Saturday 30 September 2017

کرپشن سے پاک پاکستان


اور بے شک ہر امّت میں سے ہم نے ایک رسول بھیجا- (یہ کہتا ہوا) کہ ایک الله کی عبادت کرو اور کنارہ کش ہو جاؤ تمام جھوٹے ممبودوں سے- تو ان میں سے کچھ کو الله نے ہدایت دی اور کچھ پر گمراہی ٹھیک اتری- تو زمین میں چل پھر کر دیکھو کیسا انجام ہوا جھٹلانے والوں کا
(سوره النحل، آیات ٣٦)

آج سے ١٤٣٩ سال پہلے عرب کا معاشرہ بھی اخلاقی اور قانونی جرائم سے بھر پور تھا-  حضرت جعفر طیّار نے جب نجاشی کے دربار میں تقریر کی تو اپنے معاشرے کی برائیاں بیان کرنے کے بعد کہا کہ 

کہ پھر الله نے ہم میں سے ایک شخص اٹھایا جس کی سچائی، ایمانداری 
اور پاکیزگی کے ہم گواہ تھے- اور اس نے ہمیں الله کی وحدانیت کا درس دیا 
ہمیں الله کے ساتھ شریک بنانے سے منع کیا اور بتوں کی پوجا کرنے روکا  

ایمان مفصّل کے سات ارکان ہیں 
میں ایمان رکھتا/رکھتی ہوں الله پر، اسکے فرشتوں پر، اسکی کتابوں پر 
اسکے رسولوں پر، اور آخرت کے دن پر، اور اس بات پر کہ مقدّر کی 
اچھائی اور برائی الله کی طرف سے ہے، اور مر کر اٹھائے جانے پر 

پہلا کام جو رسول الله صلی الله علیہ وسلّم نے کیا وہ تھا ہی یہی کہ انسان اپنے سچے معبود کو پہچان لے- اپنی زندگی اور موت، اپنے رکوع اور سجدوں، اپنے فائدے اور نقصان اور تقدیر کے تمام معاملات کے لئے الله ساتھ تعلق جوڑ لے-   جس انسان کا تعلق الله تعالیٰ سے قائم ہو جاتا ہے تو اسے اپنے ذاتی فائدے اور نقصان سے زیادہ اس نظام کو بچانے کی فکر جو جاتی ہے جو تمام انسانوں کے لئے فلاح و نجات کا باعث بنے-  سچے معبود اور جھوٹے معبودوں کے درمیان فرق صرف عقیدے کی بنیاد پر ہی نہیں بلکہ عقل اور سائنس کی بناء پر بھی ثابت کیا جا سکتا ہے جیسے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کیا 

بھلا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو اس (غرور کے) سبب سے کہ 
خدا نے اس کو سلطنت بخشی تھی ابراہیم سے پروردگار کے بارے میں 
جھگڑنے لگا۔ جب ابراہیم نے کہا میرا پروردگار تو وہ ہے جو جلاتا اور 
مارتا ہے۔ وہ بولا کہ جلا اور مار تو میں بھی سکتا ہوں۔ ابراہیم نے کہا کہ 
خدا تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تم اسے مغرب سے نکال کر 
دکھادو(یہ سن کر) کافر حیران رہ گیا اور 
خدا بےانصافوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا 
سوره البقرہ، آیة ٢٥٨ 

ایک عام انسان دوراندیش نہیں ہوتا- اس کی عقل صرف طاقت اور قوّت کے مظاہرے اور فائدے اور نقصان کی بنیاد پر ہی کسی کو خود سے برتر تسلیم کرتی ہے-  چاہیے وہ خاندان میں کسی کو امین ماننے کی بات ہو یا کسی قبیلے میں کسی کو سردار ماننے کا مسلہ ہو یا قوم میں کسی کو رہنما تسلیم کرنے کا معاملہ ہو یا مذہب میں خدا کے وجود کا تصوّر- الله تعالیٰ بھی جب زلزلوں اور طوفانوں کی صورت میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں تو سب اپنے صدروں، وزیراعظموں، سرداروں، چودھریوں، وڈیروں اور علماء اور انکے بناۓ ہوۓ نظاموں کو چھوڑ کر اپنی اپنی عبادت گاہوں کر رخ کرتے ہیں- اسی لئے رسول الله صلی الله علیہ وسلّم نے جس نکتہ پر سب سے زیادہ کام کیا وہ تھا ہی یہی لا الہ الّا اللہ

