Sunday 28 August 2022

انبیاء علیھم السّلام کی سیرت

 اکثر ناگہانی آفات میں یہ سننے کو ملتا ہے کہ "ہم خدا ناراض کر بیٹھے"-  پھر اسے منانے کے لئے صدقہ خیرات شروع کردیتے ہیں جو کہ اچھی بات ہے-  لیکن یہ نہیں سوچتے کہ خدا ناراض کیوں ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آفات میں اضافہ کیوں ہوتا جارہا ہے؟  کیا وہ صدقہ خیرات جو ہم کرتے ہیں وہ خدا کو راضی نہیں کرپاتے؟   اگر ہم اتنے اچھے اور معصوم ہیں تو پھر یہ بلائیں کیوں؟  اور اگر ہم گنہگار ہیں تو پھر بہتر کیوں نہیں ہوتے؟  


بدترین معاشی اور آفاتی صورتحال میں مسلمان ہمیشہ انبیاء علیھم السّلام کی سیرت کی طرف دیکھتے ہیں اور صحابۂ کرام کی زندگی کی طرف-   

آگ، طوفان، زلزلے، بارشیں، بھوک، بیماری، قتل و غارت، دشمنی، طعنے، ملامت، قید، دربدری-  کون کون سی آزمائشیں تھیں جو نہیں گزریں پیغمبروں پر اور اہل بیت پر اور اہل ایمان پر-  


کسی بھی قسم کی مصیبت یا آزمائش میں ان سب نے جو سب سے پہلا عمل کیا وہ تھا "اللہ کی طرف رجوع"-  


اللہ عزوجلّ کی طاقت اور اپنی کمزوری کا اعتراف-  


اللہ ربّ العزت کی پاکی اور اپنی غلطیوں کا اعتراف-      


اللہ مالک الملک کی حاکمیت اور اپنی بندگی کا اعتراف-  


اللہ ذو الجلال و الاکرام کی نعمتوں اور اپنی ناشکریوں کا اعتراف-  


اللہ الرّحمان الرّحیم سے رحم اور رحمت کی بھیک-  


اللہ الغنی و المغنی سے نعمتوں کی بھیک-  


حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے فرمایا تھا کہ 

رَبِّ اِنِّىۡ لِمَاۤ اَنۡزَلۡتَ اِلَىَّ مِنۡ خَيۡرٍ فَقِيۡرٌ‏- 

اے میرے رب! آپ جو خیر مجھ پر اتاریں میں اسکا محتاج ہوں- 

سوره القصص آیت ٢٤ 


مصیبت چاہے اپنی غفلتوں اور گناہوں کا نتیجہ ہو یا رب کی طرف سے آزمائش-  مسلمان کا طریقہ یہی ہوتا ہے جو قائد اعظم نے فرمایا- 

"مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتا"- 


پاکستانی معاشرے کی حقیقت یہ ہے کہ ہم نے ترقی کا ایک غلط رخ دیکھا اور اسی کو کل مقصد زندگی سمجھ کر اپنا لیا-  اس ترقی کی خاطر ہم نے تمام دینی حقوق و فرائض کو نظر انداز کیا-  دینی حقوق و فرائض صرف نماز، روزہ، حج، زکواة نہیں ہیں-  دین کا تعلق گھر، محلّے، معاشرے، مسجد، معاش، سیاست، سب سے ہے-  لہٰذا سارے حقوق اسی ایک "دین" کی چھتری کے نیچے آجاتے ہیں-  


کون سی ترقی اور تہذیب ہے جو مسلمان کو ذکر اللہ سے روکتی ہے-  نماز، تلاوت قرآن سے غافل کرتی ہے-  گھر کے کاموں سے بیزاری سکھاتی ہے-  زندگی کو بے نظم و ضبط بناتی ہے-  اپنے والدین، اولاد، بہن بھائیوں، رشتہ داروں سے غافل کرتی ہے-  پڑوسیوں کا بھلا چاہنے سے روکتی ہے-  دوستوں اور ملنے جلنے والوں کو دھوکہ دینے پر اکساتی ہے-  دن و رات کے فرق کو مٹاتی ہے-  اچھے برے کی تمیز ختم کردیتی ہے-  


اور اب جبکہ موجودہ آفت میں ایک بار پھر بہت سوں کے مال و جائیداد اور غرور و دبدبے پانی کے ریلوں کے ساتھ بہہ گۓ ہیں-  تو اللہ مالک الملک نے پھر سے موقع دیا ہے سدھر جانے کا-  


اللہ پاک کا ذکر وہ عمل ہے جو نہ صرف مصیبتوں کو روکتا ہے بلکہ آئی ہوئی مصیبت بھی آسان کرتا ہے-  مصیبتوں کو آسان کرنے کی بہت سی دعائیں ہیں-  



١. ہر کام " بسم الله الرحمن الرحیم" سے شروع کرنا- 


٢- سورہ البقرہ کی تلاوت-  آیہ الکرسی ہر نماز کے بعد اور گھر سے باہر جانے سے پہلے- 


٣- کثرت سے استغفار کرنا- 


٤- صبح و شام تین بار


سورہ الکافرون، سورہ الاخلاص، سورہ الفلق، سورہ النّاس 


بِسْمِ اللہ الَّذِی لَا یَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَئٌ فِی الاَ رْضِ وَ لَا فِی السَّمَآءِ وَ ھُوَ السَّمِیعُ العَلِیمِ


