Saturday, 12 April 2014

انسان


"اور انسان تو بڑا ناشکرا ہے"- 
 سورہ الحج

" بےشک انسان صریح ناشکرا ہے"-  
سوره الزخرف 

" بےشک انسان بڑا ناشکرا ہے" - 
سوره الشعراء 

"کہ انسان اپنے پروردگار کا احسان فراموش (اور ناشکرا) ہے"  
سوره العادیات 

 کچھ شک نہیں کہ انسان بڑا بےانصاف اور ناشکرا ہے"-
 سوره ابراہیم 

"انسان ہلاک ہو جائے کیسا ناشکرا ہے"-
 سوره عبس 

"اور انسان (اپنی طبیعت میں) جلد باز ہے"- 
 سورہ الانبیاء 

 اور انسان (طبعاً) کمزور پیدا ہوا ہے"- 
سوره النساء 

"کہ ہم نے انسان کو تکلیف (کی حالت) میں (رہنے والا) بنایا ہے"-
 سورہ البلد 

"کچھ شک نہیں کہ انسان کم حوصلہ پیدا ہوا ہے"- 
سوره المعارج 

"مگر انسان سرکش ہو جاتا ہے"- 
سورہ العلق 

"مگر انسان چاہتا ہے کہ آگے کو خود سری کرتا جائے"-
 سوره القیامہ 

"اور انسان جس طرح (جلدی سے) بھلائی مانگتا ہے اسی طرح برائی مانگتا ہے۔
 اور انسان جلد باز (پیدا ہوا) ہے"- 
سوره بنی اسرائیل

"اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں (کے سمجھانے) کے لئے طرح طرح کی مثالیں بیان فرمائی ہیں۔ لیکن انسان سب چیزوں سے بڑھ کر جھگڑالو ہے"-
سوره الکھف 

"انسان بھلائی کی دعائیں کرتا کرتا تو تھکتا نہیں اور اگر تکلیف پہنچ جاتی ہے تو ناامید ہوجاتا اور آس توڑ بیٹھتا ہے"-
 سوره الفصلات 

"اور جب ہم انسان پر کرم کرتے ہیں تو منہ موڑ لیتا ہے اور پہلو پھیر کر چل دیتا ہے۔ اور جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے تو لمبی لمبی دعائیں کرنے لگتا ہے"- سوره الفصلات 

"ہم نے (بار) امانت کو آسمانوں اور زمین پر پیش کیا تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے۔ اور انسان نے اس کو اٹھا لیا۔ بےشک وہ ظالم اور جاہل تھا"- 
سوره الاحزاب 

"کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے تو تم خرچ ہوجانے کے خوف سے (ان کو) بند رکھتے۔
 اور انسان دل کا بہت تنگ ہے"-
 سوره بنی اسرائیل 

"اور طبیعتیں تو بخل کی طرف مائل ہوتی ہیں" 
سورہ النساء

 یہ ہے انسان کی تعریف قرآن کے مطابق-  ناشکرا، احسان فراموش، جلد باز، جگھڑالو، بخیل، تنگ دل، ظالم، جاہل، خود سر، سرکش، کم حوصلہ، مایوس، لالچی، کمزور، تکلیف میں رہنے والا-  

"بھلا وہی نہ جانے گا جس نے تخلیق کیا"-
 سوره الملک

ہم میں سے کسی کو بھی اپنی یہ تعریفیں نہیں معلوم-  شاید اس لئے کہ قرآن نہیں پڑھتے-  پڑھتے ہیں تو ترجمہ نہیں پڑھتے-  صرف ایک دوسرے کے الفاظ میں اپنی شخصیت تلاش کرتے ہیں اور مطمئن ہو جاتے ہیں کہ ہم ایسے ہی ہیں جیسے کہ ہمارے گھر والوں، دوستوں، جاننے والوں نے بتا دیا-  حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ہم دوسروں کی تعریف یا برائی میں کس حد تک مخلص ہوتے ہیں-  اور دوسرے بھی ہمارا عکس ہیں-  کوئی اچھا کہے تو یقین کر لیتے ہیں اور کوئی برا کہے تو برا مان جاتے ہیں-  کبھی خود اپنے آپ کو قرآن کی نظر سے نہیں دیکھتے-  ہو سکتا ہے کہ اچھا کہنے والے اور برا کہنے والے-  دونوں غلط ہوں یا دونوں صحیح ہوں-  اپنی مسلمانیت کو علماء اور مولویوں کی تعریفوں اور فتووں میں ڈھونڈتے ہیں- 

جس کا مطلب ہے کہ انسان بے وقوف بھی ہے  اور خود غرض بھی-  

"اور کوئی دوست کسی دوست کا پرسان حال نہ ہوگا- ایک دوسرے کو سامنے دیکھ رہے ہوں گے (اس روز) گنہگار خواہش کرے گا کہ کسی طرح اس دن کے عذاب کے بدلے میں (سب کچھ) دے دے یعنی اپنے بیٹے- اور اپنی بیوی اور اپنے بھائی- اور اپنا خاندان جس میں وہ رہتا تھا- اور جتنے آدمی زمین میں ہیں (غرض) سب (کچھ دے دے) اور خود کو عذاب سے چھڑا لے"-
 سوره المعارج 

"اس دن آدمی اپنے بھائی سے دور بھاگے گا-  اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے-  اور اپنی بیوی اور اپنے بیٹے سے"- 
 سوره عبس

اپنے ہم خیال, ہم مزاج اور ہم عقیدہ  لوگوں کا سہارا ڈھونڈتے ہیں کہ ایک حلقہ بن جاۓ-  اور پھر بد قسمتی سے وہ حلقہ ایک کنواں بن جاتا ہے اور ہم خیال اور ہم مزاج لوگ اس کے مینڈک-  ہر کنوئیں کے ڈریس کوڈز ہیں، شرائط ہیں-  کچھ مخصوص طرز عمل، مخصوص باتیں-  ہر کنوئیں سے اس کے مینڈک اچھل اچھل کر تماشہ دکھاتے ہیں اور پھر اس میں چلے جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں عبادت بھی ہوگئی اور فرض بھی ادا ہو گۓ-  اور دنیا کا نظام دے دیا ہے غیر مسلموں کے ہاتھہ میں-  جو ان سارے کنوؤں کو کنٹرول کر رہے ہیں-

وہ انسان کہاں ہیں جو مکّے کے تیرہ سالوں میںہر قسم کے کنوؤں کی قید سے آزاد کراۓ گۓ تھے-  اقرباء پروری، فرقہ پرستی، قبیلہ پرستی، نسلی تعصب، لسانی تعصب - یہ ایمان کی طرف جانے والے راستے ہیں ہی نہیں-



No comments:

Post a Comment