Showing posts with label خوشحالی کی راہ. Show all posts
Showing posts with label خوشحالی کی راہ. Show all posts

Friday 14 March 2014

خوشحالی کی راہ


امّت کے ابتدائی حصّے کی اصلاح کے لئے پہلا قدم تھا امن کا قیام -  ایک انسان کو دوسرے انسان کے شر سے محفوظ کردینا چاہے پہلا انسان کتنا ہی مجبور، بے بس اور مسکین ہو اور دوسرا کتنا ہی خوشحال اور خود مختار-  بے بس، مجبور اور مسکین فاقوں اور بد حالی کا عادی ہوتا ہے- اسکے لئے سب سے بڑی کشش عزت اور اسکی پہچان ہوتی ہے-  جبکہ امراء کو اسکی پرواہ نہیں ہوتی-  حضرت بلال اور دوسرے غلاموں اور مسکینوں کو یہ عزت اور مساوات ہی رسول صلی الله علیہ وسلّم کی صحبت میں کھینچ کھینچ کر لاتی تھی-  

امن کے بغیر خوشحالی ممکن نہیں- 

خوشحالی کسے کہتے ہیں؟  خوشحالی کی تعریف انفرادی طورپر کیا ہے؟ عام طور پر خوشحالی سے مراد مالی اور معاشی بہتری لی جاتی ہے کہ انسان کی بے شمار خواہشوں کا  پورا ہونا اور وہ بھی اس طرح کہ ایک زمانہ اس پر گواہ ہو-  بادشاہ، شہنشاہ، سلطان، صدر، امیر، سیٹھ، صاحب, جیسے کچھ القابات خوشحالی اور خوش قسمتی کی علامت سمجھے جاتے ہیں- اسکے بعد وہ حالات جس میں ایک انسان کے پاس اوروں کے مقابلے میں ہر قسم کے رزق کی بہتات ہو-  اسکے پاس ہزار گز کا گھر، ایک سے زیادہ سواریاں، نوکر چاکر اور کروڑوں کا کاروبار ہو- گھر کی خواتین کے پاس کروڑوں کے زیورات ہوں- بیٹے بھی ہوں، عزت دینے والے دوست رشتہ دار بھی ہوں-سماجی حلقوں میں نام بھی ہو- جب چاہے جہاں چاہے جا سکے، جو دل چاہے کھا سکے، جو دل چاہے پہنے- اسکے فیصلوں کو خاندان میں اور جاننے والوں میں ترجیح دی جاۓ-  وغیرہ وغیرہ 

مالی اور معاشی خوشحالی کی انفرادی تعریف تمام خزانوں کے مالک الله عز و جل کے مطابق یہ ہے- 

"بیشک الله جسے چاہتا ہے بے شمار رزق دیتا ہے" 
سوره آل عمران 

"اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے-
اور یہ کہ اس کی کوشش دیکھی جائے گی" 
سوره النجم 

 "اور رشتہ داروں اور محتاجوں اور مسافروں کو ان کا حق ادا کرو۔ اور فضول خرچی سے مال نہ اُڑاؤ- کہ فضول خرچی کرنے والے تو شیطان کے بھائی ہیں۔ اور شیطان اپنے پروردگار (کی نعمتوں) کا کفر ان کرنے والا (یعنی ناشکرا) ہے- اور اگر تم نے اپنے پروردگار کی رحمت (یعنی فراخ دستی) کے انتظار میں جس کی تمہیں امید ہو ان (مستحقین) کی طرف توجہ نہ کرسکو اُن سے نرمی سے بات کہہ دیا کرو-  اور اپنے ہاتھ کو نہ تو گردن سے بندھا ہوا (یعنی بہت تنگ) کرلو (کہ کسی کچھ دو ہی نہیں) اور نہ بالکل کھول ہی دو (کہ سبھی دے ڈالو اور انجام یہ ہو) کہ ملامت زدہ اور درماندہ ہو کر بیٹھ جاؤ- بےشک تمہارا پروردگار جس کی روزی چاہتا ہے فراخ کردیتا ہے اور (جس کی روزی چاہتا ہے) تنگ کردیتا ہے وہ اپنے بندوں سے خبردار ہے اور (ان کو) دیکھ رہا ہے- اور اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل نہ کرنا۔ (کیونکہ) ان کو اور تم کو ہم ہی رزق دیتے ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت گناہ ہے- " سورہ بنی اسرئیل 

خوشحالی کی حد انفرادی طور پر کیا ہے؟  خوشحالی کی حد یہ ہے کہ الله عز و جل نے جو کچھ عطا کیا ہے وہ خود اسکی ذات، اسکے رسول اور اسکی راہ میں کوششوں سے زیادہ عزیز نہ ہو جاۓ- 

"کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور بیٹے اور بھائی اور عورتیں اور خاندان کے آدمی اور مال جو تم کماتے ہو اور تجارت جس کے بند ہونے سے ڈرتے ہو اور مکانات جن کو پسند کرتے ہو الله اور اس کے رسول سے اور خدا کی راہ میں جہاد کرنے سے تمہیں زیادہ عزیز ہوں تو ٹھہرے رہو یہاں تک کہ الله اپنا حکم بھیجے۔
اور الله نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا" 
سوره التوبہ 

"کہہ دو کہ ہم تمہیں بتائیں جو عملوں کے لحاظ سے بڑے نقصان میں ہیں-
وہ لوگ جن کی سعی/کوشش دنیا کی زندگی میں برباد ہوگئی۔ اور وہ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ اچھے کام کر رہے ہیں- یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیتوں اور اس کے سامنے جانے سے انکار کیا تو ان کے اعمال ضائع ہوگئے اور ہم قیامت کے دن ان کے لئے کچھ بھی وزن قائم نہیں کریں گے-" 
سورہ الکھف 

