Showing posts with label امن کی راہ. Show all posts
Showing posts with label امن کی راہ. Show all posts

Saturday, 8 March 2014

امن کی راہ



کوئی دس پندرہ دن  پہلے کی بات ہے کہ ایک جگہ چند خواتین کی بیٹھک میں شامل ہونے کا اتفاق ہوا- تقریبا سب ہی دینی مزاج کی خواتین تھیں-  باتوں باتوں میں یہ بات نکل آئی کہ آج کل لوگ اصل دین سے بے بہرہ ہیں اس لئے پریشان رہتے ہیں- اور یہ کہ ہمیں صحیح دینی لوگوں کی صحبت میں رہنا چاہیے- میں نے ان سے کہا کہ میرا خیال ہے کہ سب سے ملنا چاہیے اسلئے کہ ہر جگہ سے کوئی نہ کوئی اچھی بات سننے کو مل جاتی ہے- کہیں جانے یا کسی سے ملنے سے ایمان نہیں بگڑتا- تو مجھ سے پوچھا کہ میرا مسلک کیا ہے-  میں نے کہا میں صرف مسلمان ہوں اور میرا مسلک اسلام ہے- اس پر ذرا سا سخت رد عمل آیا کہ اس طرح تو آپ انکے اعمال میں شامل ہو جاتی ہیں جبکہ ہمیں الله اور اسکے رسول کی بات ماننے والوں کے ساتھ رہنا چاہیے- یقینا ان میں سے کسی کی نیّت بری نہیں تھی اور ان کا ارادہ بھلائی کا ہی تھا- میں نے جوابا کہا کہ دیکھیں اگر لوگوں سے ملیں گے نہیں تو دنیا کیسے چلے گی اور ضروری نہیں کہ ہم کسی سے مل کر بری بات سیکھیں، ہو سکتا ہے کوئی ہم سے اچھی بات سیکھ لے-  جس پر ایک خاتون نے مجھ سے کہا کہ آپ  اپنا عقیدہ درست کرلیں آپ کی ساری پریشانیاں ختم ہو جائیں گی- اور میں سوچتی رہ گئی کہ سب سے درست عقیدہ تو انبیاء کرام کا تھا- لیکن ان جیسی تکالیف خدا کسی کو نہ دکھاۓ- 

بعد میں مجھے یہ خیال آیا کہ صرف طالبان ہی نہیں- ہم سب ہی اپنی اپنی جگہ اپنی مرضی کا نفاذ شریعت کرتے رہتے ہیں-  طالبان تو صرف علامت کے طور پر سامنے آۓ ہیں- شاید یہ دکھانے کہ طالبان کا جو کام ہمیں اذیّت دے رہا ہے اور سب کے لئے پریشانی کا باعث بن گیا ہے وہ کام ہم سب ہی کسی نہ کسی سطح پر کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کے لئے تکلیف کا باعث بنے ہوۓ ہیں-  بالکل اسی طرح جیسے سیاستدان ہماری بد عنوانیوں کی علامت بن کر دنیا میں ہماری نمائندگی کر رہے ہیں-   


پھر ابھی دو تین دن پہلے حاشر آتے ہی بولا کہ باجی آپکو پتہ ہے ایف ایٹ میں پولیس والوں پر حملہ ہوا ہے- میں نے کہا کس نے کیا تو کہنے لگا دو بندے بم باندھ کر آۓ تھےانہوں نے خود کو بھی مار لیا اور پولیس والوں کو بھی اڑادیا -  میں نے پھر سوال کیا کہ لیکن انہوں نے ایسا کیوں کیا- تو حاشر کہتا ہے کہ  اسلئے کہ پولیس بھی تو ان پر حملے کرتے اور بم پھاڑتے ہیں-  میں نے اس سے کہا کہ آپ کے خیال میں پولیس نے اگر کسی پر حملہ کیا یا مارا تو اس کی وجہ کیا ہوگی اور آپ کے خیال میں پولیس کو کیا تھانوں میں ہاتھ پر ہاتھ رکھہ کر بیٹھہ جانا چاہیے-  ہمایوں نے میری ہاں میں ہاں ملائی کہ حاشر پولیس برے بندوں کو مارتے ہیں ہماری حفاظت کے لئے- 


ایک دس گیارہ سال کے بچے کے منہ سے یہ جواب سن کر مجھے حیرت بھی ہوئی اور خوف بھی آیا کہ نہ جانے کتنے لوگ اس طرح سوچتے ہونگے- اس نے پولیس پر حملہ کرنے والوں کے لئے دہشت گردوں کا لفظ بھی نہیں استعمال کیا اور نہ ہی یہ سمجھا کہ ان دونوں نے خودکشی کی -بلکہ اس کے لہجے میں ایک تھرل تھی-بالکل جیسے فلموں میں ہیرو جس کو چاھتا ہے مارتا پھرتا ہے اور لوگ ہمیشہ اس کے لئے تالیاں بجاتے ہیں اور اسی کو حق پر سمجھتے ہیں-   

