Wednesday, 15 April 2020

پغمبروں کی سنّت

حضرت آدم علیہ السّلام اور حضرت حوّا علیھاالسّلام کی دعا 

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا -  
وَاِنۡ لَّمۡ تَغۡفِرۡ لَـنَا وَتَرۡحَمۡنَا لَـنَكُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِيۡنَ‏- 
"دونوں عرض کرنے لگے کہ اے ہمارے رب، 
ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر آپ ہمیں نہیں بخشیں گے 
اور ہم پر رحم نہیں فرمائیں گے تو ہم ہو جائیں گے 
نقصان اٹھانے والوں میں سے"-  
سوره الاعراف 


حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی دعا نماز کے لئے 

رَبِّ اجۡعَلۡنِىۡ مُقِيۡمَ الصَّلٰوةِ وَمِنۡ ذُرِّيَّتِىۡ‌‌ۖ-  رَبَّنَا وَتَقَبَّلۡ دُعَآءِ‏ 
اے پروردگار مجھ کو اور میری اولاد کو نماز قائم کرنے کی توفیق دے- 
اے ہمارے پروردگاراور میری دعا قبول فرما"- 


حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی دعا 

رَبِّ هَبۡ لِىۡ حُكۡمًا وَّاَلۡحِقۡنِىۡ بِالصّٰلِحِيۡنَۙ‏- 
وَاجۡعَلْ لِّىۡ لِسَانَ صِدۡقٍ فِىۡ الۡاٰخِرِيۡنَۙ‏- 
وَاجۡعَلۡنِىۡ مِنۡ وَّرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِيۡمِۙ- 
اے رب! مجھے علم ودانش عطا فرمائیں اور 
مجھے صالحین کے ساتھ جوڑ دیں-  
اور میرے پیچھے آنے والوں میں میرا ذکر خیر جاری کردیں-  
اور مجھے ان میں سے کردیں جو نعمتوں کے باغوں کے وارث ہیں"- 
سورہ الشعراء 


حضرت یعقوب علیہ السّلام کے الفاظ بے بسی میں 

قَالَ اِنَّمَآ اَشْکُوْا بَثِّیْ وَحُزْنِیْٓ اِلَی اللہ 
 «یعقوب نے فرمایا: میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کی فریاد 
اللہ ہی سے کرتا ہوں»
سوره یوسف 


حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی دعا ہدایت، آسانی اور بیان کے لئے 

قَالَ رَبِّ اشۡرَحۡ لِىۡ صَدۡرِىۙ‏ وَيَسِّرۡ لِىۡۤ اَمۡرِىۙ‏ 
وَاحۡلُلۡ عُقۡدَةً مِّنۡ لِّسَانِىۙ 
کہا (موسیٰ) نے کہ اے رب میرا سینہ (ہدایت) کے لئے کھول دے 
اور میرے کاموں میں آسانی دے اور میری زبان کی گرہ کھول دے.."- 
سورہ طہ 

حضرت ایّوب علیہ السّلام کے الفاظ بیماری میں 

وَاَيُّوۡبَ اِذۡ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّىۡ مَسَّنِىَ الضُّرُّ وَاَنۡتَ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِيۡنَ‌ ۖ‌ۚ‏ 
 اور ایوب کو (یاد کرو) جب انہوں نے 
اپنے پروردگار سے دعا کی کہ مجھے ایذا ہو رہی ہے 
اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے - 
سوره الانبیاء 


حضرت سلیمان علیہ السّلام کے الفاظ شکرگزاری میں 

وَقَالَ رَبِّ اَوۡزِعۡنِىۡۤ اَنۡ اَشۡكُرَ نِعۡمَتَكَ الَّتِىۡۤ اَنۡعَمۡتَ عَلَىَّ 
وَعَلٰى وَالِدَىَّ وَاَنۡ اَعۡمَلَ صَالِحًـا تَرۡضٰٮهُ 
وَاَدۡخِلۡنِىۡ بِرَحۡمَتِكَ فِىۡ عِبَادِكَ الصّٰلِحِيۡنَ‏ 
 "اور (سلیمان) کہنے لگے کہ اے پروردگار! 
مجھے توفیق عطا فرما کہ جو احسان تونے مجھ پر
 اور میرے ماں باپ پر کئے ہیں ان کا شکر کروں 
اور ایسے نیک کام کروں کہ تو ان سے خوش ہوجائے 
اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیک بندوں میں داخل فرما"- 
سوره النمل 

حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے الفاظ مذاق کے معاملے میں 

قال أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ
"کہا (موسیٰ) نے کہ میں پناہ مانگتا ہوں 
اللہ کی اس بات سے کہ میں جاہلوں میں سے ہوں"- 
سوره البقرہ 

حضرت یونس علیہ السّلام کی دعا اندھیروں میں 

لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَۚۖ
نہیں کوئی معبود سواۓ آپکے- پاک ہیں آپ - 
بیشک میں ظالموں میں سے ہوں"- 
سوره الانبیاء 


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی فریاد طائف کے واقعہ کے بعد 

«اَللّٰھُمَّ اِلَیْکَ اَشْکُوْ ضُعْفَ قُوَّتِیْ وَقِلَّۃَ حِیْلَتِیْ 
وَھَوَانِیْ عَلَی النَّاسِ، اِلٰی مَنْ تَـکِلُنِیْ؟ …»   « 
"اے اللہ! میں تیری جناب میں فریاد لے کر آیا ہوں 
اپنی قوت کی کمزوری اور اپنے وسائل کی کمی کی، 
اور لوگوں کے سامنے میری جو توہین ہو رہی ہے اس کی۔ 
اے اللہ ! تو نے مجھے کس کے حوالے کر دیا ہے؟…»

Saturday, 11 April 2020

جاگتی قوم

تو دنیا کے منطقی انجام کا عمل شروع ہوگیا ہے-  گو کہ دنیا کے انسانوں نے بہت دیر کردی-  اتنی دیر کہ باطل قوّتوں کو اب پرواہ نہیں کہ کون انکے خلاف کیا کرسکتا ہے-  اب انہیں کوئی جلدی نہیں، ہار جانے کا خوف نہیں-  اوور کانفیڈنٹ ہوگۓ ہیں- 

پاکستانیوں نے دیر تو کی لیکن جلد ہی سنبھلتے بھی جارہے ہیں-  شاید اس لئے کہ یہ قوم اپنی شناخت سے اب تک معرکوں میں گھری رہی ہے-  اسی لئے سو نہیں پاتی-  جاگتی رہتی ہے-  یقین اور اتحاد تو دکھا دیتی ہے-  بس تنظیم کی کمی ہے-   

دگرگوں جہاں ان کے زور عمل سے
بڑے معرکے زندہ قوموں نے مارے

حق والے گھبرا بھی رہے ہیں اور خوف میں بھی ہیں-  یہ بھی پیغمبروں کی سنّت رہی ہے-  ورنہ اللہ کے ارادوں سے بے خوف ابلیس اور شیاطین ہوا کرتے ہیں-  

آگے آنے والے دنوں میں یہی سادگی، قناعت، اخوّت اور تڑپ کام آئیگی جو آج پاکستان میں نظر آرہی ہے-  وزیراعظم نے صحیح مشورہ دیا تھا مرغیاں اور گائیں پالنے کا-  صحیح جا رہی دنیا گھروں میں سبزیاں اگانے کی طرف-  کاش کہ ہماری حکومتوں نے اپنے بجٹ سے اور خیراتی اداروں نے بکروں پر بکرے کھلانے کے بجاۓ جمع ہونے والے فنڈز سے گلی گلی پھلوں کے درخت لگا دئیے ہوتے جن سے لوگ جب چاہے بھوک مٹا لیتے تو آج اتنے زیادہ راشن کے لئے پریشان نہیں ہونا پڑتا-  کاش کہ اتنے پھول لگاۓ ہوتے کہ یہاں شہد کی فراوانی ہوتی- اور کیا ہی اچھا ہو کہ لوگ انتہائی کم حد تک ٹیکنالوجی استعمال کرنا شروع کردیں-  موبائل صرف ضرورت کے وقت آن کریں ورنہ آف رکھیں- بلکہ تمام الیکٹرانکس کے ساتھ یہی کریں-  

مذاق سے ہٹ کے چودہ سو سال پرانے نہ سہی لیکن کم از کم تین سو سال پرانی دنیا کو جینے کا وقت آگیا ہے-  

