Showing posts with label نفسیاتی مریضوں کا معالج. Show all posts
Showing posts with label نفسیاتی مریضوں کا معالج. Show all posts

Monday 21 April 2014

علامہ محمّد اقبال رحمة الله علیہ

علامہ محمّد اقبال رحمة الله علیہ 
شاعر مشرق 
حکیم الامّت 
مفکّر پاکستان 
مصور پاکستان 
ایک  فلسفی 
ایک دانشور 
ایک مدبّر 
ایک عالم 
 ایک سیاستدان 
 میرے محسن اور میرے رہنما 

بلکہ میں تو نفسیاتی مریضوں کا معالج بھی کہتی ہیں-  ذرا حزن و ملال و مایوسی ہو، کلّیات اقبال پڑھ لیں-  طبیعت صاف ہو جاتی ہے-  
فرماتے ہیں 

حقیقت ازلی ہے رقابت اقوام 
نگاہ پیر فلک میں نہ میں عزیز نہ تو 
خودی میں ڈوب، زمانے سے نا امید نہ ہو 
کہ اسکا زخم ہے در پردہ اہتمام رفو 
رہے گا تو ہی جہاں میں یگانہ و یکتہ 
اتر گیا جو ترے دل میں لا شریک لہ 

یہی نشاں ہے زمانے میں زندہ قوموں کا 
کہ صبح شام بدلتی ہیں انکی تقدیریں 
کمال صدق و مروّت ہے زندگی انکی 
معاف کرتی ہے فطرت بھی انکی تقصیریں 

اور جتنی میری تقدیر صبح و شام بدلتی ہے لگتا ہے کہ سب سے زیادہ زندہ میں ہی ہوں-  اور دنیا میں سب سے زیادہ سفر میں بھی میں ہی ہوں-  ابھی کہیں ٹکتی نہیں کہ اٹھنے اٹھانے کے حالات پیدا ہو جاتے ہیں-  اگرقرآن اور کلّیات اقبال کی خوراکیں نہ لے رہی ہوتی تو کافر ہو چکی ہوتی شاید-  الله کا کرم ہے-  الله میری اور میرے تمام گھر والوں کی تقصیریں معاف فرماۓ-  آمین 

اور پتہ نہیں کب سے تلاش کر رہی تھی  وہ ایمان جسے حضرت علی کے مطابق انہوں نے قرآن سے پہلے سیکھ لیا تھا-  

ابھی کلّیات پڑھتے پڑھتے نظر پڑی "علم ہے ابن الکتاب، عشق ہے ام الکتاب"- اب 
جو مطلب مجھے سمجھ آیا دونوں کو ملا کر وہ یہ کہ 
١- کتاب کے اندر علم ہوتا ہے اور کتاب کے باہر عشق- 
٢- تو کیا حضرت علی اور دوسرے صحابۂ کرام نے جو ایمان قرآن سے پہلے سیکھا تھا اسکا نام عشق تھا-  اور علم بعد میں انکی تصدیق کے لئے نازل ہوا- 

اور یہ عشق کیا ہے؟

کبھی تنہائ کوہ و دمن عشق 
کبھی سوز و سرور انجمن عشق 
کبھی سرمایہ محراب و منبر 
کبھی مولا علی خیبر شکن عشق 

عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولین ہے عشق 
عشق نہ ہو تو شرع دیں بت کدہ تصورات 
صدق خلیل بھی ہے عشق، صبر حسین بھی ہے عشق 
معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق 

اور علامہ کے طنز و مزاح پڑھ کر ہنسی آرہی تھی- کہتے ہیں 

ہاتھوں سے اپنے دامن دنیا نکل گیا 
رخصت ہوا دلوں سے خیال معاد بھی 
قانون وقف کے لئے لڑتے تھے شیخ جی 
پوچھو تو وقف کے لئے ہے جائیداد بھی 

شیخ صاحب بھی تو پردے کے کوئی حامی نہیں 
مفت میں کالج کے لڑکے ان سے بد ظن ہو گۓ 
وعظ میں فرمادیا تھا آپ نے یہ صاف صاف 
پردہ آخر کس سے ہو جب مرد ہی زن ہو گۓ 

آخر میں علامہ کے شعر جو انہوں نے اپنی والدہ کی یاد میں لکھے تھے انہیں کے نام- 

زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر 
خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر 
مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو ترا 
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا 
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے 
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے