Thursday 19 March 2020

عشق کے سجدے

وہ دھوپوں میں تپتی زمینوں پہ سجدے
سفر میں وہ گھوڑوں کی زینوں پہ سجدے
چٹانوں کی اونچی جبینوں پہ سجدے
وہ صحرا بیاباں کے سینوں پہ سجدے
علالت میں سجدے مصیبت میں سجدے
وہ فاقوں میں حاجت میں غربت میں سجدے
وہ جنگوں جدل میں حراست میں سجدے
لگا تیر زخموں کی حالت میں سجدے
وہ غاروں کی وحشت میں پُر نور سجدے
وہ خنجر کے ساۓ میں مسرور سجدے
وہ راتوں میں خلوت سے مامور سجدے
وہ لمبی رکعتوں سے مسحور سجدے
وہ سجدے محافظ مدد گار سجدے
غموں کے مقابل عطردار سجدے
نجات اور بخشش کے سالار سجدے
جھکا سر تو بنتے تھے تلوار سجدے
وہ سجدوں کے شوقین غازی کہاں ہیں؟ ؟
زمیں پوچھتی ہے نمازی کہاں ہیں؟؟؟؟

ہمارے بجھے دل سے بیزار سجدے
خیالوں میں الجھے ہوے چار سجدے
مصلے ہیں ریشم کے بیمار سجدے
چمکتی دیواروں میں لاچار سجدے
ریا کار سجدے ہیں، نادار سجدے ہیں،
بے نور، بے ذوق ، مردار سجدے
سروں کے ستم سے ہیں سنگسار سجدے
دلوں کی نحوست سے مسمار سجدے
ہیں مفرور سجدے ہیں مغرور سجدے ہیں
کمزور ، بے جان ،معذور سجدے
گناہوں کی چکی میں ہیں چُور سجدے
گھسیٹے غلاموں سے مجبور سجدے
کہ سجدوں میں سر ہیں بھٹکتے ہیں سجدے
سراسر سروں پر لٹکتے ہیں سجدے
نگاہ خضوع میں کھٹکتے ہیں سجدے
دعاؤں سے دامن جھٹکتے ہیں سجدے
وہ سجدوں کے شوقین غازی کہاں ہیں؟؟
زمیں پوچھتی ہے نمازی کہاں ہیں؟؟؟؟

چلو آؤ کرتے ہیں توبہ کے سجدے
بہت تشنگی سے توجہ کے سجدے
مسیحا کے آگے مداوا کے سجدے
ندامت سے سر خم شکستہ سجدے
رضا والے سجدے، وفا والے سجدے
عمل کی طرف رہنما والے سجدے
سراپاِ ادب التجا والے سجدے
بہت عاجزی سے حیا والے سجدے
نگاہوں کے دربان رو دار سجدے
وہ چہرے کی زہرہ چمک دار سجدے
سراسر بدل دیں جو کردار سجدے
کہ بن جائیں جینے کے اطوار سجدے
خضوع کی قبا میں یقین والے سجدے
رفا عرش پر ہوں زمیں والے سجدے
لحد کے مکین ہم نشیں والے سجدے
ہو شافع محشر جبین والے سجدے
وہ سجدوں کے شوقین غازی کہاں ہیں ؟؟؟؟
زمیں پوچھتی ہے نمازی کہاں ہیں !!!!

Sunday 15 March 2020

جمہوریت

مغربی جمہوریت اور اسلامی جمہوریت 

بظاہر نظر آنے والا بہت تھوڑا سا فرق اصل میں بہت گہرا ہے- 

بچپن میں قیامت کی جن نشانیوں کو پڑھ کر سوچتے تھے کہ پتہ نہیں کون سا زمانہ ہوگا اور کون سے لوگ ہونگے جو ان حالات سے گزریں گے جو کہ احادیث میں بیان کیے گۓ ہیں-  جیسے جیسے بڑے ہوتے گۓ اور سمجھ آتی گئی تو معلوم ہو گیا بلکہ یقین آگیا کہ وہ زمانہ تو شروع ہو چکا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی رسالت اور ختم نبوّت کے اعلان کے ساتھ ہی-  

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے اپنے ہاتھ کی دو انگلیاں ملاتے ہوۓ فرمایا کہ 
"میں اور قیامت اس طرح ہیں"-  

بات بڑی سادہ سی ہے کہ جب ہدایت مکمّل ہو گئی یعنی قرآن فائنل ایڈیشن بن گیا انسانی زندگی کے مینول کا تو مزید کسی نئے ہادی کی ضرورت بھی نہیں رہی لہٰذا رسول اللہ خود بخود خاتم النبیّین ڈکلئیراورختم الرسل ہو گۓ-  نبی یعنی خبریں پہنچانے والا-  رسول یعنی پیغام پہنچانے والا-  

مدینہ کی حکومت شاید دنیا کی پہلی حکومت تھی جسے جمہوری حکومت کہا جاسکتا ہے-  اس سے پہلے بادشاہ ہوتے تھے-  عسکری حکمران ہوتے تھے-  طاقتورکی حکمرانی ہوتی تھی-  عوام کی مرضی کا تو سوال ہی نہیں تھا-

مکّے کے بعد طائف کے شہر میں تبلیغ کے نتیجے میں بدترین صورتحال کا سامنا کرتے ہوۓ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی زبان مبارک سے اللہ کے حضورجوفریاد نکلی تھی اسکا جواب بہت شاندار تھا-  جلد ہی مدینے سے وفد آتا ہے یہ خبر لے کر کہ مدینے کے عوام کی اکثریت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کو اپنا بادشاہ بنانے کے لئے تیّار ہے-  اور پھر ہجرت ہوتی ہے اور پھر دنیا کی پہلی اسلامی خلافت یا ریاست مدینہ کی بنیاد ڈالی جاتی ہے-  اور یہ ریاست عوام کی مرضی سے بنی-  یقینا مدینے کے سمجھدار لوگوں نے اپنی عوام سے بات کی ہوگی- انکی راۓ لی ہوگی- صلاح مشورے کیے ہونگے-  بہت سوچ بچار کے بعد وہ رسول اللہ کے پاس آۓ ہونگے- کوئی تو فائدہ دیکھا ہوگا اس کمزور گروہ میں جو اپنے ہی شہر میں بے یارو مددگار، سیاسی، معاشی اور قانونی طور پر کمزور تھے-  

عوام کی مرضی سے بننے والی حکومت- عوام نے اپنا رہنما، اپنا حکمران چنا-  کوئی سیاسی جماعت نہیں بنی-  کوئی الیکشن نہیں ہوا-  کوئی مہم نہیں چلائی گئی-  کسی طاقت کا مظاہرہ نہیں کیا گیا- اخلاقیات کے سوا کوئی رول ماڈلنگ نہیں ہوئی جس میں سچائی تھی، امانت داری تھی، حکمت تھی، صبر تھا، احسان تھا، رواداری تھی، نرمی تھی، برداشت تھی، سادگی تھی، بھروسہ تھا، زبان کی پاسداری تھی، احترام تھا انسانوں کے لئے بھی اور جانوروں کے لئے بھی، رسول کی اطاعت تھی اور اللہ سے محبّت-  

جسکا مطلب تھا کہ مدینے کے عوام کی ترجیحات اپنے حکمران کے معاملے میں اخلاقیات کی تھیں-  

مکّے کے عوام بھی چالیس سال رسول اللہ کی ذات اور تیرہ سال رسول اللہ کی جماعت کے اخلاق کے گواہ تھے-  لیکن وہ اپنی زندگی اس کے مطابق گزارنے کو تیّار نہ تھے-  

جس عوام نے اپنے لئے بہترین لیڈر چنا وہ دس سال کے عرصے میں پورے عرب پر چھا گۓ-  معاشرتی اعتبار سے قابل بھروسہ اورپرامن, معاشی اعتبار سے خوشحال اورعسکری اعتبار سے بڑی قوّت بن گۓ-   

یہ تھی اسلامی جمہوریت-  عقلمند اور باشعور لوگوں کا اپنے حکمران کو منتخب کرنا- 

اور جس عوام نے اس بہترین لیڈر کو ریجیکٹ کر دیا تھا وہ آٹھ سال بعد اسی شخص کی کمانڈ میں فتح کر لئے جاتے ہیں-  

مسلمانوں کا عروج اور انکی آزادانہ روش دیکھتے ہوۓ مغربی دنیا نے بھی جمہوریت کو اپنانہ شروع کیا-  لیکن شیطانی سوچ رکھنے والی قوّتوں نے اسے اپنا ہتھیار بنا لیا-  اور اپنے فلسفے اور اپنے نظریات کے تسلّط کے لئے "جمہوری طرز حکومت" پر زور دینا شروع کردیا-  

اور اب بقول اقبال 
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں 
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

سب برابر ہیں-  ہر ایک کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہے-  جس کو اپنے حقوق کے نہیں پتہ-  جسے اپنی ہی زندگی کے فائدے نقصان کے نہیں پتہ-  جس میں کوئی حکمت اور دور اندیشی نہیں-  جو اپنے گھر اور خاندان کے معاملات کو سلجھانے کا اہل نہیں-  جو اپنے ذاتی فائدے کے لئے سرکاری اداروں کو رشوت دے کر جھوٹے لائسنز، کاغذات اور پتہ نہیں کیا کیا بنوالیتا ہے-  جو جھوٹی گواہی دے دیتا ہے-  جھوٹا حلف لے لیتا ہے-  نہ بڑوں کا ادب کرے نہ بچوں سے شفقت کرے-  جس نے کہ مسجد سے مدرسے تک کی ڈور کو کل اسلام سمجھ لیا ہے-  جن کے خطبات اور دروس کا موضوع صرف خواتین ہوتی ہیں-   جو ابھی تک بچوں کے ریپ کیسز میں پکڑا نہیں گیا ہے-  جس نے کہ ملاوٹ اور مضر صحت اشیاء بنا بنا کر اور کھلا کھلا کر اپنی ہی قوم کی صحت کا بیڑہ غرق کیا ہے-  جو خود اپنے لئے اور اپنے گھر والوں کے لئے صادق و امین نہیں-  
اس سے قوم کی تقدیر کے فیصلوں میں شامل ہونے پر زور ڈالا جاتا ہے-    
یہ ہے مغربی طرز حکومت-

کسی قوم سے جس قسم کے حکمران کے لئے ووٹ لینے ہوں پہلے اس قوم کو ان برائیوں میں مبتلا کردو-  یہ ہے مغربی جمہوریت- 

کسی قوم میں مساوات کا خنّاس بھر دو-  انسانی اقدار سے آزادی کا بھوت سوار کرادو-  اور پھر اسے الیکشن میں ووٹ کا حق دو-  یہ ہے مغربی جمہوریت-  

شیطانی قوّتوں نے بڑی باریکی کے ساتھ انسانی تاریخ پڑھی ہے-  حضرت عیسیٰ علیہ السّلام جنکی پہچان اس وقت بھی شرم و حیا اور مروّت تھی- انکی کی قوم کی ہمدردیاں انکے ساتھ ضرور تھیں لیکن وہ اطاعت بادشاہ کی ہی کرتے تھے طاقت وہ بادشاہ کی بنے ہوۓ تھے-  اس لئے حضرت عیسیٰ انکے مطابق قتل کردئیے گۓ-  لہٰذا اب مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق آ بھی جائیں تو ان کی وہی پرانی تعلیمات کون قبول کرے گا-  کیونکہ مغربی طرز جمہوریت کے مطابق تو دنیا کی اکثریت دجال کو ووٹ ڈال چکی ہوگی-  لہٰذا اپنی عقل کے مطابق انہوں نے حضرت عیسیٰ کو شکست دینے کا انتظام کر رکھا ہے-  نئی دنیا، نیا کلچر، نیا نظام-  اور ساری دنیا کے انسان اس نئے نظام کے نیچے-  

اسی لئے پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف جو جنگ جاری ہے جس میں ہر جگہ مسلمان کچلے جا رہے ہیں-  اپنے سیاسی اور معاشرتی حقوق سے محروم کئے جارہے ہیں-  تقسیم کیے جارہے ہیں الگ الگ رکھے جارہے ہیں-  اسکی وجہ یہی ہے کہ یہ کہیں عیسیٰ علیہ السّلام کی طاقت نہ بن جائیں-  

لیکن ایسا ہوگا- 

اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سے پہلے خاص طور پر مسلمان دنیا میں بادشاہتوں کا خاتمہ ہوگا-  جیسا کہ سعودی عرب میں شروع ہو چکا ہے-






Sunday 1 March 2020

دہلی فسادات

قائداعظم نے ہندوستان کو توڑ دیا-  قائداعظم نے صدیوں مل کر رہنے والے ہندو مسلمانوں کو تقسیم کردیا-  قائداعظم کی وجہ سے ہزاروں مسلمان قتل ہوۓ-  ظاہری حلیے کی وجہ سے دینی لوگ کہیں کہ قائداعظم انگریزوں کے ایجنٹ تھے-  اور لبلرز انکی اسلامی تحقیق چھپانے کے لئے انکی خاص تقریروں کے حصّے دلیل کے طور پر پیش کریں کہ پاکستان کو اسلامی ملک نہیں ہونا چاہیے-  بلکہ ایک سیکولر ملک ہونا چاہئے-  

سمجھ نہیں آتا کہ پچھلے کئی دھائیوں سے ایسی باتیں کرنے والے لوگ آج کس طرح دہلی میں ہونے والے ظلم کو جسٹیفائی کریں گے-  کس طرح دہلی کے مسلمانوں کو اور بھارت کے مسلمانوں کو کیا مشورہ دیںگے اور کس نظریہ اور کس فلسفے کے تحت ان مسائل اور فسادات کا حل نکالیں گے-  اور اگر بھارت کے مسلمان آج یہ سوچ کر کہ ہندؤں کے ساتھ گزارا نہیں ہو سکتا لہٰذا ایک الگ ریاست کا مطالبہ کرتے ہیں تو کیا انکی مخالفت کریں گے؟  

