Showing posts with label تعلیمی نظام میں تبدیلی. Show all posts
Showing posts with label تعلیمی نظام میں تبدیلی. Show all posts

Tuesday, 14 January 2014

Words and Languages - الفاظ اور زبانیں

الفاظ اور زبانیں

 الفاظ اور زبانیں علم، احساسات اور خیالات کا ذریعہ اظہار ہیں-  تعلیم کی بات کرتے وقت کچھ باتیں سب کو ضرور مد نظر رکھنی چاہئیں 

١- حضرت آدم کی پیدائش سے لے کر آخری دن تک کی ساری زبانیں الله کی پیدا کی ہوئی ہیں- بہت سی زبانیں دنیا میں بولی جاتی ہونگی لیکن اب ان کا وجود نہیں- بہت سی جو اب بولی جاتی ہیں شاید پیچھے آنے والے دور میں ان کا وجود نہ رہے اور ان کی جگہ کچھ اور نئی زبانیں لے لیں-  کبھی یونانی اور لاطینی زبانیں علم کا ذریعہ تھیں آج ان زبانوں کے ترجمہ انگریزی میں کر کے تعلیم دی جاتی ہے کیونکہ کوئی ان زبانوں کو سیکھنے پر راضی نہیں-  شاید اس لئے کہ یہ دنیا کے معاملات میں اپنا اثر و رسوخ کھو چکی ہیں-  آسمانی کتابیں بھی مختلف زبانوں میں نازل ہوتی رہی ہیں-  لیکن چونکہ قرآن قیامت تک کے لئے ذریعہ ہدایت ہے اور عربی میں ہے اس لئے قرین قیاس یہ ہے کہ عربی زبان قیامت تک بولی جاۓ گی-  اردو میں پچھتر فیصد الفاظ کیونکہ عربی کے ہیں اس لئے اردو کے بارے میں بھی یہ خیال کیا جا سکتا ہے-  اردو زبان پاکستان کی قومی زبان ہے اور یہاں کی ستر فیصد آبادی جو دیہاتوں پر مشتمل ہے اپنی مادری زبان کے علاوہ اردو سے ہی وقف ہے لہذا اردو پر توجہ دینا پاکستان کی ستر فیصد آبادی کو زبان اور حق راۓ دہی دینے کے برابر ہے- اسکے علاوہ یہ تھوڑی بگڑی ہوئی صو رتوں میں جنوبی ایشیا کی زبان کی بھی کہلائی جا سکتی ہے- اردو زبان صحیح طرح سیکھنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے بیک وقت چار زبانوں کے الفاظ سیکھنے کو مل رہے ہوتے ہیں- یعنی عربی، فارسی، ترکی اور سنسکرت

٢- کوئی بھی زبان ترقی ہونے یا نہ ہونے کی سند نہیں ہوتی-  زبان کی ترویج کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ کتنے لوگ اسے بولتے ہیں اور وہ کس حد تک دنیا کے سماجی اور معاشی معاملات پر اثر انداز ہوتی ہے-  آج کل یہی بات انگریزی، عربی، ہسپانوی اور فارسی زبان کے لئے ہی نہیں بلکہ  اردو زبان کے لئے بھی کہی جا سکتی  ہے-  چائنیز حالانکہ سب سے زیادہ بولے جانے والی زبان ہے لیکن کم از کم آج کی تاریخ تک بھی یہ دنیا کے معاملات چلانے لے لئے استعمال نہیں کی جا رہی 

٣- ترقی کا دار و مدار کسی خاص زبان پر نہیں ہوتا- ترقی اگر اسکا نام ہے کہ نئی نئی ایجادات سے گھر بھر لیا جاۓ، معاشرے کے باقی افراد کے مقابلے پر بڑا گھر بنا لیا جاۓ، ان سے زیادہ مقدار میں اور جب دل چاہے جو کھا لیا جاۓ، ان سے زیادہ تعداد میں مہنگے کپڑے بنا لئے جائیں، زیادہ سے زیادہ سونا اور جواہرات اکٹھے کر لئے اور اتنا مال اور جائداد جمع کر لی جاۓ کہ اپنے خیال کے نسلیں بیٹھ کر کھائیں، اتنے اختیارات مل جائیں کہ لوگ ڈر کر عزت کریں یا خاموش ہو جائیں تو سو فیصد یقین کے ساتھ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ایسی ترقی کا کسی بھی خاص زبان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا- یہ حالات اور مواقع کے صحیح استعمال سے ملتی ہے یا پھر نری قسمت سے-  پاکستانی سیاستدان اس کی بہترین مثال ہیں-  نہ تعلیم، نہ تربیت، نہ شعور، نہ تہذیب، نہ کردار، نہ اخلاق، نہ خدا کی فرمانبرداری، نہ لوگوں کے حقوق کا پاس، نہ فرائض کا احساس، نہ آخرت کے احتساب کا خوف-  لیکن دولت، شہرت اور اختیارات کے مالک بن بیٹھے ہوتے ہیں
اگر ترقی دنیا کی طرز پر چل کر ہی دنیا میں کچھ کر دکھا کر دنیا سے ایوارڈ لینے کا نام ہے تو بھی اس کے لئے کسی خاص زبان کا جاننا ضروری نہیں- جن جن کو جس وجہ سے ایوارڈز ملے ہیں ان کی مادری زبانیں کیا تھیں 

