Showing posts with label اسلامی جمہوریت اورغیر اسلامی جمہوریت. Show all posts
Showing posts with label اسلامی جمہوریت اورغیر اسلامی جمہوریت. Show all posts

Monday 19 May 2014

جمہوریت

اسلامی جمہوریت  اور غیر اسلامی جمہوریت میں کیا فرق ہے؟
اسلام میں زندگی کا مقصد کیا ہے؟ 
موت کا مقصد کیا ہے؟
اسلامی جمہوریت کا مقصود اور مطلوب کیا ہے؟
اسلامی جمہوریت کے لئے عدل کے قیام کی کیا صورت ہے؟ 
اسلامی جمہوریت کی روح کیا ہے؟
اسلامی خلافت/ریاست/جمہوریت کے اصول کیاہیں؟ 

پولیٹکل سائنس پڑھنے والے طلباء و طالبات کو نہ صرف ان کورس کی کتابوں پر جو انھیں پڑھنے کے لئے دی جاتی تحقیق کرنی چاہیے بلکہ اس سلیبس میں بہتری کے لئے بھی کوشش کرنی چاہیے-  پولیٹکل سائنس کے سلیبس میں بہت بہتری کی گنجائش موجود ہے-  اس بات پر اندھا ایمان رکھنے کے بجاۓ کہ جو کچھ کورس کی کتابوں میں لکھا ہے یہی علم ہے اور نجات کی راہ ہے، خود بھی اپنی عقل کو استعمال کرنا چاہیے کہ آیا یہ سب ہمارے معاشرے اور ملک کے لئے ٹھیک بھی ہے کہ نہیں-  

بہت ہی سادہ اور آسان الفاظ میں اسلامی طرز حکومت کا واحد مقصود عدل کا قیام ہے جو کہ اسلامی ریاست کے حکمرانوں کی ذمّہ داری ہے-  اسکے ساتھ ہی اخلاقیات یعنی صفت کردار، آداب و اطوار اور عبادات اسکی روح ہیں-  اور روح کے بغیر جسم کوئی معنی نہیں رکھتا-  لہٰذا عدل کا تصور اخلاقیات کے بغیر  ایک مردہ جسم کے جیسا ہے-  اور جہاں عدل نہ ہو وہاں خود بخود ظلم کے لئے راستہ ہموار ہو جاتا ہے-  

اسلامی جمہوریت اورغیر اسلامی جمہوریت میں کیا فرق ہے؟
جمہور عربی میں عوام کو کہتے ہیں اور کیونکہ اسلامی نظام، چاہے اسے جو بھی نام دے لیں، کا مقصد عوام کی فلاح و بہبود کے لئے امن اور خوشحالی کا قیام ہے اس لئے اسلامی خلافت یا نفاذ شریعت کے لئے "اسلامی جمہوریت" کی اصطلاح استعمال کرنے میں کوئی مذائقہ نہیں-  شاید اس طرح یہ آزاد خیال اور ترقی پسند لوگوں کو آسانی سے سمجھ میں آجاۓ-  

جمہوریت یا مغربی جمہوریت کی تعریف عام طور پر ایسے نظام کی صورت میں کی جاتی ہے جس میں معاشرے کے ہر فرد کو برابری اور مساوات کے اصولوں کے تحت بغیر کسی تعصب کے اپنی اظہار راۓ کی آزادی اور اپنی مرضی سے جینے کا حق ہو-  مغربی جمہوریت کے مطابق معاشرے کی اکثریت کو نظام بنانے کا حق حاصل ہوتا ہے چاہے اقلیت اس سے متّفق ہو یا نہ ہو-  الله کے وجود پر ایمان رکھنا یا نہ رکھنا مغربی جمہوریت کی بنیاد نہیں-  اس میں انسانوں کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ اگر اکثریت  میں  ہوں تو الله کے قوانین میں تبدیلی بھی کر سکتے ہیں اور اپنی مرضی کے قوانین نافذ کر سکتے ہیں-  یعنی کہ یہ نظام انسانوں کی پسند ناپسند پر قائم کیا جاتا ہے-  اس کا مذہبی عقائد سے کوئی تعلق نہیں ہوتا-  

"جمہوریت اب تک آزماۓ گۓ حکومتی نظاموں میں بد ترین نظام ہے"
سر ونسٹن چرچل 

"سیاست میں، ایک منظّم اقلیت ہی سیاسی اکثریت ہوتی ہے"  جیسی جیکسن 

"جمہوریت ایک لوٹ مار سے زیادہ کچھ نہیں جس میں اکیاون فیصد لوگ باقی اننچاس  فیصد لوگوں کا حق سلب کر لیتے ہیں" 
تھامس جیفرسن 

اسلام کسی شخص کو اسکی اظہار راۓ کی آزادی سے نہیں روکتا اور نہ ہی ان سے اپنی مرضی سے جینے کا حق چھینتا ہے-  لیکن اسلام میں جمہوریت یعنی عوامی فلاح و بہبود کے مطلوب و مقصود کچھ اور ہے-  مسلمانوں کا اس بات پر عقیدہ ہے اور ہونا چاہیے کہ انسانوں کی فلاح و بہبود سے متعلق تمام احکامات قرآن میں بیان کر دیے گۓ ہیں-  اور کسی انسان کو ان میں ترمیم کرنے کی اجازت نہیں-  اور نہ ہی ان احکامات کے مقابلے پر کوئی نۓ قوانین بنانے کی اجازت ہے-  

