A Believer's Discipline (from Nov 1, 2011)
Discipline is the sign of system. A system does not work without discipline in its components and discipline does not last without a specified purpose.
A discipline is a relation between work and time, that is; executing action or work and/or dividing it into fragments or steps in accordance with the time duration, controlling desires according to time and situations (as the word for discipline in Arabic is ‘inzuibaat’/nazm-wa-zabt in Urdu), or it can be simply defined as distribution of time for work.
Discipline is the sign of system. A system does not work without discipline in its components and discipline does not last without a specified purpose.
A discipline is a relation between work and time, that is; executing action or work and/or dividing it into fragments or steps in accordance with the time duration, controlling desires according to time and situations (as the word for discipline in Arabic is ‘inzuibaat’/nazm-wa-zabt in Urdu), or it can be simply defined as distribution of time for work.
The total time of the Universe (from beginning till its end) is divided into the time of galaxies and solar systems. Then in our solar system, time is distributed to planets according to their movement. Then on planet Earth, time is divided into seasons, day and night, then different countries have different sun-rise and sun-set timings, and then distribution of time into working hours, sleeping time, fun time according to people’s need and desires. (courtesy Meta-Existence)
A system must have a reason to exist. The things in the sky and on earth have been assigned their specific tasks with no change in them and that is their discipline to serve humans. Sun shines to give heat and light, moon appears to show the months, earth orbits and spins to cause seasons and days and nights, trees grow with fruits and flowers, plants give food and medicine, cattle, wild animals, sea animals, birds, etc.
Good Deeds (from Oct 29, 2011)
Just imagine why Allama Iqbal and Quaid-e-Azam focused on establishing a separate system instead of compromising with Hindus and British Govt and introducing Islam as a complete system. Unlike mullahs and religious scholars, they did not emphasize on doing good deeds, charity or donations. That is because they knew that this is the part of a human nature to help others. Even the most evil person is satisfied when he/she helps somebody in need. So good deeds are a part of a human nature. Islam just put them in order according to their nature of priority so they deliver to resolve problems on a long-term basis.
Good deeds have no timings and no conditions, they can be done any time, to anyone, by anyone. Likewise, love and friendship are feelings not relations and are not bound to time and situations. That is why these three elements are considered a great tool of western democracy. They are the energy which keeps life moving in any circumstances. But even together, they don’t give a power that can be applied to build a system. They do attract people to show their good side but do not turn them into a force that can cause resistance against evil. These elements together do not provide a source that guarantees a continuity of provisions.
Good deeds, love and friendship become a driving force to build a system only if they are transformed into principals, rules and laws. Laws are meant to be imposed and must be obeyed at their time, conditions and circumstances.
عملوالصالحات
تمام انسان مرد و عورت حضرت آدم کی اولاد ہیں۔۔۔ اور رنگ, نسل, قبیلے, زبان ان کی آپس میں پہچان کا ذریعہ۔۔۔ ہر رنگ, نسل, قبیلے, زبان کے لوگ آپس میں ایک دوسرے کو فائدہ پہنچاتے ہیں, ایک دوسرے کی جان و مال کی حفاظت کرتے ہیں۔۔۔ یہ وفاداری کہلاتی ہے۔۔۔ لیکن اگر ان میں سے کوئی کسی دوسری قوم کے لئےاپنی قوم کانقصان کرے تو یہ غداری کہلاتی ہے۔۔۔
ہر قبیلے یا قوم کےافراد کے آپس میں واسطے یا رابطے کی وجہ یا تو خون کے رشتے ہوتے ہیں یا پھر کام , جس میں مقصد یا تحریک بھی شامل ہے, یا اخلاقیات جیسے کہ بیمار کی عیادت, پڑوسی کی دیکھہ بھال, مسکین کو کھانا کھلانا, قیدی کو چھڑوانا, غلام کو آزاد کروانا۔۔۔۔ یہ تینوں وجوہات بہت مضبوط اور بااثر عناصر ہیں کیونکہ انکے نتائج نکلتے ہیں۔۔۔ یہ تینوں عناصر عملی بھی ہیں لہذا وقت اور حالات کے پابند ہوتے ہیں اسی لئے انکے قوانین موجود ہیں۔۔۔۔۔۔۔
انکے علاوہ دو خیالی یا احساساتی عنصر بھی افراد کے درمیان رابطے کا کام دیتے ہیں اور وہ ہیں محبت اور دوستی۔۔۔ انکے اثرات بھی عملوالصلحت کی طرح ہوتے ہیں۔۔۔ وقت وحالات کی قید سے آزاد, زندگی کو قائم اور متحرک تو رکھتے ہیں اور انفرادی اور وقتی فائدے بھی پہنچاتے ہیں لیکن ظلم کے نظام کے خلاف دیوار نہیں بنتے۔۔۔