خوشحالی کی تعریف اجتماعی طور پرکیا ہے؟ ایک ایسا نظام جس میں ہر کوئی انفرادی طور پر دولتمند ہو- جس کا جو دل چاہے کرے- علاقے، شہر یا ملک یا ریاست یا سلطنت میں کھانوں، کپڑوں، زیوارت، اور ہر قسم کے رزق کی بہتات ہو-  یہ ایک تصوّراتی نظام ہے ہے- جسکا دنیا میں قیام نا ممکن نظر آتا ہے- دنیا کی کون سی حکومت یا ریاست یا سلطنت ہے جو اپنے عوام کو ایسا نظام دے کہ ہر ایک پاس بنگلہ ہو، گاڑی ہو، نئی سے نئی سہولت ہو، اتنی تنخواہ ہو کہ بچوں کو سب سے منہگے اسکول میں تعلیم دلواۓ اور جو چاہے کھاۓ اور ہر سال کسی نہ کسی ملک کی سیر کو جاۓ اور کپڑے بھی بہترین پہنے، وغیرہ وغیرہ- وہ حکومتیں جو الله کے وجود پر یقین نہیں رکھتیں اور انسان کی قابلیتوں، صلاحیتوں اور آپس کے تعلقات پر مبنی نظام یعنی جمہوریت پر یقین رکھتی ہیں- وہ کس طرح اپنی محدود قابلیتوں، صلاحیتوں کے بل پر ایک ایسا تصوراتی نظام قائم کر سکتیں ہیں-  ایک نا ممکن بات ہے- 


"جو مال الله نے اپنے پیغمبر کو دیہات والوں سے دلوایا ہے وہ الله کے اور پیغمبر کے اور قرابت والوں کے اور یتیموں کے اور حاجتمندوں کے اور مسافروں کے لئے ہے۔ 
تاکہ مال جو لوگ تم میں دولت مند ہیں ان ہی کے ہاتھوں میں نہ پھرتا رہے۔
سو جو چیز تم کو پیغمبر دیں وہ لے لو۔ اور جس سے منع کریں (اس سے) باز رہو۔ 
اورالله سے ڈرتے رہو۔ بےشک الله سخت عذاب دینے والا ہے"
سورہ الحشر 

اجتماعی خوشحالی کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ معاشرے میں ایسے افراد کا ہونا جو جس حال میں بھی ہوں اور جو کام کریں اس میں خوشی، مزہ اور اطمینان محسوس  کریں-اور اس سے دوسروں کی بھلائی بھی مقصود ہو- انکی طبیعت میں بخل نہ ہو- دنیا میں مسلمان اور غیر مسلمان معاشروں میں بہت سے ایسے لوگ گذرے ہیں اور آج بھی موجود ہیں جن کے نزدیک خوشحالی کا یہ مطلب مال اور معاش سے بڑھ کر ہے-  سدھارتھ اپنا محل اور بادشاہت چھوڑ کر اپنے ذہن میں اٹھنے والوں سوالوں کا جواب تلاش کرنے نکل کھڑا ہوا اور سالوں زمینوں کی خاک چھاننے کے بعد سکون اور اطمینان کے لئے انسانی فطرت کے چند راز جان کر واپسپلٹا- نیلسن منڈیلا اور مارٹن لوتھر کنگ جیسے بہادر، تعلیم یافتہ اور با شعور لوگوں میں کیا وہ صلاحیتیں موجود نہیں تھیں کہ وہ دولت کما کر دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہو جاتے- حضرت لقمان نہ پیغمر تھے نہ رسول- لیکن الله نے انکی فطرت پر کی گئی تربیت کا ذکر قرآن میں کیا ہے- عبد الستار ایدھی اور مرحوم عبد الرزاق یعقوب میں کیا فرق ہے- ایک کے پاس اپنی دولت اور دوسرا عبد الرزاق یعقوب جیسے ہزاروں لوگوں کی دولت کا امین اور اس کی معاشرے میں صحیح تقسیم کے لئے کوشاں- حضرت علامہ اقبال رحمہ الله علیہ کو کس چیز نے پی ایچ ڈی ہونے کے باوجود دولت اور دنیاوی رتبے کمانے سے دور رکھا- قائد اعظم رحمہ الله علیہ کو کس جذبہ نے دولت سے قیادت کا راستہ دکھایا-  حالانکہ انکی اولادیں تو لاکھوں میں کھیل رہی ہیں- حضرت خدیجہ رضی الله عنھا، فاطمہ الزہرہ رضی الله عنھا، زینب الغزالی، حضرت فاطمہ جناح رحمہ الله علیھا، صحابہ کرام، تحریک پاکستان کے اراکین، بلقیس ایدھی، مدر ٹریسا کے لئے کیا قدرت نے عیش و عشرت کے دروازے بند کر رکھے تھے-  اور یہ پاکستان کے فوجی- کیا انہوں نے اور انکے ماں باپ نے ٹھیکہ لیا ہے پاکستان کی حفاظت کا- کیا انکے پاس کوئی اور چوائسز نہیں ہیں زندگی گزارنے کے لئے- کیوں یہ اسقدر مشققتیں اٹھاتے ہیں چند ہزار کی تنخواہ کے عوض- کیا انکی ماؤں کو اپنے بیٹوں سے محبّت نہیں ہوتی- اور بھی ہزاروں نام اور مثالیں ہوں گی- 

یہ وہ لوگ تھے اور ابھی بھی ایسے بہت ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے مواقعوں کو دولت، عزت، شہرت کے حصول کے بجاۓ اس مقصد پر لگادی جس نے انکے نفس کو اس بات پر مطمئن کردیا کہ وہ صحیح راہ پر ہیں- اور انکی نیّت خیر و بھلائی کے سوا کچھ نہ تھی- تو الله نے انکے نفوس میں اطمینان اور خوشی بھر دی- 


"اے اطمینان پانے والی روح! اپنے پروردگار کی طرف لوٹ چل۔ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی-  تو میرے (ممتاز) بندوں میں شامل ہو جا- اور میری بہشت میں داخل ہو جا-" 
سورہ الفجر 

"الله ان سے خوش اور وہ اس سے خوش۔ یہ (صلہ) اس کے لیے ہے جو اپنے پروردگار سے ڈرتا رہا" 
سورہ البیّنه 

اور الله نے انکو نفس کے بخل سے پاک کردیا- اور یہ نفس کا بخل کیا ہے- کہ ہر عمل سے صرف میرے لئے خیر پیدا ہو اور دوسرے جائیں بھاڑ میں- جو میرے پاس ہے وہ کم نہ ہو اور بڑھتا ہی رہے- اور میرے ارد گرد کی دنیا کا مرکز صرف میری ذات ہو- باقی سب کچھ بھلا دیا جاۓ - 


