Showing posts with label وظائف. Show all posts
Showing posts with label وظائف. Show all posts

Saturday, 15 February 2014

روحانی اور جسمانی بیماریوں کا علاج



امام نووی کی چالیس حدیثوں میں سے ایک حدیث کے مطابق جب انسان ماں کے پیٹ میں خون اور گوشت کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو ایک فرشتہ الله کی طرف سے مقرر کیا جاتا ہے جو اس کا نصیب لکھتا ہے- نصیب عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے حصّہ- اور انسان کی زندگی کا حصّہ ہیں خوشیاں، عیش و آرام، سکون، خواہشات، بیماریاں, غم، صدمات، تکالیف، آزماشیں، حزن و ملامت، حسرت، حادثات-  کبھی یہ سب کچھ انسانوں کے آپس کے معاملات کا نتیجہ ہوتا ہے، کبھی انسان کی انتھک محنت کا یا کاہلی کا، کبھی اسکی نیّت کا تو کبھی بدنیتی اور غفلت کا، کبھی محض دعاؤں کا اور کبھی صرف اور صرف الله کی منشاء-



امام ابو الفرج ابن الجوزی رحمہ الله فرماتے ہیں 
"ابلیس حتی المقدور لوگوں کے پاس آتا ہے اور ان پر قابو پانا چاہتا ہے- اس کا غالب ہونا آدمیوں کی عقل و دانش اور جہل و علم کے موافق کم و بیش ہوتا ہے- اور جاننا چاہیے کہ انسان کا دل ایک قلعہ کی مثل ہے-  اس قلعہ کی چار دیواری ہے اور اس چاردیواری میں دروازے اور روزن ہیں-  اس میں عقل رہتی ہے اور فرشتے اس میں آتے جاتے رہتے ہیں- قلعہ کے ایک طرف رمنہ ہے، اس میں خواہشات اور شیاطین آتے جاتے ہیں- جن کو کوئی نہیں روکتا- قلعہ اور رمنہ والوں میں لڑائی ہوتی ہے اور شیاطین قلعہ کے ارد گرد گھومتے رہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پاسباں غافل ہوجاۓ یا کسی روزن سے آڑ ہٹ جاۓ تو قلعہ میں گھس پڑیں- لہٰذا پاسبانوں کو چاہیے کہ ان کو قلعہ کے جن جن دروازوں کے لئے مقرر کیا گیا ہے ان کی خبر گیری رکھیں اور تمام روزنوں کا خیال رکھیں- اور پاسبانی سے ایک لحظہ کے لئے بھی بے خبر نہ ہوں کیونکہ دشمن موقعہ کا منتظر ہے اور قطا بے خبر نہیں- پھر وہ قلعہ ذکر الہی سے روشن اور ایمان سے پرنور ہے- اس میں ایک جلا کیا ہوا آئینہ ہے جس میں صورتیں نظر آتیں ہیں- جب شیطان رمنہ میں بیٹھتے ہیں تو کثرت سے دھواں کرتے ہیں جس سے قلعہ کی دیواریں سیاہ ہو جاتی ہیں اور آئینہ زنگ آلود ہو جاتا ہے- یہ دھواں ذکر کی ہوا سے زائل ہوتا ہے- اور آئینہ پر ذکر صقیل (پالش) کا کام کرتا ہے-"  




ایک مسلمان کی نظر میں دنیا کے ہر مسلے کا حل قرآن و سنّت میں ہے-  نبی کریم صلی الله علیہ وسلّم ہمارے لئے صرف نبی، رسول اور خطیب ہی نہیں بلکہ روحانی اور جسمانی بیماریوں کے طبیب بھی ہیں- سونے جاگنے، کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے، نماز، تلاوت، دعاؤں اور اذکار کے جو طریقے انہوں نے امّت کو بتاۓ وہ اپنی جگہ مکمّل ہیں اور ان میں کسی شک کی گنجائش نہیں-  اور اگر ہمیں فائدہ نہیں پہنچ رہا تو کمی ہمارے عقیدے اور اعمال میں ہے- 