اسلام ایک نظریاتی عقیدہ ہے جو انسانوں کو انکے رنگ, نسل, قبیلے, زبان سے نہیں بلکہ انکے کردار سے پہچانتا ہے اور اعمال کی بنیاد پر انکا احتساب کرتا ہے۔۔۔ اسی لئے اسلام کا کوئی وطن نہیں, وہ ہر جگہ اپنی نشانیوں کے ساتھہ موجود ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ سچائی, امانتداری, انصا ف, مساوات, خلوص, ایفائے عہد, گواہی, بہادری, حکمت, علم۔۔۔ جب ان خصوصیات کے ساتھہ ایمان بالله اور ایمان با لاخرہ شامل ہوجائے تو وہ شخص مسلمان اور وہ جگہ اسلامی ریاست کہلاتی ہے۔۔۔
رسول اکرم صلی الله علیہ والہ وسلم نے فرمایا۔۔۔ حکومت کفر پر چل سکتی ہے ظلم پرنہیں۔۔۔ جیسے خدا نے یہ کائنات اپنے حکم کے تحت عدل پر قائم کی۔۔۔ اور اپنی رحمت اور محبت سے اسے چلا رہا ہے۔۔۔ اسی طرح ایک اسلامی ریاست بھی ہوتی ہے۔۔۔ نظام عدل پہ قائم رہتی ہے اور عملوالصلحت, محبتوں اور دوستیوں کی وجہ سے چلتی رہتی ہے۔۔۔
اور اگر الله پر ایمان اور آخرت یعنی حساب کتاب کا ڈر نہ ہو تو یہی محبتیں, دوستیاں رشتہ داریاں, وفاداریاں نا انصافی, جرائم, تعصب, نفرت, فرقہ بندیوں, فساد اور خون خرابہ کاسبب بنتی ہیں۔۔۔ پاکستان اور دنیا کا حال ہمارے سامنے ہے۔۔۔ سورہ المعارج میں ارشاد ہوتا ہے۔۔۔ اور نہ پوچھے گا کوئی جگری دوست اپنے جگر دوست کو حالانکہ وہ ایک دوسرے کو دکھائے جائیں گے۔۔۔ خواہش کر ے گا مجرم کاش وہ فدیے میں دیدے اس دن عذاب سے بچنے کے لئے اپنی اولاد کو, اپنی بیوی کواور اپنے بھائی کو۔۔۔ اور اپنے قریب ترین خاندان کو جو اسے پناہ دیا کرتا تھا, اوران سبکو جو زمین میں ہیں۔۔۔۔
انسان چاہے کسی مذہب, کسی قوم سے ہوں یا لا دین یا خدا کے منکر بھی ہوں۔۔۔ انکی سوچ, خواہشات, مختلف حالات میں ردعمل, تقریبا تقریبا ایک جیسا ہوتا ہے۔۔۔ اسی لئے ہر قوم کی عوام نے مختلف زمانوں اورعلاقوں کے باوجود اپنے نبیوں اور رسولوں کی تعلیمات کے ساتھہ ایک جیس سلوک کیا۔۔۔ حتی کہ مسلمانوں نے بھی ہر قوم کی طرح خود کو فرقوں, علاقوں اور زبانوں کی بنیاد پر تقسیم کرلیا۔۔۔۔ لہذا آج وہ بھی اس گلوبلائزیشن کا حصہ بن چکے ہیں جسکا عقیدہ خدا کی وحدانیت نہیں بلکہ انسانیت ہے۔۔۔ جسکا عمل الله کے پسند یا ناپسند کی پابندی نہیں بلکہ اپنی خواہشات کی تکمیل ہے۔۔۔ جس کا احتساب خدا کے قوانین نہیں بلکہ انسانوں کے بنائے ہو ئے آئین ہیں۔۔۔ جس میں باتیں آسمانوں کی کی جاتی ہیں لیکن نظرانسانی قد سے اوپر نہیں جاتی۔۔۔ یہ وہ نظام ہے جس نے ہر انسان کو خدا کے مقابل لا کھڑا کیا ہے۔۔۔
سورہ الجاثیہ میں بیان ہوتا ہے۔۔۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا اس شخص کو, جس نے اپنی خواہشات کو اپنا خدا بنالیا۔۔۔ تو الله نے اسے گمراہی میں چھوڑ دیا اور اسکےکانوں اور دل پرمہر لگادی اور آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔۔۔ کون اسے ہدایت دے سکتاہے جسے الله نے گمراہ کردیا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا میں اکثر, انسانوں کو نیکی, بھلائی کی طرف راغب کرنے, حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے, انسانی مساوات کا تصور پیدا کرنے کےلئے جانوروں اور چیزوں کی مثالیں دی جاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پانی کی طرح بہنا سیکھو جو سبکو سیراب کرتاہے, سورج کی روشنی بنو جو سب کے لئے زندگی کا باعث ہے, درخت خود دھوپ میں کھڑے ہو کر سب کو سایہ فراہم کرتے ہیں, چیونٹی ہمت نہیں ہارتی, شیر کی طرح بہادر بنو, امن کا نشان فاختہ, کووں کا ایکا الو عقلمند ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی ہم نے یہ سوچا ہے کہ آسمان, زمین, سورج, چاند, درخت, پھول, پودے, گائے, بکری, شیر, پرندے۔۔۔۔۔۔ یہ سب ایک لکھی لکھائی سکرپٹ کے مطابق اپنے کام کر رہے ہیں۔۔۔ یہی انکی تقدیر ہے یہی انکا ڈسپلن اور یہی عبادت۔۔۔ ان کی کوئی مرضی یا ارادہ نہیں ہوتا کہ وہ تھک گئے ہیں, دل نہیں چاہ رہا, آج کچھہ نیا کرتے ہیں۔۔۔۔ اسی لئے جانوروں کے کاٹنے, مارنے کے قوانین نہیں, حساب کتاب نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سورہ الرعد, آٹھویں آیت۔۔۔ ہرچیز اس کے سامنے ہے ایک تناسب کےساتھہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سورہ القمر۔۔۔ بےشک ہم نے تخلیق کیا ہر شئے کو مقررہ اندازے کی ساتھہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سورہ الرحمن۔۔۔ اور توازن قائم کیا ہر شئے میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسا ن اشرف المخوقات ہے۔۔۔ وہ ان چیزوں سے سیکھہ سکتا ہے, انکو استعمال کرسکتا ہے مگر اپنی زنگی کے مقصد اورکاموں کا ان سے مقابلہ نہیں کرسکتا۔۔۔ انسان کو نیت, ارادے اور خواہشات کے ساتھہ پیدا کیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سورہ الشمس۔۔۔ قسم ہے نفس انسانی کی اور جیسا اسے ہموار کیا, پھر الہام کردی اس پر اس کی بدی اور پرہیز گاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک پیدائشی مسلمان, ہندو, یہودی, عیسائی, لادین یا خدا کے منکر اشخاص کے درمیان کیا فرق ہوتاہے۔۔۔ ان سب مذاہب کے چودہ, پندرہ, سولہ بلکہ اٹھارہ بیس سال کے بچوں کا انتقال ہو تاہے تو یہی کہا جاتا ہے کہ معصوم تھا۔۔۔ کیونکہ انھوں نے شعوری طورپر کوئی مذہب کوئی زندگی کاراستہ اپنایا نہیں ہوتا۔۔۔ اپنے نفس میں موجود نیکی اور بدی کی صلاحیتوں کو آزمایا نہیں ہوتا۔۔۔ اسی لئے بچوں کو بھی کبھی پھولوں, کبھی فرشتوں کی طرح معصوم کہا جاتا ہے۔۔
