یا الٰھی، دے لوگائی، جس سے بچے ہوں ہزار
پانچ سو ڈپٹی کلکٹر، پانچ سو ہوں صوبیدار
پرانے زمانے کا شعر ہے- آج بابا نے سنایا- کہنے لگے کہ چند دن پہلے کوئی مجھ سے اچھی سی دعا پوچھ رہا تھا تو میں اسے مسجد کے دروازے پر لے گیا اور بسم الله پڑھا کر یہ شعر پڑھا دیا- شرارت میں- آج اسی پچاسی سال کی عمر میں بھی ماشاء الله مسجد سے بھی دلچسپی ہے، لوگوں کے معاملات بھی سنتے رہتے ہیں- ہر وقت تسبیح ہاتھ میں رکھتے کچھ پڑھتے رہتے ہیں- کبھی کبھی قبر میں پوچھے جانے والے سوالات بھول جاتے ہیں تو پوچھتے ہیں کہ وہ کیا سوال تھا عربی میں- کبھی کوئی آیات بھول جاتے ہیں تو وہ بھی پوچھتے ہیں- اپنے زندگی میں کی گئی غلطیوں پر خوب روتے بھی ہیں اور الله سے معافی بھی مانگتے رہتے ہیں- جب میں فجر کے بعد بچوں کو سکائپ پر قرآن پڑھاتی ہوں تو انکے پاس بیٹھہ کر سن رہے ہوتے ہیں اور اپنا تلفّظ بھی ٹھیک کر رہے ہوتے ہیں- ہر بات کا شروع الله کے شکر سے اور بات کا آخر الله توکّل سے کرتے ہیں- "الله مالک ہے بیٹا، اچھا ہی کرے گا"- دعا بہت مانگتے ہیں لیکن یا تو اپنی معافی کی یا ہم سب کی خوشیوں کی- لیکن دو مرتبہ تو اڑ گۓ- کہنے لگے میں نے الله سے کہہ دیا کہ یہ تو ہونا ہی چاہیے اور وہ ہوا- ایک مرتبہ اپنے اور ایک مرتبہ دادا کے نام کا حج کر چکے ہیں- اور انکی خواہش ہے کہ اپنی والدہ کے نام کا حج بھی کریں- زندگی میں کبھی انہیں کسی سے ڈرتے نہیں دیکھا- آج بھی سیدھے چلتے ہیں- خود کو جوان نہیں تو بوڑھا بھی نہیں سمجھتے کیونکہ اکثر کہتے ہیں کہ فلاں آدمی سے بات ہوئی بے چارہ بہت ہی بوڑھا تھا- یا کہیں گے کہ بھئی ایسے بوڑھے بوڑھے لوگ دکھتے ہیں کہ حیران ہوتا ہوں یہ زندہ کیسے ہیں- اپنے دماغ اور مزاج کے مطابق جو چاہے کرتے رہتے ہیں- بابا سے زیادہ اپنے باپ کا ادب اور لحاظ کرنے والا بیٹا نہ سنا نہ دیکھا- مکمّل تو صرف الله کی ذات ہے- لیکن جو اپنے کئے پر الله سے نادم رہے اور اپنی زندگی کو کسی بھی طور بہتر بناتا رہے وہ کبھی بوڑھا نہیں ہوتا- جوان ہی رہتا ہے- امی کو بھی شعور پاتے ہی گھر کے کاموں میں مگن دیکھا- کبھی ایک دن بھی صبح دیر تک سوتے نہیں دیکھا- دوپہر میں ایک گھنٹے کا قیلولہ ضرور کرتیں تھیں- حد سے زیادہ مثبت کاموں کی طرف راغب پایا- کبھی نئے نئے کپڑوں، زیورات کی فرمائش کرتے نہیں دیکھا- حد سے زیادہ خوش اخلاق اور ملنسار- دونوں امی اور بابا دوسروں کے کام آنے والے- بے وقوفی کی حد تک- اکثر امی بابا کو دیکھ کر ہم کو اپنے پر شرم آتی ہے-