اسلامی خلافت/امامت/جمہوریت کا مقصود ان احکامات کا صحیح طور پر نفاذ ہے-   اور مطلوب ایک ایسا نظام ہے جو امن، عدل اور خوشحالی کی ضمانت ہو-  لوگوں کو حق حاصل ہے کہ ایسے لوگوں کا انتخاب کریں جو اس ذمّہ داری نبھانے کے قابل اور اہل ہوں-  جسکے لئے لازمی خود لوگوں کے پاس اتنا علم اور قابلیت ہونی چاہیے کہ وہ اس اہلیت اور قابلیت کو جانچنے کی اہلیت رکھتے ہوں-  اور ساتھ ہی ان عناصر کا مقابلہ اور قلع قمع کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں جو اس مطلوب و مقصود میں رکاوٹ بنے-  

مختصرا یہ کہ مغربی جمہوریت کی بنیاد دو کردار ہوتے ہیں: حکمران اکثریت یعنی حزب اقتدار اور اسکے بالمقابل اقلیت یعنی حزب اختلاف-  

جبکہ اسلامی خلافت/امامت/جمہوریت کی بنیاد دو کردار ہوتے ہیں: عادل یا حزب الله یا حزب اقتدار اور ظالم حزب الشیطان یا حزب اختلاف- 

مغربی جمہوریت میں مذہب اور سیاست دو الگ الگ شعبہ ہیں-  مذہب ذاتی  عقیدہ جبکہ سیاست اجتماعی نظام ہے- 
اسلامی جمہوریت میں سارے نظام قرآن و سنّت کے تابع ہیں- 

جمہوریت اگر لوگوں کی پسند اور نا پسند کا نام ہے تو اصل اسلامی جمہوریت آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے مدینے میں قائم ہوئی جب مدینے کے لوگوں نے محمّد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلّم کو اپنے حکمران کے طور پر قبول کیا اور مکّے کے مہاجرین کے ساتھ دنیا کی پہلی اور منفرد ترین مساوات قائم کر کے دکھائی-  یہ اصل اسلامی جمہوریت صرف چالیس سال قائم رہ  سکی- جس میں دس سال رسول الله کی خلافت کے اور انتیس یا تیس سال خلفاء راشدین کی خلافت کے تھے-  

یہ اصل جمہوریت چالیس سال بعد اس لئے ختم نہیں ہوئی کہ معاذ الله اسلام میں یا رسول الله کے نظام میں کوئی کمی تھی-  اس کی وجہ صرف اور صرف عوام کی اسلامی نظام کو جاری رکھنے میں عدم دلچسپی تھی-  جیسے جیسے لوگ اسلامی تعلیمات کی روح یعنی اخلاقیات سے قطع تعلق کرتے گۓ، فتنہ و شر میں مبتلا ہوتے گۓ-  اور یہ ایک فطری امر اور عمل ہے کہ انسان کی جس چیز سے دلچسپی ختم ہو جاۓ وہ چیز اس سے دور کردی جاتی ہے-  

 بہرحال، مغربی جمہوریت کا تعلق دو کرداروں یعنی اکثریت اور اقلیت سے ہے جو انسانی پسند اور نا پسند کے تابع ہوتی ہیں اور اسلامی جمہوریت کا تعلق دو کرداروں یعنی عادل یا حزب الله اور ظالم یا حزب الشیطان سے ہے جس میں عادل الله کے نظام کو نافذ کر تا ہے اور ظالم کے خلاف چوکس رہتا ہے-   

زندگی کا مقصد کیا ہے؟

ایک معبود کی عبادت کرنا-  
قرآن کے یہ الفاظ اتنے واضح اور آسان ہیں کہ انکو سمجھنے کے لئے کسی تشریح اور تفسیر کی ضرورت نہیں-  

"اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں- میں ان سے طالب رزق نہیں اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ مجھے کھلائیں- خدا ہی تو رزق دینے والا زور آور اور مضبوط ہے"
سورہ الذاریات 

""بڑی با برکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے- اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے عمل کرتا ہے۔ اور وہ زبردست (اور) بخشنے والا ہے"- 
سوره الملک 

"بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے اور باوجود جاننے بوجھنے کے (گمراہ ہو رہا ہے تو) الله نے (بھی) اس کو گمراہ کردیا اور اس کے کانوں اور دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ اب الله کے سوا اس کو کون راہ پر لاسکتا ہے۔ بھلا تم کیوں نصیحت نہیں پکڑتے؟"
 سورہ الجاثیہ 

"اور کہتے ہیں کہ ہماری زندگی تو صرف دنیا ہی کی ہے کہ (یہیں) مرتے اور جیتے ہیں اور ہمیں تو زمانہ مار دیتا ہے۔
 اور ان کو اس کا کچھ علم نہیں۔ صرف ظن سے کام لیتے ہیں"  
سورہ الجاثیہ 

موت کا مقصد کیا ہے؟  
ایک شاعر کے الفاظ میں، 
موت اک زندگی کا وقفہ ہے 
ذرا آگے بڑھیں گے دم لے کر

