Showing posts with label تہذیب و حکمت. Show all posts
Showing posts with label تہذیب و حکمت. Show all posts

Monday 4 June 2018

عالم بننے کا سلیقہ

تمام بشر نوع میں بہترین عالم انبیاء و رسل علیھم السلام ہیں-  انسانوں میں ان سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں-  

الله سبحانہ و تعالیٰ کو تو ہمیشہ سے معلوم تھا کہ اپنی قوم میں پیدا کئے جانے والے یہ بچے بڑے ہو کر نبی اور رسول بنیں گے-  لیکن ان بچوں کو یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ بڑے ہو کر کیا بنیں گے اور کس وقت ان کے پاس حضرت جبرائیل رب کا پیغام لے آئیں گے اور کب ان پر وحی کا نزول ہوگا-  ہر نبی اور رسول کو آزمائشوں سے گزارا گیا-  کسی کے والدین چھین لئے تو کسی سے صحت-  کسی کو مچھلی کے پیٹ میں ڈال دیا کسی کو کنویں میں اور قید میں-  کسی کا سر کاٹا گیا تو کس کو سولی پر لٹکایا گیا-  کسی کو آگ میں ڈلوایا تو کسی کو صحرا میں تنہا ماں کے ساتھ چھوڑ دیا-  کوئی غار میں پل کر بڑا ہوا تو کسی نے طور پر جاکر رب سے کلام کیا-  کسی سے گاۓ کا معجزہ تو کسی سے اونٹنی کا-  کوئی سورج اور چاند ستاروں سے رب کو پہچان رہا ہے-  کوئی دریا کو پھاڑ کر الله کی طاقت کا یقین دلا رہا ہے-  کوئی ہاتھ سے لوہا پگھلا رہا ہے تو کوئی پرندوں اور جانوروں سے گفتگو فرما رہا ہے-  کیونکہ انہوں نے ایک عظیم انسان بننا تھا-  رحمت بننا تھا-  عقلمند بننا تھا-  عالم بننا تھا-  عادل بننا تھا-  رہنما بننا تھا-  ہادی بننا تھا-  لیڈر بننا تھا-  نظام دینے والا بننا تھا-  رول ماڈل بننا تھا- 

اسی طرح ان انبیاء کرام پر کبھی یہ ذمّہ داری نہیں  ڈالی گئی کہ وہ الله کے دین کو بچائیں گے-  ان کو کام دیا گیا وہ الله کے پیغام کو پھیلانا تھا-  انسانوں کا انکے رب سے تعلق جوڑنا تھا جو کہ کسی نہ کسی طور ٹوٹ جاتا ہے-  انسانوں کو یہ بتانا تھا کہ الله کن باتوں سے راضی ہوتا ہے اور کن باتوں سے ناراض-  اور یہ کہ کس طرح اس زمین پر انسانوں کی بھلائی کے لئے الله کی مرضی کا نظام نافذ کر کے دکھایا جا سکتا ہے-  اور کس طرح انسان خود کو آخرت میں الله سبحانہ و تعالیٰ کی ناراضگی سے بچا سکتے ہیں-  اور بار بار انبیاء اور رسل کو یہ یاد دہانی کرائی جاتی تھی کہ آپ الله کی حفاظت میں ہیں-  دین خالص ہے اور الله کی حفاظت میں ہے-  آپ تو بس اپنا کام کریں- 

"اور الله کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو-  اور اگر تم منہ پھیرو گے 
تو یاد رکھو ہمارے رسول کے ذمّہ تو صریح پہنچانا (پیغام کا) ہے-" 
 سورہ التغابن 

پورے قرآن میں انبیاء و رسل کے علاوہ ایک اور ہستی ہیں جو نہ نبی نہ رسول لیکن پھر بھی قرآن کی ایک صورت انکی تعظیم کی گواہی دیتی ہے-  یعنی کہ حضرت لقمان-  انہوں نے حکمت کو اپنے لئے پسند فرمایا-  اور انہوں نے جو اپنے بیٹے کو نصیحت کی وہ بھی قرآن میں بیان کی گئی ہے-  

اور بے شک ہم نے لقمان کو حکمت عطا فرمائی-  کہ اللہ کا شکر کر-  
اور جو کوئی شکر کرے تو اپنے بھلے کو شکر کرتا ہے-  
اور جو کوئی ناشکری کرے تو بیشک الله بے پرواہ ہے تمام تر خوبیوں والا-  
سورہ لقمان 