پچھلی چند دھائیوں سے خاص طور پر برصغیر کے مسلمانوں میں جادو کے واقعات میں انتہائی زیادتی کے نتیجے میں نہ صرف پیروں اور عاملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے بلکہ جادو اور اسکے علاج پر لکھی گئی کتابیں بھی گلی گلی بہت مقبول ہوئی ہیں- ان کتابوں میں کچھ دعائیں اور وظائف مسنون اور کچھ صحابہ اکرام سے منقول ہوتے ہیں-  اس کے علاوہ جن لوگوں نے کتابیں لکھی ہوتی ہیں وہ اپنے تجربات اور وظائف بھی شامل کر دیتے ہیں-  اسی طرح جب لوگ مختلف عالموں، عاملوں اور پیروں کے پاس جاتے تو وہ تعویذ، دھاگے، کڑھے یا کچھ اور چیزیں باندھنے یا پہننے کے لئے دے دیتے ہیں- کچھ جلانے کے لئے اور کچھ زعفران سے لکھی ہوئی آیات پینے کے لئے بھی دیتے ہیں-  کچھ اس میدان میں نئے ہونے کی بناء پر تجربات بھی کر رہے ہوتے ہیں- عالموں اور عاملوں میں ان طریقوں پر آپس میں اختلاف بھی پایا جاتا ہے-  کچھ طریقوں کو غیر شرعی کہا جاتا ہے اور کچھ کو کفر اور شرک قرار دیا جاتا ہے-  

اس بات سے الگ کہ کون سے طریقے حلال ہیں اور کون سے حرام اور کس کے پاس سنّت کے مطابق علم ہے اور کس کے پاس شیاطینی- ایک بات یہ ہے کہ سب عالموں، عاملوں اور پیروں کے پاس کوئی نہ کوئی علم ہے ضرور-  اب کون خوابوں سے استخارہ کرتے ہیں، کون اپنے مؤکلوں اور جن دوستوں سے کام لیتے ہیں، کون اعداد اور ستاروں سے علاج کرتے ہیں-  یہ ایک الگ بحث ہے-  اس بحث میں پڑنے سے پہلے مناسب یہ ہے کہ پہلے قرآن و سنّت کا خود بھی مطالعہ کر لیا جاۓ- 


حضرت علی کرم الله وجھہ نے فرمایا "ہم نے پہلے ایمان سیکھا اور پھر قرآن" 

اور قرآن و سنّت کا مطالعہ کرنے سے بھی پہلے اچھا ہے کہ اپنے دل کا حال اور خیال معلوم کر لیا جاۓ کہ آیا وہ کسی بھی بات کو ماننے کے لئے تیّار بھی ہے یا صرف معلومات براۓ معلومات کے لئے مطالعہ میں وقت صرف کرنا چاہتا ہے- کیونکہ علماء فرماتے ہیں کہ دل کا ماننا ہی اصل ایمان ہے- اور یہ بات ذہن میں رکھے کہ ہر عمل، ہر تعمیر, ہر تحقیق، ہر  تدبیر، ہر صبر، ہر تعبیر کے لئے وقت درکار ہوتا ہے اور یہ انسان کے ذاتی تجربات کے بغیر مکمّل نہیں-   


 اِیمانِ مفصّل

اٰمَنْتُ بِاﷲِ وَمَلٰئِکَتِهِ وَکُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْقَدْرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ مِنَ اﷲِ تَعَالٰی وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ.

’’میں ایمان لایا اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور قیامت کے دن پر اور اس پر کہ اچھی بُری تقدیر اللہ کی طرف سے ہے اور موت کے بعد اُٹھائے جانے پر۔‘‘


جب ایک مسلمان کو یہ اندازہ ہو جاۓ کہ اس کا نصیب الله نے لکھا ہے  اور اس کا بدلنا بھی الله ہی کے اختیار میں ہے اور یہ کہ ہر اچھی بات بھی الله ہی کی طرف سے ہوتی ہے اور ہر بری بات بھی الله ہی جانب سے نازل ہوتی ہے- اور یہ کہ برائی انسان کے اپنے اعمال کا نتیجہ بھی ہوتی ہے اور معاشرے کے اجتماعی افعال کا بھی-  تو پھر اسکے برائی کے ردعمل میں اوروں کی بہ نسبت فرق ہوتا ہے- انسان کی زندگی میں شیطان کا کیا کردار ہوتا ہے-  صرف اتنا کہ وہ وسوسے، برے خیالات، نا امیدی، بغاوت، فحاشی اور نافرمانی پر اکساۓ- اس پر عمل کرنا یا نہ کرنا انسان کے اختیار میں ہے-  

