Saturday, 23 June 2018

بیماریاں اور بیمار معاشرہ

کچھ سالوں سے لوگوں کے گھروں میں عجیب عجیب بیماریوں کے پڑاؤ کی خبریں دکھائی جارہی ہیں-  لاکھوں کی تعداد میں لوگ نفسیاتی مریض ہیں-  ہزاروں کی تعداد میں ایسے کہ کسی کی اولادیں چل نہیں سکتیں حرکت نہیں کرسکتیں-  نہ ڈاکٹرز کے علاج کام آرہے ہیں-  نہ عاملوں کے دم-  نہ حکیمانہ نسخے-  بس علاج پر علاج کے لئے مسلسل چندہ-  اس ملک کے کونے کونے میں خیراتی ادارے یا فلاحی ادارے یا این جی اوز موجود ہیں جن میں سے کچھ بہت مشھور لوگوں کے ہیں اور کچھ عام لوگوں کے-  سب کے سب چندے پر-  اس ملک کی مسجدیں چندے پر-  پھر اس ملک کی سڑکوں پر لاکھوں کی تعداد میں مانگنے والے بھکاری-  پھر ہر سڑک کے کنارے گھر بساۓ ہوۓ خانہ بدوش جو مانگ کر گزارا کرتے ہیں-  پھر آۓ دن چینلز پر سینکڑوں ایسے ایسے بیماریوں کے کیسز دکھاۓ جاتے ہیں اور انکے لئے بھی لاکھوں کا چندہ مانگا جاتا ہے-  

آخر اس ملک کے کچھ لوگوں کے پاس کتنی دولت ہے جو یوں کڑوڑوں لوگوں میں بانٹ رہے ہیں اور اتنی کہ سیاست دان بھی ان کے ٹیکسز سے لوٹ کھسوٹ کر رہے ہیں؟  اور کب تک دیتے رہیں گے؟

اور اتنی سخاوت اور اتنے صدقہ و خیرات کے بعد بھی بیماریاں، مصیبتیں، بے چینیاں، مفلسی، بھوک، جہالت، گندگی، بد عنوانیاں، بیزاری، سپر پاورز کی دھمکیاں اس ملک کا نصیب ہیں-  کیوں؟  

سوچنے کی بات ہے کہ کہاں کہاں ہم نے الله سبحانہ و تعالیٰ کی خدائی کو اپنے ہاتھ میں لیکر اس سے زیادہ رحیم و کریم اور عقلمند ہونے کا گناہ کیا ہے اور مسلسل کئے جارہے ہیں-  اور اس کے رسول صلی الله علیہ و آلہ وسلّم جن کو رحمت اللعالمین کہا گیا ہے- کی تعلیمات سے بغاوت کی ہے-  

بہت سی نفسیاتی بیماریوں کا حل اتنا آسان ہوتا ہے کہ کوئی ان نفسیاتی مریضوں کی بات سن لے اور بس-  کیونکہ آجکل گھروں اور خاندانوں میں تو کوئی کسی کی بات نہیں سنتا-  امریکہ میں اکثر اس قسم کی پارٹ ٹائم جابس ہوتی ہیں جس میں کسی طالب علم کو ہفتے میں دو تین دن ایک دو گنتے کسی بوڑھے تنہا شخص کے ساتھ گزارنے ہوتے ہیں کہ وہ صرف انکی باتیں سنتا رہے-  تو اس قسم کے انتظامات تو یہاں بھی کئے جا سکتے ہیں اور یہ حکومت کا کام نہیں-  دینی لوگوں کو پڑھنے یعنی "اقراء" سے زیادہ سننے کی بہت عادت ہوتی ہے-  گھنٹوں گھنٹوں اپنے عالموں کی باتیں بیٹھ کر, جھوم جھوم کر سنتے رہتے ہیں-  وہ تو یہ جاب آسانی سے کر سکتے ہیں کیونکہ اس میں نہ دماغ لڑانا ہے نہ کسی مسلے کا حل پیش کرنا ہے-  بس صرف سننا ہے- 

بہت سی نفسیاتی، جسمانی اور روحانی بیماریوں کا علاج قرآنی سورتوں اور آیات سے ہو جاتا ہے کسی عامل یا عالم کے آستانے پر خوار ہوۓ بغیر-   اور دعا تو ہے ہی مومن کا سب سے بڑا ہتھیار-  رسولوں اور پیغمبروں تک نے دعائیں کی ہیں الله سے اپنے لئے ہر قسم کے حالات میں-  اور لوگوں کو بھی دعائیں دی ہیں-  تو یہ کام بھی دینی لوگ کر سکتے ہیں-  آمدنی کے لئے ہی سہی-  