اور اسی ہفتے کی بات ہے کہ ہماری بلڈنگ کی پڑوسن جو کہ بیوہ اور مطلقہ نہ ہونے کے باوجود ویسی ہی زندگی گذار رہی ہیں اور کافی سال پہلے کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوگئیں تھیں- کو انکی مالک مکان نے فلیٹ خالی کرنے کا نوٹس دے دیا-  ایک مہینے کا وقت دیا تھا-  انکو اس فلیٹ میں دو سال ہو گۓ - خیر میرے فلیٹ کا جو ایجنٹ ہے اسی نے انکو ہمارے ہی کا مپاؤنڈ میں دو دن پہلے ایک فلیٹ دلوا دیا-  اور وہ دو دن سے سامان ادھر سے ادھر لے جانے میں مصروف ہیں-  انکے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں- شوہر نے ہمیشہ ساتھہ رہنے کی شرط یہ رکھی کہ نہ تو میں خرچہ دونگا اور نہ ہی کوئی ذمہ داری اٹھاؤنگا-  اور اگر میرا پورا نہ ہوا تو وہ بھی تجھی کو پورا کرنا پڑے گا- اور کردار کے الزامات الگ- لہٰذا ان خاتون نے شوہر کو تو گھر سے نکالا اور خود محنت کر کے چاروں بچے پالے-  یہاں تک کے اسلام آباد میں شرعی نقاب کرتے ہوۓ پبلک ٹرانسپورٹ بھی چلائی- اسلام آباد کے بہت سے ڈرائیور انھیں جانتے بھی ہیں اور انکی کردار کی تعریف بھی کرتے ہیں-  بہت اچھی ڈرائیونگ کرتی ہیں اور ایک ڈرائیونگ انسٹیٹوٹ میں ملازم ہیں-  

آج میں ان سے بات کرنے گئی تو وہ کافی اپ سیٹ تھیں- انکی مالک مکان جو کہ بہت دینی ہیں، نے مکان کراۓ پر دیتے وقت وعدہ کیا تھا بڑی بڑی باتیں کی تھیں کہ آپ میری بہنوں کی طرح ہیں- جب تک چاہیں رہیں- ہمیں تو بس شریف لوگ چاہیے وغیرہ وغیرہ- اس وقت انھیں یہ معلوم نہ تھا کہ دو سال میں مکان کے کراۓ اتنے بڑھ جائیں گے- اور قانون کے مطابق تو کرایہ دو تین فیصد بڑھتا ہے سال میں-  ایک مہینے پہلے انہوں نے کہا کہ گھر خالی کردیں کیونکہ ہمیں بیچنا ہے کہیں چھ سات لاکھ روپے دینے ہیں اور بھی مجبوریاں ہیں وغیرہ وغیرہ-  اور کل ہماری پڑوسن کو پتہ چلا کہ ان سے مکان خالی کرواکے انہی کی ایک سٹوڈنٹ کو کافی زیادہ کراۓ پر دے دیا ہے- وہ اسے ڈرائیونگ سکھا رہی تھیں تو اس نے بتایا کہ اسے ہماری بلڈنگ میں فلیٹ مل گیا ہے اور اسی مہینے شفٹ ہونا ہے- ہماری پڑوسن نے ایڈریس پوچھا تو وہ انہی کے گھر کا تھا- میں نے اپنے ایجنٹ سے پوچھا تو کہنے لگا "میم ٹھیک تو ہے، یہ کیا کہ ایک گھر میں رہے چلے جائیں سالوں- ہمارا دل تو چاہتا ہے کہ کراۓ دار چھ مہینے میں مکان خالی کردے- تاکہ ہمارا کمیشن بنے-  میں نے کہا بھائی یہ چار دن کی زندگی ہے اور پھر قبر، جہاں بڑی کٹ لگنی ہے - تو بولا جب کی جب دیکھی جاۓ گی-  

اور اس پر تماشہ یہ کہ سب امن کی آس لگاۓ بیٹھے ہیں- سب خود کو معصوم اور جنّتی بھی سمجھ رہے ہیں- 

امن کی تعریف کیا ہے؟  جب ہم کسی ملک یا علاقے یا قوم یا فرد کو پر امن کہتے ہیں تو اس سے ہماری کیا مراد ہوتی ہے؟  

امن کو جنگ یا فساد کی ضد کہا جاتا ہے- اس لحاظ سے امن کا مطلب ہوا جنگ اور لڑائیوں کا نہ ہونا-  اور تمام معاملات کو کسی جبر، تشدّد اور خون خرابہ کے بغیر چلانا- جو کہ حکومتوں اور امن نافذ کرنے والوں اداروں کی ذمہ داری ہے- 

عام گفتگو میں اکثر سننے میں آتا ہے کہ "فلاں بچہ اتنا پر سکون ہے کونے میں بیٹھا اپنی چیزوں سے کھیلتا رہتا ہے نہ ضد کرتا ہے نہ روتا چلّاتا ہے اور نہ ہی چیزیں توڑ پھوڑ کرتا ہے-"  یا پھر یہ کہ "مغربی ممالک بہت پر امن ہیں- وہاں سب اپنے کام سے کام رکھتے ہیں- کوئی روک ٹوک نہیں- کوئی دوسروں کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتا-" یا پھر یہ کہ "فلاں شخص بہت پرسکون ہے- کسی سے کچھ لینا دینا نہیں- بس اپنے میں مگن-"  گویا عام حالات میں لوگوں کا اپنے کام سے کام رکھنا اور دوسروں کے معاملات میں مداخلت نہ کرنا امن اور سکون کی علامت ہے-  اور امن کی اس تعریف کا تعلق لوگوں کے ایکدوسرے کے ساتھہ برتاؤ اور رویے سے ہے- 

ان دونوں تعریفوں کے لحاظ سے امن کا نفاذ کوئی اتنا مشکل کام نہیں ہے- 

لیکن جب حکومتیں جہلاء اور امراء کے ہاتھہ میں چلی جائیں امن نافذ کرنے والے ادارے ان کے زیر اثر ہوں تو ملک میں لوٹ مار اور افراتفری مچنا کوئی انوکھی بات نہیں-  اور ان حالات میں جب عوام ایک طرف تو حکومتی اقدامات پر تکیہ کر کے بیٹھہ جائیں اور مختلف ادوار میں مختلف سیاست دانوں کے ہاتھوں ناچتے ہیں اور دوسری طرف زندگی کے ہر شعبے میں قانون کو ہاتھہ میں لینا اور عدالتوں کے بجاۓ خود جزا اور سزا کے فیصلے صادر کرنا اپنا حق سمجھنے لگیں تو یہ کہلاتا ہے آج کا پاکستان- 

آج پاکستان کی جو حالت ہے اس میں قصور عوام کا ہے - اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاست، حکومت، پولیس یا جو بھی شعبہ ہاۓ زندگی ہیں ان میں کام کرنے والے اور اپنے اپنے اداروں کی نمائندگی کرنے والے آسمان سے نہیں اترتے بلکہ عوام میں سے ہی نکلتے ہیں اور منتخب کئے جاتے ہیں- عوام اپنی انفرادی حالت ، اپنے گھر کے ماحول اور اپنی اولادوں کی  تربیت سے اپنے مستقبل کا اندازہ لگا سکتے ہیں-  جس طرح کسی ایک گھر کی اولادوں کو ملک، قوم، اسلام اور نظریات سے دلچسپی نہیں اور اپنی زندگی کو خوشحال بنانے کے لئے وہ سب کچھ جائز سمجھتے ہیں- تو اس گھر کے لوگ کس طرح کسی دوسرے گھرانے سے توقع کر سکتے ہیں کہ وہاں سے ملک و قوم کا خیال رکھنے والے، ایماندار، مخلص اور ہمدرد پیدا ہونگے- یہی حال سب کا ہے-  وہ جو جھوٹے لائسنس بنواتے ہیں، جھوٹے پیدائش کے سرٹیفکیٹ بنواتے- زمینوں کے جھوٹے کاغذات بنواتے ہیں، جعلی ڈگریاں بنواتے ہیں- وہ بھی عوام میں سے ہوتے ہیں اور جن سے بنواۓ جاتے ہیں وہ بھی کسی گھر کے باپ، بھائی، بیٹے اور شوہر ہوتے ہیں- جھوٹے مقدّمات لڑنے والے، جھوٹی گواہیاں دینے والے، جعلی دوائیں بنانے اور بیچنے والے بھی عوام میں سے نکلے ہوۓ لوگ ہوتے ہیں- وہ مرد اور خواتین جو اسکولوں کے مالک، پرنسپل اور اساتذہ بن کر بچوں کے ذہن، جذبات اور مستقبل سے کھیلتے ہیں اپنے نام اور دولت کے لئے- وہ بھی عوام میں سے ہی ہوتے ہیں-  کتنی مائیں، بہنیں، بیٹیاں اور بیویاں ہیں جو اپنے لڑکوں اور مردوں کو گھر سے نکلتے وقت احساس دلاتی ہیں کہ انھیں حرام نہیں کمانا، باہر جو عورتیں ملیں انکو عزت دینی ہے اپنے گھر کی عورتوں کی طرح- کتنے لوگ اپنے ہی گھر والوں اور رشتہ داروں کی بد عنوانیوں پر انکی روک ٹوک کرتے ہیں، ان کا گریبان پکڑتے ہیں، ان سے حساب مانگتے ہیں-  سب کے سب جب ملک و قوم اور عدل و انصاف سے زیادہ اپنے خاندان اور رشتہ داروں سے اور اپنے مفادات سے وفادار ہوں تو ایسے معاشرے میں امن کی توقع کرنا فضول ہے- کیونکہ لوگ اپنی مجبوریوں کو جواز بنا کر بات ختم کر دیتے ہیں- ایسے معاشروں کا انجام وہی ہوتا ہے جو آج کل پاکستانیوں کا ہے- اور ایسے لوگ دنیا کے جس ملک میں جائیں سکون سے نہیں رہ پاتے-  کیونکہ انکے مفادات، خاندان اور رشتہ داریاں انھیں کسی نظام سے بھی وفادار نہیں رہنے دیتیں- 