یعنی دی گئی زندگی کے حساب کتاب  سے پہلے وقفہ-   
مردہ انسان دنیا کی نظروں میں خاموش اور بے کار ہو چکا ہوتا ہے لیکن اسکی اپنی زندگی ایک اور رخ پر جاری رہتی ہے  جسے زندہ لوگ نہیں دیکھ پاتے-  موت کا مقصد زندگی کا مقصد سمجھے بغیر سمجھ میں نہیں آسکتا-  آج دنیا کے لوگوں کی اکثریت موت کے بعد زندگی کی منکر ہے یا پھر اس بارے میں شک میں ہے-  بہت سے ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ اگر آخرت ہے بھی تو انکو وہاں بھی اچھا صلہ ملے گا-  یہی حال مکّے کے لوگوں کا بھی تھا-  الله کے وجود سے منکر نہیں تھے لیکن آخرت پر ایمان نہیں رکھتے تھے-  قرآن کی بہت سی آیات انکے اس رویے کی گواہ ہیں-  قرآن میں جا بجا انسانوں کے عقیدہ آخرت کی اصلاح کی ہے کہ موت کا مقصد ہے ہی آخرت کا حساب کتاب-  ورنہ زندگی میں کسی بھی قائدے قانون اور فرائض اور حقوق  کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے-  

"اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو میری زمین فراخ ہے تو میری ہی عبادت کرو- ہر متنفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے۔ پھر تم ہماری ہی طرف لوٹ کر آؤ گے"- 
سورہ العنکبوت 

"جو لوگ برے کام کرتے ہیں کیا وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم ان کو ان لوگوں جیسا کردیں گے جو ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے اور ان کی زندگی اور موت یکساں ہوگی۔ یہ جو دعوے کرتے ہیں برے ہیں" 
سورہ الجاثیہ 

"کہہ دو کہ الله ہی تم کو جان بخشتا ہے پھر (وہی) تم کو موت دیتا ہے پھر تم کو قیامت کے روز جس (کے آنے) میں کچھ شک نہیں تم کو جمع کرے گا لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے" 
سورہ الجاثیہ 

"(الله) پوچھے گا کہ تم زمین میں کتنے برس رہے؟  وہ کہیں گے کہ ہم ایک روز یا ایک روز سے بھی کم رہے تھے، شمار کرنے والوں سے پوچھ لیجیئے- (الله) فرمائے گا کہ تم (بہت ہی) کم رہے۔ کاش تم جانتے ہوتے-
کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تم کو بےفائدہ پیدا کیا ہے
 اور یہ تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے؟"- 
سورہ المؤمنون 

"اور کہنے لگے کہ جب ہم زمین میں ملیامیٹ ہوجائیں گے تو کیا ازسرنو پیدا ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے پروردگار کے سامنے جانے ہی کے قائل نہیں- 
کہہ دو کہ موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تمہاری روحیں قبض کر لیتا ہے پھر تم اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤ گے"- 
سورہ السجدہ 

"اس دن لوگ گروہ گروہ ہو کر آئیں گے تاکہ ان کو ان کے اعمال دکھا دیئے جائیں- تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا- اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا"- 
سورہ ازلزال 

"(لوگو) تم کو(مال کی) کثرت/طلب نے غافل کر دیا- یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں- دیکھو تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا- پھر دیکھو تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا-  دیکھو اگر تم جانتے (یعنی) علم الیقین (رکھتے تو غفلت نہ کرتے)- تم ضرور دوزخ کو دیکھو گے-  پھر اس کو (ایسا) دیکھو گے آنکھوں سے کہ یقین آجاۓ گا- پھر اس روز تم سے نعمت کے بارے میں پرسش ہو گی"-
سورہ التکاثر 

اسلامی خلافت/امات/جمہوریت کا کل مقصود کیا ہے؟ 
عدل کا نفاذ  اور فتنہ و فساد کا خاتمہ 

"ہم نے ہر چیز اندازہٴ مقرر کے ساتھ پیدا کی ہے"- 
سورہ القمر 

"بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ اہل حال کو ہدایت کرے- وہی کہ آسمان اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے اور جس نے (کسی کو) بیٹا نہیں بنایا اور جس کا بادشاہی میں کوئی شریک نہیں اور جس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور پھر اس کا ایک اندازہ ٹھہرایا"- 
سورہ الفرقان 

"اور اسی نے آسمان کو بلند کیا اور ترازو قائم کی"- 
سورہ الرحمن 

الله سبحانہ و تعالی نے جو چیز پیدا کی ہے اس میں ایک توازن رکھا ہے اور یہ توازن اس شئی کی جسامت اور کام کے اعتبار سے بھی ہے اور انسان کے اس سے حاصل ہونے والے فوائد کے اعتبار سے بھی-  اور یہی عدل کہلاتا ہے-  

بہت ہی آسان الفاظ میں، عدل اور ظلم دو اصطلاحات نہیں بلکہ دو نظام ہیں جس پر زندگی اور موت  کا خاکہ ترتیب دیا گیا ہے اور جو ایک دوسرے کے مدّمقابل رہتے ہیں-  یہ ایک دوسرے کے خلاف پوری قوّت سے نبرد آزما رہتے ہیں-  عدل کا نظام تمام اچھی خصوصیات اور ظلم کا نظام بری خصوصیات کے تابع ہوتا ہے-  کسی بھی معاشرے میں رائج نظام اسکی اکثریت کے کردار کی نمائندگی کرتا ہے کہ آیا وجہ اچھی خصوصیات کے حامل ہیں یا بری-

