Tuesday 17 October 2017

معیشت کا بہترین نظام

انسان روزگار تلاش کیوں کرتا ہے؟
اسکی ایک وجہ تو یہ ہے کہ محنت کرنا ، کام کرنا انسان کی فطرت ہے-  سوره البلد میں ارشاد ہوتا ہے- 
"بے شک ہم نے انسان کو تکلیف میں رہنے والا بنایا"

دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ زندگی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے کمانا-  اور تیسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ضروریات سے بڑھ کر کچھ حاصل کرنا-  ساری ضروریات اور اس سے بڑھ کر نعمتیں رزق کہلاتی ہیں- اور رزق ہر وہ چیز یا نعمت ہے جسے انسان کھاتا پیتا، پہنتا اوڑھتا اور استعمال کرتا ہے-  اور قرآن میں بار بار انسان کو اس بات کا یقین دلایا گیا ہے کہ رزق الله سبحانہ و تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے-  وہ جس کو چاہے زیادہ دیتا ہے اور جسے چاہے کم-  اور یہ کمی اور زیادتی 'حصّہ' کہلاتی ہے جس کے لئے عربی میں لفظ ہے 'نصیب'-  یعنی انسان کے نصیب میں کتنا رزق ہے یہ الله سبحانہ و تعالیٰ کے کنٹرول میں ہے-  جب چاہے جس کے لئے زیادہ کردے اور جس وقت چاہے اور جس کے لئے کم کردے- 

دنیا میں صنعتی انقلاب آنے سے پہلے دنیا کی اتنی خراب حالت نہیں تھی جتنی اب ہوگئی ہے-  کڑوروں کی تعداد میں فیکٹریوں اور کارخانوں نے ماحولیات کو نقصان پہنچایا، ہوا، پانی اور مٹی کو آلودہ کردیا یہاں تک کہ یہ آلودگی اب موسموں پر اثر انداز ہونے لگی ہے-  ماس پروڈکشن کے وجہ سے قدرتی وسائل برے طریقے سے ضائع ہونے لگے-   نئی نئی ایجادات نے اور ستم ڈھایا-  آج دنیا کی معیشت حرص و ہوس کا شکار ہو کر دولت کے پجاریوں کے ہاتھ میں جاچکی ہے-  آج دنیا کی معیشت جن بنیادوں پر چل رہی ہے اسکے لئے ضروری ہے کہ دنیا کی تمام انسانوں میں مثبت صفات کا خاتمہ کر کے مقابلہ بازی، ریاکاری، لالچ اور خودغرضی پیدا کی جاۓ-  انسانوں کو کسی بھی دنیاوی اور اخروی احتساب سے غافل کر کے صرف دنیا کے معاملات میں الجھا دیا جاۓ-  ترقی کے نام پر سہولیات کا اس طرح عادی بنادیا جاۓ کہ اگر یہ سہولیات کچھ دیر کے لئے بھی چھن جائیں تو انسان بے چین اور حواس باختہ ہو جاۓ- انہی سہولیات کی حسرت میں زندگی گزاردے-  اور انہی سہولیات کو حاصل کرنے کے لئے اپنی تمام توانائی اور وسائل صرف کردے-  

سورہ التکاثر میں الله تعالیٰ فرماتے ہیں- 
"تمہیں غافل رکھا مال کی زیادہ طلبی نے-  
یہاں تک کہ تم نے قبروں کا منہ دیکھا..."

زیادہ دولت کمانے میں برائی نہیں- کیونکہ زکواة جو کہ اسلام کا معاشی ستون ہے، فرض ہی تب ہوتی ہے جب انسان کے پاس ضرورت سے زیادہ بچ جاۓ اور اس کو بھی پورا سال گزر جاۓ-  ترقی کرنے میں برائی نہیں-  کیونکہ خود قرآن کہتا ہے کہ ساری دنیا انسان کے لئے مسخر کر دی گئی ہے= جس میں وجہ چلے پھرے اور رزق تلاش کرے- الله کی قدرتوں کو پہچانے- لیکن انسان کو الله سبحانہ و تعالیٰ کے نظام قدرت کو تباہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی-  لہٰذا برائی تو اس رویے میں ہے جو الله سبحانہ و تعالیٰ کے نظام قدرت کو برباد کرتا ہے-  اور معاشی ذرائع کو خصوصا معاشرے میں بدامنی، غربت، جہالت اور کفر پھیلانے کے لئے استعمال کرتا ہے-  

سوره طہ کی ایک سو چوبیس آیہ میں الله سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ 
"اور جو کوئی میری یاد سے رو گردانی کرتا ہے 
اس زندگی تنگ کردی جاتی ہے..."

آج دنیا کے زیادہ ترمعاشروں میں ظلم، کفر، جہالت، غربت، بدامنی کا دور دورہ ہے-  انسان زیادہ سے زیادہ کے حصول میں ہر وہ چیز کھو بیٹھا ہے جس کی وہ تمنا کرتا ہے-  ذہنی اور نفسیاتی حالت یہ ہوگئی ہے کہ اکثریت کو یہ سوچنے کا وقت ہی نہیں کہ انکے ساتھ کیا ہوگیا، کیا ہورہا ہے اور کیا ہونے جارہا ہے-  لوگوں سے اگر یہ پوچھا جاۓ کہ آپکو روزگار کی تلاش کیوں ہے تو شاید انکو اس کا بھی صحیح جواب نہ پتہ ہو- زیادہ سے زیادہ تعداد اور مقدار میں مصنوعات,  برانڈز اور اشیاء بنانے کے لئے بے دریغ قدرتی وسائل کا استعمال، پھر انکو زیادہ سے زیادہ تعداد اور مقدار میں بیچنے کے لئے مختلف طریقے اختیار کرنا-  لوگوں کو دنیا و ما فیھا سے بے خبر کر کے صرف اور صرف خریدار اور بیوپاری بنادینا- اور پھر جو بچ جاۓ اسے ضائع کردینا-  کیا اسی کا نام معیشت ہے؟  اتنی بے جا اسراف کے ساتھ کیا کبھی کسی معیشت کو قائم رکھا جا سکتا ہے؟  کبھی کسی معاشرے میں خوشحالی آسکتی ہے؟  

معیشت کا سب سے بہترین نظام رسول الله صلی الله علیہ وسلّم نے آج سے چودہ سو سال پہلے قائم کر کے دکھایا-  اور وہ بھی صرف تئیس سال کے عرصے میں-  سود کے بغیر-  قرضوں کے بغیر-  کسی حرص اور لالچ کے بغیر-  کسی استحصال کے بغیر-  فحاشی و عریانی کے بغیر-  کسی غیر اخلاقی اور غیر قانونی ذرائع کے بغیر-  حلال اور پاکیزہ روزگار کے مواقع فراہم کرنے والا معاشی اور سیاسی نظام-