Showing posts with label عروج کا زوال. Show all posts
Showing posts with label عروج کا زوال. Show all posts

Thursday, 6 February 2014

عالمی اسلامی خلافت اور عالمی دجالی نظام

"آج تمھارے دین کی طرف سے کافروں کی آس ٹوٹ گئی- تو ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو- آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا- اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمھارے لئے اسلام کو دین پسند کیا"-
سوره المائدہ - ٣ 

عالمی حکومت یا خلافت کی تعریف 

اسلام کی عالمی خلافت یا کسی کی بھی ایک عالمی حکومت یا ایک متحدہ عالمی نظام  کی تعریف کیا ہے؟ ساری دنیا کے انسان ایک حکومت کے اندر آجائیں- ایک نظام کے ما تحت بن کر کام کریں اور اس نظام کے مقابلے پر اپنے رنگ و نسل، زبان، علاقوں اور فرقوں کو دوسرے درجہ کی حیثیت دیں- اپنے ملکوں اور شہروں کے بجاۓ اس ایک نظام کے دفاع کے لئے تیّار رہیں بلکہ اپنے ملکوں اور شہروں کے دفاع کے لئے بھی اسی نظام کی طرف دیکھیں اور اسی پر بھروسہ کریں -

یہ خواب بہت پرانا ہے اور نہ جانے کتنے حکمرانوں نے دیکھا اور ناکام ہوۓ-

مجھے یقین نہیں کہ پچھلی پندرہ صدیوں میں، خلافت راشدہ کے بعد سے، کسی مسلمان حکمران نے اس بارے میں سنجیدگی سے سوچا ہو- اسی سنجیدگی سے جتنی سنجیدگی سے ہمارے چاروں خلفاء راشدین سوچا کرتے تھے-  شاید اس میں الله کی کوئی حکمت ہو-  شاید انسانوں کواور مسلمانوں کو یہ سمجھانا مقصود ہو کہ اللہ بے نیاز ہے اس سے کہ کوئی اسے سجدہ کرے یا نہ کرے، اسکی رضا کے جئے یا مرے یا منہ پھیر لے-  اور یہ کہ الله کا دین تو دین فطرت ہے کلمہ پڑھنے والا ہو یا کافر یا بے دین، جو اس کے اصولوں پر عمل کرتا ہے کم از کم دنیا کی باگ دوڑ اپنے ہاتھہ میں لے لیتا ہے-

اور یہ کام شیطان نے بری فطرت کے انسانوں سے لے لیا-  

 اسلامی خلافت 

مسلمانوں کی  پہلی باقاعدہ خلافت کی بنیاد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مدینہ میں ڈالی- خلفاء راشدین کے زمانے تک یہ باقاعدہ طور پر پھیلتی رہی- یہ عرصہ مسلمانوں کے باقاعدہ عروج کی کہانی ہے- یہاں تک یہ خلافت وحدت تھی- 

کربلا کے واقعے کے بعد اس عروج کا زوال ہونا شروع ہوگیا- وحدت ختم ہوتی چلی گئی- خلافت آہستہ آہستہ بادشاہتوں میں بٹتی چلی گئی- 

عظیم سلطنتوں میں سے بر صغیر میں مسلمانوں کی مغلیہ سلطنت ١٨٥٧ میں جبکہ مسلمانوں کی سلطنت عثمانیہ ١٩٢٤ میں باقاعدہ طور پر ختم ہو گئی-ان دونوں کا اسلام کی روح اور اس کے مقاصد سے کوئی تعلق نہ تھا- دونوں سلطنتیں چونکہ عام مسلمانوں کے حق میں غیر فعال ہو چکی تھیں لہٰذا ان کا ختم ہونا ایک طبعی امر تھا- 

