Friday, 14 March 2014

خوشحالی کی راہ


امّت کے ابتدائی حصّے کی اصلاح کے لئے پہلا قدم تھا امن کا قیام -  ایک انسان کو دوسرے انسان کے شر سے محفوظ کردینا چاہے پہلا انسان کتنا ہی مجبور، بے بس اور مسکین ہو اور دوسرا کتنا ہی خوشحال اور خود مختار-  بے بس، مجبور اور مسکین فاقوں اور بد حالی کا عادی ہوتا ہے- اسکے لئے سب سے بڑی کشش عزت اور اسکی پہچان ہوتی ہے-  جبکہ امراء کو اسکی پرواہ نہیں ہوتی-  حضرت بلال اور دوسرے غلاموں اور مسکینوں کو یہ عزت اور مساوات ہی رسول صلی الله علیہ وسلّم کی صحبت میں کھینچ کھینچ کر لاتی تھی-  

امن کے بغیر خوشحالی ممکن نہیں- 

خوشحالی کسے کہتے ہیں؟  خوشحالی کی تعریف انفرادی طورپر کیا ہے؟ عام طور پر خوشحالی سے مراد مالی اور معاشی بہتری لی جاتی ہے کہ انسان کی بے شمار خواہشوں کا  پورا ہونا اور وہ بھی اس طرح کہ ایک زمانہ اس پر گواہ ہو-  بادشاہ، شہنشاہ، سلطان، صدر، امیر، سیٹھ، صاحب, جیسے کچھ القابات خوشحالی اور خوش قسمتی کی علامت سمجھے جاتے ہیں- اسکے بعد وہ حالات جس میں ایک انسان کے پاس اوروں کے مقابلے میں ہر قسم کے رزق کی بہتات ہو-  اسکے پاس ہزار گز کا گھر، ایک سے زیادہ سواریاں، نوکر چاکر اور کروڑوں کا کاروبار ہو- گھر کی خواتین کے پاس کروڑوں کے زیورات ہوں- بیٹے بھی ہوں، عزت دینے والے دوست رشتہ دار بھی ہوں-سماجی حلقوں میں نام بھی ہو- جب چاہے جہاں چاہے جا سکے، جو دل چاہے کھا سکے، جو دل چاہے پہنے- اسکے فیصلوں کو خاندان میں اور جاننے والوں میں ترجیح دی جاۓ-  وغیرہ وغیرہ 

مالی اور معاشی خوشحالی کی انفرادی تعریف تمام خزانوں کے مالک الله عز و جل کے مطابق یہ ہے- 

"بیشک الله جسے چاہتا ہے بے شمار رزق دیتا ہے" 
سوره آل عمران 

"اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے-
اور یہ کہ اس کی کوشش دیکھی جائے گی" 
سوره النجم 

 "اور رشتہ داروں اور محتاجوں اور مسافروں کو ان کا حق ادا کرو۔ اور فضول خرچی سے مال نہ اُڑاؤ- کہ فضول خرچی کرنے والے تو شیطان کے بھائی ہیں۔ اور شیطان اپنے پروردگار (کی نعمتوں) کا کفر ان کرنے والا (یعنی ناشکرا) ہے- اور اگر تم نے اپنے پروردگار کی رحمت (یعنی فراخ دستی) کے انتظار میں جس کی تمہیں امید ہو ان (مستحقین) کی طرف توجہ نہ کرسکو اُن سے نرمی سے بات کہہ دیا کرو-  اور اپنے ہاتھ کو نہ تو گردن سے بندھا ہوا (یعنی بہت تنگ) کرلو (کہ کسی کچھ دو ہی نہیں) اور نہ بالکل کھول ہی دو (کہ سبھی دے ڈالو اور انجام یہ ہو) کہ ملامت زدہ اور درماندہ ہو کر بیٹھ جاؤ- بےشک تمہارا پروردگار جس کی روزی چاہتا ہے فراخ کردیتا ہے اور (جس کی روزی چاہتا ہے) تنگ کردیتا ہے وہ اپنے بندوں سے خبردار ہے اور (ان کو) دیکھ رہا ہے- اور اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل نہ کرنا۔ (کیونکہ) ان کو اور تم کو ہم ہی رزق دیتے ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت گناہ ہے- " سورہ بنی اسرئیل 

خوشحالی کی حد انفرادی طور پر کیا ہے؟  خوشحالی کی حد یہ ہے کہ الله عز و جل نے جو کچھ عطا کیا ہے وہ خود اسکی ذات، اسکے رسول اور اسکی راہ میں کوششوں سے زیادہ عزیز نہ ہو جاۓ- 

"کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور بیٹے اور بھائی اور عورتیں اور خاندان کے آدمی اور مال جو تم کماتے ہو اور تجارت جس کے بند ہونے سے ڈرتے ہو اور مکانات جن کو پسند کرتے ہو الله اور اس کے رسول سے اور خدا کی راہ میں جہاد کرنے سے تمہیں زیادہ عزیز ہوں تو ٹھہرے رہو یہاں تک کہ الله اپنا حکم بھیجے۔
اور الله نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا" 
سوره التوبہ 

"کہہ دو کہ ہم تمہیں بتائیں جو عملوں کے لحاظ سے بڑے نقصان میں ہیں-
وہ لوگ جن کی سعی/کوشش دنیا کی زندگی میں برباد ہوگئی۔ اور وہ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ اچھے کام کر رہے ہیں- یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیتوں اور اس کے سامنے جانے سے انکار کیا تو ان کے اعمال ضائع ہوگئے اور ہم قیامت کے دن ان کے لئے کچھ بھی وزن قائم نہیں کریں گے-" 
سورہ الکھف 

خوشحالی کی تعریف اجتماعی طور پرکیا ہے؟ ایک ایسا نظام جس میں ہر کوئی انفرادی طور پر دولتمند ہو- جس کا جو دل چاہے کرے- علاقے، شہر یا ملک یا ریاست یا سلطنت میں کھانوں، کپڑوں، زیوارت، اور ہر قسم کے رزق کی بہتات ہو-  یہ ایک تصوّراتی نظام ہے ہے- جسکا دنیا میں قیام نا ممکن نظر آتا ہے- دنیا کی کون سی حکومت یا ریاست یا سلطنت ہے جو اپنے عوام کو ایسا نظام دے کہ ہر ایک پاس بنگلہ ہو، گاڑی ہو، نئی سے نئی سہولت ہو، اتنی تنخواہ ہو کہ بچوں کو سب سے منہگے اسکول میں تعلیم دلواۓ اور جو چاہے کھاۓ اور ہر سال کسی نہ کسی ملک کی سیر کو جاۓ اور کپڑے بھی بہترین پہنے، وغیرہ وغیرہ- وہ حکومتیں جو الله کے وجود پر یقین نہیں رکھتیں اور انسان کی قابلیتوں، صلاحیتوں اور آپس کے تعلقات پر مبنی نظام یعنی جمہوریت پر یقین رکھتی ہیں- وہ کس طرح اپنی محدود قابلیتوں، صلاحیتوں کے بل پر ایک ایسا تصوراتی نظام قائم کر سکتیں ہیں-  ایک نا ممکن بات ہے- 


"جو مال الله نے اپنے پیغمبر کو دیہات والوں سے دلوایا ہے وہ الله کے اور پیغمبر کے اور قرابت والوں کے اور یتیموں کے اور حاجتمندوں کے اور مسافروں کے لئے ہے۔ 
تاکہ مال جو لوگ تم میں دولت مند ہیں ان ہی کے ہاتھوں میں نہ پھرتا رہے۔
سو جو چیز تم کو پیغمبر دیں وہ لے لو۔ اور جس سے منع کریں (اس سے) باز رہو۔ 
اورالله سے ڈرتے رہو۔ بےشک الله سخت عذاب دینے والا ہے"
سورہ الحشر 

اجتماعی خوشحالی کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ معاشرے میں ایسے افراد کا ہونا جو جس حال میں بھی ہوں اور جو کام کریں اس میں خوشی، مزہ اور اطمینان محسوس  کریں-اور اس سے دوسروں کی بھلائی بھی مقصود ہو- انکی طبیعت میں بخل نہ ہو- دنیا میں مسلمان اور غیر مسلمان معاشروں میں بہت سے ایسے لوگ گذرے ہیں اور آج بھی موجود ہیں جن کے نزدیک خوشحالی کا یہ مطلب مال اور معاش سے بڑھ کر ہے-  سدھارتھ اپنا محل اور بادشاہت چھوڑ کر اپنے ذہن میں اٹھنے والوں سوالوں کا جواب تلاش کرنے نکل کھڑا ہوا اور سالوں زمینوں کی خاک چھاننے کے بعد سکون اور اطمینان کے لئے انسانی فطرت کے چند راز جان کر واپسپلٹا- نیلسن منڈیلا اور مارٹن لوتھر کنگ جیسے بہادر، تعلیم یافتہ اور با شعور لوگوں میں کیا وہ صلاحیتیں موجود نہیں تھیں کہ وہ دولت کما کر دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہو جاتے- حضرت لقمان نہ پیغمر تھے نہ رسول- لیکن الله نے انکی فطرت پر کی گئی تربیت کا ذکر قرآن میں کیا ہے- عبد الستار ایدھی اور مرحوم عبد الرزاق یعقوب میں کیا فرق ہے- ایک کے پاس اپنی دولت اور دوسرا عبد الرزاق یعقوب جیسے ہزاروں لوگوں کی دولت کا امین اور اس کی معاشرے میں صحیح تقسیم کے لئے کوشاں- حضرت علامہ اقبال رحمہ الله علیہ کو کس چیز نے پی ایچ ڈی ہونے کے باوجود دولت اور دنیاوی رتبے کمانے سے دور رکھا- قائد اعظم رحمہ الله علیہ کو کس جذبہ نے دولت سے قیادت کا راستہ دکھایا-  حالانکہ انکی اولادیں تو لاکھوں میں کھیل رہی ہیں- حضرت خدیجہ رضی الله عنھا، فاطمہ الزہرہ رضی الله عنھا، زینب الغزالی، حضرت فاطمہ جناح رحمہ الله علیھا، صحابہ کرام، تحریک پاکستان کے اراکین، بلقیس ایدھی، مدر ٹریسا کے لئے کیا قدرت نے عیش و عشرت کے دروازے بند کر رکھے تھے-  اور یہ پاکستان کے فوجی- کیا انہوں نے اور انکے ماں باپ نے ٹھیکہ لیا ہے پاکستان کی حفاظت کا- کیا انکے پاس کوئی اور چوائسز نہیں ہیں زندگی گزارنے کے لئے- کیوں یہ اسقدر مشققتیں اٹھاتے ہیں چند ہزار کی تنخواہ کے عوض- کیا انکی ماؤں کو اپنے بیٹوں سے محبّت نہیں ہوتی- اور بھی ہزاروں نام اور مثالیں ہوں گی- 

یہ وہ لوگ تھے اور ابھی بھی ایسے بہت ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے مواقعوں کو دولت، عزت، شہرت کے حصول کے بجاۓ اس مقصد پر لگادی جس نے انکے نفس کو اس بات پر مطمئن کردیا کہ وہ صحیح راہ پر ہیں- اور انکی نیّت خیر و بھلائی کے سوا کچھ نہ تھی- تو الله نے انکے نفوس میں اطمینان اور خوشی بھر دی- 


"اے اطمینان پانے والی روح! اپنے پروردگار کی طرف لوٹ چل۔ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی-  تو میرے (ممتاز) بندوں میں شامل ہو جا- اور میری بہشت میں داخل ہو جا-" 
سورہ الفجر 

"الله ان سے خوش اور وہ اس سے خوش۔ یہ (صلہ) اس کے لیے ہے جو اپنے پروردگار سے ڈرتا رہا" 
سورہ البیّنه 

اور الله نے انکو نفس کے بخل سے پاک کردیا- اور یہ نفس کا بخل کیا ہے- کہ ہر عمل سے صرف میرے لئے خیر پیدا ہو اور دوسرے جائیں بھاڑ میں- جو میرے پاس ہے وہ کم نہ ہو اور بڑھتا ہی رہے- اور میرے ارد گرد کی دنیا کا مرکز صرف میری ذات ہو- باقی سب کچھ بھلا دیا جاۓ - 


 "اور جو شخص حرص نفس سے بچا لیا گیا تو ایسے لوگ مراد پانے والے ہیں" سورہ الحشر

"اور جو شخص طبعیت کے بخل سے بچایا گیا تو ایسے ہی لوگ راہ پانے والے ہیں" سورہ التغابن 

"اور باوجود یہ کہ ان کو خود طعام کی خواہش (اور حاجت) ہے
فقیروں اور یتیموں اور قیدیوں کو کھلاتے ہیں-
 (اور کہتے ہیں کہ) ہم تم کو خالص خدا کے لئے کھلاتے ہیں۔ نہ تم سے عوض کے خواستگار ہیں نہ شکرگزاری کے (طلبگار)" 
سورہ الدھر


مالی تباہی انفرادی طور پر
الله عز و جل نے فرمایا، 
"کہ ہم نے انسان کو تکلیف (کی حالت) میں (رہنے والا) بنایا ہے" 
سورہ الشمس 

لہذا یہ بات تو طے ہے کہ کوشش اور جدّ و جہد انسان کی زندگی کا حصّہ بھی ہیں اور اسکی فطرت کا بھی- یہودیوں کو بیٹھے بیٹھے من و سلوی ملا تو وہ اکتا گۓ اور فرمائش کردی کہ ہم تو خود اگا کر کھائیں گے- انسان کو کیونکہ وہی ملتا ہے جس کی وہ خواہش یا نیّت کرے- لہٰذا جو انسان کی اندگی کا مقصد "روٹی، کپڑا اور مکان" بن جاۓ تو قدرت بھی اسے انہی چکّروں میں بھٹکا ۓ رکھتی ہے-  جو شہادت کی تمنّا کرتے ہیں انکے لئے شہادت کی راہ ہموار کردیتی ہے- جو علم و آگہی کے لئے نکلے ان پر فطرت کے راز آشکار کر دیتی ہے- جو بدی میں بھٹکنا چاہیں تو انھیں وہی سامان فراہم کر دیتی ہے-  
اسلئے مال کی بے برکتی کا تعلق انسان کے ارادے، نیّت اور خواہشات سے ہوتا ہے-  


 "تمہارا مال اور تمہاری اولاد تو آزمائش ہے۔ " سوره التغابن 


"اور ان سے دو شخصوں کا حال بیان کرو جن میں سے ایک ہم نے انگور کے دو باغ (عنایت) کئے تھے اور ان کے گردا گرد کھجوروں کے درخت لگا دیئے تھے اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی- دونوں باغ (کثرت سے) پھل لاتے۔ اور اس (کی پیداوار) میں کسی طرح کی کمی نہ ہوتی اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی-  اور (اس طرح) اس (شخص) کو (ان کی) پیداوار (ملتی رہتی) تھی تو (ایک دن) جب کہ وہ اپنے دوست سے باتیں کر رہا تھا کہنے لگا کہ میں تم سے مال ودولت میں بھی زیادہ ہوں اور جتھے (اور جماعت) کے لحاظ سے بھی زیادہ عزت والا ہوں- اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ اور اگر میں اپنے پروردگار کی طرف لوٹایا بھی جاؤں تو (وہاں) ضرور اس سے اچھی جگہ پاؤں گا- تو اس کا دوست جو اس سے گفتگو کر رہا تھا کہنے لگا کہ کیا تم اس (خدا) سے کفر کرتے ہو جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفے سے پھر تمہیں پورا مرد بنایا- مگر میں تو یہ کہتا ہوں کہ خدا ہی میرا پروردگار ہے اور میں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا- اور (بھلا) جب تم اپنے باغ میں داخل ہوئے تو تم نے ماشاالله لاقوة الابالله کیوں نہ کہا۔ اگر تم مجھے مال واولاد میں اپنے سے کمتر دیکھتے ہو- تو عجب نہیں کہ میرا پروردگار مجھے تمہارے باغ سے بہتر عطا فرمائے اور اس (تمہارے باغ) پر آسمان سے آفت بھیج دے تو وہ صاف میدان ہوجائے- یا اس (کی نہر) کا پانی گہرا ہوجائے تو پھر تم اسے نہ لاسکو- اور اس کے میووں کو عذاب نے آگھیرا اور وہ اپنی چھتریوں پر گر کر رہ گیا۔ تو جو مال اس نے اس پر خرچ کیا تھا اس پر (حسرت سے) ہاتھ ملنے لگا اور کہنے لگا کہ کاش میں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناتا- (اس وقت) خدا کے سوا کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوئی اور نہ وہ بدلہ لے سکا" 
سورہ الکھف 

" ہم نے ان لوگوں کی اسی طرح آزمائش کی ہے جس طرح باغ والوں کی آزمائش کی تھی۔ جب انہوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ صبح ہوتے ہوتے ہم اس کا میوہ توڑ لیں گے- اور انشاء الله نہ کہا- سو وہ ابھی سو ہی رہے تھے کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے (راتوں رات) اس پر ایک آفت پھر گئی- تو وہ ایسا ہوگیا جیسے کٹی ہوئی کھیتی- جب صبح ہوئی تو وہ لوگ ایک دوسرے کو پکارنے لگے- اگر تم کو کاٹنا ہے تو اپنی کھیتی پر سویرے ہی جا پہنچو- تو وہ چل پڑے اور آپس میں چپکے چپکے کہتے جاتے تھے- آج یہاں تمہارے پاس کوئی فقیر نہ آنے پائے- اور کوشش کے ساتھ سویرے ہی جا پہنچے (گویا کھیتی پر) قادر ہیں- جب باغ کو دیکھا تو (ویران) کہنے لگے کہ ہم رستہ بھول گئے ہیں- نہیں بلکہ ہم (برگشتہ نصیب) بےنصیب ہیں- ایک جو اُن میں فرزانہ تھا بولا کہ کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم تسبیح کیوں نہیں کرتے؟- (تب) وہ کہنے لگے کہ ہمارا پروردگار پاک ہے بےشک ہم ہی قصوروار تھے- پھر لگے ایک دوسرے کو رو در رو ملامت کرنے- کہنے لگے ہائے شامت ہم ہی حد سے بڑھ گئے تھے- امید ہے کہ ہمارا پروردگار اس کے بدلے میں ہمیں اس سے بہتر باغ عنایت کرے ہم اپنے پروردگار کی طرف سے رجوع لاتے ہیں- (دیکھو) عذاب یوں ہوتا ہے۔ اور آخرت کا عذاب اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ کاش! یہ لوگ جانتے ہوتے- " 
سورہ القلم 


خوشحالی قائم رکھنے کے طریقے

خوشحالی قائم رکھنے کے عام دنیاوی طریقے تو یہی ہیں کہ کمانے کے مختلف ذرائع اور مواقع پیدا کئے جائیں- اور اسے اپنی صلاحیتوں سے اور محنت سے بڑھایا جاۓ- کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کمایا جاۓ- ایک گھر کے سب افراد کمائیں تو خوشحالی آجاۓ گی- اور پاکستان میں اسی فلسفے پر عمل کرتے ہوۓ غریب طبقہ اپنے بوڑھوں سے  لے کر بچوں تک کو کام سے لگا دیتا ہے- لیکن انکے ہاں پھر بھی خوشحالی نہیں آتی- 

خوشحالی کو جاری رکھنے کے کچھ اسلامی طریقے بھی بتاۓ گۓ ہیں- 

رسول صلی الله علیہ وسلّم نے فرمایا کہ "جو چاہتا ہے کہ اسکی عمر زیادہ ہو اور اسے فراخی نصیب ہو تو اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے" (یعنی خون کے رشتوں کے ساتھہ اچھا سلوک کرے-)

اسی طرح ایک اور حدیث کے الفاظ کے مطابق جو چاہتا ہو کہ اس پر دنیا کی نعمتیں کھول دی جائیں تو وہ ماں باپ کے ساتھہ اچھا سلوک کرے- 

"اور جب تمہارے پروردگار نے (تم کو) آگاہ کیا کہ اگر شکر کرو گے تو میں تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو (یاد رکھو کہ) میرا عذاب بھی سخت ہے" سورہ ابراہیم 

"اور کہا کہ اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے- وہ تم پر آسمان سے لگاتار مینہ برسائے گا- اور مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد فرمائے گا اور تمہیں باغ عطا کرے گا اور ان میں تمہارے لئے نہریں بہا دے گا- تم کو کیا ہوا ہے کہ تم الله کی عظمت کا اعتقاد نہیں رکھتے-" 
سورہ نوح 

"اور (اے پیغمبر) یہ (بھی ان سے کہہ دو) کہ اگر یہ لوگ سیدھے رستے پر رہتے تو ہم ان کے پینے کو بہت سا پانی دیتے-" 
سورہ الجن 


صدقات و خیرات کے اثرات 


صدقات و خیرات صرف انسان کا پیٹ بھرنے کو نہیں کہتے بلکہ حیوانات اور نباتات کی دیکھ بھال اور انکے ساتھ نیک برتاؤ بھی اس زمرے میں آتا ہے- حتّی کہ گھر سے باہر کی صفائی ستھرائی بھی-  

رسول الله صلی علیہ وسلّم کی حدیث ہے کہ
 "راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹا دینا بھی صدقہ ہے_"  
"اچھی بات کہنا بھی صدقہ ہے-"

یہ دونوں صدقے کوئی نہیں کرنا چاہتا- لوگ بھی سوچتے ہیں کہ چلو کما کر تو دو روٹی بھی نہیں ملے گی اور عزت تو ویسے ہی ہمارے ہاں کوئی کسی کی نہیں کرتا لہٰذا مسکینیت ٹھیک ہے کہ ایدھی اور دوسرے اداروں میں بکروں کا گوشت تو مل جاتا ہے دونوں وقت اور ساتھہ میں ہمدردیاں بھی- 

