Tuesday, 17 October 2017

معیشت کا بہترین نظام

انسان روزگار تلاش کیوں کرتا ہے؟
اسکی ایک وجہ تو یہ ہے کہ محنت کرنا ، کام کرنا انسان کی فطرت ہے-  سوره البلد میں ارشاد ہوتا ہے- 
"بے شک ہم نے انسان کو تکلیف میں رہنے والا بنایا"

دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ زندگی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے کمانا-  اور تیسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ضروریات سے بڑھ کر کچھ حاصل کرنا-  ساری ضروریات اور اس سے بڑھ کر نعمتیں رزق کہلاتی ہیں- اور رزق ہر وہ چیز یا نعمت ہے جسے انسان کھاتا پیتا، پہنتا اوڑھتا اور استعمال کرتا ہے-  اور قرآن میں بار بار انسان کو اس بات کا یقین دلایا گیا ہے کہ رزق الله سبحانہ و تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے-  وہ جس کو چاہے زیادہ دیتا ہے اور جسے چاہے کم-  اور یہ کمی اور زیادتی 'حصّہ' کہلاتی ہے جس کے لئے عربی میں لفظ ہے 'نصیب'-  یعنی انسان کے نصیب میں کتنا رزق ہے یہ الله سبحانہ و تعالیٰ کے کنٹرول میں ہے-  جب چاہے جس کے لئے زیادہ کردے اور جس وقت چاہے اور جس کے لئے کم کردے- 

دنیا میں صنعتی انقلاب آنے سے پہلے دنیا کی اتنی خراب حالت نہیں تھی جتنی اب ہوگئی ہے-  کڑوروں کی تعداد میں فیکٹریوں اور کارخانوں نے ماحولیات کو نقصان پہنچایا، ہوا، پانی اور مٹی کو آلودہ کردیا یہاں تک کہ یہ آلودگی اب موسموں پر اثر انداز ہونے لگی ہے-  ماس پروڈکشن کے وجہ سے قدرتی وسائل برے طریقے سے ضائع ہونے لگے-   نئی نئی ایجادات نے اور ستم ڈھایا-  آج دنیا کی معیشت حرص و ہوس کا شکار ہو کر دولت کے پجاریوں کے ہاتھ میں جاچکی ہے-  آج دنیا کی معیشت جن بنیادوں پر چل رہی ہے اسکے لئے ضروری ہے کہ دنیا کی تمام انسانوں میں مثبت صفات کا خاتمہ کر کے مقابلہ بازی، ریاکاری، لالچ اور خودغرضی پیدا کی جاۓ-  انسانوں کو کسی بھی دنیاوی اور اخروی احتساب سے غافل کر کے صرف دنیا کے معاملات میں الجھا دیا جاۓ-  ترقی کے نام پر سہولیات کا اس طرح عادی بنادیا جاۓ کہ اگر یہ سہولیات کچھ دیر کے لئے بھی چھن جائیں تو انسان بے چین اور حواس باختہ ہو جاۓ- انہی سہولیات کی حسرت میں زندگی گزاردے-  اور انہی سہولیات کو حاصل کرنے کے لئے اپنی تمام توانائی اور وسائل صرف کردے-  

سورہ التکاثر میں الله تعالیٰ فرماتے ہیں- 
"تمہیں غافل رکھا مال کی زیادہ طلبی نے-  
یہاں تک کہ تم نے قبروں کا منہ دیکھا..."

زیادہ دولت کمانے میں برائی نہیں- کیونکہ زکواة جو کہ اسلام کا معاشی ستون ہے، فرض ہی تب ہوتی ہے جب انسان کے پاس ضرورت سے زیادہ بچ جاۓ اور اس کو بھی پورا سال گزر جاۓ-  ترقی کرنے میں برائی نہیں-  کیونکہ خود قرآن کہتا ہے کہ ساری دنیا انسان کے لئے مسخر کر دی گئی ہے= جس میں وجہ چلے پھرے اور رزق تلاش کرے- الله کی قدرتوں کو پہچانے- لیکن انسان کو الله سبحانہ و تعالیٰ کے نظام قدرت کو تباہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی-  لہٰذا برائی تو اس رویے میں ہے جو الله سبحانہ و تعالیٰ کے نظام قدرت کو برباد کرتا ہے-  اور معاشی ذرائع کو خصوصا معاشرے میں بدامنی، غربت، جہالت اور کفر پھیلانے کے لئے استعمال کرتا ہے-  

سوره طہ کی ایک سو چوبیس آیہ میں الله سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ 
"اور جو کوئی میری یاد سے رو گردانی کرتا ہے 
اس زندگی تنگ کردی جاتی ہے..."

آج دنیا کے زیادہ ترمعاشروں میں ظلم، کفر، جہالت، غربت، بدامنی کا دور دورہ ہے-  انسان زیادہ سے زیادہ کے حصول میں ہر وہ چیز کھو بیٹھا ہے جس کی وہ تمنا کرتا ہے-  ذہنی اور نفسیاتی حالت یہ ہوگئی ہے کہ اکثریت کو یہ سوچنے کا وقت ہی نہیں کہ انکے ساتھ کیا ہوگیا، کیا ہورہا ہے اور کیا ہونے جارہا ہے-  لوگوں سے اگر یہ پوچھا جاۓ کہ آپکو روزگار کی تلاش کیوں ہے تو شاید انکو اس کا بھی صحیح جواب نہ پتہ ہو- زیادہ سے زیادہ تعداد اور مقدار میں مصنوعات,  برانڈز اور اشیاء بنانے کے لئے بے دریغ قدرتی وسائل کا استعمال، پھر انکو زیادہ سے زیادہ تعداد اور مقدار میں بیچنے کے لئے مختلف طریقے اختیار کرنا-  لوگوں کو دنیا و ما فیھا سے بے خبر کر کے صرف اور صرف خریدار اور بیوپاری بنادینا- اور پھر جو بچ جاۓ اسے ضائع کردینا-  کیا اسی کا نام معیشت ہے؟  اتنی بے جا اسراف کے ساتھ کیا کبھی کسی معیشت کو قائم رکھا جا سکتا ہے؟  کبھی کسی معاشرے میں خوشحالی آسکتی ہے؟  

معیشت کا سب سے بہترین نظام رسول الله صلی الله علیہ وسلّم نے آج سے چودہ سو سال پہلے قائم کر کے دکھایا-  اور وہ بھی صرف تئیس سال کے عرصے میں-  سود کے بغیر-  قرضوں کے بغیر-  کسی حرص اور لالچ کے بغیر-  کسی استحصال کے بغیر-  فحاشی و عریانی کے بغیر-  کسی غیر اخلاقی اور غیر قانونی ذرائع کے بغیر-  حلال اور پاکیزہ روزگار کے مواقع فراہم کرنے والا معاشی اور سیاسی نظام-     

Saturday, 30 September 2017

کرپشن سے پاک پاکستان


اور بے شک ہر امّت میں سے ہم نے ایک رسول بھیجا- (یہ کہتا ہوا) کہ ایک الله کی عبادت کرو اور کنارہ کش ہو جاؤ تمام جھوٹے ممبودوں سے- تو ان میں سے کچھ کو الله نے ہدایت دی اور کچھ پر گمراہی ٹھیک اتری- تو زمین میں چل پھر کر دیکھو کیسا انجام ہوا جھٹلانے والوں کا
(سوره النحل، آیات ٣٦)

آج سے ١٤٣٩ سال پہلے عرب کا معاشرہ بھی اخلاقی اور قانونی جرائم سے بھر پور تھا-  حضرت جعفر طیّار نے جب نجاشی کے دربار میں تقریر کی تو اپنے معاشرے کی برائیاں بیان کرنے کے بعد کہا کہ 

کہ پھر الله نے ہم میں سے ایک شخص اٹھایا جس کی سچائی، ایمانداری 
اور پاکیزگی کے ہم گواہ تھے- اور اس نے ہمیں الله کی وحدانیت کا درس دیا 
ہمیں الله کے ساتھ شریک بنانے سے منع کیا اور بتوں کی پوجا کرنے روکا  

ایمان مفصّل کے سات ارکان ہیں 
میں ایمان رکھتا/رکھتی ہوں الله پر، اسکے فرشتوں پر، اسکی کتابوں پر 
اسکے رسولوں پر، اور آخرت کے دن پر، اور اس بات پر کہ مقدّر کی 
اچھائی اور برائی الله کی طرف سے ہے، اور مر کر اٹھائے جانے پر 

پہلا کام جو رسول الله صلی الله علیہ وسلّم نے کیا وہ تھا ہی یہی کہ انسان اپنے سچے معبود کو پہچان لے- اپنی زندگی اور موت، اپنے رکوع اور سجدوں، اپنے فائدے اور نقصان اور تقدیر کے تمام معاملات کے لئے الله ساتھ تعلق جوڑ لے-   جس انسان کا تعلق الله تعالیٰ سے قائم ہو جاتا ہے تو اسے اپنے ذاتی فائدے اور نقصان سے زیادہ اس نظام کو بچانے کی فکر جو جاتی ہے جو تمام انسانوں کے لئے فلاح و نجات کا باعث بنے-  سچے معبود اور جھوٹے معبودوں کے درمیان فرق صرف عقیدے کی بنیاد پر ہی نہیں بلکہ عقل اور سائنس کی بناء پر بھی ثابت کیا جا سکتا ہے جیسے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کیا 

بھلا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو اس (غرور کے) سبب سے کہ 
خدا نے اس کو سلطنت بخشی تھی ابراہیم سے پروردگار کے بارے میں 
جھگڑنے لگا۔ جب ابراہیم نے کہا میرا پروردگار تو وہ ہے جو جلاتا اور 
مارتا ہے۔ وہ بولا کہ جلا اور مار تو میں بھی سکتا ہوں۔ ابراہیم نے کہا کہ 
خدا تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تم اسے مغرب سے نکال کر 
دکھادو(یہ سن کر) کافر حیران رہ گیا اور 
خدا بےانصافوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا 
سوره البقرہ، آیة ٢٥٨ 

ایک عام انسان دوراندیش نہیں ہوتا- اس کی عقل صرف طاقت اور قوّت کے مظاہرے اور فائدے اور نقصان کی بنیاد پر ہی کسی کو خود سے برتر تسلیم کرتی ہے-  چاہیے وہ خاندان میں کسی کو امین ماننے کی بات ہو یا کسی قبیلے میں کسی کو سردار ماننے کا مسلہ ہو یا قوم میں کسی کو رہنما تسلیم کرنے کا معاملہ ہو یا مذہب میں خدا کے وجود کا تصوّر- الله تعالیٰ بھی جب زلزلوں اور طوفانوں کی صورت میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں تو سب اپنے صدروں، وزیراعظموں، سرداروں، چودھریوں، وڈیروں اور علماء اور انکے بناۓ ہوۓ نظاموں کو چھوڑ کر اپنی اپنی عبادت گاہوں کر رخ کرتے ہیں- اسی لئے رسول الله صلی الله علیہ وسلّم نے جس نکتہ پر سب سے زیادہ کام کیا وہ تھا ہی یہی لا الہ الّا اللہ

سوره النّاس میں بیان ہوتا ہے کہ 
میں پناہ مانگتا ہوں انسانوں کے رب کی 
انسانوں کے بادشاہ کی، انسانوں کے معبود کی  
یعنی سائیں بھی الله، بادشاہ بھی الله اورعبادت کے لائق بھی الله 

پاکستان میں سیاست دانوں نے جو جمہوری تماشہ لگایا ہوا ہے وہ بھی فرعون، نمرود، شدّاد  اور یزید کے نظریات کا ہی تسلسل ہے - ان سیاست دانوں کا ساتھ دینے والے تاجر، وکیل، صحافی، ججز، ڈاکٹرز، انجینئرز، استاتذہ، اداکار، گلوکار، مصنّف، شاعر،  پولیس، سردار،وڈیرے، چودھری اور علماء وہ مہرے ہیں جو ان سیاست دانوں کو جھوٹا معبود ثابت کرنے میں مدد دیتے ہیں-  کہ یہی ہے جو تمھارے رزق پر قادر ہے اور تمہیں روٹی، کپڑا اور مکان دلا سکتا ہے- یہی ہے عزت و ذلّت کا مالک جو تمہیں دنیا میں ترقی دے سکتا ہے- یہی ہے وہ عالم جو تمہیں جہنّم سے نجات دلوا سکتا ہے اور جنّت میں داخل کرواسکتا ہے- کیونکہ جو لوٹ مار ان سیاسی اور دینی بادشاہوں نے مچائی ہوتی ہے اس میں سے انھیں بھی حصّہ ملتا ہے- کچھ نہ کرنے کی صلاحیت یعنی نا اہل ہونے کے باوجود یہ سیاست دان اور علماء سب کچھ کرنے کے دعوے کرتے ہیں اور یہ مہرے ان کا سہارا بنتے ہیں-  کبھی حزب اقتدار بن کر اور کبھی حزب اختلاف بن کر- یہ سیاست دان فرعون، نمرود اور شدّاد کی طرح صرف اپنی سیاسی بادشاہت بچانے کی فکر میں ہوتے ہیں-  انہی کی طرح بے حس اور بے غیرت بن کر عوام کے ٹیکس پر شاہانہ زندگی گزارتے ہیں اور انہی کی طرح اس سیاسی بادشاہت کو اپنی نسلوں اور خاندانوں تک محدود رکھتے ہیں-  اور یہ سارے کے سارے وہی جھٹلانے والے لوگ ہیں جن کا ذکر قرآن میں بار بار آیا ہے- کہ وہ عقل پکڑیں اور سدھر جائیں- لیکن جیسے کہ حضرت علّامہ اقبال رحمة الله علیہ نے فرمایا کہ 
نہ ہو طبیعت ہی جن کی قابل وہ تربیت سے نہیں سنورتے 
ہوا نہ سرسبز رہ کے پانی میں عکس سرو کنار جو کا 