 "اور جو شخص حرص نفس سے بچا لیا گیا تو ایسے لوگ مراد پانے والے ہیں" سورہ الحشر

"اور جو شخص طبعیت کے بخل سے بچایا گیا تو ایسے ہی لوگ راہ پانے والے ہیں" سورہ التغابن 

"اور باوجود یہ کہ ان کو خود طعام کی خواہش (اور حاجت) ہے
فقیروں اور یتیموں اور قیدیوں کو کھلاتے ہیں-
 (اور کہتے ہیں کہ) ہم تم کو خالص خدا کے لئے کھلاتے ہیں۔ نہ تم سے عوض کے خواستگار ہیں نہ شکرگزاری کے (طلبگار)" 
سورہ الدھر


مالی تباہی انفرادی طور پر
الله عز و جل نے فرمایا، 
"کہ ہم نے انسان کو تکلیف (کی حالت) میں (رہنے والا) بنایا ہے" 
سورہ الشمس 

لہذا یہ بات تو طے ہے کہ کوشش اور جدّ و جہد انسان کی زندگی کا حصّہ بھی ہیں اور اسکی فطرت کا بھی- یہودیوں کو بیٹھے بیٹھے من و سلوی ملا تو وہ اکتا گۓ اور فرمائش کردی کہ ہم تو خود اگا کر کھائیں گے- انسان کو کیونکہ وہی ملتا ہے جس کی وہ خواہش یا نیّت کرے- لہٰذا جو انسان کی اندگی کا مقصد "روٹی، کپڑا اور مکان" بن جاۓ تو قدرت بھی اسے انہی چکّروں میں بھٹکا ۓ رکھتی ہے-  جو شہادت کی تمنّا کرتے ہیں انکے لئے شہادت کی راہ ہموار کردیتی ہے- جو علم و آگہی کے لئے نکلے ان پر فطرت کے راز آشکار کر دیتی ہے- جو بدی میں بھٹکنا چاہیں تو انھیں وہی سامان فراہم کر دیتی ہے-  
اسلئے مال کی بے برکتی کا تعلق انسان کے ارادے، نیّت اور خواہشات سے ہوتا ہے-  


 "تمہارا مال اور تمہاری اولاد تو آزمائش ہے۔ " سوره التغابن 


"اور ان سے دو شخصوں کا حال بیان کرو جن میں سے ایک ہم نے انگور کے دو باغ (عنایت) کئے تھے اور ان کے گردا گرد کھجوروں کے درخت لگا دیئے تھے اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی- دونوں باغ (کثرت سے) پھل لاتے۔ اور اس (کی پیداوار) میں کسی طرح کی کمی نہ ہوتی اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی-  اور (اس طرح) اس (شخص) کو (ان کی) پیداوار (ملتی رہتی) تھی تو (ایک دن) جب کہ وہ اپنے دوست سے باتیں کر رہا تھا کہنے لگا کہ میں تم سے مال ودولت میں بھی زیادہ ہوں اور جتھے (اور جماعت) کے لحاظ سے بھی زیادہ عزت والا ہوں- اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ اور اگر میں اپنے پروردگار کی طرف لوٹایا بھی جاؤں تو (وہاں) ضرور اس سے اچھی جگہ پاؤں گا- تو اس کا دوست جو اس سے گفتگو کر رہا تھا کہنے لگا کہ کیا تم اس (خدا) سے کفر کرتے ہو جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفے سے پھر تمہیں پورا مرد بنایا- مگر میں تو یہ کہتا ہوں کہ خدا ہی میرا پروردگار ہے اور میں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا- اور (بھلا) جب تم اپنے باغ میں داخل ہوئے تو تم نے ماشاالله لاقوة الابالله کیوں نہ کہا۔ اگر تم مجھے مال واولاد میں اپنے سے کمتر دیکھتے ہو- تو عجب نہیں کہ میرا پروردگار مجھے تمہارے باغ سے بہتر عطا فرمائے اور اس (تمہارے باغ) پر آسمان سے آفت بھیج دے تو وہ صاف میدان ہوجائے- یا اس (کی نہر) کا پانی گہرا ہوجائے تو پھر تم اسے نہ لاسکو- اور اس کے میووں کو عذاب نے آگھیرا اور وہ اپنی چھتریوں پر گر کر رہ گیا۔ تو جو مال اس نے اس پر خرچ کیا تھا اس پر (حسرت سے) ہاتھ ملنے لگا اور کہنے لگا کہ کاش میں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناتا- (اس وقت) خدا کے سوا کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوئی اور نہ وہ بدلہ لے سکا" 
سورہ الکھف 

" ہم نے ان لوگوں کی اسی طرح آزمائش کی ہے جس طرح باغ والوں کی آزمائش کی تھی۔ جب انہوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ صبح ہوتے ہوتے ہم اس کا میوہ توڑ لیں گے- اور انشاء الله نہ کہا- سو وہ ابھی سو ہی رہے تھے کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے (راتوں رات) اس پر ایک آفت پھر گئی- تو وہ ایسا ہوگیا جیسے کٹی ہوئی کھیتی- جب صبح ہوئی تو وہ لوگ ایک دوسرے کو پکارنے لگے- اگر تم کو کاٹنا ہے تو اپنی کھیتی پر سویرے ہی جا پہنچو- تو وہ چل پڑے اور آپس میں چپکے چپکے کہتے جاتے تھے- آج یہاں تمہارے پاس کوئی فقیر نہ آنے پائے- اور کوشش کے ساتھ سویرے ہی جا پہنچے (گویا کھیتی پر) قادر ہیں- جب باغ کو دیکھا تو (ویران) کہنے لگے کہ ہم رستہ بھول گئے ہیں- نہیں بلکہ ہم (برگشتہ نصیب) بےنصیب ہیں- ایک جو اُن میں فرزانہ تھا بولا کہ کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم تسبیح کیوں نہیں کرتے؟- (تب) وہ کہنے لگے کہ ہمارا پروردگار پاک ہے بےشک ہم ہی قصوروار تھے- پھر لگے ایک دوسرے کو رو در رو ملامت کرنے- کہنے لگے ہائے شامت ہم ہی حد سے بڑھ گئے تھے- امید ہے کہ ہمارا پروردگار اس کے بدلے میں ہمیں اس سے بہتر باغ عنایت کرے ہم اپنے پروردگار کی طرف سے رجوع لاتے ہیں- (دیکھو) عذاب یوں ہوتا ہے۔ اور آخرت کا عذاب اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ کاش! یہ لوگ جانتے ہوتے- " 
سورہ القلم 