انبیاء, رسل اور بہت سے اہل ایمان یعنی نبی کے حواری یا صحابی بھی معصومین کہلاتے ہیں کیونکہ ان کی زندگیاں مکمل طور پر الله کی رضا کے تابع ہوتی تھیں۔۔۔ انکی دنیاوی خواہشات بھی الله کے حکم مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھیں۔۔۔ بظاہر دنیا کے کاموں میں مصروف نظر آنے والے یہ لوگ ہر لمحہ اپنے رب کے احکامات کاانتظار کرتے تھے۔۔۔ اور حکم ملتے ہی باقی سب کام چھوڑ دیتے تھے۔۔۔ یہی انبیاء اور رسولوں کا ڈسپلن تھا یعنی جو احکامات الله کی طرف سے نازل ہو چکے ہیں ان کی پابندی, اور کسی بھی حالات سے نمٹنے کے لئے خود کو تیار رکھنا۔۔۔ اسی لئے جب کوئی قوم اپنے نبی کو اذیت دیتی, ان پر ظلم کرتی تو اسے تباہ کردیا جاتا۔۔۔
انسانوں میں بچے, نبی اوراہل ایمان یعنی نبی کے حواری یا صحابی معصوم ہوتے ہیں۔۔۔
اب بچ گئی باقی انسانیت۔۔۔ جو اپنی نیتوں, حق خود ارادیت اور اعمال کے بازپرس کے لئے خدائے واحد کے سامنے حاضر ہوگی۔۔۔ اورتمام معصومین کو نکال کر تمام آسمانی کتابوں کی مخاطب یہی باقی انسانیت ہے۔۔۔ اور یہ بات پچھلی پوسٹ ,عملوالصالحات, میں بیان ہو چکی ہے کہ نیکی, بھلائی, اچھائی انسان کے اعلی کردار کی نشانی تو ہوتی ہے, گمراہوں کو ہدایت بھی دلا تی ہے, انفرادی یا اجتماعی طور پر ضرورتمندوں کی حاجات بھی پوری کرتی ہے, اور مظلوموں کو وقتی طور پر دلاسابھی دیتی ہے۔۔۔ آخرت میں آگ کے عذاب سے بچنے کا سامان بھی ہوں گی اور پل صراط پر روشنی بھی۔۔۔۔ اور اسی وجہ سے نیکی, بھلائی, اچھائی دنیا کے چلتے رہنے کا ذریعہ ہے۔۔۔
لیکن یہ ظالم کا ہاتھہ نہیں روکتی۔۔۔ لوگوں کو ان کا حق واپس نہیں دلاتی۔۔۔ ضروریات زندگی پورے کرنے کے مستقل ذرائع نہیں فراہم کرتی۔۔۔ گمراہی سے ہدایت پانے والوں کو ایک اجتماعی قوت نہیں بناتی۔۔۔۔
ہے زندہ فقط وحدت افکار سے ملت۔۔۔ وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد
وحدت کی حفاظت نہیں بے قوت بازو۔۔۔ آتی نہیں کچھہ کام یہاں عقل خداداد
اے مرد خدا تجھہ کو وہ قوت نہیں حاصل۔۔۔ جابیٹھہ کسی غار میں الله کو کریاد
مسکینی ومحکومی ونومیدی جاوید۔۔۔ جس کایہ تصوف ہو وہ اسلام کر ایجاد
ملا کوجو ہے ہند میں سجدے کی اجازت۔۔۔ ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
نیکی, بھلائی, اچھائی دوستی اورمحبت کا کوئی وقت نہیں ہوتا۔۔۔ لیکن انھیں ایک قوت بننے کے لئے اصولوں اور قوانین کی شکل اختیار کرنی پڑتی ہے۔۔۔ اصول اور قوانین ایک مقررہ وقت کے, حالات یا کیفیات کے پابند ہوتے ہیں۔۔۔
مثلا الله تعالی سےانفرادی رابطے, الله کو یاد کرنے اور فریاد کرنے کا کوئی وقت مقرر نہیں۔۔۔ لیکن نماز کو, مل کر ایک جماعت کی شکل میں الله تعالی کے سامنے حاضر ہونے کا ذریعہ بنایا۔۔۔ یہ سماجی نظام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی طرح صدقہ وخیرات کا کوئی وقت مقرر نہیں۔۔۔ لیکن زکات اسلام کا مکمل معاشی نظام ہے جس میں زکات دینے والے, زکات لینے والے اور زکات تقسیم کرنے والے, سب شریعت کے اصولوں کے پابند ہوتےہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی طرح بیت الله کی زیارت کا, رسول اکرم صلی الله علیہ والہ وسلم کی زیارت کا کوئی وقت مقرر نہیں۔۔۔ لیکن حج کومسلمانوں کے بین الاقوامی تعلقات ومعاملات اور بین الاقوامی مرکزیت کا ذریعہ بنادیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی طرح رمضان کے مہینے میں روزوں کا نظام انفرادی, اجتماعی, مالی, جسمانی فائدوں سے بھرا پڑا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر وراثت, شادی, طلاق, انصاف, گواہی, جنگ کے قوانین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مومن کا ڈسپلن یا نظام زندگی کیا ہے۔۔۔۔۔۔
تقدیر کے پابند نباتات و جمادات۔۔۔ مومن فقط احکام الہی کا ہے پابند
ایک مومن کی زندگی انبیاء کرام اور صحابہ کی زندگیوں کا عکس اور عام انسانوں کے برعکس ہوتی ہے۔۔۔ فرق صرف اتنا ہے کہ انبیاء اور رسل حضرت جبرئیل کے ذریعے الله سے براہ راست ہدایات پاتے تھے اور صحابہ رسول سے۔۔۔ جبکہ مومن کو اپنی فراست سے کام لینا پڑتا ہے۔۔۔ رسول صلی الله علیہ والہ وسلم نے فرمایا۔۔۔ مومن کی فراست سے ڈرو, کیونکہ وہ الله کی نظر سے دیکھتاہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مومن کا تصور ایک عام مسلمان سے ذرا ہٹ کے ہے۔۔۔۔ اسکی سوچ اپنے قبیلے, اپنے خاندان, اپنی روایات, اپنی قوم, ظاہری لباس, اور مروجہ نظام تک محدود نہیں ہوتی۔۔۔ زمین کے کسی خطے میں ہو, ایک کے بعد ایک رونما ہونے والے حالات میں وہ الله کی تدبیر ہوتا ہے۔۔۔۔ قرآن میں مومنین کی نشانیاں جگہ جگہ بیان کی گئیں ہیں۔۔۔ احادیث مبارکہ میں بھی مومن کی خصوصیات کا ذکر ملتاہے۔۔۔۔۔ مومن کی زندگی میں اولیت الله کے ان احکامات کی پابندی ہے جو ایک شرعی نظام کے طور پر قیامت تک کے لئے صادر کئے گئے ہیں لہذا وہ احکا مات تو تقدیر بن گئے ہیں, جنکی پابندی سارے مسلمانوں پر لازم ہے۔۔۔ لیکن اس سے بڑھہ کر وہ احساس ذمہ داری جو رسول صلی الله علیہ والہ وسلم سبکے کاندھوں پر ڈال گئے ہیں اسے فرصت سے نہیں بیٹھنے دیتی۔۔۔ لہذا انکو پورا کرنے کے لئے اسے مقررہ اوقات کار والے طریقوں سے الگ ہونا پڑتا ہے۔۔۔ اپنی زندگی کے معمولات کواپنے مقصد حیات کی راہ میں مجبوری نہیں بننے دیتا۔۔۔۔ اسلامی تاریخ ایسی شخصیات سے بھری پڑی ہے۔۔۔ پاکستان میں قائداعظم سے اچھی مثال کیا ہوسکتی ہے۔۔۔۔ جنکا ڈسپلن تھا۔۔۔ کام, کام, اور بس کام۔۔۔