شیطان نظر نہ آنے والی مخلوق ہے یہ ہر برائی کی علامت اور انسان کا سب سے بڑا دشمن بھی ہے-  اپنے وعدے کے مطابق یہ دائیں بائیں، آگے پیچھے، اوپر نیچے، غرض ہر طرف سے انسان کو بہکانے کی کوشش کرتا ہے-  کیونکہ اس کی زندگی کا مقصد ہی یہ ہے-  جادو بھی ان بہت سارے طریقوں میں سے ایک ہے - جادوشیطان کی براہ راست پھونک بھی ہے اور انسانوں کے ما بین نفرت اور انتقام کے جذبے کو ٹھنڈا کرنے کا ایک طریقہ بھی- جادو کے علاوہ آسیب، سحر، سایہ اور نظر بھی شیطان ہی کے حربے ہیں- شیطان کے ماننے والے چاہے جنوں میں سے ہوں یا انسانوں میں سے- ان کا ایک دائرہ کار ہوتا ہے اور یہ بھی الله کی قائم کی ہوئی حدوں سے باہر نہیں کام نہیں کر سکتے- 

انسان کے لئے مصیبت میں بہت سی باتوں پر یقین کرنا مشکل ہوجاتا ہے مثلا یہ کہ جو نظر نہ آنے والی مخلوق مجھ پر بھیجی گئی ہے یا خود میرے پیچھے لگی ہے وہ الله کی نظر میں ہے اور الله اس کی ہر حرکت کو دیکھ رہا ہے-  الله ان کو بھی دیکھ رہا ہے جو دشمنی اور حسد میں حد سے گذر کر شیاطین کو اپنا ہتھیار بناتے ہیں اور خود بھی انکے ہتھیار بن جاتے ہیں-  اور وہ صرف اس حد تک نقصان پہنچا سکتے ہیں جتنا الله نے لکھ دیا ہے- 

اور اس بے یقینی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اپنی پریشانیوں کے علاج کے لئے مختلف عالموں، عالموں اور پیروں کے پیچھے بھاگتا پھرتا ہے-  اور یہ سب اس کی کم عقلی، کم علمی اور مجبوریوں کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں-  کوئی اکّا دکّا صحیح بھی ہو سکتے ہیں-  یہ بات جاننا بہت ضروری ہے کہ ہر عالم، ہر عامل اور ہر پیر کے پاس ہر طرح کا علم اور علاج نہیں ہوتا-  جسمانی بیماریوں کی طرح روحانی بیماریاں بھی کئی طرح کی ہوتی ہیں اور ان کے معالج بھی مختلف ہوتے ہیں-  لہذا ہر مسلمان کو اپنی جسمانی بیماریوں کی طرح روحانی بیماریوں کا علم بھی ہونا چاہیے-  تاکہ اس کا علاج قرآن و سنّت کے طریقوں کے مطابق کر سکے یا کرواسکے- 

لوگوں کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ اگر کوئی شخص اپنے علاج کی غرض سے، لاعلمی کی بناء پر اور شدّت غم اور کرب کے عالم میں اگر غیر مسنون طریقے سے وظائف کرے یا کوئی اور طریقے اختیار کر لے تو اس پرکسی قسم کے فتوے نہ جاری کریں اور نہ ہی یہ کہہ کر اس کی ہمّت توڑیں کہ یہ اس طرح اثر نہیں کرے گا، بے کار ہے، الٹا اثر ہوگا وغیرہ وغیرہ-  

کیونکہ جو اثر ایک بیتاب اور بے چین دل سے شدّت کے ساتھہ نکلنے والے الفاظ میں ہوتا ہے وہ سارے علاجوں سے بڑھ کر ہے-  ہو سکتا ہے الله کو کسی کے بار بار بے چین ہو کر پکارنے کا انداز اچھا لگتا ہوکیونکہ انسان پریشانی میں قرآن اور کتابوں میں گھس کر اپنا علاج تلاش کرتا ہے اور یہ کوشش الله کو پسند آتی ہو-  یا کسی مصیبت کو طول دے کر الله اس بندے کے گناہ معاف کرنا چاہتا ہوکیونکہ مصیبت میں انسان کو اپنے گناہ بھی یاد آتے ہیں اور وہ توبہ کی طرف راغب ہو جاتا ہے-  یا اس طرح اسے لوگوں سے ملوا کر ان کے اصل روپ دکھانا چاہتا ہو تا کہ وہ شخص احتیاط کرنا سیکھ جاۓ یا اچھے اور برے کا فرق پہچان سکے- 

