بابا تو اللہ کے ولی ہیں-
یہ جملہ باجی نے تقریبا ایک سال پہلے بابا کے بارے میں کہا-
اور میں نے فورا کہا 'بے شک، یقینا'- دل چاہا کہ بابا کے ساتھ رحمة اللہ علیہ کا اضافہ بھی کر دیا جاۓ-
جو زندگی کی آزمائشیں ان پر گزریں وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے ہی تھیں اور اللہ عزوجل نے ہی اس میں آسانیاں بھی پیدا کیں- لیکن جیسی آزمائشیں تھیں اور جسطرح اللہ جلّ شانه نے بابا کو سنبھالے رکھا اور انہیں صبر و استقامت عطا فرمائی وہ یا تو انبیاء علیھم السّلام کے ساتھ ہوتا رہا یا پھر صدّیقین اور صالحین کے ساتھ ہوتا رہا- انکی اپنی ذات کی ہی حد تک اتنی ناکامیاں اور مشکلات کہ بلآخر وہ ہر حال میں شکر اور صبر کے ساتھ جینا سیکھ گۓ-
ہر حال میں شکر اور صبر سے جینے کے ساتھ ساتھ خود تکلیفوں پر تکلیفیں اٹھا کر اپنی اولادوں سمیت بہت سوں کی زندگی سنوار گۓ- یہ بھی اللہ جلّ جلالہ کے محبوب بندوں کا کردار ہوتا ہے-
ہم سب چاہتے ہوۓ بھی بے بس تھے کہ انکے لئے کچھ کر نہ سکے اور اللہ تبارک و تعالیٰ بابا کو آزماتے چلے گۓ اور آخری سانس تک آزما لیا-
ایسا بیٹا جس نے ماں کی خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑی-
ایسا بیٹا جس نے باپ سے پٹ پٹ کر بھی کبھی آنکھ اٹھا کر انکو نہیں دیکھا- زبان سے کچھ کہنا تو دور کی بات- اور جب تک اپنے والد کے نام کا حج نہ کرلیا اس وقت تک چین نہیں آیا-
ایسا انسان جس نے کبھی بیوی بیٹوں بیٹیوں سے یا کسی سے بھی ایک گلاس پانی نہیں مانگا-
ایسا باپ جس نے بیٹوں بیٹیوں کی خوشیوں کے لئے اپنے آپ کو بھلا دیا-
ایسا دوست جس نے جہاں کسی دوست کو تکلیف میں دیکھا اپنی جیب خالی کردی-
اپنی زندگی بھر کی غلطیوں اور کوتاہیوں پر بچوں کی رو رو کر اللہ ربّ العالمین سے معافی مانگنے والے-
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے عاشق- ایسے کہ درودوں پر درود پڑھتے اور رسول کا نام آتے ہی آنسوؤں سے رونے لگتے-
ایسے باحیا اور اپنی نظروں کی حفاظت کر نے والے-
اور آخری چند سال میں تو اپنی زبان کی اتنی حفاظت کہ ذکر اللہ اور دعاؤں کے سوا شاید ہی گنے چنے الفاظ منہ سے نکلتے ہونگے-
بابا کو زندگی کے لئے زندگی سے اتنا لڑتے دیکھا کہ اب یہ کہنے کو دل نہیں چاہتا کہ انکا انتقال ہو چکا ہے-
یا اللہ تبارک و تعالیٰ،
بابا واپس آپ کے پاس پہنچ چکے ہیں-
بابا نے آپ کو اپنا سمجھا- آپ بھی ان سے اپنوں کی طرح سلوک کیجئے گا-
بابا نے آپ پر بھروسہ کیا- آپ انکے بھروسے کا مان رکھئے گا-
انکی اس خدمت کو یاد رکھئے گا جو انہوں نے اپنی ماں کی بیماری میں کی-
انکی فرمانبرداری کو یاد رکھئے گا جو انہوں نے اپنے باپ سے کی-
انکی ہتھیلیوں کو یاد رکھئے گا جو آپکے گھر کو آگ سے بچاتے ہوۓ جل گئیں تھیں-
انکے صبر کو یاد رکھئے گا جس کی وجہ سے وہ خاموشی سے سہہ جاتے تھے-
انکی قناعت کو یاد رکھئے گا جس کی وجہ سے شکر کیا کرتے تھے-
انکی بہادری کو یاد رکھئے گا جس کی وجہ سے وہ کسی پر ظلم برداشت نہیں کرتے تھے-
انکی سخاوت کو یاد رکھئے گا جس سے وہ ہر ایک کی تکلیف دور کرنے کی کوشش کرتے تھے-
انکے توکّل کو یاد رکھئے گا جو انہیں بخل سے بچاتا رہا-
انکی سادگی کو یاد رکھئے گا جس کی وجہ سے وہ سیدھی بات کیا کرتے تھے-
انکی حیا کو یاد رکھئے گا جس کی گواہی ان کی زندگی میں آنے والا ہر مرد و عورت دیتا رہا ہے-
انکی مسجدوں سے محبّت کو یاد رکھئے گا جہاں ان کا دل اٹکا رہنے لگا تھا-
انکی فرض نمازوں کو یاد رکھئے گا جنکا وہ انتظار کیا کرتے تھے-
انکی تہجد کی نمازوں کو یاد رکھئے گا جو وہ صرف آپ کی محبّت میں پڑھا کرتے تھے-
انکے نفل روزوں کو یاد رکھئے گا جو وہ محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلّم کی پیروی میں رکھا کرتے تھا-
انکی آواز کو یاد رکھئے گا جو شوق سے اذان دینے کے لئے نکلتی تھی-
انکے آنسوؤں کو یاد رکھئے گا جو محمّد مصطفیٰ کا نام سن کر انکی آنکھوں سے بہنے لگتے تھے-
انکے آخرت کے خوف کو یاد رکھئے گا جس کی وجہ سے وہ خود اپنی اصلاح کرنے لگے تھے-
انکی عاجزی کو یاد رکھئے گا جس کی وجہ سے اپنی تعریف کروانا بھی پسند نہیں کرتے تھے-
یا ربّ العالمین! یقینا انکی لاتعداد نیکیاں ایسی ہونگی جن سے صرف آپ واقف ہونگے-
اور انکی کوتاہیوں اور نافرمانیوں کو معاف کردیجئے گا جو انہوں نے اپنی اولاد کی محبّت میں کیں-
اور انکی توبہ کو یاد رکھئے گا جس میں ندامت بھی تھی اور آپ کی رحمت پر یقین بھی اور آپ سے معافی کی امید بھی- بے شک جو آپ سے امید لگاتا ہے آپ اسے مایوس نہیں کرتے-
بابا اب آپ کے پاس ہیں- آپ کی رحمت سے پوری امید ہے کہ وہ نہایت خوش اور اطمینان سے ہونگے اور دن رات اپنی جنّت کے باغوں کے نظارے کرتے ہونگے-
No comments:
Post a Comment