Thursday, 22 November 2012

The Journey of Karbala


THE JOURNEY OF KARBALA
What a contrast that Muslims are living in!
The month of Muharram, the place Karbala, two nouns that are the subject of life for one half of Muslim ummah called Shia…. while remain just two nouns for the other half…. who knows which one is a better half?  One part of Ummah is wailing and mourning, while the other part is wondering why mourning or why mourning with this intensity?  Many just regard the incident of Karbala as a historical event that just took place somehow or as a political issue which only deserves a tribute (in the form of poetry or an article) or a critical analysis.  In general, the entire event is known as “Shia issue”.
A vast majority of Muslims also thinks that the details of Karbala are nothing but just an exaggeration. 
Oh really, an exaggeration???, like, hmmm, the brutal killing of two brothers in Sialkot… the govt official, police, common Muslims, all took part in beating, smashing, and torturing two very young Hafiz-e-Qur’an in the month of Ramdhan, like the photos of women with burning faces/bodies, like little children strangled to death…. is that all an exaggeration too?
In brief, Muslims have been trying to the most touchy and the most sensible part of our history and in return, it has been following them throughout the period at every place.  All Muslim lands are presenting the scene of Karbala, is that an exaggeration too?.
جودلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ۔۔۔ یہ ہر کوئی نہیں کرسکتا۔۔۔ ہر کوئی کرنا بھی نہیں چاہتا۔۔۔
مسلمانوں کا ایک بڑا حصہ جوخود کو سنی کہتاہے اور اس بات پر مطمئن ہے کہ وہ ان مسلمانوں کی طرح جوشیعہ ہونے پر فخر کرتے ہیں کی طرح کافر نہیں بلکہ جنت کے راستے پر رواں دواں ہے۔۔۔ البتہ کفرہی صحیح لیکن ماتم و عزاداری کی وجہ سے جو تین چار دن کی چھٹیاں مل جاتی ہیں وہ سنی حضرات کے ہلے گلے کے  کے لئے کافی ہوتی ہیں۔۔۔ بہت سے سنی خواتین وحضرات کے نزدیک حسین کا معاملہ شیعہ ایشو ہے۔۔۔ انھیں یہ بھی معلوم نہیں کہ حسین ابن علی کی کوئی زینب اور ام کلثوم نام کی بہنیں بھی تھیں۔۔۔ اسلامی تاریخ تو ویسے بھی اسلامیات میں ایم اے کرنے والوں کامضمون ہے۔۔۔ یاپھر کسی کورس کومبینیشن میں اس کو رٹا لگاکر کوئی ڈگری لی جائے۔۔۔ اور کربلا کے واقعات تو خالص شیعوں کا مسئلہ ہیں۔۔۔
یہ بھی پاپولر خیال ہے کہ شاید کربلا کے واقعات اس طرح نہیں ہوئے تھے جتنی مبالغہ کے ساتھہ بیان کئے جاتے ہیں۔۔۔ یزیداتنا بھی ظالم نہیں تھا۔۔۔ کچھہ غلطی تو حسین ابن علی کی بھی ہوگی۔۔۔ فالتو وقت بہت ہے نہ ہمارے ہاں۔۔۔ جس طرح کرکٹ اور ہاکی پر گھر بیٹھے تجزیہ کرتے ہیں کہ کپتان اگریہ کرتا تو نہ ہارتا اور وہ کھلا ڑی اگر یہ کرتا توٹیم جیت جاتی۔۔۔ یہی سب کچھہ ہم کربلا کے واقعات کے ساتھہ کرتے ہیں۔۔۔
چند مہینے پہلےسیالکوٹ میں دو  بھائیوں کو جس وحشیانہ طریقے سے مارا گیا۔۔۔ کم عمربھی تھے ۔۔۔ حافظ قرآن بھی تھے ۔۔۔ روزے سے بھی تھےیعنی بھوکے پیاسے بھی تھے۔۔۔ قتل عوام کے محافظوں کے سامنے ہوا۔۔۔ عام عوام نے اس  قتل میں حصہ بھی لیا اور بہادری کے ساتھہ اس کو لائیو دیکھا بھی۔۔۔ وہ چیخے بھی چلائے بھی ہونگے۔۔۔ ماں باپ کو بھی یاد کیا ہوگا۔۔۔ گرفتاریاں ہوئیں بھی تو مجرم رہا ہو گئے۔۔۔ اس مجمع میں جو لوگ موجودتھےان میں سے  شاید آج تک بھی کوئی شرمندہ نہیں۔۔۔ حکومتی چیلوں میں سے ایک شیطانی آواز یہ بھی آئی کہ دونوں بھائی اتنے بھی معصوم نہیں تھے۔۔۔ یہ  شیطانی آوازڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی تھی۔۔۔ ڈاکٹر کے بجائے قصائی فردوس عاشق اعوان پکارا جائے تو زیادہ صحیح ہوگا۔۔۔ نسوانیت کے نام پہ موٹا دھبہ۔۔۔

