Friday 4 April 2014

Jamat-e-Islami's Mr. Syed Munawwar Hasan

محترم سید منوّر حسن صاحب!
آپکی ایک وڈیو کلپ دیکھی جس میں آپ نے کسی  ٹیلویژن پروگرام میں اپنی میزبان کو یزید کے بارے میں بڑے  تذبذب کے عالم میں یہ جواب دیا کہ کربلا دو صحابیوں کی جنگ تھی-  کاش آپ ان دو صحابیوں کے نام بھی لے دیتے اور یہ بھی بتاتے کہ ان دو صحابیوں کو کیا پڑی تھی کہ ایک صحابی دوسرے صحابی کی گردن اتاردے اور انکے بچوں کو بھی قتل کر دے اور گھر کی خواتین کو قید کر لے-   میرے خیال میں ایسا تو اگر دو عام مسلمان بھی کریں تو کوئی جاہل سے جاہل بھی پہلے مسلمان کو ظالم قرار دے گا-  میں نے مودودی صاحب کے  تفہیم القرآن کا مطالعہ کیا ہوا ہے اور کہہ سکتی ہوں کہ مجھے ظالم اور مظلوم اور شہادت کا اتنا شفاف تصور بہت کم اسلامی کتابوں میں ملا جتنا تفہیم القرآن میں موجود ہے- کبھی فرصت ہو تو آپ بھی تفہیم القرآن کا مطالعہ کیجئے گا، اچھی تفسیر ہے-  

پہلے تو کچھ اصطلاحات کی وہ تعریف پڑھ لیجئے جو مجھ جیسے جاہل کے سمجھ میں آئی- غلط ہوں تو جماعت اسلامی والے میری اصلاح ضرور کریں- 

اہل بیت 
اہل بیت کا لفظ عموما تمام انبیاء علیھم السلام کے اور خاص کررسول الله صلی اللہ علیہ وسلّم کے ان گھر والوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جو آپ صلی الله علیہ وسلّم سمیت تمام انبیاء کرام کی تعلیمات پر ایمان لاۓ- اور اس تعریف کے تحت حضرت نوح علیہ السلام کا ایک بیٹا جس نے کفر کیا یعنیاپنے باپ کی تعلیمات کا انکار کیا، حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی جس نےاپنے شوہر کی تعلیمات سے انکار کیا,حضرت ابراھیم علیہ السلام کا باپ آذر جس نے اپنے بیٹے کی تعلیمات سے انکار کیا اور ابو لہب اور اسکی بیوی ام جمیل جنہوں نے اپنے بھتیجے محمّد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلّم کی تعلیمات پر ایمان لانے سے انکار کیا اہل بیت میں شامل نہیں- اور جو ایمان لاۓ اور دینی جدّ و جہد میں رسول کے ساتھہ رہے انکے رتبے اور ایمان میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے-  مزید یہ کہ انکے کام اور زندگی کے فیصلوں میں بھی کوئی شک نہیں ہونا چاہیے-  حضرت علی براہ راست رسول الله صلی علیہ وسلّم کے زیر تربیت رہے اور کئی سال تک رہے- یہاں تک کہ اپنی محبوب بیٹی سیّدہ فاطمه الزہرہ کی زندگی کے معاملے میں بھی حضرت علی پر ہی بھروسہ کیا- اور یہ گھرانہ اپنے بچوں سمیت صحابی نہیں بلکہ اہل بیت تھا-  جس میں غیر ہاشمی اور عجمی خون حضرت سلمان فارسی کی صورت میں شامل ہوا- اور رسول نے خود انہیں اہل بیت میں سے قرار دیا-  اگر اہل بیت اور صحابہ کرام میں فرق نہ ہوتا تو رسول الله سارے صحابہ کو اہل بیت میں شامل فرما دیتے، صرف حضرت سلمان فارسی کو نہیں- 
صحابیوں میں سے بہت سوں نے اپنے بچپن رسول الله کے ساتھہ گذارا- لیکن انہوں نے کسی اور کے لئے، حتیٰ کہ امام حسن تک کے بارے میں یہ نہیں کہا کہ "میں حسین سے ہوں اور حسین مجھ سے" اور کسی اور کے لئے حضرت فاطمہ سے یہ نہیں فرمایا کہ "فاطمہ، حسین کو رونے نہ دیا کرو، اسکے رونے سے مجھے تکلیف ہوتی ہے"- 

