Showing posts with label اسلامی جمہوریت. Show all posts
Showing posts with label اسلامی جمہوریت. Show all posts

Sunday, 15 March 2020

جمہوریت

مغربی جمہوریت اور اسلامی جمہوریت 

بظاہر نظر آنے والا بہت تھوڑا سا فرق اصل میں بہت گہرا ہے- 

بچپن میں قیامت کی جن نشانیوں کو پڑھ کر سوچتے تھے کہ پتہ نہیں کون سا زمانہ ہوگا اور کون سے لوگ ہونگے جو ان حالات سے گزریں گے جو کہ احادیث میں بیان کیے گۓ ہیں-  جیسے جیسے بڑے ہوتے گۓ اور سمجھ آتی گئی تو معلوم ہو گیا بلکہ یقین آگیا کہ وہ زمانہ تو شروع ہو چکا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی رسالت اور ختم نبوّت کے اعلان کے ساتھ ہی-  

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے اپنے ہاتھ کی دو انگلیاں ملاتے ہوۓ فرمایا کہ 
"میں اور قیامت اس طرح ہیں"-  

بات بڑی سادہ سی ہے کہ جب ہدایت مکمّل ہو گئی یعنی قرآن فائنل ایڈیشن بن گیا انسانی زندگی کے مینول کا تو مزید کسی نئے ہادی کی ضرورت بھی نہیں رہی لہٰذا رسول اللہ خود بخود خاتم النبیّین ڈکلئیراورختم الرسل ہو گۓ-  نبی یعنی خبریں پہنچانے والا-  رسول یعنی پیغام پہنچانے والا-  

مدینہ کی حکومت شاید دنیا کی پہلی حکومت تھی جسے جمہوری حکومت کہا جاسکتا ہے-  اس سے پہلے بادشاہ ہوتے تھے-  عسکری حکمران ہوتے تھے-  طاقتورکی حکمرانی ہوتی تھی-  عوام کی مرضی کا تو سوال ہی نہیں تھا-

مکّے کے بعد طائف کے شہر میں تبلیغ کے نتیجے میں بدترین صورتحال کا سامنا کرتے ہوۓ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی زبان مبارک سے اللہ کے حضورجوفریاد نکلی تھی اسکا جواب بہت شاندار تھا-  جلد ہی مدینے سے وفد آتا ہے یہ خبر لے کر کہ مدینے کے عوام کی اکثریت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کو اپنا بادشاہ بنانے کے لئے تیّار ہے-  اور پھر ہجرت ہوتی ہے اور پھر دنیا کی پہلی اسلامی خلافت یا ریاست مدینہ کی بنیاد ڈالی جاتی ہے-  اور یہ ریاست عوام کی مرضی سے بنی-  یقینا مدینے کے سمجھدار لوگوں نے اپنی عوام سے بات کی ہوگی- انکی راۓ لی ہوگی- صلاح مشورے کیے ہونگے-  بہت سوچ بچار کے بعد وہ رسول اللہ کے پاس آۓ ہونگے- کوئی تو فائدہ دیکھا ہوگا اس کمزور گروہ میں جو اپنے ہی شہر میں بے یارو مددگار، سیاسی، معاشی اور قانونی طور پر کمزور تھے-  

عوام کی مرضی سے بننے والی حکومت- عوام نے اپنا رہنما، اپنا حکمران چنا-  کوئی سیاسی جماعت نہیں بنی-  کوئی الیکشن نہیں ہوا-  کوئی مہم نہیں چلائی گئی-  کسی طاقت کا مظاہرہ نہیں کیا گیا- اخلاقیات کے سوا کوئی رول ماڈلنگ نہیں ہوئی جس میں سچائی تھی، امانت داری تھی، حکمت تھی، صبر تھا، احسان تھا، رواداری تھی، نرمی تھی، برداشت تھی، سادگی تھی، بھروسہ تھا، زبان کی پاسداری تھی، احترام تھا انسانوں کے لئے بھی اور جانوروں کے لئے بھی، رسول کی اطاعت تھی اور اللہ سے محبّت-  

جسکا مطلب تھا کہ مدینے کے عوام کی ترجیحات اپنے حکمران کے معاملے میں اخلاقیات کی تھیں-  

مکّے کے عوام بھی چالیس سال رسول اللہ کی ذات اور تیرہ سال رسول اللہ کی جماعت کے اخلاق کے گواہ تھے-  لیکن وہ اپنی زندگی اس کے مطابق گزارنے کو تیّار نہ تھے-  

جس عوام نے اپنے لئے بہترین لیڈر چنا وہ دس سال کے عرصے میں پورے عرب پر چھا گۓ-  معاشرتی اعتبار سے قابل بھروسہ اورپرامن, معاشی اعتبار سے خوشحال اورعسکری اعتبار سے بڑی قوّت بن گۓ-   