لیکن خاتم النبین اور ختم الرسل محمّد مصطفیٰ صلی الله علیہ و آلہ وسلّم کے بعد نبوّت اور رسالت کا سلسلہ تو ختم ہو گیا-  لیکن علم اور ہدایت کا سلسلہ جاری ہے اور رہے گا کیونکہ علم ہی اخلاص کے ساتھ ملکر اصل میں ہدایت کا ذریعہ بنتا ہے-

پچھلی کی صدیوں سے مسلمان دنیا میں علم کا حصول مذاق بنا لیا گیا ہے اور عالم بننا ایک کھیل-  علم اور عالم دونوں ڈگریوں اور سندوں کے محتاج ہو گۓ ہیں-  پیدائش سے عالم بننے تک کا سفر مدرسے یا اسکول کی چار دیواری میں بیٹھے بیٹھے لوگوں سے ملنے والے چندے سے پکنے والے کھانے کو کھا کھا کر طے کرلیا جاتا ہے-  کس قدر پھیکی، بے ذوق، بے رنگ زندگی ہے ان لوگوں کی جنہیں عالموں کے خطاب سے نوازا جاتا ہے-  کس قدر بیزار نظر آتے ہیں یہ اپنے رب کی قدرتوں سے-  نہ کسی پہاڑ پر چڑھتے ہیں-  نہ سمندر اور دریا میں غوطے لگاتے ہیں-  نہ صحراؤں کی خاک چھانتے ہیں نہ جنگلوں میں بسیرا کرتے ہیں-  نہ پھول اگاتے ہیں نہ درخت لگاتے ہیں-  نہ جانوروں سے دل لگاتے ہیں نہ پرندوں سے لطف اٹھاتے ہیں-   دوسروں کی دنیا تو کیا بدلیں گے خود اپنی دنیا سے بے خبر عالم-وہ تمام کوششیں جو انسان کے زندہ ہونے کا ثبوت دیتی ہیں ان سب کوششوں سے بے خبر دو روٹی، مٹھی بھر چاول اور دو جوڑے کپڑے پر مطمئن چادر لپیٹ کو سو جانے والے عالم- 

اور مزے کی بات کہ زندگی کی کوئی لائف اسکلز نہ ہوتے ہوۓ بھی جس پر کہ انسان نااہل قرار پا جاتا ہے-  یہ خود کو دین کا محافظ سمجھنے لگ جاتے ہیں-  انبیاء کا محافظ سمجھنے لگ جاتے ہیں-  قرآن کا محافظ سمجھنے لگ جاتے ہیں-  کیا یہ انبیاء اور رسولوں سے بھی بڑھ گۓ ہیں-  اور جو اصل ذمّہ داری دی گئی ہے اسے سے غافل ہیں-  ارے قرآن اور دین تو خود انکی حفاظت کرنے کے لئے ہے تاکہ یہ اپنی ذمّہ داریاں پوری کریں-  الله کے بجاۓ اپنے اپنے علماء کے پیغامبر بن جاتے ہیں-  
  
یہ تو خیر بے ضرر بے کار عالموں کا قصّہ ہے-  ایک بدتر قسم بھی ہے جو کہ شاید سب سے زیادہ پاکستان میں پائی جاتی ہے-  وہ ہے مفاد پرست عالموں کی جن کی زبان ایک نہیں، چہرہ ایک نہیں-  کئی کئی چہروں اور زبانوں کے ساتھ قلابازیاں کھانے والے عالم-  تہذیب و حکمت سے عاری، دولت اور شہرت کے بھوکے عالم-  نفرتوں اور فساد کے بیج بونے والے عالم- جنکے فتوے، جن کی چرب زبانی اس قوم کے لئے وبال جان بن گئی ہے-  

یا الله! پاکستان پر رحم فرمائیں-  پاکستانیوں کو ایک تہذیب یافتہ اور باشعور اور باوقار قوم بنا دیں-  اس قوم کے نوجوانوں کو چھچھورے پن اور خرافات سے دور کردیں- اور انہیں صادق و امین بنا دیں- اس نوجوان نسل کو پاکستان کا امین بنا دیں-  کوئی تو ہونگے اس قابل-  آمین