صحابی 
صحابی کی تعریف یہ ہے کہ ہر وہ شخص (مرد یا عورت) جس نے آپ الله صلی الله علیہ وسلّم کو دیکھا، سنا اور پھر آپ الله صلی الله علیہ وسلّم کے ہاتھہ پر اسلام قبول کیا اور ایمان بھی لاۓ- (یہاں اسلام لانا اور ایمان لانا دو مختلف حالتیں ہیں) آپ کی صحبت اختیار کی اور اسلام سے مخلص رہا- وہ صحابی ہے-  اس تعریف کے مطابق امر ابن ہاشم (ابوجہل)، امیّہ اور دوسرے مکّہ کے لوگ صحابی نہیں کہلاۓ جا سکتے کیونکہ انہوں نے آپ الله صلی الله علیہ وسلّم کو دیکھا بھی، سنا بھی اور گفتگو بھی کی لیکن آپ الله صلی الله علیہ وسلّم کی تعلیمات پر ایمان نہیں لاۓ بلکہ انکار کیا اور آپ الله صلی الله علیہ وسلّم کو تکلیفیں دیں- اسی طرح عبد الله بن أبي بن سلول بھی صحابی نہیں کہلایا جا سکتا- حالانکہ اس نے اسلام تو قبول کیا اور اکثر نماز میں پہلی صف میں کھڑا ہوتا اور لوگوں کو ظاہری جذبے کے ساتھ نماز کے لئے بلاتا- لیکن وہ ایمان نہیں لایا تھا- اندر ہی اندر اسلام اور آپ الله صلی الله علیہ وسلّم کی تحقیر کے منصوبے بناتا-  اسی لئے یہ "منافقوں کا باپ/ سردار " کہلایا-  

ظالم، مظلوم اور مجاہد 
دوسروں پر جبر کرنے والے اور دوسروں کا حق چھیننے والے کو ظالم کہتے ہیں- مومن یعنی ایمان لانے والے ظالم نہیں ہوتے کیونکہ انکے دل میں الله کی صفت عدل کا اور آخرت کے احتساب کا خوف ہوتا ہے- اسکے علاوہ ظالم مسلمان بھی ہو سکتا ہے یا کسی اور مذھب سے بھی یا پھر کوئی ایسا شخص جو خدا کے وجود سے انکاری ہو یا شیطان کا ماننے والا- ظالم ایک امیر شخص بھی ہو سکتا ہے اور غریب بھی-  ایک تعلیم یافتہ بھی ہو سکتا اور ایک جاہل بھی-  ایک مرد بھی ہو سکتا ہے اور ایک عورت بھی- ایک فرد بھی اور پورا گروہ بھی- اپنا بھی اور غیر بھی- 
اور ظالم فرعون ہو، شدّاد ہو یا یزید - سب کا مذہب ایک ہوتا ہے اور وہ ہے خود پرستی-  ظالم کا رشتہ تو انسانیت کے ساتھہ نہیں ہوتا, صحابیت کا ساتھہ کیا ہوگا؟
 اور قرآن میں کتنی جگہ ظالم کے ظلم سے پناہ کی دعا کی گئی ہے- 

" اور موسیٰ نے کہا کہ بھائیو! اگر تم خدا پر ایمان لائے ہو تو اگر (دل سے) فرمانبردار ہو تو اسی پر بھروسہ رکھو- تو وہ بولے کہ ہم خدا ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ اے ہمارے پروردگار ہم کو ظالم لوگوں کے ہاتھ سے آزمائش میں نہ ڈال- اور اپنی رحمت سے قوم کفار سے نجات بخش- " سوره یونس 

"ان دونوں (یعنی بہشت اور دوزخ) کے درمیان (اعراف نام) ایک دیوار ہو گی اور اعراف پر کچھ آدمی ہوں گے جو سب کو ان کی صورتوں سے پہچان لیں گے۔ تو وہ اہل بہشت کو پکار کر کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو۔ یہ لوگ بھی بہشت میں داخل تو نہیں ہوں گے مگر امید رکھتے ہوں گے- اور جب ان کی نگاہیں پلٹ کر اہل دوزخ کی طرف جائیں گی تو عرض کریں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو ظالم لوگوں کے ساتھ شامل نہ کیجیو-" سوره الاعراف 

"اے ہمارے پروردگار ہم کو کافروں کے ہاتھ سے عذاب نہ دلانا اور اے پروردگار ہمارے ہمیں معاف فرما۔ بےشک تو غالب حکمت والا ہے-" سوره الممتحنہ 

مظلوم وہ ہوتا ہے جس سے اس کا حق چھین لیا گیا ہو اور اس میں وہ حق واپس لینے کی ہمّت نہ ہو-  مظلوم ایک امیر شخص بھی ہو سکتا ہے اور غریب بھی-  ایک تعلیم یافتہ بھی ہو سکتا اور ایک جاہل بھی-  ایک مرد بھی ہو سکتا ہے اور ایک عورت بھی- ایک فرد بھی اور پورا گروہ بھی اور ایک خاندان بھی- مظلوم اس حد تک صابر ہوتا کہ وہ ظالم کا ہر ظلم برداشت کرتا رہتا ہے اور اپنے حق میں کسی غیبی امداد کا منتظر ہوتا ہے-