کیا فرق ہے نواز شریف، زرداری، الطاف حسین، مغل بادشاہوں، فرعون، نمرود، شدّاد اور یزید میں؟  نام اور زمانہ بدلنے سے کردار نہیں بدل جاتے اور نہ ہی انکے انجام-  ہر فرعون اور نمرود اور یزید کے کردار والے  شخص کے مقابلے پر کوئی نہ کوئی موسیٰ اور ابراہیم اور حسین کے کردار والا شخص موجود ہوتا ہے-   یہ دو قومی نظریہ کرداروں کی شکل میں ہمیشہ سے ہے اور رہے گا کیونکہ یہی تو اعمال کو اور نیّتوں کو پرکھنے کا پیمانہ ہے-  فرق یہ ہے کہ یہ جھوٹے خدا اور انکو سہارا دینے والے آج بھی اتنے اہل ہیں کہ ساری کی ساری قوم کی توجہ اور وسائل اپنے اوپر ضائع کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کیوں کہ انکو کام ہی یہ دیا گیا ہوتا ہے کہ اپنی اور قوم وقت اور وسائل کسی طرح بھی ضائع کرنا ہیں اورانکی تربیت بھی یہی کی جاتی ہے- کیونکہ اسی طرح کسی بھی ملک کی عوام کو غافل کروا کر ہی تو اسلام دشمن طاقتیں اپنے عزائم پورے کرتی ہیں

جس معاشرے میں عوام اپنے رب کو بھول کر اپنے فائدے اور نقصان کے لئے اپنے ہی جیسے انسانوں کی طرف رجوع کرے تو وہاں کے حالات ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے آج پاکستان کے ہیں-  لوگ کسی ایک انسان کو جھوٹا معبود بنا کر اسی کی حفاظت میں لگ جاتے ہیں جیسے عرب کے لوگ اپنے بتوں کی حفاظت خود کیا کرتے- جس طرح سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کی قوم کو معلوم تھا کہ یہ بت کسی فائدے یا نقصان پر قدرت نہیں رکھتے بلکہ یہ بت انہوں نے خود تراشے ہیں اور خود انکی کم عقلی کی وجہ سے پتھر سے خدا بن گئے ہیں- اسی طرح پاکستان کی عوام کو بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ نواز شریف، زرداری، الطاف حسین اور ان جیسے کتنے ہی جھوٹے خدا کسی چیز پر ذرّہ برابر قدرت نہیں رکھتے اور کسی فائدے اور نقصان کے مالک نہیں- اور نواز شریف، زرداری، الطاف حسین جیسے کردار انہوں نے خود منتخب کئے ہوتے ہیں  اور خود عوام کی اپنی غفلت اور جہالت کی وجہ سے عام آدمی سے خاص بن گئے ہیں-  یہ تو خود عوام کی دولت سے اپنی جان کی حفاظت کے لئے  بلٹ پروف گاڑیاں خریدتے ہیں اور قوم کے محافظوں کو اپنے خاندان کا چوکیدار بنا دیتے ہیں- عوام کے بھکاری عوام کو کیا دے سکتے ہیں 

رسول الله صلی الله علیہ وسلّم نے بت تراش کرعوام کو نہیں دیئے بلکہ کردار تراشے- اور سخت ترین حالات میں بھی علی اور ابوبکر اور عمر اور عثمان اور بلال اور بیشمار اعلیٰ  اور بے مثال کردار دنیا کو عطا کے- اور ان کرداروں نے کسی شخصیت کو نہیں بلکہ ایک  نظام کو مظبوط کیا- کیونکہ انھیں صرف اپنی ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کی بھلائی منظور تھی اور یہی انسانیت کی فلاح و بہبود انکی زندگی کا مقصد تھا- کسی ادارے سے ڈگریاں نہ لینے کے باوجود انھیں یہ بات سمجھ آ گئی تھی کہ انسان تو باقی نہیں رہتا لیکن اس کا دیا ہوا نظام پیچھے آنے والے انسانوں کی فلاح کا ضامن ہوتا ہے

گو کہ ان جھوٹے خداؤں کا انجام فرعون، شدّاد، نمرود اور یزید سے کچھ مختلف نہیں ہوگا جو عبرت اور ذلّت کا نشان بن چکے ہیں لیکن ان کے پاس یہ سب باتیں سوچنے کا وقت ہی نہیں ہے-  دوسری طرف عوام کے پاس بھی وقت نہیں کہ وہ یہ سمجھے کہ کہ نواز شریف، زرداری اور الطاف حسین جیسے جھوٹے خدا سورج کو مغرب سے نکال کر دکھانے میں ناکام ہو چکے ہیں اور اب اس سے پہلے کہ عوام ان سے ان کے وعدوں کا اور انکے فرائض منصبی کا حساب لینے کے لئے جاگے، یہ اپنے جھوٹے معبودوں کے ساتھ مل کر پہلے ہی عوام کے لئے آگ کا الاؤ تیّار کر چکے ہیں

آگ ہے اولاد ابراہیم ہے نمرود ہے 
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے؟  

الله تعالیٰ پاکستان کی زمین کو، پاکستان کی ہواؤں کو، پاکستان کے پانیوں کو، ایک لمبے عرصے کے لئے سمجھدار، مخلص، صادق و امین قیادتیں اور رہنما عطا فرمائے اور  پاکستانی عوام کو ایسے لیڈرز کو پہچاننے کی اور انکی قدر کرنے کی اور انکی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے- آمین 



Friday, 25 July 2014

Night of Power - Night of Pakistan

Just got this feeling on the 27th Night of Ramadan - The Night of Power, 
Gaza is in the process of setting another example of "TNT - Two Nation Theory" on international level.  All good regardless of their race, colour, faith and nationality are gathering up against all evils.

Just wonder if TNT in the Sub-Continent can produce Pakistan, 
what would TNT on international level will end up with, 
surely the "Islamic Renaissance", 
Global Islamic Rule. 

Monday, 26 May 2014

Unified Educational System - یکساں تعلیمی نظام

ہمارے ملک میں تعلیم کی منصوبہ بندی کی جتنی  کمی ہے اس سے کہیں زیادہ زندگی کی منصوبہ بندی کی کمی ہے- تعلیم کا معیار جتنا کم ہے تربیت کا معیار اس سے بھی کم- جتنا تعلیمی نظام بگڑاہواہے اس سے زیادہ سماجی اورسیاسی نظام بگڑا ہوا ہے- حالانکہ تعلیم سے پہلے ان سب چیزوں کا درست ہونا ضروری ہے- یعنی زندگی کی منصوبہ بندی,  تربیت کا معیار اور مضبوط سماجی اورسیاسی نظام- 

ارسطو نے کہا کہ "دل کی تربیت کیے بغیر ذہن کو تعلیم دینا تعلیم نہیں کہلاتا"-  

 اسی لئے رسول الله پر پہلی آیت "اقراء یعنی پڑھو" اتری-  لیکن کسی تعلیمی ادارے کی بنیاد نہیں ڈالی گئی بلکہ تیرہ سال صبر و برداست، مساوات، اخوّت، رواداری اور ایک دوسرے کے حقوق کے تحفّظ کی تربیت دی گئی-  ہم میں سے کتنے ہیں جو ڈگری یافتہ کے لئے اٹھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں-  اور کتنے ہیں جو عبدالستار ایدھی کے نام پر احتراما آنکھیں بھی جھکا لیتے ہیں اور اٹھ کر کھڑے بھی ہو جاتے ہیں-  

ہمارے ہاں عام تعلیم کی حد میٹرک یعنی دسویں جماعت ہے- اسکی ایک وجہ لوگوں کے معاشی حالات  ہیں اور کچھ انکی زندگی میں منصوبہ بندی کی کمی-  جو انھیں لڑکوں کو آگے پڑھانے کی اجازت نہیں دیتےاور وہ کسی کام سیکھنے پر بٹھا دئے جاتے ہیں- لڑکیوں کی شادی ہوجاتی ہے یا منگنی- پھر وہ جب موقع ملے پرائیوٹ ہی پڑھتی ہیں- اکثر پرائیوٹ اسکول میں میٹرک یا انٹر پاس لڑکیوں کوٹیچرز رکھا جاتا ہے جو کم تنخواہ پر کام کرنے پر راضی ہو جاتی ہیں- دوسری وجہ تعلیم کی اہمیت کو نہ پہچاننا- اکثریت اسے اسکول کالجز کی کاروائی سمجھتی ہے, جس میں امتحان پاس کرنا ایک بڑا مرحلہ ہوتاہے- اور جو اہمیت بتائی جاتی ہے اسکے مطابق ملازمتوں کا نہ ملنا- کم عمر میں کم تعلیم اوربے تربیتی کے ساتھہ آگے بڑھنے کاراستہ بدعنوانی ہوتا ہے- 

میٹرک پاس بچوں میں ان صلاحیتوں کی ازحد کمی ہوتی ہے جو ایک لڑکا یا لڑکی میں پندرہ سولہ سال کی اسکولنگ اور گھریلو تربیت کے نتیجے میں ہونی چاہئیں-  سوچ, رکھہ رکھاؤ, انفرادیت, معلومات عامہ, آگے بڑھنے کا جذبہ, بہتری کی خواہش, مسائل کو سمجھنا انکا حل تلاش کرنا, منصوبہ بندی کرنا, خودانحصاری- 

ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ نویں جماعت سے جومضامین کی گروپنگ کی جاتی ہے اور اس میں موجود مواد کا انتخاب  اکثر بے فائدہ ہوتا ہے- مثال کے طور پر سائنس گروپ کے بچے ایجوکیشن, سیاسیات, معاشیات کے تصور سے بھی ناآشنا ہوتے ہیں بلکہ اسے فضول سمجھتے ہیں- حالانکہ ایک سائنس کے طالب علم کو کمانا تو ہوتا ہی ہے, اس کا تعلق ملکی سیاست اور تعلیمی نظام سے بھی ہو تا ہے, لوگوں کی نفسیات سے بھی ہوتا ہے-  

خاص طورپر ان بچوں کے لئے جنھوں نےمیٹرک کے بعد تعلیم کو خیرآباد کہہ دیناہو- لازمی ہے کہ وہ ضروری مضامین کے بنیادی تصور اور انکی حقیقی زندگی میں کارآمد ہونے سے واقف ہوں-  

آٹھویں جاعت کابچہ عموما تیرہ چودہ سال کاہوتا ہے- اگر نویں اور دسویں یعنی دو سال مضامین کی گروپنگ کے بجائےایک ایسا تعلیمی کورس مرتب کردیا جائے جس میں موجود مواد انکے کام کاہو تو تعلیمی نظام اورسماجی نظام دونوں میں بہتری آسکتی ہے-  فوری طور پر حکومتی سطح پر تو تبدیلی ناممکن ہے- لیکن دن بہ دن بڑھتی ہوئی آزمائشوں کا آسانی سے مقابلہ کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی نئی راہ تو نکالنی چاہیے-  لوگوں کے ذہنوں کو بہتر تبدیلی کے لئے آمادہ کرنا شاید دنیاکاسب سے مشکل کام ہوتاہے- باہر ممالک کی طرح اگر ایک سال یا دو سال کا  آکیوپیشنل اسٹڈیز کا انٹینسو کورس جس میں کتابوں سے زیادہ تحقیق, بحث اور لکھنا شامل ہو متعارف کرائے جاسکتے ہیں۔۔۔ جس سائنس, آرٹس, کامرس, کمپیوٹر کے علیحدہ مضامین کی تقسیم کے بجائے پروفیشنل اسکلز کو ابھارنے پر مرکوز کیا جائے۔-  کیونکہ ابھی تو حال یہ ہے کہ ہمارے ببیچلرز اور ماسٹرز کوبھی ملازمت کی درخواستیں نہیں  لکھنی آتیں-  

