Saturday, 5 April 2014

نوجوانی اور جوانی - چودہ سے چوبیس اور چالیس تک کے سال

گن کے تو نہیں دیکھا- لیکن سنی سنائی باتوں کے مطابق پاکستان کی آبادی ٦٥ فیصد بچوں اور نوجوانوں پر مشتمل ہے- اور اس میں بھی لڑکیوں کا تناسب لڑکوں کے مقابلے پر زیادہ ہے- اور کیونکہ پاکستان کے نوجوان لڑکے اداکاراؤں، گلوکاراؤں اور کھلاڑیوں کی پرفارمنس بار بار دیکھنے میں اور پھر ان جیسی "کاپی پیسٹ دولت اور شہرت " کے لئے  اپنا سنہری دور ضائع کردیتے ہیں- اور بعد میں پاکستان کو، سیاستدانوں کو اور پورے نظام کو گالیاں دیتے ہوۓ پاکستان سے باہر بھاگ جاتے ہیں-  اور ان کی مردانگی کا قصّہ یہاں ختم ہو جاتا ہے اور وہ ایک فرد کی حیثیت سے بے حیثیت ہو کر زندہ رہتے ہیں-  لہٰذا ملک و قوم کی ذمّہ داری خود بخود لڑکیوں پر آجاتی ہے-   

ان نوجوانوں کو یہ سوچنے کا وقت بھی نہیں ملتا کہ آج سے پچیس تیس سال بعد یہ کس قسم کے معاشرے میں سانس لے رہے ہونگے-  جو معاشرہ آج ٣٥ فیصد ادھیڑ عمر اور بوڑھے لوگوں کے لئے عذاب بن گیا ہے وہ کل ٦٥ فیصد ادھیڑ عمر اور بوڑھے لوگوں کے ساتھہ کیا سلوک کرے گا؟ جس قسم کے یہ خود ہیں اور جس نہج اور سوچ پر یہ اپنی اولادوں کو بڑا بنانے کے خواب دیکھتے ہیں- کیا واقعی انکی اولادیں ان سے بہتر انسان، ان سے بہتر مسلمان، ان سے بہتر معاشرے کی مخلص اور ان سے بہتر انکے بڑھاپے کے سکون اور آرام کی ضامن ہونگی؟  جبکہ بڑھاپا خود زندگی کی آزمائشوں اور عذابوں میں سب سے بڑی آزمائش اور سب سے بڑا عذاب ہے-  

اکثر تو یہ کہہ دیتے ہیں کہ جب موت آۓ گی دیکھا جاۓ گا، جب بڑھاپا آۓ گا دیکھا جاۓ گا، جب قیامت آۓ گی دیکھا جاۓ گا- اور بہت سوں کو یہ کہتے سنا کہ بس یہ قوم اب اسی قابل ہے کہ اس پر عذاب نازل ہوں- یا یہ کہ ہم ہیں ہی اس قابل کہ ہم پر عذاب نازل ہوں-  

"ایک طلب کرنے والے نے عذاب طلب کیا جو نازل ہو کر رہے گا- (یعنی) کافروں پر (اور) کوئی اس کو ٹال نہ سکے گا- (اور وہ) خدائے صاحب درجات کی طرف سے (نازل ہوگا)- جس کی طرف روح (الامین) اور فرشتے پڑھتے ہیں (اور) اس روز (نازل ہوگا) جس کا اندازہ پچاس ہزار برس کا ہوگا-" 
سورہ المعارج 

"خدا ہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو چیزیں ان دونوں میں ہیں سب کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جا ٹھہرا۔ اس کے سوا نہ تمہارا کوئی دوست ہے اور نہ سفارش کرنے والا۔ کیا تم نصیحت نہیں پکڑتے؟ وہی آسمان سے زمین تک (کے) ہر کام کا انتظام کرتا ہے۔ پھر وہ ایک روز جس کی مقدار تمہارے شمار کے مطابق ہزار برس ہوگی۔ اس کی طرف صعود (اور رجوع) کرے گا-" 
سورہ السجدہ 

منہ سے نکلے یہ جملے علامت ہیں معاشرے کے ہر فرد، ہر فرقے، ہر جماعت اور ہر نظام کی ناکامی کی- انہوں نے اگر قرآن نہیں پڑھا یا نہیں پڑھنا چاہتے تو کم از کم سائنس پڑھ لیں-  

دل میں بسنے والا خیال، ذہن میں رہنے والی سوچ اور منہ سے نکلے الفاظ --- یہ سب انسان کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں- الفاظ منہ سے نکل کر مادّے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور "فطرت کے قانون تحفظ" کے مطابق مادّہ فنا نہیں ہوتا بلکہ توانائی کی ایک شکل سے دوسری شکل اختیار کر لیتا ہے-  الفاظ منہ سے نکلنے کے بعد ختم نہیں ہوجاتے- بلکہ آواز سے حرارت میں تبدیل ہوکر ہوا کی لہروں پر سفر کرتے رہتے ہیں- ہر شخص کی آواز بھی اسکی فنگر پرنٹس کی طرح منفرد ہوتی ہے- حتیٰ کہ جڑواں بچوں کی شکلیں ایک جیسی ہونے کے باوجود انکے فنگر پرنٹس فرق ہوتے ہیں-  اور انکی آواز تقریبا ایک جیسی ہونے کے باوجود اسکا اتار چڑھاؤ اور مخارج فرق ہوتے ہیں- (اور میری ننھی منھی عقل کے مطابق الفاظ انسانی جسم یا انسانی جسم کی الیکٹرومگنیٹک فیلڈ کا وہ حصّہ ہوتے ہیں جو اسکی اجازت اور ارادوں کے بغیر اس کائنات میں پھیل جاتے ہیں)- اور انکا تعلق اسی الیکٹرومگنیٹک فیلڈ کی بدولت پوری کائنات سے جڑا ہوتا ہے-  اس لحاظ سے یہ الفاظ جو اب حرارت کی شکل میں ہوتے ہیں کسی اور کی الیکٹرو مگنیٹک فیلڈ پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں- اور کیونکہ انسان کے جسم میں کل حرارت روح کی بدولت ہے لہٰذا اس کا تعلق اس کائنات سے باہر اس عالم سے بھی ہوتا ہے جہاں سے روح انسانی جسم میں بھیجی جاتی ہے- اور روح کے نکلنے کے بعد ساری کی ساری انسانی مشینری زمین کے اندر دفن کردی جاتی ہے-  اور باہر صرف وہ آوازیں سفر کرتی رہ جاتی ہیں-  پرسوں ہی باجی سے بات ہو رہی تھی تو انہوں نے یہی بات کی کہ انسان کی زندگی میں سب سے بڑا کردار اسکی سوچ اور الفاظ کا ہوتا ہے اور جادو اصل میں الفاظ کے زریعے سوچ کو قابو کرنے کا ہی نام ہے- 

"اور ہم ہی نے انسان کو پیدا کیا ہے اور جو خیالات اس کے دل میں گزرتے ہیں ہم ان کو جانتے ہیں۔ اور ہم اس کی رگ جان سے بھی اس سے زیادہ قریب ہیں- جب (وہ کوئی کام کرتا ہے تو) دو لکھنے والے جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں، لکھ لیتے ہیں-  کوئی بات اس کی زبان پر نہیں آتی مگر ایک نگہبان اس کے پاس تیار رہتا ہے"- سورہ قاف 

سوچوں کے ذریعے پیغام رسانی یا ٹیلی پیتھی کے کمال کی ایک مثال تو حضرت عمر کا واقعہ ہے جب وہ جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے کہ انکے منہ سے الفاظ نکلے "ساریہ بچو، پہاڑ کے پیچھے سے"- یہ الفاظ حضرت ساریہ کو کئی سو میل دور پہاڑی کے پاس سنائی دیے جہاں وہ جنگ کے لئے بھیجے گۓ تھے- حضرت عمر منہ سے خطبہ دے رہے تھے جبکہ انکا ذہن مکمّل طور پر اس جنگ کی طرف متوجہ تھا-  جبکہ حضرت ساریہ وہاں موجود ہوتے ہوۓ بھی جسمانی اور ذہنی طور پر سامنے دشمن کی طرف متوجہ تھے-  جیسے کہ پاؤلو کوہیلو کے مطابق جب انسان کسی چیز کو حاصل کرنے کے بارے میں سوچتا ہے تو ساری کائنات اس کوشش میں اس کا ساتھہ دیتی ہے-   

ایسے لوگوں کے لئے اقبال نے کہا-
 مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں آفاق 

اور انکے نزدیک کافر اور مومن کی تعریف مولوی کے ذہن والی نہیں ہے- 

کچھ سالوں سے ایک عقیدہ "قانون/اصول کشش The Law of Attraction" کے نام سے بہت مشھور ہوا ہے- جس کی بنیاد سائنسی اصول "کائنات کے عناصر کے مابین کشش کسی بھی ایک جیسی خصوصیت کی وجہ سے ہوتی ہے" بتائی گئی ہے -  اسکی مووی " دا سیکریٹ The Secret" بھی بہت مشھورہوئی جس میں صاف صاف خدا کے وجود سے انکار کیا گیا ہے- ایک کتاب بھی "قانون/اصول کشش- ابراھیم کی بنیادی تعلیمات The Law of Attraction -The Basics of The Teachings of Abraham" کے نام سے شائع ہو چکی ہے-  مزے کی بات کہ اس میں حضرت ابراھیم کو ایک پیغنبر یا نبی کی حیثیت سے نہیں بلکہ محض  ایک عقلمند انسان, ایک مذہبی شخص کی حیثیت سے متعارف کرایا گیا ہے-  بالکل اسی طرح جیسے ترقی پسند اور آزاد خیالی کا نعرہ لگانے والے رسول الله کی تمام تعلیمات کو نظر انداز کر کے صرف ایک حدیث پکڑ لیتے ہیں کہ خدا اپنے حقوق معاف کردے گا لیکن بندوں کے نہیں-  توہین رسالت والے پتہ نہیں کہاں سوۓ ہوۓ ہیں-  یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعے کروڑوں لوگوں کی زندگی بدل چکی ہے- 

اس عقیدے کے مطابق، جس کی بنیاد خدا کے وجود سے انکار پر ہے، انسان اپنی سوچ کے ذریعے کائنات کے ہر عنصر سے رابطہ کرسکتا ہے کیونکہ "بگ بینگ نظریہ یا اصول" کے مطابق ساری کائنات ایک ہی مادّے کے مختلف روپ یا اجسام ہیں-  "دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے" ورنہ جن کو اپنے جسم کے اندر روح کی حرارت محسوس نہیں ہوتی وہ ضرور اس قسم کے سینکڑوں عقیدوں پہ ایمان لا سکتے ہیں- اپرا ونفرے Oprah Winfrey، جم کیری Jim Carey اور لاکھوں مشہور لوگ اس عقیدے کے پیروکار ہیں-  کیونکہ خدا کے وجود سے انکاری کھل کر خدا کے وجود سے انکار نہیں کرتے بلکہ اس سوچ اور ان دلائل کو پہلے عام کرتے ہیں جو خود بخود خدا کے وجود کے بارے میں انسان کو شک میں ڈال دے-  اسلئے لاکھوں مسلمان اس عقیدے کی اصلیت جانے بغیرمحض اچھی زندگی کی خواہش میں اس عقیدے پر یقین کرنے لگتے ہیں- میری چھوٹی بہن نے کوئی پانچ چھ سال پہلے اس اصول کے بارے میں بتایا تھا اور وہ بھی اوپرا ونفرے Oprah Winfrey کے اسی موضوع پر کیا گیا پروگرام دیکھ کر-  

اس عقیدے کے اصول یہ ہیں کہ کائنات میں اچھے برے واقعات و حادثات بکھرے پڑے ہیں- آپ کی سوچ ان میں سے جس کے بارے میں سوچتی ہے وہ آپکی توجہ کے ذریعے آپکی زندگی کا حصّہ بن جاتا ہے-  اور اپنی زندگی کے حالات کو تبدیل کرنے کے لئے انکے بارے وہی سوچیں جیسا آپ چاہتے ہیں-  اور اپنی سوچ کے مؤثر اثرات کے لئے مراقبے وغیرہ سے مدد لے سکتے ہیں- ہمیشہ پر امید رہیں-  شکریہ اور احسان کا رویہ اپنائیں- اپنی صلاحیتوں، سوچ اور کائنات پر بھروسہ کریں- یہ آپ کو آپ کی توقع کے مطابق نتیجہ دے گی- آپ اپنے رویے سے لوگوں کو اچھا یا برا بنا سکتے ہیں-  

ظاہری طور پر اس کے اصولوں میں کوئی بات غیر اسلامی محسوس نہیں ہوتی سواۓ خدا کے وجود سے انکار کے-  حیرت کی بات یہ ہے یہی اصول تمام انبیاء کرام کی تعلیمات کا حصّہ تھے اور تمام آسمانی کتابوں کا محور بھی- لیکن انسان انبیاء کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں، انکی تعلیمات کا بھی انکار کر دیتے ہیں اور آسمانی کتابوں کو بھی پس پشت ڈال کر اپنے ہی جیسے عام انسانوں کی چرب دماغی اور چرب زبانی پر یقین کر لیتے ہیں-  صرف ایک خداۓ واحد کے ہونے یا نہ ہونے کی دلیل کی بنیاد پر؟  
جب قرآن کہتا ہے کہ کائنات کو انسان کے لئے مسخر کردیا، دیکھو چاند ستاروں کو، اونٹ اور گاۓ اور پہاڑوں اور پودوں اور خود اپنی بناوٹ کو- تو ہم اسے سائنس اور کفر کہتے ہیں- اور جب غیر مسلم یہ سب کر دکھاتے ہیں تو ہم اسے وقت کی ضرورت اور عالم اقوام سے مقابلے کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں؟  
کس ایمان، کس جنّت، کس شفاعت اور کس ترقی کی توقع پرزندہ ہیں ہم لوگ؟

علامہ اقبال رحمہ الله علیہ نے فرمایا، 
فراغت دے اسے کار جہاں سے 
کہ چھوٹے ہر نفس کے امتحاں سے 
ہوا پیری سے شیطاں کہنہ اندیش 
گناہ تازہ تر لاۓ کہاں سے 

تو جس طرح چودہ سو سال پہلے رسالت اور نبوت رسول الله صلی الله علیہ وسلّم پر ہوئی اور آسمانی کتابوں کا نزول قرآن پر ختم ہوا-  اسی طرح چودہ سو سال پہلے شیطان کی نت نئی چالیں بھی ختم ہو گئیں-  چودہ سو سال سے وہ پرانے حربوں کو نئے نئے تماشوں کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہے-  بقول اقبال شیطان بھی بوڑھا ہوکر تھک چکا ہے- ہزاروں سال پرانے رسم و رواج، لباس، طعام و قیام، روایات، علوم، فلسفے، عقائد اور ثقافت کو میڈیا اور ثقافتی شوز کی صورت میں آج کی دنیا کے سامنے لایا جارہا ہے اور آج کا انسان پچھلے انسانوں کے مقابلے پر تمام ظاہری جدیدیت کا دعویٰ کرنے کے باوجود اپنے معاش اور بقاء کے لئے پچھلے انسانی ادوار کا محتاج بن چکا ہے-  

http://www.guardianlv.com/2014/02/the-secret-law-of-attraction-doesnt-work-heres-proof/ 

ہمارے بچوں اور نوجوانوں کو خیالی سپرمین  اور سپائیڈر مین اور دوسرے خیالی کرداروں کے وہ ایڈونچرز اچھے لگتے ہیں جو قابل عمل نہیں-  لیکن محمّد بن قاسم، سلطان محمّد الفاتح اور دوسرے نوجوانوں کے حقیقی مہمات کو پڑھنے کا ان کے پاس نہ وقت ہے اور نہ دلچسپی- 

رسول الله صلی علیہ وسلّم کی ایک حدیث کے مطابق، "نوجوانی یا جوانی کی عبادت بڑھاپے کی عبادت کے مقابلے میں ستائیس گنا افضل ہے- اور الله کو بہت خوش کرتی ہے ایک نوجوان یا جوان کی توبہ ایک بوڑھے کی توبہ کے مقابلے پہ"- اور یہ توبہ بھی مولوی والی نہیں، جس میں ذکر و فکر و خانقاہی کے علاوہ کوئی اور اسلوب نہیں ہوتا- 
بقول اقبال, شیطان کا اپنے ماننے والوں کو آخری پیغام...

