Sunday 17 November 2019

اسلامی ریاست الله کا وہ نور ہوتی ہے

"اور یہ چاہتے ہیں کہ الله کے نور کو اپنے منہ (پھونکوں سے) سے بجھا دیں 
مگر الله اپنا نور مکمّل کر کے رہے گا 
چاہے کافروں (جھٹلانے والوں) کو کتنا ہی برا کیوں نہ لگے"  
سورہ توبہ آیت ٣٢ 

ایک اسلامی ریاست الله کا وہ نور ہوتی ہے جو میزان یعنی قرآن یعنی عدل کو زمین پر قائم کرتی ہے-  

ریاست مدینہ - ایک عرب اسلامی ریاست جس میں قبائل بہت تھے لیکن سب کی مشترکہ زبان عربی تھی- اس لئے قرآن کا پیغام ایک بڑے اور اہم خطّے میں پہنچ گیا، سمجھا گیا اور بالآخر ذاتوں اور نسلوں کی بنیاد پر تعصب اور لڑائیوں کے خاتمے کا باعث بنا-   

ریاست مدینہ - فائنل ایڈیشن تھا ان تعلیمات کا جو براہ راست الله سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے انبیاء علیہم السلام کے ذریعے بھیجی جاتی رہیں-  وہ تعلیمات جن سے مکّے کے لوگوں کو ضد تھی اور وہ اپنی غلط عادتوں، غلط رویوں اور غلط سوچ پر اڑے رہنا چاہتے تھے اور جسے مدینے کے عوام نے خوش آمدید کہا کیونکہ وہ غلط کو غلط سمجھتے تھے اور اسے صحیح کرنا چاہتے تھے-  تو الله سبحانہ و تعالیٰ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلّم کے لئے آسانی پیدا فرمائی اور پہلی اسلامی آئینی ریاست کا آغاز مدینہ سے ہوا- 

ریاست مدینہ - کہ جب انسانی شیاطین کو یقین ہو گیا کہ چودہ سو سال میں درجہ بدرجہ عربوں کے زوال بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلّم اور انکا پیغام جڑ سے اکھاڑ پھینک دیا گیا ہے-  کسی نبی اور رسول کی آمد بھی متوقع نہیں-  مدینہ اب صرف روحانی فیض حاصل کرنے کی جگہ ہے-  وہاں سے کوئی سیاسی و عسکری قوّت جنم نہیں لے سکتی لہٰذا مسلمانوں میں اب کوئی طاقت باقی نہیں رہ گئی-  تو ریاست پاکستان وجود میں آگئی-  

"اور یہ چاہتے ہیں کہ الله کے نور کو اپنے منہ (پھونکوں سے) سے بجھا دیں 
مگر الله اپنا نور مکمّل کر کے رہے گا 
چاہے کافروں (جھٹلانے والوں) کو کتنا ہی برا کیوں نہ لگے"  
سورہ الصّف آیت ٨ 

ریاست پاکستان - جو تسلسل ہے ریاست مدینہ کا-  ایک غیر عرب اسلامی ریاست جو کہ تحریک پاکستان کے نتیجے میں وجود میں آئی-  اردو زبان جو کہ برّ اعظم ایشیا کی بہت سی قوموں کی مشترکہ زبان ہے علّامہ اقبال اور قائداعظم رحمة الله علیہا کی فکر اور پیغام کو پھیلانے کا ذریعہ بنی- اور بالآخر پاکستان ایک عجمی اسلامی ریاست کے طور پر وجود میں آیا اور بہت سی قوموں اور نسلوں کے لئے جاۓ پناہ بن گیا-  

ریاست پاکستان - نسلی اور لسانی طور پر غیرعرب شخصیات کی جدّ و جہد کا نتیجہ-  

ریاست پاکستان - جو کہ ایک سیاسی قوّت بھی ہے اور عسکری قوّت بھی-  

تحریک پاکستان جو کہ ابھی جاری ہے اور جسکی منزل ہے خلافت ارضی-  الله کی زمین پر الله کا نظام- ریاست مدینہ کے آئین یعنی قرآن و سنّت کے تحت قائم کیا گیا نظام- 

تحریک پاکستان اپنی منزل تک پہنچ کر رہے گی چاہے پوری پاکستانی قوم بھی اگر نواز شریف اور زرداری, الطاف حسین اور فضل الرحمان  کی طرح شیطان کا آلۂ کار بن کر اس میں رکاوٹیں ڈالے-  تب بھی یہ کام تو مکمّل ہو کر رہے گا- 

اور الله اسکے لئے اپنے بندوں کا انتخاب کرتا رہے گا- 

Sunday 28 July 2019

دنیا کا منطقی انجام

آج سے چند سال پہلے قرآن کا علم رکھنے والے ایک عالم نے کہا تھا کہ "دنیا اپنے منطقی انجام کی طرف واپس آرہی ہے-" 

قرآن کے مطابق، 
"اس میں نشانیاں ہیں غور و فکر کرنے والوں کے لئے..." 

آج دنیا کے بہت سے لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ الله رب العزت کا کوئی وجود نہیں اور اگر ہے بھی تو بہت محدود-  اگر یہ دعویٰ سچا ہوتا اور لوگ خود بخود ایک ارتقائی عمل کے تحت زندگی گزار رہے ہوتے اور پھر مر کر مٹی میں مل جاتے اور پھر کچھ لوگ ان کی جگ لینے کے لئے پیدا ہو جاتے تو پھر سوچ اور اعمال کی واپسی کا سفر شروع نہ ہوتا بلکہ زندگی آگے سے آگے اپنے طریقے سے بڑھتی-  

لیکن ایسا نہیں ہے-  رب العزت موجود بھی ہے اور وہ بھی اپنے مکمّل اختیارات اور طاقت کے ساتھ-  

الله عزوجل نے انسان سے زبردستی اپنے آپ کو نہیں منوایا-  بلکہ آزادی دی سوچنے کی سمجھنے کی تجربات کرنے کی-  انسان کو ہر زمانے میں ڈھیل دی کہ وہ اپنی عقل اور اپنے حربے آزمالے اور خود اپنی مرضی سے، اپنے تجربات سے الله کی ذات، اسکے  کمالات،اسکی طاقت، اسکی صفات کو پہچانے-  اور یہیں انسان باقی تمام مخلوق سے ممتاز ہو جاتا ہے-  جو کہ سب بقول علّامہ اقبال رحمة الله علیہ "تقدیر کے پابند" ہیں-  

رسول الله صلّی الله علیہ وسلّم کے ذریعے ٹیکنالوجی کے دور اور صنعتی دور سے پہلے ہی انسان کو معاشرے کی اصلاح اور ترقی کے صحیح معنی سکھا دئیے-  

پھر انسان جب صنعتی دور میں اور ٹیکنا لوجی کے دور میں داخل ہوا تو اس نے اسی کو ترقی سمجھ لیا-  اشیاء کے جوڑ توڑ اور نۓ پن کو ترقی سمجھا اور جو اخلاقیات سکھاۓ گۓ انکو ترقی کی راہ میں رکاوٹ-  نتیجہ یہ نکلا کہ الله کی دنیا کو الٹ پلٹ کر کے بھی سکون اور خوشی سے محروم ہو گیا-  اور یہ سوچ کر کہ شاید مادّی چیزوں کے ڈھیر لگانے بے سکونی اور غم ختم ہو جائیں گے صرف اور صرف دنیا کمانے میں لگ گیا-  

لیکن بہرحال- کیونکہ اس کائنات کا رب موجود ہے اور غافل بھی نہیں-  اس نے انسان کو یادآشت بھی عطا فرمائی، معاملات کو سمجھنے، انکا موازنہ کرنے اور اس سے نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت بھی-  تو دنیا کے باشعور انسانوں نے نتیجہ نکالا کہ چودہ سو سال پہلے والا اسلام، چودہ سو سال پہلے والا اخلاق اور چودہ سو سال پہلے والے قوانین ہی دراصل صرف انسانیت کی ہی نہیں بلکہ کائنات کی روح بھی ہیں اور وہ اس لئے کہ الله عزوجل کی ہر تخلیق اور ہر مخلوق اکیلی کچھ بھی نہیں بلکہ ایک دوسرے سے جڑی ہوئی بھی ہیں اور ایک دوسرے کی محتاج بھی-  انسان میں اتنی طاقت نہیں کہ بھوکا رہ سکے بھوک مٹانے کے لئے وہ جانوروں اور پودوں کا محتاج ہے-  

صرف ایک الله سبحانہ و تعالیٰ کی مبارک ذات ہے جو ہر محتاجی سے پاک ہے-  

کیونکہ صرف انسانیت پر عقیدہ رکھنے والوں نے تو انسانوں کے مفادات کی خاطر ماحولیات کا بیڑہ غرق کردیا، درخت، پودے، پھول، پرندے، جانور، پانی، مٹی، پہاڑ، دریا، سمندر، سمندری مخلوق، سب کو برباد کردیا اور اب خود انسان پریشان ہے کہ کیا کرے-   