لیکن اگر ترقی اسے کہتے ہیں کسی فرد یا افراد کے خیالات، نظریات، تحقیقات اور کام کس حد تک دنیا کے لوگوں کی سوچوں پر اثر انداز ہوتے ہیں اور لوگ ان کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں کسی تو اس کے لئے بھی زبان کی قید نہیں- یہ کام کسی زبان میں کیا جاۓ لوگ اس کی طرف لپکتے ہیں- اس کے دولت، شہرت اور اختیارات بھی شرط نہیں
محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم کی زبان کیا تھی اور وہ کس حد تک عربوں اور باقی دنیا کے درمیان رابطے کا ذریعہ تھی؟ عربی سائنسدانوں کو سائنس کے علم کے لئے بنیاد کہاں سے ملی؟  علامہ اقبال کی شاعری پر ایران، جرمنی اور مصر میں کس زبان میں تحقیق ہورہی ہے اور کیوں؟

البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ترقی کے دو معیار ہوتے ہیں ایک عام عوام کے لئے جو ایک خاص ذہنی سطح سے زیادہ سوچ نہیں پاتی اور اس کے نزدیک ترقی عام لوگوں میں شہرت، عام لوگوں کی تعریف، عام لوگوں کے آگے پیچھے پھرنے، با اختیار لوگوں سے چاہے وہ کتنے ہی بڑے قوم کے مجرم اور کتنے ہی بے کردار ہوں ایوارڈز لینے اور دولت جمع کرنے کا نام ہوتا ہے- انکی زندگی  انسانوں کی پسند نا پسند کے گرد گھومتی ہے 
دوسرا معیار ان لوگوں کے لئے جن کی زندگی کے مقاصد کا عام لوگوں کی پسند نا پسند سے کوئی تعلق نہیں ہوتا انھیں اپنا کام کرنا ہوتا ہے



تعلیمی نظام 

نظام بنیادی طور پر کچھ اصول اور طریقہ کار کا مجموعہ ہوتا ہے جس کا کل مقصود کسی مقصد یا مقاصد کا حصول ہو-  اور یہ چند کرداروں، ان کرداروں کے وضع کے گۓ اصولوں اور ان اصولوں کے چلنے کے لئے بناۓ گۓ طریقوں میں ربط کا نام ہے-  نظام کبھی ایک شخص کے تابع نہیں ہوتا-  اور اگر ہو تو وہ نظام نہیں کہلاتا بلکہ آمریت کہلاتی ہے-  یہاں تک کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی قائم کی گئی خلافت بھی آمریت نہیں بلکہ ایک نظام تھا

تعلیمی نظام بھی والدین، اساتذہ، طلبہ اور اسکول انتظامیہ کے گرد گھومتا ہے- جس میں مقصود طلبہ کی تربیت ہوتی ہے- ذریعہ تعلیم زبان یا زبانیں ہوتی ہیں- اور کتابیں، کاپیاں، چارٹس اور اثاثے یعنی کرسیاں میزیں بورڈز وغیرہ وسائل ہوتے ہیں

ملک بھر میں تعلیمی نصاب کے تبدیل ہونے  کی باتیں ہو رہی ہیں-  کہیں اقدامات کی تعریف اور کہیں اعتراضات- بچوں کی درسگاہیں تجربہ گاہیں بن گئیں ہیں-  وہ بڑے جو اسی تباہ شدہ نظام میں پڑھ لکھ کر بڑے ہوۓ اور کہیں نہ کہیں ملازم ہوۓ  یا کاروبار کر لیا یا سیاستدان بن گۓ، اپنے اپنے طور پر اصلاح کے نام پر تعلیمی نظام کی بہتری کی بات کرتے رہتے ہیں-  اور تقریبا ننانوے فیصد کا اثرو رسوخ مغربی دنیا کی طرف سے ہے

