پاکستان میں مذہبی عقائد زمینی حقائق میں سے ایک ہیں- بہت سے فرقے ہیں لیکن سب کی بنیاد الله، رسول اور قرآن ہی ہیں- آگے کے مسلے خود انکے مولویوں، شیخوں، علماء اور مولاناؤں نے پیدا کئے ہوۓ ہیں اپنی فلسفے، بد زبانی اور بدتمیزیوں کی وجہ سے- ورنہ الله کے دین میں فتنہ مٹانے کی بات ہے بڑھانے کی نہیں- لیکن شاید یہ سارے فرقے ایک دوسرے کو فتنہ سمجھتے ہیں اس لئے ایک دوسرے کو مٹانے پر تلے ہوۓ ہیں- جہاں تک عام لوگوں کا تعلق ہے انہوں نے اپنے دل، دماغ، آنکھیں سب کچھ اہل منصب اور با اختیار لوگوں کے پاس گروی رکھ دیا ہے- پتہ نہیں حساب کس چیز کا دیں گے-
بچپن سے ایک حدیث سنتے آرہے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ
"الله قیامت کے دن اپنے حقوق معاف کر دے گا لیکن اگر بندوں نے آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کی ہو گی تو وہ معاف نہیں کرے گا جب تک کہ وہ بندہ جس پر ظلم کیا گیا ہے خود دوسرے کو معاف نہ کردے"-
سیدھے سادھے دماغ والے لوگوں کے لئے اس حدیث کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں- نہایت سادہ الفاظ ہیں اور رسول الله صلی الله علیہ وسلّم کی باتیں ذو معنی نہیں ہوتی تھیں کہ کہا کچھ اور مطلب کچھ اور کہ دوسرا پاگل ہی ہو جاۓ سمجھتے سمجھتے-
اس سے کہیں یہ مطلب نہیں نکلتا کہ الله نے اجازت دے دی ہے کہ اسکے حقوق پورے کرو یا نہ کرو لیکن اسکے بندوں کے حقوق ضرور پورے کرو- گویا کہ الله نے بلاوجہ نماز روزے فرض کر دیے- کرو کرو ، نہ کرو نہ کرو- کوئی فکر کی بات نہیں-
سیدھی سی وضاحت ہے کہ الله کے حقوق بھی پورے کرنے ہیں اور اسکے بندوں کے وہ حقوق جو خود الله نے مقرّر کئے ہیں- لہٰذا عام لوگوں کو جو بات معلوم ہونی چاہیے وہ یہ کہ ان پر کس کے حقوق کس حد تک ہیں اور انکے حقوق کس پر کس حد تک ہیں- نہ تو وہ کسی کے حقوق ماریں اور دوسروں کو جذباتی بلیک میلنگ کریں اور نہ ہی کسی دوسرے کو اپنا حق مارنے کی اجازت دیں- عام لوگ خود تو وہ علم حاصل کرتے نہیں اور جب انکی اپنی جہالت کی وجہ سے بات بگڑنے لگتی ہے تو بھاگتے ہیں علماء اور مولویوں کے پیچھے- دنیا کے سارے کام اپنی مرضی سے کریں گے اور جواز کے لئے علماء اور مولویوں کا سہارا- اور علماء اور مولوی بھی بے چارے انسان ہی ہیں خطا کے پتلے- وہ سیکنڈز میں یہ بھانپ لیتے ہیں کہ آنے میں والوں میں سے بااختیار کون ہے بس گھما پھرا کر اسی کے حق میں فیصلہ دے دیتے ہیں- مال بھی مل جاتا ہے تعریف بھی ہو جاتی ہے- یہی معیار پاکستان کی سپریم کورٹ اور عدالتوں کا بھی ہے-
علماء ہوں یا مولوی یا لبرل دانشور- عقل کسی مدرسے یا کالج یونیورسٹی کی سند کی محتاج نہیں- الله نا انصاف نہیں کہ صرف چند لوگوں کو عقل کا ڈنڈا دے کر باقی کو انکے بھیڑ بکریاں بننے کا حکم دے دے- یہ عقل اور حکمت انسانی تفکّر و تدبّر و تجربہ سے خود بخود ہر ایک کو ملتی ہے- استعمال کرنا یا نہ کرنا انسانی کی اپنی مرضی ہے-
