Friday 20 July 2018

ذاتی کرئیر- سوشل ورک- سیاست

کتنا مشکل ہوتا ہے یہ سمجھنا اور سمجھانا کہ ذاتی کریئر اور سوشل ورک برابر نہیں ہیں سیاست کے-  سیاست کسی کا ذاتی یا خاندانی معاملہ نہیں-  سیاست ذاتی کاروبار نہیں-  سیاست مولوی کا خطبہ نہیں-  سیاست کسی عالم کا فتویٰ نہیں-  سیاست کسی مسلک کی فقہہ نہیں-  سیاست جھوٹ اور دھوکہ نہیں- سیاست کسی صوبے کی زبان نہیں-  سیاست روٹی، کپڑا اور مکان نہیں-   

عمران خان نے پروفیشنل کرکٹر کے کرئیر سے ریٹائر ہو کر سوشل ورک کی ابتداء کی-  اور سوشل ورک میں صحت اور تعلیم کے میدان میں کامیابی کے ساتھ ہی سیاست میں قدم رکھ دیا-  اور آج کی تاریخ میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بحیثیت سیاست دان عمران خان نے عوام کی اکثریت کے دل میں جگہ بنا لی ہے-  اور جو سیاست میں آ کر عوام کے دل میں جگہ بنا لے اسے اقتدار بھی مل ہی جاتا ہے-  یہ سب کچھ ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور بہت سے سیاست دانوں کے ساتھ بھی ہوا-  لیکن اب ان میں سے کچھ ماضی کا حصّہ بن چکے ہیں اور کچھ بننے والے ہیں-  

کسی بھی کرئیر میں کامیابی قربانی اور لگن کے بغیر نہیں ملتی اور اس میں گھر، خاندان، برادری اور لوگوں کے مفادات سے زیادہ اپنے مفادات محبوب ہوتے ہیں اور یہی پروفیشنلزم ہے- لیکن کامیابی کی صورت میں اکثر ملک و قوم کا نام بھی روشن ہوتا ہے-  پاکستان ایسے افراد سے بھرا پڑا ہے جنہوں نے اپنے کرئیر سے ملک و قوم کو بھی فائدہ پہنچایا-  کرکٹ ورلڈ کپ کی صورت میں عمران خان نے صرف ذاتی کامیابی حاصل نہیں کی بلکہ ملک و قوم کو بھی سرخرو کیا-  اور خود کو ٹیم کا لیڈر اور عوام کا ہیرو ثابت کردکھایا-  

سوشل ورک کا تعلق لوگوں سے انکی بھلائی سے ہوتا ہے لہٰذا لوگوں سے تعلق رکھے بغیر سوشل ورکر بننا ممکن نہیں-  یہ فیلڈ بھی قربانی، لگن، اخلاص، ایمانداری اور امانتداری کا تقاضہ کرتی ہے-  پاکستان میں جتنے لوگ سیاست میں ہیں اس سے دس گنا یا اس سے بھی زیادہ لوگ انسانیت کی خدمت کے نام پہ سوشل ورک کر رہے ہیں- عبدالستّار ایدھی صاحب نے کوئی تجربہ اور اعلیٰ تعلیم نہ ہوتے ہوۓ بھی صرف جذبہ، ہمّت، خلوص نیّت اور احترام انسانیت کی بنیاد پر ایسی مثال قائم کی کہ ایدھی فاونڈیشن کو کام اور مقصد کی نوعیت، وسعت اور انتظامی اعتبار سے حکومت کے مدّمقابل لاکھڑا کیا- عمران خان نے ایک متعین مقصد کے تحت اپنی ہیرو شپ کو کام میں لاتے ہوۓ شوکت خانم میموریل ہسپتال اور نمل کالج کو بحیثیت اداروں کے کامیاب بنایا- عطیات کی بنیاد پر کسی بھی ادارے کو ایک کامیاب فلاحی ادارہ ثابت کرنا وہ بھی اس طرح کہ وہ حکومت کے مدّ مقابل آنے کے بجاۓ اپنی ترجیحات کے ذریعے ملک و قوم کو فائدہ پہنچاۓ یہ بھی پروفیشنلزم ہے-  عمران خان نے یہاں بھی خود کو صرف ایک فلنٹروپسٹ یا انسان دوست شخص کی حیثیت سے نہیں بلکہ اداروں کے بہترین منتظم اعلیٰ کی حیثیت سے بھی منوایا-  

"جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ"- عمران خان نے کرئیر اور سوشل ورک دونوں فیلڈز میں عوام کے دلوں کو فتح کرلیا-  

ذاتی کریئر اور سوشل ورک، دونوں کا دائرہ کار اور دائرہ احتساب سیاست کے مقابلے میں بہت چھوٹا اور اختیاری ہے-  سیاست ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت، ملک کے شہریوں کی معاشی اور سماجی فلاح و بہبود، ملکی وسائل کے عادلانہ استعمال اور ملک و قوم کے مستقبل کی منصوبہ بندیوں کے انتظامات کا نام ہے-  خلافت مدینہ نے دنیا کو ایک اسلامی جمہوری نظام سے متعارف کرایا جس کی روح اخلاقیات تھیں اور جس کی تربیت تیرہ سال تک مکّہ میں کی گئی تھی-  اور اخلاقیات کا پہلا تقاضہ نظام عدل ہوتا ہے عوامی سطح پر-  یعنی ایک ایسا نظام جس میں ہر شخص دوسرے شخص کی عزت، حقوق، معاش، اور جان کی سلامتی کا ضامن ہو-  اخلاقیات کا دوسرا تقاضہ بھی نظام عدل ہوتا ہے حکومتی سطح پر یعنی ایک ایسا نظام جس میں ہر شخص کو اپنے سماجی اور معاشی استحصال کی صورت میں عدل و انصاف کا یقین ہو-  اور اس حکومت یا خلافت کے رہنما کو قانون، سپہ سالاری سے لے کر تمام جمہوری معاملات پر دسترس حاصل تھی-  

سیاست ایک نظام دیتی ہے ماضی کو بہتر حال میں تبدیل کرنے والا اور پھر اس سے بھی بہتر مستقبل کا وژن -  پاکستان میں عوام کی سوچ ذاتی کرئیر کی فرضیت اور سوشل ورک کی فضیلت تک ہی محدود ہے- ایک مسکین محتاج غریب توقع کرتا ہے کہ معاشرہ یا حکومت مجھے کھلاۓ پلاۓ پہناۓ ورنہ معاشرہ بھی ظالم ہے اور حکومت بھی- اسی لئے عوام سیاست کو سوشل ورک سے تعبیر کرتے ہیں-  نتیجہ سامنے ہے-  پہلا نتیجہ یہ کہ پاکستان میں اچھا تو کچھ ہو ہی نہیں سکتا سواۓ خیراتی اور فلاحی اداروں کے کیونکہ انہیں نیک لوگ چلا رہے ہیں-  اور دوسرا نتیجہ یہ کہ "کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے"-  یہ سوچ اتنی عام ہوگئی ہے کہ لوگ اپنے مجرم کا خود ہی دفاع کر رہے ہیں-  جبکہ عام طور پر کوئی انکے دس روپے چرا لے تو مار مار کر اسکی جان نکال لیتے ہیں-  یہ ابھی تک ملوکیت کے دور سے نہیں نکلے جس میں ایک بادشاہ جیسا بھی ہو حکمرانی صرف وہ اور اسکا خاندان ہی کرسکتے ہیں-  اور باقی رعایا نے عام، غریب، مسکین ہی رہنا ہے-  

جس قسم کی سیاست کی ابتداء عمران خان صاحب کرنا چاہ رہے ہیں لوگ اس سے واقف ضرور ہیں لیکن انکا ایمان بن چکا ہے یا بنا دیا گیا ہے کہ پاکستان میں ایسی سیاست نہیں کی جاسکتی-  خیبر پختونخواہ کی پانچ سال کی حکومت کی کارکردگی انتظامی طور پر ناکام ہونے والے سیاست دانوں کے نشانے پر ہے-   اس وقت بھی عمران خان کے جلسے میں لوگوں کی تعداد بڑھنے کی وجہ انکی نواز شریف اور دوسرے سیاست دانوں سے مایوسی ہے اور وہ تکلیفیں ہیں جن میں سے زیادہ تر خود عوام کی اپنی غفلت اور جہالت کا نتیجہ ہیں-  انہوں نے اپنا ناخدا یا نجات دہندہ بدل لیا ہے جیسے کہ پہلے بدلتے رہے لیکن اپنے آپ کو نہیں بدلا ہے-  ایک رہنما کو کس لئے ووٹ دے کر منتخب کیا جاتا ہے اور کس طرح بھی اس رہنما کی مدد کی جاتی ہے ایک اچھا شہری بن کر اپنی ذاتی ذمّہ داریاں نبھاتے ہوۓ اسکا اندازہ ابھی اس قوم کو ہے ہی نہیں-  اور یہی اصل انقلاب ہوگا اور 'نئے پاکستان' کی بنیاد بھی-  پچھلے کئی سال سے ایک تسلسل کے ساتھ وہی بیس پچیس جملے مختلف انداز میں دہرا دہرا کر تو یہ وقت آیا ہے کہ لوگوں کو منی لانڈرنگ اور بدعنوانی ایک جرم لگنے لگی ہے وہ بھی نواز شریف کی حد تک اور اسکی سزا کی حد تک-  خود توقع عمران خان سے لگاۓ بیٹھے ہیں-  

ایک طرف ایک عجیب سی قوم ہے-  جبکہ دوسری طرف پیشہ ور سیاستدان ہیں جنکا ایمان پیسہ ہے-  وہ کبھی بھی عمران خان کو چین سے حکومت کرنے نہیں دیں گے کہ اس نے انہیں قوم کے لیڈرز سے قوم کے مجرم بنا دیا-  تو وہ تو عمران خان کو اپنا مجرم ہی سمجھیں گے اور اسکو ناکام کرنے کی ہر ممکن کوشش کرینگے-  عمران خان کی پارٹی پر ذمّہ داری عائد ہوتی ہے کہ الیکشن جیتنے کے بعد اگلے پانچ سال وقف کر دیں عوامی سطح پر آکر عوام کی تعلیم و تربیت کرنے پر-  انکو یہ اعتماد اور یہ پریکٹس دینے پر کہ اچھے شہری کی ذمّہ داری وہ خود کس طرح نبھا سکتے ہیں جو کہ ان پر فرض ہے اور ایک احتساب عدالت لگے گی جس میں خود الله سبحانہ و تعالیٰ ان سے حساب لیں گے-  انکو یہ سمجھانے پر کہ حکومت کی ذمّہ داریاں اور حکومت کا خزانہ کس مقصد کے لئے ہیں- اس ملک سے جاگیر دارانہ نظام ختم کرنا ہے-  وی آئی پی کلچر ختم کرنا ہے-  ایسا ہو ہی نہیں سکتا جب تک سیاسی نمائندے ڈرائنگ روم سیاست چھوڑ کر عوام کے ساتھ شانہ بشانہ کام کریں-  جیسا کہ خلافت راشدہ میں ہوا کرتا تھا-  

کتنا مشکل ہے یہ سب عوام کو بتانا-   سیاست بہت بڑی ذمّہ داری ہے-  سیاست لوگوں کی بھلائی کی سمت رہنمائی ہے-  سیاست امانتداری اور سچائی ہے-  سیاست نعمتوں کی حفاظت ہے-  سیاست ایک عبادت ہے-