خوشحالی قائم رکھنے کے طریقے

خوشحالی قائم رکھنے کے عام دنیاوی طریقے تو یہی ہیں کہ کمانے کے مختلف ذرائع اور مواقع پیدا کئے جائیں- اور اسے اپنی صلاحیتوں سے اور محنت سے بڑھایا جاۓ- کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کمایا جاۓ- ایک گھر کے سب افراد کمائیں تو خوشحالی آجاۓ گی- اور پاکستان میں اسی فلسفے پر عمل کرتے ہوۓ غریب طبقہ اپنے بوڑھوں سے  لے کر بچوں تک کو کام سے لگا دیتا ہے- لیکن انکے ہاں پھر بھی خوشحالی نہیں آتی- 

خوشحالی کو جاری رکھنے کے کچھ اسلامی طریقے بھی بتاۓ گۓ ہیں- 

رسول صلی الله علیہ وسلّم نے فرمایا کہ "جو چاہتا ہے کہ اسکی عمر زیادہ ہو اور اسے فراخی نصیب ہو تو اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے" (یعنی خون کے رشتوں کے ساتھہ اچھا سلوک کرے-)

اسی طرح ایک اور حدیث کے الفاظ کے مطابق جو چاہتا ہو کہ اس پر دنیا کی نعمتیں کھول دی جائیں تو وہ ماں باپ کے ساتھہ اچھا سلوک کرے- 

"اور جب تمہارے پروردگار نے (تم کو) آگاہ کیا کہ اگر شکر کرو گے تو میں تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو (یاد رکھو کہ) میرا عذاب بھی سخت ہے" سورہ ابراہیم 

"اور کہا کہ اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے- وہ تم پر آسمان سے لگاتار مینہ برسائے گا- اور مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد فرمائے گا اور تمہیں باغ عطا کرے گا اور ان میں تمہارے لئے نہریں بہا دے گا- تم کو کیا ہوا ہے کہ تم الله کی عظمت کا اعتقاد نہیں رکھتے-" 
سورہ نوح 

"اور (اے پیغمبر) یہ (بھی ان سے کہہ دو) کہ اگر یہ لوگ سیدھے رستے پر رہتے تو ہم ان کے پینے کو بہت سا پانی دیتے-" 
سورہ الجن 


صدقات و خیرات کے اثرات 


صدقات و خیرات صرف انسان کا پیٹ بھرنے کو نہیں کہتے بلکہ حیوانات اور نباتات کی دیکھ بھال اور انکے ساتھ نیک برتاؤ بھی اس زمرے میں آتا ہے- حتّی کہ گھر سے باہر کی صفائی ستھرائی بھی-  

رسول الله صلی علیہ وسلّم کی حدیث ہے کہ
 "راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹا دینا بھی صدقہ ہے_"  
"اچھی بات کہنا بھی صدقہ ہے-"

یہ دونوں صدقے کوئی نہیں کرنا چاہتا- لوگ بھی سوچتے ہیں کہ چلو کما کر تو دو روٹی بھی نہیں ملے گی اور عزت تو ویسے ہی ہمارے ہاں کوئی کسی کی نہیں کرتا لہٰذا مسکینیت ٹھیک ہے کہ ایدھی اور دوسرے اداروں میں بکروں کا گوشت تو مل جاتا ہے دونوں وقت اور ساتھہ میں ہمدردیاں بھی- 

عام مزاج بھی یہی ہے کہ جو کچھ بیچ رہا ہے اس سے کوئی پانچ روپے کی چیز نہیں خریدے گا اور بھیک میں دس، بیس روپے دے دیں گے- تو ایسے معاشرے میں کسی عام آدمی کی ترجیح کیا ہوگی-  

الله جانے کن نہ معلوم وجوہات کی بناء پر دنیا کے اسلامی معاشروں میں زكواة سے زیادہ فضیلت صدقات و خیرات کو دی جاتی ہے- مسجدوں سے صدقات و خیرات کے اعلانات تو ہوتے ہیں-  لیکن کبھی زكواة پر خطبات نہیں ہوتے اور نہ یہ بتایا جاتا ہے کہ زكواة اسلام کا ایک ستون تو ہے ہی لیکن اسکے ساتھہ نفاذ شریعت کا سب سے بنیادی نکتہ بھی ہے-  سزاؤں کا نفاذ نہ تو شریعت کا مقصود ہے اور نہ اسلام کی روح-  سزاؤں کے نفاذ سے پہلے تزکیہ نفس اور تربیت نفس ضروری ہے-  تاکہ سزا دینے والے محرکات اور وجوہات کم سے کم ہو جائیں- 

اسی طرح صدقات و خیرات پر مشتمل نظام بھی اسلام کا مقصود نہیں- کیونکہ یہ نظام کچھ لوگوں کی ہمدردی اور غرباء پروری سے شروع ہوتا ہے اور اس میں پہلے ایک انسان دوسرے انسان پر اور آہستہ آہستہ ایک طبقہ دوسرے طبقے پر انحصار کرنے لگتا ہے-  اور رفتہ رفتہ ایک بڑی اکثریت اپنی عزت نفس کھو کر سہل پسندی، کام چوری، اور مفت خوری کی عادی ہو جاتی ہے-  اور دوسری جانب کچھ لوگوں کی ضرورت سے زیادہ ہمدردی رفتہ رفتہ عبادت سے زیادہ ایک روایت اور ایک فیشن بن جاتی ہے- اور بہت سے امراء پر بلاوجہ کا بوجھ بھی- کہ وہ زكواة بھی دیں اور پھر کروڑوں لوگوں کی بنیادی ضروریات کے لئے لاکھوں کے عطیات دیں- آج اسلامی معاشروں کو دیکھیں تو جتنے فلاحی اور خیراتی ادارے ہیں اس سے سو گنا زیادہ تعداد مستحقین کی ہے اور جو دن بدن بڑھتی جارہی ہے- 

احادیث کے مطابق اسلام کا بہترین زمانہ وہ ہوگا کہ لوگ زكواة لے کر پھریں گے اور کوئی زكواة لینے والا نہ ہوگا-  صدقات و خیرات تو دور کی بات ہے- 


نظام 
نظام کیا ہوتا ہے؟ مختلف صلاحیتوں اور قابلیتوں کے حامل لوگوں کاجمع ہو کرایک مقصد کے لئے کام کرنا اور وہ بھی اس طرح کہ لوگوں کی اکثریت پر اسکے اچھے یا برے اثرات ظاہر ہوں-   اجتماعی اثرات کے بغیر لوگوں کے اکھٹا ہو کر کام کرنے کو نظام نہیں کہا جا سکتا- نظام اچھا بھی ہو سکتا ہے اور برا بھی- جو لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی نظام نہیں وہ غلطی پر ہیں- پاکستان میں نظام ہے لیکن برا نظام- اور ایک بہت بڑی اکثریت اس نظام کو قائم رکھنے میں شریک ہے- اس کا ثبوت دن بدن بڑھنے والی افراتفری اور نا اہل لوگوں کی معاشرے میں زیادتی- جس جس گھر میں اسی گھر کے افراد اپنے ہی گھرکے ماں، باپ، بھائی، بہن، بیٹے، بیٹیوں پر بھروسہ نہ کرسکیں- ایک دوسرے سے شاکی ہوں، ایک دوسرے پر گھر صحیح طریقے سے نہ چلنے کے الزامات دیتے ہوں- تو یہ سب کے سب اس برے نظام کی پیداوار بھی ہیں اور اسے قائم رکھنے میں شریک بھی- 

اچھے نظام کی ظاہری نشانی یہ ہوتی ہے کہ لوگوں کی اکثریت خوش نظر آتی ہے، کام کرتی نظر آتی ہے- اچھے نظام کی روحانی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہاں قدرت اپنے خزانے انسانوں کے لئے کھول دیتی ہے- وہاں کی راتیں بھی دن کی طرح روشن ہوتی ہیں- 

برے نظام کی ظاہری نشانی معاشرے میں افراتفری، بھاگ دوڑ، الزامات، شکایتیں، توڑ پھوڑ، غصّے، لوٹ مار اور بھوک کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے-  یہاں تک کہ لوگ آپس میں ہی قتل و غارت شروع کر دیتے ہیں-  برے نظام کی روحانی علامت یہ ہے کہ وہاں ویرانی ہوتی ہے، وحشت ہوتی ہے، خوف ہوتا ہے، بے برکتی ہوتی ہے-  سورج، چاند، بادل، ہوائیں، دریا، موسم، سب دشمن بن جاتے ہیں- پھول نہیں کھلتے، پھل نہیں لگتے، پرندے کوچ کر جاتے ہیں-  



 خوشحالی کا نظام  " زكواة "
اسلام میں حکومتی سطح پر جو ٹیکس مسلمان عوام سے وصول کیا جاتا ہے اور کیا جانا چاہیے اسے شریعت میں " زكواة " کہتے ہیں-  زكواة اسلام کا ایک رکن ہے، واجب ہے اور عبادت بھی ہے-  یہ ایک مکمّل معاشی نظام ہے- قرآن میں کی جگہ زكواة کا ذکر نماز کے ساتھہ آیا ہے- جس طرح نماز ایک مسلمان کا جسمانی، روحانی اور سماجی نظام ترتیب دیتی ہے اسی طرح زكواة اسلامی مملکت یا حکومت یا ریاست کا معاشی اور انفرادی طور پر ہر مسلمان کا مالی نظام ترتیب دیتی ہے-  نماز جسمانی، روحانی اور سماجی سطح پر سکون و اطمینان پیدا کرتی ہے اور زكواة مالی خوشحالی کی ضامن ہے- اسکے مصارف بھی شریعت میں بیان کر دے گۓ ہیں- اور پاکستان کے تمام فرقوں کے علماء اور دینی گھرانے اس کا خوب علم بھی رکھتے ہیں-  

حضرت امام صادق نے فرمايا: جو شخص اپنے مال كي زكواة نہ دے وہ نہ مومن ھے اور نہ ھي مسلمان ھے- 
امام محمد باقر نے فرمايا: خداوندعالم نے قرآن مجيد ميں زكواة كو نماز كے ساتھ ذكر كيا ھے، جو شخص نماز پڑھے مگر زكواة نہ دے اس كي نماز قبول نھيں ھے- 
حضرت امام رضا فرماتے ھيں: اگر تمام لوگ اپنے مال كي زكواة ادا كرتے تو (دنيا) ميں كوئي فقير نہ ھوتا- 

پاکستان میں کیونکہ خواص میں الله کے خوف کی اور عوام میں ذوق و شوق کی کمی ہے لہذا سب منہگائی اور بے برکتی کا رونا تو روتے ہیں لیکن اسکے نہ تو اسباب پر غور کرتے ہیں اور نہ ہی ان اسباب کے سدّ باب پر- کبھی حکمرانوں پر سیاستدانوں کو اسکی وجہ قرار دیتے ہیں- اور کبھی یہ اعتراف کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں کہ کیا کریں لوگوں کے گناہوں کا نتیجہ ہے-  

پاکستان میں ایک تو حکومت آمدنی ٹیکس، جائیداد کا ٹیکس، پانی کا ٹیکس وغیرہ وصول کرتی ہے اور پھر رمضان میں زكواة بھی-  اور اسکے لئے بیت المال بھی بنایا ہوا ہے-  اسی لئے اکثر لوگ بنکوں میں اکاؤنٹ کھولتے وقت خود کو اہل تشیع لکھواتے ہیں تاکہ زكواة  نہ کاٹی جاۓ یا رمضان سے پہلے رقم نکلوالیتے ہیں-  پھر عوام انفرادی طور پر زكواة اور پھر سینکڑوں فلاح و بہبود اور خیراتی اداروں کو عطیات دیتے ہیں-  جس کا ایک مطلب یہ بھی ہوا کہ پاکستانیوں کے پاس دولت کی کمی نہیں-  صرف دولت کی گردش کا طریقه غلط ہے-  