خیر اسی میں ہے قیامت تک رہے مومن غلام 
چھوڑ کر اوروں کی خاطر یہ جہاں بے ثبات 
ہر نفس ڈرتا ہوں اس امت کی بیداری سے میں 
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب کائنات 
مست رکھو ذکر و فکر صبح گاہی میں اسے 

پختہ تر کردو مزاج خانقاہی میں اسے 

اور توبہ کے لفظی معنی ہیں "پلٹ آنا" کے ہیں-  اصل راستے پر پلٹ آنا-  اور اصل راستے کا پتہ ان لوگوں کے پاس تھا جو چودہ سال پہلے اسی طرح پلٹے تھے-  اگر بہت سی تاریخی کتابیں پڑھنے کا وقت نہیں تو "مسدّس حالی" بھی کافی ہے- 


کسی نے یہ بقراط سے جا کے پوچھا       مرض تیرے نزدیک مہلک ہیں کیا کیا
کہا  دکھ جہاں میں نہیں کوئی ایسا            کہ جس کی دوا حق نے کی ہو نہ پیدا
مگر وہ مرض جس کو آسان سمجھیں       کہے جو طبیب اس کو ہذیان سمجھیں 
سبب یا علامت گر ان کو سجھائیں             تو تشخیص میں سو نکالیں خطائیں 
دوا اور پرہیز سے جی چرائیں               یونہی رفتہ رفتہ مرض کو بڑھائیں 
طبیبوں سے ہر گز نہ مانوس ہوں وہ        یہاں تک کہ جینے سے مایوس ہوں وہ
یہی حال دنیا میں اس قوم کا ہے            بھنور میں جہاز آ کے جس کا گھرا ہے
کنارہ ہے دُور اور طوفان بپا ہے             گماں ہے یہ ہر دم کہ اب ڈوبتا ہے
نہیں لیتے کروٹ مگر اہلِ کشتی             پڑے سوتے ہیں بے خبر اہلِ کشتی
گھٹا سر پہ ادبار کی چھار رہی ہے         فلاکت سماں اپنا دکھلا رہی ہے
نحوست پس و پیش منڈلا رہی ہے         چپ و راست سے یہ صدا آ رہی ہے
کہ کل کون تھے آج کیا ہو گئے تم؟          ابھی جاگتے تھے ابھی سو گئے تم؟
پر اس قومِ غافل کی غفلت وہی ہے           تنزّل پہ اپنے قناعت وہی ہے
ملے خاک میں پررعُونت وہی ہے       
ہوئی صُبح اور خوابِ راحت وہی ہے
نہ افسوس انہیں اپنی ذلت پہ ہے کچھ      
نہ رشک اور قوموں کی عزت پہ ہے کچھ
بہائم کی اور ان کی حالت ہے یکساں   
کہ جس حال میں ہیں اسی میں ہیں شاداں 
نہ ذلت سے نفرت نہ عزت کا ارماں       
نہ دوزخ سے ترساں نہ جنت کے خواہا ں 
لیا عقل و دیں سے نہ کچھ کام انہوں نے            
کیا دینِ برحق کو بدنام انہوں نے
وہ دیں جس نے اعدا کو اخواں بنایا          
وحوش اور بہائم کو انساں بنایا
درندوں کو غمخوارِ دوراں بنایا        
گڈریوں کو عالم کا سُلطان بنایا
وہ خطہ جو تھا ایک ڈھوروں کا گلہ     
گراں کر دیا اس کا عالم سے پلہ

عرب جس کا چرچا ہے یہ کچھ وہ کیا تھا  
جہاں سے الگ اک جزیرہ نما تھا
زمانہ سے پیوند جس کا جدا تھا
نہ کشورستاں تھا، نہ کشور کشا تھا
تمدن کا اس پر پڑا تھا نہ سایا
ترقی کا تھا واں قدم تک نہ آیا
نہ آب و ہوا ایسی تھی روح پرور
کہ قابل ہی پیدا ہوں خود جس سے جوہر
نہ کچھ ایسے سامان تھے واں میسر
کنول جس سے کھل جائی دل کے سراسر
نہ سبزہ تھا صحرا میں پیدا نہ پانی
فقط آبِ باراں پہ تھی زندگانی
زمیں سنگلاخ اور ہوا آتش افشاں
لوؤں کی لپٹ بادِ صرصر کے طوفاں
پہاڑ اور ٹیلے سراب اور بیاباں
کھجوروں کے جھنڈ اور خارِ مغلیاں
نہ کھیتوں میں غلہ نہ جنگل میں کھیتی
عرب اور کل کائنات اس کی یہ تھی
نہ واں مصر کی روشنی جلوہ گر تھی
نہ یونان کے علم و فن کی خبر تھی
وہی اپنی فطرت پہ طبع بشر تھی
خدا کی زمیں بن جتی سر بسر تھی
پہاڑ اور صحرا میں ڈیرا تھا سب کا
تلے آسماں کے بسیرا تھا سب کا
کہیں آگ پجتی تھی واں بے محابا
کہیں تھا کواکب پرستی کا چرچا
بہت سے تھے تثلیث پر دل سے شیدا
بتوں کا عمل سو بسو جا بچا تھا
کرشموں کا راہب کے تھا صید کوئی
طلسموں میں کاہن کے تھا قید کوئی
وہ دنیا میں گھر سب سے پہلا خدا کا
خلیل ایک معمار تھا جس بنا کا
ازل میں مشیت نے تھا جس کو تا کا
کہ اس گھر سے ابلے گا چشمہ بدی کا
وہ تیرتھ تھا اک بت پرستوں کا گویہ
جہاں نامِ حق کا نہ تھا کوئی جویا
قبیلے قبیلے کا بت اک جدا تھا
کسی کا ببل تھا کسی کا صفا تھا
یہ عزا پہ وہ نائلہ پر فدا تھا
اسی طرح گھر گھر نیا اک خدا تھا
نہاں ابرِ ظلمت میں تھا مہرِ انور
اندھیرا تھا فاران کی چوٹیوں پر
چلن ان کے جتنے تھے سب وحشیانہ
ہر اک لوٹ اور مار میں تھا یگانہ
فسادوں میں کٹتا تھا ان کا زمانہ
نہ تھا کوئی قانوان کا تازیانہ
وہ تھے قتل و غارت میں چالاک ایسے
درندے ہوں جنگل میں بے باک جیسے
نہ ٹلتے تھے ہر گز جواڑ بیٹھتے تھے
سلجھتے نہ تھے جب جھگڑ بیٹھتے تھے
جو وہ شخص آپس میں لڑ بیٹھتے تھے
تو صدہا قبیلے بگ بیٹھتے تھے
بلند ایک ہوتا تھا گرواں شرار
تو اس سے بھڑک اٹھتا تھا ملک سارا
بہ بکر اور تغلب کی باہم لڑ ائی
صدی جس میں آدھی انھوں نے گنوائی
قبیلوں کی کردی تھی جس نے صفائی
تھی اک آگ ہر سو عرب میں لگائی
نہ جھگڑا کوئی ملک و دولت کا تھا وہ
کرشمہ اک ان کی جہالت کا تھا وہ
کہیں تھا مویشی چرانے پہ جھگڑا
کہیں پہلے گھوڑا بڑھانے پہ جھگڑا
لبِ جو کہیں آنے جانے پہپ جھگڑا
کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا
یونہی روز ہوتی تھی تکرار ان میں
یونہی چلتی رہتی تھی تلوار ان میں
جو ہوتی تھی پیدا کسی گھر میں دختر
تو خوفِ شماتت سے بے رحم مادر
پھرے دیکھتی جب تھی شوہر کے تیور
کہیں زندہ گاڑ آتی تھی اس کو جاکر
وہ گود ایسی نفرت سے کرتی تھی خالی
جنے سانپ جیسے کوئی جننے والی
جوا ان کی دن رات کی دل لگی تھی
شراب ان کی گھٹی میں گویا پڑی تھی
تعیش تھا غفلت تھی، دیوانگی تھی
غرض ہر طرح ان کی حالت بری تھی
بہت اس طرح ان کو گزری تھیں صدیاں
کہ چھائی ہوئی نیکیوں پر تھی بدیاں
یکایک ہوئی غیرتِ حق کو حرکت
بڑھا جانبِ بوقبیں ابرِ رحمت
ادا خاکِ بطحا نے کی وہ ودیعت
چلے آتے تھے جس کی دیتے شہادت
ہوئی پہلوئے آمنہ سے ہویدا
دعائے خلیل اور نویدِ مسیحا
ہوئے محو عالم سے آثارِ ظلمت
کہ طالع ہوا ماہِ برجِ سعادت
نہ چٹکی مگر چاندنی ایک مدت
کہ تھا ابر میں ماہتابِ رسالت
یہ چالیسیویں سال لطفِ خدا سے
کیا چاند نے کھیت غارِ حرا سے
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ
خطا کار سے درگزر کرنے والا
بد انیش کے دل میں گھر کرنے والا
مفاسد کلا زیر و زبر کرنے والا
قبائل کو شیر و شکر کرنے والا
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخۂ  کیمیا ساتھ لایا
مسِ خام کو جس نے کندن بنایا
کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا
عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا
رہا ڈرنہ بیڑے کو موجِ بلا کا
ادھر سے ادھر پھر گیا رخ ہوا کا
پڑی کان میں دھات تھی اک نکمی
نہ کچھ قدر تھی اور نہ قیمت تھی جس کی
طبیعت میں جو اس کے جو ہر تھے اصلی
ہوئے سب تھے مٹی میں مل کر وہ مٹی
پہ تھا ثبت علمِ قضا و قدر میں
کہ بن جائے گی وہ طلا اک نظر میں
وہ فخرِ عرب زیبِ محراب و منبر
تمام اہلِ مکہ کو ہمراہ لے کر
گیا ایک دن حسبِ فرمانِ داور
سوئے دشت اور چڑھ کے کوہِ صفا پر
یہ فرمایا سب سے کہ " اے آلِ غالب
سمجھتے ہو تم مجھ کو صادق کہ کاذب؟"
کہا سب نے " قول آج تک کوئی تیرا
کبھی ہم نے جھوٹا سنا اور نہ دیکھا"
کہا" گر سمجھتے ہو تم مجھ کو ایسا
تو باور کروگے اگر میں کہوں گا؟
کہ فوجِ گراں پشتِ کوہِ صفا پر
پڑی ہے کہ لوٹے تمہیں گھات پاکر"
کہا" تیری ہر بات کا یاں یقیں ہے
کہ بچپن سے صادق ہے تو اور امیں ہے"
کہا" گر مری بات یہ دل نشیں ہے"
تو سن لو خلاف اس میں اصلا نہیں ہے
کہ سب قافلہ یاں سے ہے جانے والا
ڈرو اس سے جو وقت ہے آنے والا
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلادی
نئی اک لگن دل میں سب کے لگادی
اک آواز میں سوتی بستی جگا دی
پڑا ہر طرف غل یہ پیغام حق سے
کہ گونج اٹھے دشت و جبل نامِ حق سے

وہ نبیوں ؑمیں رحمت لقب پانے والا        مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا       وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ             یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ
خطا کار سے درگزر کرنے والا          بد اندیش کے دل میں گھر کرنے والا
مفاسد کا زیر و زبر کرنے والا             قبائل کو شِیر و شکر کرنے والا
اُتر کر حرا سے سوئے قوم آیا           اور اک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا
مسِ خام کو جس نے کندن بنایا             کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا

سبق پھر شریعت کا ان کو پڑھایا
حقیقت کا گُر ان کو ایک اک بتایا
زمانہ کے بگڑے ہوؤں کو بنایا
بہت دن کے سوتے ہوؤں کو جگایا
کھلے تھے نہ جو راز اب تک جہاں پر
وہ دکھلا دیئے ایک پردہ اٹھا کر
کسی کو ازل کا نہ تھا یاد پیماں
بھلائے تھے بندوں نے مالک کے فرماں
زمانہ میں تھا دورِ صہبائے بطلاں
مئے حق سے محرم نہ تھی بزمِ دوراں
اچھوتا تھا توحید کا جام اب تک
خم معرفت کا تھا منہ خام اب تک
نہ واقف تھے انساں قضا اور جزا سے
نہ آگاہ تھے مبداء و منتبا سے
لگائی تھی ایک اک نے لوماسوا سے
پڑے تھے بہت دور بندے خدا سے
یہ سنتے ہی تھرا گیا گلہ سارا
یہ راعی نے للکار کر جب پکارا
کہ ہے ذاتِ واحد عبادت کے لایق
زبان اور دل کی شہادت کے لایق
اسی کے ہیں فرماں اطاعت کے لایق
اسی کی ہے سرکار خدمت کے لایق
لگاؤ تو لو اس سے اپنی لگاؤ
جھکاؤ تو سر اس کے آگے جھکاؤ
اسی پر ہمیشہ بھروسا کرو تم
اسی کے سدا عشق کا دم بھرو تم
اسی کے غضب سے ڈرو گر ڈرو تم
اسی کی طلب میں مرد گر مرد تم
مبرا ہے شرکت سے اس کی خدائی
نہیں اس کے آگے کسی کو بڑائی
خرد اور ادراک رنجور ہیں واں
مہ و مہر ادنیٰ سے مزدور ہیں واں
جہاندار مغلوب و مقہور ہیں واں
نبی اور صدیق مجبور ہیں واں
نہ پرسش ہے رہبان و احبار کی واں
نہ پروا ہے ابرار و احرار کی واں
تم اوروں کی مانند دھوکا نہ کھانا
کسی کو خدا کا نہ بیٹا بنانا
مری حد سے رتبہ نہ میرا بڑھانا
بڑھا کر بہت تم نہ مجھ کو گھٹانا
سب انساں ہیں واں جس طرح سر فگندہ
اسی طرح ہوں میں بھی اک اس کا بندہ
بنانا نہ تربت کو میری صنم تم
نہ کرنا مری قبر پر سر کو خم تم
نہیں بندہ ہونے میں کچھ مجھے سے کم تم
کہ بے چارگی میں برابر ہیں ہم تم
مجھے دی ہے حق نے بس اتنی بزرگی
کہ بندہ بھی ہوں اس کا اور ایلچی بھی
اسی طرح دل ان کا ایک اک سے توڑا
ہر اک قبلئہ کج سے منہ ان کا موڑا
کہیں ماسویٰ کا علاقہ نہ چھوڑا
خداوند سے رشتہ بندوں کا جوڑا
کبھی کے جو پھرتے تھے مالک سے بھا گے
دئیے سر جھکا ان کے مالک کے آگے
پتا اصل مقصود کا پاگیا جب
نشاں گنجِ دولت کا ہاتھ آگیا جب
محبت سے دل ان کا گرما گیا جب
سماں ان پہ تو حید کا چھا گیا جب
سکھائے معیشت کے آداب ان کو
پڑھائے تمدن کے سب باب ان کو
جتائی انھیں وقت کی قدر و قیمت
دلائی انہیں کام کی حرص و رغبت
کہا چھوڑ دیں گے سب آخر رفاقت
ہو فرزندو زن اس مں یا مال و دولت
نہ چھوڑے گا پر ساتھ ہر گز تمہارا
بھلائی میں جو وقت تم نے گزارا
غنیمت ہے صحت علالت سے پہلے
فراغت مشاغل کی کثرت سے پہلے
جوانی، بڑھاپے کی زحمت سے پہلے
اقامت، مسافر کی رحلت سے پہلے
فقیری سے پہلے غنیمت ہے دولت
جو کرنا ہے کر لو کہ تھوڑی ہے مہلت
یہ کہہ کر کیا علم پر ان کو شیدا
کہ ہیں دور رحمت سے سب اہلِ دنیا
مگر دھیان ہے جن کو ہر دم خدا کا
ہے تعلیم کا یا سدا جن میں جرچا
انہی کے لیے یان ہے نعمت خدا کی
انہی پر ہے واں جاکے رحمت خدا کی"
سکھائی انہیں نوعِ انساں پہ شفقت
کہا " ہے یہ اسلامیوں کی علامت
کہ ہمسایہ سے رکھتے ہیں وہ محبت
شب و روز پہنچاتے ہیں اس کو راحت
وہ برحق سے اپنے لیے چاہتے ہیں
وہی ہر بشر کے لیے چاہتے ہیں
خدا رحم کرتا نہیں اس بشر پر
نہ ہو درد کی چوٹ جس کے جگر پر
کسی کے گر آفت گزر جائے سر پر
پڑے غم کا سایہ نہ اس بے اثر پر
کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر۔
ڈرایا تعصب سے ان کو یہ کہہ کر
کہ زندہ رہا اور مرا جو اسی پر
ہوا وہ ہماری جماعت سے باہر
وہ ساتھی ہمارا نہ ہم اس کے یاور
نہیں حق سے کچھ اس محبت کو بہرہ
کہ جو تم کو اندھا کرے اور بہرہ
بچایا برائی سے ان کو یہ کہہ کر
کہ طاعت سے ترکِ معاصی ہے بہتر
تو رع کا ہے ذات میں جن کی جوہر
نہ ہوں گے کبھی عابد ان کے برابر
کرو ذکر اہلِ ورع کا جہاں تم
نہ لو عابدوں کا کبھی نام واں تم
غریبوں کو محنت کی رغبت دلائی
کہ بازو سے اپنے کرو تم کمائی
خبر تاکہ لو اس سے اپنی پرائی
نہ کرنی پڑے تم کو در در گدائی
طلب سے ہے دنیا کی گریاں یہ نیت
تو چمکو گے واں ماہِ کامل کی صورت
امیروں کو تنبیہ کی اس طرح پر
کہ ہیں تم میں جو اغنیا اور تو نگر
اگر اپنے طبقہ میں ہوں سب سے بہتر
بنی نوع کے ہوں مددگار و یاور
نہ کرتے ہوں بے مشورت کام ہر گز
اٹھاتے نہ ہوں بے دھڑک گام ہر گز
تو مردوں سے آسودہ تر ہے وہ طبقہ
زمانہ مبارک ملے جس کو ایسا
پہ جب اہلِ دولت ہوں اشرارِ دنیا
نہ ہو عیش میں جن کو اوروں کی پروا
نہیں اس زمانہ میں کچھ خیرو برکت
اقامت سے بہتر ہے اس وقت رحلت
دیے پھیر دل ان کے مکرو ریا سے
بھرا ان کے سینہ کو صدق و صفا سے
بچایا انہیں کذب سے، افترا سے
کیا سرخرو خلق سے اور خدا سے
رہا قول حق میں نہ کچھ باک ان کو
بس اک شوب میں کردیا پاک ان کو
کہیں حفظِ صحت کے آئیں سکھائے
سفر کے کہیں شوق ان کو دلائے
مفاد ان کو سوداگری کے سجھائے
اصول ان کو فرماں دہی کے بتائے
نشاں راہِ منزل کا ایک اک دکھایا
بنی نوع کا ان کو رہبر بنایا
ہوئی ایسی عادت پہ تعلیم غالب
کہ باطل کے شیدا ہوئے حق کے طالب
مناقب سے بدلے گئے سب مثالب
ہوئے روح سے بہرہ وران کے قالب
جسے راج رد کر چکے تھے، وہ پتھر
ہوا جاکے آخر کو قایم سرے پر
جب امت کو سب مل چکی حق کی نعمت
ادا کر چکی فرض اپنا رسالت
رہی حق پہ باقی نہ بندوں کی حجت
نبی نے کیا خلق سے قصدِ رحلت
تو اسلام کی وارث اک قوم چھوڑی
کہ دنیا میں جس کی مثالیں ہیں تھوڑی
سب اسلام کے حکم بردار بندے
سب اسلامیوں کے مددگار بندے
خدا اور بنی کے وفادار بندے
یتیموں کے رانڈوں کے غمخوار بندے
رہِ کفر و باطر سے بیزار سارے
نشہ میں مئے حق کے سرشار سارے
جہالت کی رشمیں مٹا دینے والے
کہانیت کی بنیاد ڈھا دینے والے
سر احکام دیں پر جھکا دینے والے
خدا کے لیے گھر لٹا دینے والے
ہر آفت میں سینہ سپر کرنے والے
فقط ایک اللہ سے ڈرنے والے
اگر اختلاف ان میں باہم دگر تھا
تو بالکل مدار اس کا اخلاص پر تھا
جھگڑتے تھے لیکن نہ جھگڑوں میں شرتھا
خلاف آشتی سے خوش آیندہ تر تھا
یہ تھی موج پہلی اس آزادگی کی
ہرا جس سے ہونے کو تھا باغ گیتی
نہ کھانوں میں تھی واں تکلف کی کلفت
نہ پوشش سے مقصود تھی زیب و زینت
امیر اور لشکر کی تھی ایک صورت
فقیر اور غنی سب کی تھی ایک حالت
لگایا تھا مالی نے اک باغ ایسا
نہ تھا جس میں چھوٹا بڑا کوئی پود ا
خلیفہ تھے امت کے ایسے نگہباں
ہو گلہ کا جیسے نگہبان چوپاں
سمجھتے تھے ذی و مسلم کو یکساں
نہ تھا عبد و حر میں تقاوت نمایا
کنیز اور بانو تھی آپس میں ایسی
زمانہ میں ماں جائی بہنیں ہوں جیسی
رہِ حق میں تھی دوڑ اور بھاگ ان کی
فقط حق پہ تھی جس سے تھی لاگ ان کی
بھڑکتی نہ تھی خود بخود آگ ان کی
شریعت کے قبضہ میں تھی باگ ان کی
جہاں کر دیا نرم نرما گئے وہ
جہاں کردیا گم، گرما گئے وہ
کفایت جہاں چاہیے واں کفایت
سخاوت جہاں چاہیے، واں سخاوت
جچی اور تلی دشمنی اور محبت
نہ بے وجہ الفت نہ بہ بے وجہ نفرت
جھکا حق سے جو، جھک گئے اس سے وہ بھی
رکا حق سے جو، رک گئے اس سے وہ بھی
ترقی کا جس دم خیال ان کو آیا
اک اندھیر تھا ربعِ مسکوں میں چھایا
ہر اک قوم پر تھا تنزل کا سایہ
بلندی سے تھا جس نے سب کو گرایا
وہ نیشن جو ہیں آج گردوں کے تارے
دھند لکے میں پستی کے پنہاں تھے سارے
نہ وہ دور دورہ تھا عبرانیوں کا
نہ یہ بخت و اقبال نصرانیوں کا
پراگندہ دفتر تھا یونانیوں کا
پریشاں تھا شیرازہ ساسانیوں کا
جہاز اہلِ روما کا تھا ڈگمگاتا
چراغ اہلِ ایراں کا تھا ٹمٹماتا
ادھر ہند میں ہر طرف تھا اندھیرا
کہ تھا گیان گن کا لدایاں سے ڈیرا
ادھر تھا عجم کو جہالت نے گھیرا
کہ دل سب نے کیش و کنش سے تھا پھیرا
نہ بھگوان و دھیان تھا گیانیوں میں
نہ یزداں پرستی تھی یزدانیوں میں
ہوا ہر طرف موجزن تھی بلا کی
گلوں پہ چھری چل رہی تھی جفا کی
عقوبت کی حد تھی نہ پرسش خطا کی
پڑی لٹ رہی تھی ودیعت خدا کی
زمیں پر تھا ابرِ ستم کا دڑیڑا
تباہی میں تھا نوع انساں کا بیڑا
وہ قومیں جو ہیں آج غمخوار انساں
درندوں کی اور ان کی طینت تھی یکساں
جہاں عدل کے آج جاری ہیں فرماں
بہت دور پہنچا تھا واںِ ظلم و طغیاں
بنے آج جو گلہ باں ہیں ہمارے
وہ تھے بھیڑئیے آدمی خوار سارے
ہنر کا جہاں گرم بازار ہے اب
جہاں عقل و دانش کا بہورا ہے اب
جہاں ابرِ رحمت گہربار ہے اب
جہاں ہن برستا لگاتار ہے اب
تمدن کا پیدا نہ تھا واں نشاں تک
سمندر کی آئی نہ تھی موج واں تک
نہ رستہ ترقی کا کوئی کھلا تھا
نہ زینہ بلندی پہ کوئی لگا تھا
وہ صحرا انھیں قطع کرنا پڑا تھا
جہاں نقشِ پا تھا نہ شورِ درا تھا
جونہی کان میں حق کی آواز آئی
لگا کرنے خود ان کا دل رہنمائی
گھٹا اک پہاڑوں سے بطحا کے اٹھی
پڑی چارسو یک بیک دھوم جس کی
کڑک اور دمک دور دور اس کی پہنچی
جو ٹیکس پہ گرجی تو گنگا پہ برسی
رہے اس سے محروم آبی نہ خاکی
ہری ہوگئی ساری کھیتی خدا کی
کیا امیوں نے جہاں میں اجالا
ہوا جس سے اسلام کا بول بالا
بتوں کو عرب اور عجم سے نکالا
ہر اک ڈوبتی ناؤ کو جا سنبھالا
زمانہ میں پھیلائی توحید مطلق
لگی آنے گھر گھر سے آواز حق حق
ہوا غلغلہ نیکیوں کا بدوں میں
پڑی کھلبلی کفر کی سرحدوں میں
ہوئی آتش افسردہ آتشکدوں میں
لگی خاک سی اڑنے سب معبدوں میں
ہوا کعبہ آباد سب گھر اجڑ کر
جمے ایک جا سارے دنگل بچھڑ کر
لیے علم و فن ان سے نصرانیوں نے
کیا کسبِ اخلاق روحانیوں نے
ادب ان سے سیکھا صفاہانیوں نے
کہا بڑھ کے لبیک یزدانیوں نے
ہر اک دل سے رشتہ جہالت کا توڑا
کوئی گھر نہ دنیا میں تاریک چھوڑا
ارسطو کے مردہ فنوں کو جلایا
فلاطون کو زندہ پھر کر دکھایا
ہر اک شہر و قریہ کو یاناں بنایا
مزا علم و حکمت کا سب کو چکھایا
کیا برطرف پردہ چشمِ جہاں سے
جگایا زمانے کو خوابِ گراں سے
ہر اک میکدے سے بھرا جاکے ساغر
ہر اک گھاٹ سے آئے سیراب ہوکر
گرے مثلِ پروانہ ہر روشنی پر
گرہ میں لیا باندھ حکم پیمبر
کہ" حکمت کو اک گم شدہ مال سمجھو
جہاں پاؤ اپنا اسے مال سمجھو"
ہر اک علم کے فن کے جویا ہوئے وہ
ہر اک کام میں سب سے بالا ہوئے وہ
فلاحت میں بے مثل و یکتا ہوئے وہ
سیاحت میں مشہورِ دنیا ہوئے
ہر اک ملک میں ان کی پھیلی عمارت
ہر اک قوم نے ان سے سیکھی تجارت
کیا جاکے آباد ہر ملک ویراں
مہیا کیے سب کی راحت کے ساماں
خطرناک تھے جو پہاڑ اور بیاباں
انہیں کردیا رشکِ صحنِ گلستاں
بہار اب جو دنیا میں آئی ہوئی ہے
یہ سب پودا انہی کی لگائی ہوئی ہے
یہ ہموار سڑکیں یہ راہیں مصفا
دو طرفہ برابر درختوں کا سایا
نشاں جابجا میل و فرسخ کے برپا
سرِ رہ کوئیں اور سرائیں مہیا
انہی کے ہیں سب نے یہ چربے اتارے
اسی قافلہ کے نشاں ہیں یہ سارے
سدا ان کو مرغوب سیرو سفر تھا
ہر اک بر اعظم میں ان کا گزر تھا
تمام ان کا چھانا ہوا بحرو بر تھا
جو لنکا میں ڈیرا تو بربر میں گھر تھا
وہ گنتے تھے یکساں وطن اور سفر کو
گھر اپنا سمجھتے تھے ہر دشت و در کو
جہاں کو ہے یاد ان کی رفتار اب تک
کہ نقشِ قدم ہیں نمودار اب تک
ملایا میں ہیں ان کے آربار اب تک
انہیں رو رہا ہے میلیبار اب تک
ہمالہ کو ہیں واقعات ان کے ازبر
نشاں ان کے باقی ہیں جبرالٹر پر
نہیں اس طبق پر کوئی بر اعظم
نہ ہوں جس میں ان کی عمارت محکم
عرب، ہند، مصر، اندلس و شام، ویلم
بناؤں سے ہیں ان کی معمور عالم
سرِ کوہِ آدم سے تا کوہِ بیضا
جہاں جاؤ گے کھوج پاؤ گے ان کا
وہ سنگیں محل اور وہ ان کی صفائی
جمی جن کے کھنڈروں پہ ہے آج کائی
وہ مرقد کی گنبد تھے جن کے طلائی
وہ معبد جہاں جلوہ گر تھی خدائی
زمانہ نے گو ان کی برکت اٹھالی
نہیں کوئی ویرانہ پر ان سے خالی
ہوا اندلس ان سے گلزار یکسر
جہاں ان کے آثار باقی ہیں اکثر
جو چاہے کوئی دیکھ لے آج جاکر
یہ ہے بیت حمرا کی گویا زباں پر
کہ تھے آلِ عدنان سے میرے بانی
عرب کی ہوں میں اس زمیں پر نشانی
ہویدا ہے غرناطہ ہے شوکت ان کی
عیاں ہے بلنسیہ سے قدرت ان کی
بطلیوس کو یا دہے عظمت ان کی
ٹپکتی ہے قادس میں سر حسرت ان کی
نصیب ان کا اشبیلیہ میں ہے سوتا
شب و روز ہے قرطبہ ان کو روتا
کوئی قرطبہ کے کھنڈر جاکے دیکھے
مساجد کے محراب و در جاکے دیکھے
حجازی امیروں کے گھر جاکے دیکھے
خلافت کو زیر و زبر جاکے دیکھے
جلالا ان کا کھنڈروں میں ہے یوں چمکتا
کہ ہو خاک میں جیسے کندن دمکتا
وہ بلدہ کہ فخرِ بلادِ جہاں تھا
ترو خشک پر جس کا سکہ روں تھا
گڑا جس میں عباسیوں کا نشاں تھا
عراقِ عرب جس سے رشکِ جناں تھا
اڑا لے گئی بادِ پندار جس کو
بہا لے گئی سیلِ تاتار جس کو
سنے گوشِ عبرت سے گرجا کے انساں
تو واں ذرہ ذرہ یہ کرتا ہے اعلاں
کہ تھا جن دنوں مہرِ اسلام تاباں
ہوا یاں کی تھی زندگی بخش دواں
پڑی خاک ایتھنز میں جاں یہیں سے
ہوا زندہ پھر نام یوناں یہیں سے
وہ لقمان و سقراط کے درمکنوں
وہ اسرارِ بقراط و درسِ فلاطوں
ارسطو کی تعلیم سولن کے قانوں
پڑے تھے کسی قبر کہنہ میں مدفوں
یہیں آکے مہرِ سکوت ان کی ٹوٹی
اسی باغِ رعنا سے بو ان کی پھوٹی
یہ تھا علم پر واں توجہ کا عالم
کہ ہو جیسے مجروح جو یائے مرہم
کسی طرح پیاس ان کی ہوتی نہ تھی کم
بجھاتا تھا آگ ان کی باراں نہ شبنم
حریمِ خلافت میں اونٹوں پہ لد کر
چلے آتے تھے مصر و یوناں کے دفتر
وہ تارے جو تھے شرق میں لمعہ افگن
پہ تھا ان کی کرنوں سے تا غرب روشن
نوشتوں سے ہیں جن کے اب تک مزین
کتب خانئہ پیرس و روم و لندن
پڑا غلغلہ جن کا تھا کشوروں میں
وہ سوتے ہیں بغداد کے مقبروں میں
وہ سنجار کا اور کوفہ کا میداں
فراہم ہوئے جس میں مساحِ دوراں
کرہ کی مساحت کے پھیلائے ساماں
ہوئی جزو سے قدر کل کی نمایاں
زمانہ وہاں آج تک نوح گر ہے
کہ عباسیوں کی سبھا وہ کدھر ہے
سمر قند سے اندلس تک سراسر
انھی کی رصدگاہیں تھیں جلوہ گستر
سوادِ مراغہ میں اور قاسیوں پر
زمیں سے صدا آرہی ہے برابر
کہ جن کی رصد کے یہ باقی نشاں ہیں
وہ اسلامیوں کے منجم کہاں ہیں
مورخ جو ہیں آج تحقیق والے
تفحص کے ہیں جن کے آئیں نرالے
جنہوں نے ہیں عالم کے دفتر کھنگالے
زمیں کے طبق سر بسر چھان ڈالے
عرب ہی نے دل ان کے جاکر ابھارے
عرب ہی سے وہ بھرنے سیکھے ترارے
اندھیرا تواریخ پر چھا رہا تھا
ستارہ روایت کا گہنا رہا تھا
درایت کے سورج پہ ابر آرہا تھا
شہادت کا میدان دھندلا رہا تھا
سرِ رہ چراغ اک عرب نے جلایا
اہر اک قافلہ کا نشاں جس سے پایا
گروہ ایک جو یا تھا علمِ نبی کا
لگایا پتا جس نے ہر مفتری کا
نہ چھوڑا کوئی رخنہ کذبِ خفی کا
کیا قافیہ تنگ ہر مدعی کا
کیے جرح و تعدیل کے وضع قانوں
نہ چلنے دیا کوئی باطل کا افسوس
اسی دھن میں آساں کیا ہر سفر کو
اسی شوق میں طے کیا بحرو بر کو
سنا خازنِ علم دیں جس بشر کو
لیا اس سے جاکر خبر اور اثر کو
پھر آپ اس کو پرکھا کسوٹی پہ رکھ کر
دیا اور کو خود مزا اس کا چکھ کر
کیا فاش راوی میں جو عیب پایا
مناقب کو چھانا مثالب کو تایا
مشائخ میں جو قبح نکلا جتایا
ائمہ میں جو داغ دیکھا، بتایا
طلسم ورع ہر مقدس کا توڑا
نہ ملا کو چھوڑا نہ صوفی کو چھوڑا
رجال اور اسانید کے جو ہیں دفتر
گواہ ان کی آزادگی کے ہیں یکسر
نہ تھا ان کا احساں یہ اک اہلِ دیں پر
وہ تھے اس میں ہر قوم و ملت کے رہبر
لبرٹی میں جوآج جائق ہیں سب سے
بتائیں کہ لبرل بنے ہیں وہ کب سے
فصاحت کے دفتر تھے سب گاؤ خوردہ
بلاغت کے رستے تھے سب ناسپردہ
ادھر روم کی شمع انشا تھی مردہ
ادھر آتشِ پارسی تھی فسردہ
یکاک جو برق آکے چمکی عرب کی
کھلی کی کھلی رہ گئی آنکھ سب کی
عرب کی جو دیکھی وہ آتش زبانی
سنی بر محل ان کی شیوا بیانی
وہ اشعار کی دل میں ریشہ دوانی
وہ خطبوں کی مانند دریا روانی
وہ جادو کے جملے وہ فقرے فسوس کے
تو سمجھے کہ گویا ہم اب تک تھے گونگے
سلیقہ کسی کو نہ تھا مدح و ذم کا
بنہ ڈھب یاد تھا شرحِ شادی و غم کا
نہ انداز تلقین و عظ و حکم کا
خزانہ تھا مدفوں زباں اور قلم کا
نواسنجیاں ان سے سیکھیں یہ سب نے
زباں کھول دی سب کی نطقِ عرب نے
زمانہ میں پھیلی طب ان کی بدولت
وہئی بہرہ ور جس سے ہر قوم و ملت
نہ صرف ایک مشرق میں تھی ان کی شہرت
مسلم تھی مغرب تک ان کی حذاقت
سلر نو میں جو ایک نامی مطب تھا
وہ مغرب میں عطارِ مشکِ عرب تھا
ابو بکر رازی علی ابنِ عیسیٰ
حکیم گرامی حسین ابن سینا
حنین ابن اسحٰق قسمیں دانا
ضیا ابنِ بیطار راس الاطبا
انھیں کے ہیں مشرق میں سب نام لیوا
انہیں سے ہوا پار مغرب کا کھیوا
غرض فن ہیں جو مائیہ دین و دولت
طبیعی ، الہی، ریاضی و حکمت
طب اور کیمیا، ہندہ اور ہئیبت
سیاست، تجارت، عمارت، فلاحت
لگاؤگے کھوج ان کا جاکر جہاں تم
نشاں ان کے قدموں کے پاؤ گے واں تم
ہوا گو کہ پامال بستاں عرب کا
مگر اک جہاں ہے غزالخواں عرب کا
ہراکر گیا سب کو باروں عرب کا
سپیدو سیہ پر ہے احساس عرب کا
وہ قومیں جو ہیں آج سرتاج سب کی
کنونڈی رہیں گی ہمیشہ عرب کی
رہے جب تک ارکان اسلام برپا
چلن اہلِ دیں کا رہا سیدھا سادا
رہا میل سے شہد صافی مصفآ
رہی کھوٹ سے سیمِ خالص مبرا
نہ تھا کوئی اسلام کا مردِ میداں
علم ایک تھا شش جہت میں درافشاں
پہ گدلا ہوا جب کہ چشمہ صفا کا
گیا چھوٹ سر رشتہ دینِ ہدیٰ کا
رہا سر پہ باقی نہ سایہ ہما کا
تو پورا ہوا عہد جو تھا خدا کا
کہ ہم نے بگاڑا نہیں کوئی اب تک
وہ بگڑا نہیں دنیا میں جب تک
برے ان پہ وقت آکے پڑنے لگے اب
وہ دنیا میں بس کر اجڑنے لگے اب
بھرے ان کے میلے بچھڑنے لگے اب
بنے تھے وہ جیسے بگڑنے لگے اب
ہری کھیتیاں جل گئیں لہلہا کر
گھٹا کھل گئی سارے عالم پہ چھاکر
نہ ثروت رہی ان کی قائم نہ عزت
گئے چھوڑ ساتھ ان کا اقبال و دولت
ہوئے علم و فن ان سے ایک ایک رخصت
مٹیں خوبیاں ساری نوبت بہ نوبت
رہا دین باقی نہ اسلام باقی
اک اسلام کا رہ گیا نام باقی
ملے کوئی ٹیلہ اگر ایسا اونچا
کہ آتی ہوواں سے نظر ساری دنیا
چڑھے اس پہ پھر اک خرومند دانا
کہ قدرت کے دنگل کا دیکھے تماشا
تو قوموں میں فرق اس قدر پائے گا وہ
کہ عالم کو زیر و زبر پائے گا وہ
وہ دیکھے گا ہر سو ہزاروں چمن واں
بہت تازہ تر صورتِ باغِ رضواں
بہت ان سے کمتر پہ سر سبز و خنداں
بہت خشک اور بے طراوت مگر ہاں
نہیں لائے گو برگ و باران کے پودے
نظر آتے ہیں ہونہار ان کے پودے
پھر اک باغ دیکھے گا اجڑ سراسر
جہاں خاک اڑتی ہے ہر سو برابر
نہیں تازگی کا کہیں نام جس پر
ہری ٹہنیاں جھڑگئیں جس کی جل کر
نہیں پھول پھل جس میں آنے کے قابل
ہوئے دکھ جس کے جلانے کے قابل
جہاں زہر کا کام کرتا ہے باراں
جہاں آکے دیتا ہے رُو اَبر نیساں
تردو سے جو اور ہوتا ہے ویراں
نہیں راس جس کو خزاں اور بہاراں
یہ آواز پیہم وہاں آرہی ہے
کہ اسلام کا باغ ویراں یہی ہے
وہ دینِ حجازی کا بیباک بیڑا
نشاں جس کا اقصاء عالم میں پہنچا
مزاحم ہوا کوئی خطرہ نہ جس کا
نہ عماں میں ٹھٹکا نہ قلزم میں جھجکا
کئے پے سپر جس نے ساتوں سمندر
وہ ڈوبا دہانے میں گنگا کے آکر
اگر کان دھر کر سنیں اہلِ عبرت
تو سیلون سے تابہ کشمیر و تبت
زمیں روکھ بن پھول پھل ریت پر بت
یہ فریاد سب کر رہے ہیں بہ حسرت
کہ کل فخر تھا جن سے اہلِ جہاں کو
لگا ان سے عیب آج ہندوستاں کو
حکومت نے تم سے کیا گر کنارا
تو اس میں نہ تھا کچھ تمہارا اجارا
زمانہ کی گردش سے ہے کس کو چارا
کبھی یاں سکندر کبھی یاں ہے دارا
نہیں بادشاہی کچھ آخر خدائی
جو ہے آج اپنی تو کل ہے پرائی
ہوئی متقفی جب کہ حکمت خدا کی
کہ تعلیم جاری ہو خیرالوریٰ کی
پڑے دھوم عالم میں دینِ ہدیٰ کی
تو عالم کی تم کو حکومت عطا کی
کہ پھیلاؤ دنیا میں حکمِ شریعت
کرو ختم بندوں پہ مالک کی حجت
ادا کرچکی جب حق اپنا حکومت
رہی اب نہ اسلام کو اس کی حاجت
مگر حیف اے فخرِ آدم کی امت
ہوئی آدمیت بھی ساتھ اس کے رخصت
حکومت تھی گویا کہ اک جھول تم پر
کہ اڑتے ہی اس کے نکل آئے جوہر
زمانہ میں ہیں ایسی قومیں بہت سی
نہیں جس میں تخصیص فرماندہی کی
پر آفت کہیں ایسی آئی نہ ہوگی
کہ گھر گھر پہ یاں چھا گئی آکے پستی
چکور اور شہباز سب اوج پر ہیں
مگر ایک ہم ہیں کہ بے بال و پر ہیں
وہ ملت کہ گردوں پہ جس کا قدم تھا
ہر اک کھونٹ میں جس کا برپا علم تھا
ہو فرقہ جو آفاق میں محترم تھا
وہ امت لقب جس کا خیر الامم تھا
نشاں اس کا باقی ہے صرف اس قدریاں
کہ گنتے ہیں اپنے کو ہم بھی مسلماں
وگر ہماری رگوں میں لہو میں
ہمارے ارادوں  میں اور جستجو میں
دلوں میں زبانوں میں اور گفتگو میں
طبعیت میں فطرت میں عادت میں خومیں
نہیں کوئی ذرہ نجابت کا باقی
اگر ہو کسی میں تو ہے اتفاقی
ہماری ہر اک بات میں سفلہ پن ہے
کمینوں سے بدتر ہمارا چلن ہے
لگا نام آبا کو ہم سے گہن ہے
ہمارا قدم ننگِ اہلِ وچن ہے
بزرگوں کی توقیر کھوئی ہے ہم نے
عرب کی شرافت ڈبوائی ہے ہم نے
نہ قوموں میں عزت، نہ جلسوں میں وقعت
نہ اپنوں سے الفت، نہ غیروں سے ملت
مزاجوں میں سستی، دماغوں میں نخوت
خیالوں میں پستی، کمالوں سے نفرت
عداوت نہاں، دوستی آشکارا
غرض کہ تواضع، غرض کی مدارا
نہ اہلِ حکومت کے ہمراز ہیں ہم
نہ درباریوں میں سرافراز ہیں ہم
نہ علموں میں شایانِ اعزاز ہیں ہم
نہ صنعت میں حرفت میں ممتاز ہیں ہم
نے رکھتے ہیں کچھ منزلت نوکری میں
نہ حصۃ ہمارا ہے سوداگری میں
تنزل نے کی ہے بری گت ہماری
بہت دور پہنچی ہے نکبت ہماری
گئی گزری دنیا سے عزت ہماری
نہیں کچھ ابھرنے کی صورت ہماری
پڑے ہیں اک امید کے ہم سہارے
توقع پہ جنت کی جیتے ہیں سارے
سیاحت کی گوں ہیں نہ مردِ سفر ہیں
خدا کی خدائی سے ہم بے خبر ہیں
یہ دیواریں گھر کی و پیشِ نظر ہیں
یہی اپنے نزدیک حدِ بشر ہیں
ہیں تالاب میں مچھلیاں کچھ فراہم
وہی ان کی دنیا وہی ان کا عالم
بہشت اور ارم اسلسبیل اور کوثر
پہاڑ اور جنگل جزیرے سمندر
اسی طرح کے اور بھی نام اکثر
کتابوں میں پڑھتے رہے ہیں برابر
یہ جب تک نہ دیکھں کہیں کس یقیں پر
کہ یہ آسماں پر ہیں یا ہیں زمیں پر
وہ بے مول پونجی کہ ہے اصل دولت
وہ شائستہ لوگوں کا گنجِ سعادت
وہ آسودہ قوموں کا راس البضاعت
وہ دولت کہ ہے وقت جس سے عبارت
نہیں اس کی وقعت نظر میں ہماری
یو نہیں مفت جاتی ہے برباد ساری
اگر ہم سے مانگے کوئی ایک پیسا
تو ہوگا کم وبیش بار اس کا دنیا
مگر ہاں وہ سرمائیہ دین و دنیا
کہ ایک ایک لمحہ ہے انمول جس کا
نہیں کرتے خست اڑانے میں اس کے
بہت ہم سخی ہیں لٹانے میں اس کے
اگر سانس دن رات کے سب گنیں ہم
تو نکلیں گے انفاز ایسے بہت کم
کہ ہو جن میں کل کیلئے کچھ فراہم
یونہیں گزرے جاتے ہیں دن رات پیہم
نہیںکوئی گویا خبردار ہم میں
کہ یہ سانس آخر ہیں اب کوئی دم میں
گڈریے کا وہ حکم بردار کتا
کہ بھیڑوں کی ہر دم ہے رکھوال کرتا
جو ریوڑ میں ہوتا ہے پتے کا کھڑکا
تو وہ شیر کی طرح پھرتا ہے بھپرا
گر انصاف کیجئے تو ہم سے بہتر
کہ غافل نہیں فرض سے اپنے دم بھر
وہ قومیں جو سب راہیں طے کرچی ہیں
ذخیرے ہر اک جنس کے بھر چکی ہیں
ہر اک بوجھ بار اپنے سر دھر چکی ہیں
ہوئیں تب ہیں زندہ کہ جب مرچکی ہیں
اسی طرح راہِ طلب میں ہیں پویا
بہت دور ابھی ان کو جانا ہے گویا
کسی وقت جی بھر کے سوتے نہیں وہ
کبھی سیر محنت سے ہوتے نہیں وہ
بضاعت کو اپنی ڈبوتے نہیں وہ
کوئی لمحہ بے کار کھوتے نہیں وہ
نہ چلنے سے تھکتے نہ اکتاتے ہیں وہ
بہت بڑھ گئے اور بڑھے جاتے ہیں وہ
مگر ہم کہ اب تک جہاں تھے وہیں ہیں
جمادات کی طرح بارِ زمیں ہیں
جہاں میں ہیں ایسے کہ گویا نہیں ہیں
زمانہ سے کچھ ایسے فارغ نشیں ہیں
کہ گویا ضرویری تھا جو کام کرنا
وہ سب کر چکے ایک باقی ہے مرنا
یہاں اور ہیں جتنی قومیں گرامی
خود اقبال ہے آج ان کا سلامی
تجارت میں ممتاز دولت میں نامی
زمانہ کے ساتھی ترقی کے حامی
نہ فارغ ہیں اولاد کی تربیت سے
نہ بے فکر ہیں قوم کی تقویت سے
دکان ان کی ہے اوعر بازار ان کا
بنج ان کا ہے اور بہوار ان کا
زمانہ میں پھیلا ہے بیوپار ان کا
ہے پیر و جواں برسرِ کار ان کا
مدار اہلکاری کا ہے اب انہیں پر
انہیں کے ہیں آفس انہیں کے ہیں دفتر
معزز ہیں ہر ایک دربار میں وہ
گرامی ہیں ہر ایک سرکار میں وہ
نہ رسوا ہیں عادات و اطوار میں وہ
نہ بدنام گفتار و کردار میں وہ
نہ پیشہ سے حرفہ سے انکار ان کو
نہ محنت مشقت سے کچھ عار ان کو
جو گرتے ہیں گر کر سنبھل جاتے ہیں وہ
پڑے زد تو بچ کر نکل جاتے ہیں وہ
ہر اک سانچے میں جاکے ڈھل جاتے ہیں وہ
جہاں رنگ بدلا بدل جاتے ہیں وہ
ہر اک وقت کا مقتضیٰ جانتے ہیں
زمانہ کے تیور وہ پہچانتے ہیں
مگر ہے ہماری نظر اتنی اونچی
کہ یکساں ہے واں سب بلدی و پستی
نہیں اب تک اصلا خبر ہم کو یہ بھی
کہ ہے کون مردار کتیا ترقی
جدھر کھول کر آنکھ ہم دیکھتے ہیں
زمانہ کو اپنے سے کم دیکھتے ہیں
زمانہ کا دن رات ہے یہ اشارا
کہ ہے آشتی مین مری یاں گزارا
نہیں پیروی جن کو میری گوارا
مجھے ان سے کرنا پڑے گا کنارا
سدا ایک ہی رخ نہیں ناؤ چلتی
چلو تم ادھر کو، ہوا ہو جدھر کی
چمن میں وا آچکی ہے خزاں کی
پھری ہے نظر دیر سے باغباں کی
صدا اور ہے بلبلِ نغمہ خواں کی
کوئی دم میں رحلت ہے اب گلستاں کی
تباہی کے خواب آرہے ہیں نظر سب
مصیبت کی ہے آنے والی سحر اب
فلاکت جسے کہئے ام الجرائم
نہیں رہتے ایماں پہ دل جس سے قائم
بناتی ہے انسان کو جو بہائم
مصلّی ہیں دل جمع جس سے نہ صائم
وہ یوں اہلِ اسلام پر چھا رہی ہے
کہ مسلم کی گویا نشانی یہی ہے
کہیں مگر کے گر سکھاتی ہے ہم کو
کہیں جھوٹ کی لو لگاتی ہے ہم کو
خیانت کی چالیس سجھاتی ہے ہم کو
خوشامد کی گھاتیں بناتی ہے ہم کو
فسوں جب یہ پاتی نہیں کار گر وہ
تو کرتی ہے آخر کو دریوزہ گر وہ
یہاں جتنی قومیں ہمارے سوا ہیں
ہزار ان میں خوش ہیں تو دو بینوا ہیں
یہاں لاکھ میں دو اگر اغنیا ہیں
تو سو نیم بسمل ہیں باقی گدا ہیں
ذرا کام غیرت کو فرمائیں گر ہم
تو سمجھیں کہ ہیں متبذل کس قدر ہم
بگاڑے ہیں گردش نے جو خاندانی
نہیں جانتے بس کہ روٹی کمانی
دلوں میں ہے یہ یک قلم سب بے ٹھانی
کہ کیجئے بسر مانگ کر زندگانی
جہاں قدر دانوں کا ہیں کھوج پاتے
پہنچتے ہیں واں مانگتے اور کھاتے
کہیں باپ دادا کا ہیں نام لیتے
کہیں روشناسی سے ہیں کام لیتے
کہیں جھوٹے وعدوں پہ ہیں دام لیتے
یونہی ہیں وہ دے دے کے دم دام لیتے
بزرگوں کے نازاں ہیں جس نام پر وہ
اسے بیچتے پھرتے ہیں در بدر وہ
یہ ہیں ڈھنگ ان تازہ آفت زدوں کے
بہت کم زمانہ ہوا جن بگڑے
ابھی ایک عالم ہے آگاہ جن سے
کہ ہیں کس کے بیٹے وہ اور کس کے پوتے
جنہیں دیس پردیس سب جانتے ہیں
حسب اور نسب جن کا پہچانتے ہیں
مگر منٹ چکا جن کا نام و نشاں ہے
پرانی ہوئی جن کی اب داستاں ہے
فسانوں میں قصوں میں جن کا بیاں
بہت نسل پر تنگ ان کی جہاں ہے
نہیں ان کی قدر اور پرسش کہیں اب
انہیں بھیک تک کوئی دیتا نہیں اب
بہت آگ چلموں کی سلگانے والے
بہت گھانس کی گھٹڑیاں لانے والے
بہت دربدر مانگ کر کھانے والے
بہت فاقے کرکر کے مرجانے والے
جو پوچھو کہ کس کان کے ہیں وہ جوہر
تو نکلیں گے نسلِ ملوک ان میں اکثر
انہی کے بزرگ ایک دن حکمراں تھے
انہی کے پرستار پیر و جواں تھے
یہی مامنِ عاجز و ناتواں تھے
یہی مرجعِ ویلم و اصفہاں تھے
یہی کرتے تھے ملک کی گلہ بانی
انہیں کے گھروں میں تھی صاحب قرآنی
یہ اے قومِ اسلام عبرت کی جاہے
کہ شاہوں کی اولاد در درگدا ہے
جسے سنئے افلاس میں مبتلا ہے
جسے دیکھئے مفلس و بینوا ہے
نہیں کوئی ان میں کمانے کے قابل
اگر ہیں تو ہیں مانگ کھانے کے قابل
نہیں مانگنے کا طریق ایک ہی یاں
گدائی کی ہیں صورتیں نت نئی یاں
نہیں حصر کنگلوں پہ گدیہ گری یاں
کوئی دے تو منگتوں کی ہے کہا کمی
بہت ہاتھ پھیلائے زیرِ ردا ہیں
چھپے اجلے کپڑوں میں اکثر گدا ہیں
بہت آپ کو کہہ کے مسجد کے بانی
بہت بن کے خود سیدِ خاندانی
بہت سیکھ کر نوحہ و سوز خوانی
بہت مدح میں کرکے رنگیں بیانی
بہت آستانوں کے خدّام بن کر
پڑے مانگتے کھاتے پھرتے ہیں در در
مشقت کو محنت کو جو عار سمجھیں
ہنر اور پیشہ کو جو خوار سمجھیں
تجارت کو کھیتی کو دشوار سمجھیں
فرنگی کے پیسے کو مردار سمجھیں
تن آسانیاں چاہیں اور آبرو بھی
یہ قوم آج ڈوبے گی گر کل نہ ڈوبی
کریں نوکری بھی تو بے عزتی کی
جو روٹی کمائیں تو بے حرمتی کی
کہیں پائیں خدمت تو بے عزتی کی
قسم کھائیے ان کی خوش قسمتی کی
امیروں کے بنتے ہیں جب یہ مصاحب
تو جاتے ہیں ہو کر حمت سے تائب
کہیں ان کی صحبت میں گانا بجانا
کہیں مسخرہ بن کے ہنسنا ہنسانا
کہیں پھبتیاں کہہ کے انعام پانا
کہیں چھیڑ کر گالیاں سب سے کھانا
یہ کام اور بھی کرتے ہیں پر نہ ایسے
مسلمان بھائی سے بن آئیں جیسے
امیروں کا عالم نہ پوچھو کہ کیا ہے
خمیران کا اور ان کی طینت جدا ہے
سزاوار ہے ان کو جو نا سزا ہے
روا ہے انہیں سب کہ جو ناروا ہے
شریعت ہوئی ہے نکو نام ان سے
بہت فخر کرتا ہے اسلام ان سے
ہر اک بول پر ان کے مجلس فدا ہے
ہر اک بات پر واں درست اور بجا ہے
نہ گفتار میں ان کی کوئی خطا ہے
نہ کردار ان کا کوئی ناسزا ہے
وہ جو کچھ کہ ہیں ، کہہ سکے کون ان کو
بنایا ندیموں نے فرعون ان کو
وہ دولت کہ ہے مائیہ دین و دنیا
وہ دولت کہ ہے تو شئہ راہِ عقبیٰ
سلیماں نے کی جس کی حق سے تمنا
بڑھا جس سے آفاق میں نام کسریٰ
کیا جس نے حاتم کو مشہور دوراں
کیا جس نے یوسف کو مسبحودِ اخواں
ملا ہے یہ فخر اس کو ان کی بدولت
کہ سمجھی گئی ہے وہ اصلِ شقاوت
کہیں ہے وہ سرمائیہ جہل و غفلت
کہیں نشئہ بادئہ کبر و نخوت
جہاں کے لئے جو کہ آبِ بقا ہے
وہ اقوم کے حق میں سمی دوا ہے
ادھر مال و دولت نے یاں منہ دکھایا
ادھر ساتھ ساتھ اس کے ادبار آیا
پڑا آکے جس گھر پہ ثروت کا سایا
عمل واں سے برکت نے اپنا اٹھایا
نہیں راس یاں چار پیسے کسی کو
مبارک نہیں جیسے پر چیونٹی کو
سمجھتے ہیں سب عیب جن عادتوں کو
بہائم سے نسبت ہے جن سیرتوں کو
چھپاتے ہیں اوباش جن خصلتوں کو
نہیں کرتے اجلاف جن حرکتوں کو
وہ یاں اہلِ دولت کو ہیں شیرِ مادر
نہ خوفِ خدا ہے نہ شرمِ پیمبر
طبعیت اگر لہو و بازی پہ آئی
تو دولت بہت سی اسی میں لٹائی
جو کی حضرتِ عشق نے رہنمائی
تو کردی بھرے گھر کی دم میں صفائی
پھر آخر لگے مانگنے اور کھانے
یونہیں مٹ گئے یاں ہزاروں گھرانے
نہ آغاز پر اپنے غور ان کو اصلا
نہ انجام کا اپنے کچھ ان کو کھٹکا
نہ فکر ان کو اولاد کی تربیت کا
نہ کچھ ذلتِ قوم کی ان کو پروا
نہ حق کوئی دنیا پہ ان کا نہ دیںپر
خدا کو وہ کیا منہ دکھائیں گے جاکر
کسی قوم کا جب الٹتا ہے دفتر
تو ہوتے ہیں مسخ ان میں پہلے تو نگر
کمال ان میں رہتے ہیں باقی نہ جوہر
نہ عقل ان کی ہادی نہ دین انکا رہبر
نہ دنیا میں ذات نہ عزت کی پروا
نہ عقبیٰ میں دوزخ نہ جنت کی پروا
نہ مظلوم کی آہ و زاری سے ڈرنا
نہ مفلوک کے حال پر رحم کرنا