یکساں تعلیم کا کوئی بھی آئیڈیا فضول ہے اگر وہ عام لوگوں کو ملک کے سیاسی  اور سماجی عمل میں حصہ لینے کا اوراقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کا موقع فراہم نہ کرے-  لہذا پاکستان میں امن, ترقی, خوشحالی اور مضبوط  دفاعی طاقت کے لئے یکساں تعلیم کے ساتھہ ساتھہ  قوانین میں تبدیلی یا نئے قوانین ضروری ہیں-  مثلا سیاسی عمل میں حصہ لینے کے لئے انٹرمیڈیٹ کے ساتھہ سیاسیات, بین الاقوامی تعلقات, معاشیات کا علم لازمی ہو- امیدوار لازمی طور پر حکومت پاکستان سے سند یافتہ ہو۔۔۔ لازمی طور پر پاکستانی قومیت رکھتا ہو- اپنے علاقے میں اسکا کردار کیا ہے-   ذریعہ آمدنی, ذاتی اثاثے کیا ہیں-  

ایک یکساں یا قومی تعلیمی نظام کے لئے ضروری نہیں ہوتا کہ مضامین اور موضوعات سب کے لئے لازمی ہوں- بلکہ ایسا نظام تعلیم جس میں مختلف عقائد, مختلف نظریات اور مختلف زبان بولنے والوں کے لئے چوائس موجود ہو- اوریہ کسی کے لئے بھی علم وہنر سے متعلق بنیادی معلومات فراہم کرسکے- لیکن ہوں مرکزی حکومت کے کنٹرول میں-  دنیا کا کوئی ملک اورکوئی نظام اس سے زیادہ یونیفائیڈ تعلیمی نظام نہیں دے سکتا-  

اگر کسی جگہ کے لوگ ایک زبان بولتے ہوں, انکے عقائد ایک ہوں اور نظریات میں بھی فرق نہ ہو- اسکے باوجود بھی وہ اس سے زیادہ یکساں تعلیم کا تصور نہیں دے سکتے-   کیونکہ بہرحال اگرانھوں دنیا کی باقی قوموں کے ساتھہ معاشی اور سیاسی روابط رکھنے ہیں توپھران کے نظام اور نظریات کو کسی حد تک اپنے تعلیمی نظام کا حصہ بنانا پڑے گا-  اور یہ کوئی نیا آئیڈیا نہیں-  دنیا کے بہت سے ملکوں میں یہ نظام موجود ہے- اور غیر اسلامی بھی نہیں-   

کیا پاکستان میں مدرسے, سرکاری اسکول, پرائیویٹ اسکول, آغا خان سسٹم, اولیولز, خیراتی اسکول, یتیم خانے, سیاسی شخصیات کے اسکول اور ہوم اسکولنگ مرکزی حکومت کے تحت کام نہیں کر سکتے؟  کرسکتے ہیں اگر بنیادی تعلیم کے علاوہ پرائیویٹ اسکولز کے مشکل, مہنگےاور درآمد شدہ سلیبس کو اور مدرسے کے کورسزکو ایڈوانس مضامین کی فہرست میں ڈال دیا جائے-   اس طرح بنیادی تعلیم تو سب کے لئے ایک جیسی ہو گی لیکن ایلیٹ, غیر ملکی, مذہبی, صوبائی یا اور دوسری زبانیں بولنے والوں کے لئے اختیاری مضامین کی شکل میں چوائس موجود ہوگی-  اہم بات یہ ہوگی کہ سند حکومت پاکستان کی ہو-   اس کے لئے جگہیں بدلنے کی بھی ضرورت نہیں-  اپنے اپنے اسکولوں، مدرسوں، گھروں میں تعلیم حاصل کریں اور امتحانات دیں- اسکا مطلب یہ بھی نہیں کہ تعلیمی اداروں کو نیشنلائز کردیا جائے-  پرائیویٹ اسکول کالجز, مدرسے- سب اپنی جگہ پر بنیادی تعلیم کا سرکاری ریکوائرمنٹ پوری کریں۔۔۔ پھر طلبہ چاہیں جو مضامین ایڈوانس لیول پرپڑھیں-  

اسکے فوائد کیا ہونگے-
١) سارا کا سارا تعلیمی نظام ایک مرکز کے تحت کام کرے گا-  جس سے مرکزی حکومت کو اہمیت حاصل ہو گی, وہ مضبوط بھی ہوگی-

٢) علمی بنیادوں پرلوگوں کی تقسیم اور تفاخر بہت حد تک کم ہو جائے گی-  کیونکہ تمام کے تمام مضامین پر تعلیمی اسناد پہ ٹھپہ یاسیل مرکزی حکومت کی ہو گی-  

٣) پاکستان میں سب سے بڑا تعلیمی فرق مدرسہ اور اسکولز کی تعلیم میں ہے- ایک کو شرعی تعلیم کہہ کر محدود کردیا- دوسرے کو جدید تعلیم کہہ کر کفر یا غیر شرعی یا دنیاوی قرار دے دیا-  پاکستان کے ماحول میں دینی اور ماڈریٹ کا فرق بھی کچھہ کم ہوگا-  اوردینی لوگوں کی آئے دن کے نفاذ شریعت کی دھمکیوں کا زور بھی کم ہوگا-  اور دونوں قسم کے لوگ ایک ہی مرکز تلےآجائیں گے-  

٤) صوبوں کے درمیان تعلیمی فرق بھی کم رہ جائے گا-  ایک صوبے کے رہنے والے کو دوسرے صوبے میں جاکر تعلیمی سلسلہ بدل جانے کی شکایت نہیں ہوگی- خیراتی اسکولوں اور فلاحی اداروں کے بچوں کا کم از کم علمی بنیادوں پر احساس محرومی ختم ہوجائے گا-  انکے پاس بھی کیونکہ  سرکاری سند ہوگی- 

٥) پھر یہ کہ پرائیویٹ یا ہوم اسکولنگ والے بچوں کے لئے جو سائنس نہ لینے کی پابندی ہے وہ بھی ختم ہو جائے گی کیونکہ سائنس تو میٹرک تک لازمی ہی ہوگی-  

یہ سب کرنا آسان نہیں- 

پہلا مسلہ ہیں ہمارے سیاست دان-  چوں کہ ہمارا حکمران طبقہ جاہل اور ذہنی طور پر غلامانہ سوچ رکھتا ہے وہ امریکہ اور مغربی دنیا کےاشارے کے بغیر کچھہ نہیں کرتا-  اس لئے عوام کو ہی شور مچانا پڑے گا-   اپنے اپنے علاقے کے سیاستدانوں اور حکومت پر دباؤ ڈالنا پڑے گا-   اور وہ بھی کافی عرصے تک اور مسلسل، سانس لینے کی طرح-   

دوسرا بڑا مسئلہ مذہبی فرقے ہیں-  انکا کسی بھی معاملے کو سمجھداری سے نمٹانا نا ممکن سا لگتا ہے-  لیکن بہرحال معجزات بھی تو ہو سکتے ہیں-  دوسرے یہ الله اور رسول سے زیادہ اپنا ضمیر، زبان اور دماغ اپنے اپنے علماء، مولانا اور شیوخ کے پاس گروی رکھ چکے ہوتے ہیں-  لہٰذا ان کے علماء، مولانا اور شیوخ اگر سمجھ جائیں تو باقی بھی بھیڑ بکریوں کی طرح میں میں کرتے انکے پیچھے ہو لیں گے-

تیسرا مسئلہ او لیولز اور آغا خان بورڈ-  پرائیوٹ اسکولز اورحکومت برطانیہ تو او لیولز کے نام پر کڑوڑوں روپے احمق پاکستانیوں سے کمارہے ہیں-  بھلا وہ اس لوٹ مار کو کیسے بند ہونے دینگے-  دو سال بعد کا کورس دوسال پہلے پڑھا دیا تو بے شک اسے او لیولز کہہ لیں رہا تو پھر بھی آرڈنری لیول-  ایک بچہ گدھے کی طرح دن رات اپنی عمر اور سوچ سے بڑی کتابیں پڑھ رہا ہے اور اسے تعریف اور ایوارڈز کا چارہ ڈالا جارہا ہوتا ہے-  یہ تعلیم ہے؟  

چوتھا مسئلہ ہے ہمارا طریقہ تعلیم جو خاص طور پر ابتدائی درجات میں اور ویسے بھی کتابوں اور کاپیوں کے گرد گھومتا ہے- اکثر تین یا چار سال کےبچوں کو بھی کتابوں اور کاپیوں سے لکھنے پڑھنے پر لگادیا جاتا ہے- یکساں تعلیم کا سن کر سب کا ذہن جائے گا ایک جیسی کتابوں کی طرف-  حالانکہ یکساں تعلیم کا مقصد یکساں نتیجہ حاصل کرنا ہوتا ہے نہ کہ یکساں طریقہ کار-  کم از کم آٹھ نو سال کی عمر تک تو طریقہ تعلیم مونٹیسوری اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے-  کوئی امتحان نہیں-  کوئی مقابلہ بازی نہیں-  صرف علم و روز مرّہ زندگی کی صلاحیتوں پر توجہ-  

پانچواں مسئلہ ہے خیراتی اسکولوں سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا-  یہ تو چلتے ہی عطیات زکات پر ہیں-  کوئی معیارقائم ہوگیا تو چندہ کون دے گا-  لہٰذا انکی نکیل کسی باشعور انسان کے پاس ہونی چاہیے-  اور عبد الستار ایدھی کو چاہیے کہ اس معاملے میں میمن برادری کے علاوہ بھی کسی اور سے مدد حاصل کرلیا کریں-  اگر کوئی انکے ادارے میں بچوں کی تعلیم کو معیاری کرنے کی بات کرے تو اسے کرنے دیں-  اور جن کے ہاتھ میں اپنے ادارے دے رکھیں ہیں انہیں میمنزم سے پاک کرکے انکی بھی ذہنی و اخلاقی تربیت کا انتظام کریں-  خیراتی اداروں کا مطلب یہ نہیں کہ وہ پسماندگی کی تصویر بنے رہیں-  یہ بات تو غیر مسلموں تک نے ثابت کردی ہے-  ادارے قائم کرنا ایک الگ بات ہے-  اور انھیں بہتر بنانا اس الگ بات کی دوسری قسط- 

چھٹا مسئلہ وہ اسکول جو سیاسی شخصیات نے کھولے ہیں یا انکے پرنسپلز بنکے بیٹھے ہیں-  اور یہ اسکولوں کو خطرناک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں-  وہ برداشت کر لیں گے کہ انکا اور انکی مخالف  پارٹی کے اسکول کا معیار ایک جیسا ہو-  اور قوم کو آگے بڑھنے کی راہ ملے-  یا انکے سیاسی باس کے بجاۓ علّامہ اقبال، قائداعظم اور کسی باشعور شخص کے بارے میں تعلیم دی جاۓ-   کبھی بھی نہیں-  لہٰذا عوام کو تو سیاسی اسکولوں سے دور ہی رہنا چاہیے-  اس سے ہزار گنا بہتر ہے ہوم اسکولنگ-  ایسے اسکولوں کا ختم ہونا بھی ایک رحمت سے کم نہیں ہوگا-  

ساتواں مسئلہ یہ کہ حکومت کی طرف سے بنیادی تعلیم کا سلیبس ترتیب کون دے گا-  ملک میں ہزاروں کی تعداد میں بپبلیکیشنز ہیں اور ساری ہی کہیں نہ کہیں استعمال ہورہی ہیں-  اسی طرح مدرسے کے کورسز ہیں, سینکڑوں کی تعداد میں کتابیں ہیں- کوئی کسی کتاب کو ابتدائی درجہ کے لئے موزوں سمجھتا ہے تو دوسرا اسے ایڈوانس لیول رکھتا ہے۔-  کیا مدرسے, سرکاری اسکول, پرائیویٹ اسکول, آغا خان سسٹم, اولیولز, خیراتی اسکول, یتیم خانے, سیاسی شخصیات کے اسکول کےنمائندے اور ہوم اسکولنگ کی طرف سے والدین اس نظام میں ایک سطح پہ آکر حصہ لیں گے۔۔۔  میرے خیال میں بالکل نہیں-  

آٹھواں مسئلہ بنیادی تعلیم کی تعریف اور اسکا معیارکیا ہونا چاہئے-  یہ کون بتائے گا- 




