یہ تھی اسلامی جمہوریت-  عقلمند اور باشعور لوگوں کا اپنے حکمران کو منتخب کرنا- 

اور جس عوام نے اس بہترین لیڈر کو ریجیکٹ کر دیا تھا وہ آٹھ سال بعد اسی شخص کی کمانڈ میں فتح کر لئے جاتے ہیں-  

مسلمانوں کا عروج اور انکی آزادانہ روش دیکھتے ہوۓ مغربی دنیا نے بھی جمہوریت کو اپنانہ شروع کیا-  لیکن شیطانی سوچ رکھنے والی قوّتوں نے اسے اپنا ہتھیار بنا لیا-  اور اپنے فلسفے اور اپنے نظریات کے تسلّط کے لئے "جمہوری طرز حکومت" پر زور دینا شروع کردیا-  

اور اب بقول اقبال 
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں 
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

سب برابر ہیں-  ہر ایک کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہے-  جس کو اپنے حقوق کے نہیں پتہ-  جسے اپنی ہی زندگی کے فائدے نقصان کے نہیں پتہ-  جس میں کوئی حکمت اور دور اندیشی نہیں-  جو اپنے گھر اور خاندان کے معاملات کو سلجھانے کا اہل نہیں-  جو اپنے ذاتی فائدے کے لئے سرکاری اداروں کو رشوت دے کر جھوٹے لائسنز، کاغذات اور پتہ نہیں کیا کیا بنوالیتا ہے-  جو جھوٹی گواہی دے دیتا ہے-  جھوٹا حلف لے لیتا ہے-  نہ بڑوں کا ادب کرے نہ بچوں سے شفقت کرے-  جس نے کہ مسجد سے مدرسے تک کی ڈور کو کل اسلام سمجھ لیا ہے-  جن کے خطبات اور دروس کا موضوع صرف خواتین ہوتی ہیں-   جو ابھی تک بچوں کے ریپ کیسز میں پکڑا نہیں گیا ہے-  جس نے کہ ملاوٹ اور مضر صحت اشیاء بنا بنا کر اور کھلا کھلا کر اپنی ہی قوم کی صحت کا بیڑہ غرق کیا ہے-  جو خود اپنے لئے اور اپنے گھر والوں کے لئے صادق و امین نہیں-  
اس سے قوم کی تقدیر کے فیصلوں میں شامل ہونے پر زور ڈالا جاتا ہے-    
یہ ہے مغربی طرز حکومت-

کسی قوم سے جس قسم کے حکمران کے لئے ووٹ لینے ہوں پہلے اس قوم کو ان برائیوں میں مبتلا کردو-  یہ ہے مغربی جمہوریت- 

کسی قوم میں مساوات کا خنّاس بھر دو-  انسانی اقدار سے آزادی کا بھوت سوار کرادو-  اور پھر اسے الیکشن میں ووٹ کا حق دو-  یہ ہے مغربی جمہوریت-  

شیطانی قوّتوں نے بڑی باریکی کے ساتھ انسانی تاریخ پڑھی ہے-  حضرت عیسیٰ علیہ السّلام جنکی پہچان اس وقت بھی شرم و حیا اور مروّت تھی- انکی کی قوم کی ہمدردیاں انکے ساتھ ضرور تھیں لیکن وہ اطاعت بادشاہ کی ہی کرتے تھے طاقت وہ بادشاہ کی بنے ہوۓ تھے-  اس لئے حضرت عیسیٰ انکے مطابق قتل کردئیے گۓ-  لہٰذا اب مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق آ بھی جائیں تو ان کی وہی پرانی تعلیمات کون قبول کرے گا-  کیونکہ مغربی طرز جمہوریت کے مطابق تو دنیا کی اکثریت دجال کو ووٹ ڈال چکی ہوگی-  لہٰذا اپنی عقل کے مطابق انہوں نے حضرت عیسیٰ کو شکست دینے کا انتظام کر رکھا ہے-  نئی دنیا، نیا کلچر، نیا نظام-  اور ساری دنیا کے انسان اس نئے نظام کے نیچے-  

اسی لئے پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف جو جنگ جاری ہے جس میں ہر جگہ مسلمان کچلے جا رہے ہیں-  اپنے سیاسی اور معاشرتی حقوق سے محروم کئے جارہے ہیں-  تقسیم کیے جارہے ہیں الگ الگ رکھے جارہے ہیں-  اسکی وجہ یہی ہے کہ یہ کہیں عیسیٰ علیہ السّلام کی طاقت نہ بن جائیں-  

لیکن ایسا ہوگا- 

اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سے پہلے خاص طور پر مسلمان دنیا میں بادشاہتوں کا خاتمہ ہوگا-  جیسا کہ سعودی عرب میں شروع ہو چکا ہے-