عام مزاج بھی یہی ہے کہ جو کچھ بیچ رہا ہے اس سے کوئی پانچ روپے کی چیز نہیں خریدے گا اور بھیک میں دس، بیس روپے دے دیں گے- تو ایسے معاشرے میں کسی عام آدمی کی ترجیح کیا ہوگی-  

الله جانے کن نہ معلوم وجوہات کی بناء پر دنیا کے اسلامی معاشروں میں زكواة سے زیادہ فضیلت صدقات و خیرات کو دی جاتی ہے- مسجدوں سے صدقات و خیرات کے اعلانات تو ہوتے ہیں-  لیکن کبھی زكواة پر خطبات نہیں ہوتے اور نہ یہ بتایا جاتا ہے کہ زكواة اسلام کا ایک ستون تو ہے ہی لیکن اسکے ساتھہ نفاذ شریعت کا سب سے بنیادی نکتہ بھی ہے-  سزاؤں کا نفاذ نہ تو شریعت کا مقصود ہے اور نہ اسلام کی روح-  سزاؤں کے نفاذ سے پہلے تزکیہ نفس اور تربیت نفس ضروری ہے-  تاکہ سزا دینے والے محرکات اور وجوہات کم سے کم ہو جائیں- 

اسی طرح صدقات و خیرات پر مشتمل نظام بھی اسلام کا مقصود نہیں- کیونکہ یہ نظام کچھ لوگوں کی ہمدردی اور غرباء پروری سے شروع ہوتا ہے اور اس میں پہلے ایک انسان دوسرے انسان پر اور آہستہ آہستہ ایک طبقہ دوسرے طبقے پر انحصار کرنے لگتا ہے-  اور رفتہ رفتہ ایک بڑی اکثریت اپنی عزت نفس کھو کر سہل پسندی، کام چوری، اور مفت خوری کی عادی ہو جاتی ہے-  اور دوسری جانب کچھ لوگوں کی ضرورت سے زیادہ ہمدردی رفتہ رفتہ عبادت سے زیادہ ایک روایت اور ایک فیشن بن جاتی ہے- اور بہت سے امراء پر بلاوجہ کا بوجھ بھی- کہ وہ زكواة بھی دیں اور پھر کروڑوں لوگوں کی بنیادی ضروریات کے لئے لاکھوں کے عطیات دیں- آج اسلامی معاشروں کو دیکھیں تو جتنے فلاحی اور خیراتی ادارے ہیں اس سے سو گنا زیادہ تعداد مستحقین کی ہے اور جو دن بدن بڑھتی جارہی ہے- 

احادیث کے مطابق اسلام کا بہترین زمانہ وہ ہوگا کہ لوگ زكواة لے کر پھریں گے اور کوئی زكواة لینے والا نہ ہوگا-  صدقات و خیرات تو دور کی بات ہے- 


نظام 
نظام کیا ہوتا ہے؟ مختلف صلاحیتوں اور قابلیتوں کے حامل لوگوں کاجمع ہو کرایک مقصد کے لئے کام کرنا اور وہ بھی اس طرح کہ لوگوں کی اکثریت پر اسکے اچھے یا برے اثرات ظاہر ہوں-   اجتماعی اثرات کے بغیر لوگوں کے اکھٹا ہو کر کام کرنے کو نظام نہیں کہا جا سکتا- نظام اچھا بھی ہو سکتا ہے اور برا بھی- جو لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی نظام نہیں وہ غلطی پر ہیں- پاکستان میں نظام ہے لیکن برا نظام- اور ایک بہت بڑی اکثریت اس نظام کو قائم رکھنے میں شریک ہے- اس کا ثبوت دن بدن بڑھنے والی افراتفری اور نا اہل لوگوں کی معاشرے میں زیادتی- جس جس گھر میں اسی گھر کے افراد اپنے ہی گھرکے ماں، باپ، بھائی، بہن، بیٹے، بیٹیوں پر بھروسہ نہ کرسکیں- ایک دوسرے سے شاکی ہوں، ایک دوسرے پر گھر صحیح طریقے سے نہ چلنے کے الزامات دیتے ہوں- تو یہ سب کے سب اس برے نظام کی پیداوار بھی ہیں اور اسے قائم رکھنے میں شریک بھی- 

اچھے نظام کی ظاہری نشانی یہ ہوتی ہے کہ لوگوں کی اکثریت خوش نظر آتی ہے، کام کرتی نظر آتی ہے- اچھے نظام کی روحانی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہاں قدرت اپنے خزانے انسانوں کے لئے کھول دیتی ہے- وہاں کی راتیں بھی دن کی طرح روشن ہوتی ہیں- 

برے نظام کی ظاہری نشانی معاشرے میں افراتفری، بھاگ دوڑ، الزامات، شکایتیں، توڑ پھوڑ، غصّے، لوٹ مار اور بھوک کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے-  یہاں تک کہ لوگ آپس میں ہی قتل و غارت شروع کر دیتے ہیں-  برے نظام کی روحانی علامت یہ ہے کہ وہاں ویرانی ہوتی ہے، وحشت ہوتی ہے، خوف ہوتا ہے، بے برکتی ہوتی ہے-  سورج، چاند، بادل، ہوائیں، دریا، موسم، سب دشمن بن جاتے ہیں- پھول نہیں کھلتے، پھل نہیں لگتے، پرندے کوچ کر جاتے ہیں-  



 خوشحالی کا نظام  " زكواة "
اسلام میں حکومتی سطح پر جو ٹیکس مسلمان عوام سے وصول کیا جاتا ہے اور کیا جانا چاہیے اسے شریعت میں " زكواة " کہتے ہیں-  زكواة اسلام کا ایک رکن ہے، واجب ہے اور عبادت بھی ہے-  یہ ایک مکمّل معاشی نظام ہے- قرآن میں کی جگہ زكواة کا ذکر نماز کے ساتھہ آیا ہے- جس طرح نماز ایک مسلمان کا جسمانی، روحانی اور سماجی نظام ترتیب دیتی ہے اسی طرح زكواة اسلامی مملکت یا حکومت یا ریاست کا معاشی اور انفرادی طور پر ہر مسلمان کا مالی نظام ترتیب دیتی ہے-  نماز جسمانی، روحانی اور سماجی سطح پر سکون و اطمینان پیدا کرتی ہے اور زكواة مالی خوشحالی کی ضامن ہے- اسکے مصارف بھی شریعت میں بیان کر دے گۓ ہیں- اور پاکستان کے تمام فرقوں کے علماء اور دینی گھرانے اس کا خوب علم بھی رکھتے ہیں-  

حضرت امام صادق نے فرمايا: جو شخص اپنے مال كي زكواة نہ دے وہ نہ مومن ھے اور نہ ھي مسلمان ھے- 
امام محمد باقر نے فرمايا: خداوندعالم نے قرآن مجيد ميں زكواة كو نماز كے ساتھ ذكر كيا ھے، جو شخص نماز پڑھے مگر زكواة نہ دے اس كي نماز قبول نھيں ھے- 
حضرت امام رضا فرماتے ھيں: اگر تمام لوگ اپنے مال كي زكواة ادا كرتے تو (دنيا) ميں كوئي فقير نہ ھوتا- 

پاکستان میں کیونکہ خواص میں الله کے خوف کی اور عوام میں ذوق و شوق کی کمی ہے لہذا سب منہگائی اور بے برکتی کا رونا تو روتے ہیں لیکن اسکے نہ تو اسباب پر غور کرتے ہیں اور نہ ہی ان اسباب کے سدّ باب پر- کبھی حکمرانوں پر سیاستدانوں کو اسکی وجہ قرار دیتے ہیں- اور کبھی یہ اعتراف کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں کہ کیا کریں لوگوں کے گناہوں کا نتیجہ ہے-  

پاکستان میں ایک تو حکومت آمدنی ٹیکس، جائیداد کا ٹیکس، پانی کا ٹیکس وغیرہ وصول کرتی ہے اور پھر رمضان میں زكواة بھی-  اور اسکے لئے بیت المال بھی بنایا ہوا ہے-  اسی لئے اکثر لوگ بنکوں میں اکاؤنٹ کھولتے وقت خود کو اہل تشیع لکھواتے ہیں تاکہ زكواة  نہ کاٹی جاۓ یا رمضان سے پہلے رقم نکلوالیتے ہیں-  پھر عوام انفرادی طور پر زكواة اور پھر سینکڑوں فلاح و بہبود اور خیراتی اداروں کو عطیات دیتے ہیں-  جس کا ایک مطلب یہ بھی ہوا کہ پاکستانیوں کے پاس دولت کی کمی نہیں-  صرف دولت کی گردش کا طریقه غلط ہے-  

میرے ساتھہ تو ظلم یہ بھی ہے کہ پچھلے چار سال سے میرے ہاں ٹیلیوژ ن نہیں ہے پھر بھی بجلی کے بل میں ٹی وی ٹیکس کے نام سے کچھ نہ کچھ رقم ادا کرنی پڑتی ہے-  

پہلی بات تو یہ کہ ایک اسلامی مملکت یا ریاست میں زكواة کے علاوہ حکومتی سطح پر جو ٹیکس لیا جاۓ وہ ظلم ہے- ایک اسلامی ریاست جس کے آئین میں لکھا ہو کہ اس ریاست کا نظام الله اور اسکے رسول صلی الله علیہ وسلّم کے بناۓ ہوۓ قوانین کے مطابق ہوگا-  اس کے چلانے والوں پر جائز نہیں کہ زكواة کے علاوہ کوئی اور ٹیکس وصول کریں- کیونکہ زكواة ہی کل معاشی اصلاح کے لئے کافی ہے-  اگر اسکے علاوہ کوئی ٹیکس ہوتا تو وہ بھی شریعت میں ذکر کر دیا جاتا- اور اسکی مثال خلفاء راشدین کے دور سے مل جاتی- گویا سیاست اور دین کو الگ کرکے سب سے زیادہ مزے میں تو اہل منصب لوگ ہی آگۓ تو پھر وہ کیوں اسلامی نظام کو نافذ کرنے کی کوشش کریں گے- ایسے ملک کی عوام دو حصّوں میں بٹ جاتی ہے- ایک حصّہ دولت جمع کرنے کے لئے دن رات ایک کرتا ہے اور پھر آتے دن اس دولت کا کافی حصّہ کسی نہ کسی شکل میں عطیہ کرتا رہتا ہے- عوام کا دوسرا حصّہ ان عطیات پر اپنی زندگی کا انحصار کر لیتا ہے-  اور حکومتی اراکین مزے سے اس کھیل سے لطف اندوز ہوتے ہیں- 

دوسری بات یہ کہ فلاحی کاموں کی ذمہ داری بھی اسلامی حکومت کا ذمّہ ہے نہ کہ مخیّر حضرات کا-  وہ انفرادی طور پر بھلائی کے کام کرسکتے ہیں ناگہانی آفات کے موقع پرامدادی کاموں میں حکومت کی مدد کر سکتے ہیں- 