جب عورتوں پرتیزاب ڈال کران کے چہرے مسخ کئے جاتے ہیں۔۔۔ تیل چھڑک کر آگ لگا دی جاتی ہے۔۔۔ ہاتھہ پیر توڑے جاتے ہیں۔۔۔ تب وہ بھی درد سے تکلیف سے چیختی چلاتی ہوں گی۔۔۔ دس گیارہ سال پہلے جاوید اقبال نامی شخص جب زنجیر سے بچوں کا گلا گھونٹتا ہوگا تو وہ بھی درد کی شدت سے چلاتے ہوں گے۔۔۔ مقبوضہ کشمیر میں جب زندہ لوگوں کی کھال پاکستان زندہ باد کہنے پراتاری جاتی ہو گی تو ان کے چیخنے چلانے کا کیا حال ہوتا ہو گا۔۔۔

کیا یہ سب بھی مبالغہ ہے۔۔۔
بات یہ ہے کہ کوئی ظالم اگر دشمنی پر اتر آئے تو اسکے انسان یامسلمان ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔ ظالم کانام فرعون ہو نمرود ہو یا یزید۔۔۔ کربلا پچھلے ڈیرھ ہزار سالوں میں عام مسلمانوں کی بے حسی کی گواہی دیتی اور بے غیرتی پر ماتم کرتی ہوئی ہر سنی شیعہ ممالک کے گلی محلوں میں پہنچ چکی ہے۔۔۔ اور یہ مبالغہ بھی نہیں۔۔۔
اس وقت کے عام مسلمانوں نے بھی روٹی کپڑامکان پر اپنے حاکموں اور امراء سے سمجھوتہ کرلیا ہوگا۔۔۔ کچھہ کے ذہنوں میں بٹھایا گیا ہوگا کہ تم عام ہو تو کیا۔۔۔ کسی قابل نہیں تو کیا۔۔۔ پھر بھی ایوانوں تک پہنچ سکتے ہو۔۔۔  اس وقت کی حکومت کے شیطانی چیلوںنے بھی یہ آواز لگائی ہو گی کہ حسین اتنے بھی معصوم نہیں تھے۔۔۔ اگر اس وقت کے عام مسلمانوں نے , اختیارات کے حصول اور تماشہ بازیوں سے ہٹ کے کربلا کا حساب کتاب مانگ لیا ہوتا۔۔۔ تو عام مسلمانوں پر اتنے تسلسل کے ساتھہ مسلمان حکمرانوں ہی کے ہاتھوں ظلم نہ ہوئے ہوتے۔۔۔ شاید ہم فرقوں کے بجائے ایک قوت ہوتے۔۔۔ ہزار ہزار سال کی حکمرانیوں کے بعد ہم اتنے ذلیل و رسوا نہ ہو رہے ہوتے۔۔۔  دوسری قوموں  کو تو کیادیتے اپنے ہی گھروں اورمحلوں کو کوئی نظام نہ دے سکے۔۔۔

اس وقت اس ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھائی گئی۔۔۔ اور عام مسلمانوں میں یہ روایت آج تک برقرار ہے۔۔۔ چودہ سو سال پہلے کے واقعات کو ایک تاریخی واقعہ سمجھنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ رفتہ رفتہ الله نے عام مسلمانوں کے دل ایکدوسرے کے لئے سخت کردئے۔۔۔  بے بس مرد وعورت گدھے کی طرح دن رات ایک کر کےاپنے گھر والوں کے لئے روٹی کپڑا اور مکان جمع کررہے ہیں یا باختیارمرد وعورت گدھ کی طرح دوسروں کا حق چھین کر اپنے خاندان کو یہ سہولتیں دے رہے ہیں۔۔۔ یا لومڑ اور لومڑیوں کی طرح اپنے ہی گھر والوں کے خلاف سازشیں کرتے ہیں کہ انھیں کس طرح نیچا دکھائیں اور کس طرح لوٹیں۔۔۔ بے بس بچے جانوروں کی طرح استعمال ہو رہے ہیں سڑکوں پر یاپھر گدھوں کی طرح پتہ نہیں کون سے مستقبل اور ترقی کے لئے کمر پر کتابوں کابوجھہ لادے پھرتے ہیں۔۔۔ اور ہم ان مظالم پر شرمندہ بھی  نہیں ہوتے روتے بھی نہیں۔۔۔ تو پھر  کربلا سےتو چودہ سو سال کے فاصلے پر آگئے ہیں انکا درد کیا محسوس کریں گے۔۔۔

شاید اسی لئے یہودیوں نے ہمیں جینٹائلز کہہ دیا یعنی انسان نما حیوان۔۔۔ شاید خدا ان سے قیامت کے دن پوچھے کہ تم نے سیدالبشر کے ماننے والوں کو یہ لقب کیوں دیا۔۔۔ ڈر مجھے یہ ہے کہ پڑھے لکھے لوگ ہیں بہت اچھی طرح اپنا دفاع کرلیں گے۔۔۔





No comments:

Post a Comment