یہ تو خیر ایک المیہ ہے- لیکن اس میں لطف پیدا کیا ہے نام نہاد لبرلز نے- ان میں سے شاید اکثر کو یہ بھی نہ معلوم ہو کہ جس نے یہ حدیث کہی ہے اس شخص کا نام کیا ہے یا حدیث کہتے کسے ہیں- لیکن مزے کی بات ہے کہ صرف ایک اس حدیث پر انہوں نے اپنی تمام طرز زندگی اور طرز معاشرت کی بنیاد رکھ دی ہے- اور اکثر دینی لوگوں سے مقابلے کیلئے بھی اسی حدیث کا استعمال کرتے ہیں- کہ گویا دینی لوگ بندوں کے حقوق مارتے ہیں اور دوسروں پر ظلم کرتے ہیں- بندوں کی خوشی اور حقوق انسانیت کے نام پر کس طرح پورے کرتے ہیں یہ لبرلز، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے- انسانوں کا جھوٹا کھانے میں جراثیم اور بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں انکے لئے اور کتے بلی کا جھوٹا کھانے میں انسانیت- اپنے بچوں کو الگ کمرے میں سلائیں گے اور کتے کو اپنے ساتھ- دادا دادی نانا نانی امّاں ابّا کے لئے وقت نہیں ہوتا انکے پاس، کتے کو صبح ٹہلانے کے لئے وقت نکالنا تہذیب اور انسانیت ہے-
جنکو دین اور دینی ذمّہ داریوں سے بچنا ہوتا ہے وہ فورا یہ حدیث بیان کرکے کہتا ہے کہ دیکھو الله اپنے حقوق معاف کردے گا لہٰذا ہمیں بندوں کو خوش رکھنا ہے کیونکہ انکی خوشی اہم ہے- اور ذرا ان لبرلز سے یہ تو پوچھیں کہ بندوں کے حقوق کہتے کسے ہیں اور انہیں کس طرح پورا کیا جاتا ہے-
اور یہی تو الله نے کہا ہے قرآن میں کہ قیامت کے دن ماں باپ بہن بھائی دوست رشتہ دار سب خود غرض بن جائیں گے اور چاہیں گے کہ خود کو آگ سے بچنے کے لئے دوسروں کو آگ میں پھنکوا دیں- انسان کی تعریف جو الله نے قرآن میں بیان کی ہے وہ ہے ہی ساری کی ساری منفی سواۓ اس کے جو قرآن و حدیث کے مطابق عمل کر لیں-
اگر واقعی ان کی یہ تشریح درست ہے اور انسان اتنا ہی انسان کی خوشیوں کا خیال رکھ رہا ہے تو اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ امن اور خوشحالی ہونی چاہیے- کیونکہ ہر کوئی ہر کسی کا خیال رکھ رہا ہے، ہر کوئی حق پر ہے، ہر کوئی خوش اخلاق اور با حیا ہے- انسانی تاریخ میں جتنے خیراتی ادارے آج ہیں کبھی نہیں تھے- پاکستانی قوم دنیا میں سب سے زیادہ خیرات دینے والی قوم ہے- سب سے اعلی خاندانی نظام پاکستان میں ہے- رسول الله نے تو ایک بھی خیراتی ادارہ نہیں بنایا تھا ساری کی ساری ذمّہ داری حکومت کی ہوتی تھی- اور اعلی خاندانی نظام یہ تھا کہ کوئی بلاوجہ کسی کے گھر یا زندگی میں مداخلت نہیں کرتا تھا-
اسی ایک حدیث کے بل پر ہم دوسروں کو بلیک میل کرکے اپنے کام نکلوالیتے ہیں کہ تمھاری نمازوں اور روزوں کا کوئی فائدہ نہیں اگر تم مجھے خوش نہ رکھ سکے اور میری فرمانبرداری نہیں کی- اور پھر وقت پڑنے پر دوسرے ہمیں بلیک میل کر رہے ہوتے ہیں- وہ جو دوسروں کے لئے کچھ کر جاتے ہیں یا کر رہے ہوتے ہیں بالآخر اخلاقیات کے بوجھ تلے تھک کرشکایتیں کر رہے ہوتے ہیں یا پھر افسوس کہ ہو کیا رہا ہے-
اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ بہت سی دینی کتابوں میں اور خود دینی علماء کے مطابق حقوق دو قسم کے ہوتے ہیں- ایک الله کے حقوق اور دوسرے اسکے بندوں کے حقوق اور پھر بندوں کے حقوق کے مختلف روپ- عام انسان خود کو دوراہے پر کھڑا محسوس کرتا ہے کہ آیا وہ ہر وقت نمازیں اور قرآن پڑھتا رہے یا پھر گھر، خاندان اور معاشرے کی ذمّہ داریاں نبھاۓ- جو کرے اسکے دل میں ایک کھٹکا سا ہوتا ہے کہ وہ کون سا کام غلط کر رہا ہے اور کون سا صحیح- بہت سے نوجوان اور جوان اس بحث سے گھبرا کر کہ کون صحیح ہے کون غلط- سب کچھ چھوڑ دیتے ہیں اور جو انکا دل چاہتا ہے کرتے پھرتے ہیں-
اور انجام اس وضاحت کا یہ ہوا کہ دینی انتہا پسند اور دنیاوی انتہا پسند- دونوں نے اپنا اپنا ملاکھڑا شروع کررکھا ہے- اور اس بحث میں الجھا کر دین اور حقوق دونوں کا بیڑا غرق کردیا ہے- ایک گروپ بندوں کی نفی کررہا ہوتا ہے اور الله کے طرف سے دیے ہوۓ اختیارات بھی ان سے چھین لیتا ہے تو دوسرا الله اور رسول کے احکامات کی نفی کر رہا ہوتا ہے سواۓ اس حدیث کے- اور اسطرح اپنی من پسند دنیا کے لئے جواز فراہم کرتا رہتا ہے- اور ساتھ ہی الله کی قائم کی ہوئی حدوں کو بھی توڑتا رہتا ہے-
میں سالوں ان تمام مسائل سے نہ صرف پریشان رہی بلکہ الله سبحانہ و تعالی سے خفا بھی کہ یہ کیا نا انصافی ہے- کس قسم کا دین آپ نے مجھ پر مسلّط کر دیا ہے- مجھے یہ سمجھ ہی نہیں آتی تھی کہ دین تو سیدھا سادھا ہے ہم خود ٹیڑھے دماغ کے ہیں- الله بھلا کرے ان ہزاروں لوگوں کا جنہوں نہ جانے انجانے میں الله کی حکمت کا چراغ بن کر میری رہنمائی کی- الله خود زمین پر نہیں اترتا لیکن اسکی کائنات اسکے اختیار میں ہے اور اس میں سے جس عنصر کو جب چاہے کسی کی رہنمائی کا وسیلہ بنادے- یہ اسکے کام ہیں- میں الله کی زمین میں سفر نہ کرتی تو ان لوگوں سے ملاقات بھی مشکل تھی اور ان سے سیکھنا بھی اور ذہن کا کھلنا بھی-
قرآن کی ایک سورہ ہے "سورہ الاخلاص"- جو کہ قرآن کا ایک تہائی کہلاتا ہے کیونکہ اسلام کے تین بنیادی جزو یعنی ایمان باللہ ، ایمان بالرسل اور ایمان بالآخرہ میں سے ایک ا"ایمان باللہ" س میں بیان کیا گیا ہے-
"شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے- کہو کہ الله ایک ہے- الله بے نیاز ہے- نہ اس نے ہرگز کوئی بیٹا جنا اور نہ وہ ہرگز کسی کہ بیٹا ہے- اور ہرگز نہ کوئی (اسکے جیسا) اسکا ہمسر (برابری) کرنے والاہے"-
سورہ الاخلاص