علامہ اقبال نے کہا۔۔۔
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن, قاری نظرآتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
رسول صلی الله علیہ وسلم کل ایمان, کل اخلاق, کل نظام تھے۔۔۔ مومنین اس کل کا جزو ہیں۔۔۔ اسی لئے ہر مومن میں رسول صلی الله علیہ وسلم کی کسی خاصیت کی زیادتی نظر آئے گی اور کہیں کمی۔۔۔ اور اسی لئے مومنین ملکر جماعت کے طورپر تو اسلامی شریعت نافذ کر سکتے ہیں۔۔۔ ایک ون مین شو کے طور پر نہیں۔۔۔
امت کا زوال۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خلفائے راشدین کے دور کے فورا بعد جو بات فتنہ بنی اور آج تک فساد کا باعث ہے وہ یہی ون مین شو والی حاکمیت ہے۔۔۔ اور مسلمانوں کے زوال کا سبب اس سے لاتعلقی یا اسکے خلاف خاموشی۔۔۔ عام مسلمانوں کی اسی لاتعلقی اور خاموشی کا پہلا نتیجہ کربلا کی صورت میں نکلا۔۔ پھر مسلمانوں نے چنگیز خان اور ہلاکو خان کے دور بھی دیکھے۔۔۔ اور آج فلسطین, کشمیر, عراق, افغانستان, لیبیا, مسلمان افریقی ممالک, پاکستان۔۔۔ جہاں جہاں مسلمان ہیں, رو پیٹ رہے ہیں۔۔۔ لیکن کوئی اپنے ملاؤں, عالموں, سیاسی شیطانوں, علاقائیت,روایات چھوڑ کرایک ہونے کو تیار نہیں۔۔۔
مسلمانوں میں نیک کام کرنے والوں کی کمی نہیں۔۔۔ لیکن ٹیم ورک کی کمی ہے۔۔۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے تیرہ سال لگائے اس نظام کو صحابہ کی شخصیت کا حصہ بنانے میں جس کو انھوں نے آگے نافذ کر نا تھا۔۔۔۔ جبکہ مسلمانوں میں نظام ایک شخص کے گرد گھومتا ہے۔۔۔ اسکے مرتے ہی ختم ہوجاتا ہے۔۔۔
جہاں اگرچہ دگرگوں ہے, قم باذن الله۔۔۔ وہی زمین وہی گردوں ہے, قم باذن الله
قم باذن الله یعنی کھڑا ہوجا الله کے حکم سے۔۔۔۔ یہ الفا ظ تھے حضرت عیسی علیہ السلام کے جس سے وہ مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے۔۔ وہ برص کے مریضوں کو ہاتھہ لگاتے تو شفا ہو جاتی۔۔۔ انکا ایک واقعہ بھی بہت مشہور ہے کہ جب ایک طوائف کو رجم کرنے کی سزا سنائی گئی تو انھوں نے فرمایا۔۔۔ پہلا پتھر وہ مارے جس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی اخلاقی تعلیمات اس انتہا پر تھیں کہ فرمایا کہ کوئی ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا بھی پیش کردو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اتنے عظیم انسان کے ساتھہ ان کی عوام نے کیا سلوک کیا کہ جب بادشاہ وقت نے حضرت عیسی علیہ السلام کو سزا سنائی تو کوئی بادشاہ کے خلاف کھڑا نہ ہوا۔۔۔ یہ صلہ دیا انھوں نے اس پاک شخصیت کا جس کو کبھی شیطان نے نہیں چھوااور جسکا معجزہ وہ دیکھہ چکے تھے کہ پیدا ہوتے ہی اس نے اپنے نبی ہونے اورماں کے پاکیزہ کردار کی گواہی دی۔۔۔۔
نیکی, بھلائی اور فلاح کے کام اخلاقیات کی تعریف میں آتے ہیں اور اسی لئے کسی بھی معاشرے کی روح ہوتے ہیں جو اسے زندہ اورمتحرک رکھتی ہے۔۔۔ اسلام نظریہ کے مطابق یہ حقوق العباد کا حصہ ہیں۔۔۔ اور الله عزوجل کی عبادت یعنی حقوق الله کا ایک جزو ہیں۔۔۔
اسلام میں, عملوالصلحت, یعنی اچھے اعمال کی بڑی اہمیت ہے۔۔۔ اور سورہ العصرمیں بیان کی گئی ان چارنجات کی شرائط میں سے ایک ہے جن کی وجہ سے انسان آخرت کے خسارے سے بچ سکتا ہے۔۔۔ بلکہ قرآن میں بار بار اچھے اعمال کی نصیحت کی گئی ہے۔۔۔ اچھے عمل کرنے کرے والے لوگ ہر مذہب, ہر قوم اور زمانہ میں پائے گئے ہیں اور پائے جاتے ہیں۔۔۔ کیو نکہ یہ انسانی فطرت کا حصہ ہیں۔۔۔ کسی کی مدد کر کے, کسی کا پیٹ بھر کے, کسی کو خوشی دے کر دل کو سکون ملتا ہے۔۔۔ برے سے برا انسان بھی کہیں نہ کہیں کسی کو فائدہ پہنچا دیتا ہے۔۔۔ اکثر لوگ اپنے گناہوں کے کفارے کے طور پر بھی نیک کام کرتے ہیں۔۔۔ نبی کریم محمد مصطفے صلی الله علیہ والہ وسلم کے اعلان نبوت سے پہلے گو کہ ساری دنیا جہا لت اور گمراہی میں مبتلا تھی لیکن نیکی کا تصور موجود تھا۔۔۔ مکہ کے مشرکین بھی غریبوں کی مدد کیا کرتے تھے۔۔۔ کعبہ کی زیارت کرنے والوں کو پانی پلاتے تھے۔۔۔ ایسے کام برے سے برے معاشرے میں بھی ہو رہے ہوں تو ایک تسلی اور امید بنے رہتے ہیں۔۔۔ لہذا نیکی کے اس فطری عمل کو رکنا بھی نہیں چاہیے۔۔۔
نیک کام کرنا اتناآسان بھی نہیں ہوتا۔۔۔ لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے وسائل جمع کرنا اور صاحب حیثیت لوگوں کو اس کی طرف راغب کرنا, وسائل کی تقسیم اور فراہمی میں تسلسل… اور ان سارے کاموں کو بلا معاوضہ رضاکارانہ طور پرانجام دینے کے لئے وقت نکالنا۔۔۔۔۔۔ یہ سب کچھہ چٹکی بجاتے نہیں ہوجاتا۔۔۔۔ جو لوگ اچھے اعمال کر رہے ہوتے ہیں ان ہی کا دل جانتا ہے کہ وہ کن مشقتوں سے گذرتے ہیں۔۔۔
لوگ اچھے کام اپنی مالی حیثیت, جسمانی طاقت, سمجھہ اور صلاحیت کے مطابق کرتے ہیں۔۔۔ اس لئے ان کا یا ان کے کاموں کا آپس میں مقابلہ بھی نہیں کرنا چاہیے۔۔۔ بہت سے لوگ انفرادی طور پر پریشان حال ناداروں کی مدد کرتے ہیں۔۔۔ کچھہ ان پڑھ لوگوں کی تعلیم ک انتظام کرتے ہیں۔۔۔ کچھہ بیماروں اور معذورں کا سہارا بنتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اسی طرح کچھہ لوگ جماعت, تنظیم یا اداروں کی صورت میں تھوڑے بڑے پیمانے پر فلاح و بہبود کے کام کرتے ہیں۔۔۔ عبدالستار ایدھی فاؤنڈیشن, انصار برنی ٹرسٹ, شوکت خانم میموریل ہسپتال, عورت فاؤنڈیشن, کاشانہ اطفال, دارلامان, زندگی ٹرسٹ, سہارا ٹرسٹ, محمودہ سلطانہ ٹرسٹ, ولیج اسکولز, صراط الجنھ اور پاکستان کے دینی مدارس اوربہت سے ایسے ہی ادارے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے اپنے دائرے میں یہ سب ہی نیکی اور بھلائی میں مصرف ہیں۔۔۔۔