ایسی عوام جو اپنی بد فعلیوں کے لئے اپنے محسن اور اپنے قائد کی آخری آرام گاہ کو بھی نہ بخشے-  ایسے لوگ جو پاکستان میں سر سے دوپٹہ اترنے پر فتوے صادر کریں لیکن جب مغربی ممالک کا ویزہ لگے تو وہاں کے زنا، شراب، سؤر، جوا،سود جیسے گلی گلی اور گھر گھر ہونے والے کبیرہ گناہوں کو ذاتی معاملہ قرار دے کر وہاں رہنے کے جواز پیش کریں- ایسے لوگ جنکے لئے پاکستان میں رہ کر اپنے فرقے کو حق اور دوسروں کو کافر سمجھنا ایمان ہو- لیکن جب مغربی ممالک میں رہیں تو یہودیوں، عیسائیوں اور ہندؤں کی حکومتوں کو اسلامی حکومتوں کے مقابلے پر حق پر سمجھیں-  وہاں پھر امن نہیں فساد ہی ہوتا ہے-  

چند ہزار نمائندوں پر مشتمل حکومت اور پولیس اٹھارہ کروڑ میں سے کس کس کو پکڑے، کس کس کو بند کرے اور کس کس کو سزا سناۓ- اور وہ بھی اس صورت میں جبکہ وہ خود نااہل اور بدعنوان ہوں- 

رسول الله صلی الله علیہ و آله وسلّم کی نبوت سے قبل عرب میں جو معاشرتی نظام قائم تھا اور آج پاکستان میں جو نظام قائم ہے اس میں کیا چیزیں مشترک ہیں-  

١- عرب خدا کے وجود سے منکر نہیں تھے اسی لئے انھیں مشرکین مکّہ کہا جاتا ہے- ہم بھی نہیں ہیں- وہ براہ راست خدا سے تعلق پر یقین نہیں رکھتے تھے- ہم بھی نہیں رکھتے بلکہ وسیلہ ڈھونڈتے ہیں- 

٢- عرب قبائل میں بٹے ہوۓ تھے، ہم بھی اپنے اپنے علاقوں میں بٹے ہوۓ ہیں- 

٣- عرب کے معاشرے میں طبقات تھے، ہمارے معاشرے میں بھی ہیں- 

٤- عرب اپنے خاندان اور نسل کو افضل سمجھتے تھے- ہم بھی یہی کرتے ہیں- 

٥- عربوں میں دولت اور اقتدار کو فضیلت حاصل تھی، ہم میں بھی یہی جذبہ ہے- 

٦- عربوں میں با حیثیت لوگ اپنی مجلسوں میں جو فیصلے کرتے تھے اسی کی افضل مانا جانا تھا- ہمارے ہاں بھی یہی ہوتا ہے- 

٧- عربوں میں با حیثیت لوگوں کو اقتدار دیا جاتا تھا- ہمارے ہاں بھی یہی ہوتا ہے- 

٨- عربوں میں نیکی کا تصوّر تھا اور وہ غریبوں کی مدد بھی کیا کرتے تھے - ہم بھی کرتے ہیں- انکی نیکی سے بھی کسی کا پیٹ تو بھر جاتا تھا لیکن کوئی مفلسی سے خوشحالی کی طرف نہیں آسکتا تھا- ہمارے ہاں بھی نتائج یہی ہیں-  

٩- عربوں میں با حیثیت لوگوں کا ایک الگ حلقہ ہوتا تھا اور باقی عام لوگوں کا الگ- ہمارے ہاں بھی یہی صورتحال ہے- 

١٠- عربوں میں با اثر خاندان سے تعلق رکھنے والیعورتوں کو عزت اور دل لبھانے والی عورتوں کو پروٹیکشن حاصل تھی- ہمارے ہاں بھی یہی رواج ہو گیا ہے-  عام لوگ اس وقت بھی بیٹی کو زندہ دفن کرتے تھا، ہم نے اس عمل کی مختلف شکلیں ایجاد کر لیں ہیں کیونکہ ہم ایک ترقی یافتہ دور میں ہیں- 

١١- عربوں میں مذھب اور سیاست جدا تھے- ہمارے ہاں بھی ہیں-  سیاست کا الگ زمانہ الیکشن اور مذہبی رسومات کے لئے الگ ہلے گلے- 

١٢- عربوں میں ہر قبیلے کا اپنا الگ جھنڈا تھا- ہمارے ہاں یہ تماشہ سیاسی اور دینی گروہوں کی صورت میں موجود ہے- 