اسلامی خلافت/امامت/جمہوریت کا کل مقصود بھی الله کی زمین پر عدل کا نفاذ ہے-  اور یہ نفاذ انسانوں کی مرضی سے نہیں بلکہ الله کے دیے گۓ قوانین کے مطابق ہے-  اسکی وجہ بہت آسانی سے سمجھ آجانے والی ہے-  انسان چاہے جتنا بھی مساوات اور انسانیت سے ہمدردی کا دعویٰ کرے اسکا مزاج اسے کسی نہ کسی طور خود غرضی، اقرباء پروری، قوم پرستی اور خود پرستی کی طرف مائل کرتا ہے کیونکہ اسکی غرض ان سے بندھی ہوتی ہے-  یا اگر وہ دولت کا پجاری ہے تو پھر وہ صرف اور صرف اپنے فائدے کو مدّ نظر رکھے گا-  الله بے نیاز ہے اور تمام فائدے اور نقصان سے بے پرواہ-  اس لئے وہی ایسے قوانین دے سکتا ہے جو اسکے تمام  بندوں کے لئے یکساں فائدہ مند ہوں-  

عدل کا قیام چاہے انفرادی طور پر ہو یا اجتماعی سطح پر، یہ امن اور خوشحالی کا ضامن ہے- 

"عدل" کے معنی ہر چیز کو اس کے اصل مقام پر رکھنے کے ہیں-  یا حقوق، ذمّہ داریوں یا اشیاء کی مناسب تقسیم-  اور ظلم اس کی ضد کے یعنی کسی چیز کا بے جگہ ہونا یا حقوق، ذمّہ داریوں یا اشیاء کی نامناسب تقسیم-  

"اور کہہ دو کہ جو کتاب الله نے نازل فرمائی ہے میں اس پر ایمان رکھتا ہوں۔ اور مجھے حکم ہوا ہے کہ تم میں انصاف کروں"- سورہ الشوریٰ 

"الله تم کو انصاف اور احسان کرنے اور رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے۔ اور بےحیائی اور نامعقول کاموں سے اور سرکشی سے منع کرتا ہے (اور) تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو"-
 سورہ النحل

"اے ایمان والوں! الله کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جایا کرو۔ اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ عدل چھوڑ دو۔ عدل کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے اور الله سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ الله تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے"-
سورہ المائدہ 

" اور لوگوں کی دشمنی اس وجہ سے کہ انہوں نے تم کو عزت والی مسجد سے روکا تھا تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ان پر زیادتی کرنے لگو"
 سورہ المائدہ 

"اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو اور الله کے لئے سچی گواہی دو خواہ (اس میں) تمہارا یا تمہارےماں باپ اور رشتہ داروں کا نقصان ہی ہو۔ اگر کوئی امیر ہے یا فقیر تو الله ان کا خیر خواہ ہے۔ تو تم خواہش نفس کے پیچھے چل کر عدل کو نہ چھوڑ دینا۔ اگر تم غلط شہادت دو گے یا (شہادت سے) بچنا چاہو گے تو (جان رکھو) الله تمہارے سب کاموں سے واقف ہے"- 
سورہ النساء 

" اور جب (کسی کی نسبت) کوئی بات کہو تو انصاف سے کہو گرچہ وہ (تمہارا) رشتہ دار ہی ہو اور الله کے عہد کو پورا کرو ان باتوں کا الله تمہیں حکم دیتا ہے تاکہ تم یاد رکھو"- 
سورہ الانعام 

"(اے پیغمبر) کفار سے کہہ دو کہ اگر وہ اپنے افعال سے باز آجائیں تو جو ہوچکا وہ انہیں معاف کردیا جائے گا۔ اور اگر پھر (وہی حرکات) کرنے لگیں گے تو اگلے لوگوں کا (جو) طریق جاری ہوچکا ہے (وہی ان کے حق میں برتا جائے گا)-  اور ان لوگوں سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ (یعنی کفر کا فساد) باقی نہ رہے اور دین سب الله ہی کا ہوجائے اور اگر باز آجائیں توالله ان کے کاموں کو دیکھ رہا ہے- اور اگر روگردانی کریں تو جان رکھو کہ الله تمہارا حمایتی ہے۔ (اور) وہ کیا خوب حمایتی اور خوب مددگار ہے"-  
سورہ الانفال 

اسلامی جمہوریت کے لئے عدل کے قیام کی کیا صورت ہے؟  

ٹیم ورک یا اجتماعی/متّفقہ کوشش اور آپس میں شوریٰ یا مشورہ- 

یہ دو جزو یا عناصر ہیں جو کسی بھی نظام میں عدل کے قیام کوممکن بناتے ہیں-  اور ان کا تسلسل اس نظام کو دیرپا کرتا ہے-  

نظام کیا ہے؟  مختلف عناصر یا اجزاء کا ایک منظّم طریقے سے ایک مخصوص مقصد کو حاصل کرنے کے لئے کام کرنا- جیسا کہ نظام شمسی جو سورج کے  گرد سیّاروں کی گردش کی وجہ سے  دن رات اور موسموں کی تبدیلی کا باعث بنتا ہے- یا انسان کے اپنے اندر سانس لینے کا نظام، نظام ہاضمہ، وغیرہ- 

اور یہی ٹیم ورک کہلاتا ہے- ٹیم ورک کی ایک صفت یہ بھی ہوتی ہے کہ اس میں کسی ایک شخص کی اجارہ داری یا ڈکٹیٹر شپ یا بادشاہت قائم نہیں ہونے پاتی اور نظام "ون مین یا ون وومین شو" نہیں بننے پاتا-  اس طرح کسی بھی عنصر کی غیر حاضری یا نہ ہونے کی صورت میں اسکا نعم البدل موجود ہوتا ہے اور نظام رکنے نہیں پاتا-