اس نظام کو تباہ شدہ کہنے کی وجوہات بہت عام ہیں
١- پہلی تو یہ کہ اس سے کوئی عملی بہتری کے نتائج سامنے نہیں آۓ- جہاں لوگ بی اے، ماسٹر اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں لے کر رہتے ہیں ان محلوں اور علاقوں کا حال بھی اتنا ہی برا ہے جتنا کسی پسماندہ علاقے کا-  اور بی اے، ماسٹر اور پی ایچ ڈی کرنے والے لوگ بھی پاکستان، پاکستان کی بنیاد اور پاکستان کی بہتری سے اتنے ہی غافل اور بیزار ہیں جتنے کہ غیر پڑھے لکھے،غیر تعلیم یافتہ اور بے شعور لوگ- نظام اسے پھر بھی کہیں گے کیونکہ بہرحال ایک منفی کرداروں کا مجموعہ تو اس نظام سے پروان چڑھ ہی رہا ہے

٢- دوسری وجہ اس نظام کو بہتر بنانے میں کہیں بھی با شعور لوگوں کی کوشش نظر نہیں آتی-  باشعور لوگ وہ جن کی سوچ کا محور اسکولوں کو دولت، شہرت اور سیاست کا ذریعہ بنانا نہیں بلکہ ایک نسل کو صحیح سوچ اور اعلی قدروں کے ساتھ پروان چڑھانا ہو اور وہ اپنا وقت اور وسائل اس پر صرف کریں

٣- تیسری وجہ اس نظام کی روح یعنی اساتذہ کا ذہنی اور علمی معیار ہے- اسلامیات پڑھانے والے اساتذہ کا عربی تلفظ درست نہیں، اسلامی معلومات ناکافی، اسلام پر کوئی تحقیق نہیں-  باقی مضامین پڑھانے والوں کا بھی یہی حال ہے

٤- چوتھی وجہ نصابی کتب ہیں جن کا کوئی سر پیر نہیں- کچھ موضوعات پہلی سے دسویں تک پڑھاۓ جاتے ہیں اور کچھ مشقیں پہلی سے دسویں تک کرائی جاتی ہیں لیکن لاحاصل- نہ کلاس ورک کا طریقه نہ ہوم ورک کا- اساتذہ اور والدین دونوں اسکول ایڈمنسٹریشنز اور حکومت کو ذمہ دار ٹھراتے ہیں-  اور حکومت صرف اور صرف نااہلوں، مجرموں اور جاہلوں کی بھیڑ بھاڑ ہے-  لہذا اس سے کوئی توقع ہی بے کار ہے

٥- پانچویں وجہ درآمد شدہ سلیبس- پاکستان میں کورس کی کتابوں کے نام پر سب سے زیادہ پاکستانیوں کی کمائی آکسفورڈ والوں نے لوٹی یعنی برٹش راج ابھی تک جاری ہے- ٹیکس کی صورت میں نہ سہی، تو اس سے بھی زیادہ بری صورت میں- کوئی پوچھنے والا نہیں کیونکہ سیاستدانوں کے نام پر بٹھاۓ گۓ جاہل غلاموں اور پاکستان کے مجرموں کی مرضی شامل ہے-  اور یقینا یہ غلامان اپنا حصہ کسی نہ کسی صورت وصول کرتے ہی ہونگے

٦- چھٹی وجہ سرکاری اسکولوں کی تباہی اور غیر سرکاری اسکولوں کا فروغ- غیر سرکاری اسکولوں کے خاکہ نصاب کی وجہ سے ہوم ٹیوشنز کا رواج کو عام تو ہوا ہی لیکن ظلم یہ ہوا کہ بچوں کے تعلیمی اوقات بڑھ کر بارہ بارہ گھنٹے تک جا پہنچے-  ایک بچہ جو صبح چھ سات بجے نماز کے لئے تو نہیں اٹھایا جاتا لیکن اسکول کی بس کا انتظار کرنے کے لئے سردی، گرمی، برسات میں کھڑا ہوتا ہے- جس کو پانی کا گلاس اور کھانے کی پلیٹ تو اپنی جگہ رکھنے کی تربیت نہیں دی جاتی لیکن روزانہ وہ کمر پر پانچ سے دس کلو کتابوں کا وزن ڈھوتا ہے-  چھہ بجے کا اٹھا ہوا بچہ ڈھائی تین بجے تک گھر پہنچتا ہے یعنی نو گھنٹے کی مزدوری-  پھر دو ڈھائی گھنٹے کا ٹیوشن اور پھر آدھے گھنٹے کے لئے مولوی صاحب کے حوالے