ہمارے معاشرے میں کچھ رجحانات پرانے زمانے سے چلے آرہے ہیں- ہو سکتا ہے وہ چند دھائیوں پہلے تک اچھے معاشرتی اقدار کا حصّہ ہوں- اور اس وقت بوجھ کے بجاۓ رحمت اور برکت کی نشانیاں سمجھی جاتی ہوں- مثلا، زیادہ بیٹے یا زیادہ اولادیں، بیٹوں کا کمانا بیٹوں کے بڑے ہونے کی نشانی، اولاد کے بڑے ہونے کے بعد مذہبی رجحانات کا بڑھنا، اولاد کے بڑے ہونے کے بعد حج اور زیارتوں کی خواھشات پوری کرنا، ایک مرد کی کمائی پر پورے گھر کا انحصار، اولاد ہونے کے بعد پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے خواب دیکھنا، بڑھاپے میں پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے ساتھہ وقت گزارنا، وغیرہ وغیرہ
پچھلے زمانے کے بزرگ اپنا ایک حلقۂ احباب بنا لیتے تھے اور اس میں ہر قسم کے بزرگ ہوتے- وہ پھر اپنے سے چھوٹوں کے معاملات میں نہیں بولتے تھے- خود جتنا ہو سکتا تھا گھر میں ہاتھ بٹاتے ورنہ الله الله کرتے- گھر کے چھوٹے بھی ان پر زیادہ اعتراضات نہیں کرتے- بزرگوں کا مذھب کی طرف رجحان انکے لئے ایک طریقے سے دل کی تسلی کا باعث بنتا کہ گناہ معاف ہو رہے ہیں- اور ماحول میں بھی ایک سکون قائم رہتا-
اکثر پڑھے لکھے بزرگ ہاتھوں میں اخبار سے پہچانے جاتے اور سارا علاقہ انکی عزت کرتا- کچھ اپنے بچوں کے بچوں کو لے کر ٹہلنے نکل جاتے- کچھ انہیں مسجد لے جاتے- کچھ بزرگ گھروں میں بچوں کو قرآن پڑھا دیتے- کچھ بچوں کو اسکول پہنچانے کی ذمّہ داری لے لیتے- کچھ گھر سے ادھر ادھر لوگوں سے خوش گپیاں کرکے وقت گذارتے- کچھ ہفتے میں دوسرے رشتہ داروں کے گھر کے چکّر لگا آتے اور خاندان بھر کی خبریں انکے ذریعے ایک دوسرے تک پہنچ جاتیں- اگر کوئی بزرگ حج یا عمرہ کر لیتا توآس پاس کے محلّے تک مبارکباد کے لئے پہنچ جاتے- اکثر بیٹھکوں میں ہی گھریلو مسائل بھی زیر بحث آتے- اور وہیں انکے کچھ نہ کچھ حل بھی پیش کر دیے جاتے- گھر کی خواتین ہوں یا مرد- ان میں ایک دو ایسے ضرور ہوتے جو اپنی سمجھداری، دور اندیشی اور معاملہ فہمی کے لئے مشھور ہوتے- اور سب ان سے مسلے حل کرواتے اور انکے فیصلوں کو حرف آخر سمجھتے- اکثر گھروں میں پالتو جانور بھی ہوتے اور انکا بھی خیال رکھا جا رہا ہوتا- اکثر لوگ اپنے شوق کی وجہ سے بھی مشہور ہوتے-
اب جوان ہوں یا بزرگ، ہر کوئی چڑچڑا نظر آتا ہے- ہر کوئی بیرزار- اپنی زندگی سے ناخوش- غیر مطمئن-
بزرگوں کو جوانوں سے شکایات اور جوانوں کے بزرگوں پر الزامات- ہر کوئی حساب کتاب کرتا نظر آتا ہے-
پہلے کیسے اتنا وقت اور پیسے ہوتے تھے کہ کنبہ کے کنبہ پل جاتے اور سارے کام بھی ہو جاتے-
پچھلی چند دھائیوں سے کیا ہو گیا؟
آج اپنے ارد گرد نگاہ ڈالیں تو بزرگوں کے ٹولے اکّا دکّا ہی کہیں نظر آتے ہیں اور وہ ایک خاص معیار کے مطابق- جو پینسٹھ سال کے یا اس سے زیادہ عمر کے ہیں- یا تو انکو یہ شکایات ہیں کہ انکی اولادیں فرمانبردار نہیں- یا ان کو توجہ نہیں دیتیں- یا انکو خرچہ پورا نہیں کرتیں- یا انکے بچوں کے بچے ان کو پریشان کرتے ہیں- ایدھی سنٹرز میں بوڑھوں سے بات کریں تو ان کے لبوں پر ہر قسم کی شکایات ہوتی ہیں- گھروں میں بوڑھے بیزار نظر آتے ہیں- کبھی بیٹوں سے کبھی بیٹیوں سے، کبھی بہو سے کبھی داماد سے-