کیا نیکیاں معاشرے میں کوئی اجتماعی تبدیلی لاتی ہیں۔۔۔
امریکہ اور مغربی دنیا کو ہمارے ہاں زنا, بے حیائی, شراب, جوئے کی جڑ سمجھا جاتا ہے۔۔۔ تو دوسری طرف ہم انسانیت کے لئے بھی انھیں کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔۔۔ بھارت میں مدر ٹریسا نے عملی طورپر جتنے اچھے کام کئے, گاندھی اور نہرو نے بھی نہیں کئے ہوںگے۔۔۔ پاکستان میں عبدالستار ایدھی کے نیک کاموں کی فہرست بنانے بیٹھہ جائیں تو سال بیت جائے۔۔۔ الله کے اولیاء اور ہزاروں سوشل ورکرز اور فلاح وبہبود کے اداروں سے بھری ہوئی سر زمین پاکستان میں ہر دن بے گھر, غیر تعلیم یافتہ, بیمار لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔۔۔ مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک دنیا کی حالت پر نظر ڈالیں۔۔۔ کیا نیکیوں کے نتیجے اسی طرح نکلتے ہیں اور اچھے اعمال کرنے والوں کے معاشروں کا یہی حال ہوتاہے۔۔۔
اس سے یہ مطلب نہیں نکالنا چاہیے کہ شاید نیک کام کرنے والوں کی نیت ٹھیک نہیں۔۔۔ دنیا کے برے حالات میں نہ تو نیک کام کرنے والوں کی نیت کا قصور, نہ ہی وہ اسکے ذمہ دار ہیں۔۔۔ بلکہ یقینا وہ ہربرے حالات میں امید کی کرن ہوتے ہیں جو مظلوموں اور ناداروں کو حوصلہ دیتی ہے۔۔۔ انھیں جینے کے لئے جسمانی طاقت فراہم کرتی ہے۔۔۔
لیکن بہرحال یہ ایک حقیقت ہے۔۔۔ کہ پاکستان خصوصا دنیا کا سب سے زیادہ عطیات دینے والاملک ہے۔۔۔ اوربدحالی کا یہ حال کہ روزانہ لوگ خود کشیاں کرہے ہیں۔۔۔ خوف, بھوک, جہالت۔۔۔ جبکہ صدقات تو بلاؤں کو ٹالتے ہیں۔۔۔
سوچنے کی بات ہے کہ ایسا کیوں ہے۔۔۔
دنیا میں ایک لاکھہ چوبیس ہزار پیغمبر آئے اخلاقی تعلیمات کے ساتھہ۔۔۔ ان میں سب انبیاء لیکن کچھہ رسول بھی تھے۔۔۔ کتنے ہی نبییوں کو قتل کیا گیا, سولی چڑھایا گیا, آرے سے چیرا گیا۔۔۔ جبکہ ہر پیغمبر اپنی قوم کا نیک ترین اور مخلص ترین انسان تھے جسکی گواہی خود انکے اپنے لوگ دیتے تھے۔۔۔ کیا ان نبیوں کا خلوص اور بھلائی انکی قوم کی سوچ تبدیل کرسکا۔۔۔ انھیں انکے ظالم حکمرانوں کے ظلم سے نجات دلا سکا۔۔۔ حضرت موسی علیہ السلام نبی بھی تھے اور رسول بھی کیوں کہ خدائی قوانین ساتھہ لے کر اترے تھے۔۔۔ انھوں تو بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات بھی دلادی۔۔۔ لیکن انکی عوام کی سوچ آزادی نہیں, بلکہ ننانوے فیصد آبادیوں کی طرح روٹی کپڑا اورمکان تک محدود تھی۔۔۔ انجام یہ کہ الله نے انھیں بھٹکا دیا۔۔۔
رسول صلی الله علیہ وسلم نےخلافت مدینہ کے بعد غزوات کئے, جن میں مسلمان شہید اوربچے یتیم ہوئے۔۔۔ کیا آپ نے کوئی فلاح وبہبود کا کوئی ادارہ بنایا انکے لئے۔۔۔ بعد میں چاروں خلفائے راشدین کے زمانے میں بھی اس کی کوئی مثا ل نہیں ملتی۔۔۔ اس پورے عرصے میں مالی امداد اوراخراجات کا مرکز بیت المال ہوتا تھا۔۔۔ اور حکومت جو کہ ایک مرکزی نظام ہوتی ہے, بیت المال اس نظام کا حصہ ہوتا تھا۔۔۔
عبدالستارایدھی فاؤنڈیشن, انصار برنی ٹرسٹ, شوکت خانم میموریل ہسپتال, عورت فاؤنڈیشن, کاشانہ اطفال, دارلامان, زندگی ٹرسٹ, سہارا ٹرسٹ, محمودہ سلطانہ ٹرسٹ, ولیج اسکولز, صراط الجنہ اور پاکستان کے دینی مدارس اوربہت سے ایسے ہی ادارے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خیراتی ادارے جس نام سے بھی موجود ہوں یا جتنی عظیم شخصیت نے کھولے ہوں۔۔۔ وہ معاشرے کے بدحال افراد کو برے حال سے وقتی طور پر بچا تو سکتے ہیں لیکن کبھی شخصیات پیدا نہیں کرسکتے۔۔۔ کیونکہ ذہنی طور پر یہ افراد ایک دباؤ کا شکار ہوتے ہیں کہ ہم دوسروں کے وسائل پرپلے بڑھے ہیں۔۔۔ ان میں وہ اعتماد نہیں ہوتا جو ایک خاندان میں آزادنہ طور پرپلے لوگوں کی شخصیت کا حصہ ہوتا ہے۔۔۔
جب کسی ملک کے فلاح وبہبود اور امدادی کام مرکز سے ہٹ کر نیکی کے نام پہ عوام کے ہاتھہ میں آجائیں تو عوامی دولت اورعوام کی توجہ, دونوں کئی حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہیں۔۔۔ عوام کی توجہ اور دولت وہ طاقت ہیں جو تقسیم ہوجائیں توحکومتی عہدیداروں کو قومی خزانہ لوٹنے کے بہترین مواقع مل جاتے ہیں۔۔۔ حکمران مطمئن رہتے ہیں کہ چلوعوام آپس ہی میں کچھہ کرکرا کے مسائل کا حل نکال لیں گے۔۔۔۔۔۔۔ غریب, محروم, ضرورت مند لوگوں کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے ایک آسان راستہ ہاتھہ آجاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ خود کو بے بس اور مجبور سمجھتے ہوئے حکومت سے الجھنے یا ٹکرانے کے بجائے فلاحی اداروں کے در پر جا پڑتے ہیں۔۔۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشرے کے لوگ جو کمانے کے قابل ہیں ان پر بوجھ بڑھہ جاتا ہے۔۔۔ ایک طرف وہ فرض کے نام پر ٹیکس د یتے ہیں تودوسری جانب نیکی کے نام پر سینکڑوں کو پالتے ہیں۔۔۔
نیکی اور بھلائی کے کام, فلاحی منصوبے, صدقہ وخیرات۔۔۔ یہ سب آخرت میں پھل دیتے ہیں یا پھر دنیا میں انفرادی فائدے۔۔۔ یہ توقع کرنا کہ مفت نیکیاں کرتے رہو ای دن لوگ اچھے ہو جائیں گے, لوگوں کا مفت پیٹ بھرتے رہو ایک دن بھوک مٹ جائے گی, مفت علاج کرتے رہو بیماریاں ختم ہوجائیں گی, مفت تعلیم دیتے رہو جہالت ختم ہوجائے گی۔۔۔ آج تک نہ ہوا ہے نہ ہوگا۔۔۔ نیکی اور بھلائی کو نظام بننے کے لئے قانون اوراس کو نافذ کرنے والے قوت بازو کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔ جبکہ ہم نےعملوالصالحات یعنی نجات کی آخری شرط کو اسلام کا مکمل نظام سمجھہ لیا ہے۔۔۔