مجاہد کے لغوی معنی تو جدّ جہد کرنے والے کے ہیں- لیکن شرعی اصطلاح میں مجاہد ایسے شخص کو کہتے ہیں جو دین کے کسی بھی کام کے لئے کوششیں کرے اور مخالفتیں ہوں تو انکا بھی سامنا کرے- اور جو کسی ظالم سے مقابلہ کرے کسی مظلوم کا حق واپس دلانے کے لئے-  مجاہد اس حد تک صابر ہو تا ہے کہ وہ اپنےارادوں پر جما رہتا ہے اور اپنے ارادوں کی تکمیل تک ہر تکلیف برداشت کرتا ہے یہاں تک کہ اسے یا تو کامیابی نصیب ہوتی ہے یا شہادت-   
اسکے معنوں کی گہرائی میں جائیں تو معلوم ہوگا کہ اسلام دین فطرت ہے اور اس لحاظ سے اسلامی تعلیمات کو ہر انسان تک پہنچانا یعنی تبلیغ بھی مومنین کا حق ہے (ماننا یا نہ ماننا دوسروں کا حق)- 
اسی طرح اگر مسلمانوں سے انکے اسلام کے مطابق زندگی گذارنے کا حق چھین لیا گیا ہو یا چھینے جانے کا خطرہ ہو تو اس حق کو واپس دلانے والے اور اس حق کی حفاظت کرنے والے بھی مجاہدین ہیں اور ان کوششوں میں انکی موت شہادت کی موت ہے-  چاہے یہ امام حسین کا چھوٹا سا قافلۂ حق ہو یا پھر تحریک پاکستان کی جماعت حق- 

کربلا کی جنگ 
میرا یہ عقیدہ ہے کہ رسول صلی الله علیہ وسلّم کا گھرانہ کبھی کسی ایسے کام میں اپنا کردار ادا نہیں کرسکتا جس کا مقصد صرف ظاہری ہو یا صرف سیاسی ہو یا صرف دنیاوی ہو یا حکومت کے لئے یا پھر ایسے ہی بلاوجہ کسی صحابی کے مقابلے پر کھڑا ہونا ہو-  یہ گھرانہ بہترین روحانی، عقلی اور علمی صلاحیتوں کا خزانہ تھا-  جس گھرانے نے حکومت کے لئے زندگی نہیں گذاری وہ حکومت کے لئے تلوار کیسے اٹھا سکتے ہیں، اپنی جان کیسے دے سکتے ہیں؟ اور وہ بھی اپنی خواتین اور بچوں کو ساتھہ لے جا کر؟

کربلا دو صحابہ کی جنگ نہیں تھی- یا ظالم اور مظلوم کی جنگ بھی نہیں تھی کیونکہ رسول کا گھرانہ مظلوم نہیں تھا- یہ ظالم اور مجاہد کی جنگ تھی-  دو قومی نظریہ کی جنگ تھی، ایک طرف نظریہ دین محمّدی تھا اور دوسری طرف اپنی پسند کا اسلام - 

کیا نسل در نسل حکومت یا کسی ایک ہی شخص کی پسند یا ناپسند پر بنائی ہوئی حکومت یا اقرباء پروری اور ذاتی فوائد کے لئے بنائی گئی حکومت، اسلام کی روح کے مطابق ہے؟ 

یزید حکمران کیسے بنا؟ یزید کا حکمران بننا کیا شرعی قوانین اور اسلامی جمہوریت کے مطابق تھا؟

اور کیا آج کا ہر ایرے غیرے کے ووٹ پر حکومت بنانے کا طریقہ اسلامی ہے؟ 

اور یہ بھی بتا دیں کہ امام حسین کو اہل بیت ماننے اور یزید کو ظالم ماننے کے لئے آپ کو کیا ثبوت چاہئیں؟

جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ٢٠٠٧ میں جب بے نظیر بھٹو کی ہلاکت ہوئی تو اسکو سب سے پہلے شہید کہنے والوں میں امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد بھی شامل تھے-  بے نظیر کی بد عنوانیوں کی داستانیں کس کو نہیں معلوم- اور جو وراثت میں وہ ایک "بدعنوانیوں کا سردار"شوہر اور اولاد کی صورت میں تین جراثیم اس ملک پر مسلّط کر گئیں ہیں- کیا واقعی شہید ایسے ہی ہوتے ہیں-  اور کیا واقعی شہادت اسی طرح ملا کرتی ہے-  اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو پھر تو واقعی آپ یزید کو صحابی کہ سکتے ہیں- کیونکہ جب بندے اسلام کو اپنا محافظ سمجھنے کے بجاۓ خود کو اسلام کا محافظ اور علمبردار سمجھنے لگیں تو پھر بہت چیزیں جائز ہو جاتیں ہیں-  تو پھر خدا پیچھے اور ووٹرز آگے ہوتے ہیں-  

پھر تو آپ رسول اللہ کے گھرانے کو، لاکھوں کروڑوں سلام وں ان سب پر، اہل بیت سے صحابی کے درجے پر یزید کو ظالم سے ترقی دے کر صحابی بنانے پر قادر ہو سکتے ہیں کیونکہ آپکے ووٹرز کی تعداد لاکھوں میں ہے- بالکل اسی طرح جیسے یزید کے ساتھہ لاکھوں کا لشکر تھا اور امام حسین کے ساتھہ چند اہل ایمان- اور جمہوریت میں بقول اقبال "بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے"- 











No comments:

Post a Comment