Saturday, 24 May 2014

Right of Allah - الله کا حق

پاکستان میں مذہبی عقائد زمینی حقائق میں سے ایک ہیں-  بہت سے فرقے ہیں لیکن سب کی بنیاد الله، رسول اور قرآن ہی ہیں-  آگے کے مسلے خود انکے مولویوں، شیخوں، علماء اور مولاناؤں نے پیدا کئے ہوۓ ہیں اپنی فلسفے، بد زبانی اور بدتمیزیوں کی وجہ سے-  ورنہ الله کے دین میں فتنہ مٹانے کی بات ہے بڑھانے کی نہیں-  لیکن شاید یہ سارے فرقے ایک دوسرے کو فتنہ سمجھتے ہیں اس لئے ایک دوسرے کو مٹانے پر تلے ہوۓ ہیں-   جہاں تک عام لوگوں کا تعلق ہے انہوں نے اپنے دل، دماغ، آنکھیں سب کچھ اہل منصب اور با اختیار لوگوں کے پاس گروی رکھ دیا ہے-  پتہ نہیں حساب کس چیز کا دیں گے-  

بچپن سے ایک حدیث سنتے آرہے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ 
"الله قیامت کے دن اپنے حقوق معاف کر دے گا لیکن اگر بندوں نے آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کی ہو گی تو وہ معاف نہیں کرے گا جب تک کہ وہ بندہ جس پر ظلم کیا گیا ہے خود دوسرے کو معاف نہ کردے"-  

سیدھے سادھے دماغ والے لوگوں کے لئے اس حدیث کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں-  نہایت سادہ الفاظ ہیں اور رسول الله صلی الله علیہ وسلّم کی باتیں ذو معنی نہیں ہوتی تھیں کہ کہا کچھ اور مطلب کچھ اور کہ دوسرا پاگل ہی ہو جاۓ سمجھتے سمجھتے- 

اس سے کہیں یہ مطلب نہیں نکلتا کہ الله نے اجازت دے دی ہے کہ اسکے حقوق پورے کرو یا نہ کرو لیکن اسکے بندوں کے حقوق ضرور پورے کرو-  گویا کہ الله نے بلاوجہ نماز روزے فرض کر دیے- کرو کرو ، نہ کرو نہ کرو-  کوئی فکر کی بات نہیں- 

سیدھی سی وضاحت ہے کہ الله کے حقوق بھی پورے کرنے ہیں اور اسکے  بندوں کے وہ حقوق جو خود الله نے مقرّر کئے ہیں-  لہٰذا عام لوگوں کو جو بات معلوم ہونی چاہیے وہ یہ کہ ان پر کس کے حقوق کس حد تک ہیں اور انکے حقوق کس پر کس حد تک ہیں-  نہ تو وہ کسی کے حقوق ماریں اور دوسروں کو جذباتی بلیک میلنگ کریں اور نہ ہی کسی دوسرے کو اپنا حق مارنے کی اجازت دیں-  عام لوگ خود تو وہ علم حاصل کرتے نہیں اور جب انکی اپنی جہالت کی وجہ سے بات بگڑنے لگتی ہے تو بھاگتے ہیں علماء اور مولویوں کے پیچھے-  دنیا کے سارے کام اپنی مرضی سے کریں گے اور جواز کے لئے علماء اور مولویوں کا سہارا-  اور علماء اور مولوی بھی بے چارے انسان ہی ہیں خطا کے پتلے-  وہ سیکنڈز میں یہ بھانپ لیتے ہیں کہ آنے میں والوں میں سے بااختیار کون ہے بس گھما پھرا کر اسی کے حق میں فیصلہ دے دیتے ہیں-  مال بھی مل جاتا ہے تعریف بھی ہو جاتی ہے-  یہی معیار پاکستان کی سپریم کورٹ اور عدالتوں کا بھی ہے- 

علماء ہوں یا مولوی یا لبرل دانشور-  عقل کسی مدرسے یا کالج یونیورسٹی کی سند کی محتاج نہیں-  الله نا انصاف نہیں کہ صرف چند لوگوں کو عقل کا ڈنڈا دے کر باقی کو انکے بھیڑ بکریاں بننے کا حکم دے دے-  یہ عقل اور حکمت انسانی تفکّر و تدبّر و تجربہ سے خود بخود ہر ایک کو ملتی ہے-  استعمال کرنا یا نہ کرنا انسانی کی اپنی مرضی ہے-  

یہ تو خیر ایک المیہ ہے-  لیکن اس میں لطف پیدا کیا ہے نام نہاد لبرلز نے-  ان میں سے شاید اکثر کو یہ بھی نہ معلوم ہو کہ جس نے یہ حدیث کہی ہے اس شخص کا نام کیا ہے یا حدیث کہتے کسے ہیں-  لیکن مزے کی بات ہے کہ صرف ایک اس حدیث پر انہوں نے اپنی تمام طرز زندگی اور طرز معاشرت کی بنیاد رکھ دی ہے-  اور اکثر دینی لوگوں سے مقابلے کیلئے بھی اسی حدیث کا استعمال کرتے ہیں-  کہ گویا دینی لوگ بندوں کے حقوق مارتے ہیں اور دوسروں پر ظلم کرتے ہیں-  بندوں کی خوشی اور حقوق انسانیت کے نام پر کس طرح پورے کرتے ہیں یہ لبرلز، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے-  انسانوں کا جھوٹا کھانے میں جراثیم اور بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں انکے لئے اور کتے بلی کا جھوٹا کھانے میں انسانیت-  اپنے بچوں کو الگ کمرے میں سلائیں گے اور کتے کو اپنے ساتھ-  دادا دادی نانا نانی امّاں ابّا کے لئے وقت نہیں ہوتا انکے پاس، کتے کو صبح ٹہلانے کے لئے وقت نکالنا تہذیب اور انسانیت ہے- 

جنکو دین اور دینی ذمّہ داریوں سے بچنا ہوتا ہے وہ فورا یہ حدیث بیان کرکے کہتا ہے کہ دیکھو الله اپنے حقوق معاف کردے گا لہٰذا ہمیں بندوں کو خوش رکھنا ہے کیونکہ انکی خوشی اہم ہے-  اور ذرا ان لبرلز سے یہ تو پوچھیں کہ بندوں کے حقوق کہتے کسے ہیں اور انہیں کس طرح پورا کیا جاتا ہے- 

اور یہی تو الله نے کہا ہے قرآن میں کہ قیامت کے دن ماں باپ بہن بھائی دوست رشتہ دار سب خود غرض بن جائیں گے اور چاہیں گے کہ خود کو آگ سے بچنے کے لئے دوسروں کو آگ میں پھنکوا دیں-  انسان کی تعریف جو الله نے قرآن میں بیان کی ہے وہ ہے ہی ساری کی ساری منفی سواۓ اس کے جو قرآن و حدیث کے مطابق عمل کر لیں-  

اگر واقعی ان کی یہ تشریح درست ہے اور انسان اتنا ہی انسان کی خوشیوں کا خیال رکھ رہا ہے تو اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ امن اور خوشحالی ہونی چاہیے-  کیونکہ ہر کوئی ہر کسی کا خیال رکھ رہا ہے، ہر کوئی حق پر ہے، ہر کوئی خوش اخلاق اور با حیا ہے-  انسانی تاریخ میں جتنے خیراتی ادارے آج ہیں کبھی نہیں تھے-  پاکستانی قوم دنیا میں سب سے زیادہ خیرات دینے والی قوم ہے-  سب سے اعلی خاندانی نظام پاکستان میں ہے-  رسول الله نے تو ایک بھی خیراتی ادارہ نہیں بنایا تھا ساری کی ساری ذمّہ داری حکومت کی ہوتی تھی-  اور اعلی خاندانی نظام یہ تھا کہ کوئی بلاوجہ کسی کے گھر یا زندگی میں مداخلت نہیں کرتا تھا-  

اسی ایک حدیث کے بل پر ہم دوسروں کو بلیک میل کرکے اپنے کام نکلوالیتے ہیں کہ تمھاری نمازوں اور روزوں کا کوئی فائدہ نہیں اگر تم مجھے خوش نہ رکھ سکے اور میری فرمانبرداری نہیں کی-  اور پھر وقت پڑنے پر دوسرے ہمیں بلیک میل کر رہے ہوتے ہیں-  وہ جو دوسروں کے لئے کچھ کر جاتے ہیں یا کر رہے ہوتے ہیں بالآخر اخلاقیات کے بوجھ تلے تھک کرشکایتیں کر رہے ہوتے ہیں یا پھر افسوس کہ ہو کیا رہا ہے-  

اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ بہت سی دینی کتابوں میں اور خود دینی علماء کے مطابق حقوق دو قسم کے ہوتے ہیں-  ایک الله کے حقوق اور دوسرے اسکے بندوں کے حقوق اور پھر بندوں کے حقوق کے مختلف روپ-  عام انسان خود کو دوراہے پر کھڑا محسوس کرتا ہے کہ آیا وہ ہر وقت نمازیں اور قرآن پڑھتا رہے یا پھر گھر، خاندان اور معاشرے کی ذمّہ داریاں نبھاۓ-  جو کرے اسکے دل میں ایک کھٹکا سا ہوتا ہے کہ وہ کون سا کام غلط کر رہا ہے اور کون سا صحیح-  بہت سے نوجوان اور جوان اس بحث سے گھبرا کر کہ کون صحیح ہے کون غلط-  سب کچھ چھوڑ دیتے ہیں اور جو انکا دل چاہتا ہے کرتے پھرتے ہیں-  

اور انجام اس وضاحت کا یہ ہوا کہ دینی انتہا پسند اور دنیاوی انتہا پسند-  دونوں نے اپنا اپنا ملاکھڑا شروع کررکھا ہے-  اور اس بحث میں الجھا کر دین اور حقوق دونوں کا بیڑا غرق کردیا ہے-  ایک گروپ بندوں کی نفی کررہا ہوتا ہے اور الله کے طرف سے دیے ہوۓ اختیارات بھی ان سے چھین لیتا ہے تو دوسرا الله اور رسول کے احکامات کی نفی کر رہا ہوتا ہے سواۓ اس حدیث کے-  اور اسطرح اپنی من پسند دنیا کے لئے جواز فراہم کرتا رہتا ہے- اور ساتھ ہی الله کی قائم کی ہوئی حدوں کو بھی توڑتا رہتا ہے- 

میں سالوں ان تمام مسائل سے نہ صرف پریشان رہی بلکہ الله سبحانہ و تعالی سے خفا بھی کہ یہ کیا نا انصافی ہے-  کس قسم کا دین آپ نے مجھ پر مسلّط کر دیا ہے-  مجھے یہ سمجھ ہی نہیں آتی تھی کہ دین تو سیدھا سادھا ہے ہم خود ٹیڑھے دماغ کے ہیں-  الله بھلا کرے ان ہزاروں لوگوں کا جنہوں نہ جانے انجانے میں الله کی حکمت کا چراغ بن کر میری رہنمائی کی-  الله خود زمین پر نہیں اترتا لیکن اسکی کائنات اسکے اختیار میں ہے اور اس میں سے جس عنصر کو جب چاہے کسی کی رہنمائی کا وسیلہ بنادے-  یہ اسکے کام ہیں-  میں الله کی زمین میں سفر نہ کرتی تو ان لوگوں سے ملاقات بھی مشکل تھی اور ان سے سیکھنا بھی اور ذہن کا کھلنا بھی- 

قرآن کی ایک سورہ ہے "سورہ الاخلاص"-  جو کہ قرآن کا ایک تہائی کہلاتا ہے کیونکہ اسلام کے تین بنیادی جزو یعنی ایمان باللہ ، ایمان بالرسل اور ایمان بالآخرہ میں سے ایک ا"ایمان باللہ" س میں بیان کیا گیا ہے-   

"شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے-  کہو کہ الله ایک ہے-  الله بے نیاز ہے-  نہ اس نے ہرگز کوئی بیٹا جنا اور نہ وہ ہرگز کسی کہ بیٹا ہے-  اور ہرگز نہ کوئی (اسکے جیسا) اسکا ہمسر (برابری) کرنے والاہے"-  
سورہ الاخلاص 

اس سورہ پر میرے ایمان کے مطابق اگر الله کی ذات میں برابری نہیں، صفات میں برابری نہیں تو حقوق میں بھی کوئی برابری نہیں-  اس کائنات میں صرف ایک ہی حق ہے اور وہ ہے الله-  اور الله کا حق ہی تمام حقوق کا مجموعہ ہے-  اور یہی فرق ہے بنیادی طور پر اسلام میں دوسرے مذاہب میں-  دوسرے مذاہب میں مذہب الگ ہے دنیا الگ-  مذہبی رسومات کے لئے دن اور موقع مقرّر ہیں اور پھر اپنی ایک الگ زندگی-  مذہبی لوگوں کی ایک مخصوص جگہ یعنی کہ عبادت گاہیں جب پر انکا قبضہ ہوتا ہے اور دنیاوی لوگوں کے لئے باقی زمین کے حصّے-  جبکہ اسلام میں دین اور دنیا ایک ہی ہیں-  اسلام میں مسجد کسی مولوی اور عالم کی میراث نہیں کہ وہ اپنے فرقے کے نام پر عبادت گاہ بناۓ اور اس پر اپنے فرقے کے امراء اور حکماء کی راجدھانی قائم کرے-  اور ہوتا یہ ہے کہ مسجھ کو الله سے چھین کر اپنے اپنے علماء اور مولویوں کے حوالے کرنے سے لبرلز اور اسلام کے دشمن زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں-  اور اسلام کو بدنام کرتے ہیں-  مسجد الله کا گھر ہے جس پر ہر مرد و عورت کا حق ہے الله کی مقرّر کی ہوئی حدود کے مطابق-  