بہت سے روحانی اور جسمانی علاج لیموں، لہسن، کلونجی، خوشبو یعنی پرفیوم، زعفران، بیری کے پتّوں، نیم کے پتّوں، زیتون کے تیل وغیرہ سے بھی ہو جاتے ہیں- 

ایک حدیث کے مطابق بیمار کی عیادت کرنا بیمار کا حق ہے-  لیکن کتنے لوگ ہمارے معاشرے میں یہ حق پورا کرتے ہیں-  اور تو اور مولانا طارق جمیل بھی جاتے ہیں تو نواز شریف کی بیگم کی عیادت کو-  ان بے چارے الله کے پیارے سے بھی یہ سنّت غریبوں کے لئے نہیں نبھائی جاتی کہ کبھی کبھی ہسپتالوں کے چکّر لگا کر مریضوں کے لئے دعائیں کرلیں-  یہ کام چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کر رہے ہیں حالانکہ انہوں نے کسی مدرسے سے بھی نہیں پڑھا-  حافظ قرآن بھی نہیں شاید- لیکن لوگوں کو ان سے امید ملتی ہے-  الله انہیں زندگی، صحت اور خوشیاں دے-  آمین 

کچھ معاشرے دنیا میں ایسے بھی ہیں-  جو زندگی کی ساری تگ و دو اس لئے کرتے ہیں کہ کسی طرح بیمار ہو جائیں یا کم از کم بیمار نظر آئیں-  اور اسکے بعد بیماری کا علاج بھی غیرمنطقی طریقے سے کرتے ہیں-  پاکستانی معاشرہ بھی اسی قسم کا معاشرہ ہے-  

گندگی اور کوڑا پھیلانے میں ایک دوسرے پر فخر کرنے والی یہ قوم جب روز مرّہ کی بیماریوں سے لے کر انتہائی عجیب و غریب بیماریوں میں مبتلا ہوتی ہے تو علاج کے لئے بھی ان ڈاکٹرز کے پاس جاتی ہے جو خود انکی ہی طرح انسانیت بیزار, جھوٹے اورغلیظ ہوتے ہیں-  جنکے کلینک اور ہسپتال بھی اتنے ہی گندے ہوتے ہیں جتنے کوئی اور جگہیں- 

اس معاشرے کو ایسے مسیحا کی ضرورت ہے جو انہیں یہ سمجھاۓ  کہ تمھاری اسّی فیصد بیماریوں کا علاج تمھارے اپنے جسم، اپنے گھر، اپنی گلیاں صاف ستھرا رکھنے میں ہے-  جسے تم نے  حکومت کے کھاتے میں ڈال دیا ہے-  کون سی حکومت صفائی رکھتی ہے جو چوبیس گھنٹے سڑکوں کی صفائیاں کرتے رہیں-  اور کون سی حکومتیں پارکوں کی نگرانی کے لئے پولیس والے تعینات کرتیں ہیں- یہ کام تو شہریوں کے ہیں اور انہیں کے ذریعے ایک ایک دو دو کڑوڑ نوکریاں پیدا کی جاتی ہیں-   صدر اور وزیر اعظم کے لئے تو اور بہت کام ہوتے ہیں-  

حکومت کو ذمّہ دار ٹہرانے سے پہلے عوام اپنے گریبان میں جھانکیں کہ وہ خود اپنے اور اپنے بچوں کی صحت کے لئے کیا کرتے ہیں-  