میرے ساتھہ تو ظلم یہ بھی ہے کہ پچھلے چار سال سے میرے ہاں ٹیلیوژ ن نہیں ہے پھر بھی بجلی کے بل میں ٹی وی ٹیکس کے نام سے کچھ نہ کچھ رقم ادا کرنی پڑتی ہے-  

پہلی بات تو یہ کہ ایک اسلامی مملکت یا ریاست میں زكواة کے علاوہ حکومتی سطح پر جو ٹیکس لیا جاۓ وہ ظلم ہے- ایک اسلامی ریاست جس کے آئین میں لکھا ہو کہ اس ریاست کا نظام الله اور اسکے رسول صلی الله علیہ وسلّم کے بناۓ ہوۓ قوانین کے مطابق ہوگا-  اس کے چلانے والوں پر جائز نہیں کہ زكواة کے علاوہ کوئی اور ٹیکس وصول کریں- کیونکہ زكواة ہی کل معاشی اصلاح کے لئے کافی ہے-  اگر اسکے علاوہ کوئی ٹیکس ہوتا تو وہ بھی شریعت میں ذکر کر دیا جاتا- اور اسکی مثال خلفاء راشدین کے دور سے مل جاتی- گویا سیاست اور دین کو الگ کرکے سب سے زیادہ مزے میں تو اہل منصب لوگ ہی آگۓ تو پھر وہ کیوں اسلامی نظام کو نافذ کرنے کی کوشش کریں گے- ایسے ملک کی عوام دو حصّوں میں بٹ جاتی ہے- ایک حصّہ دولت جمع کرنے کے لئے دن رات ایک کرتا ہے اور پھر آتے دن اس دولت کا کافی حصّہ کسی نہ کسی شکل میں عطیہ کرتا رہتا ہے- عوام کا دوسرا حصّہ ان عطیات پر اپنی زندگی کا انحصار کر لیتا ہے-  اور حکومتی اراکین مزے سے اس کھیل سے لطف اندوز ہوتے ہیں- 

دوسری بات یہ کہ فلاحی کاموں کی ذمہ داری بھی اسلامی حکومت کا ذمّہ ہے نہ کہ مخیّر حضرات کا-  وہ انفرادی طور پر بھلائی کے کام کرسکتے ہیں ناگہانی آفات کے موقع پرامدادی کاموں میں حکومت کی مدد کر سکتے ہیں- 

پاکستان میں بے تحاشہ فلاحی اور خیراتی اداروں کے قیام نے ایک تو حکومت کو بد عنوانیوں کی کھلی چھوٹ فراہم کی ہوئی ہے اور دوسرے تمام تر ذمّہ داریوں سے نجات بھی دلوادی ہے - لوگ ہر مصیبت میں انہیں اداروں اور مخیّر حضرات کی طرف دیکھتے ہیں اور انہی سے بھلائی کی توقع رکھتے ہیں اور مزے کی بات کہ انہی پر بدنیّتی اور بد عنوانیوں کے الزامات بھی لگا دیتے ہیں- لوگوں کی توجہ اس طرف جاتی ہی نہیں کہ یہ تو ساری کی ساری ذمّہ داری ہے ہی حکومت کی- اور نہ ہی وہ حکومت سے کوئی حساب مانگتے ہیں- سیاستدانوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستانیوں کی ہمدردی اور انسانیت کے جدبہ کو کس طرح اور کس موقع پر کیش کرا کر اپنی جان اور دولت نہ صرف بچائی جاسکتی ہے بلکہ اس میں اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے-  اسی لئے انکے لئے سیاست ایک بہت منافع بخش کاروبار ہے- جو لوگ سیاست دانوں کا گلہ کرتے ہیں وہ اپنے گریبان میں جھانکیں کہ کتنے کام وہ عام خیر و بھلائی کی نیّت سے کرچکے ہیں اور کتنی مرتبہ خود کو اپنے فرقے، اپنی زبان، اپنی نسل، اپنے عقیدے کی قید سے آزاد کرکے عدل کی بنیاد پر لوگوں میں یا اپنے خاندانوں اور رشتہ داروں میں فیصلے کرا چکے ہیں- کتنی مرتبہ الله کی محبّت میں روایات اور ثقافت کی دیواریں گرا کر فطرت کی بنیادوں پر اپنی تربیت کر چکے ہیں کہ اسلام بہرحال دین فطرت ہے-

یہ فلاحی اور خیراتی ادارے سارا سال اور خاص طور پر رمضان میں عوام کے ایک حصّے سے لاکھوں کروڑوں روپے جمع کرتے ہیں اور عوام ہی کے دوسرے حصّے پر خرچ کر دیتے ہیں-  ان کو نیک نامی بھی مل جاتی ہے اور حکومت کی طرف سے ایوارڈز بھی-  اس طرح حکومت کو ایک کریڈٹ یہ مل جاتا ہے کہ وہ معاشرے کے نیک لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے-  اس میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے ان اداروں کو بھی کاروبار بنایا ہوا ہے-  بد عنوان لوگ عطیات جمع کر کے  ذاتی فائدےاٹھاتے ہیں- اور جن کے لئے عطیات جمع کرتے ہیں انھیں خوشحال نہیں ہونے دیتے ہیں ورنہ پھر انکا کاروبار کیسے چلے گا-

نیکی کے کام خاص طور پر اگر اجتماعی سطح پر کئے جائیں تو انکے ثمرات معاشرے پر ضرور ظاہر ہوتے ہیں-  اور اگر دنیا کا سب سے زیادہ عطیات دینے والا معاشرے کا حال یہ ہو کہ بھوک کے ہاتھوں تنگ ہوکر روزانہ سینکڑوں لوگ خود کشیاں کریں، ماں اپنے بچوں کو قتل کردے، لوگ قانونی اور اخلاقی جرائم کی طرف راغب ہوں،  خیراتی اداروں کے آگے مسکینوں اور سائلوں کا ہجوم بڑھتا جاۓ، نوزائیدہ بچے کوڑے کے ڈھیر پر پڑے ملیں- یہ نقشہ نہ تو کسی اسلامی ریاست کا ہو سکتا ہے اور نہ ہی اس طریقے سے خوشحالی اور امن آ سکتی ہے-  یہ کہیں نہ کہیں گڑبڑ کی علامت ہے اور وہ گڑبڑ یہ نہیں کہ لوگوں نے صدقه و خیرات کم کر دیے ہیں یا بند کر دے ہیں بلکہ نیک کاموں کو کیا غلط طریقوں سے جارہا ہے-  




