریں  اور کشمش کے چھ ساتھ دانے صبح نہار منہ کھائیں- 
٤- نہار منہ پانی پینا بہت سی بیماریوں سے نجات دیتا ہے- یخ ٹھنڈا پانی گرمی میں بھی نہ پیئں- کھانے کے فورا بعد پانی نہ پیئں- پانی کھڑے ہو کر نہ پیئں بلکہ بیٹھ کر پیئں-
٥- کھانا دل چاہنے پر نہیں بلکہ بھوک لگنے پر کھائیں- اور جو کھائیں خوشی سے کھائیں- اور الله کا شکر ادا کر کے کھائیں- اور دوسروں کو بھی اس میں شامل کریں- 
لوگوں کو درس دیں کہ جگہ جگہ تھوکنا اور کوڑا پھیلانا جسمانی، روحانی اور نفسیاتی بیماریوں کا سبب بنتا ہے- 





Thursday 13 February 2014

عبادت، حفاظت، اعانت

 فجر کے بعد 
سورہ یٰسین ایک بار 

 سُبْحَانَ اللهِ وَ بِحَمْدِہِ سُبْحَانَ اللهِ العَظِیمِ   سو بار   سو      ب
ار 

صبح و شام تین بار

بِسْمِ اللہ الَّذِی لَا یَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَئٌ فِی الاَ رْضِ وَ لَا فِی السَّمَآءِ وَ ھُوَ السَّمِیعُ العَلِیمِ

اَعُوذ بِکَلِمَاتِ اللهِ التَّآمَّآتِ  مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ 

اَعُوذ بِکَلِمَاتِ اللهِ التَّآمَّآتِ مِنْ غَضَبِهِ وَ عِقَابِهِ وَ شَرِّ عِبَادِہِ وَ مِنْ 
ھَمَزَاتِ الشَّیَاطِینِ وَ اَنْ یَّحْضُرُونَ

رَضِیتُ بِاللہِ رَبَّا وَّ بِالْاِسْلَامِ دِینًا وَّ بِمُحَمَّدٍ صلی الله علیہ وسلم نَبِیَّا وَرَسُولًا 

اللَّھُمَّ عَافِنِی فِی بَدَنِی اللَّھُمَّ عَافِنِی فِی بَصَرِی اللَّھُمَّ عَافِنِی فِی سَمْعِی لااِلهَاِلَّااَنْتَ 

اللَّھُمَّ اِنِّی أَسْئَلُکَ الْعَافِیَةَ فِی الدُّ نْیَا وَالْآخِرَةَ وَأَسْئَلُکَ الْعَافِیَةَ فِی اَهْلِ وَمَالِ 


اللَّھُمَّ اسْتُرْعَوْرَاتِنَا وَآمِنْ رَوْعَاتِنَا 

اَعُوذُ بِاللہِ السَّمِیعِ العَلِیمِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ مِنْ هَمَزِہِ وَ نَفْخِهِ وَ نَفْثِهِ

اللّھُمَّ اِنِّی اَعُوذُ بِكَ مِنَ البَرَصِ وَالجُذَامِ وَالجُنُونِ وَمِنْ سَیِّی الْاَسْقَامِ 


صبح و شام سات بار 

حَسْبِیَ اللهُ لَا اِلهَ اِلَّاھُوَعَلَیْهِ تَوَکَّلْتُ وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ العَظِیمِ 

 اللَّھُمَّ اَجِرنِی مِنَ النَّارِ


ہر نماز کے بعد 

آیت الکرسی (ایک بار)
سورہ الکافرون  (ایک بار)
سورہ النصر (ایک بار)
سورہ الاخلاص (تین بار)
سورہ الفلق  (تین بار) 
سورہ الناس  (تین بار)

سُبْحَانَ اللهِ -  ٣ ٣ بار     
اَلحَمْدُللہِ -     ٣ ٣ بار  
اَللهُ اَکْبَرُ -    ٣ ٣ بار

لَا اِلهَ اِلَّا اللهُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَهُ، لَهُ الْمُلْکُ وَ لَهُ الْحَمْدُ وَھُوَعَلَی کُلِّ شَئٍی قَدِیرٍ  (ایک بار)