دین اسلام میں پانچ وقت نماز، روزانہ قرآن کی تلاوت اور اذکار بہترین وظائف ہیں- اور تہجّد اور صلوۃ الحاجات الله سے مدد کے بہترین طریقے- اور ان کے ساتھ ساتھ خلوص، عاجزی، انکساری، ایمانداری وغیرہ شرط ہیں- اسکے باوجود اگر کسی پر شیطان کا زور چل جاۓ یا کوئی پیدائش کے وقت سے اس کا شکار ہو جاۓ تو پھر جو علامات ظاہر ہوں ان کے لئے کسی صحیح عالم کے ذریعے توڑ کرانا چاہیے-

جب تک کوئی صحیح عالم نہ ملے تو اپنے طور پر ایسے مریض کے لئے جو ظاہری احتیاط لازم ہیں وہ یہ ہیں کہ 
١- ایسے مریض کو کبھی بھی تنہا نہ چھوڑا جاۓ- اور اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ روحانی مریض لوگوں کے درمیان رہے-  اکثر شیاطین مریض کو خود کشی کی طرف مائل کرتے ہیں- 

٢- گھر ہوادار اور روشن ہو کہ سورج کی دھوپ لازمی جسم پر اور گھر کے حصّوں پر پڑے- گھر کواور مریض کے جسم اور کپڑوں کو  خوشبودار بھی رکھا جاۓ- کیونکہ شیاطین اندھیری، بدبودار اور ایسی جگہ پر رہتے ہیں جہاں تازہ ہوا نہ آتی ہو- 

٣- دروازے یا گذرنے والی جگہ اور کونے میں نہ سویا یا سلایا جاۓ- کیونکہ یہ ہر قسم کے مخلوق کی رہ گذر ہوتی ہیں- نیز دروازے کے درمیان کھڑے ہونے سے گریز کیا جاۓ- 

٤- گھرکے اندر داخل ہونے والے دروازے کو بند رکھا جاۓ کیونکہ شیاطین مخلوق دروازوں سے ہی اندر داخل ہوتی ہیں-  گھر میں داخل ہوتے وقت سلام کیا جاۓ چاہے کوئی یا نہ ہو- اور کلمہ طیّبہ اور درود پڑھا جاۓ- 

٥- روزانہ نہایا جاۓ- حتّی الا مکان صفائی اور پاکی کا خیال رکھا جاۓ- ہاتھوں اور پیروں کے ناخن بڑھنے نہ دیے جائیں- ممکن ہو تو روزانہ کپڑے تبدیل کے جائیں- کیونکہ شیاطین گندگی میں رکھ کر ایسے مریض پر مزید قابو پاتے ہیں- 

٦- باتھرومز اگر کمروں میں ہیں تو ان کے دروازے بند رکھیں جائیں- اور ان کے اندر خاموش رہا جاۓ- کیونکہ یہ شیاطین کے رہنے کی جگہیں ہیں- 

٧- کھانے پینے کی چیزوں کو ڈھک کر رکھا جاۓ اور کھلا نہ چھوڑا جاۓ- کھانوں کی بچی ہڈیاں وغیرہ بھی گھر کے اندر نہ رکھی جائیں بلکہ گھر سے باہر رکھی جائیں- کیونکہ ہڈیاں جنوں کی خوراک ہیں- 

٨- گھر میں آہستہ آواز میں بات کی جاۓ- شیاطین تیز آوازوں اور غصّے کی حالت میں مزید قابو پاتے ہیں- 

٩- باقاعدگی سے پرندوں کے لئے باجرہ اور پانی انتظام کیا جاۓ- اور کسی جانور کو تنگ نہ کیا جاۓ- 

١٠- گھر کے باہر بھی گلی میں صفائی کا بندوبست کیا جاۓ- اور جب گندگی کے پاس سے گزریں تو اعوذ با للہ من الشیطان الرجیم پڑھیں- 

١١- ممکن ہو تو زیتون کا تیل اور شہد کا استعمال کیا جاۓ- 

١٢-روحانی مریض کے حرکات و سکنات، بات چیت اور خیالات میں بے ترتیبی اور بے نظمی پائی جاتی ہے اور اکثر وہ بے ربط اور غیر فطری ہوتے ہیں- مریض کے سامنے منفی باتیں، مایوسی کے قصّے، درد بھری کہانیاں نہ بیان کی جائیں اور نہ ہی موت، دھماکوں اور ڈر اور خوف کی خبریں دکھائی جائیں اور پریشان خیالی سے بچایا جاۓ- اور اسے کسی بھی طرح مصروف رکھا جاۓ- 

اسکے لئے روحانی احتیاط یہ ہیں- 
١- روزانہ کی نمازوں، تلاوت قرآن اور اذکار کی پابندی کی جاۓ- 

٢- کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے، سونے جاگنے، باتھرومز، آنے جانے میں سنّت کے طریقوں پر جس حد تک ہو سکے عمل کیا جاۓ اور ان دعاؤں کی بھی پابندی کی جاۓ-  

٣- سات دن تک بیری کے پتّوں کے پانی کوسر سے لے کر جسم پر بہایا جاۓ-  اور اسی میں سے ایک گلاس پانی پلایا بھی جاۓ- 

٤- شدید غصّے یا جنون کی کیفیت میں سورہ الا نبیاء کی آیت ٦٩ گیارہ مرتبہ پڑھ کر پانی پر دم کر کے پلائی جاۓ اور منہ پر چھینٹے مارے جائیں- اور یہ عمل دن میں کئی مرتبہ بھی کیا جاسکتا ہے- 

٥- آیات کریمہ، بسم الله الرحمن الرحیم، یا جو کچھ بھی پڑھنا چاہ رہے ہیں وہ ایک وقت میں گیارہ سے زیادہ مرتبہ نہ پڑھیں توبہتر ہے- سواۓ اسکے جو رسول صلی الله علیہ وسلّم نے خود فرماۓ کہ ستّر یا سو بار یا کثرت سے پڑھو- اگر زیادہ پڑھنا ہے تو پھر گیارہ مرتبہ کے بعد تھوڑا وقفہ دے دیں- کچھ علماء کا خیال ہے کہ قرآنی آیات، دعائیں اور اذکار صرف اتنی تعداد میں پڑھنے چاہئیں جتنی تعداد میں رسول صلی الله علیہ وسلّم نے فرماۓ ہیں- انکی دلیل یہ ہے کہ ڈاکٹر جو نسخہ دیتا ہے تو مریض کو اتنی ہی مقدار میں دوا کھانی پڑتی ہے- اگر وہ اس مقدار سے کم یا زیادہ کھاۓ گا تو اسکو نقصان ہو گا- 
اور کچھ عامل یا عالم ایسے بھی ہیں جو اس بات سے اتّفاق کرتے ہیں لیکن انکی دلیل یہ ہے کہ یہ غیبی مخلوق آگ کا مزاج رکھتی ہیں اور بہت جلد غصّے اور انتقام پر اتر آتی ہیں-  ان سے الجھنے، للکارنے، قابو کرنے یا ختم کرنے کے بجاۓ ان سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کرنی چاہیے- جب اعتدال میں رہ کر اذکار اور وظائف مسنون طریقے سے کیے جائیں تو یہ مخلوق خود کو بچانے کے لئے پیچھے ہٹ جاتی ہیں اور پھر موقع کی تلاش میں رہتی ہیں کہ کب ان کا شکار غفلت میں ہو- لیکن اگر یہی وظائف ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں پڑھے جائیں تو پھر یہ پریشان ہو کر نہ صرف خود مقابلے پر آتی ہیں بلکہ اپنے لشکر ساتھ لے آتی ہیں- اسی لئے اکثر ٹھنڈے مزاج کے عالم یا عامل ایک وقت میں کوئی بھی چیز تین، سات یا گیارہ کی تعداد میں پڑھنے کا مشوره دیتے ہیں-  

کسی بھی روحانی یا جسمانی بیماری کی شدّت کی صورت میں دو رکعت نفل  صلوۃ الحاجات پڑھ کر الله سے مدد مانگیں-  قرآن میں پیغمبروں کے قصّے اسی لئے بیان کئے گۓ ہیں کہ مسلمان دیکھ لے کہ پیغمبر مصیبت میں الله کو کیسے پکارتے تھے-  پچھلی پوسٹ میں دیے گۓ روزانہ کے اذکار اور عبادات کے علاوہ، 

