Sunday 28 July 2019

دنیا کا منطقی انجام

آج سے چند سال پہلے قرآن کا علم رکھنے والے ایک عالم نے کہا تھا کہ "دنیا اپنے منطقی انجام کی طرف واپس آرہی ہے-" 

قرآن کے مطابق، 
"اس میں نشانیاں ہیں غور و فکر کرنے والوں کے لئے..." 

آج دنیا کے بہت سے لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ الله رب العزت کا کوئی وجود نہیں اور اگر ہے بھی تو بہت محدود-  اگر یہ دعویٰ سچا ہوتا اور لوگ خود بخود ایک ارتقائی عمل کے تحت زندگی گزار رہے ہوتے اور پھر مر کر مٹی میں مل جاتے اور پھر کچھ لوگ ان کی جگ لینے کے لئے پیدا ہو جاتے تو پھر سوچ اور اعمال کی واپسی کا سفر شروع نہ ہوتا بلکہ زندگی آگے سے آگے اپنے طریقے سے بڑھتی-  

لیکن ایسا نہیں ہے-  رب العزت موجود بھی ہے اور وہ بھی اپنے مکمّل اختیارات اور طاقت کے ساتھ-  

الله عزوجل نے انسان سے زبردستی اپنے آپ کو نہیں منوایا-  بلکہ آزادی دی سوچنے کی سمجھنے کی تجربات کرنے کی-  انسان کو ہر زمانے میں ڈھیل دی کہ وہ اپنی عقل اور اپنے حربے آزمالے اور خود اپنی مرضی سے، اپنے تجربات سے الله کی ذات، اسکے  کمالات،اسکی طاقت، اسکی صفات کو پہچانے-  اور یہیں انسان باقی تمام مخلوق سے ممتاز ہو جاتا ہے-  جو کہ سب بقول علّامہ اقبال رحمة الله علیہ "تقدیر کے پابند" ہیں-  

رسول الله صلّی الله علیہ وسلّم کے ذریعے ٹیکنالوجی کے دور اور صنعتی دور سے پہلے ہی انسان کو معاشرے کی اصلاح اور ترقی کے صحیح معنی سکھا دئیے-  

پھر انسان جب صنعتی دور میں اور ٹیکنا لوجی کے دور میں داخل ہوا تو اس نے اسی کو ترقی سمجھ لیا-  اشیاء کے جوڑ توڑ اور نۓ پن کو ترقی سمجھا اور جو اخلاقیات سکھاۓ گۓ انکو ترقی کی راہ میں رکاوٹ-  نتیجہ یہ نکلا کہ الله کی دنیا کو الٹ پلٹ کر کے بھی سکون اور خوشی سے محروم ہو گیا-  اور یہ سوچ کر کہ شاید مادّی چیزوں کے ڈھیر لگانے بے سکونی اور غم ختم ہو جائیں گے صرف اور صرف دنیا کمانے میں لگ گیا-  

لیکن بہرحال- کیونکہ اس کائنات کا رب موجود ہے اور غافل بھی نہیں-  اس نے انسان کو یادآشت بھی عطا فرمائی، معاملات کو سمجھنے، انکا موازنہ کرنے اور اس سے نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت بھی-  تو دنیا کے باشعور انسانوں نے نتیجہ نکالا کہ چودہ سو سال پہلے والا اسلام، چودہ سو سال پہلے والا اخلاق اور چودہ سو سال پہلے والے قوانین ہی دراصل صرف انسانیت کی ہی نہیں بلکہ کائنات کی روح بھی ہیں اور وہ اس لئے کہ الله عزوجل کی ہر تخلیق اور ہر مخلوق اکیلی کچھ بھی نہیں بلکہ ایک دوسرے سے جڑی ہوئی بھی ہیں اور ایک دوسرے کی محتاج بھی-  انسان میں اتنی طاقت نہیں کہ بھوکا رہ سکے بھوک مٹانے کے لئے وہ جانوروں اور پودوں کا محتاج ہے-  

صرف ایک الله سبحانہ و تعالیٰ کی مبارک ذات ہے جو ہر محتاجی سے پاک ہے-  

کیونکہ صرف انسانیت پر عقیدہ رکھنے والوں نے تو انسانوں کے مفادات کی خاطر ماحولیات کا بیڑہ غرق کردیا، درخت، پودے، پھول، پرندے، جانور، پانی، مٹی، پہاڑ، دریا، سمندر، سمندری مخلوق، سب کو برباد کردیا اور اب خود انسان پریشان ہے کہ کیا کرے-   

آج دنیا کے بہت سے بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک میں لوگ پرانی طرز زندگی پر واپس آ رہے ہیں-  چھوٹے گھر، خود گھروں میں اگایا ہوا کھانا، جانور پالنا، اپنے ہاتھ کی بنی ہوئی چیزیں استعمال کرنا-  سورج کی روشنی پر انحصار کرنا-  

ماس پروڈکشن کا دور ختم ہونے جارہا ہے-   چاہے وہ چیزوں کی پروڈکشن ہو یا اسکولوں میں بچوں کی تعلیم کی- 

لوگ ہوم اسکولنگ اور ایکٹیویٹیز کے ذریعے تعلیم کے عمل کی طرف راغب ہو رہے ہیں کیونکہ ڈگریوں نے اور ایک غلامانہ سوچ پر پڑھے لکھے لوگوں نے کسی کو کچھ  نہیں دیا-  ذاتی صلاحیتوں کے ذریعے زندگی گزارنے کا دور واپس آرہا ہے-  بہت جلد کلاس رومز تبدیل ہو جائیں گے ایسے کمروں میں جہاں ہنر سکھاۓ جائیں گے-  دنیا کے کچھ ممالک میں یہ عمل شروع ہو چکا ہے-

اور تعلیم کے نام پر جو بے سروپا نظام قائم کیا ہوا تھا بچوں کی زندگی ضائع کرنے کا- وہ نظام بھی آہستہ آہستہ اپنی موت آپ مر جاۓ گا-  کیونکہ اب تو بچوں کو بھی پتہ چل چکا ہے کہ جو لکھنے پڑھنے اور حساب کتاب کی صلاحیت وہ ایک مہینے میں حاصل کر سکتے ہیں اس پر پورا پورا سال اور دن کے بارہ چودہ گھنٹے ضائع کرنا فضول ہے-  اور اسکے با وجود بھی رزلٹ میں بچے فیل-  

حکومت کو بھی اور عوام کو بھی "قدرت کے تقاضوں" اور انسانی مزاج کے مطابق خود کو تبدیل کرنا چاہئے-  ورنہ یہ عمل خود بخود تو ہو ہی جاۓ گا-  

کیونکہ جتنا بھی تبدیل کرلیں-  ہر چیز اپنے اصل پر واپس پلٹ آتی ہے-