ان بزرگوں نے اپنی جوانی ہمیں آسائشیں پہنچانے میں کاٹ دی- ہمارے لئے صرف اپنے دن رات ہی ایک نہیں کے بلکہ اپنے اسلامی فرائض سے بھی غافل ہوگۓ- اور الله کے نافرمان بھی بنے- انہوں نے یہ سوچا ہی نہیں کہ ہم تو انکے لئے ایک آزمائش کا سامان ہیں- پھر سب کچھ ہم پر لٹاتے وقت یہ بھی نہ سوچا کہ انکا اپنا بڑھاپا کیسے کٹے گا- اگر انہوں نے یہ سب رزق حلال کے ساتھہ کیا تو پھر سب سے بڑا جہاد یہی کیا- اور بہت ہی افضل زندگی گذاری- اور اب انکو یہ سمجھ نہیں آتی کہ اس وقت انہیں کیا کرنا چاہیے- پچھلی روایات کے مطابق تو یہ انکے آرام کا زمانہ ہے- اور اکثر تو اپنے گھروں میں ہی ہیں- اپنی اولادوں کے ساتھ- لیکن پھر یہ بے سکونی کیوں ہے-
جو پینسٹھ سال سے زیادہ کے ہو گۓ ان پر الزام دینے سے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ انھیں سب سے زیادہ پتہ ہے کہ انہوں نے کیا کیا کیا- انکو انکی ناکامیوں کا احساس دلانا ان پر تیر چلانے کے مترادف ہے- نہ دلائیں کیونکہ شاید انکی ناکامیاں ہی ہماری کامیابیاں بنی ہیں- آج ہمارے لئے زندگی جتنی دشوار ہے، کل انکے لئے بھی تھی-
اکثر جوان گھر میں بڑے بوڑھوں کے زیادہ بولنے سے بھی پریشان ہوتے ہیں- یہ سوچیں کہ پتہ نہیں کون کون سی بھڑاس انکے دل میں ہے جو وہ اب نکالنا چاہ رہے ہیں- کیونکہ اولاد پالتے وقت ہمارے ماں باپ خود پر ظلم یہ کرتے ہیں کہ اپنی شخصیت کی نفی کر دیتے ہیں خود پر بھی توجہ دینا بند کر دیتے ہیں- اتنی قربانیاں دیتے ہیں جو شاید جائز بھی نہ ہوں- اور جب جوانی کی حدود اور اپنی ذمّہ داریوں سے فارغ ہوتے ہیں تو بالکل ایک بچے کی طرح حیران و پریشان ہوتے ہیں کہ اب کیا کریں- شاید انہوں نے اپنا آرام اس لئے قربان کیا ہوتا ہے کہ انکے بچے بڑے ہو کر اس آرام کا موقع انہیں دیں گے-
جنگل میں بھی انسان کے فائدے کی جڑی بوٹیاں اگتی رہتی ہیں لیکن جنگل کسی کھیت کی طرح منظّم اور مسلسل غذا کا ذریعہ نہیں ہوتا- نہیں ہوتا- برصغیر کا معاشرہ بھی ایک جنگل کی طرح ہے- اس میں وقفہ وقفہ سے نیک، مخلص اور سمجھدار لوگ پیدا ہوتے رہتے ہیں- لیکن ایک منفی ماحول میں یہ سخت آزمائشوں کا شکار رہتے ہیں اور آخر میں تھک جاتے یا مایوس ہو جاتے ہیں- علامہ اقبال، قائد اعظم اور ان سے پہلے اور بعد کے مخلص انسان بھی جنگل میں پیدا ہونے والی جڑی بوٹیوں کی طرح تھے جو بیماری میں بہترین دوائیں ثابت ہوئیں- لیکن مسلسل صحت کے لئے معاشرے کے ایک ایک فرد کو اپنے پرہیز اور ماحول کی صفائی کا خود خیال رکھنا پڑتا ہے-