پاکستان کے وجود میں آنے میں کسی شاہی یا جمہوری نظام کا عمل دخل نہیں تھا- یہ فیصلہ خدائی فیصلوں کی ایک کڑی تھا، جو حضرت آدم علیہ السلام کو روۓ ارضی کی خلافت ملنے سے شروع ہوا اور محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم کی عرب قوم میں خلافت قائم کرنے پر ختم ہوا- اور یوں رسالت اور پیغمبری کے اور ذریعے زمین پر الله کا نظام قائم کرنے کا سلسلہ ختم ہو گیا- 

پاکستان کی بنیاد بننے والا دو قومی نظریہ کوئی نئی بات یا نیا فلسفہ نہیں تھا- یہ نظریہ تو جنّت میں ہی وجود میں آ گیا تھا- آدم بمقابلہ ابلیس- گھمنڈ بمقابلہ حلم- ضد بمقابلہ حکم- فرمانبرداری بمقابلہ نافرمانی- اچھائی بمقابلہ برائی- سورہ المجادلہ کی آیات کے مطابق حزب الله بمقابلہ حزب الشیطان- حق کے مقابلے پر باطل اور مومنین کی جماعت کے مقابلے پر کافروں کی جماعت- اور یہ دو قومیں ہمیشہ ایک دوسرے کے مقابل ہی کھڑی ہوں گی- 

ختم رسالت و نبوت کے کئی مطلب نکلتے ہیں- ایک مطلب تو یہ بھی نکلتا ہے کہ شیطان کے پاس انسانوں کو بہکانے کے تمام حربے ختم ہو چکے ہیں- اب سے لے کر قیامت تک وہ جو بھی چالیں چلے گا وہ پرانی چالوں کی ہی نئی قسم ہوں گی- اور ان سے نمٹنے کے لئے قرآن اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سیرت کافی ہیں- قیامت تک کے لئے  انسانیت کی بھلائی، شیطان سے مقابلہ، زندگی کے ہر شعبے کے قوانین، اخلاقیات- اور بھی جو کچھ ہے ان کا حل ان ہی دو چیزوں میں ہے-  

اس کا ایک اور مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ اب بنی آدم ہر لحاظ سے اس قابل کر دئیے گۓ ہیں کہ کسی رسول یا پیغمبر کی براہ راست شمولیت کے بغیر بھی قرآن اور سنّت کے مطابق حکومتیں چلا سکتے ہیں- ان انسانوں کا کوئی مسلہ ایسا نہیں بچا جس کے لئے جبریل علیہ السلام کے ذریعے رابطے کی ضرورت ہو- آدم علیہ السلام سے لے کر محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم تک انسان جن جن مسائل سے گزر سکتا تھا گذر گیا- شیطان کے حربوں کی طرح انسانوں کے مسائل بھی پرانی مصیبتوں کا نیا روپ ہوں گے- انکے گناہ بھی پرانے گناہوں کی نئی شکل ہوں گے- اور ان کی طرف سے اسلام کے نام پر پیش کے جانے والے نظام بھی پرانے نظاموں کی نئی صورت ہوں گے- 

اور یہ بھی کہ حق اور باطل کی جنگ اگر قیامت تک کے لئے ہےاور کوئی نبی بھی نہیں آنا تو پھر یہ تمام انسانوں کے لئے ایک کھلی للکار ہے- ایک گروہ الله کی بغاوت کا نظام نافذ کرنے کے لئے ہراساں اور پریشان اور دوسرا اس کے مقابلے پر الله کی فرمانبرداری کا نظام نافذ کرنے کے لئے بر سر پیکار- 

انٹرنیٹ کی ایجاد سے پہلے یہ سب کچھ سمجھنا آسان نہ تھا- لیکن آج انٹرنیٹ کی ہر کھڑکی کے ساتھ ماضی کا ہر دروازہ کھلتا چلا جاتا ہے- اور یوں آج اور کل میں فرق یا مشابہت تلاش کرنا کوئی مشکل کام نہیں رہ گیا- پچھلی چند دہایوں میں جو آزادی، علم، سائنسی شعور دنیا میں پھیلایا گیا ہے اس کی روشنی اتنی واضح ہے کہ کوئی وجہ اب مبہم نہیں رہی- اور جن کے پاس یہ آزادی، یہ علم اور اختیار ہے- ان کا احتساب بھی سب سے زیادہ ہے- 