٧- ساتویں اور سب سے اہم وجہ اس سارے قصے میں بچوں کو نظر انداز کیا جانا- اور اس میں قصور اس غلامانہ سوچ اور تحکمانہ مزاج کا ہے جو پاکستان کے لوگوں کی پہچان بن چکا ہے-  لوگ اس سے زیادہ سوچ نہیں پاتے کہ اسکول نہ ہوں تو علم بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا اور انگریزی بولے بغیر ترقی (جو الله جانے کس خلائی مخلوق کے نام ہے اور پتہ نہیں اسکی حدود کیا ہیں) نہیں ہو سکتی بلکہ ترقی تو کیا ایک دوسرے کو عزت بھی نہیں دی جاسکتی-  لوگوں کو یہ احساس نہیں کہ ان کا اپنا کردار اور گھر کا ماحول بھی تعلیمی نظام کا حصہ ہے-  لوگوں میں یہ شعور نہیں کہ چوبیس گھنٹے کے تعلیمی نظام میں اسکول کا حصہ صرف اور صرف چار گھنٹے ہونا چاہیےجس میں بچے خاص طور پر ابتدائی جماعتوں میں صرف پڑھنا لکھنا اور حساب کتاب سیکھ سکیں - اور شاید ایک گھنٹہ ہوم ورک یعنی گھر کے کام کا کہ دہرائی ہو جاۓ-  باقی انیس گھنٹوں میں سے کم از کم آٹھہ نو گھنٹے سونے کے لئے ہوں اور باقی سیر سپاٹے، کھیل کود اور براہ راست عبادتوں کے لئے

تعلیم اگر سیکھنے کے ذہنی، جسمانی اور روحانی عمل کو کہتے ہیں تو صرف اسکول اور مدارس یہ تمام ضروریات پوری نہیں کرسکتے- بلکہ اس کے لئے پورا ماحول تبدیل کرنا پڑتا ہے-  اسکول تو صرف اور صرف خواندگی میں اضافہ کرسکتے ہیں-  اور انھیں اسی مقصد کے لئے استعمال بھی ہونا چاہیے-  جسمانی نشو و نما کے لئے کھیل کے میدان ہوتے ہیں جبکہ روحانی پرورش کا تعلق صرف مسجد سے ہی نہیں بلکہ سورج چاند ستاروں پر غور، باغات کی سیر، پرندوں اور جانوروں کی دیکھ بھال، صاف ستھری سڑکوں اور گلیوں، مکتبات (لائبریریز) اور لوگوں کے ایکدوسرے کے ساتھ تعلقات اور معاملات سے ہوتا ہے

پاکستان میں تعلیمی نظام کا مطلب ہے 'قومی تعلیمی نظام' یعنی ایسا نصاب جو ہر قومیت ، ہر صوبے اور ہر فرقے میں خواندگی کے تقاضوں کو پورا کر سکے-  اور خاکہ نصاب وضع کرتے بڑوں کی پسند ناپسند سے زیادہ بچوں کی عمر اور دلچسپی کو مد نظر رکھا گیا ہو- اور اگر ابتدائی تعلیم پر توجہ اور عقلمندی کے ساتھ کام کیا جاۓ تو بعد کی تعلیم کسی کے لئے کوئی مسلہ نہ ہو