آج دنیا کے بہت سے بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک میں لوگ پرانی طرز زندگی پر واپس آ رہے ہیں-  چھوٹے گھر، خود گھروں میں اگایا ہوا کھانا، جانور پالنا، اپنے ہاتھ کی بنی ہوئی چیزیں استعمال کرنا-  سورج کی روشنی پر انحصار کرنا-  

ماس پروڈکشن کا دور ختم ہونے جارہا ہے-   چاہے وہ چیزوں کی پروڈکشن ہو یا اسکولوں میں بچوں کی تعلیم کی- 

لوگ ہوم اسکولنگ اور ایکٹیویٹیز کے ذریعے تعلیم کے عمل کی طرف راغب ہو رہے ہیں کیونکہ ڈگریوں نے اور ایک غلامانہ سوچ پر پڑھے لکھے لوگوں نے کسی کو کچھ  نہیں دیا-  ذاتی صلاحیتوں کے ذریعے زندگی گزارنے کا دور واپس آرہا ہے-  بہت جلد کلاس رومز تبدیل ہو جائیں گے ایسے کمروں میں جہاں ہنر سکھاۓ جائیں گے-  دنیا کے کچھ ممالک میں یہ عمل شروع ہو چکا ہے-

اور تعلیم کے نام پر جو بے سروپا نظام قائم کیا ہوا تھا بچوں کی زندگی ضائع کرنے کا- وہ نظام بھی آہستہ آہستہ اپنی موت آپ مر جاۓ گا-  کیونکہ اب تو بچوں کو بھی پتہ چل چکا ہے کہ جو لکھنے پڑھنے اور حساب کتاب کی صلاحیت وہ ایک مہینے میں حاصل کر سکتے ہیں اس پر پورا پورا سال اور دن کے بارہ چودہ گھنٹے ضائع کرنا فضول ہے-  اور اسکے با وجود بھی رزلٹ میں بچے فیل-  

حکومت کو بھی اور عوام کو بھی "قدرت کے تقاضوں" اور انسانی مزاج کے مطابق خود کو تبدیل کرنا چاہئے-  ورنہ یہ عمل خود بخود تو ہو ہی جاۓ گا-  

کیونکہ جتنا بھی تبدیل کرلیں-  ہر چیز اپنے اصل پر واپس پلٹ آتی ہے- 


Saturday 23 March 2019

فرض اور نفل

شریعت میں فرض وہ کام یا اعمال ہیں جنکا آخرت میں احتساب ہوگا-  جبکہ نفل یا نوافل وہ کام جنکے بارے میں پوچھا نہیں جاۓ گا کہ کیوں نہیں کیے-  لیکن اگر کیے ہیں اور قبول بھی ہو گۓ تو انکا اجر ملے گا-  نوافل اعمال کرنا بری بات نہیں بلکہ بہترین عمل ہے لیکن شاید اس وقت جب اس سے پہلے فرائض ادا کیے جا چکے ہوں-  

مذہبی فرائض کی حد تک تو یہ فرق تقریبا سب کو معلوم ہے-  حالانکہ تب بھی اس پر عمل کم ہی کرتے ہیں-  لیکن روزمرّہ کی زندگی میں فرائض کی پہچان شاید ہی کسی کو ہو-    

پاکستان میں پانچ وقت کی نماز کی پابندی بہت کم لوگ کرتے ہیں حالانکہ اس میں مشکل سے دس منٹ صرف ہوتے ہیں-  جنکو نہیں پڑھنی وہ بڑے دلائل بھی دے دیتے ہیں-  جبکہ اس کی سخت پکڑ بھی ہے اوراسے اسلام اور کفر کے درمیان فرق بھی کہا گیا ہے-  اس کے برعکس شب معراج، شب برأت اور باقی نفل راتوں میں ساری ساری رات جاگنے کا اہتمام ہوتا ہے اور دوسرے دن چھٹی کا بہانہ بھی-  اور جاگنے والے اس کے حق میں بڑے بڑے دلائل بھی دیتے ہیں-  حالانکہ تعلیم، ملازمت، معاشرے میں امن امان، سرحدوں کی حفاظت، بیمار کی عیادت فرض ہیں ان راتوں کی عبادت کے مقابلے میں-  

اسی طرح قران کی تلاوت سے تلفّظ اور دیگر وجوہات کی وجہ سے اور مسنون اذکار سے دامن بچانے والے مولویوں اور عاملوں کے بناۓ ہوۓ بہت سے وظائف کا ورد کرتے نظر اتے ہیں-  اور اس کے حق میں بھی دلائل دے دیتے ہیں- 