اس عمر کے لوگوں کو سب سے زیادہ دعا اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے- دو تین سال پہلے جب امی بابا آۓ تھے تو انکے لئے سب سے زیادہ یہی حکمت عملی کام آئی تھی- بابا تہجّد سے اٹھے ہوتے تھے اس لئے فجر کے بعد سو جاتے تھے- میں نے ایک دن ایسے ہی صبح صبح انکے بچپن کے بارے میں پوچھ لیا- کوئی دو گھنٹے تک وہ رامپور کے بارے میں بتاتے رہے- دوسری صبح وہ سونے کے بجاۓ میز پر بیٹھے تھے- میں نے پھر انکے بچپن کی شرارتوں کا پوچھ لیا- اسی طرح چار پانچ دن ہوا- اس دوران وہ بڑے پر جوش ہوجاتے- ایک کے بعد ایک بات انھیں یاد آتی چلی جاتی- یہی امی کے ساتھہ بھی ایک دو مرتبہ کیا-
اکثر جوان گھر میں بڑے بوڑھوں کے زیادہ بولنے سے بھی پریشان ہوتے ہیں- یہ سوچیں کہ پتہ نہیں کون کون سی بھڑاس انکے دل میں ہے جو وہ اب نکالنا چاہ رہے ہیں- کیونکہ اولاد پالتے وقت ہمارے ماں باپ خود پر ظلم یہ کرتے ہیں کہ اپنی شخصیت کی نفی کر دیتے ہیں خود پر بھی توجہ دینا بند کر دیتے ہیں- اتنی قربانیاں دیتے ہیں جو شاید جائز بھی نہ ہوں- اور جب جوانی کی حدود اور اپنی ذمّہ داریوں سے فارغ ہوتے ہیں تو بالکل ایک بچے کی طرح حیران و پریشان ہوتے ہیں کہ اب کیا کریں- شاید انہوں نے اپنا آرام اس لئے قربان کیا ہوتا ہے کہ انکے بچے بڑے ہو کر اس آرام کا موقع انہیں دیں گے-
جنگل میں بھی انسان کے فائدے کی جڑی بوٹیاں اگتی رہتی ہیں لیکن جنگل کسی کھیت کی طرح منظّم اور مسلسل غذا کا ذریعہ نہیں ہوتا- نہیں ہوتا- برصغیر کا معاشرہ بھی ایک جنگل کی طرح ہے- اس میں وقفہ وقفہ سے نیک، مخلص اور سمجھدار لوگ پیدا ہوتے رہتے ہیں- لیکن ایک منفی ماحول میں یہ سخت آزمائشوں کا شکار رہتے ہیں اور آخر میں تھک جاتے یا مایوس ہو جاتے ہیں- علامہ اقبال، قائد اعظم اور ان سے پہلے اور بعد کے مخلص انسان بھی جنگل میں پیدا ہونے والی جڑی بوٹیوں کی طرح تھے جو بیماری میں بہترین دوائیں ثابت ہوئیں- لیکن مسلسل صحت کے لئے معاشرے کے ایک ایک فرد کو اپنے پرہیز اور ماحول کی صفائی کا خود خیال رکھنا پڑتا ہے-
اس عمر کے لوگوں کو سب سے زیادہ دعا اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے- دو تین سال پہلے جب امی بابا آۓ تھے تو انکے لئے سب سے زیادہ یہی حکمت عملی کام آئی تھی- بابا تہجّد سے اٹھے ہوتے تھے اس لئے فجر کے بعد سو جاتے تھے- میں نے ایک دن ایسے ہی صبح صبح انکے بچپن کے بارے میں پوچھ لیا- کوئی دو گھنٹے تک وہ رامپور کے بارے میں بتاتے رہے- دوسری صبح وہ سونے کے بجاۓ میز پر بیٹھے تھے- میں نے پھر انکے بچپن کی شرارتوں کا پوچھ لیا- اسی طرح چار پانچ دن ہوا- اس دوران وہ بڑے پر جوش ہوجاتے- ایک کے بعد ایک بات انھیں یاد آتی چلی جاتی- یہی امی کے ساتھہ بھی ایک دو مرتبہ کیا-
