Friday 4 December 2020

بابا تو اللہ کے ولی ہیں

 بابا تو اللہ کے ولی ہیں- 

یہ جملہ باجی نے تقریبا ایک سال پہلے بابا کے بارے میں کہا- 

اور میں نے فورا کہا 'بے شک، یقینا'- دل چاہا کہ بابا کے ساتھ رحمة اللہ علیہ کا اضافہ بھی کر دیا جاۓ- 

جو زندگی کی آزمائشیں ان پر گزریں وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے ہی تھیں اور اللہ عزوجل نے ہی اس میں آسانیاں بھی پیدا کیں-  لیکن جیسی آزمائشیں تھیں اور جسطرح اللہ جلّ شانه نے بابا کو سنبھالے رکھا اور انہیں صبر و استقامت عطا فرمائی وہ یا تو انبیاء علیھم السّلام کے ساتھ ہوتا رہا یا پھر صدّیقین اور صالحین کے ساتھ ہوتا رہا-  انکی اپنی ذات کی ہی حد تک اتنی ناکامیاں اور مشکلات کہ بلآخر وہ ہر حال میں شکر اور صبر کے ساتھ جینا سیکھ گۓ- 

ہر حال میں شکر اور صبر سے جینے کے ساتھ ساتھ خود تکلیفوں پر تکلیفیں  اٹھا کر اپنی اولادوں سمیت بہت سوں کی زندگی سنوار گۓ-  یہ بھی اللہ جلّ جلالہ کے محبوب بندوں کا کردار ہوتا ہے-   

ہم سب چاہتے ہوۓ بھی بے بس تھے کہ انکے لئے کچھ کر نہ سکے اور اللہ تبارک و تعالیٰ بابا کو آزماتے چلے گۓ اور آخری سانس تک آزما لیا- 

ایسا بیٹا جس نے ماں کی خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑی- 

ایسا بیٹا جس نے باپ سے پٹ پٹ کر بھی کبھی آنکھ اٹھا کر انکو نہیں دیکھا-  زبان سے کچھ کہنا تو دور کی بات- اور جب تک اپنے والد کے نام کا حج نہ کرلیا اس وقت تک چین نہیں آیا-  

ایسا انسان جس نے کبھی بیوی بیٹوں بیٹیوں سے یا کسی سے بھی ایک گلاس پانی نہیں مانگا- 

ایسا باپ جس نے بیٹوں بیٹیوں کی خوشیوں کے لئے اپنے آپ کو بھلا دیا- 

ایسا دوست جس نے جہاں کسی دوست کو تکلیف میں دیکھا اپنی جیب خالی کردی- 

اپنی زندگی بھر کی غلطیوں اور کوتاہیوں پر بچوں کی رو رو کر اللہ ربّ العالمین سے معافی مانگنے والے- 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے عاشق-  ایسے کہ درودوں پر درود پڑھتے اور رسول کا نام آتے ہی آنسوؤں سے رونے لگتے-  

ایسے باحیا اور اپنی نظروں کی حفاظت کر نے والے- 

 اور آخری چند سال میں تو اپنی زبان کی اتنی حفاظت کہ ذکر اللہ اور دعاؤں کے سوا شاید ہی گنے چنے الفاظ منہ سے نکلتے ہونگے-  

  بابا کو زندگی کے لئے زندگی سے اتنا لڑتے دیکھا کہ اب یہ کہنے کو دل نہیں چاہتا کہ انکا انتقال ہو چکا ہے-  


یا اللہ تبارک و تعالیٰ، 

بابا واپس آپ کے پاس پہنچ چکے ہیں-  

بابا نے آپ کو اپنا سمجھا-  آپ بھی ان سے اپنوں کی طرح سلوک کیجئے گا-  

بابا نے آپ پر بھروسہ کیا-  آپ انکے بھروسے کا مان رکھئے گا- 

انکی اس  خدمت کو یاد رکھئے گا جو انہوں نے اپنی ماں کی بیماری میں کی- 

انکی فرمانبرداری کو یاد رکھئے گا جو انہوں نے اپنے باپ سے کی-  

انکی ہتھیلیوں کو یاد رکھئے گا جو آپکے گھر کو آگ سے بچاتے ہوۓ جل گئیں تھیں- 

انکے صبر کو یاد رکھئے گا جس کی وجہ سے وہ خاموشی سے سہہ جاتے تھے-  

انکی قناعت کو یاد رکھئے گا جس کی وجہ سے شکر کیا کرتے تھے- 

انکی بہادری کو یاد رکھئے گا جس کی وجہ سے وہ کسی پر ظلم برداشت نہیں کرتے تھے- 

انکی سخاوت کو یاد رکھئے گا جس سے وہ ہر ایک کی تکلیف دور کرنے کی کوشش کرتے تھے- 

انکے توکّل کو یاد رکھئے گا جو انہیں بخل سے بچاتا رہا-  

انکی سادگی کو یاد رکھئے گا جس کی وجہ سے وہ سیدھی بات کیا کرتے تھے-  

انکی حیا کو یاد رکھئے گا جس کی گواہی ان کی زندگی میں آنے والا ہر مرد و عورت دیتا رہا ہے-  

انکی مسجدوں سے محبّت کو یاد رکھئے گا جہاں ان کا دل اٹکا رہنے لگا تھا- 

انکی فرض نمازوں کو یاد رکھئے گا جنکا وہ انتظار کیا کرتے تھے- 

انکی تہجد کی نمازوں کو یاد رکھئے گا جو وہ صرف آپ کی محبّت میں پڑھا کرتے تھے-  

انکے نفل روزوں کو یاد رکھئے گا جو وہ محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلّم کی پیروی میں رکھا کرتے تھا-  

انکی آواز کو یاد رکھئے گا جو شوق سے اذان دینے کے لئے نکلتی تھی-  

انکے آنسوؤں کو یاد رکھئے گا جو محمّد مصطفیٰ کا نام سن کر انکی آنکھوں سے بہنے لگتے تھے- 

انکے آخرت کے خوف کو یاد رکھئے گا جس کی وجہ سے وہ خود اپنی اصلاح کرنے لگے تھے-  

انکی عاجزی کو یاد رکھئے گا جس کی وجہ سے اپنی تعریف کروانا بھی پسند نہیں کرتے تھے- 

یا ربّ العالمین! یقینا انکی لاتعداد نیکیاں ایسی ہونگی جن سے صرف آپ واقف ہونگے-  

اور انکی کوتاہیوں اور نافرمانیوں کو معاف کردیجئے گا جو انہوں نے اپنی اولاد کی محبّت میں کیں- 

اور انکی توبہ کو یاد رکھئے گا جس میں ندامت بھی تھی اور آپ کی رحمت پر یقین بھی اور آپ سے معافی کی امید بھی-  بے شک جو آپ سے امید لگاتا ہے آپ اسے مایوس نہیں کرتے-  

بابا اب آپ کے پاس ہیں-  آپ کی رحمت سے پوری امید ہے کہ وہ نہایت خوش اور اطمینان سے ہونگے اور دن رات اپنی جنّت کے باغوں کے نظارے کرتے ہونگے-