Saturday 23 March 2019

فرض اور نفل

شریعت میں فرض وہ کام یا اعمال ہیں جنکا آخرت میں احتساب ہوگا-  جبکہ نفل یا نوافل وہ کام جنکے بارے میں پوچھا نہیں جاۓ گا کہ کیوں نہیں کیے-  لیکن اگر کیے ہیں اور قبول بھی ہو گۓ تو انکا اجر ملے گا-  نوافل اعمال کرنا بری بات نہیں بلکہ بہترین عمل ہے لیکن شاید اس وقت جب اس سے پہلے فرائض ادا کیے جا چکے ہوں-  

مذہبی فرائض کی حد تک تو یہ فرق تقریبا سب کو معلوم ہے-  حالانکہ تب بھی اس پر عمل کم ہی کرتے ہیں-  لیکن روزمرّہ کی زندگی میں فرائض کی پہچان شاید ہی کسی کو ہو-    

پاکستان میں پانچ وقت کی نماز کی پابندی بہت کم لوگ کرتے ہیں حالانکہ اس میں مشکل سے دس منٹ صرف ہوتے ہیں-  جنکو نہیں پڑھنی وہ بڑے دلائل بھی دے دیتے ہیں-  جبکہ اس کی سخت پکڑ بھی ہے اوراسے اسلام اور کفر کے درمیان فرق بھی کہا گیا ہے-  اس کے برعکس شب معراج، شب برأت اور باقی نفل راتوں میں ساری ساری رات جاگنے کا اہتمام ہوتا ہے اور دوسرے دن چھٹی کا بہانہ بھی-  اور جاگنے والے اس کے حق میں بڑے بڑے دلائل بھی دیتے ہیں-  حالانکہ تعلیم، ملازمت، معاشرے میں امن امان، سرحدوں کی حفاظت، بیمار کی عیادت فرض ہیں ان راتوں کی عبادت کے مقابلے میں-  

اسی طرح قران کی تلاوت سے تلفّظ اور دیگر وجوہات کی وجہ سے اور مسنون اذکار سے دامن بچانے والے مولویوں اور عاملوں کے بناۓ ہوۓ بہت سے وظائف کا ورد کرتے نظر اتے ہیں-  اور اس کے حق میں بھی دلائل دے دیتے ہیں- 

صاحب نصاب ہوتے ہوۓ زکواة کا فرض ادا نہ کرنے والے آۓ دن صدقہ خیرات کرتے ہیں-  یا زکواة ادا بھی کی تو رشتہ داروں میں مستحقین تلاش کرنے کے بجاۓ دوسروں میں بانٹ دی-  اولیاؤں اور پیروں کے نام پر دیگیں پکوا کر بانٹتے ہیں-  یہ سوچے بغیر کہ اگر کسی معاشرے میں صاحب نصاب زکواة ادا کرنا شروع ہو جائیں تو وہاں بھوک اور مفلسی خود بخود دور ہو جاتی ہے-   

لوگ حج تو ایک مرتبہ کر لیتے ہیں لیکن پھر ہر سال اور کبھی تو سال میں کئی مرتبہ عمرہ بھی کرتے ہیں-  اور وہ بھی ان حالات میں کہ اس معاشرے میں ظلم و ستم جہالت  اور مفلسی کا راج ہو-  عمرہ تو نفل ہے جبکہ معاشرے سے ظلم و جہالت کا خاتمہ کرنا فرض ہے-  یہی تو سنّت رسول صلی الله علیہ وسلّم اور سنّت حسین ہے-  یہ ایک سے زیادہ حج اور عمروں کے پیسوں سے مقروضوں کا قرض اتارا جا سکتا ہے جسکی وجہ سے وہ جبری مشقّت اور غلامی کی ذلّت سہتے ہیں- 

جب دینی فرائض میں یہ حال تو عام زندگی میں کسی عدل کی توقع رکھنا فضول ہو جاتا ہے- 

اکثر اساتذہ خاص طور پر اگر وہ سرکاری ہوں (اس میں دینی اور غیر دینی دونوں شامل ہیں) اور اسی طرح اور بھی دوسرے سرکاری اداروں کے ملازم- تو اپنی اس ملازمت کو جسکی تنخواہ لے رہے ہیں ایک زحمت سمجھتے ہوۓ آۓ دن چھٹی کرتے ہیں مختلف بہانوں سے-  لیکن انہی بہانوں کے ذریعے وہ مخلتف جگہوں پر جوش و جذبے کے ساتھ مختلف سرگرمیوں میں حصّہ لیتے دکھائی دیتے ہیں-  یہ نہیں سمجھتے کہ یہ دھوکہ ہے-  جھوٹ ہے-  بےایمانی ہے-  یہاں لوگوں کو یہ نہیں سمجھ آتی کہ جب آپ ملازمت پر ہوتے ہیں تو باقی سب کام سواۓ نماز یا الله کی طرف سے جو براہ راست عبادتیں ہیں- نفل ہوجاتے ہیں اور ان تمام کاموں کو مینج کرنا آنا چاہئے-  اور ان سب کے انتظامات کرنا معاشرے کے بااختیار اور با شعور افراد کا فرض ہے-  

اسی طرح معاشرے میں بھوک بکرے کھلانے سے ختم نہیں ہوتی-  لوگوں کے معاش کا انتظام کرنا ہوتا ہے-  رسول الله صلی الله علیہ وسلّم کے زمانے میں لوگ باغ صدقہ کرتے تھے-  کنوئیں کھدواتے تھے-  آج کسی بھی خیراتی ادارے کو بکرے کے پیسے دے کر جان چھڑا لیتے ہیں-  اور یہ خیراتی ادارے آگے ایک بے لگے بندھے طریقہ کار کے تحت اپنی سمجھ کے مطابق لوگوں کی خدمت کرتے ہیں-  لیکن یہ نہیں جان پاتے کہ پھر بھی معاشرے میں بھوک و افلاس بڑھ رہا ہے اور جہالت اور جرائم عام ہو رہے ہیں- گندگی اور غلاظت بڑھ رہی ہے-  بکرے کھلانا فرض نہیں ہے لیکن آلودگی ختم کرنا اور ایسے انتظامات کرنا جس سے بیماریاں ختم ہوں یہ  فراز ہے- 

بہت ضروری ہے معاشرے کی اصلاح کے لئے کہ وہاں کے با شعور افراد اور بااختیار افراد لوگوں کی اخلاقی اصلاح کے ساتھ ساتھ انھیں مہذب طریقے سے جینا بھی سکھائیں اور جو وسائل اس پر خرچ ہونگے بلاشبہ وہ اس صدقہ و خیرات سے بڑھ کر ہونگے جس سے صرف ایک وقت کی بھوک ہی مٹتی ہے اور وہ بھی اکثر عزت نفس کی قیمت پر-  کاش یہ بات سیلانی اور دوسرے خیراتی اداروں کو سمجھ آجاۓ کہ کیوں رسول الله صلی الله علیہ وسلّم نے مکّہ اور مدینے میں خیراتی اداروں کے قیام بجاۓ حکومتی خزانے یعنی بیت المال کو مضبوط کیا-