١٣- عربوں میں عوام خواص سے  ٹکّر نہ لیتے بلکہ اپنی محفلوں میں ان کے قصّوں اور ان کے آپس کے تعلقات بیان کر کے محظوظ ہوتے- ہماری عوام بھی یہی کرتی ہے-  اب تو یہ سہولت ٹاک شوز کی صورت میں موجود ہے-  حقیقت یہ ہے کہ عوام کی اکثریت کو میں نے کسی نہ کسی سیاسی یا دینی گروہ کا وفادارنہیں تو طرفدار ضرور دیکھا کہ سیاسی پارٹیوں کے بغیر ملک چلے گا اور نہ ہی دینی گروہوں کے بغیر مذہب- 

١٤- عربوں میں جانوروں کے حقوق تھےنہ ہی ہمارے ہاں ہیں- اور نہ ہی کوئی انکے بارے میں سوچتا ہے- جب تک فائدہ دیں تو ٹھیک ہے ورنہ ٹھکانے لگادو- اور یہ رویّہ ہمارا انسانوں کے ساتھہ بھی ہے- 

١٥- عرب اپنے آباء و اجداد کے گن گاتے اور ان کی روایت اور رسم و رواج  سے ہٹ کر زندگی گذارنے کو گناہ سمجھتے- ہم بھی یہی کرتے ہیں- 

١٦- عربوں میں توحید پر یقین رکھنے والے موجود تھے مگر انکے پاس نہ تو کوئی رہنما تھا اور نہ کوئی لائحہ عمل- یہی صورتحال ہمارے ہاں بھی ہے- 

١٧- لوگوں کی اکثریت عام ہونے کے باوجود ان توحید پرستوں کے با کردار ہونے کے باوجود اپنی وفاداریاں خواص کے ساتھہ منسلک رکھتی کیونکہ وہاں کسی نہ کسی طور مالی فوائد موجود تھے-  ہماری اکثریت کے دن رات بھی سیاسی اور دینی اداکاروں کے ساتھ منسلک ہیں- 

امّت کے پہلے حصّے کی اصلاح 

امن کا جو تصور اسلام نے دیا ہے اور اسکے لئے جو طریقہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلّم نے اختیار کیا تھا وہی امن کے قیام کے لئے حرف اوّل اور حرف آخر ہے-  انہوں نے عام لوگوں کو جمع کر کے خواص کے مقابلے پر کھڑا نہیں کیا- علماء اور امراء سے مقابلے اور جلسہ جلوس نہیں کئے- بلکہ عام لوگوں کی زندگی کے طریقے بدل ڈالے اور وہ بھی اس طرح کہ خاص خود بخود عام اور بے حیثیت ہو گۓ- 


حضرت علی نے فرمایا کہ 
 "ہم نے قرآن سے پہلے ایمان سیکھا" 

تو یہ ایمان کیا تھا جو قرآن سے پہلے سکھایا گیا اور اس سے امن کیسے آگیا؟ مکّہ کے تیرہ سال تو اسلام لانے والوں کے لئے کسی عذاب سے کم نہ تھے- فتح و نصرت تو بہت بعد میں ملی ہے- 

چودہ سو سال پہلے عرب میں امن کا تصور کیا تھا؟ کیا سوچ کر ہر طبقے کے لوگ اسلام میں داخل ہو رہے تھے؟ مکّہ کے تیرہ سالوں میں تو اسلام لانے والوں کے لئے بھوک، فاقہ، تشدّد، نفرتیں، الزامات، ملامتیں ذلّت اور خوف ہی خوف تھا-  خوشحالی تو مدینہ جا کے نصیب ہوئی اور وہ بھی رفتہ رفتہ-  

کیوں قرآن میں بار بار یا تو "یا یھا الناس یعنی اے لوگوں" یا پھر "یا یھا الذین اٰمنو یعنی اے وہ لوگوں جو ایمان لاۓ ہو" کہہ کر خطاب کیا گیا ہے- 

اسلام کے تقاضے ظاہری ہوتے ہیں اور سب اسکے گواہ ہوتے ہیں- لیکن ایمان کے تقاضے باطنی ہوتے ہیں کہ کوئی دیکھے یا نہ دیکھے، کوئی سمجھے یا نہ سمجھے، لیکن انسان کا اپنا نفس اور الله انسان کی نیّتوں پر گواہ ہوتے ہیں-  