 بد حالی کا نظام " سود "
پچھلے چند سالوں سے ایک خاتون سے جان پہچان ہوئی- چار چھوٹے چھوٹے بچے ہیں انکے-  شوہر بنک میں ملازم- اور شادی بھی پسند کی کی تھی- حد سے زیادہ محنتی خاتون- پیسہ کمانے کے لئے دن رات ایک کیے ہوۓ تھے- لین دین کے معاملے میں بہت سے بھی زیادہ سٹریٹ فارورڈ-  اپنے ایک ایک منٹ اور ایک ایک فیور کی قیمت وصول کرنا جانتی ہیں-  اور ہمیشہ خود کو حق پر سمجھتی ہیں - یہ بات بھی ہے کہ اکثر لوگوں کی مدد بھی کرتی ہیں- انکی باتوں سے پتہ چلتا کہ ان کا حلقہ احباب کیسا ہے- مجھ سے بھی جتنا فائدہ اٹھا سکتیں تھیں اٹھایا جسکا اندازہ مجھے بہت بعد میں ہوا-  رہنے سہنے کے انداز سے لگتا تھا کہ بہت مشکل سے ان کا گزارہ ہوتا ہے-  ایک مرتبہ سود پر بات نکلی تو کہنے لگیں کہ سود بھی تو تجارت ہے- اب دیکھیں نہ میری ایک دوست لوگوں کو قرضے دیتی ہیں اور واپسی پر کچھ فیصد زیادہ لیتی ہیں- اگر وہ کہیں کاروبار میں لگائیں تو انھیں کتنا منافع ہو- لیکن یہ انکی نیکی ہے کہ کسی کو وقت پر رقم دے دیتی ہیں تو پھر انکا حق بنتا ہے کہ کچھ منافع کما لیں-  انکے حلقۂ احباب نے مختلف کاروبار  کی قسمیں شروع کر رکھیں تھیں -  انہوں نے بتایا کہ اس میں منافع بہت ہے- پھر یہ ہوا کہ پچھلے سال اپریل میں انکی پارٹنرز انکے ساتھہ دھوکہ کر گئیں- نہ صرف یہ کہ انکے تقریبا ساڑھے چار کروڑ روپے ہضم کر گئیں بلکہ  دھمکیاں بھی دیں- کچھ ماہ انہوں نے جگہ بدل کر گزارہ کیا بچوں کو بھی اسکول نہیں بھیجا-  اور پھر جب کیس کیا تو انکے شوہر پر حملے کرواۓ- با لاٰ خر انھیں دبئی بھاگنا پڑا- وہاں انکا نروس بریک ڈاؤن ہوا- اب انکا پیسہ پاکستان آ آ کر عدالتوں کی پیشیاں نمٹانے پر خرچ ہو رہا ہے-  

یہ ایک گھر کی نہیں بہت سے گھروں کی کہانی ہے-  سود ہو یا زكواة یا کوئی نیکی کے کام - ہم اپنی مرضی اور اپنے فائدہ دیکھ کر کرتے ہیں- جسکا صرف نقصان ہی ہوتا ہے-  کسی سے کوئی کام کہیں، کوئی بات کریں- سب سے پہلا رد عمل یہ ہوتا ہے کہ اس کا فائدہ کیا ہوگا؟ اس کا کوئی فائدہ نہیں تو کیوں کریں؟ علامہ اقبال  فرمایا، 
بر تر از اندیشہ سو دو زیاں ہے زندگی 

 سود کے لغوی معنی زیادہ کے ہیں- سود کی کیفیت پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ سودی نظام صرف بنکوں میں اور اسٹاک اکسچینج میں ہی نہیں ہماری زندگیوں میں بھی شامل ہے-  کسی کے گھر کچھ بھیجا، مدد کر دی، احسان کردیا، کوئی مشکل حل کردی- تو واپسی کی توقع- ہمارے نفس کا بخل ہمیں کسی نہ کسی طور سود کی طرف لے جاتا ہے- 


"اور طبیعتیں تو بخل کی طرف مائل ہوتی ہیں" 
سورہ النساء 

"اور انسان دل کا بہت تنگ ہے" سورہ بنی اسرائیل 

رسول صلی الله علیہ وسلّم کی تربیت کا ایک کمال یہ بھی تھا کہ لوگوں کے مزاج سے سود نکال دیا تھا- شریعت  میں سودی نظام سے متعلق تمام لوگوں کے لئے اعلان جنگ ہے-  جو لیں، جو دیں، جو اسکے گواہ بنیں، جو اسکے پرچار یا ایڈورٹمنٹ کریں، اسکے کمرشل بنائیں اور اس میں کام کریں- واللہ اعلم با الصواب  

 "جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے اور نماز پڑھتے اور زکوٰة دیتے رہے ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا اور (قیامت کے دن) ان کو نہ کچھ خوف ہوا اور نہ وہ غمناک ہوں گے-
مومنو! خدا سے ڈرو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو جتنا سود باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو- اگر ایسا نہ کرو گے تو خبردار ہوجاؤ (کہ تم) اللہ اوراس کے رسول سے جنگ کرنے کے لئے (تیار ہوتے ہو) اور اگر توبہ کرلو گے (اور سود چھوڑ دو گے) تو تم کو اپنی اصل رقم لینے کا حق ہے جس میں نہ اوروں کا نقصان اور نہ تمہارا نقصان- اور اگر قرض لینے والا تنگ دست ہو تو (اسے) کشائش (کے حاصل ہونے) تک مہلت (دو) اور اگر (زر قرض) بخش ہی دو توتمہارے لئے زیادہ اچھا ہے بشرطیکہ سمجھو- اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا۔ اور کسی کا کچھ نقصان نہ ہوگا- " 

سورہ البقرہ 


علماء  کا کردار 
 خوشحالی کی ابتداء امن سے ہوتی ہے- اور امن کی ابتداء تزکیہ نفس اور تربیت نفس سے ہوتی ہے- اور فی الحال تو یہی علماء کی سب سے بڑی ترجیح ہونی چاہیے-  یہ نہیں کہ ہر کوئی اٹھے اور فلاحی مملکت اور رفاہ عامہ کے لئے چندے اکٹھے کرنے شروع کردے- 