عالمی نظام کی خصوصیات 

عالمی نظام چاہے دجال کا ہو یا اسلام کا- کچھ خصوصیات ایسی ہیں جن کے بغیر دونوں میں سے کوئی نظام بھی چل نہیں سکتا-

١- ساری دنیا کے انسانوں پر عملا یہ ثابت کر کے دکھانا کہ صرف یہی نظام ہے جو انکی جان، مال اور عزت کی ضمانت دیتا ہے- 
٢- ساری دنیا کے انسانوں کو عملی کوششوں کے ذریعے یہ یقین دلانا کہ اس نظام کے تحت آ جانے سے انکے عقائد، ثقافت اور طرز زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا سواۓ اسکے کہ وہ خود اسے تبدیل کرنا چاہیں- انھیں ہراساں اور خوف زدہ نہیں کیا جاۓ گا- اور نہ ہی ان کا مذاق اڑایا جاۓ گا- 
٣- ساری دنیا کے انسانوں کو اس سوچ پر متفق کرنا کہ ہرانسان دوسرے انسان اور ہر قوم دوسری قوم کی ضرورت ہے اور کوئی بھی ملک صرف اپنے وسائل پر گذارا نہیں کرسکتا- اور اس بناء پر ہر قوم کو دوسری قوم کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے ضروری ہیں- 
٤- ساری دنیا کو اس بات کا یقین دلانا کہ انکے ساتھ کسی جانبداری کے بغیر انصاف کیا جاۓ گا- 
٥- ساری دنیا کے انسانوں کو الله کی زمین پر چلنے پھرنے، کام کرنے کی آزادی دینا-
٦- ایک ایسا ماحول پیدا کرنا کہ جس میں نہ کوئی یہ خوف کھاۓ کہ اس کے ساتھ دھوکہ، فریب، جبر کیا جاۓ گا- اور نہ کوئی دوسروں کے ساتھ ایسا کرنے کا سوچے-  ایک ایسا معاشرہ تیّار کرنا جس میں سب کو یہ بھروسہ ہو کہ اس کی مجبوری کا فائدہ نہیں اٹھایا جاۓ گا-
 ٧- ایک ایسا ماحول ترتیب دینا جس میں انسانوں کے جمالیاتی ذوق کی تسکین ہوسکے- اور فطرت اپنی بھر پور کشش کے ساتھ الله کے تخلیقی قدرتوں کی مظہر ہو- 

وہ دینی لوگ جو بڑے ذوق و شوق سے اسلام کی عالمی خلافت اور شریعت کے نفاذ کا بیڑہ اٹھاۓ ہوۓ کبھی انہوں نے یہ سوچا ہے کہ دنیا کی آٹھہ ارب آبادی کو کس طرح ایک اسلامی حکومت کے تحت رہنے کے لئے آمادہ کریں گے؟ ابھی تو ان کو یہ بھی نہیں پتہ کہ پاکستان میں نفاذ شریعت ہوگیا تو اٹھارہ کروڑ کی آبادی کو کس طرح ساتھ ملاکر چلیں گے- حالانکہ غیر مسلموں نے تو یہ کر کے دکھا دیا- کوئی مانے یا نہ مانے-  مسلمان امن، خوشحالی، سکون اور بنیادی حقوق کی فراہمی کے لئے امریکہ یا مغربی ممالک کا رخ کرتے ہیں- 