"بلکہ انسان اپنے آپ پر گواہ ہے" سورہ القیامه 

عربی زبان میں الف, میم اور نون کے مادّے سے ایمان بھی بنتا ہے یعنی 'مان لینا' اور اسی مادّے سے امن بھی بنتا ہے یعنی 'سلامتی'- ایمان کا مطلب ہے ماننا اور دل سے ماننا اور پھر اس پر ثابت قدم رہنا- کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہونے والوں کو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلّم کی ذات اور کردار میں کوئی شک نہیں تھا- چاہے سائنسی توجیہات اور غیب کی باتوں سے بھری آیات ان کی سمجھ میں آئیں نہ آئیں- لیکن وہ ان پر ایمان لاتے-  اورزندگی گذارنے کے جن طریقوں کو وہ چھوڑ آتے تھے ان پر پلٹنا کفر سمجھتے تھے- مکّہ کے تیرہ  سالوں میں ایمان لانے والوں کی تعداد کہیں َ١٢٥ آتی ہے اور کہیں اس سے کچھ کم یا زیادہ-  جو کلمہ پڑھ لیتا وہ سیدھا مؤمن ہی کہلاتا- اسکے علاوہ مسلمانوں کی کوئی قسم نہیں تھی-    


حضرت بلال رضی الله عنہ کی زندگی میں اسلام لانے کے بعد ظاہری طور پر کیا تبدیلی آئی تھی- یہ کہ اب انھیں کوئی حقیر نہیں سمجھتا تھا، ان پر اپنا حکم صادر نہیں کرتا تھا-  وہ اپنی خوشی  سے فاقے سہتے، اپنی مرضی سے دوسروں کے کام کرتے جبر سے نہیں- حضرت عثمان رضی الله عنہ کی زندگی میں اسلام لانے کے بعد کیا ظاہری تبدیلی آئی تھی- بھوک، ہجرت، دھمکیاں، خوف، اپنے رشتہ داروں اور مکّے کے لوگوں کی طرف سے نفرت- اور سینکڑوں صحابہ کرام کی زندگیوں کی ظاہری تبدیلی بھی اس سے کم نہیں تھی- حضرت سلمان فارسی کیوں اپنا ملک چھوڑ کر رسول الله صلی الله علیہ وسلّم کے پاس رہے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلّم نے انھیں اپنے اہل بیت میں شامل فرمایا-   کیا مزہ ملتا تھا حضرت ابو بکر الصدیق کو غلام آزاد کروا کر- 

تبوک کے موقع پر جب مال جمع کرنے کا اعلان ہوا تو حضرت عمر فاروق نے اپنا آدھا اور حضرت ابو بکر صدیق نے سارے گھر کا گھر خالی کردیا تھا- اس وقت ایک صحابی ایسے بھی تھے جن کے پاس کچھ بھی نہ تھا تو انھوں نے ایک یہودی کے باغ میں رات بھی محنت کر کے کچھ کھجوریں کمائیں اور وہی صبح رسول الله صلی الله علیہ وسلّم کو چپکے سے پکڑا دیں- رسول نے وہ کھجوریں اس مال پر بکھیر دیں اور کہا کہ اب یہ مال قبول ہوگیا- 

اصحاب صفہ تو رہتے ہی کئی کئی دن کے فاقے سے تھے-  صحابیوں میں سے کچھ دولتمند بھی تھے اور بہت سے بعد میں خوشحال ہو گۓ تھے- لیکن کسی غریب صحابی کی طرف سے یہ شکوہ نہیں کیا گیا کہ یہ دولتمند مسلمان ظالم ہیں، غریبوں مسلمانوں پر رحم نہیں کھاتے- انکے لئے فلاح و بہبود کے ادارے نہیں بناتے-  

وہ کون سا سکون، کون سی تسلّی، کون سا دلاسہ تھا جو ان کو اتنی تکالیف اور پریشانیوں پر بھاری لگتا تھا- 

وہ تھا صرف ایک ہی نکتہ کہ الله کی ذات کو ہر عمل کا اور عمل کی رضا کا مرکز تسلیم کرنا- الله کی ذات کو مکمّل اور واحد تسلیم کرنا- اس بات کو تسلیم کرنا کہ ظاہر و غائب میں جو کچھ ہے وہ صرف الله کی تخلیق ہے، وہ جب چاہے بنا دیتا ہے اور جب چاہے مٹا دیتا ہے-  حق صرف اور صرف الله کا ہے باقی تمام حقوق اسکے نیچے ہیں- سجدہ، رکوع اور بندگی کے تمام طریقے صرف اور صرف الله کے لئے ہیں باقی تمام عقیدتیں احترام کی حد تک ہیں- حکم بھی الله کا ہے اور مرضی بھی الله کی- 

 "لا الہ الّا الله - نہیں کوئی عبادت کے لائق سواۓ الله کے"

الله جو اس کائنات کا مرکز ہے جہاں سے اس کائنات کو مسلسل توانائی مل رہی ہے- وہی الله انسان کے ایمان کا بھی مرکز ہے جہاں سے ایمان کو توانائی ملتی ہے