کیوں لوگ زكواة کی لازمی عبادت سے زیادہ صدقه و خیرات کو ترجیح دیتے ہیں؟ اسلئے کہ مسجد بنانی ہو یا مدرسہ، ہسپتال بنا ہو یا یتیم کھانا یا کوئی اور ادارہ- سب کام چندہ پر ہوتا ہے- اور باقاعدہ لکھا ہوتا ہے کہ اپنے صدقات، خیرات، زكواة اس ادارے کو دے کر ثواب دارین حاصل کریں-  اور جنّت کی ضمانت بھی دی گئی ہوتی ہے - بہت سے علماء نے بھی اس طرح زكواة دینے کو جائز قرار دے دیا ہے- 

علماء اسلامی ریاست میں سود  ختم کرنے کا شور تو مچا دیتے ہیں لیکن اس بات پر توجہ نہیں دیتے کہ سود کا بدل تجارت اور تجارت کا ٹیکس زكواة ہی تو ہے اور جو زكواة اس طرح دی جارہی ہے اسکے نتائج کیا نکل رہے ہیں- وہ پیسہ کہاں جارہا ہے، کیسے اور کن لوگوں پر خرچ ہو رہا ہے، اس سے کوئی فائدہ ہو بھی رہا ہے کہ نہیں- کیا واقعی مستحقین کےحالات بدلے جا رہے ہیں یا پھر سیلانی ٹرسٹ والوں کی طرح کہ بقول انکے پچاس ہزار لوگوں کو روز کھانا کھلاتے ہیں- لوگ روزانہ پیٹ بھر کر جاتے ہیں اور پھر دوسرے دن پیٹ بھرنے کے لئے اپنے وقت پر موجود ہوتے ہیں- جیسے کہ پرندوں یا جانوروں کو روزانہ کھانا ڈالو تو وہ اپنے وقت پر روزانہ آ جاتے ہیں پیٹ بھرنے کے لئے-  کتنا روپیہ چاہیے ہوتا ہے پچاس ہزار لوگوں کو کھانا کھلانے کے لئے-  اگر بیس روپے ایک آدمی کے لگا لیں تو بھی دس لاکھ روپے بنتے ہیں روزانہ- مہینے کے ہو گۓ تین سو لاکھ روپے-  کیوں یہ جگہ جگہ پھلوں کے باغ نہیں لگادیتے کہ انسان ہوں یا پرندے بھوک لگے تو بے خوف ہو کر کھا لیں یہ بھی تو صدقہ ہے بلکہ صدقه جاریہ- کیونکہ بھوک جرائم اور بے حیائی کی سب سے بڑی وجہ ہے- یہاں تک کہ انسان کو شرک، کفر تک لے جاتی ہے- 
علماء شریعت کے نفاذ کی بات تو کرتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ اگر واقعی شریعت نافذ کرنے کے حالات پیدا ہو گۓ تو ملک کی معیشت کو کس طرح سنبھالیں گے-  کیا روزانہ اپنے وزیر خزانہ کے ذریعے چندوں کے اعلان کروائیں گے اور مخیّر حضرات کو جنّت کا لالچ اور جہنّم کے ڈراوے دے دے کر انکی جیبیں خالی کروائیں گے -  ایک مدرسہ یا مسجد تو چندہ کے بغیر سنبھالی نہیں جاتی- پورا ملک کیسے سنبھالیں گے- زكواة کے علاوہ کوئی ٹیکس لیں گے اور زكواة وسول کرنے کا طریقہ ہوگا اور زكواة تقسیم کرنے کا طریقہ کیا ہوگا- 

پھر ایک بات یہ بھی ہے کہ ایک اسلامی ریاست میں مسلمانوں کے لئے زكواة اور غیر مسلموں کے لئے جزیہ ہے-  جب زكواة ریاستی یا حکومتی سطح پر جمع کی جاتی ہے تو اس کی تقسیم کا طریقہ انفرادی تقسیم سے الگ ہوتا ہے یا نہیں؟ انفرادی طور پر جو زكواة کے مصارف ہیں وہ اجتماعی سطح پر بھی وہی ہیں یا نہیں؟ اور اجتماعی سطح پر زكواة وصول کرنے والوں کی تنخواہیں، حکومتی اراکین کی تنخواہیں وغیرہ سب اسی سے نکلتی ہیں کہ نہیں؟  

ابھی تو یہ سلسلہ ہے کہ جو مدرسہ، مسجد یا ادارہ زكواة جمع کرتا ہے اسے اپنے ہی محدود مقاصد کے لئے خرچ کرتا ہے- اور لوگ بھی دے کر جان چھڑاتے ہیں- جبکہ زكواة کے اجتماعی نظام کا مقصود تو زكواة کی تقسیم ایک بڑے  پیمانے پر اور ملک یا ریاست کے تمام شہریوں کے لئے ہے؟؟؟ 

ذرا موازنہ کریں اپنی اپنی مسجدوں، مدرسوں اور اداروں کا اس اسلامی ریاست سے جو اپنی ابتداء کے بعد چند ہی دھائیوں میں آدھی سے زیادہ دنیا تک پھیل گئی تھی- جس میں کوئی فلاحی یا خیراتی ادارہ نہیں تھا، کوئی یتیم خانہ نہیں تھا- کوئی سڑکوں پر بھیک نہیں مانگ رہا ہوتا تھا- کوئی لاوارث نہیں کہلایا جاتا تھا- سواۓ زكواة کے کوئی ٹیکس نہیں تھا مسلمانوں پر- مخیّر حضرات اپنے اپنے طور پر مسافر خانے بنواتے، کنوئیں کھدواتے، درخت لگواتے یا اور نیکی کے کام کرتے- لیکن اس سے حکومت کی کارکردگی پر اثر نہ پڑتا- 

اسلامی نظام اور اجتماعی خوشحالی کا خلاصہ کیا ہے- کہ
١- زكواة کل معاشی نظام ہے- 

٢- فلاحی اور رفاہ عامہ کے کام بنیادی طور پر حکومت کی ذمّہ داری ہیں-