رسولوں اور نبیوں کے قصے پڑھ پڑھ میں اکثر سوچا کرتی تھی کہ کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ بڑے بڑے رسولوں کی پرورش انکی ماؤں اور گھر والوں سے دور ہوئی- اور نبوت کے فرائض تک شاید ہی کسی کی والدہ زندہ رہی ہوں-
پھر میں نے خود ہی اس کا جواب سوچا کہ شاید اس لئے کہ پیغمبروں اور رسولوں کی مائیں برداشت نہ کر سکتیں جو تکالیف ، صعوبتیں اور آزمائشیں انکے بیٹوں کو اٹھانی پڑیں اور جتنے سفر اور ہجرتیں انہیں کرنی پڑیں- شاید وہ بے چین ہو کی الله سبحانہ و تعالی سے گلہ کر بیٹھتیں- اور الله کو اسکا اثر دکھانا پڑتا- جس طرح اکیلی حضرت ہاجرہ حضرت اسمعیل کی پیاس سے بے چین ہو کر دوڑتی تھیں- اور الله نے انکی اولاد کی پیاس بجھانے کے لئے تڑپ کو قیامت تک کے لئے حج جیسی بین الا قوامی عبادت کا رکن بنا دیا-
خاص طور پر رسول الله، محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم کو- جن کو نہ والد دیکھنے کو ملے اور پھر والدہ اور دادا کو بھی جدا کر دیا گیا- نہ کوئی بہن نہ بھائی- بھائی اور بیٹے کا رشتہ بھی حضرت علی ابن ابی طالب نے نبھایا- ان کے جسم پر لگے زخم دیکھ کر انکی بیٹی ٹرپ جاتی تھیں-
لیکن پھر انکے گھرانے کو دیکھا- تو وہاں تو مائیں موجود تھیں- حضرت فاطمہ بنت محمد، حضرت زینب بنت علی، حضرت فاطمہ بنت حزام (ام البنین)، حضرت رباب- سب پر سلام ہو- انہوں نے اپنے بیٹوں کو کس کس حال میں دیکھا اور کیا کیا برداشت کیا- اور سب سے بڑی بات کہ کس کے لئے یہ سب برداشت کیا- شہرت کے لئے، دولت کے لئے، حکومت کے لئے؟؟؟ یا صرف اور صرف الله کی رضا کے لئے؟
پھر انکے گھرانے سے باہر مومنات جنہوں نے اپنے بیٹوں کو رسول الله کی سالاری میں غزوات میں شہید ہوتے دیکھا- کس لئے؟ شہرت کے لئے، دولت کے لئے، حکومت کے لئے؟؟؟ یا صرف اور صرف الله کی رضا کے لئے؟
پھر زندگی میں آس پاس بہت مائیں دیکھیں- سب کی سب اپنی اولاد کو چاہنے والی، اولاد کے لئے زندہ رہنے والی اور اولاد کے لئے تکلیفیں اٹھانے والی- بلکہ کبھی تو اپنی اولاد کے لئے دوسروں کو تکلیفیں دینے والی اور دوسروں کی زندگیاں برباد کرنے والی-
اور پھر ایک دفعہ ایک فوجی کی ماں سے بھی ملاقات ہوئی- بیٹا اپنی چھوٹی سی بچی کو چھوڑ کر لاکھوں بچوں کی سلامتی کے لئے بلوچستان میں پاکستان کی بقاء جنگ لڑ رہا تھا- اور ماں نے یہ دعا مانگنے کے بجاۓ کہ میرا بیٹا جلد مجھ سے ملے، اسے زندگی کی خوشیاں ملیں، اسے لمبی زندگی ملے- صرف یہ کہا کہ خدا اسے اس کے مقصد میں کامیاب کرے- کسی بھی انسان کے فوج میں جانے کا، اسلحہ ہاتھ میں لینے کا، دشمن کے خلاف محاذ پر ڈٹنے کا کیا مقصد ہو سکتا ہے-
مجھے وہ ماں سے زیادہ صحابیہ نظر آئیں- کیونکہ بیٹوں کو خون میں نہایا سوچنے کی ہمت ان ہی میں ہو سکتی ہے-
اپنی امی کو ہم بہن بھائیوں نے حضرت ہاجرہ کی طرح ذرا ذرا سی تکلیف پر بے چین ہوتے دیکھا- لیکن اپنی زندگی کی جدو جہد کے ساتھ ساتھ دوسرے انسانوں کے ساتھہ بھلائی کرتے بھی دیکھا-
اور ان سب کے بعد میں اپنے آپ کو دیکھتی ہوں- اپنی اکلوتی بیٹی کو میں اسی طرح چاہتی ہوں جیسے کوئی اپنے بیٹے کو یا وہ خود اپنے بیٹے کو-
اس بحث سے الگ کہ فوج کے جرنیلز کا پاکستان کی سیاست اور پاکستان کی بقاء میں کیا کردار رہا ہے- اور ذاتی زندگی میں ان کی کیا مصروفیات ہوتی ہیں- میں ان سپاہیوں کی ماؤں کو دیکھتی ہوں جو عام ماؤں سے کس قدر مختلف ہیں- ان کا اپنے بیٹوں کو فوج میں بھیجنے کا کیا مقصد ہو سکتا ہے؟ شہرت، دولت، حکومت، تعریفیں، ایوارڈز یا پھر پاکستان کی سلامتی کے لئے بیٹے قربان کردینے کا جذبہ؟ اور پاکستان کی سلامتی کس کے لئے؟ اپنی ذات اور اپنے خاندان کے لئے یا پھر کروڑوں خاندانوں کی آزادی اور دشمنوں سے حفاظت کے لئے؟ کیا ملتا ہے انھیں پاکستان کے لئے اپنے بیٹے ذبح کر وا کے-
اور میں نے آسمان کی طرف منہ کر کے کہا کہ یا الله اگر آپ نے اپنے علاوہ کسی اور کو سجدہ کرنے کا اختیار دیا ہوتا تو میں پاکستان کے فوجیوں کی ماؤں کو کر دیتی- جن معلوم ہوتا ہے کہ ان کا بیٹا کن مشکلات سے گزرے گا، کیا کیا سختیاں برداشت کرے گا اور کتنے زخم اپنے جسم پر کھا کر پاکستان کی مٹی کا حق ادا کرے گا- اور یہ بھی جانتی ہیں کہ ان تمام صعوبتوں کے بعد اسے الزمات بھی لگیں گے، اس کی نیت پر بھی شک کیا جاۓ گا، اس کی تمام جدو جہد کو مٹی میں ملانے کی کوشش کی جاۓ گی-
شاید ان کی ماؤں کا جذبہ اور دعائیں ہیں جن کی وجہ سے یہ چند لاکھ کی فوج اپنا خون بہا کر اٹھارہ کروڑ کی غفلتوں کے کفارے ادا کر رہی ہے-
پاکستان کو میری جیسی نہیں بلکہ فوجیوں کی ماؤں جیسی ماؤں کی ضرورت ہے- اور ان کا اجر صرف الله کے پاس ہے- کیونکہ شہادت کا رتبہ صرف الله ہی دیتا ہے اور صرف اسی کی رضا اور دین اور شعائر کے لئے جان دے کر ملتا ہے- خوش قسمتی سے پاکستان بھی الله کی نشانیوں میں سے ایک ہے-
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت، نہ کشور کشائی