شوریٰ کیا ہے؟ سادہ سے الفاظ میں انھیں مختلف عناصر کا ایک دوسرے سے ربط اور رابطہ-

قرآن میں ٹیم ورک   
"اور سب مل کر الله کی (ہدایت کی رسی) کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا اور الله کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو الله نے تم کو اس سے بچا لیا اس طرح  الله تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ"-  
سورہ آل عمران 

"اور ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو متفرق ہو گئے اور احکام بین آنے کے بعد ایک دوسرےسے اختلاف کرنے لگے یہ وہ لوگ ہیں جن کو قیامت کے دن بڑا عذاب ہوگا"- 
سورہ آل عمران 

" اور (دیکھو) نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ الله کا عذاب سخت ہے"- 
سورہ المائدہ 

"بے شک الله محبّت کرتا ہے ان سے جو الله کی راہ میں ایسے لڑتے کہ گویا سیسہ پلائی دیوار ہیں"-
سورہ الصف 

قرآن میں اسلامی نظام کو چلانے کے لئے محکمے اور ادارے بنانے کی تجاویزاور حکمت عملی بھی وضع کی گئیں ہیں-  خلفاء راشدین نے بھی حکومتی کاموں میں آسانی کے لئے یہی طریقہ اختیار کیا تھا- 


"اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہیئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور اچھے کام کرنے کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کرے یہی لوگ ہیں جو نجات پانے والے ہیں"- 
سورہ آل عمران 

"اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب نکل آئیں۔ تو یوں کیوں نہ کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا (علم سیکھتے اور اس) میں سمجھ پیدا کرتے اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آتے تو ان کو ڈر سناتے تاکہ وہ حذر کرتے"- سورہ التوبه 

"اور (اے پیغمبر) جب تم ان (مجاہدین کے لشکر) میں ہو اور ان کو نماز پڑھانے لگو تو چاہیئے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ مسلح ہو کر کھڑی رہے جب وہ سجدہ کرچکیں تو پرے ہو جائیں پھر دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی (ان کی جگہ) آئے اور ہوشیار اور مسلح ہو کر تمہارے ساتھ نماز ادا کرے کافر اس گھات میں ہیں کہ تم ذرا اپنے ہتھیاروں اور سامان سے غافل ہو جاؤ تو تم پر یکبارگی حملہ کردیں
اگر تم بارش کے سبب تکلیف میں یا بیمار ہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ ہتھیار اتار رکھو مگر ہوشیار ضرور رہنا-  
الله نے کافروں کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے"-
 سورہ النساء  

"اور کفار کا پیچھا کرنے میں سستی نہ کرنا اگر تم بےآرام ہوتے ہو تو جس طرح تم بےآرام ہوتے ہو اسی طرح وہ بھی بےآرام ہوتے ہیں اور تم خدا سے ایسی ایسی امیدیں رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھ سکتے اور خدا سب کچھ جانتا اور (بڑی) حکمت والا ہے"
 سورہ النساء 


قرآن میں شوریٰ 
"اور جو بڑے بڑے گناہوں اور بےحیائی کی باتوں سے پرہیز کرتے ہیں۔ اور جب غصہ آتا ہے تو معاف کردیتے ہیں- اور جو اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔ اور اپنے کام آپس کے مشورے سے کرتے ہیں۔ اور جو مال ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں- اور جو ایسے ہیں کہ جب ان پر ظلم وتعدی ہو تو (مناسب طریقے سے) بدلہ لیتے ہیں- اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے۔ مگر جو درگزر کرے اور (معاملے کو) درست کردے تو اس کا بدلہ الله کے ذمّہ ہے۔ اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا- اور جس پر ظلم ہوا ہو اگر وہ اس کے بعد انتقام لے تو ایسے لوگوں پر کچھ الزام نہیں- الزام تو ان لوگوں پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کو تکلیف دینے والا عذاب ہوگا- اور جو صبر کرے اور قصور معاف کردے تو یہ ہمت کے کام ہیں"- 
سورہ الشوریٰ 

"(اے محمدﷺ) الله کی مہربانی سے تمہاری نرم مزاجی  ان لوگوں کے لئے نرم واقع ہوئی ہے۔ اور اگر تم بدخو اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے۔ تو ان کو معاف کردو اور ان کے لئے  مغفرت مانگو۔ اور اپنے کاموں میں ان سے مشورت لیا کرو۔ اور جب (کسی کام کا) عزم مصمم کرلو تو  الله پر بھروسہ  رکھو۔ بےشک الله بھروسہ  رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے"-  
سوره آل عمران 

"مومنو! جب تم آپس میں سرگوشیاں کرنے لگو تو گناہ اور زیادتی اور پیغمبر کی نافرمانی کی باتیں نہ کرنا بلکہ نیکوکاری اور پرہیزگاری کی باتیں کرنا۔ اور الله  سے جس کے سامنے جمع کئے جاؤ گے ڈرتے رہنا-  کافروں کی) سرگوشیاں تو شیطان (کی حرکات) سے ہیں (جو) اس لئے (کی جاتی ہیں) کہ مومن (ان سے) غمناک ہوں مگر الله کے حکم کے سوا ان سے انہیں کچھ نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ تو مومنوں کو چاہیئے کہ الله ہی پر بھروسہ رکھیں"- 
سورہ المجادله 