اگراب بھی بات سمجھہ نہیں آئی تو سوچیں کہ ۔۔۔ فلاحی اور خیراتی اداروں کی تعداد میں اضافہ, انکے عطیات اور چندہ کی رقم میں اضافہ, ان کے در پر آنے والوں کی تعداد میں اضافہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا معاشرے کے بہتر ہونے کی علامت ہے یا بدتر۔۔۔ کیا یہ اطمینان کا مقام ہے یا فکر کا۔۔۔ کیا اس طرز نیکی کی زیادتی سے مستقبل میں قوم کے معمار پیدا کئے جاسکتے ہیں یا حسب عادت ایک مسیحا کاانتظار کرنے والے ۔۔۔۔۔۔
کیوں آخر محمد مصطفے صلی الله علیہ وسلم ہی صرف تیئیس سال کےعرصے میں وہ نظام قائم کرسکے جس میں لوگ بھوکے مفلس تو تھے, بھکاری نہیں تھے۔۔۔ ایک بہتر زندگی زنگی کے خواہشمند تو تھے لیکن دوسروں کی جان, مال اورعزت کی قیمت پر نہیں۔۔۔ جہاں حضرت بلال کو اسلام لانے کے بعد بھی وہی تکلیفیں سہنی پڑیں اور فاقے برداشت کرنے پڑے جو امیہ کی غلامی میں تھے لیکن اب وہ آزاد تھے اور اپنی مرضی سب کچھہ برداشت کرتے تھے, ذلت سے نہیں۔
سلام ہوعرب کے ان غلاموں اور ان پڑھ لوگوں پرجنھوں نے چودہ سو سال پہلے اسلام کے مرکزیت کے تصور یعنی ۔۔۔ لاالہ الا الله ۔۔۔ کو سجھا اور آپس میں تفرقہ پیدا کرنے والی ہر دیوارگرادی۔۔۔
یہ نظام روٹی, کپڑا, مکان, ذاتی پسند, ذاتی زندگی اور مقابلے کےفلسفے سے شروع نہیں ہوا تھا۔۔۔ بلکہ ایک اجتمایت, مرکزیت اور کسب حلال کے تصور سے شروع ہوا۔۔۔ جہاں چندہ عوام کی ضروریات زندگی نہیں بلکہ قوم کے دفاع کے لئے مانگا جاتا تھا۔۔۔
یہ دولتمند لوگوں کے لئے, محنت سے کمانے والوں کے لئے نہ صرف فکر کا مقام ہے بلکہ انکے خوشحالی مستقبل کا سوال بھی۔۔۔۔ اگر ہم نے فلاح وبہبود کے اس تصور کو نہ سمجھا اور ان اصولوں کو نہ اپنایا جو اسلام نے سکھائے ہیں۔۔۔ تو آنے والا دور بھوک مفلسی اور جہالت میں اضافہ ہی لےکر آئے گا۔۔۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی کچھہ احادیث کے مطابق ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ مسلمان زکات دینے کے لئے مستحقین کو ڈھونڈیں گے اور کوئ زکات لینے والا نہ ملے گا۔۔۔ یہ دنیا کی خوشحالی کا دور ہوگا۔۔۔۔
نظام عد ل
جس معاشرے میں کوئی اجتماعی نظام نہ ہواور افراتفری لوٹ مار کا عالم ہو۔۔۔ جہاں سب ایک دوسرے کو بھاگتا دیکھہ کرخود بھی بلا سوچے سمجھے دوڑ میں شریک ہوجائیں۔۔۔ اور پھر ساتھہ ساتھہ حیران بھی ہوں کہ یہ کیا ہو رہا ہے ہمارے ساتھہ۔۔۔۔۔۔ وہاں انسان کو خود اپنی زندگی کا ایک نظام بنا لینا چاہیے, خود اپنی بہتر زندگی کے لئے اصول وضع کرلینے چاہئیں اور خود اپنے مقصد حیات کا تعین کرلینا چاہیے۔۔۔ ورنہ زندگی دوسروں کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتی۔۔۔
اس قسم کی زندگی گذارنا مشکل ضرور ہوتا ہے۔۔۔ دوسروں کی مخالفت, تضحیک, اور تنقید کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔۔۔ لیکن اسکا فائدہ ہوتا ہے۔۔۔ اور وہ یہ کہ آس پاس کے لوگ تھوڑے عرصےبعد اس انسان کی کچھہ خوبیوں کے نہ صرف گواہ بن جاتے ہیں بلکہ اس پر کسی حد تک اوروں کے مقابلے میں بھروسہ بھی کرنے لگتے ہیں۔۔۔
اسی کو عربی زبان میں صبر کہتے ہیں۔۔۔ یعنی اپنے ارادے پر,اپنے مقصد پر جم جانا۔۔۔۔ ان لغوی معنوں کے لحاظ سے صبر کرنے کے لئے انسان کا غریب, مسکین, قیدی یا مظلوم ہونا ضروری نہیں۔۔۔ صرف مزاحمت اور کوئی مقصد حاصل کرنے کے لئے ناموافق حالات کا ہونا شرط ہے۔۔۔
یہی صبر جب کسی مجبوری یا جبر کے بجائے اپنی مرضی, اپنی قوت ارادی اور اپنی خوشی سے کیا جائے تو یہ آجکل کی عام فہم جمہوریت کی تعریف کے مطابق شخصی آزادی بھی کہلاتی ہے اور حق خود ارادیت بھی۔۔۔
ہمارے پیارے رسول صلی الله علیہ والہ وسلم اسی صبر کا عملی نمونہ تھے۔۔۔ اعلان نبوت سے پہلے انکی منفرد شخصیت اوراعلان نبوت کے بعد انھوں جو بھی حالات سہے اس میں انکی اپنی مرضی شامل تھی۔۔۔ یہی تربیت وہ مکہ میں تیرہ سال تک اپنے صحابہ کو دیتے رہے۔۔۔
اسی لئے آپ صلی الله علیہ والہ وسلم کے زیر تربیت رہنے والے ہر صحابی اپنی ذات میں ایک نظام تھے۔۔۔ علم, شجاعت, حکمت یعنی صحیح فیصلہ کرنے کی سمجھہ, جنگی صلاحیت, حکومت کرنے کی اہلیت۔۔۔۔
ایک سوال یہ ہے کہ اگر خلفائے راشدین اور صحابہ اگر اتنے ہی عظیم رہنما اورسربراہ مملکت تھے تو اسلامی خلافت رسول صلی الله علیہ والہ وسلم کے دس سال ملاتے ہوئے صرف چالیس سال میں کیوں ختم ہوگئی۔۔۔ اور بعد میں چودہ سو سال آدھی سے زیادہ دنیا پر حکومتیں قائم کرنے باوجود مسلمان غیر مسلم دنیا کو وہ اسلامی نظام کیوں نہ دے پائے جو اسلام کا مقصد حیات یعنی الله کی زمین پراسکا نظام عدل قائم کرنا ہے۔۔۔
اسکا پہلا, سادہ اورآسان جواب تو یہ ہے کہ الله سبحانہ وتعالی کے کاموں کی حکمتیں وہ خود ہی جانے۔۔۔ انسان صرف اپنی عقل لڑا سکتا ہے۔۔۔