اللّھُمَّ اِنِّی اَعُوذُ بِكَ مِنَ الْھَمِّ وَ الْحُزْنِ وَ اَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْکَسَلِ وَاَعُوذُ بِكَ مِنَ الْبُخْلِ وَالْجُبْنِ وَاَعُوذُ بِكَ مِنْ غَلَبَةِ الدِّ ینِ وَقَھْرِالرِّجَالِ (تین بار)


سونے سے پہلے 


سورہ البقرہ کا آخری رکوع 
سورہ الواقعہ 

سورہ الملک 

اللّھُمَّ اِنِّی اَعُوذُ بِكَ مِنَ عَمَلِ الشَّیْطَانِ وَ سَیِّآتِ الْاَحْلَامِ فَاِنَّھَا لَا تَکُونُ شَیْأً (تین بار)



















Thursday 6 February 2014

عالمی اسلامی خلافت اور عالمی دجالی نظام

"آج تمھارے دین کی طرف سے کافروں کی آس ٹوٹ گئی- تو ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو- آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا- اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمھارے لئے اسلام کو دین پسند کیا"-
سوره المائدہ - ٣ 

عالمی حکومت یا خلافت کی تعریف 

اسلام کی عالمی خلافت یا کسی کی بھی ایک عالمی حکومت یا ایک متحدہ عالمی نظام  کی تعریف کیا ہے؟ ساری دنیا کے انسان ایک حکومت کے اندر آجائیں- ایک نظام کے ما تحت بن کر کام کریں اور اس نظام کے مقابلے پر اپنے رنگ و نسل، زبان، علاقوں اور فرقوں کو دوسرے درجہ کی حیثیت دیں- اپنے ملکوں اور شہروں کے بجاۓ اس ایک نظام کے دفاع کے لئے تیّار رہیں بلکہ اپنے ملکوں اور شہروں کے دفاع کے لئے بھی اسی نظام کی طرف دیکھیں اور اسی پر بھروسہ کریں -

یہ خواب بہت پرانا ہے اور نہ جانے کتنے حکمرانوں نے دیکھا اور ناکام ہوۓ-

مجھے یقین نہیں کہ پچھلی پندرہ صدیوں میں، خلافت راشدہ کے بعد سے، کسی مسلمان حکمران نے اس بارے میں سنجیدگی سے سوچا ہو- اسی سنجیدگی سے جتنی سنجیدگی سے ہمارے چاروں خلفاء راشدین سوچا کرتے تھے-  شاید اس میں الله کی کوئی حکمت ہو-  شاید انسانوں کواور مسلمانوں کو یہ سمجھانا مقصود ہو کہ اللہ بے نیاز ہے اس سے کہ کوئی اسے سجدہ کرے یا نہ کرے، اسکی رضا کے جئے یا مرے یا منہ پھیر لے-  اور یہ کہ الله کا دین تو دین فطرت ہے کلمہ پڑھنے والا ہو یا کافر یا بے دین، جو اس کے اصولوں پر عمل کرتا ہے کم از کم دنیا کی باگ دوڑ اپنے ہاتھہ میں لے لیتا ہے-

اور یہ کام شیطان نے بری فطرت کے انسانوں سے لے لیا-  

 اسلامی خلافت 

مسلمانوں کی  پہلی باقاعدہ خلافت کی بنیاد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مدینہ میں ڈالی- خلفاء راشدین کے زمانے تک یہ باقاعدہ طور پر پھیلتی رہی- یہ عرصہ مسلمانوں کے باقاعدہ عروج کی کہانی ہے- یہاں تک یہ خلافت وحدت تھی- 

کربلا کے واقعے کے بعد اس عروج کا زوال ہونا شروع ہوگیا- وحدت ختم ہوتی چلی گئی- خلافت آہستہ آہستہ بادشاہتوں میں بٹتی چلی گئی- 

عظیم سلطنتوں میں سے بر صغیر میں مسلمانوں کی مغلیہ سلطنت ١٨٥٧ میں جبکہ مسلمانوں کی سلطنت عثمانیہ ١٩٢٤ میں باقاعدہ طور پر ختم ہو گئی-ان دونوں کا اسلام کی روح اور اس کے مقاصد سے کوئی تعلق نہ تھا- دونوں سلطنتیں چونکہ عام مسلمانوں کے حق میں غیر فعال ہو چکی تھیں لہٰذا ان کا ختم ہونا ایک طبعی امر تھا- 