اسلامی خلافت/امامت/ریاست/جمہوریت کی روح کیا ہے؟ 
اخلاقیات  ہر انفرادی اور اجتماعی نظام کی روح ہوتے ہیں-  اسلام میں اخلاقیات پر بے انتہا زور دیا گیا ہے-  اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مکّے کے تیرہ سالوں میں رسول الله نے اہل ایمان کی تربیت میں سب سے زیادہ زور اخلاقیات پر ہی دیا تھا-  ورنہ قرآن تو تئیس سالوں میں نازل ہوا ہے-  رسول الله نے انسان کی اپنی ذات سے لے کر، ماں پاب، بیوی، بچوں، بہن بھائیوں، رشتہ داروں، پڑوسیوں، استادوں، مسافروں، حتیٰ کہ جانوروں اور پودوں تک کے حقوق مقرر فرماۓ- طہارت و پاکیزگی، صدقہ و خیرات، غم کے موقع، خوشی کی تقریبات، ہر موقع کے اصول مقرر فرماۓ- 

رسول الله صلی الله علیہ وسلّم نے فرمایا،
"مجھے اخلاقیات کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہے"- 


"تمھارے لئے الله کے رسول (کے کردار) میں بہترین طریقہ (زندگی) موجود ہے-  اس شخص کے لئے جو الله سے ملنے کی امید رکھتا ہو اور آخرت کے دن پر (ایمان) اور الله کا کثرت سے ذکر کرتا ہو"- 
سورہ الاحزاب  

"اور (اے محمّد) تمہیں اخلاق کے اعلی مرتبے پر فائز کیا گیا"- 
سورہ القلم 

" اور الله کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔ بےشک  الله سب کچھ جاننے والا (اور) سب سے خبردار ہے"-  
سورہ الحجرات 

اخلاق صرف دوسروں سے ہنسنے بولنے اور لطیفے سنانے کا نام نہیں- ادب آداب کے علاوہ انسانی صفات  اور عبادات بھی اخلاق ہی کا حصّہ ہوتے ہیں-  اور یہ سب مل کر ایک مسلمان کی شخصیت اور اسکے اخلاق کو مکمّل کرتے ہیں-  اسلامی اخلاقیات بنیادی طور پر تین حصّوں پر مشتمل ہیں یعنی صفات، آداب اور عبادت-  اور ان کا پورا کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے-  

١) انسانی صفات جیسے کہ سچائی، ایمانداری، امانتداری، وفاداری، صبر، بہادری، حکمت، رواداری، شائستگی، ہمدردی، رحم، وغیرہ 
٢) آداب جیسے کہ سلام کرنے، اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے، ملنے جلنے، تلاوت کرنے، غم اور خوشی منانے کے طور طریقے 
٣) عبادات جیسے کہ نماز، زکواة، روزے، حج، دعائیں، تلاوت قرآن وغیرہ 

اس پر غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ اسلام کا سماجی اور معاشی نظام بھی اخلاقیات ہی کے زمرے میں آتا ہے-  لہٰذا اسے کسی اور نظام میں ڈھونڈنا یا کسی اور طرح فٹ کرنے کی کوشش کرنا بے سود اور مسلمانوں کے حق میں نقصان دہ ہے-  

یہ تینوں حصّے اخلاقیات کا وہ آئینہ ہیں جس میں دیکھ کر ہر مومن خود کو درست کر سکتا ہے- یہی وہ پیمانہ ہیں جس پر ہر مسلمان اور مومن کے کردار کو جانچا جاۓ گا-  رسول الله کی ایک حدیث کے مطابق "قیامت کے دن سب سے بھاری اعمال اسکے ہوں گا جس کا اخلاق اچھا ہوگا"- 

سورہ القلم اور سورہ الاحزاب کی آیات کی روشنی میں یہ اخلاقیات اسلامی ریاست یا مملکت کے سربراہ کی شخصیت کا لازمی حصّہ ہونی چاہئیں اور مسلمان عوام کو اپنے رہنما کے طور پر انھیں خصوصیات کے حامل شخص کا انتخاب کرنا چاہیے- اور یہی اسلامی جمہوریت کا  اصول ہے-  کیونکہ ایسا شخص ہی الله کے دین کو الله کی زمین پر نافذ کر سکتا ہے-  لیکن جو عوام خود اس معیار پر پورا نہیں اترتی وہ لازما اپنے سربراہ کا انتخاب بھی درست طریقے سے نہیں کرسکتی-  مندرجہ ذیل آیات میں کوئی لفظ ایسا نہیں جو کسی پڑھے لکھے یا ان پڑھ کی سمجھ میں نہ اسکے یا جس کو سمجھنے کے لئے کسی عالم یا مولوی کی ضرورت پڑے-  ہر کوئی ان آیات کے آئینے میں اپنی شخصیت دیکھ بھی سکتا ہے اور سنوار بھی سکتا ہے-  کہ یہی ہمارے رب کا ہم سے تقاضہ ہے-  


 "اور رحمٰن کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں تو سلام کہتے ہیں-  اور جو وہ اپنے پروردگار کے آگے سجدے کرکے اور (عجز وادب سے) کھڑے رہ کر راتیں بسر کرتے ہیں- اور جو دعا مانگتے رہتے ہیں کہ اے پروردگار دوزخ کے عذاب کو ہم سے دور رکھیو کہ اس کا عذاب بڑی تکلیف کی چیز ہے-  اور دوزخ  ٹہرنے اور رہنے کی بہت بری جگہ ہے-  اور وہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بےجا اُڑاتے ہیں اور نہ تنگی کو کام میں لاتے ہیں بلکہ اعتدال کے ساتھ۔ نہ ضرورت سے زیادہ نہ کم-  اور وہ جو الله  کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے  اور جن جاندار کو مار ڈالنا الله نے حرام کیا ہے اس کو قتل نہیں کرتے  مگر جائز طریق پر-
 اور بدکاری نہیں کرتے۔   اور جو یہ کام کرے گا سخت گناہ میں مبتلا ہوگا"- 
سورہ الفرقان 

"بےشک ایمان والے کامیاب ہوگئے-  جو نماز میں عجزو نیاز کرتے ہیں- اور جو بیہودہ باتوں سے منہ موڑے رہتے ہیں- اور جو زکوٰة ادا کرتے ہیں- اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں- مگر اپنی بیویوں سے یا جو ان کی مِلک ہوتی ہیں کہ (ان سے) مباشرت کرنے سے انہیں ملامت نہیں- اور جو ان کے سوا اوروں کے طالب ہوں وہ حد سے نکل جانے والے ہیں- اور جو امانتوں اور اقراروں کو ملحوظ رکھتے ہیں- اور جو نمازوں کی پابندی کرتے ہیں- یہ ہی لوگ میراث حاصل کرنے والے ہیں- (یعنی) جو بہشت کی میراث حاصل کریں گے۔
 اور اس میں ہمیشہ رہیں گے"-  
سورہ المومنون 

"جو نماز کا التزام رکھتے ہیں- اور جن کے مال میں حصہ مقرر ہے- (یعنی) مانگنے والے کا اور نہ مانگے والے والا کا- اور جو روز جزا کو سچ سمجھتے ہیں- اور جو اپنے پروردگار کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں- بےشک ان کے پروردگار کا عذاب ہے ہی ایسا کہ اس سے بےخوف نہ ہوا جائے-  اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں- مگر اپنی بیویوں یا لونڈیوں سے کہ (ان کے پاس جانے پر) انہیں کچھ ملامت نہیں- اور جو لوگ ان کے سوا اور کے خواستگار ہوں وہ حد سے نکل جانے والے ہیں- اور جو اپنی امانتوں اور اقراروں کا پاس کرتے ہیں- اور جو اپنی شہادتوں پر قائم رہتے ہیں- اور جو اپنی نماز کی خبر رکھتے ہیں- یہی لوگ باغ بہشت میں عزت واکرام سے ہوں گے"-  
سوره المعارج 

"اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی۔ کہ الله کا شکر کرو۔ اور جو شخص شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے۔ اور جو ناشکری کرتا ہے تو الله خدا بھی بےپروا اور لائق حمد و ثنا ہے-  اور (اُس وقت کو یاد کرو) جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ بیٹا الله کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا۔ شرک تو بڑا (بھاری) ظلم ہے- اور ہم نے انسان کو جسے اُس کی ماں تکلیف پر تکلیف سہہ کر پیٹ میں اُٹھائے رکھتی ہے (پھر اس کو دودھ پلاتی ہے) اور( آخرکار) دو برس میں اس کا دودھ چھڑانا ہوتا ہے (اپنے نیز) اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید کی ہے کہ میرا بھی شکر کرتا رہ اور اپنے ماں باپ کا بھی (کہ تم کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے- اور اگر وہ تیرے درپے ہوں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک کرے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کا کہا نہ ماننا۔ ہاں دنیا (کے کاموں) میں ان کا اچھی طرح ساتھ دینا اور جو شخص میری طرف رجوع لائے اس کے رستے پر چلنا پھر تم کو میری طرف لوٹ کر آنا ہے۔ تو جو کام تم کرتے رہے میں سب سے تم کو آگاہ کروں گا- ( لقمان نے یہ بھی کہا کہ) بیٹا اگر کوئی عمل (بالفرض) رائی کے دانے کے برابر بھی (چھوٹا) ہو اور ہو بھی کسی پتھر کے اندر یا آسمانوں میں (مخفی ہو) یا زمین میں۔ الله اُس کو قیامت کے دن لاموجود کرے گا۔ کچھ شک نہیں کہ الله باریک بین (اور) خبردار ہے- بیٹا نماز کی پابندی رکھنا اور (لوگوں کو) اچھے کاموں کے کرنے کا امر اور بری باتوں سے منع کرتے رہنا اور جو مصیبت تجھ پر واقع ہو اس پر صبر کرنا۔ بیشک یہ بڑی ہمت کے کام ہیں- اور (ازراہ غرور) لوگوں سے گال نہ پھلانا اور زمین میں اکڑ کر نہ چلنا۔ کہ الله کسی اترانے والے خود پسند کو پسند نہیں کرتا-  اور اپنی چال میں اعتدال کئے رہنا اور (بولتے وقت) آواز نیچی رکھنا کیونکہ کچھ شک نہیں کہ سب آوازوں سے بُری آواز گدھے کی ہے"- 
سورہ لقمان 


"نیکی یہی نہیں کہ تم مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرلو بلکہ نیکی یہ ہے کہ لوگ الله پر اور روز آخرت پر اور فرشتوں پر اور (الله کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائیں۔ اور مال باوجود عزیز رکھنے کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں اور مانگنے والوں کو دیں اور گردنوں (کے چھڑانے) میں (خرچ کریں) اور نماز پڑھیں اور زکوٰة دیں۔ اور جب عہد کرلیں تو اس کو پورا کریں۔ اور سختی اور تکلیف میں اور (معرکہ) کارزار کے وقت ثابت قدم رہیں۔ یہی لوگ ہیں جو (ایمان میں) سچے ہیں اور یہی ہیں جو (الله سے) ڈرنے والے ہیں"-   سورہ البقرہ 