"نہیں پیدا کیا ہم نے جن و انس کو مگر صرف اسلئے کہ وہ میری عبادت کریں"-  سورہ الذّاریات 

جسطرح مسجد الله کی ہے اسی طرح ہر جگہ، ہر ملک اور ہر شہر الله کا ہے-  اور دن رات کے چوبیس گھنٹے بھی الله کے ہیں-  لہٰذا اس قرآنی آیت کے مطابق انسان کا ہر پل الله کی اطاعت میں گزرنا چاہیے-  اور دین و دنیا کے الگ الگ فلسفے کا فساد یہ ہونے نہیں دیتا-  

الله کی ذات کے مقابل کوئی ذات نہیں- الله کے حق کے مقابل کوئی حق نہیں-  

الله کی عبادت کا کیا مطلب ہے الله کی بات ماننا-  الله کا حق چوبیس گھنٹے کا ہے لہٰذا چوبیس گھنٹے اسکی بات ماننا-  اور اس حق کو ادا کرنے کے خود الله سبحانہ و تعالی نے دو طریقے وضع کئے ہیں-  ایک براہ راست طریقہ جسے "عبادت" کہتے ہیں اور دوسرا غیر براہ راست طریقہ یعنی اسکی پیدا کی ہوئی چیزوں کے حقوق یا سیدھے اور سادے الفاظ میں دیکھ بھال-  تو چوبیس گھنٹے اسکی عبادت میں گزارنے کا مطلب ہے دونوں یعنی براہ راست اور غیر براہ راست طریقوں سے اسکا حق ادا کرنا-  

الله کے حق کو براہ راست ادا کرنے کا طریقہ ہیں براہ راست عبادات-  چوبیس گھنٹے میں پانچ فرض نمازیں، سال میں انتیس یا تیس دن رمضان کے روزے، سال میں ایک مرتبہ زکواة اگر اتنا مال بچ گیا ہے، زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ حج اگر تمام شرائط پوری ہوتی ہوں تو-  اسکے علاوہ قرآن کی تلاوت، قرآن پر غور و فکر-  الله کر ذکر و تسبیحات- آخرت میں ان سب کا احتساب ہوگا-  

الله کا غیر براہ راست حق ادا کرنے کا طریقہ غیر براہ راست عبادات-  یعنی ماں باپ کا حق، بہن بھائیوں کا حق، اولاد کا حق، بیوی کا حق، شوہر کا حق، میکےکا حق، سسرال کا حق، رشتہ داروں کا حق، پڑوسیوں کا حق، اساتذہ کا حق، طالبعلموں کا حق، جانوروں کا حق، پھول پودوں کا حق، پھلوں اور سبزیوں کا حق، راستوں کا حق،  پانی کا حق، ہوا کا حق، استعمال کی چیزوں کا حق، وغیرہ وغیرہ-  یہ سب بھی الله کی عبادت کا ہی حصّہ ہے اور اس عبادت کا احتساب بھی ہے-  

نماز کے وقت نماز پڑھ لی الله کا حق ادا ہوا-  اسکے اگلے لمحے بھی الله کا حق جاری ہے-  کیونکہ شاید ماں نے اپنے بچوں کو کھانا دینا ہے یا باپ نے اپنے والد کی دوا لانی ہے یا استاد نے اپنے طالبعلموں کے لئے ریسرچ کرنی ہے یا بہن نے بھائی کے کپڑے استری کرنے ہیں یا بھائی نے بہن کے لئے چاٹ لانی ہے یا پھر دادا نانا کو اخبار پڑھ کر سنانا نے یا پھر محلّے میں کسی کی مدد کی ضرورت ہے یا پھر گھر والوں کے لئے بستر لگانا ہے-   ان سب کاموں کا صلہ بھی تو الله ہی نے دینا ہے- 

کتاب پڑھنا، کمپیوٹر پر کام کرنا، گھر بنانا، فرنیچر بنانا، کھانا پکانا، کپڑے دھونا، نقصان دہ کیڑے مکوڑے مارنا، گھر صفائی رکھنا، مکڑی کے جالے ہٹانا، چادریں تکیے دھونا،  کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونا، برتن دھونا، کسی کو پانی پلانا، کسی کو کھانا کھلانا،کسی کے لئے سوپ بنادینا، کسی کو کپڑے پہنانا، کسی کے کام میں مدد کرنا، راستے سے نقصان دہ چیز ہٹانا، راستے میں نہیں تھوکنا، کوڑا نہ پھینکنا، قطار میں کھڑا ہونا، اپنی باری کا انتظار کرنا، گاڑی احتیاط سے چلانا، دروازے پر دستک دینا، چیزوں کو آہستہ نرمی سے اٹھانا اور رکھنا-  اور پتہ نہیں کیا کیا-  ہزاروں لاکھوں کام ہی ہیں اور اگر الله کا تصور ذہن میں رکھ کر اسکی خوشی کے لئے کیے جائیں تو عبادت بھی- 

اصل ایمان الله کے حق کے ان دونوں طریقوں میں توازن قائم رکھنا ہے-  اور یہ کسی سائنسی فارمولے کے تحت نہیں ہوتا-  کسان کے لئے کھیتی پر توجہ دینا عبادت ہے کیونکہ اس کے ذریعے لاکھوں لوگوں کا رزق ان تک پہنچتا ہے-  ان کو حقیر سمجھنے والے خود اپنے رزق کا دروازہ بند کرتے ہیں-  اساتذہ پر علم پر توجہ دینا لازمی ہے کیونکہ انکے ذریعے لاکھوں انسانوں نے صحیح فہم و تدبّر سیکھنا ہوتا ہے-  جمعدار اگر سیٹھ بن جاۓ تو سارے سیٹھوں کو جمعدار بننا پر جاۓ-  ہرمرد جہاد نہیں اور نہ ہی عالم بن سکتا ہے-  ہرعورت نہ چاند بی بی یا رضیہ سلطانہ ہو سکتی ہے اور نہ امراؤ جان ادا یا ثریا بھوپالی-  الله نے ہر ایک کی زندگی کی آزمائشیں اور حالات انفرادی بھی رکھے ہیں اور اجتماعی بھی-  انکو انفرادی طور پر اجتماعی طور حکمت کے ساتھ  بسر کرنا ہی صلاحیت ہے-   ہر ایک کو بلاوجہ اس آزادی کی راہ دکھانا جس کی نہ اسے تمنّا ہو نہ اہلیت بھی ایک فساد کھڑا کرنا ہے-  اگر الله کے بتاۓ ہوۓ طریقوں کو خود سمجھیں تو نہ کوئی کسی کا فائدہ اٹھاۓ اور نہ کوئی کسی سے نقصان-  

حقوق کا پورا کرنا عدل ہے- ہم حقوق میں ہیرا پھیری کرتے ہیں اپنے  اور یہی ظلم ہے-  جس کی سزا ہم سب بھگت رہے ہیں-  

رسول الله نے فرمایا کہ "گناہ وہ ہے جو تیرے دل کو کھٹکے"- 

اسی بات کو علامہ اقبال نے س طرح فرمایا کہ 
پوچھ اس سے کہ مقبول ہے فطرت کی گواہی 
تو صاحب منزل ہے کہ بھٹکا ہوا رہی 

دل کی گواہی مقبول ہوتی ہے-   کبھی کسی وقت سارے انسانوں کو، انکے الفاظ کو، انکے طریقوں کو ذہن سے نکال کر صرف اپنے دل سے پوچھیں کہ
"بتا تیری رضا کیا ہے"- 




Monday, 19 May 2014

جمہوریت

اسلامی جمہوریت  اور غیر اسلامی جمہوریت میں کیا فرق ہے؟
اسلام میں زندگی کا مقصد کیا ہے؟ 
موت کا مقصد کیا ہے؟
اسلامی جمہوریت کا مقصود اور مطلوب کیا ہے؟
اسلامی جمہوریت کے لئے عدل کے قیام کی کیا صورت ہے؟ 
اسلامی جمہوریت کی روح کیا ہے؟
اسلامی خلافت/ریاست/جمہوریت کے اصول کیاہیں؟ 

پولیٹکل سائنس پڑھنے والے طلباء و طالبات کو نہ صرف ان کورس کی کتابوں پر جو انھیں پڑھنے کے لئے دی جاتی تحقیق کرنی چاہیے بلکہ اس سلیبس میں بہتری کے لئے بھی کوشش کرنی چاہیے-  پولیٹکل سائنس کے سلیبس میں بہت بہتری کی گنجائش موجود ہے-  اس بات پر اندھا ایمان رکھنے کے بجاۓ کہ جو کچھ کورس کی کتابوں میں لکھا ہے یہی علم ہے اور نجات کی راہ ہے، خود بھی اپنی عقل کو استعمال کرنا چاہیے کہ آیا یہ سب ہمارے معاشرے اور ملک کے لئے ٹھیک بھی ہے کہ نہیں-  

بہت ہی سادہ اور آسان الفاظ میں اسلامی طرز حکومت کا واحد مقصود عدل کا قیام ہے جو کہ اسلامی ریاست کے حکمرانوں کی ذمّہ داری ہے-  اسکے ساتھ ہی اخلاقیات یعنی صفت کردار، آداب و اطوار اور عبادات اسکی روح ہیں-  اور روح کے بغیر جسم کوئی معنی نہیں رکھتا-  لہٰذا عدل کا تصور اخلاقیات کے بغیر  ایک مردہ جسم کے جیسا ہے-  اور جہاں عدل نہ ہو وہاں خود بخود ظلم کے لئے راستہ ہموار ہو جاتا ہے-  

اسلامی جمہوریت اورغیر اسلامی جمہوریت میں کیا فرق ہے؟
جمہور عربی میں عوام کو کہتے ہیں اور کیونکہ اسلامی نظام، چاہے اسے جو بھی نام دے لیں، کا مقصد عوام کی فلاح و بہبود کے لئے امن اور خوشحالی کا قیام ہے اس لئے اسلامی خلافت یا نفاذ شریعت کے لئے "اسلامی جمہوریت" کی اصطلاح استعمال کرنے میں کوئی مذائقہ نہیں-  شاید اس طرح یہ آزاد خیال اور ترقی پسند لوگوں کو آسانی سے سمجھ میں آجاۓ-  

جمہوریت یا مغربی جمہوریت کی تعریف عام طور پر ایسے نظام کی صورت میں کی جاتی ہے جس میں معاشرے کے ہر فرد کو برابری اور مساوات کے اصولوں کے تحت بغیر کسی تعصب کے اپنی اظہار راۓ کی آزادی اور اپنی مرضی سے جینے کا حق ہو-  مغربی جمہوریت کے مطابق معاشرے کی اکثریت کو نظام بنانے کا حق حاصل ہوتا ہے چاہے اقلیت اس سے متّفق ہو یا نہ ہو-  الله کے وجود پر ایمان رکھنا یا نہ رکھنا مغربی جمہوریت کی بنیاد نہیں-  اس میں انسانوں کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ اگر اکثریت  میں  ہوں تو الله کے قوانین میں تبدیلی بھی کر سکتے ہیں اور اپنی مرضی کے قوانین نافذ کر سکتے ہیں-  یعنی کہ یہ نظام انسانوں کی پسند ناپسند پر قائم کیا جاتا ہے-  اس کا مذہبی عقائد سے کوئی تعلق نہیں ہوتا-  

"جمہوریت اب تک آزماۓ گۓ حکومتی نظاموں میں بد ترین نظام ہے"
سر ونسٹن چرچل 

"سیاست میں، ایک منظّم اقلیت ہی سیاسی اکثریت ہوتی ہے"  جیسی جیکسن 

"جمہوریت ایک لوٹ مار سے زیادہ کچھ نہیں جس میں اکیاون فیصد لوگ باقی اننچاس  فیصد لوگوں کا حق سلب کر لیتے ہیں" 
تھامس جیفرسن 

اسلام کسی شخص کو اسکی اظہار راۓ کی آزادی سے نہیں روکتا اور نہ ہی ان سے اپنی مرضی سے جینے کا حق چھینتا ہے-  لیکن اسلام میں جمہوریت یعنی عوامی فلاح و بہبود کے مطلوب و مقصود کچھ اور ہے-  مسلمانوں کا اس بات پر عقیدہ ہے اور ہونا چاہیے کہ انسانوں کی فلاح و بہبود سے متعلق تمام احکامات قرآن میں بیان کر دیے گۓ ہیں-  اور کسی انسان کو ان میں ترمیم کرنے کی اجازت نہیں-  اور نہ ہی ان احکامات کے مقابلے پر کوئی نۓ قوانین بنانے کی اجازت ہے-  