تعلیمی نصاب 

جس طرح چہرے بدلنے سے نظام نہیں بدلتا بلکہ اس سے بھی بدتر ہو جاتا ہے- اسی طرح کورس بدلنے سے تعلیمی نظام بہتر نہیں ہوتا بلکہ اور بدتر ہو جاتا ہے-  ابتدائی درجات کی تعلیم کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی سی ہے- دس سال تک کی عمر کے بچوں کو اعلی تعلیم کے نام پر گدھا بنا دینا، ان سے مشکل مشکل تعریفیں، بڑے بڑے مضامین رٹوا کر لوگوں کی تعریفیں سمیٹنے کا عادی بنا دینا صرف ظلم ہی نہیں بلکہ ایک غیر قدرتی عمل ہے جس کا نتیجہ کم از کم ذہنی نشو نما کی صورت میں نہیں نکلتا-  تعلیمی نظام بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک ایسا ماحول پیدا کیا جاۓ جو طلبہ اور اساتذہ دونوں کے لئے تکلیف اور بوجھ کا باعث نہ ہو- اساتذہ کو تنخواہ دینے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ گدھوں کی طرح کام کریں-  چار گھنٹے کے اسکول کا مطلب اساتذہ کے لئے چھہ گھنٹے- یعنی بچوں کے جانے کے بعد وہ اسکول ہی میں بیٹھہ کر کلاس کا کام، گھر کا کام چیک کر سکتے ہیں اور روزانہ کی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے بولنے، لکھنے پڑھنے کی مشق (گرومنگ)- آنے جانے کا وقت ملا کر یہ آٹھہ گھنٹے بن جاتے ہیں جو کہ بڑوں کے کام کرنے کے لئے کافی ہیں-  اساتذہ کو اتنا کام دے دینا کہ انھیں گھر لے جا کر کرنا پڑے درست نہیں-  بلکہ ناانصافی اور ظلم ہے-  ان پر ان کے گھر والوں کا  بھی حق ہوتا ہے

١- کم از کم تیسری جماعت تک مضامین کی تعداد کم سے کم کردی جاۓ یعنی اردو پڑھائی اور اردو لکھائی ، انگریزی پڑھائی اور انگریزی لکھائی ، ریاضی، مصوری - یعنی کہ روزانہ چھ فصلیں

٢- کورس کی کتابوں کے بجاۓ ہر کلاس میں اس درجہ کے مطابق مختلف موضوعات پر کتابیں رکھی جائیں اور ان کو پڑھایا جاۓ-  نہ تو بچوں کو انہیں روز کمر پہ لاد کر گھر لے جانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی والدین کو انکو خریدنے کے لئے کچھ خرچ کرنے کی ضرورت- البتہ والدین سے کچھ رقم سالانہ لی جا سکتی ہے ان کتابوں کو استعمال کرنے کی- یہ کتابیں معلومات عامہ، سائنس، معاشرتی علوم، جغرافیہ اور دوسرے مضامین کے تعارف کے لئے کافی ہوں گی-  تیسری جماعت تک کے بچوں کو مضامین کی گروہ بندی میں الجھانے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی یہ ان کی عمر کا تقاضہ ہو تا ہے

٣- ہر فصل یا کلاس کا دورانیہ تیس چالیس منٹ سے زیادہ نہ ہو- اور باقی وقت عملی سرگرمیوں کے لئے

٤- اسکول کا دورانیہ بھی چار گھنٹے سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے-  بچے کے آنے جانے اور تیاری ملا کے یہ ویسے ہی چھ گھنٹے بن جاتے ہیں جو کہ اس عمر کے بچے کے لئے ذہنی اور جسمانی لحاظ سے تھکا دینے والا معمول ہے

٥- ہوم ورک صرف اتنا ہو کہ بچے کو ٹیوشنز کی ضرورت نہ پڑے اور وجہ خود کر سکے

٦- لکھائی سکھانے کے لئے ترتیب وار طریقوں سے لکھنا سکھایا جاۓ- اور لازمی طور پر ایک سالانہ ہدف بنا کر اسے ماہانہ اور ہفتہ وار تقسیم کر دیا جاۓ تاکہ بچوں اور اساتذہ دونوں کے لئے آسانی ہو-  لکھائی حروف سے شروع ہوتی ہے اور پھر الفاظ، مرکبات، آسان جملے، مرکب جملے، ایک جملے کے جوابات، کسی شے، جگہ یا شخص کی تفصیل کے بعد کہیں جا کر مضمون نگاری، خطوط نگاری وغیرہ تک پہنچتی ہے

٧- ہر فصل یا کلاسوں میں دیواریں سادہ رکھی جائیں اور ان پر تصویریں اور کسی قسم کے چارٹ لگانے سے گریز کیا جاۓ- اور کلاس کی ترتیب اس طرح کی ہو کہ بچے چیزیں لے کر واپس بھی رکھیں

٩- کم از کم پہلی جماعت کے طلبہ کے امتحانات وغیرہ نہیں ہونے چاہئیں-  ان کی جانچ پڑتال کے لئے انکے روزانہ کے کام ہی کافی ہوتے ہیں- انھیں فرسٹ سیکنڈ کے چکروں میں لگا کر ان کی بنتی ہوئی شخصیت کو بگاڑنا نہیں چاہیے