١-  عقائد کی اصلاح- وحی کے ذریعے جو سب سے پہلی اصلاح کی گئی وہ تھی الله کے ساتھہ تعلق یعنی عقائد کو توحید پر قائم کرنا - برائی کی جو سب سے پہلی جڑ کاٹی گئی وہ شرک تھا- الله کے  لئے اپنے عقیدے کو، نیّتوں کو، اعمال کو خالص کرنا- کسی کو الله کی ذات، اسکی صفات، اسکے حکم، اسکے کام اور اسکی عبادات میں شریک نہ کرنا- کیونکہ خدا ایک ہے تو دین بھی ایک ہی ہوگا- اور یہ بات مکّہ کے لوگوں کے لئے نا قابل فہم بھی تھی اور ناقابل برداشت بھی تھی- سورہ الانبیاء کی بائیسویں آیت کے مطابق اگر الله کے علاوہ بھی اور خدا ہوتے تو فساد مچ جاتا- تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ انسانوں کے گروہ اپنے اپنے طور پر الله کے علاوہ یا اسکے ساتھ کسی نہ کسی طور شریک ٹھرائیں اور زمین پر فساد نہ مچے- اور جو جو اس پیغام کو سمجھتے گۓ ان خدا سے براہ راست تعلق جڑتا گیا اور ان کی زندگیوں میں امن آتا چلا گیا- 

"اگر آسمان اور زمین میںالله کے سوا اور معبود ہوتے تو زمین وآسمان درہم برہم ہوجاتے۔ جو باتیں یہ لوگ بتاتے ہیں خدائے مالک عرش ان سے پاک ہے" سورہ الانبیاء 

٢- تعلقات اور رویّوں کی اصلاح- دوسری جو اصلاح کی گئی وہ تھی انسانوں کے آپس کے تعلقات یعنی انسانوں میں مساوات- تکبّر اور طبقات جو برائی کی دوسری جڑہے اس پر ضرب لگائی گئی-   تمام انسان حضرت آدم علیہ السّلام کی اولاد ہیں- کسی کو کسی پر برتری نہیں- اور جو بھی احساس برتری کی وجوہات ہیں وہ الله کا ہی فضل ہیں، انسان کی اپنی کرامات نہیں- کوئی کسی کا غلام نہیں، سب آزاد ہیں- قانون سب کے لئے ایک ہی ہے اور ہر برائی کرنے والا قابل گرفت ہے- جو اہل منصب اور اہل ثروت ہیں ان پر ذمہ داری کا بوجھ بھی زیادہ ہے اور احتساب بھی - کوئی کسی کو کمتری یا برتری کا احساس نہ دلاۓ- کسی قسم کا اختلاف تفریق کا با عث نہ بنے- عورت اور مرد بھی حقوق اور نیکیوں کے ثواب میں برابر ہیں البتّہ انکی ساخت اور انکی ذمہ داریاں فرق ہیں- یہ بات بھی مکّہ کے لوگوں کے لئے قابل قبول نہیں تھی- اور یہ بات ہمارے معاشرے میں بھی قابل قبول نہیں- 

"اور سب مل کر خدا کی (ہدایت کی رسی) کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا اورالله کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو خدا نے تم کو اس سے بچا لیا اس طرح الله تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ"
سورہ آل عمران 

٣- اعمال کی اصلاح- کوئی کسی کو دھوکہ نہ دے، ملاوٹ نہ کرے، ناپ تول میں کمی نہ کرے، ہمسایہ کے گھر کے سامنے کوڑا نہ ڈالے، ہمساۓ کی اجازت کے بغیر اونچی دیوار نہ بناتے کہ اسکی ہوا رک جاۓ، دوسروں کا تجسّس نہ کرے، دوسرے کی پیٹھ پیچھے برائی نہ کرے، منہ پر طعنہ نہ دے، احسان کر کے جتاتے نہیں، وعدہ کی پاسداری کرے، بیمار کی عیادت کرے، ملے تو سلام کرے یعنی ایک دوسرے پر سلامتی بھیجے، جانوروں پر زیادہ بوجھ نہ لادے، سایہ دار درخت لگاۓ، راہ سے نقصان دہ چیز ہٹا دے، ایک دوسرے کی جان، عزت اور مال کی حفاظت کرے، بلاوجہ بحث سے اپنا دامن بچاۓ- دوسرے عقیدے کے لوگوں یا دوسری قوم کا مذاق نہ اڑاۓ اور نہ ہی انکے معبودوں کا- جو کہے وہ کرے- لوگوں کے درمیاں انصاف کرے- ظالم کا ہاتھہ روکے- گواہی دے- پاکدامن عورتوں پر الزام نہ لگاۓ- 

"جب تم نے وہ بات سنی تھی تو مومن مردوں اور عورتوں نے کیوں اپنے دلوں میں نیک گمان نہ کیا۔ اور کیوں نہ کہا کہ یہ صریح طوفان ہے-  یہ (افتراء پرداز) اپنی بات (کی تصدیق) کے (لئے) چار گواہ کیوں نہ لائے۔ تو جب یہ گواہ نہیں لاسکے تو الله کے نزدیک یہی جھوٹے ہیں
-"  سورہ النور 

"اور لوگوں کی دشمنی اس وجہ سے کہ انہوں نے تم کو عزت والی مسجد سے روکا تھا تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ان پر زیادتی کرنے لگو اور (دیکھو) نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اورالله سے ڈرتے رہو۔ 
کچھ شک نہیں کہالله کا عذاب سخت ہے" 
سورہ المائدہ 

"اے ایمان والوں!الله کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جایا کرو۔ اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔ انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے اورالله سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ الله تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے" 
سورہ المائدہ 

"اے وہ لوگوں جو ایمان لاۓ ہو! تم ایسی باتیں کیوں کہا کرتے ہو جو کیا نہیں کرتے- الله اس بات سے سخت بیزار ہے کہ ایسی بات کہو جو کرو نہیں-"
سورہ الصف 

اور اس شخص سے بات کا اچھا کون ہوسکتا ہے جو خدا کی طرف بلائے اور عمل نیک کرے اور کہے کہ میں مسلمان ہوں-  اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہوسکتی۔ تو (سخت کلامی کا) ایسے طریق سے جواب دو جو بہت اچھا ہو (ایسا کرنے سے تم دیکھو گے) کہ جس میں اور تم میں دشمنی تھی گویا وہ تمہارا گرم جوش دوست ہے- اور یہ بات ان ہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو برداشت کرنے والے ہیں۔ اور ان ہی کو نصیب ہوتی ہے جو بڑے صاحب نصیب ہیں- اور اگر تمہیں شیطان کی جانب سے کوئی وسوسہ پیدا ہو تو خدا کی پناہ مانگ لیا کرو۔ بےشک وہ سنتا جانتا ہے- " سوره فصلات 

"اے پیغمبر! جب تمہارے پاس مومن عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کو آئیں کہ خدا کے ساتھ نہ شرک کریں گی نہ چوری کریں گی نہ بدکاری کریں گی نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی نہ اپنے ہاتھ پاؤں میں کوئی بہتان باندھ لائیں گی اور نہ نیک کاموں میں تمہاری نافرمانی کریں گی تو ان سے بیعت لے لو اور ان کے لئے خدا سے بخشش مانگو۔ بےشک خدا بخشنے والا مہربان ہے" 
سورہ الممتحنه 
 
٤- نیّتوں کی اصلاح- رسول الله صلی الله علیہ وسلّم نے فرنایا
   "اعمال کا دارو مدار نیّت پر ہے" (حدیث)
اسکی مثال یوں دی جاتی ہے کہ ایک شخص نے کنواں کھودا کہ لوگ اس کے پانی سے پیاس بجھائیں لیکن کوئی اس میں گر کر مر گیا تو اس کا ذمہ دار کنواں کھودنے والا نہ ہوگا-  کیونکہ اسکی نیّت یہ نہ تھی-  اور اگر ایک شخص نے کسی کو مارنے کی نیّت سے کنواں کھودا حالانکہ لوگ اس سے پانی بھی پیتے ہوں، تب بھی اس کی نیّت کی وجہ سے اسکا مواخذہ ہوگا- 
لہٰذا کسی بھی کام کے لئے نیّت کو الله کی رضا اور دوسروں کی خیر و بھلائی کے لئے خالص کرنا- کیونکہ وہی دلوں کے راز جانتا ہے-  ریاکاری کا تعلق بھی نیّت سے ہوتا ہے اور دوسروں کو اسکا پتہ نہیں چلتا لہٰذا اس سے نفس کو بچانا-  

"وہ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے اور جو (باتیں) سینوں میں 
پوشیدہ ہیں  (ان کو بھی)" 
سورہ غافر 


یہ تھی امّت کے پہلے حصّے کی اصلاح-  امن کے ذرائع- امن کی ضامن خصوصیات- وہ آئینہ جس میں آج کے دور کا کلمہ گو اپنا ظاہر و باطن دیکھ کر اپنے حال اور مستقبل کا اندازہ کر سکتا ہے-  چاہے اسلام کی ظاہری خصوصیات  ہوں یا باطنی- ان باتوں کو سمجھنے کے لئے کسی مولوی یا عالم کے فتوے، مشورے اور تسلی کی ضرورت نہیں- اور نہ ہی کسی اسکول، کالج اور یو نیورسٹی کی تعلیم کی- 


امّت کا پہلا حصّہ ایک ایک صحابی کی صورت میں ان آئینوں سے بھرا پڑا ہے- وہی عام لوگ تھے- اور پھر وہی دنیا کے خاص ترین لوگ بن گۓ- ان کی کرامت یہ تھی کہ امّت کے باقی حصّوں کو یہ بتا گۓ کہ کسی نظام کو قائم کرنے اور چلانے کے لئے اس پر عمل کس طرح کیا جاتا ہے اور اس کے مطابق زندگی کیسے گذاری جاتی ہے-  

جب یہ خصوصیات عوام الناس میں پیدا ہو جائیں تو وہ ہو جائیں مؤمن- اور مؤمنین سے جو وعدے الله نے کئے ہیں ان سے قرآن بھرا ہوا ہے-