اسلامی خلافت/جمہوریت/ریاست کے اصول کیا ہونے چاہئیں؟
اسلامی طرز حکومت  کا نمونہ رسول الله صلی الله علیہ وسلّم عملی طور پر دنیا کو دکھا چکے ہیں-  اور خلفاء راشدین اس کی پیروی بھی کرکے دکھا چکے ہیں-  اسلامی حکومت میں "شوریٰ اور ٹیم ورک/با جماعت کام" کے دونوں عناصر کا مقصد ہی یہ ہے کہ اسلامی حکومت/ریاست کے کام مل کر آپس کے مشورے سے کیے جائیں اور اس میں اختلاف کی گنجائش ہو فتنہ و فساد کی نہیں-  

"مومنو! الله اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں ان کی بھی-  اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر الله اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں الله اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مآل بھی اچھا ہے"- سوره النساء 

رسول الله صلی الله علیہ وسلّم نے فرمایا, "دین خلوص/نصیحت ہے"  صحابہ کرام نے پوچھا "کس کے ساتھ؟" ارشاد ہوا، 
"الله کے ساتھ، اسکی کتابوں کے ساتھ، اسکے پیغمبروں کے ساتھ، مسلمانوں کے حکمرانوں کے ساتھ، اور عوام الناس کے ساتھ"- 

خلوص اور نیک نیّتی سے بڑھ کر زندگی کا اور کیا اصول ہو سکتا ہے-

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس مغربی طرز جمہوریت کو مسلمان معاشروں میں تباہی کی علامت سمجھا جاتا ہے وہ مغربی ممالک میں کس طرح ایک نظام کو قائم کر نے میں کامیاب ہو گئی؟ 

اس کا جواب بہت آسان ہے-  
١) مغربی ممالک کی عوام کو اپنے نظام سے دلچسپی ہوتی ہے-  وہ اپنے لوگوں کے ساتھ اور جو بھی انکا طرز معاشرت ہے اس سے پر خلوص ہوتے ہیں-  
٢) مغربی ممالک میں انسانی فطرت کے تقاضوں پر زیادہ زور دیا جاتا ہے-  اس لئے مذہب کی قید سے آزاد ہونے کے باوجود وہ زندگی گزارنے کے لئے سچائی، محنت، اور ایمانداری کے اصولوں کو ہی اپناتے ہیں اور اپنی قوم اور اپنے ملک سے مخلص ہوتے ہے-  اس حالت میں جب قرآن انکی نظروں سے گزرتا ہے تو وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اس پر ایمان لے آتے ہیں اور فرقہ بندی اور تعصب سے رہتے ہیں-  
٣)  مسلمان ممالک میں کربلا کے واقعے سے لے کر آج تک عوام کی دلچسپی حکومتی معاملات سے کم ہی رہی ہے-  اسلامی خلافت کے ختم ہونے کی بھی یہی وجہ تھی-  درمیان میں تحریک پاکستان ایک نشانی بن کر ابھری-  یہ یاد دلانے کے لئے کہ "زبان خلق نقارہ خدا ہوتی ہے"-  اور ایک حدیث کے مطابق، 
"جیسی عوام ہوتی ہے اس پر ویسے ہی حکمران مسلّط کر دے جاتے ہیں"-  
٤) مسلمان عوام کے ذہنوں کو جان بوجھ مغربی تہذیب کے سحر میں مبتلا کیا گیا-  انھیں ترقی کے نام پر مغربی معاشرے کے برائیوں کا دلدادہ بنایا گے-  اور مسلمان عوام بے سوچے سمجھے جانوروں کی طرح اس بھگڈر میں شامل ہوگۓ- 
٥) دورسرا سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ بہت سے دینی حلقوں نے کسی بھی قسم کی بہتری کو "کفر کا راستہ"  قرار دے کر ہر قسم کی بہتری کے دروازے بند کر کردیے اور مسلمانوں کو خود انکی پاکیزہ طرز معاشرت سے دور کردیا-  اسکا نتیجہ جہالت کی صورت میں نکلا-  قرآن پڑھنے پر پہرے بٹھا دیے گۓ-  قرآن کو سمجھنے پر فتوے لگا دیے گۓ -  علم کو دین و دنیا میں تقسیم کردیا گیا-  قرآن  اور سائنس کو جدا کر دیا گیا-  سوچنے سمجھنے پر پابندی-  سوال کرنے پر ناراضگی-  

علّامہ اقبال نے فرمایا 
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلمان 
الله کرے تجھ کو عطا جدّت کردار 

ترے وجود پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب 
گرہ کشا ہے رہی نہ صاحب کشاف 

مختصرا یہ کہ نظام تب ہی بدلتا ہے جب عوام کی اکثریت اس کی حامی ہو-  ورنہ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے رسول بھی دنیاوی طور پر ناکام ہو گۓ تھے-  حضرت نوح علیہ السلام، حضرت لوط علیہ السلام اور دوسرے پیغمروں کی قوموں کو کیوں عذاب ملا کہ انکی اکثریت ہدایت کا رسستہ اپنانا نہیں چاہتی تھی-  


پاکستانی قوم بھی اگر قدرت کے تقاضوں کو نہ سمجھی تو  پھر اسے بدتر سے بدتر حالات کے لئے خود کو تیّار کر لینا چاھئے-  اگر جمہوریت "عوام" کی پسند نہ پسند کا نام ہےاور اسکو قائم رہنا چاہیے- تو پھر کسی عالم یا مولوی کے فتوے کے بغیر قرآن اٹھائیں اور اپنی ترجیحات درست کریں-  ورنہ الله بے نیاز ہے-