اسلامی خلافت/امامت/جمہوریت کا مقصود ان احکامات کا صحیح طور پر نفاذ ہے-   اور مطلوب ایک ایسا نظام ہے جو امن، عدل اور خوشحالی کی ضمانت ہو-  لوگوں کو حق حاصل ہے کہ ایسے لوگوں کا انتخاب کریں جو اس ذمّہ داری نبھانے کے قابل اور اہل ہوں-  جسکے لئے لازمی خود لوگوں کے پاس اتنا علم اور قابلیت ہونی چاہیے کہ وہ اس اہلیت اور قابلیت کو جانچنے کی اہلیت رکھتے ہوں-  اور ساتھ ہی ان عناصر کا مقابلہ اور قلع قمع کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں جو اس مطلوب و مقصود میں رکاوٹ بنے-  

مختصرا یہ کہ مغربی جمہوریت کی بنیاد دو کردار ہوتے ہیں: حکمران اکثریت یعنی حزب اقتدار اور اسکے بالمقابل اقلیت یعنی حزب اختلاف-  

جبکہ اسلامی خلافت/امامت/جمہوریت کی بنیاد دو کردار ہوتے ہیں: عادل یا حزب الله یا حزب اقتدار اور ظالم حزب الشیطان یا حزب اختلاف- 

مغربی جمہوریت میں مذہب اور سیاست دو الگ الگ شعبہ ہیں-  مذہب ذاتی  عقیدہ جبکہ سیاست اجتماعی نظام ہے- 
اسلامی جمہوریت میں سارے نظام قرآن و سنّت کے تابع ہیں- 

جمہوریت اگر لوگوں کی پسند اور نا پسند کا نام ہے تو اصل اسلامی جمہوریت آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے مدینے میں قائم ہوئی جب مدینے کے لوگوں نے محمّد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلّم کو اپنے حکمران کے طور پر قبول کیا اور مکّے کے مہاجرین کے ساتھ دنیا کی پہلی اور منفرد ترین مساوات قائم کر کے دکھائی-  یہ اصل اسلامی جمہوریت صرف چالیس سال قائم رہ  سکی- جس میں دس سال رسول الله کی خلافت کے اور انتیس یا تیس سال خلفاء راشدین کی خلافت کے تھے-  

یہ اصل جمہوریت چالیس سال بعد اس لئے ختم نہیں ہوئی کہ معاذ الله اسلام میں یا رسول الله کے نظام میں کوئی کمی تھی-  اس کی وجہ صرف اور صرف عوام کی اسلامی نظام کو جاری رکھنے میں عدم دلچسپی تھی-  جیسے جیسے لوگ اسلامی تعلیمات کی روح یعنی اخلاقیات سے قطع تعلق کرتے گۓ، فتنہ و شر میں مبتلا ہوتے گۓ-  اور یہ ایک فطری امر اور عمل ہے کہ انسان کی جس چیز سے دلچسپی ختم ہو جاۓ وہ چیز اس سے دور کردی جاتی ہے-  

 بہرحال، مغربی جمہوریت کا تعلق دو کرداروں یعنی اکثریت اور اقلیت سے ہے جو انسانی پسند اور نا پسند کے تابع ہوتی ہیں اور اسلامی جمہوریت کا تعلق دو کرداروں یعنی عادل یا حزب الله اور ظالم یا حزب الشیطان سے ہے جس میں عادل الله کے نظام کو نافذ کر تا ہے اور ظالم کے خلاف چوکس رہتا ہے-   

زندگی کا مقصد کیا ہے؟

ایک معبود کی عبادت کرنا-  
قرآن کے یہ الفاظ اتنے واضح اور آسان ہیں کہ انکو سمجھنے کے لئے کسی تشریح اور تفسیر کی ضرورت نہیں-  

"اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں- میں ان سے طالب رزق نہیں اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ مجھے کھلائیں- خدا ہی تو رزق دینے والا زور آور اور مضبوط ہے"
سورہ الذاریات 

""بڑی با برکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے- اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے عمل کرتا ہے۔ اور وہ زبردست (اور) بخشنے والا ہے"- 
سوره الملک 

"بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے اور باوجود جاننے بوجھنے کے (گمراہ ہو رہا ہے تو) الله نے (بھی) اس کو گمراہ کردیا اور اس کے کانوں اور دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ اب الله کے سوا اس کو کون راہ پر لاسکتا ہے۔ بھلا تم کیوں نصیحت نہیں پکڑتے؟"
 سورہ الجاثیہ 

"اور کہتے ہیں کہ ہماری زندگی تو صرف دنیا ہی کی ہے کہ (یہیں) مرتے اور جیتے ہیں اور ہمیں تو زمانہ مار دیتا ہے۔
 اور ان کو اس کا کچھ علم نہیں۔ صرف ظن سے کام لیتے ہیں"  
سورہ الجاثیہ 

موت کا مقصد کیا ہے؟  
ایک شاعر کے الفاظ میں، 
موت اک زندگی کا وقفہ ہے 
ذرا آگے بڑھیں گے دم لے کر

یعنی دی گئی زندگی کے حساب کتاب  سے پہلے وقفہ-   
مردہ انسان دنیا کی نظروں میں خاموش اور بے کار ہو چکا ہوتا ہے لیکن اسکی اپنی زندگی ایک اور رخ پر جاری رہتی ہے  جسے زندہ لوگ نہیں دیکھ پاتے-  موت کا مقصد زندگی کا مقصد سمجھے بغیر سمجھ میں نہیں آسکتا-  آج دنیا کے لوگوں کی اکثریت موت کے بعد زندگی کی منکر ہے یا پھر اس بارے میں شک میں ہے-  بہت سے ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ اگر آخرت ہے بھی تو انکو وہاں بھی اچھا صلہ ملے گا-  یہی حال مکّے کے لوگوں کا بھی تھا-  الله کے وجود سے منکر نہیں تھے لیکن آخرت پر ایمان نہیں رکھتے تھے-  قرآن کی بہت سی آیات انکے اس رویے کی گواہ ہیں-  قرآن میں جا بجا انسانوں کے عقیدہ آخرت کی اصلاح کی ہے کہ موت کا مقصد ہے ہی آخرت کا حساب کتاب-  ورنہ زندگی میں کسی بھی قائدے قانون اور فرائض اور حقوق  کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے-  

"اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو میری زمین فراخ ہے تو میری ہی عبادت کرو- ہر متنفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے۔ پھر تم ہماری ہی طرف لوٹ کر آؤ گے"- 
سورہ العنکبوت 

"جو لوگ برے کام کرتے ہیں کیا وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم ان کو ان لوگوں جیسا کردیں گے جو ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے اور ان کی زندگی اور موت یکساں ہوگی۔ یہ جو دعوے کرتے ہیں برے ہیں" 
سورہ الجاثیہ 

"کہہ دو کہ الله ہی تم کو جان بخشتا ہے پھر (وہی) تم کو موت دیتا ہے پھر تم کو قیامت کے روز جس (کے آنے) میں کچھ شک نہیں تم کو جمع کرے گا لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے" 
سورہ الجاثیہ 

"(الله) پوچھے گا کہ تم زمین میں کتنے برس رہے؟  وہ کہیں گے کہ ہم ایک روز یا ایک روز سے بھی کم رہے تھے، شمار کرنے والوں سے پوچھ لیجیئے- (الله) فرمائے گا کہ تم (بہت ہی) کم رہے۔ کاش تم جانتے ہوتے-
کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تم کو بےفائدہ پیدا کیا ہے
 اور یہ تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے؟"- 
سورہ المؤمنون 

"اور کہنے لگے کہ جب ہم زمین میں ملیامیٹ ہوجائیں گے تو کیا ازسرنو پیدا ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے پروردگار کے سامنے جانے ہی کے قائل نہیں- 
کہہ دو کہ موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تمہاری روحیں قبض کر لیتا ہے پھر تم اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤ گے"- 
سورہ السجدہ 

"اس دن لوگ گروہ گروہ ہو کر آئیں گے تاکہ ان کو ان کے اعمال دکھا دیئے جائیں- تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا- اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا"- 
سورہ ازلزال 

"(لوگو) تم کو(مال کی) کثرت/طلب نے غافل کر دیا- یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں- دیکھو تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا- پھر دیکھو تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا-  دیکھو اگر تم جانتے (یعنی) علم الیقین (رکھتے تو غفلت نہ کرتے)- تم ضرور دوزخ کو دیکھو گے-  پھر اس کو (ایسا) دیکھو گے آنکھوں سے کہ یقین آجاۓ گا- پھر اس روز تم سے نعمت کے بارے میں پرسش ہو گی"-
سورہ التکاثر 

اسلامی خلافت/امات/جمہوریت کا کل مقصود کیا ہے؟ 
عدل کا نفاذ  اور فتنہ و فساد کا خاتمہ 

"ہم نے ہر چیز اندازہٴ مقرر کے ساتھ پیدا کی ہے"- 
سورہ القمر 

"بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ اہل حال کو ہدایت کرے- وہی کہ آسمان اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے اور جس نے (کسی کو) بیٹا نہیں بنایا اور جس کا بادشاہی میں کوئی شریک نہیں اور جس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور پھر اس کا ایک اندازہ ٹھہرایا"- 
سورہ الفرقان 

"اور اسی نے آسمان کو بلند کیا اور ترازو قائم کی"- 
سورہ الرحمن 

الله سبحانہ و تعالی نے جو چیز پیدا کی ہے اس میں ایک توازن رکھا ہے اور یہ توازن اس شئی کی جسامت اور کام کے اعتبار سے بھی ہے اور انسان کے اس سے حاصل ہونے والے فوائد کے اعتبار سے بھی-  اور یہی عدل کہلاتا ہے-  

بہت ہی آسان الفاظ میں، عدل اور ظلم دو اصطلاحات نہیں بلکہ دو نظام ہیں جس پر زندگی اور موت  کا خاکہ ترتیب دیا گیا ہے اور جو ایک دوسرے کے مدّمقابل رہتے ہیں-  یہ ایک دوسرے کے خلاف پوری قوّت سے نبرد آزما رہتے ہیں-  عدل کا نظام تمام اچھی خصوصیات اور ظلم کا نظام بری خصوصیات کے تابع ہوتا ہے-  کسی بھی معاشرے میں رائج نظام اسکی اکثریت کے کردار کی نمائندگی کرتا ہے کہ آیا وجہ اچھی خصوصیات کے حامل ہیں یا بری-

اسلامی خلافت/امامت/جمہوریت کا کل مقصود بھی الله کی زمین پر عدل کا نفاذ ہے-  اور یہ نفاذ انسانوں کی مرضی سے نہیں بلکہ الله کے دیے گۓ قوانین کے مطابق ہے-  اسکی وجہ بہت آسانی سے سمجھ آجانے والی ہے-  انسان چاہے جتنا بھی مساوات اور انسانیت سے ہمدردی کا دعویٰ کرے اسکا مزاج اسے کسی نہ کسی طور خود غرضی، اقرباء پروری، قوم پرستی اور خود پرستی کی طرف مائل کرتا ہے کیونکہ اسکی غرض ان سے بندھی ہوتی ہے-  یا اگر وہ دولت کا پجاری ہے تو پھر وہ صرف اور صرف اپنے فائدے کو مدّ نظر رکھے گا-  الله بے نیاز ہے اور تمام فائدے اور نقصان سے بے پرواہ-  اس لئے وہی ایسے قوانین دے سکتا ہے جو اسکے تمام  بندوں کے لئے یکساں فائدہ مند ہوں-  

عدل کا قیام چاہے انفرادی طور پر ہو یا اجتماعی سطح پر، یہ امن اور خوشحالی کا ضامن ہے- 

"عدل" کے معنی ہر چیز کو اس کے اصل مقام پر رکھنے کے ہیں-  یا حقوق، ذمّہ داریوں یا اشیاء کی مناسب تقسیم-  اور ظلم اس کی ضد کے یعنی کسی چیز کا بے جگہ ہونا یا حقوق، ذمّہ داریوں یا اشیاء کی نامناسب تقسیم-  

"اور کہہ دو کہ جو کتاب الله نے نازل فرمائی ہے میں اس پر ایمان رکھتا ہوں۔ اور مجھے حکم ہوا ہے کہ تم میں انصاف کروں"- سورہ الشوریٰ 

"الله تم کو انصاف اور احسان کرنے اور رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے۔ اور بےحیائی اور نامعقول کاموں سے اور سرکشی سے منع کرتا ہے (اور) تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو"-
 سورہ النحل

