Showing posts with label دنیا کا عالم برزخ. Show all posts
Showing posts with label دنیا کا عالم برزخ. Show all posts

Sunday, 6 April 2014

Stages of Human Life - انسانی زندگی کے مراحل

 ایک حدیث کے مطابق، قیامت کے دن انسان کے قدم الله کی عدالت میں کٹہرے سے ہٹ نہیں سکیں گے جب تک وہ پانچ سوالوں کے جواب نہ دے لے- 
١- زندگی کیسے گزاری؟ 
٢- جوانی کیسے گزاری؟
٣- دولت کیسے کمائی؟
٤- دولت کہاں خرچ کی؟
٥- اور حاصل کئے ہوۓ علم پر کتنا عمل کیا؟ 

قرآن (٦١٠ - ٦٣٢ / 610 - 632) نے انسان کی زندگی کے تمام ادوار آٹھہ حصّوں میں تقسیم کیا ہے- "وہ حالت جس میں تمام انسانوں سے عہد لیا گیا تھا کہ الله کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے- ماں کے پیٹ میں زندگی کا جسم اور روح کی صورت میں ڈھلنا-  ماں کے پیٹ سے باہر کی زندگی یا بچپن- جوانی یعنی طاقت کی زندگی - بڑھاپا یعنی عمر کا لوٹایا جانا - قبر یعنی عالم برزخ میں زندگی - روز احتساب کی زندگی - آخرت کی زندگی دوزخ یا جنّت کی صورت میں"

اور دنیاوی زندگی کو پیدائش سے موت تک بنیادی طور پرچار حصّوں میں بانٹا ہے- "بچپن یعنی کھیل کود - نوجوانی یعنی زینت و آرائش - جوانی یعنی فخر اور ستائش - بڑھاپا یعنی مال اور اولاد بڑھنے کی خواہش-"

"جان رکھو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا اور زینت (وآرائش) اور تمہارے آپس میں فخر (وستائش) اور
مال واولاد کی ایک دوسرے سے زیادہ طلب   ہے- 
سورہ الحدید

 اور دنیا کی زندگی تو متاع فریب ہے"-
سورہ الحدید 

ابن سینا (٩٨٠ - ١٠٣٧ / 980 - 1037) انسان کی دنیاوی زندگی کو اسکی شخصیت کی تکمیل کے مراحل کے لحاظ سے تین حصّوں میں تقسیم کرتے ہیں- 
١- پہلا حصّہ پیدائش سے چھ سال تک کی عمر، جس میں بچے کو انتہائی نگہداشت اور آزادی کی ضرورت ہوتی ہے- 
٢- دوسرا حصّہ چھ سے چودہ سال تک کی عمر، جس میں بچے کو اتنا سمجھدار ہو جانا چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کے لئے فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو- 
٣- تیسرا حصّہ بلوغت یا نوجوانی کی عمر جو کہ تیرہ یا چودہ سے چوبیس سال تک ہوتی ہے- یعنی اپنی زندگی کے فیصلوں کا اختیار- 
٤- شخصیت کی تکمیل اور تعلیم کے حصول کے بعد یک عاقل و بالغ انسان کی حیثیت سے موت کے وقت تک زندگی گذارنا

شکسپیئر (١٥٦٤- ١٦١٦ / 1564 - 1616) نے زندگی کو سات حصّوں میں تقسیم کیا- Seven Stages of Man
"پیدائش سے اسکول جانے تک کی عمر - اسکول جانے کی عمر - نوجوانی کی شروع کے سال - نوجوانی کے بھرپور سال - جوانی - ادھیڑ عمر - بڑھاپا"

ماریا مونٹیسوری (١٨٧٠ - ١٩٥٢ / 1870 - 1952) انسان کی زندگی کو پانچ حصّوں میں تقسیم کرتی ہیں- 
 ١- پہلا حصّہ پیدائش سے چھہ سال تک کی عمر  
٢- دوسرا حصّہ چھ سال سے لے کر بارہ سال تک کی عمر- 
٣- تیسرا حصّہ بارہ سال سے اٹھارہ سال تک کی عمر-  جس میں سے بارہ سے پندرہ یعنی تین سال کا عرصہ بچے کی انتہائی حسّاسیت کا ہوتا ہے اور پھر پندرہ سے اٹھارہ یعنی تین سال کا عرصہ اسکی خود مختاری کی طرف رغبت کا ہوتا ہے-  
٤- چوتھا حصّہ اٹھارہ سے چوبیس سال تک کی عمر- یعنی نوجوانی- 
٥- نوجوانی کے بعد سے موت تک کی عمر یعنی جوانی اور بڑھاپا