اس میں کوئی شک نہیں کہ بزرگ گھر میں الله کی رحمت ہوتے ہیں- ان کے دم سے ماحول میں نور ہوتا ہے- انکی وجہ سے رحمت کے فرشتے گھروں کا رخ کرتے ہیں- لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ بزرگوں کو نئے زمانے کے نئے تقاضوں کے مطابق اپنی زندگی اور سوچ میں تھوڑی سی تبدیلی لانی چاہیے- آج جس مشکل ترین طرز زندگی کو یہ جوان گذار رہے ہیں اس سے تعارف بہر حال بزرگوں نے ہی کرایا تھا- ایک خوشحال، آرام دہ، اپنی اپنی زندگی کے خواب، بزرگوں نے ہی ان کو دکھاۓ تھے- آج یہ انہی خوابوں کو حقیقت بنانے پر تلے ہوۓ ہیں- یہ بھول کر کہ کل ان کا کوئی پرسان حال نہ ہوگا- ایک غیر منظّم معاشرے میں اگر بزرگوں کا قصور نہیں تو جوانوں کا بھی نہیں- سواۓ اس کے کہ اگر یہ جوان اپنے بچوں کی بہتری چاہتے ہیں تو پھر تھوڑے صبر و برداشت اور عقلمندی کے ساتھہ ایک مربوط نظام بنائیں- اس جنگل کو کھیت میں تبدیل کریں- ورنہ اپنے بزرگوں سے بھی زیادہ بد تر بڑھاپے کے لئے تیّار رہیں-
جو بزرگ ایدھی سنٹرز اور ایسے ہی دوسرے اداروں میں ہیں وہ تو وہیں ایک دوسرے پر اپنے ہنر آزما سکتے ہیں- ایک دوسرے کو کچھ سکھا سکتے ہیں- ساتھہ مل کر عبادت کر سکتے ہیں- ادارے میں پھول پودے لگا سکتے ہیں- بجاۓ کہ اپنی اولادوں کی شکایات کریں- ایک طریقے سے خوش ہو سکتے ہیں کہ چلو اس بہانے پتہ نہیں کتنے لوگوں سے ملاقات ہو گئی- اپنی اپنی زندگی کی اچھی یادیں ایک دوسرے کے ساتھ شئیر کر سکتے ہیں- بلکہ کوئی انٹر ویو لینے کے بہانے منفیت پھیلانے اور مایوس کرنے کی کوشش کرے تو انکی کوشش بھی ناکام کر دیں- جب بچوں کی شادیاں کردیں- تو اب کیا فرق پڑتا ہے کہ کہاں رہیں- الله کی دنیا دیکھیں- اسکی قدرت پر توجہ کریں- اسکا ذکر کریں، شکر کریں- بچے جانیں اور انکی زندگی- اگر انکو مدد کی ضرورت ہو تو ضرور مدد کریں- لیکن خود کو انکے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں- کیونکہ وہ بھی بڑے مشکل ترین دور سے گذر رہے ہیں- اور بہت مرتبہ مجبور بھی ہوتے ہیں- اور نہیں تو کوئی شوق پال لیں- اپنی آخرت کے لئے نیکیاں جمع کرنی شروع کردیں-
ایک بوڑھا ہوا کرتا تھا- جو اپنے ساتھ بڑا سا تھیلا لئے گھر گھر شام کے وقت روٹیاں اور کھانا جمع کرتا تھا- لوگ اس کے پیٹھ پیچھے اس پر تنقید کرتے کہ یہ اتنے کھانے کا کرتا کیا ہے- پاگل ہے- وغیرہ وغیرہ - پھر کچھ دن وہ نظر نہ آیا- معلومات کرنے پر پتہ چلا کہ اسکا انتقال ہو گیا- اور وہ کچھ یتیم بچوں کے لئے کھانا جمع کیا کرتا تھا- اور اگر اس بوڑھے کا انتقال نہ ہوا ہوتا تو لوگوں کو یہ بھی نہ پتہ چلتا کہ اس علاقے میں کچھ یتیم بچے بھی ہیں جن کی باسی روٹی کا آسرا بھی چھن گیا ہے-
ہم بہن بھائیوں اور کزنوں کے کے بچپن میں بہت شوق ہوا کرتے تھے- ایک تو گھر میں طوطے اور بلّیاں- اور طوطے ہم خریدتے نہیں تھے بلکہ ٹماٹر، ہری مرچیں اور روٹی کے ٹکڑے رکھ رکھ کر انھیں پکڑا کرتے- اور امی انکے پر کاٹ دیتیں- پھر چھوٹے بھائی کو کبھی کنیریز، چوزوں کا شوق چڑھتا- کبھی وہ تنکوں اور تیلیوں سے گاڑیاں اور جہاز بنا رہا ہوتا- باجی اپنی ڈائریاں اور دوستیاں اور کڑاہیاں میں مصروف ہوتیں- میری