اس سورہ پر میرے ایمان کے مطابق اگر الله کی ذات میں برابری نہیں، صفات میں برابری نہیں تو حقوق میں بھی کوئی برابری نہیں- اس کائنات میں صرف ایک ہی حق ہے اور وہ ہے الله- اور الله کا حق ہی تمام حقوق کا مجموعہ ہے- اور یہی فرق ہے بنیادی طور پر اسلام میں دوسرے مذاہب میں- دوسرے مذاہب میں مذہب الگ ہے دنیا الگ- مذہبی رسومات کے لئے دن اور موقع مقرّر ہیں اور پھر اپنی ایک الگ زندگی- مذہبی لوگوں کی ایک مخصوص جگہ یعنی کہ عبادت گاہیں جب پر انکا قبضہ ہوتا ہے اور دنیاوی لوگوں کے لئے باقی زمین کے حصّے- جبکہ اسلام میں دین اور دنیا ایک ہی ہیں- اسلام میں مسجد کسی مولوی اور عالم کی میراث نہیں کہ وہ اپنے فرقے کے نام پر عبادت گاہ بناۓ اور اس پر اپنے فرقے کے امراء اور حکماء کی راجدھانی قائم کرے- اور ہوتا یہ ہے کہ مسجھ کو الله سے چھین کر اپنے اپنے علماء اور مولویوں کے حوالے کرنے سے لبرلز اور اسلام کے دشمن زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں- اور اسلام کو بدنام کرتے ہیں- مسجد الله کا گھر ہے جس پر ہر مرد و عورت کا حق ہے الله کی مقرّر کی ہوئی حدود کے مطابق-
"نہیں پیدا کیا ہم نے جن و انس کو مگر صرف اسلئے کہ وہ میری عبادت کریں"- سورہ الذّاریات
جسطرح مسجد الله کی ہے اسی طرح ہر جگہ، ہر ملک اور ہر شہر الله کا ہے- اور دن رات کے چوبیس گھنٹے بھی الله کے ہیں- لہٰذا اس قرآنی آیت کے مطابق انسان کا ہر پل الله کی اطاعت میں گزرنا چاہیے- اور دین و دنیا کے الگ الگ فلسفے کا فساد یہ ہونے نہیں دیتا-
الله کی ذات کے مقابل کوئی ذات نہیں- الله کے حق کے مقابل کوئی حق نہیں-
الله کی عبادت کا کیا مطلب ہے الله کی بات ماننا- الله کا حق چوبیس گھنٹے کا ہے لہٰذا چوبیس گھنٹے اسکی بات ماننا- اور اس حق کو ادا کرنے کے خود الله سبحانہ و تعالی نے دو طریقے وضع کئے ہیں- ایک براہ راست طریقہ جسے "عبادت" کہتے ہیں اور دوسرا غیر براہ راست طریقہ یعنی اسکی پیدا کی ہوئی چیزوں کے حقوق یا سیدھے اور سادے الفاظ میں دیکھ بھال- تو چوبیس گھنٹے اسکی عبادت میں گزارنے کا مطلب ہے دونوں یعنی براہ راست اور غیر براہ راست طریقوں سے اسکا حق ادا کرنا-
الله کے حق کو براہ راست ادا کرنے کا طریقہ ہیں براہ راست عبادات- چوبیس گھنٹے میں پانچ فرض نمازیں، سال میں انتیس یا تیس دن رمضان کے روزے، سال میں ایک مرتبہ زکواة اگر اتنا مال بچ گیا ہے، زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ حج اگر تمام شرائط پوری ہوتی ہوں تو- اسکے علاوہ قرآن کی تلاوت، قرآن پر غور و فکر- الله کر ذکر و تسبیحات- آخرت میں ان سب کا احتساب ہوگا-
الله کا غیر براہ راست حق ادا کرنے کا طریقہ غیر براہ راست عبادات- یعنی ماں باپ کا حق، بہن بھائیوں کا حق، اولاد کا حق، بیوی کا حق، شوہر کا حق، میکےکا حق، سسرال کا حق، رشتہ داروں کا حق، پڑوسیوں کا حق، اساتذہ کا حق، طالبعلموں کا حق، جانوروں کا حق، پھول پودوں کا حق، پھلوں اور سبزیوں کا حق، راستوں کا حق، پانی کا حق، ہوا کا حق، استعمال کی چیزوں کا حق، وغیرہ وغیرہ- یہ سب بھی الله کی عبادت کا ہی حصّہ ہے اور اس عبادت کا احتساب بھی ہے-