١- کم از کم تین دن میں سورہ البقرہ پڑھیں اور اسکا اور آیہ الکرسی کا کیا ہوا پانی مریض کو پلائیں- 

٢- وقفہ وقفہ سے " بسم الله الرحمن الرحیم" کا ورد کر کے گھر کے کونوں، خاص طور پر باورچی خانے میں، مریض کے کندھوں اور چہرے پر پھونک ماریں-  

٣- اور کسی صحیح عالم سے ہی اس کا  توڑ کروائیں- 

روحانی اور جسمانی بیماریوں سے علاج کی دعائیں 

علاج سنّت ہے اور جسمانی بیماریوں میں بھی دوا کے ساتھہ ساتھہ دعاؤں کی بھی ضرورت پڑتی ہے-  

مندرجہ ذیل دعائیں ہر نماز کے بعد تین تین مرتبہ پڑھی جائیں اور ان کو پانی اور دواؤں پر دم کر کے پلایا بھی جاسکتا ہے-  



بِسْمِ اللهِ اَرْقِيكَ مِنْ كُلِّ شَئٍ يُوذِيكَ مِنْ شَرِّ كُلِّ نَفْسٍ اَوْ عَيْنٍ حَاسِدٍ بِسْمِ اللهِ اَرْقِيكَ وَاللهُ يَشْفِيكَ


أَذْهِبِ الْبأْسَ رَبَّ النَّاسِ وَاشْفِ اَنْتَ الشَّافِى لَاشِفَاءَ الَّاشِفَاءُكَ شِفاءً لَايُغادِرُ اِلَّاسَقَمًا

اللَّهُمَّ اِنِّى اَعُوذُبِكَ مِنْ يَومِ السُّوءِ وَ مِنْ لَيْلَةِ السُّوءِ وَ مِنْ سَاعَةَ السُّوءِ وَ مِنْ صَاحِبِ السُّوءِ وَ مِنْ جَارِ السُّوءِ فِى دَارِ الْمُقَامَةِ

اللَّهُمَّ اِنِّى اَعُوذُبِكَ مِنَ الْبَرَصِ والْجُذَامِ والْجُنُونِ وَ مِنْ سَيِّئِ الْاَسْقَامِ

سونے سے پہلے تین مرتبہ
اللَّهُمَّ اِنِّى اَعُوذُبِكَ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ وَ سَيِّآتِ الْاَحْلَامِ فَأِنَّهَا لَاتَكُونُ شَيْأً

کثرت سے پڑھیں 
لَاحَولَ وَلَاقُوَّةَ اِلَّا بِاللهِ - أَستَغْفِرُالله

اسکے علاوہ بھی بہت سی دعائیں اور کلمات ہیں جو کثرت سے پڑھے جا سکتے ہیں- 

چند بیماریوں کا علاج 
١- ہائی بلڈ پریشر کو نارمل کرنے کے لئے ہفتے میں کم از کم ایک مرتبہ لوکی، ترئی یا توری اور ٹنڈے کھائیں- 
٢- جوڑوں کے درد کے لئے دس بارہ چیریز صبح و شام کھائیں- شدّت میں مقدار زیادہ کر لیں- 
٣- یورک ایسڈ کے لئے تربوز، خربوزہ، چیریز، سردا، گرما قسم کے پھل کھائیں- جن میں پانی زیادہ ہوتا ہے-  اس کے ساتھ ساتھ سفید تل, دو تین کھجوریں  اور کشمش کے چھ ساتھ دانے صبح نہار منہ کھائیں- 
٤- نہار منہ پانی پینا بہت سی بیماریوں سے نجات دیتا ہے- یخ ٹھنڈا پانی گرمی میں بھی نہ پیئں- کھانے کے فورا بعد پانی نہ پیئں- پانی کھڑے ہو کر نہ پیئں بلکہ بیٹھ کر پیئں-
٥- کھانا دل چاہنے پر نہیں بلکہ بھوک لگنے پر کھائیں- اور جو کھائیں خوشی سے کھائیں- اور الله کا شکر ادا کر کے کھائیں- اور دوسروں کو بھی اس میں شامل کریں- 
لوگوں کو درس دیں کہ جگہ جگہ تھوکنا اور کوڑا پھیلانا جسمانی، روحانی اور نفسیاتی بیماریوں کا سبب بنتا ہے-