مختلف چھوٹی چھوٹی کاپیاں ہوتی تھیں ایک ریکارڈ کی صورت میں- ایک میں نعتیں لکھی ہوتیں اور مساجد کی تصویریں- ایک میں فوجی نغنے اور فوجیوں کی تصویریں- کچھ ڈرائنگ کی کاپیاں جس میں کلیگرافی، ڈیزائنز اور پتہ نہیں کیا کیا بنایا ہوا تھا- ہم کزنز مل کر پتہ نہیں کتنے کھیل کھیل رہے ہوتے تھے- کبھی اپنی گڑیوں کے کپڑے سی رہے ہوتے- کبھی اون سلائیاں ہاتھ میں- کبھی آپا آپا، کبھی کلاس کا منظر, کبھی اسپتال کا منظر- چوڑیاں جمع کرنے کا شوق- اور ٹوٹی ہوئی چوڑیوں سے چیزیں بنانے کا شوق- کیا کیا ترکیبیں لڑا رہے ہوتے شرارتوں کی- دو گھر چھوڑ کر ایک گھر میں آم کا درخت تھا جس پر سے اپنے گھر سے کیریاں توڑی جاتیں- امی کو آج تک بھی نہیں پتہ کہ انکا پسا ہوا دھنیے میں چینی ملا کر میں کھا جاتی تھی- ایک دوسرے کی سالگرہ منا رہے ہوتے- حتیٰ کہ بلّیوں کی بھی سالگرہ منا لیتے- ایک دوسرے کی مجلسوں میلادوں میں جارہے ہوتے- کبھی خود ہی بچوں کا میلاد کرتے- مجلسوں میں مقابلہ کرتے کہ کون سب سے زور سے ماتم کرے گا- چھوٹی خالہ کو گھومنے پھرنے اور ہلّے گلّے کا شوق تھا- تو کراچی انکی وجہ سے گھوما- فلمیں بھی وہی دکھاتی تھیں- امی کی ایک دوست کے والد، شوق مرادآبادی صاحب شاعر تھے تو انکی وجہ سے علاقے کے کئی مشاعروں میں بھی گۓ وہاں اقبال عظیم صاحب اور دوسرے شعراء کو دیکھتے اور سنتے- اور ایک مرتبہ تو انتہا کردی کہ اپنی ایک کزن کی سالگرہ کو پورا فنکشن بنا ڈالا- سارے خاندان کو بلایا- کرسیاں لگائیں- ایک مہینہ اسکی ریہرسل کی- بڑوں نے اسٹیج بنایا- ہم چھوٹوں نے ڈرامے، گانوں اور لطیفوں میں کردار ادا کیے- اور کیا کمال کی اداکاریاں کیں- مصروفیت سی مصروفیت تھی- زندگی تخلیق ,خوشیوں اور جوش کی انتہاؤں پر تھی- اور ہمارا گھر ایک مکمّل مونٹیسوری کی مثال تھا-
اس ملک کے لوگ شدید ترین نفسیاتی بحران کا شکار ہیں- اس لئے کہ نہ ان میں کسی چیز کا شوق نہ ذوق- کسی چیز سے خوش نہیں- ہر کام مشکل، ہر چیز اور ہر کام بے کار لگتا ہے انکو- اور ہر عمر میں کرنا بے کار لگتا ہے- طویل خواہشات اور پھر اس میں ناکامی- سب کے لئے عذاب بن گئی ہے- ہر کوئی خود کو حق پر سمجھتا ہے- ہر کوئی خود معصوم سمجھتا ہے- ہر کوئی خود کو عاقل اور دوسرے کو بے وقوف سمجھتا ہے- ہر کوئی دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے- ہر کسی نے اپنی مجبوریوں اور اپنے اعمال کو جسٹیفائی کیا ہوا ہے- اور کم سے کم پرفارمنس پر زیادہ سے زیادہ اجر کا امید وار ہے- بقول بابا کے پرانے شعر کے
