آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، لب پہ آسکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
علّامہ اقبال
حیرت ہو رہی ہے کہ دنیا کیا سے کیا بن گئی ہے- ایسا لگ رہا ہے کہ اک خواب دیکھا جا رہا ہے- جس میں ہر چیز الٹ گئی ہے- انسان کو آزاد پیدا کیا گیا تھا کہ دنیا کو بہتر بناۓ گا- اور دنیا کو بہتر بنانے کے لئے انسان کو قید کرنا لازمی ہو گیا ہے- اچھے اخلاق کی علامتیں موت کے ہتھیار بن گئیں ہیں- انسان کی عافیت ایک دوسرے سے دور رہنے میں ہے- سڑکیں ویران اور گھر آباد ہو گۓ ہیں-
قناعت کا مطلب سمجھ نہیں آتا تھا- تقویٰ کا مطلب سمجھ نہیں آتا تھا- اب سمجھ آرہا ہے لیکن یقین نہیں آرہا-
سنتے تھے کہ دجال کے زمانے میں ہر چیز الٹ ہو جاۓ گی تو سمجھ نہیں آتا تھا کہ کیسے ہوگی- اب سمجھ آگیا-
دو کہانیاں اپنے عروج پر ہیں اور آمنے سامنے ہیں- دجال کی کہانی اور پاکستان کی کہانی-
اقبال نے کہا تھا کہ
فضاۓ بدر پیدا کر، فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
تو فضاۓ بدر پیدا ہو چکی ہے- باطل قوّتوں کا ایک عظیم جتھا خود کو بچانے کے لئے اب وہ حربے آزمانے جارہا ہے جو اسکے زوال کی وجہ بنیں گے- اور دوسری طرف اسکے مقابلے میں ایک ہی لشکر ہے- جو ہار ماننے والا نہیں ہے- دجال کے زوال کے لئے پاکستان لازمی ہے- ظاہر ہے مکّہ اور مدینہ سے تو فوجیں نہیں جائیں گی باطل کے خاتمے کے لئے- کیونکہ دونوں مقدّس اور امن کے شہر ہیں- لہٰذا پاکستان کا وجود تو لازمی ہے-
اور جیسا کہ سوره الحشر میں بیان ہوا ہے کہ یہ سب جتھے ایمان والوں سے نہیں لڑ سکتے مگر پیچھے سے- اور یہ جو ایک قوّت خیال کیے جاتے ہیں انکے دل آپس میں پھٹے ہوۓ ہیں-
مسلہ اسلام بچانے کا نہیں- اسلام تو بچانے آیا تھا- اسلام تو تلوار بن کر بھی موجود ہے جسے اللہ کی فوجیں استعمال کررہی ہیں-
اور اسلام ڈھال بن کر بھی موجود ہے لیکن اس ڈھال کو کوئی استعمال نہیں کررہا- تقویٰ کی ڈھال-
مسلہ ہے انسان بچانے کا- اپنے اپنے ایمان بچانے کا-
تقویٰ یعنی ڈرنا اللہ سے- تقویٰ یعنی پرہیز یا دوری اختیار کرنا- تقویٰ یعنی بچ کر رہنا-
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ
اے ایما ن والو! اللہ سے ڈرو-
سورہ البقرہ
فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیۡ وَقُوۡدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ
اور اس آگ سے بچو جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں۔
سورہ البقرہ
تقویٰ کی بہترین تربیت ہر سال رمضان میں ہوتی ہے- جس کو کہ مسلمانوں نے چھوڑ دیا تھا- اسی لئے اس سال یہ تربیت رجب سے ہی شروع کردی گئی ہے-
اب انسانوں کی مرضی ہے- کہ اس تربیت کو عذاب سمجھیں- یا آزمائش سمجھیں- یا موقع-
No comments:
Post a Comment