"اے ایمان والوں! الله کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جایا کرو۔ اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ عدل چھوڑ دو۔ عدل کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے اور الله سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ الله تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے"-
سورہ المائدہ 

" اور لوگوں کی دشمنی اس وجہ سے کہ انہوں نے تم کو عزت والی مسجد سے روکا تھا تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ان پر زیادتی کرنے لگو"
 سورہ المائدہ 

"اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو اور الله کے لئے سچی گواہی دو خواہ (اس میں) تمہارا یا تمہارےماں باپ اور رشتہ داروں کا نقصان ہی ہو۔ اگر کوئی امیر ہے یا فقیر تو الله ان کا خیر خواہ ہے۔ تو تم خواہش نفس کے پیچھے چل کر عدل کو نہ چھوڑ دینا۔ اگر تم غلط شہادت دو گے یا (شہادت سے) بچنا چاہو گے تو (جان رکھو) الله تمہارے سب کاموں سے واقف ہے"- 
سورہ النساء 

" اور جب (کسی کی نسبت) کوئی بات کہو تو انصاف سے کہو گرچہ وہ (تمہارا) رشتہ دار ہی ہو اور الله کے عہد کو پورا کرو ان باتوں کا الله تمہیں حکم دیتا ہے تاکہ تم یاد رکھو"- 
سورہ الانعام 

"(اے پیغمبر) کفار سے کہہ دو کہ اگر وہ اپنے افعال سے باز آجائیں تو جو ہوچکا وہ انہیں معاف کردیا جائے گا۔ اور اگر پھر (وہی حرکات) کرنے لگیں گے تو اگلے لوگوں کا (جو) طریق جاری ہوچکا ہے (وہی ان کے حق میں برتا جائے گا)-  اور ان لوگوں سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ (یعنی کفر کا فساد) باقی نہ رہے اور دین سب الله ہی کا ہوجائے اور اگر باز آجائیں توالله ان کے کاموں کو دیکھ رہا ہے- اور اگر روگردانی کریں تو جان رکھو کہ الله تمہارا حمایتی ہے۔ (اور) وہ کیا خوب حمایتی اور خوب مددگار ہے"-  
سورہ الانفال 

اسلامی جمہوریت کے لئے عدل کے قیام کی کیا صورت ہے؟  

ٹیم ورک یا اجتماعی/متّفقہ کوشش اور آپس میں شوریٰ یا مشورہ- 

یہ دو جزو یا عناصر ہیں جو کسی بھی نظام میں عدل کے قیام کوممکن بناتے ہیں-  اور ان کا تسلسل اس نظام کو دیرپا کرتا ہے-  

نظام کیا ہے؟  مختلف عناصر یا اجزاء کا ایک منظّم طریقے سے ایک مخصوص مقصد کو حاصل کرنے کے لئے کام کرنا- جیسا کہ نظام شمسی جو سورج کے  گرد سیّاروں کی گردش کی وجہ سے  دن رات اور موسموں کی تبدیلی کا باعث بنتا ہے- یا انسان کے اپنے اندر سانس لینے کا نظام، نظام ہاضمہ، وغیرہ- 

اور یہی ٹیم ورک کہلاتا ہے- ٹیم ورک کی ایک صفت یہ بھی ہوتی ہے کہ اس میں کسی ایک شخص کی اجارہ داری یا ڈکٹیٹر شپ یا بادشاہت قائم نہیں ہونے پاتی اور نظام "ون مین یا ون وومین شو" نہیں بننے پاتا-  اس طرح کسی بھی عنصر کی غیر حاضری یا نہ ہونے کی صورت میں اسکا نعم البدل موجود ہوتا ہے اور نظام رکنے نہیں پاتا-

شوریٰ کیا ہے؟ سادہ سے الفاظ میں انھیں مختلف عناصر کا ایک دوسرے سے ربط اور رابطہ-

قرآن میں ٹیم ورک   
"اور سب مل کر الله کی (ہدایت کی رسی) کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا اور الله کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو الله نے تم کو اس سے بچا لیا اس طرح  الله تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ"-  
سورہ آل عمران 

"اور ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو متفرق ہو گئے اور احکام بین آنے کے بعد ایک دوسرےسے اختلاف کرنے لگے یہ وہ لوگ ہیں جن کو قیامت کے دن بڑا عذاب ہوگا"- 
سورہ آل عمران 

" اور (دیکھو) نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ الله کا عذاب سخت ہے"- 
سورہ المائدہ 

"بے شک الله محبّت کرتا ہے ان سے جو الله کی راہ میں ایسے لڑتے کہ گویا سیسہ پلائی دیوار ہیں"-
سورہ الصف 

قرآن میں اسلامی نظام کو چلانے کے لئے محکمے اور ادارے بنانے کی تجاویزاور حکمت عملی بھی وضع کی گئیں ہیں-  خلفاء راشدین نے بھی حکومتی کاموں میں آسانی کے لئے یہی طریقہ اختیار کیا تھا- 


"اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہیئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور اچھے کام کرنے کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کرے یہی لوگ ہیں جو نجات پانے والے ہیں"- 
سورہ آل عمران 

"اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب نکل آئیں۔ تو یوں کیوں نہ کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا (علم سیکھتے اور اس) میں سمجھ پیدا کرتے اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آتے تو ان کو ڈر سناتے تاکہ وہ حذر کرتے"- سورہ التوبه 

"اور (اے پیغمبر) جب تم ان (مجاہدین کے لشکر) میں ہو اور ان کو نماز پڑھانے لگو تو چاہیئے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ مسلح ہو کر کھڑی رہے جب وہ سجدہ کرچکیں تو پرے ہو جائیں پھر دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی (ان کی جگہ) آئے اور ہوشیار اور مسلح ہو کر تمہارے ساتھ نماز ادا کرے کافر اس گھات میں ہیں کہ تم ذرا اپنے ہتھیاروں اور سامان سے غافل ہو جاؤ تو تم پر یکبارگی حملہ کردیں
اگر تم بارش کے سبب تکلیف میں یا بیمار ہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ ہتھیار اتار رکھو مگر ہوشیار ضرور رہنا-  
الله نے کافروں کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے"-
 سورہ النساء  

"اور کفار کا پیچھا کرنے میں سستی نہ کرنا اگر تم بےآرام ہوتے ہو تو جس طرح تم بےآرام ہوتے ہو اسی طرح وہ بھی بےآرام ہوتے ہیں اور تم خدا سے ایسی ایسی امیدیں رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھ سکتے اور خدا سب کچھ جانتا اور (بڑی) حکمت والا ہے"
 سورہ النساء 


قرآن میں شوریٰ 
"اور جو بڑے بڑے گناہوں اور بےحیائی کی باتوں سے پرہیز کرتے ہیں۔ اور جب غصہ آتا ہے تو معاف کردیتے ہیں- اور جو اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔ اور اپنے کام آپس کے مشورے سے کرتے ہیں۔ اور جو مال ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں- اور جو ایسے ہیں کہ جب ان پر ظلم وتعدی ہو تو (مناسب طریقے سے) بدلہ لیتے ہیں- اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے۔ مگر جو درگزر کرے اور (معاملے کو) درست کردے تو اس کا بدلہ الله کے ذمّہ ہے۔ اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا- اور جس پر ظلم ہوا ہو اگر وہ اس کے بعد انتقام لے تو ایسے لوگوں پر کچھ الزام نہیں- الزام تو ان لوگوں پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کو تکلیف دینے والا عذاب ہوگا- اور جو صبر کرے اور قصور معاف کردے تو یہ ہمت کے کام ہیں"- 
سورہ الشوریٰ 

"(اے محمدﷺ) الله کی مہربانی سے تمہاری نرم مزاجی  ان لوگوں کے لئے نرم واقع ہوئی ہے۔ اور اگر تم بدخو اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے۔ تو ان کو معاف کردو اور ان کے لئے  مغفرت مانگو۔ اور اپنے کاموں میں ان سے مشورت لیا کرو۔ اور جب (کسی کام کا) عزم مصمم کرلو تو  الله پر بھروسہ  رکھو۔ بےشک الله بھروسہ  رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے"-  
سوره آل عمران 

"مومنو! جب تم آپس میں سرگوشیاں کرنے لگو تو گناہ اور زیادتی اور پیغمبر کی نافرمانی کی باتیں نہ کرنا بلکہ نیکوکاری اور پرہیزگاری کی باتیں کرنا۔ اور الله  سے جس کے سامنے جمع کئے جاؤ گے ڈرتے رہنا-  کافروں کی) سرگوشیاں تو شیطان (کی حرکات) سے ہیں (جو) اس لئے (کی جاتی ہیں) کہ مومن (ان سے) غمناک ہوں مگر الله کے حکم کے سوا ان سے انہیں کچھ نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ تو مومنوں کو چاہیئے کہ الله ہی پر بھروسہ رکھیں"- 
سورہ المجادله 

اسلامی خلافت/امامت/ریاست/جمہوریت کی روح کیا ہے؟ 
اخلاقیات  ہر انفرادی اور اجتماعی نظام کی روح ہوتے ہیں-  اسلام میں اخلاقیات پر بے انتہا زور دیا گیا ہے-  اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مکّے کے تیرہ سالوں میں رسول الله نے اہل ایمان کی تربیت میں سب سے زیادہ زور اخلاقیات پر ہی دیا تھا-  ورنہ قرآن تو تئیس سالوں میں نازل ہوا ہے-  رسول الله نے انسان کی اپنی ذات سے لے کر، ماں پاب، بیوی، بچوں، بہن بھائیوں، رشتہ داروں، پڑوسیوں، استادوں، مسافروں، حتیٰ کہ جانوروں اور پودوں تک کے حقوق مقرر فرماۓ- طہارت و پاکیزگی، صدقہ و خیرات، غم کے موقع، خوشی کی تقریبات، ہر موقع کے اصول مقرر فرماۓ- 

رسول الله صلی الله علیہ وسلّم نے فرمایا،
"مجھے اخلاقیات کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہے"- 


"تمھارے لئے الله کے رسول (کے کردار) میں بہترین طریقہ (زندگی) موجود ہے-  اس شخص کے لئے جو الله سے ملنے کی امید رکھتا ہو اور آخرت کے دن پر (ایمان) اور الله کا کثرت سے ذکر کرتا ہو"- 
سورہ الاحزاب  

"اور (اے محمّد) تمہیں اخلاق کے اعلی مرتبے پر فائز کیا گیا"- 
سورہ القلم 

" اور الله کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔ بےشک  الله سب کچھ جاننے والا (اور) سب سے خبردار ہے"-  
سورہ الحجرات 

اخلاق صرف دوسروں سے ہنسنے بولنے اور لطیفے سنانے کا نام نہیں- ادب آداب کے علاوہ انسانی صفات  اور عبادات بھی اخلاق ہی کا حصّہ ہوتے ہیں-  اور یہ سب مل کر ایک مسلمان کی شخصیت اور اسکے اخلاق کو مکمّل کرتے ہیں-  اسلامی اخلاقیات بنیادی طور پر تین حصّوں پر مشتمل ہیں یعنی صفات، آداب اور عبادت-  اور ان کا پورا کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے-  

١) انسانی صفات جیسے کہ سچائی، ایمانداری، امانتداری، وفاداری، صبر، بہادری، حکمت، رواداری، شائستگی، ہمدردی، رحم، وغیرہ 
٢) آداب جیسے کہ سلام کرنے، اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے، ملنے جلنے، تلاوت کرنے، غم اور خوشی منانے کے طور طریقے 
٣) عبادات جیسے کہ نماز، زکواة، روزے، حج، دعائیں، تلاوت قرآن وغیرہ 

اس پر غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ اسلام کا سماجی اور معاشی نظام بھی اخلاقیات ہی کے زمرے میں آتا ہے-  لہٰذا اسے کسی اور نظام میں ڈھونڈنا یا کسی اور طرح فٹ کرنے کی کوشش کرنا بے سود اور مسلمانوں کے حق میں نقصان دہ ہے-  

یہ تینوں حصّے اخلاقیات کا وہ آئینہ ہیں جس میں دیکھ کر ہر مومن خود کو درست کر سکتا ہے- یہی وہ پیمانہ ہیں جس پر ہر مسلمان اور مومن کے کردار کو جانچا جاۓ گا-  رسول الله کی ایک حدیث کے مطابق "قیامت کے دن سب سے بھاری اعمال اسکے ہوں گا جس کا اخلاق اچھا ہوگا"- 