آدھی سے زیادہ نفسیاتی اور جسمانی اور روحانی بیماریاں ختم ہو جائیں اگر لوگوں کو یہ احساس ہوجانے کہ ان سے آخرت میں ماحول کی صفائی اور پاکی اور ماحولیات کے تحفّظ کا بھی حساب لیا جاۓ گا-  اگر لوگوں کو یہ سمجھ آجانے کہ فائدہ صرف لوگوں کو خیرات کے بکرے کھلانے کے پیسے جمع کرنے اور خرچ کرنے سے نہیں ہوتا-  ماحول کی صفائی اور پاکی اور ماحولیات کے تحفّظ کی سوچ بھی عبادت ہے-  اس پر خرچ کرنا بھی عبادت ہیے- یہ سب بھی صدقات و خیرات میں آتا ہے-  بلکہ صدقہ جاریہ ہے- کیونکہ اس سے خلق خدا کو ایک لمبے عرصے تک فائدہ ہوتا ہے-  لیکن یہ باتیں کسی دینی شخص کو تو سمجھ ہی نہیں آ کر دینگی-  ڈگری یافتہ کے نصاب میں یہ تعلیم نہیں ہوتی-  سیاست دانوں کو اس سے غرض نہیں کہ قوم کے لئے کیا فائدہ مند ہے اور کیا نہیں- یہ کام صرف اور صرف عوام میں سے وہ لوگ کر سکتے ہیں جنہیں الله کے سامنے کھڑے ہونے کا اور جواب دینے کا خوف ہے کہ اپنی زندگی کس طرح گزاری- اپنا وقت کن کاموں میں صرف کیا-  

آدھی سے زیادہ نفسیاتی اور جسمانی اور روحانی بیماریاں ختم ہو جائیں- 

١) اگر گھر اور محلّے صاف ہو جائیں- 

٢) اگر سبزیوں اور پھلوں کے چھلکے اور باقیات مویشیوں کو کھلا دئیے جائیں-  

٣) اگر مویشیوں کو بیچ شہر میں رکھنے کے بجاۓ انکے لئے گنجان شہری 
علاقوں سے ہٹ کر جگہیں مختص کی جائیں- 

٤) اگر لوگ اس وقت کوڑا باہر رکھیں جب کوڑا اٹھانے والے کے آنے کا وقت ہو-  

٥) اگر پان گٹکے پر پابندی لگا دی جاۓ-  اور جگہ جگہ تھوکا نہ جاۓ- 

٦) اگر علاج کے لئے قدرتی طریقے استعمال کیا جاۓ- 

٧) اگر لوگ علاج کروانے سے پہلے ڈاکٹرز کی ڈگری کی چھان بین کر لئے کریں- 

٩) اگر لوگ وقت پر سونے اور وقت پر جاگنے کی عادت ڈال لیں- 

١٠) اگر متوازن غذا کی عادت ڈال لیں- بہت سی سبزیاں جیسے کہ ادرک، لہسن، مرچیں، لیموں، پودینہ، ہرا دھنیا، ٹماٹر اور مصالحہ جات تو گھروں میں ہی اگاۓ جاسکتے ہیں اور اسطرح بچت بھی کی جاسکتی ہے اور پودوں کی کم بھی پوری ہو سکتی ہے-  

١١) اگر لوگ جگہ جگہ پھول پودے لگا کر شہرکوخوبصورت بنا دیں-  

١٢) اگر پبلک پارکس کی لوگ خود حفاظت کریں اور وہاں صفائی رکھیں-  

١٣) اگر ٹریفک قوانین کی پابندی کریں تاکہ حادثات کم ہوں-  

١٤) اگر مزدور ماسکس پہن کر کام کریں تاکہ دھول مٹی سے انکے پھیپھڑے اور گردے خراب نہ ہوں-  

١٥) اگر ٹھیلوں پر سامان اور روٹی کی دکان پر آٹا اور پکوڑوں اور سموسوں کی دکان پر پکوڑے اور سموسے ڈھکے ہوۓ ہوں تاکہ مکّھیوں سے بچے رہیں-   

١٦) اگر لوگ فالتو باتیں سوچنے کے بجاۓ کام کی باتیں سوچنا شروع کردیں-  اور بلاوجہ جگت بازیوں، جملے بازیوں کے بجاۓ اچھے الفاظ، وظائف اور دعاؤں کی عادت ڈال لیں- 

١٧) اگر لوگ خواتین کے احترام میں نظریں جھکا کر رکھیں-

١٩) اگر بچوں سے مسکرا کر بات کریں اور ان کی بھی عزت کریں-  کافی سال پہلے محلّوں میں کوئی نیاز وغیرہ ہوتی یا دعا یا منّت کا موقع ہوتا تو بچوں میں شرینی بانٹتے تھے کہ بچوں کے خوش ہونے سے دعا قبول ہوتی ہے- 

٢٠) اگر صبح اٹھ کر ایک دو گلاس پانی پی لیں-  ٹھنڈا پانی پینے سے گریز کریں-  اور پرندوں اور جانوروں کے لئے پانی کا انتظام رکھیں-  


No comments:

Post a Comment