صاحب نصاب ہوتے ہوۓ زکواة کا فرض ادا نہ کرنے والے آۓ دن صدقہ خیرات کرتے ہیں-  یا زکواة ادا بھی کی تو رشتہ داروں میں مستحقین تلاش کرنے کے بجاۓ دوسروں میں بانٹ دی-  اولیاؤں اور پیروں کے نام پر دیگیں پکوا کر بانٹتے ہیں-  یہ سوچے بغیر کہ اگر کسی معاشرے میں صاحب نصاب زکواة ادا کرنا شروع ہو جائیں تو وہاں بھوک اور مفلسی خود بخود دور ہو جاتی ہے-   

لوگ حج تو ایک مرتبہ کر لیتے ہیں لیکن پھر ہر سال اور کبھی تو سال میں کئی مرتبہ عمرہ بھی کرتے ہیں-  اور وہ بھی ان حالات میں کہ اس معاشرے میں ظلم و ستم جہالت  اور مفلسی کا راج ہو-  عمرہ تو نفل ہے جبکہ معاشرے سے ظلم و جہالت کا خاتمہ کرنا فرض ہے-  یہی تو سنّت رسول صلی الله علیہ وسلّم اور سنّت حسین ہے-  یہ ایک سے زیادہ حج اور عمروں کے پیسوں سے مقروضوں کا قرض اتارا جا سکتا ہے جسکی وجہ سے وہ جبری مشقّت اور غلامی کی ذلّت سہتے ہیں- 

جب دینی فرائض میں یہ حال تو عام زندگی میں کسی عدل کی توقع رکھنا فضول ہو جاتا ہے- 

اکثر اساتذہ خاص طور پر اگر وہ سرکاری ہوں (اس میں دینی اور غیر دینی دونوں شامل ہیں) اور اسی طرح اور بھی دوسرے سرکاری اداروں کے ملازم- تو اپنی اس ملازمت کو جسکی تنخواہ لے رہے ہیں ایک زحمت سمجھتے ہوۓ آۓ دن چھٹی کرتے ہیں مختلف بہانوں سے-  لیکن انہی بہانوں کے ذریعے وہ مخلتف جگہوں پر جوش و جذبے کے ساتھ مختلف سرگرمیوں میں حصّہ لیتے دکھائی دیتے ہیں-  یہ نہیں سمجھتے کہ یہ دھوکہ ہے-  جھوٹ ہے-  بےایمانی ہے-  یہاں لوگوں کو یہ نہیں سمجھ آتی کہ جب آپ ملازمت پر ہوتے ہیں تو باقی سب کام سواۓ نماز یا الله کی طرف سے جو براہ راست عبادتیں ہیں- نفل ہوجاتے ہیں اور ان تمام کاموں کو مینج کرنا آنا چاہئے-  اور ان سب کے انتظامات کرنا معاشرے کے بااختیار اور با شعور افراد کا فرض ہے-  

اسی طرح معاشرے میں بھوک بکرے کھلانے سے ختم نہیں ہوتی-  لوگوں کے معاش کا انتظام کرنا ہوتا ہے-  رسول الله صلی الله علیہ وسلّم کے زمانے میں لوگ باغ صدقہ کرتے تھے-  کنوئیں کھدواتے تھے-  آج کسی بھی خیراتی ادارے کو بکرے کے پیسے دے کر جان چھڑا لیتے ہیں-  اور یہ خیراتی ادارے آگے ایک بے لگے بندھے طریقہ کار کے تحت اپنی سمجھ کے مطابق لوگوں کی خدمت کرتے ہیں-  لیکن یہ نہیں جان پاتے کہ پھر بھی معاشرے میں بھوک و افلاس بڑھ رہا ہے اور جہالت اور جرائم عام ہو رہے ہیں- گندگی اور غلاظت بڑھ رہی ہے-  بکرے کھلانا فرض نہیں ہے لیکن آلودگی ختم کرنا اور ایسے انتظامات کرنا جس سے بیماریاں ختم ہوں یہ  فراز ہے- 

بہت ضروری ہے معاشرے کی اصلاح کے لئے کہ وہاں کے با شعور افراد اور بااختیار افراد لوگوں کی اخلاقی اصلاح کے ساتھ ساتھ انھیں مہذب طریقے سے جینا بھی سکھائیں اور جو وسائل اس پر خرچ ہونگے بلاشبہ وہ اس صدقہ و خیرات سے بڑھ کر ہونگے جس سے صرف ایک وقت کی بھوک ہی مٹتی ہے اور وہ بھی اکثر عزت نفس کی قیمت پر-  کاش یہ بات سیلانی اور دوسرے خیراتی اداروں کو سمجھ آجاۓ کہ کیوں رسول الله صلی الله علیہ وسلّم نے مکّہ اور مدینے میں خیراتی اداروں کے قیام بجاۓ حکومتی خزانے یعنی بیت المال کو مضبوط کیا-