قوموں، قبیلوں اور علاقوں میں کوئی نظام، عقیدہ، یا مسلک متعارف کرانے اور اس کے بل پر حکومت کرنے کا دور ختم ہونے جا رہا ہے-  ساری دنیا کے انسانوں کو ایک حکومت کے نیچے اپنی رضا اور خوشی کے ساتھ رہنے پر آمادہ کرنے کا سہرا امریکہ کے سر جاتا ہے- اس کے لئے مغربی دنیا نے کیا کیا قیامتیں ڈھائیں وہ الگ بات ہے لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ عالمی اسلامی خلافت پر یقین رکھنے کے باوجود کسی بھی جگہ کی مسلمان قوم میں یہ صلاحیت اور قابلیت نہیں تھی کہ ایک قوت برداشت رکھنے والا اور قانون کو فوقیت دینے والا معاشرہ قائم کر سکتے- آج کی دنیا کے معاملات سلجھانے کے لئے مسلمان کس حد تک سنجیدہ ہیں؟  ساری دنیا کے انسان غیر سنجیدہ اور بے یقین لوگوں پر مسائل کو حل کرنے کے معاملے میں کس حد تک بھروسہ کر سکتے ہیں؟ آج مسلمان قوم کا حال یہ ہے کہ مکّہ اور مدینہ میں بھی لوگ اپنے سامان کی طرف سے فکرمند ہوتے ہیں کہ چوری نہ ہو جاۓ - یہ تو اپنے گھروں، خاندانوں اور محلوں کو کوئی نظام نہیں دے سکتے- ایک ملک نہیں سنبھال سکتے تو پھر ساری دنیا کو کس طرح ایک حکومت دے سکتے-  جس امت کے لوگوں کے لئے اپنے گھر اور مسجدوں کو چلانے کے لئے کوئی معاشی منصوبہ بندی نہ ہو اس پر قدرت اور دنیا والے کس طرح عالمی معاملات چلانے کے لئے بھروسہ کر سکتے ہیں- جس دنیا پر خلافت کے مسلمان خواب دیکھہ رہے ہیں اس کے بارے ہیں تو یہ نہیں جانتے کہ اس زمین پر کتنی قومیں اور فرقے موجود ہیں، کتنی زبانیں بولی جاتی ہیں، کس ملک کے کس سے کیا تعلقات ہیں، انکی معیشت کیا ہے، انکا قدرتی ماحول کیا ہے- دنیا کے ماحولیات کو کس طرح صحت بخش بنایا جاسکتا ہے-دنیا میں کتنے غار ہیں، کتنے سمندر ہیں اور کتنے گہرےہیں-  ہوا کتنی اونچائی پر جاکر ختم جو جاتی ہے- کون سا پہاڑ کتنا بلند ہے- زمین کی سطح، سمندروں، پہاڑوں، غاروں کے اندر کون سے خزانے دفن ہیں؟ ان سارے کے سارے شماریات کے لئے غیر مسلموں کی کاوشوں پر توکّل کرنا پڑتا ہے-  نہ سوچ اپنی، نہ فکر اپنی، نہ تحقیق اپنی، نہ تجویز اپنی، نہ تدبیر اپنی- اور جو حرکت نظر آتی ہے تو اسکی وجہ بھی  اصلاح سے زیادہ انتقامی مہم اور مقابلہ بازی ہی ہوتی ہے- 

بس احادث میں بیان کی گئی کافروں کی تباہی اور بربادی کے قصّے پڑھ پڑھ کر خوش ہوتے رہتے ہیں کہ کافروں کی ساری کی ساری محنت بیکار جاۓ گی- لیکن یہ کبھی نہیں سوچتے کہ جو محنت ہی نہ کریں اور کافروں کی محنت پر ہی اپنی دنیا داری اور دینداری کی دنیا بسا لیں انکے ساتھ خدا کیا معاملہ کرے گا-  


عالمی اسلامی خلافت  اور عالمی دجالی نظام  

دجال کی عالمی حکومت اور اسلام کی عالمی خلافت - دونوں ایک حقیقت ہیں-  اور اس وقت ساتھ ساتھ چل رہی ہیں-  