سالوں پاکستان، نظریہ پاکستان اور قائداعظم کے خلاف زہر اگلتے لوگ اور وہ بھی مسلمان-  اور وہ بھی دونوں جانب-  یعنی پاکستان میں بھی اور بھارت میں بھی-  اور ١٩٤٧ اور اس کے پہلے سالوں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے فسادات کو جھٹلانے والے لوگ- اور وہ بھی مسلمان-   

اور پھر پاکستان میں پیدا ہونے والی وہ نسلیں اور وہ بھی مسلمان نسلیں جنہوں نے ١٩٤٧ اور اس سے پہلے کے فسادات کو ایک افسانہ ایک کہانی سمجھا ہوا تھا-  اور انکی تمام ہمدردیاں بھارت کے ساتھ زیادہ اور پاکستان کے ساتھ صرف اس حد تک تھیں کہ یہاں سے جس حد تک فائدہ اٹھا سکتے ہیں اٹھا لیں-  

آج دہلی فسادات اور اس سے پہلے بھارت کے مختلف شہروں میں ہونے والے فسادات ان تمام لوگوں کو غلط ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں-  یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ پاکستان کن حالات میں بنا اور بنانا ضروری ہوگیا-  

یہ فسادات نظریہ پاکستان کی اہمیت بیان کرنے کے لئے کافی ہیں-  دو قومی نظریہ-  

اسلام نیا نہیں بلکہ دنیا کا سب سے پہلا دین اور سب سے پہلا مذہب تھا-  تمام انسان ایک ہی آدم کی اولاد ہیں جو کہ مسلمان تھے-  انکی اولادیں بعد میں اپنے اپنے مذہب، اپنے اپنے نظریہ ایجاد کرتی چلی گئیں-  تو اصولا تو دو قومی نظریہ اس وقت سے شروع ہوگیا تھا جب ابلیس نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نافرمانی کی تھی-  ایک قوم تھی آدم علیہ السلام کے رستے پر چلنے والے اور دوسری ابلیس کے رستے پر چلنے والی-  ایک جنّت میں جانے والی قوم اور دوسری جہنّم میں جانے والی قوم-  اور ابلیس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ انسانوں کو ہر جانب سے بہکاۓ گا-  اور اسکا کام ہی یہی ہے-  ابلیس کی زندگی کا کوئی اور مقصد ہے ہی نہیں-  انسانوں کو بھٹکانا-  

لیکن پھر اتنے عقلمند لوگ پیدا ہوگۓ جو انسانوں کو نہ صرف ایک جنس ماننے لگے بلکہ انکے مذہب و دین کے جدا ہونے کے بھی مخالف ہیں-  اور انکے خیال میں اصل مذہب انسانیت ہے-  سارے ادیان اور سارے مذاہب پرے کر کے صرف اور صرف انسانیت یعنی انسانوں کی نفسیات اور انسانوں کی بھلائی پر توجہ دی جاۓ-  مقصد ظاہر ہے روحانی نہیں بلکہ خالص دنیاوی اور مادّی تھا-  اور بقول قرآن انسان جلد حاصل ہونے والی چیز پر لپکتا ہے اور اس پر عقیدہ بھی رکھتا ہے-  لہٰذا اکثریت اس بہکاوے میں آگئی-  

اور تو اور ایسے ایسے مولوی پیدا ہو گۓ جن کے لئے اپنی ذاتی مفادات کے لئے اسی فلسفے کا استعمال کیا اور دین پیچھے کر کے فرقہ آگے کرلیا-   

اور ایسے ہی لوگوں اور ایسے ہی مولویوں نے تحریک پاکستان کی بھی مخالفت کی-  

پاکستانی تو بہتّر سال تک دنیا کو قائل نہ کرسکے-  اب جو فسادات بھارت میں ہو رہے ہیں وہ انکو نہ صرف آئینہ دکھانے کے لئے ہیں بلکہ دنیا کو قائل کرنے کے لئے ہیں کہ پاکستان صحیح بنا تھا-  یہ یقین دلانے کے لئے ہیں کہ علّامہ اقبال اور قائداعظم رحمة اللہ علیہما کے نظریات صحیح تھے-  تحریک پاکستان سچ تھی-  دو قومی نظریہ حق تھا- 

اور یہ کہ جسطرح اسلام جان لے کر نہیں، جان دے کر پھیلا- اسی طرح پاکستان جان لے کر نہیں جان دے کر بنا-