خلاصه یہ کہ 
١- بارہ سے چودہ پر آکر بچپن ختم ہو جاتا ہے- 
٢- مزید دس سال بعد نوجوانی ختم ہو جاتی ہے- 
٣- مزید  چھبیس سال بعد جوانی ختم ہو جاتی ہے- 
٤- اور میری عقل کے مطابق ذرا دیر کے لئے پچاس سے ساٹھ کے درمیان کے دس سال, جسکا نام میں نے "دنیا کا عالم برزخ  یا سکتہ کی حالت" رکھا ہے, نکال دیں تو 
٥- ساٹھویں سال سے بڑھاپے کا آغاز- اور موت کی طرف سفر شروع ہو جاتا ہے- 
٦- موت- آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل- اس دنیا سے رخصتی- 
٧- دوسری منزل قبر یعنی عالم برزخ - کسی شاعر نے کہا کہ "موت اک زندگی کا وقفہ ہے- ذرا آگے بڑھیں گے دم لے کر"- 
٨- تیسری منزل صور اوّل اور دوئم یعنی حشر- 
٩- چوتھی منزل قیامت یا یوم القیامه (لغوی معنی کھڑے ہونے کا دن) یعنی روز احتساب - جسے اقبال نے کہا "ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب"-
١٠- جنّت یا جہنّم میں رہائش 

"اور جس کو ہم بڑی عمر دیتے ہیں تو اسے خلقت میں اوندھا کردیتے ہیں
تو کیا یہ سمجھتے نہیں؟" - 
سورہ یٰسین 

رسول الله صلی الله علیہ وسلّم نے عمر رسیدگی کی دعا بھی امّت کو سکھائی- 
" اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْجُبْنِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْبُخْلِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ أَرْذَلِ الْعُمُرِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدُّنْيَا وَعَذَابِ الْقَبْرِ"
"یا الله! میں آپکی پناہ مانگتا/مانگتی ہوں بزدلی سے اور بخل سے اور عمر کے لوٹاۓ جانے یعنی بڑھاپے سے اور دنیا کی آزمائشوں سے اور قبر کے عذاب سے"- 

اگر ماریا مونٹیسوری کا بارہ سے پندرہ سال تک کے بچوں کی عمر کا فلسفہ اور نفسیات پڑھیں- اور اپنی زندگی میں ملنے والے اپنے گھر اور خاندان کے لوگوں سمیت ہر شخص کی زندگی پر غور کریں جو پچاس سے ساٹھ سال کے دورانی عرصہ میں ہے تو یہ حقیقت سامنے آۓ گی کہ اپنی ساٹھ سے زیادہ سالہ زندگی میں (اگر کسی کو اتنی زندہ رہنا نصیب ہو) ہر انسان کم از کم دو مرتبہ اپنی عمر پر لوٹایا جاتا ہے-  دو مرتبہ عالم برزخ کا تجربہ کرتا ہے-  یا ایسے جیسے اعراف پر کھڑا ہوا کشمکش میں ہو کہ اب کیا ہوگا یا کیا کرنا ہے- اگر ان دونوں مراحل سے پہلے کا دور مثبت ہو تو انسان بہت جلد کشمکش سے باہر نکل آتا ہے- ورنہ اکثر بھٹکتا رہ جاتا ہے- 

١- بارہ سے پندرہ تک کے تین سال، جب وہ انسان اپنی شخصیت کی تکمیل کے بچپن سے بلوغت کے مراحل طے کر رہا ہوتا ہے-  اور اس دوران حسّاسیت اور جذباتیت کے اسی انتہائی لیول پر ہوتا ہے جس پر ایک دو سے چار سال کا بچہ ہوتا ہے-  اس مرحلہ کے دوران بچہ نہ بڑوں میں ایڈجسٹ ہو پاتا ہے نہ چھوٹوں میں- 
وہ شاید اس ڈویلوپمنٹ کے لئے تیّار نہیں ہوتا اور اکثر ضد، غصّے اور ہٹ دھرمی کا رویّہ اپناتا ہے یا پھر تنقید, خوف اور بزدلی کا- اس دوران اکثر انکی ذہنی اور جسمانی نشو نما کا گراف نیچے گرتا ہے- اور اگر اس وقت بچے پر توجہ نہ دی جاۓ تو یہی رویے اسکی شخصیت کا حصّہ بن جاتے ہیں اور بہت عرصے تک اس کی زندگی کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں-  

ایک حدیث بہت پہلے کہیں پڑھی تھی کہ "جو اپنی جوانی برباد کرتا ہے الله اس کا بڑھاپا برباد کردیتا ہے"- 

٢- پچاس سے ساٹھہ کے درمیان دس سال کا دورانیہ ہوتا ہے-  اور دس سال کا عرصہ کوئی تھوڑا عرصہ نہیں ہوتا- تین ہزار چھہ سو پچاس دن یا ستاسی ہزار چھ سو گھنٹے بنتے ہیں- اگر کوئی روزانہ سات گھنٹے کے حساب سے سال میں دو ہزار پانچ سو پچپن گھنٹے سوتا ہے تو بھی دس سال میں اس کے پاس باسٹھ ہزار پچاس گھنٹے بچتے ہیں دوسرے کاموں کے لئے-  