ایک طرف رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی احادیث کے مطابق دجال کی حکومت کا جو حال احوال ہے آج ہم سب اس کا تجربہ کر رہے ہیں-  دجال کا کمال یہ ہے کہ اس نے گویا موسیٰ کی قوم سے فرعون ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالے اور انھیں پر بٹھا دیے- اس نے ہر مسلمان قوم میں اسی کے اندر سے حزب الشیطان ڈھونڈ کر اور تراش کر سیاستدانوں اور دوسرے کرداروں کی شکل میں کھڑے کر دئیے ہیں- حزب الشیطان کا ایک حصّہ جرائم، ظلم، جہالت، غفلت، نفرت پھیلانے میں مصروف ہے تو دوسرا حصّہ لوگوں کو تفکر، غور و فکر اور زندگی کے اصل مقاصد سے دور رکھنے میں کوشاں ہے- اور یوں جنگ اور قتل و غارت بڑھتا جا رہا ہے- 

"اور اگر تم نہ نکلو گے تو خدا تم کو بڑی تکلیف کا عذاب دے گا۔ اور تمہاری جگہ اور لوگ پیدا کر دے گا (جو خدا کے پورے فرمانبردار ہوں گے) اور تم اس کو کچھ نقصان نہ پہنچا سکو گے اور خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے"  

سورہ التوبہ ٣٩ 
دوسری طرف رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی احادیث کے مطابق دنیا کا کوئی کونا اور کوئی جھونپڑی ایسی نہ بچے گی کہ وہاں اسلام داخل نہ ہوا ہو- تو یہ بھی ہو رہا ہے-  آج انٹرنیٹ کے ذریعے ساری دنیا حج کے مناظر دیکھتی ہے، مسجد الحرام  اور مسجد النبوی میں کی جانے والی عبادتیں دیکھتی ہے- قرآن کی تلاوت، قرآن فہمی، احادیث کاعلم، پیغمبروں کی باتیں، صحابہ کی زندگیاں، مسلمانوں کی فتوحات، اور نہ جانے کیا کچھ ہے کہ جس سے اب کوئی لا علم نہیں-  غیر مسلم مسلمانوں کی سیرت کی وجہ سے نہیں اپنے مطالعے اور تحقیق کی بنا پر اسلام میں داخل ہو رہے ہیں- اور یہ خود کو ہر قسم کی مجبوری سے آزاد کر مسلمان ہو رہے ہیں لہٰذا اسلام ان کی طاقت بن رہا ہے- 


"اور (اے محمد! اس وقت کو یاد کرو) جب کافر لوگ تمہارے بارے میں چال چل رہے تھے کہ تم کو قید کر دیں یا جان سے مار ڈالیں یا (وطن سے) نکال دیں تو (ادھر تو) وہ چال چل رہے تھے اور (اُدھر) خدا چال چل رہا تھا۔

اور خدا سب سے بہتر چال چلنے والا ہے"
 سورہ الانفال - ٣٠ 

ابراہیم علیہ السلام کا حضرت ہاجرہ اور اسمعیل کو مکّہ میں تنہا چھوڑ جانا، فرعون کے محل میں موسیٰ علیہ السلام کی پرورش، رسول صلی الله علیہ وسلم کی مدینہ ہجرت، صلح حدیبیہ، کربلا کے واقعات، محمد بن قاسم کا سندھ فتح کرنا، پاکستان کا مسلمانوں کی غیروں سے آزادی اور الله کی غلامی کے نام پر وجود میں آنا- اور کافروں کے ہاتھوں گلوبلائزیشن- 

یہ ہوتی ہیں الله کی منصوبہ بندیاں- 

اوران سب کے ساتھ ساتھ امریکہ کا ایک طاقتور متحدہ حکومت کے طور پر ابھرنا، ایک اسلامی نظام خلافت کے کچھ اصولوں پر مبنی نظام کو ساری دنیا میں متعارف کروانا اور اس طرح کہ سارے انسان اس پر بھروسہ بھی کریں-امریکہ میں مساوات اور برداشت پر مبنی ایک معاشرہ تشکیل دینا- مسلمانوں کو اپنے عقائد کے مطابق جینے کی آزادی دینا- اور یہ سمجھ لینا کہ اس طرح مسلمان امن، سکون اور خوشحالی کے ماحول میں اپنے اپنے ملکوں سے لا تعلق ہوکر امریکہ کے وفادار بن جائیں گے اور اس طرح وہ ان ملکوں میں فساد برپا کر کے ان کے وسائل پر قبضہ بھی کر لے گا- 