ہوا و ہوس میں خودی سے گزرنا
تعیش میں جینا نمائش پہ مرنا
سدا خوابِ غفلت میں بیہوش رہنا
دمِ نزع تک خود فراموش رہنا
پریشاں اگر قحط سے اک جہاں ہے
تو بے فکر ہیں کیونکہ گھر میں سماں ہے
اگر باغِ امت میں فصلِ خزاں ہے
تو خوش ہیں کہ اپنا چمن گل فشاں ہے
بنی نوعِ انساں کا حق ان پہ کیا ہے
وہ اک نوع، نوعِ بشر سے جدا ہے
کہاں بندگانِ ذلیل اور کہاں وہ
بسر کرتے ہیں بے غمِ قوت و ناں وہ
پہنتے نہیں جز سمور و کتاں وہ
مکاں رکھتے ہیں رشکِ خلدِ جناں وہ
نہیں چلتے وہ بے سواری قدم بھر
نہیں رہتے بے نغمہ و ساز دم بھر
کمر بستہ ہیں لوگ خدمت میں ان کی
گل و لالہ رہتے ہیں صحبت میں ان کی
نفاست بھری ہے طبعیت میں ان کی
نزاکت سو داخل ہے عادت میں ان کی
دواؤں میں مشک ان کی اٹھتا ہے ڈھیروں
وہ پوشاک میں عطر ملتے ہیں سیروں
یہ ہوسکتے ہیں ان کے ہم جنس کیونکر
نہیں چین جن کو زمانے سے دم بھر
سواری کو گھوڑا نہ خدمت کو نوکر
نہ رہنے کو گھر اور نہ سونے کو بستر
پہننے کو کپڑا نہ کھانے کو روٹی
جو تدبیر الٹی تو تقدیر کھوٹی
یہ پہلا سبق تھا کتاب ہُدیٰ  کا
کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا
وہی دوست ہے خالقِ دوسرا کا
خلائق سے ہی جس کو رشتہ ولا کا
یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں
عمل جن کا ہے اس کلامِ متیں پر
وہ سر سبز ہیں آج روئے زمیں پر
تفوق ہے ان کو کہین و مہیں پر
مدار آدمت کا ہے اب انہیں پر
شریعت کے جو ہم نے پیمان توڑے
وہ لے جاکے سب اہلِ مغرب نے جوڑے
سمجھتے ہیں گمراہ جن کو مسلمان
نہیں جن کو عقبیٰ میں امیدِ غفراں
نہ حصہ میں فردوس جن کے نہ رضواں
نہ تقدیر میں حور جن کے نہ غلماں
پس از مرگ دوزخ ٹھکانا ہے جن کا
حمیم آب و زقوم کھانا ہے جن کا
وہ ملک اور ملت پہ اپنی فدا ہیں
سب آپس میں ایک اک کے حاجت روا ہیں
اولوالعلم ہیں ان میں یا اغنیا ہیں
طلب گار بہبود خلقِ خدا ہیں
یہ تمغہ تھا گویا کہ حصۃ انہیں کا
کہ حب الوطن ہے نشان مومنیں کا
امیروں کی دولت غریبوں کی ہمت
ادیبوں کی انشا حکیموں کی حکمت
فصیحوں کے خطبے شجاعوں کی جرئات
سپاہی کے ہتیار شاہوں کی طاقت
دلوں کی امیدیں امنگوں کی خوشیاں
سب اہلِ وطن اور وطن پر ہیں قرباں
عروج ان کا جو تم عیاں دیکھتے ہو
جہاں میں انہیں کامراں دیکھتے ہو
مطیع ان کا سارا جہاں دیکھتے ہو
انہیں بر تر از آسماں دیکھتے ہو
یہ ثمرے ہیں ان کی جوانمردیوں کے
نتیجے ہیں آپس کی ہمدردیوں کے
غنی ہم میں ہیں جو کہ اربابِ ہمت
مسلم ہے عالم میں جن کی سخاوت
اگر ہے مشائخ سے ان کو عقیدت
تو ہے پیرزادوں پہ وقف ان کی دولت
نکمے ہیں دن رات واں عیش کرتے
پہ نوکر ہیں جتنے وہ بھوکے ہیں مرتے
عمل واعظوں کے اگر قول پر ہے
تو بخشش کی امید بے صرفِ زر ہے
نماز اور روزہ کی عادت اگر ہے
تو روزِ حساب ان کو پھر کس کا ڈر ہے
اگر شہر میں کوئی مسجد بنا دی
تو فردوس میں نیو اپنی جمادی
عمارت کی بنیاد ایسی اٹھانی
نہ نکلے کہیں ملک میں جس کا ثانی
تماشوں میں ثروت بڑوں کی اڑانی
نمائش میں دولت خدا کی لٹانی
چھٹی بیاہ مین کرنے لاکھوں کے ساماں
یہ ہیں ان کی خوشیاں یہ ہیں انکے ارماں
مگر دینِ بر حق کا بوسیدہ ایواں
تزلزل مین مدت سے ہیں جس کے ارکاں
زمانہ میں ہے جو کوئی دن کا مہماں
نہ پائیں گے ڈھونڈا جسے پھر مسلماں
عزیزوں نے اس سے توجہ اٹھا لی
عمارت کا ہے اس کی اللہ والی
پڑی ہیں سب اجڑی ہوئی خانقاہیں
وہ درویش و سلطاں کی امید گاہیں
کھیلیں تھیں جہاں علمِ باطن کی راہیں
فرشتوں کی پڑتی تھیں جن پر نگاہیں
کہاں ہیں وہ جذبِ الٰہی کے پھندے
کہاں ہیں وہ اللہ کے پاک بندے
وہ علمِ شریعت کے ماہر کدھر ہیں
وہ اخبار دیں کے مبصر کدھر ہیں
اصولی کدھر ہیں، مناظر کدھر ہیں
محدث کہاں ہیں، مفسر کدھر ہیں
وہ مجلس جو کل سر بسر تھی چراغاں
چراغ اب کہیں ٹمٹماتا نہیں واں
مدارس وہ تعلیم دیں کے کہاں ہیں
مراحل وہ علم و یقیں کے کہاں ہیں
وہ ارکاں شرعِ متیں کے کہاں ہیں
وہ وارث رسول امیں کے کہاں ہیں
رہا کوئی امت کا ملجا نہ ماویٰ
نہ قاضی نہ مفتی نہ صوفی نہ مُلّا
کہاں ہیں وہ دینی کتابوں کے دفتر
کہاں ہیں وہ علمِ الٰہی کے منظر
چلی ایسی اس بزم میں بادِ صرصر
بجھیں مشعلیں نورِ حق کی سراسر
رہا کوئی ساماں نہ مجلس میں باقی
صراحی نہ طنبور، مطرب نہ ساقی
بہت لوگ بن کے ہوا خواہِ امت
سفیہوں سے منوا کے اپنی فضیلت
سدا گاؤں درگاؤں نوبت بہ نوبت
پڑے پھرتے ہیں کرتے تحصیلِ دولت
یہ ٹھہرے ہیں اسلام کے رہنما اب
لقب ان کا ہے وارثِ انبیا اب
بہت لوگ پیروں کی اولاد بن کر
نہیں ذات والا میں کچھ جن کے جوہر
بڑا فخر ہے جن کو لے دے کے اس پر
کہ تھے ان کے اسلاف مقیولِ داور
کرشمے ہیں جاجا کے جھوٹے دکھاتے
مریدوں کو ہیں لوٹتے اور کھاتے
یہ ہیں جادہ پیمائے راہِ طریقت
مقام ان کا ہے ماورائے شریعت
انہیں پر ہے ختم آج کشف و کرامت
انہیں کے ہے قبضہ میں بندوں کی قسمت
یہی ہیں مراد اور یہی ہیں مرید اب
یہی ہیں جنید اور یہی بایزید اب
بڑھے جس سے نفرت وہ تقریر کرنی
جگر جس سے شق ہوں وہ تحریر کرنی
گنہگار بندوں کی تحقیر کرنی
مسلمان بھائی کی تکفیر کرنی
یہ ہے عالموں کا ہمارے طریقہ
یہ ہے ہادیوں کا ہمارے سلیقہ
کوئی مئسلہ پوچھنے ان سے جائے
تو گردن پہ بارِ گراں لے کے آئے
اگر بد نصیبی سے شک اس میں لائے
تو قطعی خطاب اہلِ دوزخ کا پائے
اگر اعتراض اس کی نکلا زباں سے
تو آنا سلامت ہے دشوار وں سے
کبھی وہ گلے کی رگیں ہیں پھلاتے
کبھی جھاگ پر جھاگ ہیں منہ پہ لاتے
کبھی خوک اور سگ ہیں اس کو بتاتے
کبھی مارنے کو عصا ہیں اٹھاتے
ستوں چشمِ بددور ہیں آپ دیں کے
نمونہ ہیں خلقِ رسولامیں گے
جو چاہے کہ خوش ان سے مل کر ہو انساں
تو ہے شرط وہ قوم کا ہو مسلماں
نشاں سجدہ کا ہو جبیں پر نمایاں
تشرع میں اس کے نہ ہو کوئی نقصاں
لبیں بڑھ رہی ہوں نہ ڈاڑھی چڑھی ہو
ازار اپنی حد سے نہ آگے بڑھی ہو
عقائد میں حضرت کا ہم داستاں ہو
ہر اک اصل مین فرع میں ہم زباں ہو
حریفوں سے ان کے بہت بد گماں ہو
مریدوں کا ان کے بڑا مدح خواح ہو
نہیں ہے گر ایسا تو مردود دیں ہے
بزرگوں سے ملنے کے قابل نہیں ہے
شریعت کے احکام تھے وہ گوارا
کہ شیدا تھے ان پر یہود و انصاریٰ
گواہ ان کی نرمی کا قرآن ہے سارا
خود اَلدّینُ یُسر نبی نے پکارا
مگر یاں کیا ایسا دشوار ان کو
کہ مومن سمجھنے لگے بار ان کو
نہ کی ان کی اخلاق میں رہنمائی
نہ باطن میں کی ان کے پیدا صفائی
پہ احکام ظاہر کے لے یہ بڑھائی
کہ ہوتی نہیں ان سے دم بھر رہائی
وہ دیں جو کہ چشمہ تھا خلقِ نکو کا
کیا قلتیں اس کو غسل و وضو کا
سدا اہلِ تحقیق سے دل میں بل ہے
حدیثوں پہ چلنے میں دیں کا خلل ہے
فتاووں پہ بالکل مدارِ عمل ہے
ہر اک رائے قرآں کا نعم البدل ہے
کتاب اور سنت کا ہے نام باقی
خدا اور نبی سے نہیں کام باقی
جہاں مختلف ہوں روایات باہم
کبھی ہوں نہ سیدھی روایت سے خوش ہم
جسے عقل رکھے نہ ہر گز مسلم
اسے ہر روایت سے سمجھیں مقدم
سب اس میں گرفتار چھوٹے بڑے ہیں
سمجھ پر ہماری یہ پتھر پڑے ہیں
کرے غیر گربت کی پوجا تو کافر
جو ٹھرائے بیٹا خدا کا تو کافر
جھکے آگ پر بہر سجدہ تو کافر
کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر
مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں
پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں
نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں
اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں
مزاروں پہ دن رات نذریں چڑھائیں
شہیدوں سے جاجا کے مانگیں دعائیں
نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے
نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے
وہ دیں جس سے توحید پھیلی جہاں میں
ہوا جلوہ گر حق زمین و زماں میں
رہا شرک باقی نہ وہم و گماں میں
وہ بدلا گیا آکے ہندوستاں میں
ہمیشہ سے اسلام تھا جس پہ نازاں
وہ دولت بھی کھو بیٹھے آخر مسلماں
تعصب کہ ہے دشمنِ نوع انساں
بھرے گھر کیے سیکڑوں جس نے ویراں
ہوئی بزمِ نمرود جس سے پریشاں
کیا جس نے فرعون کو نذرِ طوفاں
گیا جوش میں بو لہب جس کے کھویا
ابو جہل کا جس نے بیڑا ڈبوبا
وہ یاں اک عجب بھیس میں جلوہ گر ہے
چھپا جس کے پردے میں اس میں ضرر ہے
بھرا زہر جس جام میں سر بسر ہے
وہ آبِ بقا ہم کو آتا نظر ہے
تعصب کو اک جزوِ دیں سمجھے ہیں ہم
جہنم کو خلدِ بریں سمجھے ہیں ہم
ہمیں واعظوں نے یہ تعلیم دی ہے
کہ جو کام دینی  ہے یا دنیوی ہے
مخالف کی ریس اس میں کرنی بڑی ہے