اس ملک کے لوگ شدید ترین نفسیاتی بحران کا شکار ہیں- اس لئے کہ نہ ان میں کسی چیز کا شوق نہ ذوق- کسی چیز سے خوش نہیں- ہر کام مشکل، ہر چیز اور ہر کام بے کار لگتا ہے انکو- اور ہر عمر میں کرنا بے کار لگتا ہے- طویل خواہشات اور پھر اس میں ناکامی- سب کے لئے عذاب بن گئی ہے- ہر کوئی خود کو حق پر سمجھتا ہے- ہر کوئی خود معصوم سمجھتا ہے- ہر کوئی خود کو عاقل اور دوسرے کو بے وقوف سمجھتا ہے- ہر کوئی دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے- ہر کسی نے اپنی مجبوریوں اور اپنے اعمال کو جسٹیفائی کیا ہوا ہے- اور کم سے کم پرفارمنس پر زیادہ سے زیادہ اجر کا امید وار ہے- بقول بابا کے پرانے شعر کے
کرنی کرے تو کیوں کرے اور کر کے کیوں پچتاۓ
بیج بوۓ ببول کا تو آم کہاں سے کھاۓ
اور یہ بات بزرگوں کو بچے نہ بتائیں کیونکہ یہ بزرگوں کے لئے کسی صدمے سے کم نہیں ہوتا- اور مروت اور شرافت کا تقاضہ بھی نہیں- یہ بات سمجھدار بزرگ ہی دوسرے بزرگوں کو سمجھا سکتے ہیں-
ہمارے ہاں ایک سوچ نے آہستہ آہستہ اس معاشرے میں ایک شخصیت کا روپ دھار لیا ہے کہ بڑھاپے میں زندگی بے کار ہوجاتی ہے- جوں جوں لوگ عمر رسیدگی کی طرف گامزن ہوتے ہیں وہ یہ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں کہ جب جوانی میں ہم کامیابی حاصل نہ کرسکے تو بڑھاپے میں کیا کریں گے- اور کامیابی ان کے نزدیک بنگلہ، گاڑیاں، بینک بیلنس، نوکر چاکر، شہرت کا نام ہوتا ہے- وہ یہ نہیں سوچتے کہ کروڑوں لوگوں کے ایک بے ہنگم ہجوم میں زندہ رہنا، اور اخلاقی اصولوں کے مطابق زندہ رہنا اور اس دوران اپنی اولادوں کو بھی اخلاقی اصولوں کے مطابق تعلیم و تربیت دینا بھی بہت بڑی کامیابی ہے- کامیابی وہ نہیں جسے دوسرے کامیابی کہیں-
سعید ہاشمی کی ایک نعت کا شعر ہے کہ
یہ نکتۂ رضا چودہ سو سال پہلے اہل بیت اور اصحابہ کرام کو سمجھ آگیا تھا- اور آدھی سے زیادہ دنیا چالیس سال میں مسلمانوں کے زیر حکومت تھی-
ہمارے ہاں ایک سوچ نے آہستہ آہستہ اس معاشرے میں ایک شخصیت کا روپ دھار لیا ہے کہ بڑھاپے میں زندگی بے کار ہوجاتی ہے- جوں جوں لوگ عمر رسیدگی کی طرف گامزن ہوتے ہیں وہ یہ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں کہ جب جوانی میں ہم کامیابی حاصل نہ کرسکے تو بڑھاپے میں کیا کریں گے- اور کامیابی ان کے نزدیک بنگلہ، گاڑیاں، بینک بیلنس، نوکر چاکر، شہرت کا نام ہوتا ہے- وہ یہ نہیں سوچتے کہ کروڑوں لوگوں کے ایک بے ہنگم ہجوم میں زندہ رہنا، اور اخلاقی اصولوں کے مطابق زندہ رہنا اور اس دوران اپنی اولادوں کو بھی اخلاقی اصولوں کے مطابق تعلیم و تربیت دینا بھی بہت بڑی کامیابی ہے- کامیابی وہ نہیں جسے دوسرے کامیابی کہیں-
"اور خدا کی رضا مندی تو سب سے بڑھ کر نعمت ہے- یہی بڑی کامیابی ہے"- سوره التوبہ، آیت ٧٢
سعید ہاشمی کی ایک نعت کا شعر ہے کہ
اگر کوئی اپنا بھلا چاہتا ہے
اسے چاہے جس کو خدا چاہتا ہے
خدا کی رضا مصطفیٰ چاہتے ہیں
خدا مصطفیٰ کی رضا چاہتا ہے
یہ نکتۂ رضا چودہ سو سال پہلے اہل بیت اور اصحابہ کرام کو سمجھ آگیا تھا- اور آدھی سے زیادہ دنیا چالیس سال میں مسلمانوں کے زیر حکومت تھی-