تو پہلی چیز تو یہ سمجھہ آتی ہے جییسے کہ سورہ المک میں الله نے فرمایا کہ الله نے زندگی اور موت کو تخلیق کیا کہ کون بہترین عمل کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر سورہ الذاریت میں فرمایا کہ میں نے تخلیق کیا جنوں اور انسانوں کوصرف اس لئے کہ وہ میری عبادت کریں۔۔۔۔۔۔۔ اور سورہ الجاثیہ میں فرمایا کہ کیا آپ نے نہیں دیکھا اسکو جس نے اپنی خواہشات کو اپنا خدا بنا لیا, تو الله نے مہر لگادی اسکی سماعت اور سمجھہ پہ اور اسکی آنکھوں پرغلاف چڑھا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی الله نے ہمیں صرف اپنی عبادت کے لئے تخلیق کیا۔۔۔۔۔۔ عبادت کا مطلب کیا ہے۔۔۔ یہ لفظ ع ب د, عبد سے نکلا ہے جسکا مطلب ہے غلام۔۔۔ یعنی جو حکم دیا گیا ہے اسے ہر حال میں پورا کرنا۔۔۔ جیسے فرشتے, زمین آسمان, چاند, سورج, ہوا, پانی, مٹی, ستارے, سیارے, درخت, پھول, جانور, پرندے, غرض کائنات کی ہرچیز کو جس خاصیت اور جس مقصد کے ساتھہ تخلیق کیا وہ ازل سے اسی مقصد کو پورا کئے جارہی ہے۔۔۔
دنیا میں دو مخلوق ایسی بھی ہیں جنکو مقصد حیات بھی بتایا اور اس کو پورا کرنے یا نہ کرنے کا اختیار بھی دیا۔۔۔ اور وہ ہیں جن اور انسان۔۔۔ کہ اپنی مرضی اور خوشی سے الله کی پسند یا ناپسند اوراسکی مرضی اور خوشی کا خیال رکھنا۔۔۔۔۔۔۔ جہاں اختیار دیا جاتا ہے وہاں مہلت بھی دی جاتی ہے, حساب کتاب پوچھہ گچھہ بھی ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ لہذا دونوں کے احتساب کے لئے ایک دن مقرر کردیا۔۔۔ اور احتساب کے بعد لازما سزا یا جزا کا فیصلہ بھی کیا جاتاہے ورنہ احتساب کا مقصد کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔
الله تعالی کی طرف سے دیاگیا یہ اختیار ہی اصل میں اسلامی جمہوریت ہے۔۔۔ سورہ البقرہ میں الله تعالی فرماتے ہیں… دین میں کوئی زبردستی نہیں, بے شک ہدایت کو ممیز کردیا گیا گمراہی سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کو دین اسلام میں داخل ہونا ہے وہ اپنی مرضی سے ہو۔۔۔ جس کو الله کے حکم کےمطابق کوئی فرض ادا کرنا ہے تواپنی خوشی سے کرے۔۔۔۔۔۔ کیونکہ لکھی لکھائی تقدیر یا اندازہ کے مطابق تو باقی ساری کائنات الله کی عبادت کررہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت آدم علیہ السلام اورانکے بعد بھی جب جب انسانوں اور جنوں نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا۔۔۔ الله نے انھیں میں سے اپنے فرمانبردار بندوں پرذمہ داری ڈالی کہ وہ انکی اصلاح کے لئے کھڑے ہوجائیں۔۔۔ تو بنیادی طور پر پیغمبروں کامقصد اصلاح اور گمراہ لوگوں کو حکمت اور صبر کے ساتھہ واپس صحیح راستے کی طرف راغب کرنا تھا۔۔۔ یہی عدل کا بنیادی تصور ہے کہ جس کو جس مقصد کے لئے تخلیق کیا گیا ہے اسے واپس اپنے مقصد پر لانا, کسی سے اسکا چھینا ہوا حق واپس دلوانا۔۔۔۔۔۔۔۔ عدل کی ضد ہےظلم۔۔۔ تو چیزوں کو بے جگہ کرنا, عقیدوں اور اعمال کا غلط استعمال یا کسی سے اسکا حق چھیننا ظلم ہوا۔۔۔ اور ان کو صحیح جگہ پر رکھنا, درست کرلینا عدل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو پھر بھی نہ مانے تو سزا دینےاور مٹا دینے کا اختیار الله کے پاس ہے۔۔۔
یہ لفظ ضد جسے اردو میں عموما الٹ کہا جاتا ہے, اصل میں ایک عنصر کا دوسرے عنصر کےخلاف برابر کی قوت کے ساتھہ مزاحمت یا کسی ایک قوت کا دوسری قوت کے خلاف ایک جیسی شدت سے موجود ہونا ہے۔۔۔۔ اب کیونکہ انسانوں اور جنوں کو قیامت تک رہنا ہے لہذا عدل اورظلم, اچھائی اور برائی, نیکی اور بدی کا تصوربھی قیامت تک موجود رہے گا۔۔۔ کبھی عدل پر یقین رکھنے والے لوگ ظلم کرنے والوں پر غالب ہوں گے اور کبھی معاملہ اسکے برعکس ہوگا۔۔۔
رسول اکرم محمد مصطفے صلی الله علیہ وسلم سے پہلے جتنے رسول اور نبی گذرے وہ اپنی قوم کی طرف بھیجے گئے۔۔۔ انکی قوم کی اکثریت نے اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے ہدایت کو ٹھکرادیا اور نتیجے کے طور پر وہ رسول کوئی باقاعدہ حکومت قائم نہ کرسکے۔۔۔۔۔ رسولوں میں صرف چند ہیں جنھیں اخلاقی تعلیمات کے ساتھہ ساتھہ قوانین بھی دئے گئے۔۔۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت اور حضرت یوسف علیہ السلام کی حکومتیں ایک خاص خطے اور وقت کے لئے تھیں۔۔۔۔۔۔ حضرت موسی علیہ السلام بنی اسرائیل کو فرعون کے قبضے سے نکال لائے لیکن ذہنی غلامی سے نجات نہ دلاسکے۔۔۔ یہ ان پیغمبروں کی ناکامی نہیں بلکہ انکےعوام کی اکثریت کی ناسمجھی اور غافل ہونا تھا۔۔۔
نبی اور رسول میں فرق کیا ہے۔۔۔ نبی کا لفظ نکلا ہے نبا سے جس کا مطلب ہے خبر دینے والا۔۔۔ یعنی ماضی اور مستقبل کے واقعات کی خبر دینے والا, اور لوگوں کو اخلاقیات کے ذریعے اصلاح کرنے والا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رسول کا لفظ نکلا ہے رسالہ یعنی کسی کو کسی کا پیغام پہنچانا سے۔۔۔ مطلب کہ رسول وہ لوگ ہوئے جنھیں الله نے ذریعہ بنایا اپنا پیغام پہنچانے کا۔۔۔۔ ان کتابوں کے مخاطب رسول نہیں یعنی منتخب نمائندے نہیں بلکہ جمہور یعنی عوام الناس تھی۔۔۔ جس کے پاس ماننے یا نہ ماننے کا اختیار موجود تھا۔۔۔
محمد مصطفے صلی الله علیہ والہ وسلم واحد نبی اور رسول ہیں جنھوں نے اپنے صحابہ کے ساتھہ مل کر دنیا کی پہلی باقاعدہ طورپر ایک ایسی حکومت قائم کرکے دکھا دی جسکا منشور بین الاقوامی تھا یعنی کہ عدل وانصاف, اور وہ سبکے لئے قابل قبول تھی۔۔۔ طریقہ اس حکومت کا تھا اتحاد اور صلاح مشورہ۔۔۔ فرائض کی ادائیگی اور اخلاقی تعلیمات اسکی روح تھیں۔۔۔
یہ خلافت نظام عدل جس محنت اور جذبہ کے ساتھہ صرف تیئیس سال کے قلیل عرصے میں وجود میں آئی اسکی سب سے بڑی وجہ محمد مصطفے صلی الله علیہ والہ وسلم کے کردار اوراخلاقی صفات کی عظمت تھا۔۔۔ سورہ الاحزاب میں الله تعالی فرماتے ہیں کہ اور بے شک تمھارے لئے رسول کے طریقے میں بہترین نمونہ موجود ہے۔۔۔ اور سورہ القلم میں فرمایا کہ بے شک آپ اخلاق کے بڑے مرتبے پر فائز ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے ساتھہ آپ صلی الله علیہ والہ وسلم کے ہاتھوں ہونے والی صحابہ کرام کی تربیت۔۔۔