خوش قسمت ہوگا وہ جسے بھوک میں کھانا اور خوف میں امن مل جاۓ- 

لیکن جیسا کہ قرآن میں انسان کی تعریف کی گئی ہے-  انسان جاہل، ناشکرا، بے صبرا، جلدباز، مشقّت پسند اور گھبرا جانے والا ہے-  

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم سے جو کچھ کہلوایا -  وہ تو ہو کر رہنا ہے-  یہ تقدیر ہے-  

دجال آۓ گا اور اپنی چالیس روز کی مدّت پوری کرے گا-  اور جن جن پر اللہ نے چاہا اسکا زور چلے گا اور جن جن پر اللہ نے نہیں چاہا اسکا زور نہیں چلے گا-  یہ بھی تقدیر ہے-  

اس میں دیکھنے کے قابل مومن کی تدابیر ہونگی-  بہت سی تدابیر تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے بتادیں ہیں-  

- سورہ الکہف کی تلاوت اور اسکی پہلی کچھ اور آخری دو آیات کو یاد کرنا- 
- آیة الکرسی کی تلاوت اور اسکی کی فضیلت 
- سورہ البقرہ کی تلاوت 
- ایک حدیث کے مطابق بہت سے لوگ اپنے گاؤں کو لوٹ جائیں گے اور وہ بچ جائیں گے- 
- ایک اور حدیث کے مطابق رسول اللہ نے فرمایا کہ چھوٹے شہر بساؤ-  

اور سب سے بڑھ کے یہ یقین کہ دجال اور اسکے تابع ساری باطل قوّتیں اللہ کے مقابل نہیں بلکہ اللہ کی ہی مخلوق ہیں-  اور اللہ کی ڈھیل جن تک ہوگی وہ قابض رہیں گی اور جب اللہ ان کی رسّی کھینچے گا تو مٹ جائیں گی-  اور یہ یقین کہ وہ ایک بہت بڑا شعبدہ باز ہوگا کہ آج تک اس جیسا پیدا نہ ہوا-  

اور یہ یقین کہ آیة الکرسی ہر شعبدہ بازی کا توڑ ہے قیامت تک کے لئے کہ شیاطین اسکے آگے ٹھہر نہیں سکتے-  

اور یہ یقین کہ دعا مومن کا ہتھیار ہے اور قضاء یعنی جو فیصلہ مقدّر ہو چکا ہو اسکو بھی بدل دیتی ہیں اور جو عذاب سروں تک آچکا ہو اسے بھی روک دیتی ہے-  

اور یہ یقین کہ تقویٰ مومن کی ڈھال- 

دجال کی فلم کا کلائمکس شروع ہونے والا ہے-  ایک شخص اپنی بہت سی شیطانی طاقتوں کے ساتھ آکر وہی کریگا جو ہر فلم میں ولن کرتا ہے-  بہت سے بے بس ایکسٹراز ہونگے جو صرف تماشائی ہونگے اور ظلم کو خاموشی سے ہوتا دیکھیں گے-  اور وہ چند بہادر ہونگے جو اس ولن کو اسکے انجام تک پہنچائیں گے-  اور پھر دنیا انکے لئے تالیاں بجاۓ گی اور انکو اپنا ہیرو تسلیم کرے گی اور اپنا حکمران بھی-  

آگے کے چند سال بہت سے انسانوں کو دو سو تین سو سال پیچھے لے جائیں گے-  بہت سے اس سے مقابلہ کریں گے اور شہید ہونگے-  اور بہت سے ایسے بھی ہونگے جن کو اللہ بھوک میں کھانا دیتا رہے گا  اور خوف میں امن دیتا رہے گا-  اور وہ سسٹم کو آگے بڑھائیں گے-  

اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہم سب کے لئے اگلے چند سالوں کو آسان فرماۓ اور ہم سبکو وہ زندگی عطا فرماۓ جس سے ہماری دنیا بھی پر امن رہے اور آخرت بھی بچ جاۓ-  آمین 

Friday, 10 April 2020

دو کہانیاں اپنے عروج پر

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، لب پہ آسکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی 
علّامہ اقبال 