پاکستان میں بے تحاشہ فلاحی اور خیراتی اداروں کے قیام نے ایک تو حکومت کو بد عنوانیوں کی کھلی چھوٹ فراہم کی ہوئی ہے اور دوسرے تمام تر ذمّہ داریوں سے نجات بھی دلوادی ہے - لوگ ہر مصیبت میں انہیں اداروں اور مخیّر حضرات کی طرف دیکھتے ہیں اور انہی سے بھلائی کی توقع رکھتے ہیں اور مزے کی بات کہ انہی پر بدنیّتی اور بد عنوانیوں کے الزامات بھی لگا دیتے ہیں- لوگوں کی توجہ اس طرف جاتی ہی نہیں کہ یہ تو ساری کی ساری ذمّہ داری ہے ہی حکومت کی- اور نہ ہی وہ حکومت سے کوئی حساب مانگتے ہیں- سیاستدانوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستانیوں کی ہمدردی اور انسانیت کے جدبہ کو کس طرح اور کس موقع پر کیش کرا کر اپنی جان اور دولت نہ صرف بچائی جاسکتی ہے بلکہ اس میں اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے-  اسی لئے انکے لئے سیاست ایک بہت منافع بخش کاروبار ہے- جو لوگ سیاست دانوں کا گلہ کرتے ہیں وہ اپنے گریبان میں جھانکیں کہ کتنے کام وہ عام خیر و بھلائی کی نیّت سے کرچکے ہیں اور کتنی مرتبہ خود کو اپنے فرقے، اپنی زبان، اپنی نسل، اپنے عقیدے کی قید سے آزاد کرکے عدل کی بنیاد پر لوگوں میں یا اپنے خاندانوں اور رشتہ داروں میں فیصلے کرا چکے ہیں- کتنی مرتبہ الله کی محبّت میں روایات اور ثقافت کی دیواریں گرا کر فطرت کی بنیادوں پر اپنی تربیت کر چکے ہیں کہ اسلام بہرحال دین فطرت ہے-

یہ فلاحی اور خیراتی ادارے سارا سال اور خاص طور پر رمضان میں عوام کے ایک حصّے سے لاکھوں کروڑوں روپے جمع کرتے ہیں اور عوام ہی کے دوسرے حصّے پر خرچ کر دیتے ہیں-  ان کو نیک نامی بھی مل جاتی ہے اور حکومت کی طرف سے ایوارڈز بھی-  اس طرح حکومت کو ایک کریڈٹ یہ مل جاتا ہے کہ وہ معاشرے کے نیک لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے-  اس میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے ان اداروں کو بھی کاروبار بنایا ہوا ہے-  بد عنوان لوگ عطیات جمع کر کے  ذاتی فائدےاٹھاتے ہیں- اور جن کے لئے عطیات جمع کرتے ہیں انھیں خوشحال نہیں ہونے دیتے ہیں ورنہ پھر انکا کاروبار کیسے چلے گا-

نیکی کے کام خاص طور پر اگر اجتماعی سطح پر کئے جائیں تو انکے ثمرات معاشرے پر ضرور ظاہر ہوتے ہیں-  اور اگر دنیا کا سب سے زیادہ عطیات دینے والا معاشرے کا حال یہ ہو کہ بھوک کے ہاتھوں تنگ ہوکر روزانہ سینکڑوں لوگ خود کشیاں کریں، ماں اپنے بچوں کو قتل کردے، لوگ قانونی اور اخلاقی جرائم کی طرف راغب ہوں،  خیراتی اداروں کے آگے مسکینوں اور سائلوں کا ہجوم بڑھتا جاۓ، نوزائیدہ بچے کوڑے کے ڈھیر پر پڑے ملیں- یہ نقشہ نہ تو کسی اسلامی ریاست کا ہو سکتا ہے اور نہ ہی اس طریقے سے خوشحالی اور امن آ سکتی ہے-  یہ کہیں نہ کہیں گڑبڑ کی علامت ہے اور وہ گڑبڑ یہ نہیں کہ لوگوں نے صدقه و خیرات کم کر دیے ہیں یا بند کر دے ہیں بلکہ نیک کاموں کو کیا غلط طریقوں سے جارہا ہے-  




 بد حالی کا نظام " سود "
پچھلے چند سالوں سے ایک خاتون سے جان پہچان ہوئی- چار چھوٹے چھوٹے بچے ہیں انکے-  شوہر بنک میں ملازم- اور شادی بھی پسند کی کی تھی- حد سے زیادہ محنتی خاتون- پیسہ کمانے کے لئے دن رات ایک کیے ہوۓ تھے- لین دین کے معاملے میں بہت سے بھی زیادہ سٹریٹ فارورڈ-  اپنے ایک ایک منٹ اور ایک ایک فیور کی قیمت وصول کرنا جانتی ہیں-  اور ہمیشہ خود کو حق پر سمجھتی ہیں - یہ بات بھی ہے کہ اکثر لوگوں کی مدد بھی کرتی ہیں- انکی باتوں سے پتہ چلتا کہ ان کا حلقہ احباب کیسا ہے- مجھ سے بھی جتنا فائدہ اٹھا سکتیں تھیں اٹھایا جسکا اندازہ مجھے بہت بعد میں ہوا-  رہنے سہنے کے انداز سے لگتا تھا کہ بہت مشکل سے ان کا گزارہ ہوتا ہے-  ایک مرتبہ سود پر بات نکلی تو کہنے لگیں کہ سود بھی تو تجارت ہے- اب دیکھیں نہ میری ایک دوست لوگوں کو قرضے دیتی ہیں اور واپسی پر کچھ فیصد زیادہ لیتی ہیں- اگر وہ کہیں کاروبار میں لگائیں تو انھیں کتنا منافع ہو- لیکن یہ انکی نیکی ہے کہ کسی کو وقت پر رقم دے دیتی ہیں تو پھر انکا حق بنتا ہے کہ کچھ منافع کما لیں-  انکے حلقۂ احباب نے مختلف کاروبار  کی قسمیں شروع کر رکھیں تھیں -  انہوں نے بتایا کہ اس میں منافع بہت ہے- پھر یہ ہوا کہ پچھلے سال اپریل میں انکی پارٹنرز انکے ساتھہ دھوکہ کر گئیں- نہ صرف یہ کہ انکے تقریبا ساڑھے چار کروڑ روپے ہضم کر گئیں بلکہ  دھمکیاں بھی دیں- کچھ ماہ انہوں نے جگہ بدل کر گزارہ کیا بچوں کو بھی اسکول نہیں بھیجا-  اور پھر جب کیس کیا تو انکے شوہر پر حملے کرواۓ- با لاٰ خر انھیں دبئی بھاگنا پڑا- وہاں انکا نروس بریک ڈاؤن ہوا- اب انکا پیسہ پاکستان آ آ کر عدالتوں کی پیشیاں نمٹانے پر خرچ ہو رہا ہے-  

یہ ایک گھر کی نہیں بہت سے گھروں کی کہانی ہے-  سود ہو یا زكواة یا کوئی نیکی کے کام - ہم اپنی مرضی اور اپنے فائدہ دیکھ کر کرتے ہیں- جسکا صرف نقصان ہی ہوتا ہے-  کسی سے کوئی کام کہیں، کوئی بات کریں- سب سے پہلا رد عمل یہ ہوتا ہے کہ اس کا فائدہ کیا ہوگا؟ اس کا کوئی فائدہ نہیں تو کیوں کریں؟ علامہ اقبال  فرمایا، 
بر تر از اندیشہ سو دو زیاں ہے زندگی 

 سود کے لغوی معنی زیادہ کے ہیں- سود کی کیفیت پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ سودی نظام صرف بنکوں میں اور اسٹاک اکسچینج میں ہی نہیں ہماری زندگیوں میں بھی شامل ہے-  کسی کے گھر کچھ بھیجا، مدد کر دی، احسان کردیا، کوئی مشکل حل کردی- تو واپسی کی توقع- ہمارے نفس کا بخل ہمیں کسی نہ کسی طور سود کی طرف لے جاتا ہے- 


"اور طبیعتیں تو بخل کی طرف مائل ہوتی ہیں" 
سورہ النساء 

"اور انسان دل کا بہت تنگ ہے" سورہ بنی اسرائیل 

رسول صلی الله علیہ وسلّم کی تربیت کا ایک کمال یہ بھی تھا کہ لوگوں کے مزاج سے سود نکال دیا تھا- شریعت  میں سودی نظام سے متعلق تمام لوگوں کے لئے اعلان جنگ ہے-  جو لیں، جو دیں، جو اسکے گواہ بنیں، جو اسکے پرچار یا ایڈورٹمنٹ کریں، اسکے کمرشل بنائیں اور اس میں کام کریں- واللہ اعلم با الصواب  

 "جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے اور نماز پڑھتے اور زکوٰة دیتے رہے ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا اور (قیامت کے دن) ان کو نہ کچھ خوف ہوا اور نہ وہ غمناک ہوں گے-
مومنو! خدا سے ڈرو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو جتنا سود باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو- اگر ایسا نہ کرو گے تو خبردار ہوجاؤ (کہ تم) اللہ اوراس کے رسول سے جنگ کرنے کے لئے (تیار ہوتے ہو) اور اگر توبہ کرلو گے (اور سود چھوڑ دو گے) تو تم کو اپنی اصل رقم لینے کا حق ہے جس میں نہ اوروں کا نقصان اور نہ تمہارا نقصان- اور اگر قرض لینے والا تنگ دست ہو تو (اسے) کشائش (کے حاصل ہونے) تک مہلت (دو) اور اگر (زر قرض) بخش ہی دو توتمہارے لئے زیادہ اچھا ہے بشرطیکہ سمجھو- اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا۔ اور کسی کا کچھ نقصان نہ ہوگا- " 

سورہ البقرہ 


علماء  کا کردار 
 خوشحالی کی ابتداء امن سے ہوتی ہے- اور امن کی ابتداء تزکیہ نفس اور تربیت نفس سے ہوتی ہے- اور فی الحال تو یہی علماء کی سب سے بڑی ترجیح ہونی چاہیے-  یہ نہیں کہ ہر کوئی اٹھے اور فلاحی مملکت اور رفاہ عامہ کے لئے چندے اکٹھے کرنے شروع کردے- 

کیوں لوگ زكواة کی لازمی عبادت سے زیادہ صدقه و خیرات کو ترجیح دیتے ہیں؟ اسلئے کہ مسجد بنانی ہو یا مدرسہ، ہسپتال بنا ہو یا یتیم کھانا یا کوئی اور ادارہ- سب کام چندہ پر ہوتا ہے- اور باقاعدہ لکھا ہوتا ہے کہ اپنے صدقات، خیرات، زكواة اس ادارے کو دے کر ثواب دارین حاصل کریں-  اور جنّت کی ضمانت بھی دی گئی ہوتی ہے - بہت سے علماء نے بھی اس طرح زكواة دینے کو جائز قرار دے دیا ہے- 

علماء اسلامی ریاست میں سود  ختم کرنے کا شور تو مچا دیتے ہیں لیکن اس بات پر توجہ نہیں دیتے کہ سود کا بدل تجارت اور تجارت کا ٹیکس زكواة ہی تو ہے اور جو زكواة اس طرح دی جارہی ہے اسکے نتائج کیا نکل رہے ہیں- وہ پیسہ کہاں جارہا ہے، کیسے اور کن لوگوں پر خرچ ہو رہا ہے، اس سے کوئی فائدہ ہو بھی رہا ہے کہ نہیں- کیا واقعی مستحقین کےحالات بدلے جا رہے ہیں یا پھر سیلانی ٹرسٹ والوں کی طرح کہ بقول انکے پچاس ہزار لوگوں کو روز کھانا کھلاتے ہیں- لوگ روزانہ پیٹ بھر کر جاتے ہیں اور پھر دوسرے دن پیٹ بھرنے کے لئے اپنے وقت پر موجود ہوتے ہیں- جیسے کہ پرندوں یا جانوروں کو روزانہ کھانا ڈالو تو وہ اپنے وقت پر روزانہ آ جاتے ہیں پیٹ بھرنے کے لئے-  کتنا روپیہ چاہیے ہوتا ہے پچاس ہزار لوگوں کو کھانا کھلانے کے لئے-  اگر بیس روپے ایک آدمی کے لگا لیں تو بھی دس لاکھ روپے بنتے ہیں روزانہ- مہینے کے ہو گۓ تین سو لاکھ روپے-  کیوں یہ جگہ جگہ پھلوں کے باغ نہیں لگادیتے کہ انسان ہوں یا پرندے بھوک لگے تو بے خوف ہو کر کھا لیں یہ بھی تو صدقہ ہے بلکہ صدقه جاریہ- کیونکہ بھوک جرائم اور بے حیائی کی سب سے بڑی وجہ ہے- یہاں تک کہ انسان کو شرک، کفر تک لے جاتی ہے- 
علماء شریعت کے نفاذ کی بات تو کرتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ اگر واقعی شریعت نافذ کرنے کے حالات پیدا ہو گۓ تو ملک کی معیشت کو کس طرح سنبھالیں گے-  کیا روزانہ اپنے وزیر خزانہ کے ذریعے چندوں کے اعلان کروائیں گے اور مخیّر حضرات کو جنّت کا لالچ اور جہنّم کے ڈراوے دے دے کر انکی جیبیں خالی کروائیں گے -  ایک مدرسہ یا مسجد تو چندہ کے بغیر سنبھالی نہیں جاتی- پورا ملک کیسے سنبھالیں گے- زكواة کے علاوہ کوئی ٹیکس لیں گے اور زكواة وسول کرنے کا طریقہ ہوگا اور زكواة تقسیم کرنے کا طریقہ کیا ہوگا- 

پھر ایک بات یہ بھی ہے کہ ایک اسلامی ریاست میں مسلمانوں کے لئے زكواة اور غیر مسلموں کے لئے جزیہ ہے-  جب زكواة ریاستی یا حکومتی سطح پر جمع کی جاتی ہے تو اس کی تقسیم کا طریقہ انفرادی تقسیم سے الگ ہوتا ہے یا نہیں؟ انفرادی طور پر جو زكواة کے مصارف ہیں وہ اجتماعی سطح پر بھی وہی ہیں یا نہیں؟ اور اجتماعی سطح پر زكواة وصول کرنے والوں کی تنخواہیں، حکومتی اراکین کی تنخواہیں وغیرہ سب اسی سے نکلتی ہیں کہ نہیں؟  

ابھی تو یہ سلسلہ ہے کہ جو مدرسہ، مسجد یا ادارہ زكواة جمع کرتا ہے اسے اپنے ہی محدود مقاصد کے لئے خرچ کرتا ہے- اور لوگ بھی دے کر جان چھڑاتے ہیں- جبکہ زكواة کے اجتماعی نظام کا مقصود تو زكواة کی تقسیم ایک بڑے  پیمانے پر اور ملک یا ریاست کے تمام شہریوں کے لئے ہے؟؟؟ 

ذرا موازنہ کریں اپنی اپنی مسجدوں، مدرسوں اور اداروں کا اس اسلامی ریاست سے جو اپنی ابتداء کے بعد چند ہی دھائیوں میں آدھی سے زیادہ دنیا تک پھیل گئی تھی- جس میں کوئی فلاحی یا خیراتی ادارہ نہیں تھا، کوئی یتیم خانہ نہیں تھا- کوئی سڑکوں پر بھیک نہیں مانگ رہا ہوتا تھا- کوئی لاوارث نہیں کہلایا جاتا تھا- سواۓ زكواة کے کوئی ٹیکس نہیں تھا مسلمانوں پر- مخیّر حضرات اپنے اپنے طور پر مسافر خانے بنواتے، کنوئیں کھدواتے، درخت لگواتے یا اور نیکی کے کام کرتے- لیکن اس سے حکومت کی کارکردگی پر اثر نہ پڑتا- 

اسلامی نظام اور اجتماعی خوشحالی کا خلاصہ کیا ہے- کہ
١- زكواة کل معاشی نظام ہے- 

٢- فلاحی اور رفاہ عامہ کے کام بنیادی طور پر حکومت کی ذمّہ داری ہیں-  

Saturday, 8 March 2014

امن کی راہ



کوئی دس پندرہ دن  پہلے کی بات ہے کہ ایک جگہ چند خواتین کی بیٹھک میں شامل ہونے کا اتفاق ہوا- تقریبا سب ہی دینی مزاج کی خواتین تھیں-  باتوں باتوں میں یہ بات نکل آئی کہ آج کل لوگ اصل دین سے بے بہرہ ہیں اس لئے پریشان رہتے ہیں- اور یہ کہ ہمیں صحیح دینی لوگوں کی صحبت میں رہنا چاہیے- میں نے ان سے کہا کہ میرا خیال ہے کہ سب سے ملنا چاہیے اسلئے کہ ہر جگہ سے کوئی نہ کوئی اچھی بات سننے کو مل جاتی ہے- کہیں جانے یا کسی سے ملنے سے ایمان نہیں بگڑتا- تو مجھ سے پوچھا کہ میرا مسلک کیا ہے-  میں نے کہا میں صرف مسلمان ہوں اور میرا مسلک اسلام ہے- اس پر ذرا سا سخت رد عمل آیا کہ اس طرح تو آپ انکے اعمال میں شامل ہو جاتی ہیں جبکہ ہمیں الله اور اسکے رسول کی بات ماننے والوں کے ساتھ رہنا چاہیے- یقینا ان میں سے کسی کی نیّت بری نہیں تھی اور ان کا ارادہ بھلائی کا ہی تھا- میں نے جوابا کہا کہ دیکھیں اگر لوگوں سے ملیں گے نہیں تو دنیا کیسے چلے گی اور ضروری نہیں کہ ہم کسی سے مل کر بری بات سیکھیں، ہو سکتا ہے کوئی ہم سے اچھی بات سیکھ لے-  جس پر ایک خاتون نے مجھ سے کہا کہ آپ  اپنا عقیدہ درست کرلیں آپ کی ساری پریشانیاں ختم ہو جائیں گی- اور میں سوچتی رہ گئی کہ سب سے درست عقیدہ تو انبیاء کرام کا تھا- لیکن ان جیسی تکالیف خدا کسی کو نہ دکھاۓ- 

بعد میں مجھے یہ خیال آیا کہ صرف طالبان ہی نہیں- ہم سب ہی اپنی اپنی جگہ اپنی مرضی کا نفاذ شریعت کرتے رہتے ہیں-  طالبان تو صرف علامت کے طور پر سامنے آۓ ہیں- شاید یہ دکھانے کہ طالبان کا جو کام ہمیں اذیّت دے رہا ہے اور سب کے لئے پریشانی کا باعث بن گیا ہے وہ کام ہم سب ہی کسی نہ کسی سطح پر کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کے لئے تکلیف کا باعث بنے ہوۓ ہیں-  بالکل اسی طرح جیسے سیاستدان ہماری بد عنوانیوں کی علامت بن کر دنیا میں ہماری نمائندگی کر رہے ہیں-   


پھر ابھی دو تین دن پہلے حاشر آتے ہی بولا کہ باجی آپکو پتہ ہے ایف ایٹ میں پولیس والوں پر حملہ ہوا ہے- میں نے کہا کس نے کیا تو کہنے لگا دو بندے بم باندھ کر آۓ تھےانہوں نے خود کو بھی مار لیا اور پولیس والوں کو بھی اڑادیا -  میں نے پھر سوال کیا کہ لیکن انہوں نے ایسا کیوں کیا- تو حاشر کہتا ہے کہ  اسلئے کہ پولیس بھی تو ان پر حملے کرتے اور بم پھاڑتے ہیں-  میں نے اس سے کہا کہ آپ کے خیال میں پولیس نے اگر کسی پر حملہ کیا یا مارا تو اس کی وجہ کیا ہوگی اور آپ کے خیال میں پولیس کو کیا تھانوں میں ہاتھ پر ہاتھ رکھہ کر بیٹھہ جانا چاہیے-  ہمایوں نے میری ہاں میں ہاں ملائی کہ حاشر پولیس برے بندوں کو مارتے ہیں ہماری حفاظت کے لئے- 


ایک دس گیارہ سال کے بچے کے منہ سے یہ جواب سن کر مجھے حیرت بھی ہوئی اور خوف بھی آیا کہ نہ جانے کتنے لوگ اس طرح سوچتے ہونگے- اس نے پولیس پر حملہ کرنے والوں کے لئے دہشت گردوں کا لفظ بھی نہیں استعمال کیا اور نہ ہی یہ سمجھا کہ ان دونوں نے خودکشی کی -بلکہ اس کے لہجے میں ایک تھرل تھی-بالکل جیسے فلموں میں ہیرو جس کو چاھتا ہے مارتا پھرتا ہے اور لوگ ہمیشہ اس کے لئے تالیاں بجاتے ہیں اور اسی کو حق پر سمجھتے ہیں-   

اور اسی ہفتے کی بات ہے کہ ہماری بلڈنگ کی پڑوسن جو کہ بیوہ اور مطلقہ نہ ہونے کے باوجود ویسی ہی زندگی گذار رہی ہیں اور کافی سال پہلے کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوگئیں تھیں- کو انکی مالک مکان نے فلیٹ خالی کرنے کا نوٹس دے دیا-  ایک مہینے کا وقت دیا تھا-  انکو اس فلیٹ میں دو سال ہو گۓ - خیر میرے فلیٹ کا جو ایجنٹ ہے اسی نے انکو ہمارے ہی کا مپاؤنڈ میں دو دن پہلے ایک فلیٹ دلوا دیا-  اور وہ دو دن سے سامان ادھر سے ادھر لے جانے میں مصروف ہیں-  انکے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں- شوہر نے ہمیشہ ساتھہ رہنے کی شرط یہ رکھی کہ نہ تو میں خرچہ دونگا اور نہ ہی کوئی ذمہ داری اٹھاؤنگا-  اور اگر میرا پورا نہ ہوا تو وہ بھی تجھی کو پورا کرنا پڑے گا- اور کردار کے الزامات الگ- لہٰذا ان خاتون نے شوہر کو تو گھر سے نکالا اور خود محنت کر کے چاروں بچے پالے-  یہاں تک کے اسلام آباد میں شرعی نقاب کرتے ہوۓ پبلک ٹرانسپورٹ بھی چلائی- اسلام آباد کے بہت سے ڈرائیور انھیں جانتے بھی ہیں اور انکی کردار کی تعریف بھی کرتے ہیں-  بہت اچھی ڈرائیونگ کرتی ہیں اور ایک ڈرائیونگ انسٹیٹوٹ میں ملازم ہیں-  

آج میں ان سے بات کرنے گئی تو وہ کافی اپ سیٹ تھیں- انکی مالک مکان جو کہ بہت دینی ہیں، نے مکان کراۓ پر دیتے وقت وعدہ کیا تھا بڑی بڑی باتیں کی تھیں کہ آپ میری بہنوں کی طرح ہیں- جب تک چاہیں رہیں- ہمیں تو بس شریف لوگ چاہیے وغیرہ وغیرہ- اس وقت انھیں یہ معلوم نہ تھا کہ دو سال میں مکان کے کراۓ اتنے بڑھ جائیں گے- اور قانون کے مطابق تو کرایہ دو تین فیصد بڑھتا ہے سال میں-  ایک مہینے پہلے انہوں نے کہا کہ گھر خالی کردیں کیونکہ ہمیں بیچنا ہے کہیں چھ سات لاکھ روپے دینے ہیں اور بھی مجبوریاں ہیں وغیرہ وغیرہ-  اور کل ہماری پڑوسن کو پتہ چلا کہ ان سے مکان خالی کرواکے انہی کی ایک سٹوڈنٹ کو کافی زیادہ کراۓ پر دے دیا ہے- وہ اسے ڈرائیونگ سکھا رہی تھیں تو اس نے بتایا کہ اسے ہماری بلڈنگ میں فلیٹ مل گیا ہے اور اسی مہینے شفٹ ہونا ہے- ہماری پڑوسن نے ایڈریس پوچھا تو وہ انہی کے گھر کا تھا- میں نے اپنے ایجنٹ سے پوچھا تو کہنے لگا "میم ٹھیک تو ہے، یہ کیا کہ ایک گھر میں رہے چلے جائیں سالوں- ہمارا دل تو چاہتا ہے کہ کراۓ دار چھ مہینے میں مکان خالی کردے- تاکہ ہمارا کمیشن بنے-  میں نے کہا بھائی یہ چار دن کی زندگی ہے اور پھر قبر، جہاں بڑی کٹ لگنی ہے - تو بولا جب کی جب دیکھی جاۓ گی-  

اور اس پر تماشہ یہ کہ سب امن کی آس لگاۓ بیٹھے ہیں- سب خود کو معصوم اور جنّتی بھی سمجھ رہے ہیں- 

امن کی تعریف کیا ہے؟  جب ہم کسی ملک یا علاقے یا قوم یا فرد کو پر امن کہتے ہیں تو اس سے ہماری کیا مراد ہوتی ہے؟  

امن کو جنگ یا فساد کی ضد کہا جاتا ہے- اس لحاظ سے امن کا مطلب ہوا جنگ اور لڑائیوں کا نہ ہونا-  اور تمام معاملات کو کسی جبر، تشدّد اور خون خرابہ کے بغیر چلانا- جو کہ حکومتوں اور امن نافذ کرنے والوں اداروں کی ذمہ داری ہے- 

عام گفتگو میں اکثر سننے میں آتا ہے کہ "فلاں بچہ اتنا پر سکون ہے کونے میں بیٹھا اپنی چیزوں سے کھیلتا رہتا ہے نہ ضد کرتا ہے نہ روتا چلّاتا ہے اور نہ ہی چیزیں توڑ پھوڑ کرتا ہے-"  یا پھر یہ کہ "مغربی ممالک بہت پر امن ہیں- وہاں سب اپنے کام سے کام رکھتے ہیں- کوئی روک ٹوک نہیں- کوئی دوسروں کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتا-" یا پھر یہ کہ "فلاں شخص بہت پرسکون ہے- کسی سے کچھ لینا دینا نہیں- بس اپنے میں مگن-"  گویا عام حالات میں لوگوں کا اپنے کام سے کام رکھنا اور دوسروں کے معاملات میں مداخلت نہ کرنا امن اور سکون کی علامت ہے-  اور امن کی اس تعریف کا تعلق لوگوں کے ایکدوسرے کے ساتھہ برتاؤ اور رویے سے ہے- 

ان دونوں تعریفوں کے لحاظ سے امن کا نفاذ کوئی اتنا مشکل کام نہیں ہے- 

لیکن جب حکومتیں جہلاء اور امراء کے ہاتھہ میں چلی جائیں امن نافذ کرنے والے ادارے ان کے زیر اثر ہوں تو ملک میں لوٹ مار اور افراتفری مچنا کوئی انوکھی بات نہیں-  اور ان حالات میں جب عوام ایک طرف تو حکومتی اقدامات پر تکیہ کر کے بیٹھہ جائیں اور مختلف ادوار میں مختلف سیاست دانوں کے ہاتھوں ناچتے ہیں اور دوسری طرف زندگی کے ہر شعبے میں قانون کو ہاتھہ میں لینا اور عدالتوں کے بجاۓ خود جزا اور سزا کے فیصلے صادر کرنا اپنا حق سمجھنے لگیں تو یہ کہلاتا ہے آج کا پاکستان- 

آج پاکستان کی جو حالت ہے اس میں قصور عوام کا ہے - اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاست، حکومت، پولیس یا جو بھی شعبہ ہاۓ زندگی ہیں ان میں کام کرنے والے اور اپنے اپنے اداروں کی نمائندگی کرنے والے آسمان سے نہیں اترتے بلکہ عوام میں سے ہی نکلتے ہیں اور منتخب کئے جاتے ہیں- عوام اپنی انفرادی حالت ، اپنے گھر کے ماحول اور اپنی اولادوں کی  تربیت سے اپنے مستقبل کا اندازہ لگا سکتے ہیں-  جس طرح کسی ایک گھر کی اولادوں کو ملک، قوم، اسلام اور نظریات سے دلچسپی نہیں اور اپنی زندگی کو خوشحال بنانے کے لئے وہ سب کچھ جائز سمجھتے ہیں- تو اس گھر کے لوگ کس طرح کسی دوسرے گھرانے سے توقع کر سکتے ہیں کہ وہاں سے ملک و قوم کا خیال رکھنے والے، ایماندار، مخلص اور ہمدرد پیدا ہونگے- یہی حال سب کا ہے-  وہ جو جھوٹے لائسنس بنواتے ہیں، جھوٹے پیدائش کے سرٹیفکیٹ بنواتے- زمینوں کے جھوٹے کاغذات بنواتے ہیں، جعلی ڈگریاں بنواتے ہیں- وہ بھی عوام میں سے ہوتے ہیں اور جن سے بنواۓ جاتے ہیں وہ بھی کسی گھر کے باپ، بھائی، بیٹے اور شوہر ہوتے ہیں- جھوٹے مقدّمات لڑنے والے، جھوٹی گواہیاں دینے والے، جعلی دوائیں بنانے اور بیچنے والے بھی عوام میں سے نکلے ہوۓ لوگ ہوتے ہیں- وہ مرد اور خواتین جو اسکولوں کے مالک، پرنسپل اور اساتذہ بن کر بچوں کے ذہن، جذبات اور مستقبل سے کھیلتے ہیں اپنے نام اور دولت کے لئے- وہ بھی عوام میں سے ہی ہوتے ہیں-  کتنی مائیں، بہنیں، بیٹیاں اور بیویاں ہیں جو اپنے لڑکوں اور مردوں کو گھر سے نکلتے وقت احساس دلاتی ہیں کہ انھیں حرام نہیں کمانا، باہر جو عورتیں ملیں انکو عزت دینی ہے اپنے گھر کی عورتوں کی طرح- کتنے لوگ اپنے ہی گھر والوں اور رشتہ داروں کی بد عنوانیوں پر انکی روک ٹوک کرتے ہیں، ان کا گریبان پکڑتے ہیں، ان سے حساب مانگتے ہیں-  سب کے سب جب ملک و قوم اور عدل و انصاف سے زیادہ اپنے خاندان اور رشتہ داروں سے اور اپنے مفادات سے وفادار ہوں تو ایسے معاشرے میں امن کی توقع کرنا فضول ہے- کیونکہ لوگ اپنی مجبوریوں کو جواز بنا کر بات ختم کر دیتے ہیں- ایسے معاشروں کا انجام وہی ہوتا ہے جو آج کل پاکستانیوں کا ہے- اور ایسے لوگ دنیا کے جس ملک میں جائیں سکون سے نہیں رہ پاتے-  کیونکہ انکے مفادات، خاندان اور رشتہ داریاں انھیں کسی نظام سے بھی وفادار نہیں رہنے دیتیں- 


ایسی عوام جو اپنی بد فعلیوں کے لئے اپنے محسن اور اپنے قائد کی آخری آرام گاہ کو بھی نہ بخشے-  ایسے لوگ جو پاکستان میں سر سے دوپٹہ اترنے پر فتوے صادر کریں لیکن جب مغربی ممالک کا ویزہ لگے تو وہاں کے زنا، شراب، سؤر، جوا،سود جیسے گلی گلی اور گھر گھر ہونے والے کبیرہ گناہوں کو ذاتی معاملہ قرار دے کر وہاں رہنے کے جواز پیش کریں- ایسے لوگ جنکے لئے پاکستان میں رہ کر اپنے فرقے کو حق اور دوسروں کو کافر سمجھنا ایمان ہو- لیکن جب مغربی ممالک میں رہیں تو یہودیوں، عیسائیوں اور ہندؤں کی حکومتوں کو اسلامی حکومتوں کے مقابلے پر حق پر سمجھیں-  وہاں پھر امن نہیں فساد ہی ہوتا ہے-  

چند ہزار نمائندوں پر مشتمل حکومت اور پولیس اٹھارہ کروڑ میں سے کس کس کو پکڑے، کس کس کو بند کرے اور کس کس کو سزا سناۓ- اور وہ بھی اس صورت میں جبکہ وہ خود نااہل اور بدعنوان ہوں- 

رسول الله صلی الله علیہ و آله وسلّم کی نبوت سے قبل عرب میں جو معاشرتی نظام قائم تھا اور آج پاکستان میں جو نظام قائم ہے اس میں کیا چیزیں مشترک ہیں-  

١- عرب خدا کے وجود سے منکر نہیں تھے اسی لئے انھیں مشرکین مکّہ کہا جاتا ہے- ہم بھی نہیں ہیں- وہ براہ راست خدا سے تعلق پر یقین نہیں رکھتے تھے- ہم بھی نہیں رکھتے بلکہ وسیلہ ڈھونڈتے ہیں- 

٢- عرب قبائل میں بٹے ہوۓ تھے، ہم بھی اپنے اپنے علاقوں میں بٹے ہوۓ ہیں- 

٣- عرب کے معاشرے میں طبقات تھے، ہمارے معاشرے میں بھی ہیں- 

٤- عرب اپنے خاندان اور نسل کو افضل سمجھتے تھے- ہم بھی یہی کرتے ہیں- 

٥- عربوں میں دولت اور اقتدار کو فضیلت حاصل تھی، ہم میں بھی یہی جذبہ ہے- 

٦- عربوں میں با حیثیت لوگ اپنی مجلسوں میں جو فیصلے کرتے تھے اسی کی افضل مانا جانا تھا- ہمارے ہاں بھی یہی ہوتا ہے- 

٧- عربوں میں با حیثیت لوگوں کو اقتدار دیا جاتا تھا- ہمارے ہاں بھی یہی ہوتا ہے- 

٨- عربوں میں نیکی کا تصوّر تھا اور وہ غریبوں کی مدد بھی کیا کرتے تھے - ہم بھی کرتے ہیں- انکی نیکی سے بھی کسی کا پیٹ تو بھر جاتا تھا لیکن کوئی مفلسی سے خوشحالی کی طرف نہیں آسکتا تھا- ہمارے ہاں بھی نتائج یہی ہیں-  

٩- عربوں میں با حیثیت لوگوں کا ایک الگ حلقہ ہوتا تھا اور باقی عام لوگوں کا الگ- ہمارے ہاں بھی یہی صورتحال ہے- 

١٠- عربوں میں با اثر خاندان سے تعلق رکھنے والیعورتوں کو عزت اور دل لبھانے والی عورتوں کو پروٹیکشن حاصل تھی- ہمارے ہاں بھی یہی رواج ہو گیا ہے-  عام لوگ اس وقت بھی بیٹی کو زندہ دفن کرتے تھا، ہم نے اس عمل کی مختلف شکلیں ایجاد کر لیں ہیں کیونکہ ہم ایک ترقی یافتہ دور میں ہیں- 

١١- عربوں میں مذھب اور سیاست جدا تھے- ہمارے ہاں بھی ہیں-  سیاست کا الگ زمانہ الیکشن اور مذہبی رسومات کے لئے الگ ہلے گلے- 

١٢- عربوں میں ہر قبیلے کا اپنا الگ جھنڈا تھا- ہمارے ہاں یہ تماشہ سیاسی اور دینی گروہوں کی صورت میں موجود ہے- 

١٣- عربوں میں عوام خواص سے  ٹکّر نہ لیتے بلکہ اپنی محفلوں میں ان کے قصّوں اور ان کے آپس کے تعلقات بیان کر کے محظوظ ہوتے- ہماری عوام بھی یہی کرتی ہے-  اب تو یہ سہولت ٹاک شوز کی صورت میں موجود ہے-  حقیقت یہ ہے کہ عوام کی اکثریت کو میں نے کسی نہ کسی سیاسی یا دینی گروہ کا وفادارنہیں تو طرفدار ضرور دیکھا کہ سیاسی پارٹیوں کے بغیر ملک چلے گا اور نہ ہی دینی گروہوں کے بغیر مذہب- 

١٤- عربوں میں جانوروں کے حقوق تھےنہ ہی ہمارے ہاں ہیں- اور نہ ہی کوئی انکے بارے میں سوچتا ہے- جب تک فائدہ دیں تو ٹھیک ہے ورنہ ٹھکانے لگادو- اور یہ رویّہ ہمارا انسانوں کے ساتھہ بھی ہے- 

١٥- عرب اپنے آباء و اجداد کے گن گاتے اور ان کی روایت اور رسم و رواج  سے ہٹ کر زندگی گذارنے کو گناہ سمجھتے- ہم بھی یہی کرتے ہیں- 

١٦- عربوں میں توحید پر یقین رکھنے والے موجود تھے مگر انکے پاس نہ تو کوئی رہنما تھا اور نہ کوئی لائحہ عمل- یہی صورتحال ہمارے ہاں بھی ہے- 

١٧- لوگوں کی اکثریت عام ہونے کے باوجود ان توحید پرستوں کے با کردار ہونے کے باوجود اپنی وفاداریاں خواص کے ساتھہ منسلک رکھتی کیونکہ وہاں کسی نہ کسی طور مالی فوائد موجود تھے-  ہماری اکثریت کے دن رات بھی سیاسی اور دینی اداکاروں کے ساتھ منسلک ہیں- 

امّت کے پہلے حصّے کی اصلاح 

امن کا جو تصور اسلام نے دیا ہے اور اسکے لئے جو طریقہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلّم نے اختیار کیا تھا وہی امن کے قیام کے لئے حرف اوّل اور حرف آخر ہے-  انہوں نے عام لوگوں کو جمع کر کے خواص کے مقابلے پر کھڑا نہیں کیا- علماء اور امراء سے مقابلے اور جلسہ جلوس نہیں کئے- بلکہ عام لوگوں کی زندگی کے طریقے بدل ڈالے اور وہ بھی اس طرح کہ خاص خود بخود عام اور بے حیثیت ہو گۓ- 


حضرت علی نے فرمایا کہ 
 "ہم نے قرآن سے پہلے ایمان سیکھا" 

تو یہ ایمان کیا تھا جو قرآن سے پہلے سکھایا گیا اور اس سے امن کیسے آگیا؟ مکّہ کے تیرہ سال تو اسلام لانے والوں کے لئے کسی عذاب سے کم نہ تھے- فتح و نصرت تو بہت بعد میں ملی ہے- 

چودہ سو سال پہلے عرب میں امن کا تصور کیا تھا؟ کیا سوچ کر ہر طبقے کے لوگ اسلام میں داخل ہو رہے تھے؟ مکّہ کے تیرہ سالوں میں تو اسلام لانے والوں کے لئے بھوک، فاقہ، تشدّد، نفرتیں، الزامات، ملامتیں ذلّت اور خوف ہی خوف تھا-  خوشحالی تو مدینہ جا کے نصیب ہوئی اور وہ بھی رفتہ رفتہ-  

کیوں قرآن میں بار بار یا تو "یا یھا الناس یعنی اے لوگوں" یا پھر "یا یھا الذین اٰمنو یعنی اے وہ لوگوں جو ایمان لاۓ ہو" کہہ کر خطاب کیا گیا ہے- 

اسلام کے تقاضے ظاہری ہوتے ہیں اور سب اسکے گواہ ہوتے ہیں- لیکن ایمان کے تقاضے باطنی ہوتے ہیں کہ کوئی دیکھے یا نہ دیکھے، کوئی سمجھے یا نہ سمجھے، لیکن انسان کا اپنا نفس اور الله انسان کی نیّتوں پر گواہ ہوتے ہیں-  

"بلکہ انسان اپنے آپ پر گواہ ہے" سورہ القیامه 

عربی زبان میں الف, میم اور نون کے مادّے سے ایمان بھی بنتا ہے یعنی 'مان لینا' اور اسی مادّے سے امن بھی بنتا ہے یعنی 'سلامتی'- ایمان کا مطلب ہے ماننا اور دل سے ماننا اور پھر اس پر ثابت قدم رہنا- کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہونے والوں کو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلّم کی ذات اور کردار میں کوئی شک نہیں تھا- چاہے سائنسی توجیہات اور غیب کی باتوں سے بھری آیات ان کی سمجھ میں آئیں نہ آئیں- لیکن وہ ان پر ایمان لاتے-  اورزندگی گذارنے کے جن طریقوں کو وہ چھوڑ آتے تھے ان پر پلٹنا کفر سمجھتے تھے- مکّہ کے تیرہ  سالوں میں ایمان لانے والوں کی تعداد کہیں َ١٢٥ آتی ہے اور کہیں اس سے کچھ کم یا زیادہ-  جو کلمہ پڑھ لیتا وہ سیدھا مؤمن ہی کہلاتا- اسکے علاوہ مسلمانوں کی کوئی قسم نہیں تھی-    


حضرت بلال رضی الله عنہ کی زندگی میں اسلام لانے کے بعد ظاہری طور پر کیا تبدیلی آئی تھی- یہ کہ اب انھیں کوئی حقیر نہیں سمجھتا تھا، ان پر اپنا حکم صادر نہیں کرتا تھا-  وہ اپنی خوشی  سے فاقے سہتے، اپنی مرضی سے دوسروں کے کام کرتے جبر سے نہیں- حضرت عثمان رضی الله عنہ کی زندگی میں اسلام لانے کے بعد کیا ظاہری تبدیلی آئی تھی- بھوک، ہجرت، دھمکیاں، خوف، اپنے رشتہ داروں اور مکّے کے لوگوں کی طرف سے نفرت- اور سینکڑوں صحابہ کرام کی زندگیوں کی ظاہری تبدیلی بھی اس سے کم نہیں تھی- حضرت سلمان فارسی کیوں اپنا ملک چھوڑ کر رسول الله صلی الله علیہ وسلّم کے پاس رہے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلّم نے انھیں اپنے اہل بیت میں شامل فرمایا-   کیا مزہ ملتا تھا حضرت ابو بکر الصدیق کو غلام آزاد کروا کر- 

تبوک کے موقع پر جب مال جمع کرنے کا اعلان ہوا تو حضرت عمر فاروق نے اپنا آدھا اور حضرت ابو بکر صدیق نے سارے گھر کا گھر خالی کردیا تھا- اس وقت ایک صحابی ایسے بھی تھے جن کے پاس کچھ بھی نہ تھا تو انھوں نے ایک یہودی کے باغ میں رات بھی محنت کر کے کچھ کھجوریں کمائیں اور وہی صبح رسول الله صلی الله علیہ وسلّم کو چپکے سے پکڑا دیں- رسول نے وہ کھجوریں اس مال پر بکھیر دیں اور کہا کہ اب یہ مال قبول ہوگیا- 

اصحاب صفہ تو رہتے ہی کئی کئی دن کے فاقے سے تھے-  صحابیوں میں سے کچھ دولتمند بھی تھے اور بہت سے بعد میں خوشحال ہو گۓ تھے- لیکن کسی غریب صحابی کی طرف سے یہ شکوہ نہیں کیا گیا کہ یہ دولتمند مسلمان ظالم ہیں، غریبوں مسلمانوں پر رحم نہیں کھاتے- انکے لئے فلاح و بہبود کے ادارے نہیں بناتے-  

وہ کون سا سکون، کون سی تسلّی، کون سا دلاسہ تھا جو ان کو اتنی تکالیف اور پریشانیوں پر بھاری لگتا تھا- 

وہ تھا صرف ایک ہی نکتہ کہ الله کی ذات کو ہر عمل کا اور عمل کی رضا کا مرکز تسلیم کرنا- الله کی ذات کو مکمّل اور واحد تسلیم کرنا- اس بات کو تسلیم کرنا کہ ظاہر و غائب میں جو کچھ ہے وہ صرف الله کی تخلیق ہے، وہ جب چاہے بنا دیتا ہے اور جب چاہے مٹا دیتا ہے-  حق صرف اور صرف الله کا ہے باقی تمام حقوق اسکے نیچے ہیں- سجدہ، رکوع اور بندگی کے تمام طریقے صرف اور صرف الله کے لئے ہیں باقی تمام عقیدتیں احترام کی حد تک ہیں- حکم بھی الله کا ہے اور مرضی بھی الله کی- 

 "لا الہ الّا الله - نہیں کوئی عبادت کے لائق سواۓ الله کے"

الله جو اس کائنات کا مرکز ہے جہاں سے اس کائنات کو مسلسل توانائی مل رہی ہے- وہی الله انسان کے ایمان کا بھی مرکز ہے جہاں سے ایمان کو توانائی ملتی ہے

١-  عقائد کی اصلاح- وحی کے ذریعے جو سب سے پہلی اصلاح کی گئی وہ تھی الله کے ساتھہ تعلق یعنی عقائد کو توحید پر قائم کرنا - برائی کی جو سب سے پہلی جڑ کاٹی گئی وہ شرک تھا- الله کے  لئے اپنے عقیدے کو، نیّتوں کو، اعمال کو خالص کرنا- کسی کو الله کی ذات، اسکی صفات، اسکے حکم، اسکے کام اور اسکی عبادات میں شریک نہ کرنا- کیونکہ خدا ایک ہے تو دین بھی ایک ہی ہوگا- اور یہ بات مکّہ کے لوگوں کے لئے نا قابل فہم بھی تھی اور ناقابل برداشت بھی تھی- سورہ الانبیاء کی بائیسویں آیت کے مطابق اگر الله کے علاوہ بھی اور خدا ہوتے تو فساد مچ جاتا- تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ انسانوں کے گروہ اپنے اپنے طور پر الله کے علاوہ یا اسکے ساتھ کسی نہ کسی طور شریک ٹھرائیں اور زمین پر فساد نہ مچے- اور جو جو اس پیغام کو سمجھتے گۓ ان خدا سے براہ راست تعلق جڑتا گیا اور ان کی زندگیوں میں امن آتا چلا گیا- 

"اگر آسمان اور زمین میںالله کے سوا اور معبود ہوتے تو زمین وآسمان درہم برہم ہوجاتے۔ جو باتیں یہ لوگ بتاتے ہیں خدائے مالک عرش ان سے پاک ہے" سورہ الانبیاء 

٢- تعلقات اور رویّوں کی اصلاح- دوسری جو اصلاح کی گئی وہ تھی انسانوں کے آپس کے تعلقات یعنی انسانوں میں مساوات- تکبّر اور طبقات جو برائی کی دوسری جڑہے اس پر ضرب لگائی گئی-   تمام انسان حضرت آدم علیہ السّلام کی اولاد ہیں- کسی کو کسی پر برتری نہیں- اور جو بھی احساس برتری کی وجوہات ہیں وہ الله کا ہی فضل ہیں، انسان کی اپنی کرامات نہیں- کوئی کسی کا غلام نہیں، سب آزاد ہیں- قانون سب کے لئے ایک ہی ہے اور ہر برائی کرنے والا قابل گرفت ہے- جو اہل منصب اور اہل ثروت ہیں ان پر ذمہ داری کا بوجھ بھی زیادہ ہے اور احتساب بھی - کوئی کسی کو کمتری یا برتری کا احساس نہ دلاۓ- کسی قسم کا اختلاف تفریق کا با عث نہ بنے- عورت اور مرد بھی حقوق اور نیکیوں کے ثواب میں برابر ہیں البتّہ انکی ساخت اور انکی ذمہ داریاں فرق ہیں- یہ بات بھی مکّہ کے لوگوں کے لئے قابل قبول نہیں تھی- اور یہ بات ہمارے معاشرے میں بھی قابل قبول نہیں- 

"اور سب مل کر خدا کی (ہدایت کی رسی) کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا اورالله کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو خدا نے تم کو اس سے بچا لیا اس طرح الله تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ"
سورہ آل عمران 

٣- اعمال کی اصلاح- کوئی کسی کو دھوکہ نہ دے، ملاوٹ نہ کرے، ناپ تول میں کمی نہ کرے، ہمسایہ کے گھر کے سامنے کوڑا نہ ڈالے، ہمساۓ کی اجازت کے بغیر اونچی دیوار نہ بناتے کہ اسکی ہوا رک جاۓ، دوسروں کا تجسّس نہ کرے، دوسرے کی پیٹھ پیچھے برائی نہ کرے، منہ پر طعنہ نہ دے، احسان کر کے جتاتے نہیں، وعدہ کی پاسداری کرے، بیمار کی عیادت کرے، ملے تو سلام کرے یعنی ایک دوسرے پر سلامتی بھیجے، جانوروں پر زیادہ بوجھ نہ لادے، سایہ دار درخت لگاۓ، راہ سے نقصان دہ چیز ہٹا دے، ایک دوسرے کی جان، عزت اور مال کی حفاظت کرے، بلاوجہ بحث سے اپنا دامن بچاۓ- دوسرے عقیدے کے لوگوں یا دوسری قوم کا مذاق نہ اڑاۓ اور نہ ہی انکے معبودوں کا- جو کہے وہ کرے- لوگوں کے درمیاں انصاف کرے- ظالم کا ہاتھہ روکے- گواہی دے- پاکدامن عورتوں پر الزام نہ لگاۓ- 

"جب تم نے وہ بات سنی تھی تو مومن مردوں اور عورتوں نے کیوں اپنے دلوں میں نیک گمان نہ کیا۔ اور کیوں نہ کہا کہ یہ صریح طوفان ہے-  یہ (افتراء پرداز) اپنی بات (کی تصدیق) کے (لئے) چار گواہ کیوں نہ لائے۔ تو جب یہ گواہ نہیں لاسکے تو الله کے نزدیک یہی جھوٹے ہیں
-"  سورہ النور 

"اور لوگوں کی دشمنی اس وجہ سے کہ انہوں نے تم کو عزت والی مسجد سے روکا تھا تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ان پر زیادتی کرنے لگو اور (دیکھو) نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اورالله سے ڈرتے رہو۔ 
کچھ شک نہیں کہالله کا عذاب سخت ہے" 
سورہ المائدہ 

"اے ایمان والوں!الله کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جایا کرو۔ اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔ انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے اورالله سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ الله تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے" 
سورہ المائدہ 

"اے وہ لوگوں جو ایمان لاۓ ہو! تم ایسی باتیں کیوں کہا کرتے ہو جو کیا نہیں کرتے- الله اس بات سے سخت بیزار ہے کہ ایسی بات کہو جو کرو نہیں-"
سورہ الصف 

اور اس شخص سے بات کا اچھا کون ہوسکتا ہے جو خدا کی طرف بلائے اور عمل نیک کرے اور کہے کہ میں مسلمان ہوں-  اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہوسکتی۔ تو (سخت کلامی کا) ایسے طریق سے جواب دو جو بہت اچھا ہو (ایسا کرنے سے تم دیکھو گے) کہ جس میں اور تم میں دشمنی تھی گویا وہ تمہارا گرم جوش دوست ہے- اور یہ بات ان ہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو برداشت کرنے والے ہیں۔ اور ان ہی کو نصیب ہوتی ہے جو بڑے صاحب نصیب ہیں- اور اگر تمہیں شیطان کی جانب سے کوئی وسوسہ پیدا ہو تو خدا کی پناہ مانگ لیا کرو۔ بےشک وہ سنتا جانتا ہے- " سوره فصلات 

"اے پیغمبر! جب تمہارے پاس مومن عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کو آئیں کہ خدا کے ساتھ نہ شرک کریں گی نہ چوری کریں گی نہ بدکاری کریں گی نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی نہ اپنے ہاتھ پاؤں میں کوئی بہتان باندھ لائیں گی اور نہ نیک کاموں میں تمہاری نافرمانی کریں گی تو ان سے بیعت لے لو اور ان کے لئے خدا سے بخشش مانگو۔ بےشک خدا بخشنے والا مہربان ہے" 
سورہ الممتحنه 
 
٤- نیّتوں کی اصلاح- رسول الله صلی الله علیہ وسلّم نے فرنایا
   "اعمال کا دارو مدار نیّت پر ہے" (حدیث)
اسکی مثال یوں دی جاتی ہے کہ ایک شخص نے کنواں کھودا کہ لوگ اس کے پانی سے پیاس بجھائیں لیکن کوئی اس میں گر کر مر گیا تو اس کا ذمہ دار کنواں کھودنے والا نہ ہوگا-  کیونکہ اسکی نیّت یہ نہ تھی-  اور اگر ایک شخص نے کسی کو مارنے کی نیّت سے کنواں کھودا حالانکہ لوگ اس سے پانی بھی پیتے ہوں، تب بھی اس کی نیّت کی وجہ سے اسکا مواخذہ ہوگا- 
لہٰذا کسی بھی کام کے لئے نیّت کو الله کی رضا اور دوسروں کی خیر و بھلائی کے لئے خالص کرنا- کیونکہ وہی دلوں کے راز جانتا ہے-  ریاکاری کا تعلق بھی نیّت سے ہوتا ہے اور دوسروں کو اسکا پتہ نہیں چلتا لہٰذا اس سے نفس کو بچانا-  

"وہ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے اور جو (باتیں) سینوں میں 
پوشیدہ ہیں  (ان کو بھی)" 
سورہ غافر 


یہ تھی امّت کے پہلے حصّے کی اصلاح-  امن کے ذرائع- امن کی ضامن خصوصیات- وہ آئینہ جس میں آج کے دور کا کلمہ گو اپنا ظاہر و باطن دیکھ کر اپنے حال اور مستقبل کا اندازہ کر سکتا ہے-  چاہے اسلام کی ظاہری خصوصیات  ہوں یا باطنی- ان باتوں کو سمجھنے کے لئے کسی مولوی یا عالم کے فتوے، مشورے اور تسلی کی ضرورت نہیں- اور نہ ہی کسی اسکول، کالج اور یو نیورسٹی کی تعلیم کی- 


امّت کا پہلا حصّہ ایک ایک صحابی کی صورت میں ان آئینوں سے بھرا پڑا ہے- وہی عام لوگ تھے- اور پھر وہی دنیا کے خاص ترین لوگ بن گۓ- ان کی کرامت یہ تھی کہ امّت کے باقی حصّوں کو یہ بتا گۓ کہ کسی نظام کو قائم کرنے اور چلانے کے لئے اس پر عمل کس طرح کیا جاتا ہے اور اس کے مطابق زندگی کیسے گذاری جاتی ہے-  

جب یہ خصوصیات عوام الناس میں پیدا ہو جائیں تو وہ ہو جائیں مؤمن- اور مؤمنین سے جو وعدے الله نے کئے ہیں ان سے قرآن بھرا ہوا ہے-