اکابرین صحابہ کے کردار اور نیتوں پر شک کرنا, رسول کے عقل وفہم پر شک کرنے کے برابر ہے۔۔۔ اور نہ ہی رسول صلی الله علیہ والہ وسلم اتنے بزدل تھے کہ صرف اخلاقی مروت یا بے چارگی کی وجہ سے صحابہ کو ساتھہ رکھنے اور ذمہ داریاں دینے پر مجبور تھے کہ کسی نہ کسی طرح اسلامی حکومت قائم کرکے دکھانی ہے۔۔۔اگر وہ عبدالله ابن ابی کو دور رکھہ سکتے تھے ۔۔۔ اگر غزوہ تبوک کے موقع پر پیچھے رہ جانے والوں کا حال رسول پر کھولا جاسکتا تھا تو پھر حضرت ابو بکر صدیق, حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان رضی الله عنہم کا حال ظاہر کردینا بھی الله کے لئے مشکل نہ تھا۔۔۔۔
اورحقیقت یہ ہے کہ رسول صلی الله علیہ والہ وسلم کا انتقال, انتقال پرملال نہیں تھا نہ کسی سازش کا نتیجہ تھا۔۔۔ بلکہ وہ شروع سے آخر تک الله کی پناہ میں تھے۔۔۔ ان کا وصال ایک کامیاب رسول, ایک کامیاب نبی, ایک کامیاب حکمران, اورایک کامیاب انسان کی حیثیت سے ہوا۔۔۔ یہی انکے خاتم النبین ہونے کاثبوت ہے۔۔۔
تو یہ خلافت عدل جس شدت اورصفات کے ساتھہ قائم ہوئی اسے آگے لے کر چلنے کے لئے اسی قوت اور تحریک کا ہونا ضروری تھا۔۔۔ جو رسول صلی الله علیہ والہ وسلم کے وصال کے بعد کم ہوگئی۔۔۔ جبکہ اسکے مقابلہ پر موجود ظلم کی قوتوں کو زور پکڑنے کے مواقع ملتے چلے گئے۔۔۔ اور حضرت علی رضی الله عنہ کے دور خلافت تک پہنچتے پہنچتے یہ اپنے عروج پرپہنچ گئیں۔۔۔۔۔۔۔ منافقوں اور دشمنوں کے ہاتھوں تین خلفاء راشدین اور امام حسن رضی الله عنہ کی شہادت نےعام مسلمانوں کے دلوں سے رفتہ رفتہ ایک مرکزی حکومت کے طاقتور ہونے کا احساس کم کردیا۔۔۔ شاید اسی لئے عام مسلمانوں نے امام حسین رضی الله عنہ کا ساتھہ نہ دیا اور اہل بیت کو کربلا جیسے عظیم سانحے سے سے گذرناپڑا۔۔۔ اور یہ خلافت راشدہ خاتمے کی نشانی تھی۔۔۔ امام حسین رضی الله عنہ نظام ظلم کے خلاف وہ آخری مزاحمت تھے جسے عام مسلمانوں نے کھو کر اور اسکا ساتھہ نہ دے کر اپنی بربادی کی ابتداء کی۔۔۔ اور آج تک افراتفری کا شکار ہیں۔۔۔
بیت الله کو مرکز مان کر ساری دنیا کے مسلمان حج کا رکن تو ادا کر تے ہیں, لیکن عرفات کے میدان میں عرفہ کے موقع پر جو کہ اصل حج ہے, جب سارے مسلمان جمع ہوتے ہیں ۔۔۔ تو انھیں وہ آواز سنائی نہیں دیتی, وہ شخص نظر نہیں آتا جس نے کہا تھا کہ۔۔۔ اے لوگو کیا میں نے تمھیں الله کا پیغام پہنچادیا ہے, پہنچادیا ہے, پہنچادیا ہے۔۔۔ تو اب تم ان کو پہنچاؤ جو یہاں موجود نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کعبہ کی چوکھٹ سے لپٹ کررو رو کراپنے مطالبات تو پیش کردیتے ہیں۔۔۔ لیکن سورہ النحل میں الله کا مطالبہ سنائی نہیں دیتا۔۔۔۔۔ اور الله حکم دیتا ہے عدل ک, ا اور احسان کا, اور قرابت داروں کو دینے کا, اور منع کرتا ہے بےحیائی کے کاموں سے, منکرات اور ہٹ دھرمی سے, وہ نصیحت کرتا ہے شاید کہ تم غور کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو سوال کا جواب کیا ملا۔۔۔ دنیا میں دو قوتیں ہیں, جوایک نظام کی صورت میں موجود ہیں, عدل اور ظلم۔۔۔ نظام کامطلب ہے کہ یہ اجتماعی طو پر اثر انداز ہوتی ہیں۔۔۔ انفرادی طور پر نہیں۔۔۔۔ عوام الناس کی اکثریت کا کسی بھی قوت کے ساتھہ کھڑے ہو جانا زمین پراس قوت کی حکمرانی کا سبب بنتا ہے۔۔۔۔۔۔ عدل کا نظام اپنے ساتھہ امن اور خوشحالی لاتا ہے۔۔۔ جبکہ ظلم کا نظام خوف اور بد حالی لاتاہے۔۔۔
نظام عدل کا مرکز الله تبارک وتعالی کی ذات ہے۔۔۔ سورہ الانفطار میں ارشاد ہے۔۔۔ اے انسان تجھے کس چیز نے رب کریم کے بارے میں دھوکے میں ڈال رکھا ہے, جس نے تجھے پیدا کیا, پھرتجھے درست اور سیدھا کیا, پھر تجھے متناسب کیا عدل کے ساتھہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سورہ الاعلی میں فرمایا۔۔۔ تسبیح کر اپنے اعلی رب کی, جس نے ٹھیک تخلیق کیا پھر ٹھیک تناسب قائم کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو عدل انسان کے ظاہر میں بھی موجود ہے اور باطن میں بھی۔۔۔ اسی لئے نظام عد ل کا نفاذ انسان کے ہاتھہ میں دیا۔۔۔۔۔ سورہ الحدید میں الله نے فرمایا۔۔۔ بیشک بھیجا ہم نےرسولوں کو واضح نشانیوں کے ساتھہ اور ہم نے انکے ساتھہ کتاب اور میزان عدل نازل فرمائی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہو سکیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سوال کا دوسرا جواب یہ ہے کہ شاید دنیا کو یہ دکھا نا مقصود تھا کہ کسی بھی قوم کے تعداد میں زیادہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔ چاہے وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوں۔۔۔ جب تک کہ انکے اندر مرکزیت اور اجتماعیت کا تصور اور اسکے لئے کام کرنے کی اہلیت نہیں۔۔۔ وہ ایک قوت بن کر کبھی کھڑی نہیں ہوسکتی۔۔۔ ایک اور جواب یہ بھی سامنے آتا ہے کہ دنیا دیکھہ لے کہ نظام کسی خاص انسان یا خاندان کی وجہ سے آگے نہیں بڑھتا بلکہ اس میں موجود انسانوں کے اخلاق اور کردارکی وجہ سے آگے بڑھتا۔۔۔ لہذا اگر دنیا کو عدل چاہیے تو معاشرے میں اچھی صفات کے لوگوں کوظلم کے خلاف ایک برابر کی قوت بن کر آگے آنا ہوگا۔۔۔اسکے لئے تعلیم, دولت, مرتبہ, شہرت, اثرو رسوخ کی کوئی اہمیت نہیں۔۔۔ یہ سلسلہ قیامت تک کے لئے ہے۔۔۔والله اعلم بالصواب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment