Showing posts with label سوره التغابن. Show all posts
Showing posts with label سوره التغابن. Show all posts

Saturday 30 June 2018

الله کو اچھا قرض

اِنۡ تُقۡرِضُوا اللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنًا يُّضٰعِفۡهُ لَـكُمۡ وَيَغۡفِرۡ لَـكُمۡ​ؕ وَاللّٰهُ شَكُوۡرٌ حَلِيۡمٌۙ- 

"اگر تم الله کو قرض دو گے- تو وہ اسے بڑھا دے گا کئی گنا تمھارے لئے-  
اور تمہیں معاف کر دیگا-  اور الله قدر کرنے والا حلم والا ہے-" 
سوره التغابن 

مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً ۚ 
وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ- 

"کون ہے جو الله کو اچھا قرض دے تو وہ اسے کئی گنا بڑھا دے- 
اور الله ہی تنگی اور کشائش کرتا ہے- اور تم اسی کی  طرف لوٹاۓ جاؤ گے-"
سوره البقرہ 

وَقَالَ اللّٰهُ اِنِّىۡ مَعَكُمۡ​ؕ لَـئِنۡ اَقَمۡتُمُ الصَّلٰوةَ وَاٰتَيۡتُمُ الزَّكٰوةَ وَاٰمَنۡتُمۡ بِرُسُلِىۡ
 وَعَزَّرۡتُمُوۡهُمۡ وَاَقۡرَضۡتُمُ اللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنًا لَّاُكَفِّرَنَّ عَنۡكُمۡ سَيِّاٰتِكُمۡ 
وَلَاُدۡخِلَـنَّكُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ​ۚ 
فَمَنۡ كَفَرَ بَعۡدَ ذٰ لِكَ مِنۡكُمۡ فَقَدۡ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِيۡلِ‏- 

"اور الله نے فرمایا بے شک میں تمھارے ساتھ ہوں-  
اگر تم نماز قائم رکھو اور زکواة دو اور اور میرے رسولوں پر ایمان لاؤ 
اور انکی تعظیم کرو اور الله کو اچھا قرض دو- تو میں تمھارے گناہ اتار دونگا 
اور تمہیں باغوں میں لے کے جاؤں گا جن کے نیچے نہریں رواں ہیں-
 پس اسکے بعد تم میں سے جو کوئی کفر کرے 
تو وہ ضرور سیدھی راہ سے بھٹکا-" 
سوره المائدہ

الله سبحانہ و تعالیٰ قادر مطلق ہے-  جس نے سب کچھ تخلیق کیا اسے قرض کی ضرورت نہیں-  یہ تو اعمال کا وہ اکاؤنٹ ہے جو ہر انسان کا الله سبحانہ و تعالیٰ کے پاس کھلا ہوا ہے-  اب چاہے وہ اس میں برائیاں جمع کرے یا اچھائیاں-  گناہ ذخیرہ کرے یا نیکیاں- جو بھی اکاؤنٹ میں جمع کیا ہوگا وہ آخرت میں واپس کردیا جاۓ گا-  عملوالصالحات اور بر اورعبادات وہ نیکیاں ہیں جو اچھا قرض ہیں اور جن کا کئی گنا بڑھا کر دینے کا وعدہ قرآن میں کیا گیا ہے-  برائیاں اور گناہ برا قرض ہیں لیکن انکے معاف کردینے، مٹا دینے کا وعدہ کیا گیا ہے-  

اِنَّ الۡحَسَنٰتِ يُذۡهِبۡنَ السَّيِّاٰتِ- 

"بے شک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں-"
سوره ہود

ایک صحابی حضرت ابو الدحداح نے جب قرض حسنہ کی آیت سنی تو حاضر خدمت ہوئے اور فرمایا کہ یارسول اللہ! کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض مانگتا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ہاں۔ وہ بولے اپنا دست مبارک مجھے دکھائیے۔ انہوں نے حضور کا ہاتھ پکڑا اورکہا کہ میں نے اپنا یہ باغ اللہ تعالیٰ کو قرض دیا۔ اس باغ میں کھجور کے چھ سو درخت تھے۔ ان کی بیوی اور بچے اسی میں رہائش پذیر تھے۔  انکی بیوی نے جب یہ سنا تو پکار اٹھیں۔ "اے دحداح کے باپ تم نے بڑا نفع والا سودا کیا ہے۔" 

اور ایسے ایک نہیں ہزاروں واقعات دور نبوی اور اسکے بعد کے ادوار سے پیش کئے جا سکتے ہیں-  جب لوگ اس آیت کی مثل ہوا کرتے تھے جسے اکثر مفسّرین قرآن حضرت علی اور حضرت فاطمہ کے واقعات سے منسلک کرتے ہیں

وَيُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسۡكِيۡنًا وَّيَتِيۡمًا وَّاَسِيۡرًا‏- 
اِنَّمَا نُطۡعِمُكُمۡ لِـوَجۡهِ اللّٰهِ لَا نُرِيۡدُ مِنۡكُمۡ جَزَآءً وَّلَا شُكُوۡرًا‏- 
اِنَّا نَخَافُ مِنۡ رَّبِّنَا يَوۡمًا عَبُوۡسًا قَمۡطَرِيۡرًا- 

"اور وہ کھلاتے ہیں کھانا اس (الله) کی محبّت میں مسکین، یتیم اور اسیر کو-
اور ان سے کہتے ہیں کہ ہم تمہیں خاص الله کے لئے کھلاتے ہیں 
اور تم سے کوئی بدلہ یا شکر گزاری نہیں مانگتے-  
بے شک ہمیں اپنے رب سے ایک ایسے دن کا خوف ہے 
جو بہت ترش نہایت سخت ہے-" 
سوره الدھر

عملو الصالحات کیا ہیں؟ ہر اچھا عمل- 

اور بر کیا ہے؟ وہ نیکی یا اچھا عمل جو اپنی محبوب ترین شئی الله کی راہ میں خرچ کرنے سے مشروط ہے-  بر کا ترجمہ "تقویٰ" سے کیا جاتا ہے- 

لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰى تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ - 

"اور تم ہرگزنہیں پہنچ سکتے تقویٰ کو- جب تک کہ 
خرچ نہ کرو ان میں سے  جو تمہیں محبوب ترین ہیں-"
سوره آل عمران

مسلمانوں کی اکثریت جس میں دین کے دعویدار بھی شامل ہیں شاید اب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو قرض دینے پر یقین بھی نہیں رکھتی- اسی لئے ہرکام کی طرح نیکیوں اور عبادتوں میں بھی کیش کا کاروبار کرنے لگے ہیں-  یہاں تک کہ اپنےغم، اپنا صبر، اپنی تکالیف، اپنی دوستیاں، اپنی رشتہ داریاں، اپنے تعلقات- ہرعملوالصالحات اور ہر بر اورہرعبادت کا بدلہ دنیا میں اور وہ بھی فورا وصول کرنا چاہتے ہیں بلکہ کر لیتے ہیں-   یہ دیکھ کر لگتا ہے کہ مسلمانوں کو اب نہ آخرت پریقین رہا ہے نہ آنے والے وقت پر-  اگر تمام کی تمام نیکیاں اور عبادتیں دنیا میں ہی کیش کروالیں گے تو آخرت میں کیا بچے گا جس کا بدلہ دیا جاۓ- 

اور اس نیکیوں اور عبادتوں کا کیش کاروبار نے معاشرے کا بیڑہ غرق کردیا ہے-  کیونکہ جب انسان اس قسم کے رویے میں مبتلا ہو جاۓ تو پھر وہ صرف اپنا فائدہ سوچتا ہے-  میں تکلیف اٹھائی تو صرف مجھے اسکا بدلہ ملے-  میں نے ساری محنت کی تو پھل بھی میں ہی کھاؤں-  میں نے سارے اقدامات کئے تو میری تعریف ہو- مجھے سراہا جاۓ-  جبکہ رسول الله صلی الله علیہ وسلّم کی تربیت تھی کہ صرف اور صرف الله کی رضا کے لئے کام کیا جاۓ اور وقت اصل مقاصد کے حصول میں لگایا جاۓ-  

اسلام میں ہر وہ کام بھی عبادت کا درجہ پا لیتا ہے جو الله کی رضا کی نیّت سے اس کے بندوں کی بھلائی کے لئے کیا جاۓ-  کیونکہ سیاست  ایک ملک شہریوں یا علاقے کے باسیوں کی فلاح و بہبود اور جان و مال کی حفاظت کے نظام چلانے کو کہتے ہیں-  اسی اسلام میں سیاست بھی عبادت ہے- 

لیکن یہ بات کم از کم پاکستان کے لوگوں کو نہیں پتہ-  اسی لئے ان میں سے کچھ الیکشن کو ایک دنگل یا اکھاڑا سمجھ کر اپنے اپنے وار آزماتے ہیں اور عوام انکا تماشہ لگاتے ہیں-  عوام سیاست کی شرعی اہمیت اور سیاست دان اسکی ذمّہ داریوں سے ناواقف ہیں-  شاید اسکی ایک بڑی وجہ تو یہی ہے کہ یہاں سیاست  اصل اسلامی جمہوریت کے طریقے پر نہیں بلکہ مغربی انداز سے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے-  جس میں گدھے اور گھوڑے میں تمیز بھی باقی نہیں رہتی-  اسی رویے کی وجہ سے پاکستان میں سیاست کو برائی یا جرم سمجھا جاتا ہے جس میں صرف جرائم پیشہ لوگ حصّہ لے سکتے ہیں- 

عوام اپنے چھوٹے چھوٹے ذاتی اور علاقائی مفادات کو مدّ نظر رکھ کر ووٹ دیتی ہے یا پھر نہیں دیتی-  اور سیاست دان بڑے ممالک کے مفادات کے نتیجے میں حاصل ہونے والے اپنے ذاتی مفادات کو ذہن میں رکھ کر الیکشن لڑتے ہیں اور پارٹیوں کا الٹ پھیر کرتے ہیں-  کیونکہ سب کے مقاصد چھوٹے ہیں-  اسی لئے نقد پر کام کرتے ہیں-  کسی نے الله سبحانہ و تعالیٰ سے تجارت نہیں کی ہوئی نہ ہی اسے قرض دیا ہے-  انکو یہ نہیں معلوم کہ جنکے مقاصد بڑے ہوتے ہیں انکے پاس نقد لینے کا وقت نہیں ہوتا اس لئے وہ اپنی امانت الله تعالیٰ کے پاس رکھوا دیتے ہیں کہ آخرت میں وصول لیں گے منافع کے ساتھ-  اور پاکستانیوں کے لئے بڑا مقصد پاکستان ہونا چاہئے-  پارٹی ٹکٹ یا جیت نہیں- کیا ہے اگر لوگ نہ پہچانیں-  کیا یہ کافی نہیں کہ الله سبحانہ و تعالیٰ جانتے ہیں اور وہی بہترین قدر دان ہیں-