سوره النّاس میں بیان ہوتا ہے کہ 
میں پناہ مانگتا ہوں انسانوں کے رب کی 
انسانوں کے بادشاہ کی، انسانوں کے معبود کی  
یعنی سائیں بھی الله، بادشاہ بھی الله اورعبادت کے لائق بھی الله 

پاکستان میں سیاست دانوں نے جو جمہوری تماشہ لگایا ہوا ہے وہ بھی فرعون، نمرود، شدّاد  اور یزید کے نظریات کا ہی تسلسل ہے - ان سیاست دانوں کا ساتھ دینے والے تاجر، وکیل، صحافی، ججز، ڈاکٹرز، انجینئرز، استاتذہ، اداکار، گلوکار، مصنّف، شاعر،  پولیس، سردار،وڈیرے، چودھری اور علماء وہ مہرے ہیں جو ان سیاست دانوں کو جھوٹا معبود ثابت کرنے میں مدد دیتے ہیں-  کہ یہی ہے جو تمھارے رزق پر قادر ہے اور تمہیں روٹی، کپڑا اور مکان دلا سکتا ہے- یہی ہے عزت و ذلّت کا مالک جو تمہیں دنیا میں ترقی دے سکتا ہے- یہی ہے وہ عالم جو تمہیں جہنّم سے نجات دلوا سکتا ہے اور جنّت میں داخل کرواسکتا ہے- کیونکہ جو لوٹ مار ان سیاسی اور دینی بادشاہوں نے مچائی ہوتی ہے اس میں سے انھیں بھی حصّہ ملتا ہے- کچھ نہ کرنے کی صلاحیت یعنی نا اہل ہونے کے باوجود یہ سیاست دان اور علماء سب کچھ کرنے کے دعوے کرتے ہیں اور یہ مہرے ان کا سہارا بنتے ہیں-  کبھی حزب اقتدار بن کر اور کبھی حزب اختلاف بن کر- یہ سیاست دان فرعون، نمرود اور شدّاد کی طرح صرف اپنی سیاسی بادشاہت بچانے کی فکر میں ہوتے ہیں-  انہی کی طرح بے حس اور بے غیرت بن کر عوام کے ٹیکس پر شاہانہ زندگی گزارتے ہیں اور انہی کی طرح اس سیاسی بادشاہت کو اپنی نسلوں اور خاندانوں تک محدود رکھتے ہیں-  اور یہ سارے کے سارے وہی جھٹلانے والے لوگ ہیں جن کا ذکر قرآن میں بار بار آیا ہے- کہ وہ عقل پکڑیں اور سدھر جائیں- لیکن جیسے کہ حضرت علّامہ اقبال رحمة الله علیہ نے فرمایا کہ 
نہ ہو طبیعت ہی جن کی قابل وہ تربیت سے نہیں سنورتے 
ہوا نہ سرسبز رہ کے پانی میں عکس سرو کنار جو کا 

کیا فرق ہے نواز شریف، زرداری، الطاف حسین، مغل بادشاہوں، فرعون، نمرود، شدّاد اور یزید میں؟  نام اور زمانہ بدلنے سے کردار نہیں بدل جاتے اور نہ ہی انکے انجام-  ہر فرعون اور نمرود اور یزید کے کردار والے  شخص کے مقابلے پر کوئی نہ کوئی موسیٰ اور ابراہیم اور حسین کے کردار والا شخص موجود ہوتا ہے-   یہ دو قومی نظریہ کرداروں کی شکل میں ہمیشہ سے ہے اور رہے گا کیونکہ یہی تو اعمال کو اور نیّتوں کو پرکھنے کا پیمانہ ہے-  فرق یہ ہے کہ یہ جھوٹے خدا اور انکو سہارا دینے والے آج بھی اتنے اہل ہیں کہ ساری کی ساری قوم کی توجہ اور وسائل اپنے اوپر ضائع کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کیوں کہ انکو کام ہی یہ دیا گیا ہوتا ہے کہ اپنی اور قوم وقت اور وسائل کسی طرح بھی ضائع کرنا ہیں اورانکی تربیت بھی یہی کی جاتی ہے- کیونکہ اسی طرح کسی بھی ملک کی عوام کو غافل کروا کر ہی تو اسلام دشمن طاقتیں اپنے عزائم پورے کرتی ہیں

