Showing posts with label یتیم خانے. Show all posts
Showing posts with label یتیم خانے. Show all posts

Monday 26 May 2014

Unified Educational System - یکساں تعلیمی نظام

ہمارے ملک میں تعلیم کی منصوبہ بندی کی جتنی  کمی ہے اس سے کہیں زیادہ زندگی کی منصوبہ بندی کی کمی ہے- تعلیم کا معیار جتنا کم ہے تربیت کا معیار اس سے بھی کم- جتنا تعلیمی نظام بگڑاہواہے اس سے زیادہ سماجی اورسیاسی نظام بگڑا ہوا ہے- حالانکہ تعلیم سے پہلے ان سب چیزوں کا درست ہونا ضروری ہے- یعنی زندگی کی منصوبہ بندی,  تربیت کا معیار اور مضبوط سماجی اورسیاسی نظام- 

ارسطو نے کہا کہ "دل کی تربیت کیے بغیر ذہن کو تعلیم دینا تعلیم نہیں کہلاتا"-  

 اسی لئے رسول الله پر پہلی آیت "اقراء یعنی پڑھو" اتری-  لیکن کسی تعلیمی ادارے کی بنیاد نہیں ڈالی گئی بلکہ تیرہ سال صبر و برداست، مساوات، اخوّت، رواداری اور ایک دوسرے کے حقوق کے تحفّظ کی تربیت دی گئی-  ہم میں سے کتنے ہیں جو ڈگری یافتہ کے لئے اٹھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں-  اور کتنے ہیں جو عبدالستار ایدھی کے نام پر احتراما آنکھیں بھی جھکا لیتے ہیں اور اٹھ کر کھڑے بھی ہو جاتے ہیں-  

ہمارے ہاں عام تعلیم کی حد میٹرک یعنی دسویں جماعت ہے- اسکی ایک وجہ لوگوں کے معاشی حالات  ہیں اور کچھ انکی زندگی میں منصوبہ بندی کی کمی-  جو انھیں لڑکوں کو آگے پڑھانے کی اجازت نہیں دیتےاور وہ کسی کام سیکھنے پر بٹھا دئے جاتے ہیں- لڑکیوں کی شادی ہوجاتی ہے یا منگنی- پھر وہ جب موقع ملے پرائیوٹ ہی پڑھتی ہیں- اکثر پرائیوٹ اسکول میں میٹرک یا انٹر پاس لڑکیوں کوٹیچرز رکھا جاتا ہے جو کم تنخواہ پر کام کرنے پر راضی ہو جاتی ہیں- دوسری وجہ تعلیم کی اہمیت کو نہ پہچاننا- اکثریت اسے اسکول کالجز کی کاروائی سمجھتی ہے, جس میں امتحان پاس کرنا ایک بڑا مرحلہ ہوتاہے- اور جو اہمیت بتائی جاتی ہے اسکے مطابق ملازمتوں کا نہ ملنا- کم عمر میں کم تعلیم اوربے تربیتی کے ساتھہ آگے بڑھنے کاراستہ بدعنوانی ہوتا ہے- 

میٹرک پاس بچوں میں ان صلاحیتوں کی ازحد کمی ہوتی ہے جو ایک لڑکا یا لڑکی میں پندرہ سولہ سال کی اسکولنگ اور گھریلو تربیت کے نتیجے میں ہونی چاہئیں-  سوچ, رکھہ رکھاؤ, انفرادیت, معلومات عامہ, آگے بڑھنے کا جذبہ, بہتری کی خواہش, مسائل کو سمجھنا انکا حل تلاش کرنا, منصوبہ بندی کرنا, خودانحصاری- 

ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ نویں جماعت سے جومضامین کی گروپنگ کی جاتی ہے اور اس میں موجود مواد کا انتخاب  اکثر بے فائدہ ہوتا ہے- مثال کے طور پر سائنس گروپ کے بچے ایجوکیشن, سیاسیات, معاشیات کے تصور سے بھی ناآشنا ہوتے ہیں بلکہ اسے فضول سمجھتے ہیں- حالانکہ ایک سائنس کے طالب علم کو کمانا تو ہوتا ہی ہے, اس کا تعلق ملکی سیاست اور تعلیمی نظام سے بھی ہو تا ہے, لوگوں کی نفسیات سے بھی ہوتا ہے-  

خاص طورپر ان بچوں کے لئے جنھوں نےمیٹرک کے بعد تعلیم کو خیرآباد کہہ دیناہو- لازمی ہے کہ وہ ضروری مضامین کے بنیادی تصور اور انکی حقیقی زندگی میں کارآمد ہونے سے واقف ہوں-  

آٹھویں جاعت کابچہ عموما تیرہ چودہ سال کاہوتا ہے- اگر نویں اور دسویں یعنی دو سال مضامین کی گروپنگ کے بجائےایک ایسا تعلیمی کورس مرتب کردیا جائے جس میں موجود مواد انکے کام کاہو تو تعلیمی نظام اورسماجی نظام دونوں میں بہتری آسکتی ہے-  فوری طور پر حکومتی سطح پر تو تبدیلی ناممکن ہے- لیکن دن بہ دن بڑھتی ہوئی آزمائشوں کا آسانی سے مقابلہ کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی نئی راہ تو نکالنی چاہیے-  لوگوں کے ذہنوں کو بہتر تبدیلی کے لئے آمادہ کرنا شاید دنیاکاسب سے مشکل کام ہوتاہے- باہر ممالک کی طرح اگر ایک سال یا دو سال کا  آکیوپیشنل اسٹڈیز کا انٹینسو کورس جس میں کتابوں سے زیادہ تحقیق, بحث اور لکھنا شامل ہو متعارف کرائے جاسکتے ہیں۔۔۔ جس سائنس, آرٹس, کامرس, کمپیوٹر کے علیحدہ مضامین کی تقسیم کے بجائے پروفیشنل اسکلز کو ابھارنے پر مرکوز کیا جائے۔-  کیونکہ ابھی تو حال یہ ہے کہ ہمارے ببیچلرز اور ماسٹرز کوبھی ملازمت کی درخواستیں نہیں  لکھنی آتیں-  

یکساں تعلیم کا کوئی بھی آئیڈیا فضول ہے اگر وہ عام لوگوں کو ملک کے سیاسی  اور سماجی عمل میں حصہ لینے کا اوراقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کا موقع فراہم نہ کرے-  لہذا پاکستان میں امن, ترقی, خوشحالی اور مضبوط  دفاعی طاقت کے لئے یکساں تعلیم کے ساتھہ ساتھہ  قوانین میں تبدیلی یا نئے قوانین ضروری ہیں-  مثلا سیاسی عمل میں حصہ لینے کے لئے انٹرمیڈیٹ کے ساتھہ سیاسیات, بین الاقوامی تعلقات, معاشیات کا علم لازمی ہو- امیدوار لازمی طور پر حکومت پاکستان سے سند یافتہ ہو۔۔۔ لازمی طور پر پاکستانی قومیت رکھتا ہو- اپنے علاقے میں اسکا کردار کیا ہے-   ذریعہ آمدنی, ذاتی اثاثے کیا ہیں-  

ایک یکساں یا قومی تعلیمی نظام کے لئے ضروری نہیں ہوتا کہ مضامین اور موضوعات سب کے لئے لازمی ہوں- بلکہ ایسا نظام تعلیم جس میں مختلف عقائد, مختلف نظریات اور مختلف زبان بولنے والوں کے لئے چوائس موجود ہو- اوریہ کسی کے لئے بھی علم وہنر سے متعلق بنیادی معلومات فراہم کرسکے- لیکن ہوں مرکزی حکومت کے کنٹرول میں-  دنیا کا کوئی ملک اورکوئی نظام اس سے زیادہ یونیفائیڈ تعلیمی نظام نہیں دے سکتا-  

اگر کسی جگہ کے لوگ ایک زبان بولتے ہوں, انکے عقائد ایک ہوں اور نظریات میں بھی فرق نہ ہو- اسکے باوجود بھی وہ اس سے زیادہ یکساں تعلیم کا تصور نہیں دے سکتے-   کیونکہ بہرحال اگرانھوں دنیا کی باقی قوموں کے ساتھہ معاشی اور سیاسی روابط رکھنے ہیں توپھران کے نظام اور نظریات کو کسی حد تک اپنے تعلیمی نظام کا حصہ بنانا پڑے گا-  اور یہ کوئی نیا آئیڈیا نہیں-  دنیا کے بہت سے ملکوں میں یہ نظام موجود ہے- اور غیر اسلامی بھی نہیں-   

کیا پاکستان میں مدرسے, سرکاری اسکول, پرائیویٹ اسکول, آغا خان سسٹم, اولیولز, خیراتی اسکول, یتیم خانے, سیاسی شخصیات کے اسکول اور ہوم اسکولنگ مرکزی حکومت کے تحت کام نہیں کر سکتے؟  کرسکتے ہیں اگر بنیادی تعلیم کے علاوہ پرائیویٹ اسکولز کے مشکل, مہنگےاور درآمد شدہ سلیبس کو اور مدرسے کے کورسزکو ایڈوانس مضامین کی فہرست میں ڈال دیا جائے-   اس طرح بنیادی تعلیم تو سب کے لئے ایک جیسی ہو گی لیکن ایلیٹ, غیر ملکی, مذہبی, صوبائی یا اور دوسری زبانیں بولنے والوں کے لئے اختیاری مضامین کی شکل میں چوائس موجود ہوگی-  اہم بات یہ ہوگی کہ سند حکومت پاکستان کی ہو-   اس کے لئے جگہیں بدلنے کی بھی ضرورت نہیں-  اپنے اپنے اسکولوں، مدرسوں، گھروں میں تعلیم حاصل کریں اور امتحانات دیں- اسکا مطلب یہ بھی نہیں کہ تعلیمی اداروں کو نیشنلائز کردیا جائے-  پرائیویٹ اسکول کالجز, مدرسے- سب اپنی جگہ پر بنیادی تعلیم کا سرکاری ریکوائرمنٹ پوری کریں۔۔۔ پھر طلبہ چاہیں جو مضامین ایڈوانس لیول پرپڑھیں-  

اسکے فوائد کیا ہونگے-
١) سارا کا سارا تعلیمی نظام ایک مرکز کے تحت کام کرے گا-  جس سے مرکزی حکومت کو اہمیت حاصل ہو گی, وہ مضبوط بھی ہوگی-

٢) علمی بنیادوں پرلوگوں کی تقسیم اور تفاخر بہت حد تک کم ہو جائے گی-  کیونکہ تمام کے تمام مضامین پر تعلیمی اسناد پہ ٹھپہ یاسیل مرکزی حکومت کی ہو گی-  

٣) پاکستان میں سب سے بڑا تعلیمی فرق مدرسہ اور اسکولز کی تعلیم میں ہے- ایک کو شرعی تعلیم کہہ کر محدود کردیا- دوسرے کو جدید تعلیم کہہ کر کفر یا غیر شرعی یا دنیاوی قرار دے دیا-  پاکستان کے ماحول میں دینی اور ماڈریٹ کا فرق بھی کچھہ کم ہوگا-  اوردینی لوگوں کی آئے دن کے نفاذ شریعت کی دھمکیوں کا زور بھی کم ہوگا-  اور دونوں قسم کے لوگ ایک ہی مرکز تلےآجائیں گے-  

٤) صوبوں کے درمیان تعلیمی فرق بھی کم رہ جائے گا-  ایک صوبے کے رہنے والے کو دوسرے صوبے میں جاکر تعلیمی سلسلہ بدل جانے کی شکایت نہیں ہوگی- خیراتی اسکولوں اور فلاحی اداروں کے بچوں کا کم از کم علمی بنیادوں پر احساس محرومی ختم ہوجائے گا-  انکے پاس بھی کیونکہ  سرکاری سند ہوگی- 

٥) پھر یہ کہ پرائیویٹ یا ہوم اسکولنگ والے بچوں کے لئے جو سائنس نہ لینے کی پابندی ہے وہ بھی ختم ہو جائے گی کیونکہ سائنس تو میٹرک تک لازمی ہی ہوگی-  

یہ سب کرنا آسان نہیں- 

پہلا مسلہ ہیں ہمارے سیاست دان-  چوں کہ ہمارا حکمران طبقہ جاہل اور ذہنی طور پر غلامانہ سوچ رکھتا ہے وہ امریکہ اور مغربی دنیا کےاشارے کے بغیر کچھہ نہیں کرتا-  اس لئے عوام کو ہی شور مچانا پڑے گا-   اپنے اپنے علاقے کے سیاستدانوں اور حکومت پر دباؤ ڈالنا پڑے گا-   اور وہ بھی کافی عرصے تک اور مسلسل، سانس لینے کی طرح-   

دوسرا بڑا مسئلہ مذہبی فرقے ہیں-  انکا کسی بھی معاملے کو سمجھداری سے نمٹانا نا ممکن سا لگتا ہے-  لیکن بہرحال معجزات بھی تو ہو سکتے ہیں-  دوسرے یہ الله اور رسول سے زیادہ اپنا ضمیر، زبان اور دماغ اپنے اپنے علماء، مولانا اور شیوخ کے پاس گروی رکھ چکے ہوتے ہیں-  لہٰذا ان کے علماء، مولانا اور شیوخ اگر سمجھ جائیں تو باقی بھی بھیڑ بکریوں کی طرح میں میں کرتے انکے پیچھے ہو لیں گے-

تیسرا مسئلہ او لیولز اور آغا خان بورڈ-  پرائیوٹ اسکولز اورحکومت برطانیہ تو او لیولز کے نام پر کڑوڑوں روپے احمق پاکستانیوں سے کمارہے ہیں-  بھلا وہ اس لوٹ مار کو کیسے بند ہونے دینگے-  دو سال بعد کا کورس دوسال پہلے پڑھا دیا تو بے شک اسے او لیولز کہہ لیں رہا تو پھر بھی آرڈنری لیول-  ایک بچہ گدھے کی طرح دن رات اپنی عمر اور سوچ سے بڑی کتابیں پڑھ رہا ہے اور اسے تعریف اور ایوارڈز کا چارہ ڈالا جارہا ہوتا ہے-  یہ تعلیم ہے؟  

چوتھا مسئلہ ہے ہمارا طریقہ تعلیم جو خاص طور پر ابتدائی درجات میں اور ویسے بھی کتابوں اور کاپیوں کے گرد گھومتا ہے- اکثر تین یا چار سال کےبچوں کو بھی کتابوں اور کاپیوں سے لکھنے پڑھنے پر لگادیا جاتا ہے- یکساں تعلیم کا سن کر سب کا ذہن جائے گا ایک جیسی کتابوں کی طرف-  حالانکہ یکساں تعلیم کا مقصد یکساں نتیجہ حاصل کرنا ہوتا ہے نہ کہ یکساں طریقہ کار-  کم از کم آٹھ نو سال کی عمر تک تو طریقہ تعلیم مونٹیسوری اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے-  کوئی امتحان نہیں-  کوئی مقابلہ بازی نہیں-  صرف علم و روز مرّہ زندگی کی صلاحیتوں پر توجہ-  

پانچواں مسئلہ ہے خیراتی اسکولوں سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا-  یہ تو چلتے ہی عطیات زکات پر ہیں-  کوئی معیارقائم ہوگیا تو چندہ کون دے گا-  لہٰذا انکی نکیل کسی باشعور انسان کے پاس ہونی چاہیے-  اور عبد الستار ایدھی کو چاہیے کہ اس معاملے میں میمن برادری کے علاوہ بھی کسی اور سے مدد حاصل کرلیا کریں-  اگر کوئی انکے ادارے میں بچوں کی تعلیم کو معیاری کرنے کی بات کرے تو اسے کرنے دیں-  اور جن کے ہاتھ میں اپنے ادارے دے رکھیں ہیں انہیں میمنزم سے پاک کرکے انکی بھی ذہنی و اخلاقی تربیت کا انتظام کریں-  خیراتی اداروں کا مطلب یہ نہیں کہ وہ پسماندگی کی تصویر بنے رہیں-  یہ بات تو غیر مسلموں تک نے ثابت کردی ہے-  ادارے قائم کرنا ایک الگ بات ہے-  اور انھیں بہتر بنانا اس الگ بات کی دوسری قسط- 

چھٹا مسئلہ وہ اسکول جو سیاسی شخصیات نے کھولے ہیں یا انکے پرنسپلز بنکے بیٹھے ہیں-  اور یہ اسکولوں کو خطرناک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں-  وہ برداشت کر لیں گے کہ انکا اور انکی مخالف  پارٹی کے اسکول کا معیار ایک جیسا ہو-  اور قوم کو آگے بڑھنے کی راہ ملے-  یا انکے سیاسی باس کے بجاۓ علّامہ اقبال، قائداعظم اور کسی باشعور شخص کے بارے میں تعلیم دی جاۓ-   کبھی بھی نہیں-  لہٰذا عوام کو تو سیاسی اسکولوں سے دور ہی رہنا چاہیے-  اس سے ہزار گنا بہتر ہے ہوم اسکولنگ-  ایسے اسکولوں کا ختم ہونا بھی ایک رحمت سے کم نہیں ہوگا-  

ساتواں مسئلہ یہ کہ حکومت کی طرف سے بنیادی تعلیم کا سلیبس ترتیب کون دے گا-  ملک میں ہزاروں کی تعداد میں بپبلیکیشنز ہیں اور ساری ہی کہیں نہ کہیں استعمال ہورہی ہیں-  اسی طرح مدرسے کے کورسز ہیں, سینکڑوں کی تعداد میں کتابیں ہیں- کوئی کسی کتاب کو ابتدائی درجہ کے لئے موزوں سمجھتا ہے تو دوسرا اسے ایڈوانس لیول رکھتا ہے۔-  کیا مدرسے, سرکاری اسکول, پرائیویٹ اسکول, آغا خان سسٹم, اولیولز, خیراتی اسکول, یتیم خانے, سیاسی شخصیات کے اسکول کےنمائندے اور ہوم اسکولنگ کی طرف سے والدین اس نظام میں ایک سطح پہ آکر حصہ لیں گے۔۔۔  میرے خیال میں بالکل نہیں-  

آٹھواں مسئلہ بنیادی تعلیم کی تعریف اور اسکا معیارکیا ہونا چاہئے-  یہ کون بتائے گا-