سورہ القلم اور سورہ الاحزاب کی آیات کی روشنی میں یہ اخلاقیات اسلامی ریاست یا مملکت کے سربراہ کی شخصیت کا لازمی حصّہ ہونی چاہئیں اور مسلمان عوام کو اپنے رہنما کے طور پر انھیں خصوصیات کے حامل شخص کا انتخاب کرنا چاہیے- اور یہی اسلامی جمہوریت کا  اصول ہے-  کیونکہ ایسا شخص ہی الله کے دین کو الله کی زمین پر نافذ کر سکتا ہے-  لیکن جو عوام خود اس معیار پر پورا نہیں اترتی وہ لازما اپنے سربراہ کا انتخاب بھی درست طریقے سے نہیں کرسکتی-  مندرجہ ذیل آیات میں کوئی لفظ ایسا نہیں جو کسی پڑھے لکھے یا ان پڑھ کی سمجھ میں نہ اسکے یا جس کو سمجھنے کے لئے کسی عالم یا مولوی کی ضرورت پڑے-  ہر کوئی ان آیات کے آئینے میں اپنی شخصیت دیکھ بھی سکتا ہے اور سنوار بھی سکتا ہے-  کہ یہی ہمارے رب کا ہم سے تقاضہ ہے-  


 "اور رحمٰن کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں تو سلام کہتے ہیں-  اور جو وہ اپنے پروردگار کے آگے سجدے کرکے اور (عجز وادب سے) کھڑے رہ کر راتیں بسر کرتے ہیں- اور جو دعا مانگتے رہتے ہیں کہ اے پروردگار دوزخ کے عذاب کو ہم سے دور رکھیو کہ اس کا عذاب بڑی تکلیف کی چیز ہے-  اور دوزخ  ٹہرنے اور رہنے کی بہت بری جگہ ہے-  اور وہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بےجا اُڑاتے ہیں اور نہ تنگی کو کام میں لاتے ہیں بلکہ اعتدال کے ساتھ۔ نہ ضرورت سے زیادہ نہ کم-  اور وہ جو الله  کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے  اور جن جاندار کو مار ڈالنا الله نے حرام کیا ہے اس کو قتل نہیں کرتے  مگر جائز طریق پر-
 اور بدکاری نہیں کرتے۔   اور جو یہ کام کرے گا سخت گناہ میں مبتلا ہوگا"- 
سورہ الفرقان 

"بےشک ایمان والے کامیاب ہوگئے-  جو نماز میں عجزو نیاز کرتے ہیں- اور جو بیہودہ باتوں سے منہ موڑے رہتے ہیں- اور جو زکوٰة ادا کرتے ہیں- اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں- مگر اپنی بیویوں سے یا جو ان کی مِلک ہوتی ہیں کہ (ان سے) مباشرت کرنے سے انہیں ملامت نہیں- اور جو ان کے سوا اوروں کے طالب ہوں وہ حد سے نکل جانے والے ہیں- اور جو امانتوں اور اقراروں کو ملحوظ رکھتے ہیں- اور جو نمازوں کی پابندی کرتے ہیں- یہ ہی لوگ میراث حاصل کرنے والے ہیں- (یعنی) جو بہشت کی میراث حاصل کریں گے۔
 اور اس میں ہمیشہ رہیں گے"-  
سورہ المومنون 

"جو نماز کا التزام رکھتے ہیں- اور جن کے مال میں حصہ مقرر ہے- (یعنی) مانگنے والے کا اور نہ مانگے والے والا کا- اور جو روز جزا کو سچ سمجھتے ہیں- اور جو اپنے پروردگار کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں- بےشک ان کے پروردگار کا عذاب ہے ہی ایسا کہ اس سے بےخوف نہ ہوا جائے-  اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں- مگر اپنی بیویوں یا لونڈیوں سے کہ (ان کے پاس جانے پر) انہیں کچھ ملامت نہیں- اور جو لوگ ان کے سوا اور کے خواستگار ہوں وہ حد سے نکل جانے والے ہیں- اور جو اپنی امانتوں اور اقراروں کا پاس کرتے ہیں- اور جو اپنی شہادتوں پر قائم رہتے ہیں- اور جو اپنی نماز کی خبر رکھتے ہیں- یہی لوگ باغ بہشت میں عزت واکرام سے ہوں گے"-  
سوره المعارج 

"اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی۔ کہ الله کا شکر کرو۔ اور جو شخص شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے۔ اور جو ناشکری کرتا ہے تو الله خدا بھی بےپروا اور لائق حمد و ثنا ہے-  اور (اُس وقت کو یاد کرو) جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ بیٹا الله کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا۔ شرک تو بڑا (بھاری) ظلم ہے- اور ہم نے انسان کو جسے اُس کی ماں تکلیف پر تکلیف سہہ کر پیٹ میں اُٹھائے رکھتی ہے (پھر اس کو دودھ پلاتی ہے) اور( آخرکار) دو برس میں اس کا دودھ چھڑانا ہوتا ہے (اپنے نیز) اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید کی ہے کہ میرا بھی شکر کرتا رہ اور اپنے ماں باپ کا بھی (کہ تم کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے- اور اگر وہ تیرے درپے ہوں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک کرے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کا کہا نہ ماننا۔ ہاں دنیا (کے کاموں) میں ان کا اچھی طرح ساتھ دینا اور جو شخص میری طرف رجوع لائے اس کے رستے پر چلنا پھر تم کو میری طرف لوٹ کر آنا ہے۔ تو جو کام تم کرتے رہے میں سب سے تم کو آگاہ کروں گا- ( لقمان نے یہ بھی کہا کہ) بیٹا اگر کوئی عمل (بالفرض) رائی کے دانے کے برابر بھی (چھوٹا) ہو اور ہو بھی کسی پتھر کے اندر یا آسمانوں میں (مخفی ہو) یا زمین میں۔ الله اُس کو قیامت کے دن لاموجود کرے گا۔ کچھ شک نہیں کہ الله باریک بین (اور) خبردار ہے- بیٹا نماز کی پابندی رکھنا اور (لوگوں کو) اچھے کاموں کے کرنے کا امر اور بری باتوں سے منع کرتے رہنا اور جو مصیبت تجھ پر واقع ہو اس پر صبر کرنا۔ بیشک یہ بڑی ہمت کے کام ہیں- اور (ازراہ غرور) لوگوں سے گال نہ پھلانا اور زمین میں اکڑ کر نہ چلنا۔ کہ الله کسی اترانے والے خود پسند کو پسند نہیں کرتا-  اور اپنی چال میں اعتدال کئے رہنا اور (بولتے وقت) آواز نیچی رکھنا کیونکہ کچھ شک نہیں کہ سب آوازوں سے بُری آواز گدھے کی ہے"- 
سورہ لقمان 


"نیکی یہی نہیں کہ تم مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرلو بلکہ نیکی یہ ہے کہ لوگ الله پر اور روز آخرت پر اور فرشتوں پر اور (الله کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائیں۔ اور مال باوجود عزیز رکھنے کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں اور مانگنے والوں کو دیں اور گردنوں (کے چھڑانے) میں (خرچ کریں) اور نماز پڑھیں اور زکوٰة دیں۔ اور جب عہد کرلیں تو اس کو پورا کریں۔ اور سختی اور تکلیف میں اور (معرکہ) کارزار کے وقت ثابت قدم رہیں۔ یہی لوگ ہیں جو (ایمان میں) سچے ہیں اور یہی ہیں جو (الله سے) ڈرنے والے ہیں"-   سورہ البقرہ 


اسلامی خلافت/جمہوریت/ریاست کے اصول کیا ہونے چاہئیں؟
اسلامی طرز حکومت  کا نمونہ رسول الله صلی الله علیہ وسلّم عملی طور پر دنیا کو دکھا چکے ہیں-  اور خلفاء راشدین اس کی پیروی بھی کرکے دکھا چکے ہیں-  اسلامی حکومت میں "شوریٰ اور ٹیم ورک/با جماعت کام" کے دونوں عناصر کا مقصد ہی یہ ہے کہ اسلامی حکومت/ریاست کے کام مل کر آپس کے مشورے سے کیے جائیں اور اس میں اختلاف کی گنجائش ہو فتنہ و فساد کی نہیں-  

"مومنو! الله اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں ان کی بھی-  اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر الله اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں الله اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مآل بھی اچھا ہے"- سوره النساء 

رسول الله صلی الله علیہ وسلّم نے فرمایا, "دین خلوص/نصیحت ہے"  صحابہ کرام نے پوچھا "کس کے ساتھ؟" ارشاد ہوا، 
"الله کے ساتھ، اسکی کتابوں کے ساتھ، اسکے پیغمبروں کے ساتھ، مسلمانوں کے حکمرانوں کے ساتھ، اور عوام الناس کے ساتھ"- 

خلوص اور نیک نیّتی سے بڑھ کر زندگی کا اور کیا اصول ہو سکتا ہے-

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس مغربی طرز جمہوریت کو مسلمان معاشروں میں تباہی کی علامت سمجھا جاتا ہے وہ مغربی ممالک میں کس طرح ایک نظام کو قائم کر نے میں کامیاب ہو گئی؟ 

اس کا جواب بہت آسان ہے-  
١) مغربی ممالک کی عوام کو اپنے نظام سے دلچسپی ہوتی ہے-  وہ اپنے لوگوں کے ساتھ اور جو بھی انکا طرز معاشرت ہے اس سے پر خلوص ہوتے ہیں-  
٢) مغربی ممالک میں انسانی فطرت کے تقاضوں پر زیادہ زور دیا جاتا ہے-  اس لئے مذہب کی قید سے آزاد ہونے کے باوجود وہ زندگی گزارنے کے لئے سچائی، محنت، اور ایمانداری کے اصولوں کو ہی اپناتے ہیں اور اپنی قوم اور اپنے ملک سے مخلص ہوتے ہے-  اس حالت میں جب قرآن انکی نظروں سے گزرتا ہے تو وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اس پر ایمان لے آتے ہیں اور فرقہ بندی اور تعصب سے رہتے ہیں-  
٣)  مسلمان ممالک میں کربلا کے واقعے سے لے کر آج تک عوام کی دلچسپی حکومتی معاملات سے کم ہی رہی ہے-  اسلامی خلافت کے ختم ہونے کی بھی یہی وجہ تھی-  درمیان میں تحریک پاکستان ایک نشانی بن کر ابھری-  یہ یاد دلانے کے لئے کہ "زبان خلق نقارہ خدا ہوتی ہے"-  اور ایک حدیث کے مطابق، 
"جیسی عوام ہوتی ہے اس پر ویسے ہی حکمران مسلّط کر دے جاتے ہیں"-  
٤) مسلمان عوام کے ذہنوں کو جان بوجھ مغربی تہذیب کے سحر میں مبتلا کیا گیا-  انھیں ترقی کے نام پر مغربی معاشرے کے برائیوں کا دلدادہ بنایا گے-  اور مسلمان عوام بے سوچے سمجھے جانوروں کی طرح اس بھگڈر میں شامل ہوگۓ- 
٥) دورسرا سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ بہت سے دینی حلقوں نے کسی بھی قسم کی بہتری کو "کفر کا راستہ"  قرار دے کر ہر قسم کی بہتری کے دروازے بند کر کردیے اور مسلمانوں کو خود انکی پاکیزہ طرز معاشرت سے دور کردیا-  اسکا نتیجہ جہالت کی صورت میں نکلا-  قرآن پڑھنے پر پہرے بٹھا دیے گۓ-  قرآن کو سمجھنے پر فتوے لگا دیے گۓ -  علم کو دین و دنیا میں تقسیم کردیا گیا-  قرآن  اور سائنس کو جدا کر دیا گیا-  سوچنے سمجھنے پر پابندی-  سوال کرنے پر ناراضگی-  

علّامہ اقبال نے فرمایا 
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلمان 
الله کرے تجھ کو عطا جدّت کردار 

ترے وجود پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب 
گرہ کشا ہے رہی نہ صاحب کشاف 

مختصرا یہ کہ نظام تب ہی بدلتا ہے جب عوام کی اکثریت اس کی حامی ہو-  ورنہ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے رسول بھی دنیاوی طور پر ناکام ہو گۓ تھے-  حضرت نوح علیہ السلام، حضرت لوط علیہ السلام اور دوسرے پیغمروں کی قوموں کو کیوں عذاب ملا کہ انکی اکثریت ہدایت کا رسستہ اپنانا نہیں چاہتی تھی-  


پاکستانی قوم بھی اگر قدرت کے تقاضوں کو نہ سمجھی تو  پھر اسے بدتر سے بدتر حالات کے لئے خود کو تیّار کر لینا چاھئے-  اگر جمہوریت "عوام" کی پسند نہ پسند کا نام ہےاور اسکو قائم رہنا چاہیے- تو پھر کسی عالم یا مولوی کے فتوے کے بغیر قرآن اٹھائیں اور اپنی ترجیحات درست کریں-  ورنہ الله بے نیاز ہے-