اکثر لوگ ان سالوں کے دوران اپنے بلوغیت کے ابتدائی دور کی طرح ایک انتہائی حسّسیات اور جذباتیت کے لیول پر ہوتے ہیں-  لیکن اسی دور کے بر خلاف جسمانی طور پر کمزوری اور تھکن کی طرف مائل ہوتے ہیں اور اسکا انھیں شدید ادراک بھی ہوتا ہے اور آگے کے سالوں میں اسی کا خوف بھی- 

عام طور پر اس دوران لوگوں کی اولاد بڑے ہو کر اپنی نوجوانی کے اختتام اور جوانی کے آغاز پر ہوتی ہے-  وہ اپنے سے چھوٹوں سے یہ نہیں سننا چاہتے کہ انہوں نے ساری زندگی ضائع کردی اور کتنی بڑی بڑی بے وقوفیاں یا گناہ کئے- وہ اپنے ہم عصروں کے مذاق کا نشانہ بھی نہیں بننا چاہتے کہ انہوں نے کیا کیا غلطیاں کی ہیں- وہ اپنے بڑوں سے بھی شرمندہ ہوتے ہیں- ایک فلم کی طرح انکی زندگی انکے سامنے ہوتی ہے اور وہ خود اپنی کمیوں اور زیادتیوں پر گواہ ہوتے ہیں- اور انھیں شدید ترین احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے کہاں کہاں وقت، صلاحیتیں اور پیسہ ضائع کیا- اسی لئے اکثر عمر رسیدہ لوگ وہ وہ نصیحتیں کر رہے ہوتے ہیں جنھیں وہ خود ایک مذاق اور فضولیات سمجھتے تھے اور جواب میں انہیں نوجوانوں اور جوانوں  سے طعنے پڑ رہے ہوتے ہیں-  

ان سالوں کے دوران وہ اپنی ذہنی سطح کے مطابق ایک ایسی زندگی کے خواہشمند ہوتے ہیں جس میں ذہنی سکون بھی ہو، جسمانی آرام بھی، ایسے مواقع بھی ہوں جس سے وہ اپنے نا مکمّل خوابوں (اگر کوئی ہیں) کی تکمیل کرسکیں، عبادت (کسی بھی قسم کی) کرسکیں، تھوڑی بہت خود کفالت بھی کر سکیں (اس میں خواتین کی اکثریت شامل نہیں)- اور معاشرے میں ایک سلجھے ہوۓ، پرسکون،تہذیب یافتہ شخص کی طرح-  اور یہ تعریف پچھلے تیس سال کے کراچی کے لوگوں کے لئے نہیں ہے- اس سے پہلے وہ بھی کسی حد تک نارمل ہوا کرتے تھے- 

اس دورانیہ میں کافی لوگ اپنی ساری زندگی کی کاہلی کے باوجود ذرا دیر کے لئے چاق و چوبند ہوجاتے ہیں-  دنیا کو یہ یقین دلانے کے لئے کہ وہ ابھی جوان ہیں- اپنا حلیہ اور وضع قطع بھی ویسی ہی بنانے کی کوشش کرتے ہیں- ویسا ہی جذبہ دکھاتے ہیں جو جوانی میں دکھانا چاہیے تھا- اور اس دور کو آخری موقع سمجھ کر ضائع نہیں کرنا چاہتے- جو کہ کوئی بری بات بھی نہیں بلکہ اچھی بات ہے- 
اور اکثر اپنے ہی گھر والوں اور جاننے والوں کے رویے سے ناامیدی اور مایوسی میں ڈوب کر اپنی شخصیت کی نفی کرتے ہوۓ ذہنی مریض بن جاتے ہیں اور دوسروں کے محتاج بن جاتے ہیں- 

پچھلے تیس سالوں میں اور خاص کر پچھلے بیس سالوں میں دنیا کی سماجی اور معاشی حالت میں جس بدترین طریقے سے تبدیلی آئی اور جس کے ذمّہ دار جانور، درخت، پھول، پودے، زمین، آسمان، تارے، بادل، دریا، سمندر، پہاڑ، صحرا اور پتھر نہیں- انسان ہے-  اس نے انسان ہی کے لئے وقت سے پہلے روز حشر بپا کردیا ہے- دنیا پر حکمرانی کے خواب اور ایک دوسرے پر حکمرانی کی خواھشات نے خود انسان کی زندگی مشکل ترین بنادی ہے-  اور اسکا فوری حل گو کہ انہیں دنیاوی عذابوں سے چھٹکارہ تو نہیں دلا سکتا لیکن آخرت کا سہارا بن سکتا ہے- اور وہ ہے 
کرو مہربانی تم اہل زمین پر 
خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر