Friday 24 January 2020

دجالیت

ہر زمانے کی توحید-  اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات پہلے اور باقی سب اس سے نیچے-  

آج کے زمانے کا سب سے بڑا شرک، "مغربی طرز جمہوریت"-  انسان کا خود اپنے آپ کو، اپنی خواہشات کو، اپنے قوانین کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات، رضا اور قوانین کے مقابلے پر لا کھڑا کرنا-  اللہ پیچھے اور بندہ آگے-  اور اس کے لئے آلۂ کار بنی "دجالیت"-  

دجالیت کیا ہے؟  "انتہا درجے کی دھوکے بازی"-  اور اسکی شخصی علامت ہوگا "دجال" جس کے مطلب ہیں "انتہائی درجے کا جھوٹا اور دھوکہ باز"-  اور اسکے ظہور سے پہلے ساری دنیا دجالیت یعنی دھوکہ بازی کو اتنا پریکٹس کر چکی ہوگی کہ اسے "دجال" کے کردار میں کوئی اخلاقی خرابی نظر نہیں آۓ گی-  اور حقیقتا "مغربی طرز جمہوریت" کے ذریعے ہی اقتدار میں آۓ گا-  ایک حدیث کے مطابق تو یہ ایسا فتنہ ہوگا کہ مسلمان علماء تک اسکو سچ مان کر تسلیم کر لیں گے-   کوئی تو وجہ ہے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت کرپٹ حکمرانوں اور سیاست دانوں کو سپورٹ کرتی ہے-  کیونکہ یہی تو دجالیت کے آلۂ کار ہیں-  سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا کر کڑوروں کو گمراہ کرنے والے-  

روتے اس لئے نہیں کہ برکت ختم ہوگئی-  رونا یہ ہے مہنگائی زیادہ ہوگئی ہے- خرچے پورے نہیں ہو رہے- 
روتے اسلئے نہیں کہ احساس ختم ہو گیا-  رونا یہ ہے کہ کرپشن زیادہ ہوگئی- اور کہتے وقت یہ بھی نہیں سوچتے کہ اس بات کا مطلب کیا ہے کہ "کرپشن زیادہ ہو گئی ہے"-  

دجالیت-  یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے دنیا سے "گناہ" کے تصوّر کو تبدیل کردیا گیا ہے " جرم"سے-  اللہ کی نافرمانی "گناہ" ہے تو اسے اللہ اور بندے کا ذاتی معاملہ قرار دے دیا حالانکہ اللہ کی نافرمانی سے صرف انسان کی اپنی ذات پر اثر نہیں پڑتا بلکہ گلی محلّے شہر اور معاشرے بھی متاثر ہوتے ہیں-  اور انسانوں کے بناۓ ہوۓ قوانین کی خلاف ورزی "جرم" ہے تو اسکے لئے سزائیں مقرّر کر دی گئیں ہیں-  یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات پیچھے اور انسان کی ذات آگے-  جب ایسا ہو تو لوگوں کو زنابالرضا ہو زنابالجبر، گناہ نہیں لگتا بلکہ جرم لگتا ہے  لوگوں کو جعلی کاغذات بنوانا، رشوت لینا، سود پر لین دین کرنا، وغیرہ گناہ نہیں بلکہ جرم لگتا ہے-  جس سے نجات ممکن ہوسکتی ہے اگر دولت ہو، اختیار ہو، بااثر افراد سے تعلقات ہوں، اگر جج اور وکیل خرید لئے جائیں-  اور جرم وہ ہے جو ثابت کردیا جاۓ- 

دجالیت- جیسے شہادت اور انتہا پسندی کے تصوّرات کو تبدیل کردیا گیا-  اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات کے مطابق جئیں اور اسی کی خاطر جان دیں تو انتہا پسندی اور دہشت گردی-  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلّم کی عزت و ناموس پر آواز اٹھائیں تو شدّت پسندی اور دہشت گردی-   اور یہی سب کسی سیاسی یا دینی لیڈر کے لئےکیا جاۓ تو "شہادت"-  

دجالیت-  جو معاملات اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مکمّل اپنے ہاتھ میں رکھے ہیں اور انکی شرائط رکھیں ہیں- ان پر دعوے قائم کرکے بندوں کو اللہ کی ذات سے اپنی ذات کی طرف راغب کرنا-  بھوک مٹائیں گے، بیماریاں مٹائیں گے، سب کو گھر دیں گے، سب کو ملازمتیں دیں گے، سب کی زندگی بدل دیں گے-  خیراتی ادارے دس ہزار کو کھانا کھلانا شروع کرتے ہیں اور ایک سال بعد خوش ہو رہے ہوتے ہیں کہ اب وہ پچاس ہزار کو کھانا کھلا رہے ہیں حالانکہ یہ تو رونے کا مقام ہونا چاہئے انکے لئے کہ کس طرح بھوک مٹانے میں ناکام ہو گۓ-  یہ دعوے تو کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے بھی نہیں کئے حالانکہ ان کے پاس تو فرشتے اور روح الامین آتے تھے-  

دجالیت- "ترقی" کو کردار کی بہتری کے بجاۓ ظاہری مال و متاع کے حصول سے منسلک کردیا-  حالانکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلّم نے اخلاق ہی تو سنوارے تھے باقی ترقی تو اسکے اثر سے ہوتی چلی گئی-  تہذیب کو الفاظ سے نہیں بلکہ انگریزی زبان سے مشروط کر دیا-  صحت کو سنّت کا نہیں بلکہ میڈیکل سائنس کا محتاج بنا دیا-  معیشت کو زکواة کے بجاۓ سود اور اضافی ٹیکسز کے زیر اثر کردیا-  

دجالیت- سیدھے سادھے معاملات کو اپنے مفاد کے لئے توڑ مڑوڑ کر الجھا دینا- چاہے کاروباری معاملات ہوں، دینی معاملات ہوں، سیاسی معاملات ہوں یا گھریلو معاملات، تعلیمی معاملات ہوں، سماجی معاملات ہوں-  یا کچھ بھی-  لوگ اشتہارات دیکھ کر ہی چیزیں خریدتے ہیں-  اس میں کیا سچ ہوتا ہے-  کوئی دوائی اثر نہیں کر رہی-  کوئی اسکول علم نہیں پھیلا رہا-  کوئی والدین تربیت نہیں کررہے- 

دجالیت کا منطقی انجام-  ایک قوم خود اپنے ہی لیڈرز کے ہاتھوں برباد ہوتی ہے-  
ایک ہی گھر کے افراد ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں کرتے-  بچے اپنے ہی گھر کے بڑوں سے خوفزدہ اور غیر محفوظ ہوجائیں-  خواتین اپنے ہی معاشرے کے مردوں کے ہاتھوں ذلیل ہوتی ہیں-  ظلم، بے برکتی اور بے حسی بڑھتی ہے-  میڈیا اپنے ہی قوم میں مایوسی اور انتشار پھیلاتا ہے-  عوام ہی مہنگائی اور کرپشن کے نام پر ایک دوسرے کو لوٹ کھسوٹ رہے ہوتے ہیں-  

اور ہر شخص یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ انسانوں کے اس بڑا خیر خواہ اور معاشرہ کا اس سے بڑا مصلح کوئی ہے ہی نہیں چاہے وہ اسکے لئے کوئی بھی طریقه استعمال کرے- 

کیونکہ سب کو، سب کو کمانا ہے-  دولت، شہرت، اونچا رتبہ، عہدہ، اختیار.......
سب کو بڑا آدمی بننا ہے-