پاکستان کے وجود میں آنے میں کسی شاہی یا جمہوری نظام کا عمل دخل نہیں تھا- یہ فیصلہ خدائی فیصلوں کی ایک کڑی تھا، جو حضرت آدم علیہ السلام کو روۓ ارضی کی خلافت ملنے سے شروع ہوا اور محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم کی عرب قوم میں خلافت قائم کرنے پر ختم ہوا- اور یوں رسالت اور پیغمبری کے اور ذریعے زمین پر الله کا نظام قائم کرنے کا سلسلہ ختم ہو گیا- 

پاکستان کی بنیاد بننے والا دو قومی نظریہ کوئی نئی بات یا نیا فلسفہ نہیں تھا- یہ نظریہ تو جنّت میں ہی وجود میں آ گیا تھا- آدم بمقابلہ ابلیس- گھمنڈ بمقابلہ حلم- ضد بمقابلہ حکم- فرمانبرداری بمقابلہ نافرمانی- اچھائی بمقابلہ برائی- سورہ المجادلہ کی آیات کے مطابق حزب الله بمقابلہ حزب الشیطان- حق کے مقابلے پر باطل اور مومنین کی جماعت کے مقابلے پر کافروں کی جماعت- اور یہ دو قومیں ہمیشہ ایک دوسرے کے مقابل ہی کھڑی ہوں گی- 

ختم رسالت و نبوت کے کئی مطلب نکلتے ہیں- ایک مطلب تو یہ بھی نکلتا ہے کہ شیطان کے پاس انسانوں کو بہکانے کے تمام حربے ختم ہو چکے ہیں- اب سے لے کر قیامت تک وہ جو بھی چالیں چلے گا وہ پرانی چالوں کی ہی نئی قسم ہوں گی- اور ان سے نمٹنے کے لئے قرآن اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سیرت کافی ہیں- قیامت تک کے لئے  انسانیت کی بھلائی، شیطان سے مقابلہ، زندگی کے ہر شعبے کے قوانین، اخلاقیات- اور بھی جو کچھ ہے ان کا حل ان ہی دو چیزوں میں ہے-  

اس کا ایک اور مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ اب بنی آدم ہر لحاظ سے اس قابل کر دئیے گۓ ہیں کہ کسی رسول یا پیغمبر کی براہ راست شمولیت کے بغیر بھی قرآن اور سنّت کے مطابق حکومتیں چلا سکتے ہیں- ان انسانوں کا کوئی مسلہ ایسا نہیں بچا جس کے لئے جبریل علیہ السلام کے ذریعے رابطے کی ضرورت ہو- آدم علیہ السلام سے لے کر محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم تک انسان جن جن مسائل سے گزر سکتا تھا گذر گیا- شیطان کے حربوں کی طرح انسانوں کے مسائل بھی پرانی مصیبتوں کا نیا روپ ہوں گے- انکے گناہ بھی پرانے گناہوں کی نئی شکل ہوں گے- اور ان کی طرف سے اسلام کے نام پر پیش کے جانے والے نظام بھی پرانے نظاموں کی نئی صورت ہوں گے- 

اور یہ بھی کہ حق اور باطل کی جنگ اگر قیامت تک کے لئے ہےاور کوئی نبی بھی نہیں آنا تو پھر یہ تمام انسانوں کے لئے ایک کھلی للکار ہے- ایک گروہ الله کی بغاوت کا نظام نافذ کرنے کے لئے ہراساں اور پریشان اور دوسرا اس کے مقابلے پر الله کی فرمانبرداری کا نظام نافذ کرنے کے لئے بر سر پیکار- 

انٹرنیٹ کی ایجاد سے پہلے یہ سب کچھ سمجھنا آسان نہ تھا- لیکن آج انٹرنیٹ کی ہر کھڑکی کے ساتھ ماضی کا ہر دروازہ کھلتا چلا جاتا ہے- اور یوں آج اور کل میں فرق یا مشابہت تلاش کرنا کوئی مشکل کام نہیں رہ گیا- پچھلی چند دہایوں میں جو آزادی، علم، سائنسی شعور دنیا میں پھیلایا گیا ہے اس کی روشنی اتنی واضح ہے کہ کوئی وجہ اب مبہم نہیں رہی- اور جن کے پاس یہ آزادی، یہ علم اور اختیار ہے- ان کا احتساب بھی سب سے زیادہ ہے- 

عالمی نظام کی خصوصیات 

عالمی نظام چاہے دجال کا ہو یا اسلام کا- کچھ خصوصیات ایسی ہیں جن کے بغیر دونوں میں سے کوئی نظام بھی چل نہیں سکتا-

١- ساری دنیا کے انسانوں پر عملا یہ ثابت کر کے دکھانا کہ صرف یہی نظام ہے جو انکی جان، مال اور عزت کی ضمانت دیتا ہے- 
٢- ساری دنیا کے انسانوں کو عملی کوششوں کے ذریعے یہ یقین دلانا کہ اس نظام کے تحت آ جانے سے انکے عقائد، ثقافت اور طرز زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا سواۓ اسکے کہ وہ خود اسے تبدیل کرنا چاہیں- انھیں ہراساں اور خوف زدہ نہیں کیا جاۓ گا- اور نہ ہی ان کا مذاق اڑایا جاۓ گا- 
٣- ساری دنیا کے انسانوں کو اس سوچ پر متفق کرنا کہ ہرانسان دوسرے انسان اور ہر قوم دوسری قوم کی ضرورت ہے اور کوئی بھی ملک صرف اپنے وسائل پر گذارا نہیں کرسکتا- اور اس بناء پر ہر قوم کو دوسری قوم کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے ضروری ہیں- 
٤- ساری دنیا کو اس بات کا یقین دلانا کہ انکے ساتھ کسی جانبداری کے بغیر انصاف کیا جاۓ گا- 
٥- ساری دنیا کے انسانوں کو الله کی زمین پر چلنے پھرنے، کام کرنے کی آزادی دینا-
٦- ایک ایسا ماحول پیدا کرنا کہ جس میں نہ کوئی یہ خوف کھاۓ کہ اس کے ساتھ دھوکہ، فریب، جبر کیا جاۓ گا- اور نہ کوئی دوسروں کے ساتھ ایسا کرنے کا سوچے-  ایک ایسا معاشرہ تیّار کرنا جس میں سب کو یہ بھروسہ ہو کہ اس کی مجبوری کا فائدہ نہیں اٹھایا جاۓ گا-
 ٧- ایک ایسا ماحول ترتیب دینا جس میں انسانوں کے جمالیاتی ذوق کی تسکین ہوسکے- اور فطرت اپنی بھر پور کشش کے ساتھ الله کے تخلیقی قدرتوں کی مظہر ہو- 

وہ دینی لوگ جو بڑے ذوق و شوق سے اسلام کی عالمی خلافت اور شریعت کے نفاذ کا بیڑہ اٹھاۓ ہوۓ کبھی انہوں نے یہ سوچا ہے کہ دنیا کی آٹھہ ارب آبادی کو کس طرح ایک اسلامی حکومت کے تحت رہنے کے لئے آمادہ کریں گے؟ ابھی تو ان کو یہ بھی نہیں پتہ کہ پاکستان میں نفاذ شریعت ہوگیا تو اٹھارہ کروڑ کی آبادی کو کس طرح ساتھ ملاکر چلیں گے- حالانکہ غیر مسلموں نے تو یہ کر کے دکھا دیا- کوئی مانے یا نہ مانے-  مسلمان امن، خوشحالی، سکون اور بنیادی حقوق کی فراہمی کے لئے امریکہ یا مغربی ممالک کا رخ کرتے ہیں- 

قوموں، قبیلوں اور علاقوں میں کوئی نظام، عقیدہ، یا مسلک متعارف کرانے اور اس کے بل پر حکومت کرنے کا دور ختم ہونے جا رہا ہے-  ساری دنیا کے انسانوں کو ایک حکومت کے نیچے اپنی رضا اور خوشی کے ساتھ رہنے پر آمادہ کرنے کا سہرا امریکہ کے سر جاتا ہے- اس کے لئے مغربی دنیا نے کیا کیا قیامتیں ڈھائیں وہ الگ بات ہے لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ عالمی اسلامی خلافت پر یقین رکھنے کے باوجود کسی بھی جگہ کی مسلمان قوم میں یہ صلاحیت اور قابلیت نہیں تھی کہ ایک قوت برداشت رکھنے والا اور قانون کو فوقیت دینے والا معاشرہ قائم کر سکتے- آج کی دنیا کے معاملات سلجھانے کے لئے مسلمان کس حد تک سنجیدہ ہیں؟  ساری دنیا کے انسان غیر سنجیدہ اور بے یقین لوگوں پر مسائل کو حل کرنے کے معاملے میں کس حد تک بھروسہ کر سکتے ہیں؟ آج مسلمان قوم کا حال یہ ہے کہ مکّہ اور مدینہ میں بھی لوگ اپنے سامان کی طرف سے فکرمند ہوتے ہیں کہ چوری نہ ہو جاۓ - یہ تو اپنے گھروں، خاندانوں اور محلوں کو کوئی نظام نہیں دے سکتے- ایک ملک نہیں سنبھال سکتے تو پھر ساری دنیا کو کس طرح ایک حکومت دے سکتے-  جس امت کے لوگوں کے لئے اپنے گھر اور مسجدوں کو چلانے کے لئے کوئی معاشی منصوبہ بندی نہ ہو اس پر قدرت اور دنیا والے کس طرح عالمی معاملات چلانے کے لئے بھروسہ کر سکتے ہیں- جس دنیا پر خلافت کے مسلمان خواب دیکھہ رہے ہیں اس کے بارے ہیں تو یہ نہیں جانتے کہ اس زمین پر کتنی قومیں اور فرقے موجود ہیں، کتنی زبانیں بولی جاتی ہیں، کس ملک کے کس سے کیا تعلقات ہیں، انکی معیشت کیا ہے، انکا قدرتی ماحول کیا ہے- دنیا کے ماحولیات کو کس طرح صحت بخش بنایا جاسکتا ہے-دنیا میں کتنے غار ہیں، کتنے سمندر ہیں اور کتنے گہرےہیں-  ہوا کتنی اونچائی پر جاکر ختم جو جاتی ہے- کون سا پہاڑ کتنا بلند ہے- زمین کی سطح، سمندروں، پہاڑوں، غاروں کے اندر کون سے خزانے دفن ہیں؟ ان سارے کے سارے شماریات کے لئے غیر مسلموں کی کاوشوں پر توکّل کرنا پڑتا ہے-  نہ سوچ اپنی، نہ فکر اپنی، نہ تحقیق اپنی، نہ تجویز اپنی، نہ تدبیر اپنی- اور جو حرکت نظر آتی ہے تو اسکی وجہ بھی  اصلاح سے زیادہ انتقامی مہم اور مقابلہ بازی ہی ہوتی ہے- 

بس احادث میں بیان کی گئی کافروں کی تباہی اور بربادی کے قصّے پڑھ پڑھ کر خوش ہوتے رہتے ہیں کہ کافروں کی ساری کی ساری محنت بیکار جاۓ گی- لیکن یہ کبھی نہیں سوچتے کہ جو محنت ہی نہ کریں اور کافروں کی محنت پر ہی اپنی دنیا داری اور دینداری کی دنیا بسا لیں انکے ساتھ خدا کیا معاملہ کرے گا-  


عالمی اسلامی خلافت  اور عالمی دجالی نظام  

دجال کی عالمی حکومت اور اسلام کی عالمی خلافت - دونوں ایک حقیقت ہیں-  اور اس وقت ساتھ ساتھ چل رہی ہیں-  

ایک طرف رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی احادیث کے مطابق دجال کی حکومت کا جو حال احوال ہے آج ہم سب اس کا تجربہ کر رہے ہیں-  دجال کا کمال یہ ہے کہ اس نے گویا موسیٰ کی قوم سے فرعون ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالے اور انھیں پر بٹھا دیے- اس نے ہر مسلمان قوم میں اسی کے اندر سے حزب الشیطان ڈھونڈ کر اور تراش کر سیاستدانوں اور دوسرے کرداروں کی شکل میں کھڑے کر دئیے ہیں- حزب الشیطان کا ایک حصّہ جرائم، ظلم، جہالت، غفلت، نفرت پھیلانے میں مصروف ہے تو دوسرا حصّہ لوگوں کو تفکر، غور و فکر اور زندگی کے اصل مقاصد سے دور رکھنے میں کوشاں ہے- اور یوں جنگ اور قتل و غارت بڑھتا جا رہا ہے- 