نماز کے وقت نماز پڑھ لی الله کا حق ادا ہوا- اسکے اگلے لمحے بھی الله کا حق جاری ہے- کیونکہ شاید ماں نے اپنے بچوں کو کھانا دینا ہے یا باپ نے اپنے والد کی دوا لانی ہے یا استاد نے اپنے طالبعلموں کے لئے ریسرچ کرنی ہے یا بہن نے بھائی کے کپڑے استری کرنے ہیں یا بھائی نے بہن کے لئے چاٹ لانی ہے یا پھر دادا نانا کو اخبار پڑھ کر سنانا نے یا پھر محلّے میں کسی کی مدد کی ضرورت ہے یا پھر گھر والوں کے لئے بستر لگانا ہے- ان سب کاموں کا صلہ بھی تو الله ہی نے دینا ہے-
کتاب پڑھنا، کمپیوٹر پر کام کرنا، گھر بنانا، فرنیچر بنانا، کھانا پکانا، کپڑے دھونا، نقصان دہ کیڑے مکوڑے مارنا، گھر صفائی رکھنا، مکڑی کے جالے ہٹانا، چادریں تکیے دھونا، کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونا، برتن دھونا، کسی کو پانی پلانا، کسی کو کھانا کھلانا،کسی کے لئے سوپ بنادینا، کسی کو کپڑے پہنانا، کسی کے کام میں مدد کرنا، راستے سے نقصان دہ چیز ہٹانا، راستے میں نہیں تھوکنا، کوڑا نہ پھینکنا، قطار میں کھڑا ہونا، اپنی باری کا انتظار کرنا، گاڑی احتیاط سے چلانا، دروازے پر دستک دینا، چیزوں کو آہستہ نرمی سے اٹھانا اور رکھنا- اور پتہ نہیں کیا کیا- ہزاروں لاکھوں کام ہی ہیں اور اگر الله کا تصور ذہن میں رکھ کر اسکی خوشی کے لئے کیے جائیں تو عبادت بھی-
اصل ایمان الله کے حق کے ان دونوں طریقوں میں توازن قائم رکھنا ہے- اور یہ کسی سائنسی فارمولے کے تحت نہیں ہوتا- کسان کے لئے کھیتی پر توجہ دینا عبادت ہے کیونکہ اس کے ذریعے لاکھوں لوگوں کا رزق ان تک پہنچتا ہے- ان کو حقیر سمجھنے والے خود اپنے رزق کا دروازہ بند کرتے ہیں- اساتذہ پر علم پر توجہ دینا لازمی ہے کیونکہ انکے ذریعے لاکھوں انسانوں نے صحیح فہم و تدبّر سیکھنا ہوتا ہے- جمعدار اگر سیٹھ بن جاۓ تو سارے سیٹھوں کو جمعدار بننا پر جاۓ- ہرمرد جہاد نہیں اور نہ ہی عالم بن سکتا ہے- ہرعورت نہ چاند بی بی یا رضیہ سلطانہ ہو سکتی ہے اور نہ امراؤ جان ادا یا ثریا بھوپالی- الله نے ہر ایک کی زندگی کی آزمائشیں اور حالات انفرادی بھی رکھے ہیں اور اجتماعی بھی- انکو انفرادی طور پر اجتماعی طور حکمت کے ساتھ بسر کرنا ہی صلاحیت ہے- ہر ایک کو بلاوجہ اس آزادی کی راہ دکھانا جس کی نہ اسے تمنّا ہو نہ اہلیت بھی ایک فساد کھڑا کرنا ہے- اگر الله کے بتاۓ ہوۓ طریقوں کو خود سمجھیں تو نہ کوئی کسی کا فائدہ اٹھاۓ اور نہ کوئی کسی سے نقصان-
حقوق کا پورا کرنا عدل ہے- ہم حقوق میں ہیرا پھیری کرتے ہیں اپنے اور یہی ظلم ہے- جس کی سزا ہم سب بھگت رہے ہیں-
رسول الله نے فرمایا کہ "گناہ وہ ہے جو تیرے دل کو کھٹکے"-
اسی بات کو علامہ اقبال نے س طرح فرمایا کہ
پوچھ اس سے کہ مقبول ہے فطرت کی گواہی
تو صاحب منزل ہے کہ بھٹکا ہوا رہی
دل کی گواہی مقبول ہوتی ہے- کبھی کسی وقت سارے انسانوں کو، انکے الفاظ کو، انکے طریقوں کو ذہن سے نکال کر صرف اپنے دل سے پوچھیں کہ
"بتا تیری رضا کیا ہے"-