یہ ہیں دجال کی چالیں-

امریکہ کے نظام کی کامیابی کی وجہ اسکے نظام میں اسلامی خصوصیات کا موجود ہونا اور ناکامی کی وجہ وہ ظلم اور چالیں ہیں جو وہ امریکہ کو ایک کامیاب اور نجات دھندہ حکومت ثابت کرنے کے لئے دنیا کے انسانوں پر کر رہے ہیں- اور اس مقصد کے لئے دنیا بھر کی قوموں میں انھیں میں سے شیاطین صفت لوگوں کو با اختیار بنایا گیا ہے-  اور جب یہ آپس میں نفرتوں اور تعصب کے تماشے کرتے ہیں تو امریکہ نجات دھندہ کے طور پر سامنے آ جاتا ہے-  

جو باتیں اقوام متحدہ کے منشور میں ہیں اور جو امریکہ کے قوانین میں ہیں وہ تو تقریبا وہی ہیں جو چودہ سو سال پہلے اسلام نے دنیا میں متعارف کرائیں- لیکن آج مسلمان اپنے اسلامی منشور سے زیادہ ان دونوں منشوروں کی پرواہ کرتے ہیں اور ان پر ہی بھروسہ کرتے ہیں- 

اب جو بھی صورت حال دنیا کی بن چکی ہے اس میں سے کسی ایک قوم کا بھی لا تعلق رہنا فضول ہے کیونکہ ہر ملک کا ہر انسان اس سے متاثر ہو چکا ہے-  الله بھلا کرے امریکہ کا کہ اس کی خارجہ پالیسیوں نے بقول اقبال "مسلماں کو مسلمان کردیا طوفان مغرب نے" ہر مسلمان کو اسکی زندگی کے اصل مقصد کی طرف راغب کردیا-  ورنہ مسلمان قوموں نے تو آدھی سے زیادہ دنیا پر پھیلی ہوئی اپنی ہی حکومت کو کھو دیا یہ غیر مسلم دنیا کو اپنے ساتھ ملا کر کیسے چلتے-  اس نیو ورلڈ آرڈر نے مسلمانوں کا کام آسان کردیا ہے- لوگوں کے ایک دوسرے کے ملکوں اور رہنے سہنے کے حال احوال جان لئے ہیں- ایک دوسرے کے کھانے چکھ لئے ہیں- ایک دوسرے کے مذاہب اور عقائد کے بارے میں جان لیا ہے-  دنیا کی جغرافیائی شکل بھی دیکھ لی کہ دنیا کے ایک حصّے سے دوسرے حصّے تک کتنے سمندر، دریا، جھیلیں، صحرا اور پہاڑ آتے ہیں اور انھیں کس طرح پار کرنا ہے-  ہر جگہ کے موسم اور اوقات بھی معلوم کر لئے-  لہٰذا اب کرّہ ارض پر کسی ایک نظام کی اجارہ داری قائم ہونا کوئی خواب نہیں رہ گیا- یہ حقیقت ہے کہ ابھی مسلمان ملکوں کی تباہیوں کے نتیجے کے طور پر مزید مسلمان مغربی ممالک کا رخ کریں گے-  اور بالآخر ایک مرتبہ تو ساری دنیا کچھ دنوں کے لئے کفر کے جھنڈے تلے جمع ہو ہی جاۓ گی-  جس کا مقصد اسکے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ دنیا کی آبادی کو اسلامی خلافت سے پہلے ہی ساتھ مل کر رہنے کا تجربہ ہو جاۓ- ایک مرکز کی طرف دیکھنے کی عادت پڑ جاۓ- اس طرح عالمی خلافت کے لئے ہونے والے معرکے میں اسلامی طاقتوں کے مقابلے پر صرف اک ہی طاقت ہوگی -  اور اس کی شکست اسکے تمام شریکوں کی شکست ہوگی-