Friday, 4 April 2014

Jamat-e-Islami's Mr. Syed Munawwar Hasan

محترم سید منوّر حسن صاحب!
آپکی ایک وڈیو کلپ دیکھی جس میں آپ نے کسی  ٹیلویژن پروگرام میں اپنی میزبان کو یزید کے بارے میں بڑے  تذبذب کے عالم میں یہ جواب دیا کہ کربلا دو صحابیوں کی جنگ تھی-  کاش آپ ان دو صحابیوں کے نام بھی لے دیتے اور یہ بھی بتاتے کہ ان دو صحابیوں کو کیا پڑی تھی کہ ایک صحابی دوسرے صحابی کی گردن اتاردے اور انکے بچوں کو بھی قتل کر دے اور گھر کی خواتین کو قید کر لے-   میرے خیال میں ایسا تو اگر دو عام مسلمان بھی کریں تو کوئی جاہل سے جاہل بھی پہلے مسلمان کو ظالم قرار دے گا-  میں نے مودودی صاحب کے  تفہیم القرآن کا مطالعہ کیا ہوا ہے اور کہہ سکتی ہوں کہ مجھے ظالم اور مظلوم اور شہادت کا اتنا شفاف تصور بہت کم اسلامی کتابوں میں ملا جتنا تفہیم القرآن میں موجود ہے- کبھی فرصت ہو تو آپ بھی تفہیم القرآن کا مطالعہ کیجئے گا، اچھی تفسیر ہے-  

پہلے تو کچھ اصطلاحات کی وہ تعریف پڑھ لیجئے جو مجھ جیسے جاہل کے سمجھ میں آئی- غلط ہوں تو جماعت اسلامی والے میری اصلاح ضرور کریں- 

اہل بیت 
اہل بیت کا لفظ عموما تمام انبیاء علیھم السلام کے اور خاص کررسول الله صلی اللہ علیہ وسلّم کے ان گھر والوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جو آپ صلی الله علیہ وسلّم سمیت تمام انبیاء کرام کی تعلیمات پر ایمان لاۓ- اور اس تعریف کے تحت حضرت نوح علیہ السلام کا ایک بیٹا جس نے کفر کیا یعنیاپنے باپ کی تعلیمات کا انکار کیا، حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی جس نےاپنے شوہر کی تعلیمات سے انکار کیا,حضرت ابراھیم علیہ السلام کا باپ آذر جس نے اپنے بیٹے کی تعلیمات سے انکار کیا اور ابو لہب اور اسکی بیوی ام جمیل جنہوں نے اپنے بھتیجے محمّد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلّم کی تعلیمات پر ایمان لانے سے انکار کیا اہل بیت میں شامل نہیں- اور جو ایمان لاۓ اور دینی جدّ و جہد میں رسول کے ساتھہ رہے انکے رتبے اور ایمان میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے-  مزید یہ کہ انکے کام اور زندگی کے فیصلوں میں بھی کوئی شک نہیں ہونا چاہیے-  حضرت علی براہ راست رسول الله صلی علیہ وسلّم کے زیر تربیت رہے اور کئی سال تک رہے- یہاں تک کہ اپنی محبوب بیٹی سیّدہ فاطمه الزہرہ کی زندگی کے معاملے میں بھی حضرت علی پر ہی بھروسہ کیا- اور یہ گھرانہ اپنے بچوں سمیت صحابی نہیں بلکہ اہل بیت تھا-  جس میں غیر ہاشمی اور عجمی خون حضرت سلمان فارسی کی صورت میں شامل ہوا- اور رسول نے خود انہیں اہل بیت میں سے قرار دیا-  اگر اہل بیت اور صحابہ کرام میں فرق نہ ہوتا تو رسول الله سارے صحابہ کو اہل بیت میں شامل فرما دیتے، صرف حضرت سلمان فارسی کو نہیں- 
صحابیوں میں سے بہت سوں نے اپنے بچپن رسول الله کے ساتھہ گذارا- لیکن انہوں نے کسی اور کے لئے، حتیٰ کہ امام حسن تک کے بارے میں یہ نہیں کہا کہ "میں حسین سے ہوں اور حسین مجھ سے" اور کسی اور کے لئے حضرت فاطمہ سے یہ نہیں فرمایا کہ "فاطمہ، حسین کو رونے نہ دیا کرو، اسکے رونے سے مجھے تکلیف ہوتی ہے"- 

صحابی 
صحابی کی تعریف یہ ہے کہ ہر وہ شخص (مرد یا عورت) جس نے آپ الله صلی الله علیہ وسلّم کو دیکھا، سنا اور پھر آپ الله صلی الله علیہ وسلّم کے ہاتھہ پر اسلام قبول کیا اور ایمان بھی لاۓ- (یہاں اسلام لانا اور ایمان لانا دو مختلف حالتیں ہیں) آپ کی صحبت اختیار کی اور اسلام سے مخلص رہا- وہ صحابی ہے-  اس تعریف کے مطابق امر ابن ہاشم (ابوجہل)، امیّہ اور دوسرے مکّہ کے لوگ صحابی نہیں کہلاۓ جا سکتے کیونکہ انہوں نے آپ الله صلی الله علیہ وسلّم کو دیکھا بھی، سنا بھی اور گفتگو بھی کی لیکن آپ الله صلی الله علیہ وسلّم کی تعلیمات پر ایمان نہیں لاۓ بلکہ انکار کیا اور آپ الله صلی الله علیہ وسلّم کو تکلیفیں دیں- اسی طرح عبد الله بن أبي بن سلول بھی صحابی نہیں کہلایا جا سکتا- حالانکہ اس نے اسلام تو قبول کیا اور اکثر نماز میں پہلی صف میں کھڑا ہوتا اور لوگوں کو ظاہری جذبے کے ساتھ نماز کے لئے بلاتا- لیکن وہ ایمان نہیں لایا تھا- اندر ہی اندر اسلام اور آپ الله صلی الله علیہ وسلّم کی تحقیر کے منصوبے بناتا-  اسی لئے یہ "منافقوں کا باپ/ سردار " کہلایا-  

ظالم، مظلوم اور مجاہد 
دوسروں پر جبر کرنے والے اور دوسروں کا حق چھیننے والے کو ظالم کہتے ہیں- مومن یعنی ایمان لانے والے ظالم نہیں ہوتے کیونکہ انکے دل میں الله کی صفت عدل کا اور آخرت کے احتساب کا خوف ہوتا ہے- اسکے علاوہ ظالم مسلمان بھی ہو سکتا ہے یا کسی اور مذھب سے بھی یا پھر کوئی ایسا شخص جو خدا کے وجود سے انکاری ہو یا شیطان کا ماننے والا- ظالم ایک امیر شخص بھی ہو سکتا ہے اور غریب بھی-  ایک تعلیم یافتہ بھی ہو سکتا اور ایک جاہل بھی-  ایک مرد بھی ہو سکتا ہے اور ایک عورت بھی- ایک فرد بھی اور پورا گروہ بھی- اپنا بھی اور غیر بھی- 
اور ظالم فرعون ہو، شدّاد ہو یا یزید - سب کا مذہب ایک ہوتا ہے اور وہ ہے خود پرستی-  ظالم کا رشتہ تو انسانیت کے ساتھہ نہیں ہوتا, صحابیت کا ساتھہ کیا ہوگا؟
 اور قرآن میں کتنی جگہ ظالم کے ظلم سے پناہ کی دعا کی گئی ہے- 