تعلیمی نصاب میں تبدیلیاں 

ابتدائی جماعتوں کے بچوں کی عمر سات آٹھ سال تک ہوتی ہے-  اس عمر میں بچوں سے کوئی توقع نہیں رکھنی چاہیے کیونکہ وہ تو ابھی آس پاس کے ماحول سے سیکھنے کے مراحل سے گزر رہے ہوتے ہیں-  انکے اس قدرتی عمل کو جاری رہنا چاہیے-  اور اس میں بہتری کے امکانات صرف اور صرف اس طرح پیدا کے جا سکتے ہیں کہ بڑے اپنا رویہ اور اپنی سوچ درست کر لیں-  حال ہی میں نصاب کی تبدیلی کے حوالے جو اعتراضات کے جارہے ہیں وہ کس حد تک صحیح یا غلط ہیں یہ بھی جذبات سے نہیں بلکہ عقل سے کام لیتے ہوۓ سوچنا چاہیے

١- پہلا اعتراض جو کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ بچوں کو بے دین بنایا جا رہا ہے-  کن کے بچوں کو بے دین بنایا جا رہا ہے- ان مسلمانوں کے جو اپنا سارا وقت ٹی وی اور بھارتی فلموں کو دیکھنے میں گزارتے ہیں- جنھیں مسلمان ملکوں کے نام اور حالات سے دلچسپی نہیں- جنھیں اپنی تاریخ پڑھنے کی فرصت نہیں-  جنھیں یہ بات بھی کہ انکے بچوں کو بے دین بنایا جا رہا ہے اس وقت پتا چلتی ہے جب کوئی شورشرابا ہو اور مہم چلائی جاۓ-  جنکے لئے ستارے صحابہ اکرام نہیں جیسا کہ رسول صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا, بلکہ اداکار،  گلوکار یا کھلاڑی ہوتے ہیں-  تو جن کے والدین کی زندگی اس رنگ ڈھنگ کی ہو انکے بچوں کو بے دین بنا کر بھلا کون بدنام ہو گا-  اور جو مضامین اسلامی یا پاکستانی نکالے گۓ یا نکالے جا رہے ہیں ان سے میں کوئی بھی مضمون ان والدین کی دلچسپی کا نہیں

٢- دوسرا اعتراض یہ  ہے کہ انگریزی کے ذریعے مغربی ثقافت لائی جارہی ہے-  تو یہ کام تو بہت پہلے میڈیا کر چکا ہے-  والدین تو خود یہ چاہتے ہیں کہ پڑھ لکھ لے تو بچہ مغربی ممالک جاۓ-  ظاہر وہ تبلیغ کے لئے تو اسے وہاں نہیں بھیجنا چاہتے-  رہی بات زبان کی تو انگریزی زبان سیکھنے میں کوئی برائی نہیں اور نہ ہی اس کو سیکھ کر دولت کمانے میں- مغربی ثقافت زبان سے نہیں ان اقدار کو اپنانے سے آتی ہے- مغربی ثقافت اور لا دینیت سے بچانا چاہتے ہیں تو حکومت پر زور ڈالیں کہ ہارون  یحییٰ کی کتابیں لائیں ترکی سے- جس طرح ترکی کے ڈرامے لاۓ ہیں- ڈاکٹر عبد السلام کی نہ سمجھ میں آنے والی تھیوری پر تو سبق شامل کردیا کتابوں میں- اب یہ بھی کر لیں-  سالوں سے وہ ڈارون کے نظریے کے خلاف دلیلیں لا رہے ہیں


 کیا ہی اچھا ہو کہ اگر ابتدائی جماعتوں یعنی کم از کم تیسری جماعت تک کے اسکولوں کو صرف اور صرف خواندگی بڑھانے کے لئے استعمال کیا جاۓ  اور دین اور مغربی ثقافت کی بحث کو ان جماعتوں سے  رکھا جاۓ کیونکہ اس عمر کے بچے کتابوں سے زیادہ ماحول سے سیکھتے ہیں اور آس پاس کے عملی مظاہروں کو اپناتے اور ذہن نشین کرتے ہیں-  نہ صرف یہ بلکہ انکے پڑھنے لکھنے کی بے پناہ صلاحیتوں کو بھی ایک محدود سلیبس دے کر ختم نہ کیا جاۓ- اور خواہ مخواہ کے ماہانہ اور سالانہ امتحانات میں انکا وقت نہ ضایع کیا جاۓ - جہاں تک دین اور مغربی ثقافت کا مسلہ ہے تو اسے اسکولوں کے باہر کا ماحول تبدیل کر کے حل کیا جاۓ