"اور اگر تم نہ نکلو گے تو خدا تم کو بڑی تکلیف کا عذاب دے گا۔ اور تمہاری جگہ اور لوگ پیدا کر دے گا (جو خدا کے پورے فرمانبردار ہوں گے) اور تم اس کو کچھ نقصان نہ پہنچا سکو گے اور خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے"  

سورہ التوبہ ٣٩ 
دوسری طرف رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی احادیث کے مطابق دنیا کا کوئی کونا اور کوئی جھونپڑی ایسی نہ بچے گی کہ وہاں اسلام داخل نہ ہوا ہو- تو یہ بھی ہو رہا ہے-  آج انٹرنیٹ کے ذریعے ساری دنیا حج کے مناظر دیکھتی ہے، مسجد الحرام  اور مسجد النبوی میں کی جانے والی عبادتیں دیکھتی ہے- قرآن کی تلاوت، قرآن فہمی، احادیث کاعلم، پیغمبروں کی باتیں، صحابہ کی زندگیاں، مسلمانوں کی فتوحات، اور نہ جانے کیا کچھ ہے کہ جس سے اب کوئی لا علم نہیں-  غیر مسلم مسلمانوں کی سیرت کی وجہ سے نہیں اپنے مطالعے اور تحقیق کی بنا پر اسلام میں داخل ہو رہے ہیں- اور یہ خود کو ہر قسم کی مجبوری سے آزاد کر مسلمان ہو رہے ہیں لہٰذا اسلام ان کی طاقت بن رہا ہے- 


"اور (اے محمد! اس وقت کو یاد کرو) جب کافر لوگ تمہارے بارے میں چال چل رہے تھے کہ تم کو قید کر دیں یا جان سے مار ڈالیں یا (وطن سے) نکال دیں تو (ادھر تو) وہ چال چل رہے تھے اور (اُدھر) خدا چال چل رہا تھا۔

اور خدا سب سے بہتر چال چلنے والا ہے"
 سورہ الانفال - ٣٠ 

ابراہیم علیہ السلام کا حضرت ہاجرہ اور اسمعیل کو مکّہ میں تنہا چھوڑ جانا، فرعون کے محل میں موسیٰ علیہ السلام کی پرورش، رسول صلی الله علیہ وسلم کی مدینہ ہجرت، صلح حدیبیہ، کربلا کے واقعات، محمد بن قاسم کا سندھ فتح کرنا، پاکستان کا مسلمانوں کی غیروں سے آزادی اور الله کی غلامی کے نام پر وجود میں آنا- اور کافروں کے ہاتھوں گلوبلائزیشن- 

یہ ہوتی ہیں الله کی منصوبہ بندیاں- 

اوران سب کے ساتھ ساتھ امریکہ کا ایک طاقتور متحدہ حکومت کے طور پر ابھرنا، ایک اسلامی نظام خلافت کے کچھ اصولوں پر مبنی نظام کو ساری دنیا میں متعارف کروانا اور اس طرح کہ سارے انسان اس پر بھروسہ بھی کریں-امریکہ میں مساوات اور برداشت پر مبنی ایک معاشرہ تشکیل دینا- مسلمانوں کو اپنے عقائد کے مطابق جینے کی آزادی دینا- اور یہ سمجھ لینا کہ اس طرح مسلمان امن، سکون اور خوشحالی کے ماحول میں اپنے اپنے ملکوں سے لا تعلق ہوکر امریکہ کے وفادار بن جائیں گے اور اس طرح وہ ان ملکوں میں فساد برپا کر کے ان کے وسائل پر قبضہ بھی کر لے گا- 

یہ ہیں دجال کی چالیں-

امریکہ کے نظام کی کامیابی کی وجہ اسکے نظام میں اسلامی خصوصیات کا موجود ہونا اور ناکامی کی وجہ وہ ظلم اور چالیں ہیں جو وہ امریکہ کو ایک کامیاب اور نجات دھندہ حکومت ثابت کرنے کے لئے دنیا کے انسانوں پر کر رہے ہیں- اور اس مقصد کے لئے دنیا بھر کی قوموں میں انھیں میں سے شیاطین صفت لوگوں کو با اختیار بنایا گیا ہے-  اور جب یہ آپس میں نفرتوں اور تعصب کے تماشے کرتے ہیں تو امریکہ نجات دھندہ کے طور پر سامنے آ جاتا ہے-  

جو باتیں اقوام متحدہ کے منشور میں ہیں اور جو امریکہ کے قوانین میں ہیں وہ تو تقریبا وہی ہیں جو چودہ سو سال پہلے اسلام نے دنیا میں متعارف کرائیں- لیکن آج مسلمان اپنے اسلامی منشور سے زیادہ ان دونوں منشوروں کی پرواہ کرتے ہیں اور ان پر ہی بھروسہ کرتے ہیں- 

اب جو بھی صورت حال دنیا کی بن چکی ہے اس میں سے کسی ایک قوم کا بھی لا تعلق رہنا فضول ہے کیونکہ ہر ملک کا ہر انسان اس سے متاثر ہو چکا ہے-  الله بھلا کرے امریکہ کا کہ اس کی خارجہ پالیسیوں نے بقول اقبال "مسلماں کو مسلمان کردیا طوفان مغرب نے" ہر مسلمان کو اسکی زندگی کے اصل مقصد کی طرف راغب کردیا-  ورنہ مسلمان قوموں نے تو آدھی سے زیادہ دنیا پر پھیلی ہوئی اپنی ہی حکومت کو کھو دیا یہ غیر مسلم دنیا کو اپنے ساتھ ملا کر کیسے چلتے-  اس نیو ورلڈ آرڈر نے مسلمانوں کا کام آسان کردیا ہے- لوگوں کے ایک دوسرے کے ملکوں اور رہنے سہنے کے حال احوال جان لئے ہیں- ایک دوسرے کے کھانے چکھ لئے ہیں- ایک دوسرے کے مذاہب اور عقائد کے بارے میں جان لیا ہے-  دنیا کی جغرافیائی شکل بھی دیکھ لی کہ دنیا کے ایک حصّے سے دوسرے حصّے تک کتنے سمندر، دریا، جھیلیں، صحرا اور پہاڑ آتے ہیں اور انھیں کس طرح پار کرنا ہے-  ہر جگہ کے موسم اور اوقات بھی معلوم کر لئے-  لہٰذا اب کرّہ ارض پر کسی ایک نظام کی اجارہ داری قائم ہونا کوئی خواب نہیں رہ گیا- یہ حقیقت ہے کہ ابھی مسلمان ملکوں کی تباہیوں کے نتیجے کے طور پر مزید مسلمان مغربی ممالک کا رخ کریں گے-  اور بالآخر ایک مرتبہ تو ساری دنیا کچھ دنوں کے لئے کفر کے جھنڈے تلے جمع ہو ہی جاۓ گی-  جس کا مقصد اسکے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ دنیا کی آبادی کو اسلامی خلافت سے پہلے ہی ساتھ مل کر رہنے کا تجربہ ہو جاۓ- ایک مرکز کی طرف دیکھنے کی عادت پڑ جاۓ- اس طرح عالمی خلافت کے لئے ہونے والے معرکے میں اسلامی طاقتوں کے مقابلے پر صرف اک ہی طاقت ہوگی -  اور اس کی شکست اسکے تمام شریکوں کی شکست ہوگی-  







Wednesday 5 February 2014

یوم یکجہتی کشمیر

بہت حیرت ہوئی یہ دیکھ کر کہ بہت سے پاکستانی آج یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر ہندوستانی فلمیں دیکھ کر چھٹی منا رہے ہیں-  ڈرون  اور خود کش حملوں سے، را، موساد اور ایف بی آئی سے اور پاکستان کے سیاستدانوں سے زیادہ مہلک اور خطرناک ہے یہ بے حسی- کشمیریوں کا مذاق تو کسی اور دن بھی اڑایا جا سکتا ہے- 


.

Sunday 2 February 2014

The Beautiful Words of Allah, The Exalted

May I be among those who will see on the Day of Judgement the Wonderful God who created them and planned for them life and death - and wish same for my parents, my brothers and sisters and our children and grandchildren.  Ameen!


.