" اور موسیٰ نے کہا کہ بھائیو! اگر تم خدا پر ایمان لائے ہو تو اگر (دل سے) فرمانبردار ہو تو اسی پر بھروسہ رکھو- تو وہ بولے کہ ہم خدا ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ اے ہمارے پروردگار ہم کو ظالم لوگوں کے ہاتھ سے آزمائش میں نہ ڈال- اور اپنی رحمت سے قوم کفار سے نجات بخش- " سوره یونس 

"ان دونوں (یعنی بہشت اور دوزخ) کے درمیان (اعراف نام) ایک دیوار ہو گی اور اعراف پر کچھ آدمی ہوں گے جو سب کو ان کی صورتوں سے پہچان لیں گے۔ تو وہ اہل بہشت کو پکار کر کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو۔ یہ لوگ بھی بہشت میں داخل تو نہیں ہوں گے مگر امید رکھتے ہوں گے- اور جب ان کی نگاہیں پلٹ کر اہل دوزخ کی طرف جائیں گی تو عرض کریں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو ظالم لوگوں کے ساتھ شامل نہ کیجیو-" سوره الاعراف 

"اے ہمارے پروردگار ہم کو کافروں کے ہاتھ سے عذاب نہ دلانا اور اے پروردگار ہمارے ہمیں معاف فرما۔ بےشک تو غالب حکمت والا ہے-" سوره الممتحنہ 

مظلوم وہ ہوتا ہے جس سے اس کا حق چھین لیا گیا ہو اور اس میں وہ حق واپس لینے کی ہمّت نہ ہو-  مظلوم ایک امیر شخص بھی ہو سکتا ہے اور غریب بھی-  ایک تعلیم یافتہ بھی ہو سکتا اور ایک جاہل بھی-  ایک مرد بھی ہو سکتا ہے اور ایک عورت بھی- ایک فرد بھی اور پورا گروہ بھی اور ایک خاندان بھی- مظلوم اس حد تک صابر ہوتا کہ وہ ظالم کا ہر ظلم برداشت کرتا رہتا ہے اور اپنے حق میں کسی غیبی امداد کا منتظر ہوتا ہے-

مجاہد کے لغوی معنی تو جدّ جہد کرنے والے کے ہیں- لیکن شرعی اصطلاح میں مجاہد ایسے شخص کو کہتے ہیں جو دین کے کسی بھی کام کے لئے کوششیں کرے اور مخالفتیں ہوں تو انکا بھی سامنا کرے- اور جو کسی ظالم سے مقابلہ کرے کسی مظلوم کا حق واپس دلانے کے لئے-  مجاہد اس حد تک صابر ہو تا ہے کہ وہ اپنےارادوں پر جما رہتا ہے اور اپنے ارادوں کی تکمیل تک ہر تکلیف برداشت کرتا ہے یہاں تک کہ اسے یا تو کامیابی نصیب ہوتی ہے یا شہادت-   
اسکے معنوں کی گہرائی میں جائیں تو معلوم ہوگا کہ اسلام دین فطرت ہے اور اس لحاظ سے اسلامی تعلیمات کو ہر انسان تک پہنچانا یعنی تبلیغ بھی مومنین کا حق ہے (ماننا یا نہ ماننا دوسروں کا حق)- 
اسی طرح اگر مسلمانوں سے انکے اسلام کے مطابق زندگی گذارنے کا حق چھین لیا گیا ہو یا چھینے جانے کا خطرہ ہو تو اس حق کو واپس دلانے والے اور اس حق کی حفاظت کرنے والے بھی مجاہدین ہیں اور ان کوششوں میں انکی موت شہادت کی موت ہے-  چاہے یہ امام حسین کا چھوٹا سا قافلۂ حق ہو یا پھر تحریک پاکستان کی جماعت حق- 

کربلا کی جنگ 
میرا یہ عقیدہ ہے کہ رسول صلی الله علیہ وسلّم کا گھرانہ کبھی کسی ایسے کام میں اپنا کردار ادا نہیں کرسکتا جس کا مقصد صرف ظاہری ہو یا صرف سیاسی ہو یا صرف دنیاوی ہو یا حکومت کے لئے یا پھر ایسے ہی بلاوجہ کسی صحابی کے مقابلے پر کھڑا ہونا ہو-  یہ گھرانہ بہترین روحانی، عقلی اور علمی صلاحیتوں کا خزانہ تھا-  جس گھرانے نے حکومت کے لئے زندگی نہیں گذاری وہ حکومت کے لئے تلوار کیسے اٹھا سکتے ہیں، اپنی جان کیسے دے سکتے ہیں؟ اور وہ بھی اپنی خواتین اور بچوں کو ساتھہ لے جا کر؟

کربلا دو صحابہ کی جنگ نہیں تھی- یا ظالم اور مظلوم کی جنگ بھی نہیں تھی کیونکہ رسول کا گھرانہ مظلوم نہیں تھا- یہ ظالم اور مجاہد کی جنگ تھی-  دو قومی نظریہ کی جنگ تھی، ایک طرف نظریہ دین محمّدی تھا اور دوسری طرف اپنی پسند کا اسلام - 

کیا نسل در نسل حکومت یا کسی ایک ہی شخص کی پسند یا ناپسند پر بنائی ہوئی حکومت یا اقرباء پروری اور ذاتی فوائد کے لئے بنائی گئی حکومت، اسلام کی روح کے مطابق ہے؟ 

یزید حکمران کیسے بنا؟ یزید کا حکمران بننا کیا شرعی قوانین اور اسلامی جمہوریت کے مطابق تھا؟

اور کیا آج کا ہر ایرے غیرے کے ووٹ پر حکومت بنانے کا طریقہ اسلامی ہے؟ 

اور یہ بھی بتا دیں کہ امام حسین کو اہل بیت ماننے اور یزید کو ظالم ماننے کے لئے آپ کو کیا ثبوت چاہئیں؟

جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ٢٠٠٧ میں جب بے نظیر بھٹو کی ہلاکت ہوئی تو اسکو سب سے پہلے شہید کہنے والوں میں امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد بھی شامل تھے-  بے نظیر کی بد عنوانیوں کی داستانیں کس کو نہیں معلوم- اور جو وراثت میں وہ ایک "بدعنوانیوں کا سردار"شوہر اور اولاد کی صورت میں تین جراثیم اس ملک پر مسلّط کر گئیں ہیں- کیا واقعی شہید ایسے ہی ہوتے ہیں-  اور کیا واقعی شہادت اسی طرح ملا کرتی ہے-  اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو پھر تو واقعی آپ یزید کو صحابی کہ سکتے ہیں- کیونکہ جب بندے اسلام کو اپنا محافظ سمجھنے کے بجاۓ خود کو اسلام کا محافظ اور علمبردار سمجھنے لگیں تو پھر بہت چیزیں جائز ہو جاتیں ہیں-  تو پھر خدا پیچھے اور ووٹرز آگے ہوتے ہیں-  

پھر تو آپ رسول اللہ کے گھرانے کو، لاکھوں کروڑوں سلام وں ان سب پر، اہل بیت سے صحابی کے درجے پر یزید کو ظالم سے ترقی دے کر صحابی بنانے پر قادر ہو سکتے ہیں کیونکہ آپکے ووٹرز کی تعداد لاکھوں میں ہے- بالکل اسی طرح جیسے یزید کے ساتھہ لاکھوں کا لشکر تھا اور امام حسین کے ساتھہ چند اہل ایمان- اور جمہوریت میں بقول اقبال "بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے"- 











Friday, 14 March 2014

خوشحالی کی راہ


امّت کے ابتدائی حصّے کی اصلاح کے لئے پہلا قدم تھا امن کا قیام -  ایک انسان کو دوسرے انسان کے شر سے محفوظ کردینا چاہے پہلا انسان کتنا ہی مجبور، بے بس اور مسکین ہو اور دوسرا کتنا ہی خوشحال اور خود مختار-  بے بس، مجبور اور مسکین فاقوں اور بد حالی کا عادی ہوتا ہے- اسکے لئے سب سے بڑی کشش عزت اور اسکی پہچان ہوتی ہے-  جبکہ امراء کو اسکی پرواہ نہیں ہوتی-  حضرت بلال اور دوسرے غلاموں اور مسکینوں کو یہ عزت اور مساوات ہی رسول صلی الله علیہ وسلّم کی صحبت میں کھینچ کھینچ کر لاتی تھی-  

امن کے بغیر خوشحالی ممکن نہیں- 

خوشحالی کسے کہتے ہیں؟  خوشحالی کی تعریف انفرادی طورپر کیا ہے؟ عام طور پر خوشحالی سے مراد مالی اور معاشی بہتری لی جاتی ہے کہ انسان کی بے شمار خواہشوں کا  پورا ہونا اور وہ بھی اس طرح کہ ایک زمانہ اس پر گواہ ہو-  بادشاہ، شہنشاہ، سلطان، صدر، امیر، سیٹھ، صاحب, جیسے کچھ القابات خوشحالی اور خوش قسمتی کی علامت سمجھے جاتے ہیں- اسکے بعد وہ حالات جس میں ایک انسان کے پاس اوروں کے مقابلے میں ہر قسم کے رزق کی بہتات ہو-  اسکے پاس ہزار گز کا گھر، ایک سے زیادہ سواریاں، نوکر چاکر اور کروڑوں کا کاروبار ہو- گھر کی خواتین کے پاس کروڑوں کے زیورات ہوں- بیٹے بھی ہوں، عزت دینے والے دوست رشتہ دار بھی ہوں-سماجی حلقوں میں نام بھی ہو- جب چاہے جہاں چاہے جا سکے، جو دل چاہے کھا سکے، جو دل چاہے پہنے- اسکے فیصلوں کو خاندان میں اور جاننے والوں میں ترجیح دی جاۓ-  وغیرہ وغیرہ 

مالی اور معاشی خوشحالی کی انفرادی تعریف تمام خزانوں کے مالک الله عز و جل کے مطابق یہ ہے- 

"بیشک الله جسے چاہتا ہے بے شمار رزق دیتا ہے" 
سوره آل عمران 

"اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے-
اور یہ کہ اس کی کوشش دیکھی جائے گی" 
سوره النجم 

 "اور رشتہ داروں اور محتاجوں اور مسافروں کو ان کا حق ادا کرو۔ اور فضول خرچی سے مال نہ اُڑاؤ- کہ فضول خرچی کرنے والے تو شیطان کے بھائی ہیں۔ اور شیطان اپنے پروردگار (کی نعمتوں) کا کفر ان کرنے والا (یعنی ناشکرا) ہے- اور اگر تم نے اپنے پروردگار کی رحمت (یعنی فراخ دستی) کے انتظار میں جس کی تمہیں امید ہو ان (مستحقین) کی طرف توجہ نہ کرسکو اُن سے نرمی سے بات کہہ دیا کرو-  اور اپنے ہاتھ کو نہ تو گردن سے بندھا ہوا (یعنی بہت تنگ) کرلو (کہ کسی کچھ دو ہی نہیں) اور نہ بالکل کھول ہی دو (کہ سبھی دے ڈالو اور انجام یہ ہو) کہ ملامت زدہ اور درماندہ ہو کر بیٹھ جاؤ- بےشک تمہارا پروردگار جس کی روزی چاہتا ہے فراخ کردیتا ہے اور (جس کی روزی چاہتا ہے) تنگ کردیتا ہے وہ اپنے بندوں سے خبردار ہے اور (ان کو) دیکھ رہا ہے- اور اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل نہ کرنا۔ (کیونکہ) ان کو اور تم کو ہم ہی رزق دیتے ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت گناہ ہے- " سورہ بنی اسرئیل 

خوشحالی کی حد انفرادی طور پر کیا ہے؟  خوشحالی کی حد یہ ہے کہ الله عز و جل نے جو کچھ عطا کیا ہے وہ خود اسکی ذات، اسکے رسول اور اسکی راہ میں کوششوں سے زیادہ عزیز نہ ہو جاۓ- 

"کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور بیٹے اور بھائی اور عورتیں اور خاندان کے آدمی اور مال جو تم کماتے ہو اور تجارت جس کے بند ہونے سے ڈرتے ہو اور مکانات جن کو پسند کرتے ہو الله اور اس کے رسول سے اور خدا کی راہ میں جہاد کرنے سے تمہیں زیادہ عزیز ہوں تو ٹھہرے رہو یہاں تک کہ الله اپنا حکم بھیجے۔
اور الله نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا" 
سوره التوبہ 

"کہہ دو کہ ہم تمہیں بتائیں جو عملوں کے لحاظ سے بڑے نقصان میں ہیں-
وہ لوگ جن کی سعی/کوشش دنیا کی زندگی میں برباد ہوگئی۔ اور وہ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ اچھے کام کر رہے ہیں- یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیتوں اور اس کے سامنے جانے سے انکار کیا تو ان کے اعمال ضائع ہوگئے اور ہم قیامت کے دن ان کے لئے کچھ بھی وزن قائم نہیں کریں گے-" 
سورہ الکھف 

خوشحالی کی تعریف اجتماعی طور پرکیا ہے؟ ایک ایسا نظام جس میں ہر کوئی انفرادی طور پر دولتمند ہو- جس کا جو دل چاہے کرے- علاقے، شہر یا ملک یا ریاست یا سلطنت میں کھانوں، کپڑوں، زیوارت، اور ہر قسم کے رزق کی بہتات ہو-  یہ ایک تصوّراتی نظام ہے ہے- جسکا دنیا میں قیام نا ممکن نظر آتا ہے- دنیا کی کون سی حکومت یا ریاست یا سلطنت ہے جو اپنے عوام کو ایسا نظام دے کہ ہر ایک پاس بنگلہ ہو، گاڑی ہو، نئی سے نئی سہولت ہو، اتنی تنخواہ ہو کہ بچوں کو سب سے منہگے اسکول میں تعلیم دلواۓ اور جو چاہے کھاۓ اور ہر سال کسی نہ کسی ملک کی سیر کو جاۓ اور کپڑے بھی بہترین پہنے، وغیرہ وغیرہ- وہ حکومتیں جو الله کے وجود پر یقین نہیں رکھتیں اور انسان کی قابلیتوں، صلاحیتوں اور آپس کے تعلقات پر مبنی نظام یعنی جمہوریت پر یقین رکھتی ہیں- وہ کس طرح اپنی محدود قابلیتوں، صلاحیتوں کے بل پر ایک ایسا تصوراتی نظام قائم کر سکتیں ہیں-  ایک نا ممکن بات ہے- 


"جو مال الله نے اپنے پیغمبر کو دیہات والوں سے دلوایا ہے وہ الله کے اور پیغمبر کے اور قرابت والوں کے اور یتیموں کے اور حاجتمندوں کے اور مسافروں کے لئے ہے۔ 
تاکہ مال جو لوگ تم میں دولت مند ہیں ان ہی کے ہاتھوں میں نہ پھرتا رہے۔
سو جو چیز تم کو پیغمبر دیں وہ لے لو۔ اور جس سے منع کریں (اس سے) باز رہو۔ 
اورالله سے ڈرتے رہو۔ بےشک الله سخت عذاب دینے والا ہے"
سورہ الحشر 

اجتماعی خوشحالی کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ معاشرے میں ایسے افراد کا ہونا جو جس حال میں بھی ہوں اور جو کام کریں اس میں خوشی، مزہ اور اطمینان محسوس  کریں-اور اس سے دوسروں کی بھلائی بھی مقصود ہو- انکی طبیعت میں بخل نہ ہو- دنیا میں مسلمان اور غیر مسلمان معاشروں میں بہت سے ایسے لوگ گذرے ہیں اور آج بھی موجود ہیں جن کے نزدیک خوشحالی کا یہ مطلب مال اور معاش سے بڑھ کر ہے-  سدھارتھ اپنا محل اور بادشاہت چھوڑ کر اپنے ذہن میں اٹھنے والوں سوالوں کا جواب تلاش کرنے نکل کھڑا ہوا اور سالوں زمینوں کی خاک چھاننے کے بعد سکون اور اطمینان کے لئے انسانی فطرت کے چند راز جان کر واپسپلٹا- نیلسن منڈیلا اور مارٹن لوتھر کنگ جیسے بہادر، تعلیم یافتہ اور با شعور لوگوں میں کیا وہ صلاحیتیں موجود نہیں تھیں کہ وہ دولت کما کر دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہو جاتے- حضرت لقمان نہ پیغمر تھے نہ رسول- لیکن الله نے انکی فطرت پر کی گئی تربیت کا ذکر قرآن میں کیا ہے- عبد الستار ایدھی اور مرحوم عبد الرزاق یعقوب میں کیا فرق ہے- ایک کے پاس اپنی دولت اور دوسرا عبد الرزاق یعقوب جیسے ہزاروں لوگوں کی دولت کا امین اور اس کی معاشرے میں صحیح تقسیم کے لئے کوشاں- حضرت علامہ اقبال رحمہ الله علیہ کو کس چیز نے پی ایچ ڈی ہونے کے باوجود دولت اور دنیاوی رتبے کمانے سے دور رکھا- قائد اعظم رحمہ الله علیہ کو کس جذبہ نے دولت سے قیادت کا راستہ دکھایا-  حالانکہ انکی اولادیں تو لاکھوں میں کھیل رہی ہیں- حضرت خدیجہ رضی الله عنھا، فاطمہ الزہرہ رضی الله عنھا، زینب الغزالی، حضرت فاطمہ جناح رحمہ الله علیھا، صحابہ کرام، تحریک پاکستان کے اراکین، بلقیس ایدھی، مدر ٹریسا کے لئے کیا قدرت نے عیش و عشرت کے دروازے بند کر رکھے تھے-  اور یہ پاکستان کے فوجی- کیا انہوں نے اور انکے ماں باپ نے ٹھیکہ لیا ہے پاکستان کی حفاظت کا- کیا انکے پاس کوئی اور چوائسز نہیں ہیں زندگی گزارنے کے لئے- کیوں یہ اسقدر مشققتیں اٹھاتے ہیں چند ہزار کی تنخواہ کے عوض- کیا انکی ماؤں کو اپنے بیٹوں سے محبّت نہیں ہوتی- اور بھی ہزاروں نام اور مثالیں ہوں گی- 

یہ وہ لوگ تھے اور ابھی بھی ایسے بہت ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے مواقعوں کو دولت، عزت، شہرت کے حصول کے بجاۓ اس مقصد پر لگادی جس نے انکے نفس کو اس بات پر مطمئن کردیا کہ وہ صحیح راہ پر ہیں- اور انکی نیّت خیر و بھلائی کے سوا کچھ نہ تھی- تو الله نے انکے نفوس میں اطمینان اور خوشی بھر دی- 


"اے اطمینان پانے والی روح! اپنے پروردگار کی طرف لوٹ چل۔ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی-  تو میرے (ممتاز) بندوں میں شامل ہو جا- اور میری بہشت میں داخل ہو جا-" 
سورہ الفجر 

"الله ان سے خوش اور وہ اس سے خوش۔ یہ (صلہ) اس کے لیے ہے جو اپنے پروردگار سے ڈرتا رہا" 
سورہ البیّنه 

اور الله نے انکو نفس کے بخل سے پاک کردیا- اور یہ نفس کا بخل کیا ہے- کہ ہر عمل سے صرف میرے لئے خیر پیدا ہو اور دوسرے جائیں بھاڑ میں- جو میرے پاس ہے وہ کم نہ ہو اور بڑھتا ہی رہے- اور میرے ارد گرد کی دنیا کا مرکز صرف میری ذات ہو- باقی سب کچھ بھلا دیا جاۓ - 


 "اور جو شخص حرص نفس سے بچا لیا گیا تو ایسے لوگ مراد پانے والے ہیں" سورہ الحشر

"اور جو شخص طبعیت کے بخل سے بچایا گیا تو ایسے ہی لوگ راہ پانے والے ہیں" سورہ التغابن 

"اور باوجود یہ کہ ان کو خود طعام کی خواہش (اور حاجت) ہے
فقیروں اور یتیموں اور قیدیوں کو کھلاتے ہیں-
 (اور کہتے ہیں کہ) ہم تم کو خالص خدا کے لئے کھلاتے ہیں۔ نہ تم سے عوض کے خواستگار ہیں نہ شکرگزاری کے (طلبگار)" 
سورہ الدھر


مالی تباہی انفرادی طور پر
الله عز و جل نے فرمایا، 
"کہ ہم نے انسان کو تکلیف (کی حالت) میں (رہنے والا) بنایا ہے" 
سورہ الشمس 

لہذا یہ بات تو طے ہے کہ کوشش اور جدّ و جہد انسان کی زندگی کا حصّہ بھی ہیں اور اسکی فطرت کا بھی- یہودیوں کو بیٹھے بیٹھے من و سلوی ملا تو وہ اکتا گۓ اور فرمائش کردی کہ ہم تو خود اگا کر کھائیں گے- انسان کو کیونکہ وہی ملتا ہے جس کی وہ خواہش یا نیّت کرے- لہٰذا جو انسان کی اندگی کا مقصد "روٹی، کپڑا اور مکان" بن جاۓ تو قدرت بھی اسے انہی چکّروں میں بھٹکا ۓ رکھتی ہے-  جو شہادت کی تمنّا کرتے ہیں انکے لئے شہادت کی راہ ہموار کردیتی ہے- جو علم و آگہی کے لئے نکلے ان پر فطرت کے راز آشکار کر دیتی ہے- جو بدی میں بھٹکنا چاہیں تو انھیں وہی سامان فراہم کر دیتی ہے-  
اسلئے مال کی بے برکتی کا تعلق انسان کے ارادے، نیّت اور خواہشات سے ہوتا ہے-  


 "تمہارا مال اور تمہاری اولاد تو آزمائش ہے۔ " سوره التغابن 


"اور ان سے دو شخصوں کا حال بیان کرو جن میں سے ایک ہم نے انگور کے دو باغ (عنایت) کئے تھے اور ان کے گردا گرد کھجوروں کے درخت لگا دیئے تھے اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی- دونوں باغ (کثرت سے) پھل لاتے۔ اور اس (کی پیداوار) میں کسی طرح کی کمی نہ ہوتی اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی-  اور (اس طرح) اس (شخص) کو (ان کی) پیداوار (ملتی رہتی) تھی تو (ایک دن) جب کہ وہ اپنے دوست سے باتیں کر رہا تھا کہنے لگا کہ میں تم سے مال ودولت میں بھی زیادہ ہوں اور جتھے (اور جماعت) کے لحاظ سے بھی زیادہ عزت والا ہوں- اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ اور اگر میں اپنے پروردگار کی طرف لوٹایا بھی جاؤں تو (وہاں) ضرور اس سے اچھی جگہ پاؤں گا- تو اس کا دوست جو اس سے گفتگو کر رہا تھا کہنے لگا کہ کیا تم اس (خدا) سے کفر کرتے ہو جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفے سے پھر تمہیں پورا مرد بنایا- مگر میں تو یہ کہتا ہوں کہ خدا ہی میرا پروردگار ہے اور میں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا- اور (بھلا) جب تم اپنے باغ میں داخل ہوئے تو تم نے ماشاالله لاقوة الابالله کیوں نہ کہا۔ اگر تم مجھے مال واولاد میں اپنے سے کمتر دیکھتے ہو- تو عجب نہیں کہ میرا پروردگار مجھے تمہارے باغ سے بہتر عطا فرمائے اور اس (تمہارے باغ) پر آسمان سے آفت بھیج دے تو وہ صاف میدان ہوجائے- یا اس (کی نہر) کا پانی گہرا ہوجائے تو پھر تم اسے نہ لاسکو- اور اس کے میووں کو عذاب نے آگھیرا اور وہ اپنی چھتریوں پر گر کر رہ گیا۔ تو جو مال اس نے اس پر خرچ کیا تھا اس پر (حسرت سے) ہاتھ ملنے لگا اور کہنے لگا کہ کاش میں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناتا- (اس وقت) خدا کے سوا کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوئی اور نہ وہ بدلہ لے سکا" 
سورہ الکھف 

" ہم نے ان لوگوں کی اسی طرح آزمائش کی ہے جس طرح باغ والوں کی آزمائش کی تھی۔ جب انہوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ صبح ہوتے ہوتے ہم اس کا میوہ توڑ لیں گے- اور انشاء الله نہ کہا- سو وہ ابھی سو ہی رہے تھے کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے (راتوں رات) اس پر ایک آفت پھر گئی- تو وہ ایسا ہوگیا جیسے کٹی ہوئی کھیتی- جب صبح ہوئی تو وہ لوگ ایک دوسرے کو پکارنے لگے- اگر تم کو کاٹنا ہے تو اپنی کھیتی پر سویرے ہی جا پہنچو- تو وہ چل پڑے اور آپس میں چپکے چپکے کہتے جاتے تھے- آج یہاں تمہارے پاس کوئی فقیر نہ آنے پائے- اور کوشش کے ساتھ سویرے ہی جا پہنچے (گویا کھیتی پر) قادر ہیں- جب باغ کو دیکھا تو (ویران) کہنے لگے کہ ہم رستہ بھول گئے ہیں- نہیں بلکہ ہم (برگشتہ نصیب) بےنصیب ہیں- ایک جو اُن میں فرزانہ تھا بولا کہ کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم تسبیح کیوں نہیں کرتے؟- (تب) وہ کہنے لگے کہ ہمارا پروردگار پاک ہے بےشک ہم ہی قصوروار تھے- پھر لگے ایک دوسرے کو رو در رو ملامت کرنے- کہنے لگے ہائے شامت ہم ہی حد سے بڑھ گئے تھے- امید ہے کہ ہمارا پروردگار اس کے بدلے میں ہمیں اس سے بہتر باغ عنایت کرے ہم اپنے پروردگار کی طرف سے رجوع لاتے ہیں- (دیکھو) عذاب یوں ہوتا ہے۔ اور آخرت کا عذاب اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ کاش! یہ لوگ جانتے ہوتے- " 
سورہ القلم 


خوشحالی قائم رکھنے کے طریقے

خوشحالی قائم رکھنے کے عام دنیاوی طریقے تو یہی ہیں کہ کمانے کے مختلف ذرائع اور مواقع پیدا کئے جائیں- اور اسے اپنی صلاحیتوں سے اور محنت سے بڑھایا جاۓ- کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کمایا جاۓ- ایک گھر کے سب افراد کمائیں تو خوشحالی آجاۓ گی- اور پاکستان میں اسی فلسفے پر عمل کرتے ہوۓ غریب طبقہ اپنے بوڑھوں سے  لے کر بچوں تک کو کام سے لگا دیتا ہے- لیکن انکے ہاں پھر بھی خوشحالی نہیں آتی- 

خوشحالی کو جاری رکھنے کے کچھ اسلامی طریقے بھی بتاۓ گۓ ہیں- 

رسول صلی الله علیہ وسلّم نے فرمایا کہ "جو چاہتا ہے کہ اسکی عمر زیادہ ہو اور اسے فراخی نصیب ہو تو اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے" (یعنی خون کے رشتوں کے ساتھہ اچھا سلوک کرے-)

اسی طرح ایک اور حدیث کے الفاظ کے مطابق جو چاہتا ہو کہ اس پر دنیا کی نعمتیں کھول دی جائیں تو وہ ماں باپ کے ساتھہ اچھا سلوک کرے- 

"اور جب تمہارے پروردگار نے (تم کو) آگاہ کیا کہ اگر شکر کرو گے تو میں تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو (یاد رکھو کہ) میرا عذاب بھی سخت ہے" سورہ ابراہیم 

"اور کہا کہ اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے- وہ تم پر آسمان سے لگاتار مینہ برسائے گا- اور مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد فرمائے گا اور تمہیں باغ عطا کرے گا اور ان میں تمہارے لئے نہریں بہا دے گا- تم کو کیا ہوا ہے کہ تم الله کی عظمت کا اعتقاد نہیں رکھتے-" 
سورہ نوح 

"اور (اے پیغمبر) یہ (بھی ان سے کہہ دو) کہ اگر یہ لوگ سیدھے رستے پر رہتے تو ہم ان کے پینے کو بہت سا پانی دیتے-" 
سورہ الجن 


صدقات و خیرات کے اثرات 


صدقات و خیرات صرف انسان کا پیٹ بھرنے کو نہیں کہتے بلکہ حیوانات اور نباتات کی دیکھ بھال اور انکے ساتھ نیک برتاؤ بھی اس زمرے میں آتا ہے- حتّی کہ گھر سے باہر کی صفائی ستھرائی بھی-  

رسول الله صلی علیہ وسلّم کی حدیث ہے کہ
 "راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹا دینا بھی صدقہ ہے_"  
"اچھی بات کہنا بھی صدقہ ہے-"

یہ دونوں صدقے کوئی نہیں کرنا چاہتا- لوگ بھی سوچتے ہیں کہ چلو کما کر تو دو روٹی بھی نہیں ملے گی اور عزت تو ویسے ہی ہمارے ہاں کوئی کسی کی نہیں کرتا لہٰذا مسکینیت ٹھیک ہے کہ ایدھی اور دوسرے اداروں میں بکروں کا گوشت تو مل جاتا ہے دونوں وقت اور ساتھہ میں ہمدردیاں بھی- 

عام مزاج بھی یہی ہے کہ جو کچھ بیچ رہا ہے اس سے کوئی پانچ روپے کی چیز نہیں خریدے گا اور بھیک میں دس، بیس روپے دے دیں گے- تو ایسے معاشرے میں کسی عام آدمی کی ترجیح کیا ہوگی-  

الله جانے کن نہ معلوم وجوہات کی بناء پر دنیا کے اسلامی معاشروں میں زكواة سے زیادہ فضیلت صدقات و خیرات کو دی جاتی ہے- مسجدوں سے صدقات و خیرات کے اعلانات تو ہوتے ہیں-  لیکن کبھی زكواة پر خطبات نہیں ہوتے اور نہ یہ بتایا جاتا ہے کہ زكواة اسلام کا ایک ستون تو ہے ہی لیکن اسکے ساتھہ نفاذ شریعت کا سب سے بنیادی نکتہ بھی ہے-  سزاؤں کا نفاذ نہ تو شریعت کا مقصود ہے اور نہ اسلام کی روح-  سزاؤں کے نفاذ سے پہلے تزکیہ نفس اور تربیت نفس ضروری ہے-  تاکہ سزا دینے والے محرکات اور وجوہات کم سے کم ہو جائیں- 

اسی طرح صدقات و خیرات پر مشتمل نظام بھی اسلام کا مقصود نہیں- کیونکہ یہ نظام کچھ لوگوں کی ہمدردی اور غرباء پروری سے شروع ہوتا ہے اور اس میں پہلے ایک انسان دوسرے انسان پر اور آہستہ آہستہ ایک طبقہ دوسرے طبقے پر انحصار کرنے لگتا ہے-  اور رفتہ رفتہ ایک بڑی اکثریت اپنی عزت نفس کھو کر سہل پسندی، کام چوری، اور مفت خوری کی عادی ہو جاتی ہے-  اور دوسری جانب کچھ لوگوں کی ضرورت سے زیادہ ہمدردی رفتہ رفتہ عبادت سے زیادہ ایک روایت اور ایک فیشن بن جاتی ہے- اور بہت سے امراء پر بلاوجہ کا بوجھ بھی- کہ وہ زكواة بھی دیں اور پھر کروڑوں لوگوں کی بنیادی ضروریات کے لئے لاکھوں کے عطیات دیں- آج اسلامی معاشروں کو دیکھیں تو جتنے فلاحی اور خیراتی ادارے ہیں اس سے سو گنا زیادہ تعداد مستحقین کی ہے اور جو دن بدن بڑھتی جارہی ہے- 

احادیث کے مطابق اسلام کا بہترین زمانہ وہ ہوگا کہ لوگ زكواة لے کر پھریں گے اور کوئی زكواة لینے والا نہ ہوگا-  صدقات و خیرات تو دور کی بات ہے- 


نظام 
نظام کیا ہوتا ہے؟ مختلف صلاحیتوں اور قابلیتوں کے حامل لوگوں کاجمع ہو کرایک مقصد کے لئے کام کرنا اور وہ بھی اس طرح کہ لوگوں کی اکثریت پر اسکے اچھے یا برے اثرات ظاہر ہوں-   اجتماعی اثرات کے بغیر لوگوں کے اکھٹا ہو کر کام کرنے کو نظام نہیں کہا جا سکتا- نظام اچھا بھی ہو سکتا ہے اور برا بھی- جو لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی نظام نہیں وہ غلطی پر ہیں- پاکستان میں نظام ہے لیکن برا نظام- اور ایک بہت بڑی اکثریت اس نظام کو قائم رکھنے میں شریک ہے- اس کا ثبوت دن بدن بڑھنے والی افراتفری اور نا اہل لوگوں کی معاشرے میں زیادتی- جس جس گھر میں اسی گھر کے افراد اپنے ہی گھرکے ماں، باپ، بھائی، بہن، بیٹے، بیٹیوں پر بھروسہ نہ کرسکیں- ایک دوسرے سے شاکی ہوں، ایک دوسرے پر گھر صحیح طریقے سے نہ چلنے کے الزامات دیتے ہوں- تو یہ سب کے سب اس برے نظام کی پیداوار بھی ہیں اور اسے قائم رکھنے میں شریک بھی- 

اچھے نظام کی ظاہری نشانی یہ ہوتی ہے کہ لوگوں کی اکثریت خوش نظر آتی ہے، کام کرتی نظر آتی ہے- اچھے نظام کی روحانی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہاں قدرت اپنے خزانے انسانوں کے لئے کھول دیتی ہے- وہاں کی راتیں بھی دن کی طرح روشن ہوتی ہیں- 

برے نظام کی ظاہری نشانی معاشرے میں افراتفری، بھاگ دوڑ، الزامات، شکایتیں، توڑ پھوڑ، غصّے، لوٹ مار اور بھوک کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے-  یہاں تک کہ لوگ آپس میں ہی قتل و غارت شروع کر دیتے ہیں-  برے نظام کی روحانی علامت یہ ہے کہ وہاں ویرانی ہوتی ہے، وحشت ہوتی ہے، خوف ہوتا ہے، بے برکتی ہوتی ہے-  سورج، چاند، بادل، ہوائیں، دریا، موسم، سب دشمن بن جاتے ہیں- پھول نہیں کھلتے، پھل نہیں لگتے، پرندے کوچ کر جاتے ہیں-  



 خوشحالی کا نظام  " زكواة "
اسلام میں حکومتی سطح پر جو ٹیکس مسلمان عوام سے وصول کیا جاتا ہے اور کیا جانا چاہیے اسے شریعت میں " زكواة " کہتے ہیں-  زكواة اسلام کا ایک رکن ہے، واجب ہے اور عبادت بھی ہے-  یہ ایک مکمّل معاشی نظام ہے- قرآن میں کی جگہ زكواة کا ذکر نماز کے ساتھہ آیا ہے- جس طرح نماز ایک مسلمان کا جسمانی، روحانی اور سماجی نظام ترتیب دیتی ہے اسی طرح زكواة اسلامی مملکت یا حکومت یا ریاست کا معاشی اور انفرادی طور پر ہر مسلمان کا مالی نظام ترتیب دیتی ہے-  نماز جسمانی، روحانی اور سماجی سطح پر سکون و اطمینان پیدا کرتی ہے اور زكواة مالی خوشحالی کی ضامن ہے- اسکے مصارف بھی شریعت میں بیان کر دے گۓ ہیں- اور پاکستان کے تمام فرقوں کے علماء اور دینی گھرانے اس کا خوب علم بھی رکھتے ہیں-  

حضرت امام صادق نے فرمايا: جو شخص اپنے مال كي زكواة نہ دے وہ نہ مومن ھے اور نہ ھي مسلمان ھے- 
امام محمد باقر نے فرمايا: خداوندعالم نے قرآن مجيد ميں زكواة كو نماز كے ساتھ ذكر كيا ھے، جو شخص نماز پڑھے مگر زكواة نہ دے اس كي نماز قبول نھيں ھے- 
حضرت امام رضا فرماتے ھيں: اگر تمام لوگ اپنے مال كي زكواة ادا كرتے تو (دنيا) ميں كوئي فقير نہ ھوتا- 

پاکستان میں کیونکہ خواص میں الله کے خوف کی اور عوام میں ذوق و شوق کی کمی ہے لہذا سب منہگائی اور بے برکتی کا رونا تو روتے ہیں لیکن اسکے نہ تو اسباب پر غور کرتے ہیں اور نہ ہی ان اسباب کے سدّ باب پر- کبھی حکمرانوں پر سیاستدانوں کو اسکی وجہ قرار دیتے ہیں- اور کبھی یہ اعتراف کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں کہ کیا کریں لوگوں کے گناہوں کا نتیجہ ہے-  