حیرت ہو رہی ہے کہ دنیا کیا سے کیا بن گئی ہے-  ایسا لگ رہا ہے کہ اک خواب دیکھا جا رہا ہے-  جس میں ہر چیز الٹ گئی ہے-  انسان کو آزاد پیدا کیا گیا تھا کہ دنیا کو بہتر بناۓ گا-  اور دنیا کو بہتر بنانے کے لئے انسان کو قید کرنا لازمی ہو گیا ہے-  اچھے اخلاق کی علامتیں موت کے ہتھیار بن گئیں ہیں-  انسان کی عافیت ایک دوسرے سے دور رہنے میں ہے-  سڑکیں ویران اور گھر آباد ہو گۓ ہیں-  

قناعت کا مطلب سمجھ نہیں آتا تھا-  تقویٰ کا مطلب سمجھ نہیں آتا تھا-  اب سمجھ آرہا ہے لیکن یقین نہیں آرہا- 

سنتے تھے کہ دجال کے زمانے میں ہر چیز الٹ ہو جاۓ گی تو سمجھ نہیں آتا تھا کہ کیسے ہوگی-  اب سمجھ آگیا- 

دو کہانیاں اپنے عروج پر ہیں اور آمنے سامنے ہیں-  دجال کی کہانی اور پاکستان کی کہانی-  

اقبال نے کہا تھا کہ 
فضاۓ بدر پیدا کر، فرشتے تیری نصرت کو 
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی 

تو فضاۓ بدر پیدا ہو چکی ہے-  باطل قوّتوں کا ایک عظیم جتھا خود کو بچانے کے لئے اب وہ حربے آزمانے جارہا ہے جو اسکے زوال کی وجہ بنیں گے-  اور دوسری طرف اسکے مقابلے میں ایک ہی لشکر ہے-  جو ہار ماننے والا نہیں ہے-  دجال کے زوال کے لئے پاکستان لازمی ہے-  ظاہر ہے مکّہ اور مدینہ سے تو فوجیں نہیں جائیں گی باطل کے خاتمے کے لئے-  کیونکہ دونوں مقدّس اور امن کے شہر ہیں-  لہٰذا پاکستان کا وجود تو لازمی ہے-   

اور جیسا کہ سوره الحشر میں بیان ہوا ہے کہ یہ سب جتھے ایمان والوں سے نہیں لڑ سکتے مگر پیچھے سے-  اور یہ جو ایک قوّت خیال کیے جاتے ہیں انکے دل آپس میں پھٹے ہوۓ ہیں-  

مسلہ اسلام بچانے کا نہیں-  اسلام تو بچانے آیا تھا-  اسلام تو تلوار بن کر بھی موجود ہے جسے  اللہ کی فوجیں استعمال کررہی ہیں-   

اور اسلام ڈھال بن کر بھی موجود ہے لیکن اس ڈھال کو کوئی استعمال نہیں کررہا-  تقویٰ کی ڈھال-  

مسلہ ہے انسان بچانے کا-  اپنے اپنے ایمان بچانے کا-  

تقویٰ یعنی ڈرنا اللہ سے-  تقویٰ یعنی پرہیز یا دوری اختیار کرنا-  تقویٰ یعنی بچ کر رہنا-  

 یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ
اے ایما ن والو! اللہ سے ڈرو-  
سورہ البقرہ 

فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیۡ وَقُوۡدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ
اور اس آگ سے بچو جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں۔
سورہ البقرہ 

تقویٰ کی بہترین تربیت ہر سال رمضان میں ہوتی ہے-  جس کو کہ مسلمانوں نے چھوڑ دیا تھا-  اسی لئے اس سال یہ تربیت رجب سے ہی شروع کردی گئی ہے-  

اب انسانوں کی مرضی ہے-  کہ اس تربیت کو عذاب سمجھیں-  یا آزمائش سمجھیں-  یا موقع- 


Friday, 3 April 2020

مرکز کس کی وجہ سے بھکاری ہے؟

حال ہی میں اسرائیل کے وزیر صحت کا بیان اس بات کی شہادت دینے کے لئے کافی ہے کہ یہودی اپنی تاریخ نہیں بھولے- اور نہ اپنا مقصد- انکے پاس کوئی پیغبر اور رسول آنے والا نہیں لہٰذا ایک جعلی مسیح کی تیّاری کر لی گئی ہے-  

دنیا پر حکومت کرنے کا خواب بہت سے انسان صدیوں سے دیکھتے چلے آۓ ہیں-  
کبھی طاقت کے ذریعے، کبھی دولت اور معیشت کے ذریعے اور کبھی شہرت کے ذریعے، کبھی علم اور سائنس کے ذریعے- 
لیکن ابھی تک کوئی بھی مکمّل کامیابی حاصل نہیں کرسکا-  

یہودی دو ہزار سال تک دنیا کے امام رہے-  لیکن وہ رسولوں اور پیغمبروں کے ذریعے سے-  محمّد صلی اللہ علیہ وسلّم کی بعثت کے بعد سے یہ مقام ان سے چھن گیا اور یہ امامت محمّد صلی اللہ علیہ وسلّم کے ماننے والوں کے پاس آگئی-  جو کہ یہودیوں سے برداشت نہ ہوا-  

اور پھر جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم خاتم النّبیین بنے-  اس وقت سے دنیا کے مسائل کی جڑ یہی مسلہ بنا ہوا ہے-  

یہودیوں کو اپنی دنیا کی امامت اور دنیا میں عزت واپس چاہئے اور وہ پچھلے چودہ سو سال سے اس کے لئے سر دھڑ کی بازی لگاۓ ہوۓ ہیں-  انہوں نے اپنا کھویا ہوا منصب واپس لینے کے لئے ہمّت نہیں ہاری-  اور سیاسی، معاشرتی، قانونی، غرض یہ کہ ہر محاذ پر مسلمانوں کے مقابلہ کیا ہے-  اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ مسلمانوں کو تقسیم کروانے میں کامیاب رہے-  

باقی سب تو طاقت اور معاشی استحصال کے ذریعے سے اپنی کوششیں کرتے رہتے ہیں-  لیکن دنیا پر ایک حکومت کے ویژن کا مقابلہ نظریاتی طور پر صرف مسلمان اور یہودیوں میں ہے-  

اور صاف ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی جو حالت زار ہے کسی بھی معیار کو سامنے رکھ کر-  یہ کبھی خود تو دنیا پر ایک حکومت قائم کر ہی نہیں سکتے-  دماغ پر زور دیے بغیر ہی سوچیں کہ پاکستان پر کسی دینی طبقے کی حکومت ممکن ہے؟  بچّہ بھی کہے گا کہ نہیں-  اتنے فرقے پاکستان میں ایک حکومت نہیں بنا سکتے تو بھلا دنیا پر اسلام کی ایک حکومت کیسے قائم کر سکتے ہیں-  

یہ کام غیر مسلموں کو آتا ہے کیونکہ انکے ہاں تیّاری کی جاتی ہے تربیت کی جاتی ہے اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفاد پر قربان کرنے کی-  

جبکہ مسلمان فرقے قومی مفادات تو کیا اسلامی مفاد پر بھی اپنے ذاتی مفادات قربان نہیں کر سکتے-  

لہٰذا دجال کی حکومت پوری دنیا پر قائم ہونا کوئی انہونی بات نہیں-  اور خاص طور پر جب رسول اللہ صلی علیہ وسلّم نے اسکی پیشنگوئی بھی کردی ہے-  جو کہ ایک سال، ایک مہینے، ایک ہفتے اور ایک دن رہے گی-  

شاید کرونا وائرس کی طرح اسکا مقصد بھی دنیا کے لوگوں کو ایک مسلہ اور اسکے ایک حل کی تربیت کروانا ہوگی-  کہ ساری دنیا کو ایک ہی مسلہ در پیش ہو چاہے وہ بھوک ہو، بیماری ہو، جہالت ہو، خوف ہو یا غلامی-  حل کے لئے سب نے ایک ہی مرکز کی طرف دیکھنا ہے-  اجتماعی طور پر-  

کاش مسلمان ذاتی مفادات کو قومی مفاد پر قربان کرنا جانتے ہوتے تو دجال کے زمانے سے نہ گزرنا پڑتا شاید-  

لیکن سب مسلمانوں نے اپنے اپنے فرقے، ذاتیں، ادارے، مدرسے، عبادتگاہیں پکڑی ہوئی ہیں-  

مرکز کی تربیت کسی کی نہیں ہے-  

مرکز کو تو سب ایمرجنسی میں احسان کے طور پر فنڈز دے دیتے ہیں-  

مرکز کو یہ احساس دلاتے ہوۓ کہ مرکز بھکاری ہے-  

اور اس بات سے صاف نظریں چراتے ہوۓ کہ "مرکز بھکاری ہے کس کی وجہ سے؟"-