جس معاشرے میں عوام اپنے رب کو بھول کر اپنے فائدے اور نقصان کے لئے اپنے ہی جیسے انسانوں کی طرف رجوع کرے تو وہاں کے حالات ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے آج پاکستان کے ہیں-  لوگ کسی ایک انسان کو جھوٹا معبود بنا کر اسی کی حفاظت میں لگ جاتے ہیں جیسے عرب کے لوگ اپنے بتوں کی حفاظت خود کیا کرتے- جس طرح سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کی قوم کو معلوم تھا کہ یہ بت کسی فائدے یا نقصان پر قدرت نہیں رکھتے بلکہ یہ بت انہوں نے خود تراشے ہیں اور خود انکی کم عقلی کی وجہ سے پتھر سے خدا بن گئے ہیں- اسی طرح پاکستان کی عوام کو بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ نواز شریف، زرداری، الطاف حسین اور ان جیسے کتنے ہی جھوٹے خدا کسی چیز پر ذرّہ برابر قدرت نہیں رکھتے اور کسی فائدے اور نقصان کے مالک نہیں- اور نواز شریف، زرداری، الطاف حسین جیسے کردار انہوں نے خود منتخب کئے ہوتے ہیں  اور خود عوام کی اپنی غفلت اور جہالت کی وجہ سے عام آدمی سے خاص بن گئے ہیں-  یہ تو خود عوام کی دولت سے اپنی جان کی حفاظت کے لئے  بلٹ پروف گاڑیاں خریدتے ہیں اور قوم کے محافظوں کو اپنے خاندان کا چوکیدار بنا دیتے ہیں- عوام کے بھکاری عوام کو کیا دے سکتے ہیں 

رسول الله صلی الله علیہ وسلّم نے بت تراش کرعوام کو نہیں دیئے بلکہ کردار تراشے- اور سخت ترین حالات میں بھی علی اور ابوبکر اور عمر اور عثمان اور بلال اور بیشمار اعلیٰ  اور بے مثال کردار دنیا کو عطا کے- اور ان کرداروں نے کسی شخصیت کو نہیں بلکہ ایک  نظام کو مظبوط کیا- کیونکہ انھیں صرف اپنی ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کی بھلائی منظور تھی اور یہی انسانیت کی فلاح و بہبود انکی زندگی کا مقصد تھا- کسی ادارے سے ڈگریاں نہ لینے کے باوجود انھیں یہ بات سمجھ آ گئی تھی کہ انسان تو باقی نہیں رہتا لیکن اس کا دیا ہوا نظام پیچھے آنے والے انسانوں کی فلاح کا ضامن ہوتا ہے

گو کہ ان جھوٹے خداؤں کا انجام فرعون، شدّاد، نمرود اور یزید سے کچھ مختلف نہیں ہوگا جو عبرت اور ذلّت کا نشان بن چکے ہیں لیکن ان کے پاس یہ سب باتیں سوچنے کا وقت ہی نہیں ہے-  دوسری طرف عوام کے پاس بھی وقت نہیں کہ وہ یہ سمجھے کہ کہ نواز شریف، زرداری اور الطاف حسین جیسے جھوٹے خدا سورج کو مغرب سے نکال کر دکھانے میں ناکام ہو چکے ہیں اور اب اس سے پہلے کہ عوام ان سے ان کے وعدوں کا اور انکے فرائض منصبی کا حساب لینے کے لئے جاگے، یہ اپنے جھوٹے معبودوں کے ساتھ مل کر پہلے ہی عوام کے لئے آگ کا الاؤ تیّار کر چکے ہیں

آگ ہے اولاد ابراہیم ہے نمرود ہے 
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے؟  

الله تعالیٰ پاکستان کی زمین کو، پاکستان کی ہواؤں کو، پاکستان کے پانیوں کو، ایک لمبے عرصے کے لئے سمجھدار، مخلص، صادق و امین قیادتیں اور رہنما عطا فرمائے اور  پاکستانی عوام کو ایسے لیڈرز کو پہچاننے کی اور انکی قدر کرنے کی اور انکی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے- آمین