پاکستان میں ایک تو حکومت آمدنی ٹیکس، جائیداد کا ٹیکس، پانی کا ٹیکس وغیرہ وصول کرتی ہے اور پھر رمضان میں زكواة بھی-  اور اسکے لئے بیت المال بھی بنایا ہوا ہے-  اسی لئے اکثر لوگ بنکوں میں اکاؤنٹ کھولتے وقت خود کو اہل تشیع لکھواتے ہیں تاکہ زكواة  نہ کاٹی جاۓ یا رمضان سے پہلے رقم نکلوالیتے ہیں-  پھر عوام انفرادی طور پر زكواة اور پھر سینکڑوں فلاح و بہبود اور خیراتی اداروں کو عطیات دیتے ہیں-  جس کا ایک مطلب یہ بھی ہوا کہ پاکستانیوں کے پاس دولت کی کمی نہیں-  صرف دولت کی گردش کا طریقه غلط ہے-  

میرے ساتھہ تو ظلم یہ بھی ہے کہ پچھلے چار سال سے میرے ہاں ٹیلیوژ ن نہیں ہے پھر بھی بجلی کے بل میں ٹی وی ٹیکس کے نام سے کچھ نہ کچھ رقم ادا کرنی پڑتی ہے-  

پہلی بات تو یہ کہ ایک اسلامی مملکت یا ریاست میں زكواة کے علاوہ حکومتی سطح پر جو ٹیکس لیا جاۓ وہ ظلم ہے- ایک اسلامی ریاست جس کے آئین میں لکھا ہو کہ اس ریاست کا نظام الله اور اسکے رسول صلی الله علیہ وسلّم کے بناۓ ہوۓ قوانین کے مطابق ہوگا-  اس کے چلانے والوں پر جائز نہیں کہ زكواة کے علاوہ کوئی اور ٹیکس وصول کریں- کیونکہ زكواة ہی کل معاشی اصلاح کے لئے کافی ہے-  اگر اسکے علاوہ کوئی ٹیکس ہوتا تو وہ بھی شریعت میں ذکر کر دیا جاتا- اور اسکی مثال خلفاء راشدین کے دور سے مل جاتی- گویا سیاست اور دین کو الگ کرکے سب سے زیادہ مزے میں تو اہل منصب لوگ ہی آگۓ تو پھر وہ کیوں اسلامی نظام کو نافذ کرنے کی کوشش کریں گے- ایسے ملک کی عوام دو حصّوں میں بٹ جاتی ہے- ایک حصّہ دولت جمع کرنے کے لئے دن رات ایک کرتا ہے اور پھر آتے دن اس دولت کا کافی حصّہ کسی نہ کسی شکل میں عطیہ کرتا رہتا ہے- عوام کا دوسرا حصّہ ان عطیات پر اپنی زندگی کا انحصار کر لیتا ہے-  اور حکومتی اراکین مزے سے اس کھیل سے لطف اندوز ہوتے ہیں- 

دوسری بات یہ کہ فلاحی کاموں کی ذمہ داری بھی اسلامی حکومت کا ذمّہ ہے نہ کہ مخیّر حضرات کا-  وہ انفرادی طور پر بھلائی کے کام کرسکتے ہیں ناگہانی آفات کے موقع پرامدادی کاموں میں حکومت کی مدد کر سکتے ہیں- 

پاکستان میں بے تحاشہ فلاحی اور خیراتی اداروں کے قیام نے ایک تو حکومت کو بد عنوانیوں کی کھلی چھوٹ فراہم کی ہوئی ہے اور دوسرے تمام تر ذمّہ داریوں سے نجات بھی دلوادی ہے - لوگ ہر مصیبت میں انہیں اداروں اور مخیّر حضرات کی طرف دیکھتے ہیں اور انہی سے بھلائی کی توقع رکھتے ہیں اور مزے کی بات کہ انہی پر بدنیّتی اور بد عنوانیوں کے الزامات بھی لگا دیتے ہیں- لوگوں کی توجہ اس طرف جاتی ہی نہیں کہ یہ تو ساری کی ساری ذمّہ داری ہے ہی حکومت کی- اور نہ ہی وہ حکومت سے کوئی حساب مانگتے ہیں- سیاستدانوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستانیوں کی ہمدردی اور انسانیت کے جدبہ کو کس طرح اور کس موقع پر کیش کرا کر اپنی جان اور دولت نہ صرف بچائی جاسکتی ہے بلکہ اس میں اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے-  اسی لئے انکے لئے سیاست ایک بہت منافع بخش کاروبار ہے- جو لوگ سیاست دانوں کا گلہ کرتے ہیں وہ اپنے گریبان میں جھانکیں کہ کتنے کام وہ عام خیر و بھلائی کی نیّت سے کرچکے ہیں اور کتنی مرتبہ خود کو اپنے فرقے، اپنی زبان، اپنی نسل، اپنے عقیدے کی قید سے آزاد کرکے عدل کی بنیاد پر لوگوں میں یا اپنے خاندانوں اور رشتہ داروں میں فیصلے کرا چکے ہیں- کتنی مرتبہ الله کی محبّت میں روایات اور ثقافت کی دیواریں گرا کر فطرت کی بنیادوں پر اپنی تربیت کر چکے ہیں کہ اسلام بہرحال دین فطرت ہے-

یہ فلاحی اور خیراتی ادارے سارا سال اور خاص طور پر رمضان میں عوام کے ایک حصّے سے لاکھوں کروڑوں روپے جمع کرتے ہیں اور عوام ہی کے دوسرے حصّے پر خرچ کر دیتے ہیں-  ان کو نیک نامی بھی مل جاتی ہے اور حکومت کی طرف سے ایوارڈز بھی-  اس طرح حکومت کو ایک کریڈٹ یہ مل جاتا ہے کہ وہ معاشرے کے نیک لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے-  اس میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے ان اداروں کو بھی کاروبار بنایا ہوا ہے-  بد عنوان لوگ عطیات جمع کر کے  ذاتی فائدےاٹھاتے ہیں- اور جن کے لئے عطیات جمع کرتے ہیں انھیں خوشحال نہیں ہونے دیتے ہیں ورنہ پھر انکا کاروبار کیسے چلے گا-

نیکی کے کام خاص طور پر اگر اجتماعی سطح پر کئے جائیں تو انکے ثمرات معاشرے پر ضرور ظاہر ہوتے ہیں-  اور اگر دنیا کا سب سے زیادہ عطیات دینے والا معاشرے کا حال یہ ہو کہ بھوک کے ہاتھوں تنگ ہوکر روزانہ سینکڑوں لوگ خود کشیاں کریں، ماں اپنے بچوں کو قتل کردے، لوگ قانونی اور اخلاقی جرائم کی طرف راغب ہوں،  خیراتی اداروں کے آگے مسکینوں اور سائلوں کا ہجوم بڑھتا جاۓ، نوزائیدہ بچے کوڑے کے ڈھیر پر پڑے ملیں- یہ نقشہ نہ تو کسی اسلامی ریاست کا ہو سکتا ہے اور نہ ہی اس طریقے سے خوشحالی اور امن آ سکتی ہے-  یہ کہیں نہ کہیں گڑبڑ کی علامت ہے اور وہ گڑبڑ یہ نہیں کہ لوگوں نے صدقه و خیرات کم کر دیے ہیں یا بند کر دے ہیں بلکہ نیک کاموں کو کیا غلط طریقوں سے جارہا ہے-  




 بد حالی کا نظام " سود "
پچھلے چند سالوں سے ایک خاتون سے جان پہچان ہوئی- چار چھوٹے چھوٹے بچے ہیں انکے-  شوہر بنک میں ملازم- اور شادی بھی پسند کی کی تھی- حد سے زیادہ محنتی خاتون- پیسہ کمانے کے لئے دن رات ایک کیے ہوۓ تھے- لین دین کے معاملے میں بہت سے بھی زیادہ سٹریٹ فارورڈ-  اپنے ایک ایک منٹ اور ایک ایک فیور کی قیمت وصول کرنا جانتی ہیں-  اور ہمیشہ خود کو حق پر سمجھتی ہیں - یہ بات بھی ہے کہ اکثر لوگوں کی مدد بھی کرتی ہیں- انکی باتوں سے پتہ چلتا کہ ان کا حلقہ احباب کیسا ہے- مجھ سے بھی جتنا فائدہ اٹھا سکتیں تھیں اٹھایا جسکا اندازہ مجھے بہت بعد میں ہوا-  رہنے سہنے کے انداز سے لگتا تھا کہ بہت مشکل سے ان کا گزارہ ہوتا ہے-  ایک مرتبہ سود پر بات نکلی تو کہنے لگیں کہ سود بھی تو تجارت ہے- اب دیکھیں نہ میری ایک دوست لوگوں کو قرضے دیتی ہیں اور واپسی پر کچھ فیصد زیادہ لیتی ہیں- اگر وہ کہیں کاروبار میں لگائیں تو انھیں کتنا منافع ہو- لیکن یہ انکی نیکی ہے کہ کسی کو وقت پر رقم دے دیتی ہیں تو پھر انکا حق بنتا ہے کہ کچھ منافع کما لیں-  انکے حلقۂ احباب نے مختلف کاروبار  کی قسمیں شروع کر رکھیں تھیں -  انہوں نے بتایا کہ اس میں منافع بہت ہے- پھر یہ ہوا کہ پچھلے سال اپریل میں انکی پارٹنرز انکے ساتھہ دھوکہ کر گئیں- نہ صرف یہ کہ انکے تقریبا ساڑھے چار کروڑ روپے ہضم کر گئیں بلکہ  دھمکیاں بھی دیں- کچھ ماہ انہوں نے جگہ بدل کر گزارہ کیا بچوں کو بھی اسکول نہیں بھیجا-  اور پھر جب کیس کیا تو انکے شوہر پر حملے کرواۓ- با لاٰ خر انھیں دبئی بھاگنا پڑا- وہاں انکا نروس بریک ڈاؤن ہوا- اب انکا پیسہ پاکستان آ آ کر عدالتوں کی پیشیاں نمٹانے پر خرچ ہو رہا ہے-  

یہ ایک گھر کی نہیں بہت سے گھروں کی کہانی ہے-  سود ہو یا زكواة یا کوئی نیکی کے کام - ہم اپنی مرضی اور اپنے فائدہ دیکھ کر کرتے ہیں- جسکا صرف نقصان ہی ہوتا ہے-  کسی سے کوئی کام کہیں، کوئی بات کریں- سب سے پہلا رد عمل یہ ہوتا ہے کہ اس کا فائدہ کیا ہوگا؟ اس کا کوئی فائدہ نہیں تو کیوں کریں؟ علامہ اقبال  فرمایا، 
بر تر از اندیشہ سو دو زیاں ہے زندگی 

 سود کے لغوی معنی زیادہ کے ہیں- سود کی کیفیت پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ سودی نظام صرف بنکوں میں اور اسٹاک اکسچینج میں ہی نہیں ہماری زندگیوں میں بھی شامل ہے-  کسی کے گھر کچھ بھیجا، مدد کر دی، احسان کردیا، کوئی مشکل حل کردی- تو واپسی کی توقع- ہمارے نفس کا بخل ہمیں کسی نہ کسی طور سود کی طرف لے جاتا ہے- 


"اور طبیعتیں تو بخل کی طرف مائل ہوتی ہیں" 
سورہ النساء 

"اور انسان دل کا بہت تنگ ہے" سورہ بنی اسرائیل 

رسول صلی الله علیہ وسلّم کی تربیت کا ایک کمال یہ بھی تھا کہ لوگوں کے مزاج سے سود نکال دیا تھا- شریعت  میں سودی نظام سے متعلق تمام لوگوں کے لئے اعلان جنگ ہے-  جو لیں، جو دیں، جو اسکے گواہ بنیں، جو اسکے پرچار یا ایڈورٹمنٹ کریں، اسکے کمرشل بنائیں اور اس میں کام کریں- واللہ اعلم با الصواب  

 "جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے اور نماز پڑھتے اور زکوٰة دیتے رہے ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا اور (قیامت کے دن) ان کو نہ کچھ خوف ہوا اور نہ وہ غمناک ہوں گے-
مومنو! خدا سے ڈرو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو جتنا سود باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو- اگر ایسا نہ کرو گے تو خبردار ہوجاؤ (کہ تم) اللہ اوراس کے رسول سے جنگ کرنے کے لئے (تیار ہوتے ہو) اور اگر توبہ کرلو گے (اور سود چھوڑ دو گے) تو تم کو اپنی اصل رقم لینے کا حق ہے جس میں نہ اوروں کا نقصان اور نہ تمہارا نقصان- اور اگر قرض لینے والا تنگ دست ہو تو (اسے) کشائش (کے حاصل ہونے) تک مہلت (دو) اور اگر (زر قرض) بخش ہی دو توتمہارے لئے زیادہ اچھا ہے بشرطیکہ سمجھو- اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا۔ اور کسی کا کچھ نقصان نہ ہوگا- " 

سورہ البقرہ 


علماء  کا کردار 
 خوشحالی کی ابتداء امن سے ہوتی ہے- اور امن کی ابتداء تزکیہ نفس اور تربیت نفس سے ہوتی ہے- اور فی الحال تو یہی علماء کی سب سے بڑی ترجیح ہونی چاہیے-  یہ نہیں کہ ہر کوئی اٹھے اور فلاحی مملکت اور رفاہ عامہ کے لئے چندے اکٹھے کرنے شروع کردے- 

کیوں لوگ زكواة کی لازمی عبادت سے زیادہ صدقه و خیرات کو ترجیح دیتے ہیں؟ اسلئے کہ مسجد بنانی ہو یا مدرسہ، ہسپتال بنا ہو یا یتیم کھانا یا کوئی اور ادارہ- سب کام چندہ پر ہوتا ہے- اور باقاعدہ لکھا ہوتا ہے کہ اپنے صدقات، خیرات، زكواة اس ادارے کو دے کر ثواب دارین حاصل کریں-  اور جنّت کی ضمانت بھی دی گئی ہوتی ہے - بہت سے علماء نے بھی اس طرح زكواة دینے کو جائز قرار دے دیا ہے- 

علماء اسلامی ریاست میں سود  ختم کرنے کا شور تو مچا دیتے ہیں لیکن اس بات پر توجہ نہیں دیتے کہ سود کا بدل تجارت اور تجارت کا ٹیکس زكواة ہی تو ہے اور جو زكواة اس طرح دی جارہی ہے اسکے نتائج کیا نکل رہے ہیں- وہ پیسہ کہاں جارہا ہے، کیسے اور کن لوگوں پر خرچ ہو رہا ہے، اس سے کوئی فائدہ ہو بھی رہا ہے کہ نہیں- کیا واقعی مستحقین کےحالات بدلے جا رہے ہیں یا پھر سیلانی ٹرسٹ والوں کی طرح کہ بقول انکے پچاس ہزار لوگوں کو روز کھانا کھلاتے ہیں- لوگ روزانہ پیٹ بھر کر جاتے ہیں اور پھر دوسرے دن پیٹ بھرنے کے لئے اپنے وقت پر موجود ہوتے ہیں- جیسے کہ پرندوں یا جانوروں کو روزانہ کھانا ڈالو تو وہ اپنے وقت پر روزانہ آ جاتے ہیں پیٹ بھرنے کے لئے-  کتنا روپیہ چاہیے ہوتا ہے پچاس ہزار لوگوں کو کھانا کھلانے کے لئے-  اگر بیس روپے ایک آدمی کے لگا لیں تو بھی دس لاکھ روپے بنتے ہیں روزانہ- مہینے کے ہو گۓ تین سو لاکھ روپے-  کیوں یہ جگہ جگہ پھلوں کے باغ نہیں لگادیتے کہ انسان ہوں یا پرندے بھوک لگے تو بے خوف ہو کر کھا لیں یہ بھی تو صدقہ ہے بلکہ صدقه جاریہ- کیونکہ بھوک جرائم اور بے حیائی کی سب سے بڑی وجہ ہے- یہاں تک کہ انسان کو شرک، کفر تک لے جاتی ہے- 
علماء شریعت کے نفاذ کی بات تو کرتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ اگر واقعی شریعت نافذ کرنے کے حالات پیدا ہو گۓ تو ملک کی معیشت کو کس طرح سنبھالیں گے-  کیا روزانہ اپنے وزیر خزانہ کے ذریعے چندوں کے اعلان کروائیں گے اور مخیّر حضرات کو جنّت کا لالچ اور جہنّم کے ڈراوے دے دے کر انکی جیبیں خالی کروائیں گے -  ایک مدرسہ یا مسجد تو چندہ کے بغیر سنبھالی نہیں جاتی- پورا ملک کیسے سنبھالیں گے- زكواة کے علاوہ کوئی ٹیکس لیں گے اور زكواة وسول کرنے کا طریقہ ہوگا اور زكواة تقسیم کرنے کا طریقہ کیا ہوگا- 

پھر ایک بات یہ بھی ہے کہ ایک اسلامی ریاست میں مسلمانوں کے لئے زكواة اور غیر مسلموں کے لئے جزیہ ہے-  جب زكواة ریاستی یا حکومتی سطح پر جمع کی جاتی ہے تو اس کی تقسیم کا طریقہ انفرادی تقسیم سے الگ ہوتا ہے یا نہیں؟ انفرادی طور پر جو زكواة کے مصارف ہیں وہ اجتماعی سطح پر بھی وہی ہیں یا نہیں؟ اور اجتماعی سطح پر زكواة وصول کرنے والوں کی تنخواہیں، حکومتی اراکین کی تنخواہیں وغیرہ سب اسی سے نکلتی ہیں کہ نہیں؟  

ابھی تو یہ سلسلہ ہے کہ جو مدرسہ، مسجد یا ادارہ زكواة جمع کرتا ہے اسے اپنے ہی محدود مقاصد کے لئے خرچ کرتا ہے- اور لوگ بھی دے کر جان چھڑاتے ہیں- جبکہ زكواة کے اجتماعی نظام کا مقصود تو زكواة کی تقسیم ایک بڑے  پیمانے پر اور ملک یا ریاست کے تمام شہریوں کے لئے ہے؟؟؟ 

ذرا موازنہ کریں اپنی اپنی مسجدوں، مدرسوں اور اداروں کا اس اسلامی ریاست سے جو اپنی ابتداء کے بعد چند ہی دھائیوں میں آدھی سے زیادہ دنیا تک پھیل گئی تھی- جس میں کوئی فلاحی یا خیراتی ادارہ نہیں تھا، کوئی یتیم خانہ نہیں تھا- کوئی سڑکوں پر بھیک نہیں مانگ رہا ہوتا تھا- کوئی لاوارث نہیں کہلایا جاتا تھا- سواۓ زكواة کے کوئی ٹیکس نہیں تھا مسلمانوں پر- مخیّر حضرات اپنے اپنے طور پر مسافر خانے بنواتے، کنوئیں کھدواتے، درخت لگواتے یا اور نیکی کے کام کرتے- لیکن اس سے حکومت کی کارکردگی پر اثر نہ پڑتا- 

اسلامی نظام اور اجتماعی خوشحالی کا خلاصہ کیا ہے- کہ
١- زكواة کل معاشی نظام ہے- 

٢- فلاحی اور رفاہ عامہ کے کام بنیادی طور پر حکومت کی ذمّہ داری ہیں-