اَعُوذ بِکَلِمَاتِ اللهِ التَّآمَّآتِ مِنْ غَضَبِهِ وَ عِقَابِهِ وَ شَرِّ عِبَادِہِ وَ مِنْ ھَمَزَاتِ الشَّیَاطِینِ وَ اَنْ یَّحْضُرُونَ


اَعُوذ بِکَلِمَاتِ اللهِ التَّآمَّآتِ  مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ 


رَضِیتُ بِاللہِ رَبَّا وَّ بِالْاِسْلَامِ دِینًا وَّ بِمُحَمَّدٍ صلی الله علیہ وسلم نَبِیَّا وَرَسُولًا 


اللَّھُمَّ عَافِنِی فِی بَدَنِی اللَّھُمَّ عَافِنِی فِی بَصَرِی اللَّھُمَّ عَافِنِی فِی سَمْعِی لااِلهَاِلَّااَنْتَ 


اللَّھُمَّ اِنِّی أَسْئَلُکَ الْعَافِیَةَ فِی الدُّ نْیَا وَالْآخِرَةَ وَأَسْئَلُکَ الْعَافِیَةَ فِی اَهْلِ وَمَالِ 


اللَّھُمَّ اسْتُرْعَوْرَاتِنَا وَآمِنْ رَوْعَاتِنَا 


اللّھُمَّ اِنِّی اَعُوذُ بِكَ مِنَ الْھَمِّ وَ الْحُزْنِ وَ اَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْکَسَلِ وَاَعُوذُ بِكَ مِنَ الْبُخْلِ وَالْجُبْنِ وَاَعُوذُ بِكَ مِنْ غَلَبَةِ الدِّ ینِ وَقَھْرِالرِّجَالِ



٥- روزانہ سو مرتبہ 


 سُبْحَانَ اللهِ وَ بِحَمْدِہِ سُبْحَانَ اللهِ العَظِیمِ  


لَاحَولَ وَلَاقُوَّةَ اِلَّا بِاللهِ 



٦- صبح شام سات مرتبہ 


حَسْبِیَ اللهُ لَا اِلهَ اِلَّاھُوَعَلَیْهِ تَوَکَّلْتُ وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ العَظِیمِ 


 اللَّھُمَّ اَجِرنِی مِنَ النَّارِ


٧- جتنا ہو سکے 


لَا اِلهَ اِلَّا اللهُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَهُ، لَهُ الْمُلْکُ وَ لَهُ الْحَمْدُ وَھُوَعَلَی کُلِّ شَئٍی قَدِیرٍ 


پہلا اور تیسرا کلمہ 


٨-  تمام مسلمانوں کے لئے خیر کی دعائیں-  صحت و تندرستی کی دعائیں-  


٩- فکر، تفکّر، اضطراب-  کیسے ملک و قوم کی عزت بحال ہوگی-  کیسے دنیا میں غیرتمند جانے جائیں گے-  کیسے اپنی ذاتی دس روپے کی عزت اور بیس روپے کی غیرت سے آگے سوچیں گے-  کیسے پاکستان کو اپنے ملک کے بجاۓ اپنا گھر سمجھ کر اسکو بہتر بنائیں گے-  کون سے اعمال کریں کہ آئندہ آفات عذاب نہ بن جائیں-  


١٠-  اپنے بچوں اور اپنی نسلوں کو عزت، غیرت کا سبق کیسے پڑھائیں-  

Wednesday 23 March 2022

Pakistan Day 2022

 الحمد للہ 

یوم پاکستان کے مقدّس دن کی قومی تقریب ختم ہوئی-  


اور جس شاندار طریقے سے ہوئی کہ اسلامی ممالک کی اہم شخصیات بھی شامل ہوئیں-  وہ قرآن کی آیت کا منہ بولتا ثبوت ہے-  


"اور انہوں چالیں چلی اور اللہ نے ایک چال چلی-  اور اللہ کی چال بہترین ہے"- 


 جن حالات میں پاکستان بنا-  وہ ایک معجزہ ہے-  

جن حالات میں پاکستان قائم رہ گیا ہے-  وہ بھی ایک معجزہ ہے-  


حقیقت یہ ہے کہ 

ہندوستان میں تحریک پاکستان کے لئے کام کرنے والے اقلیت میں بھی تھے-  جبکہ پاکستان کے مخالف اکثریت میں بھی تھے اور بااثر بھی-  لیکن اکثریت کی طاقت اقلیت کی ہمّت کا مقابلہ نہ  کرسکی- 


پاکستان بننے کے بعد اسکو قائم رکھنے والے بھی اقلیت میں ہی رہے-  جبکہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے والے اکثریت میں بھی اور اثرو رسوخ والے بھی-  لیکن اقلیت کی ہمّت اکثریت کی طاقت کو مات دیتی رہی- 


پاکستان ہر قسم کے مشکل ترین حالات کا مقابلہ کرتا ہوا ١٩٤٧ سے بہت بہتر پوزیشن میں پہنچ گیا ہے-   پاکستان کے  وجود کے جو بھی مقاصد تھے وہ بھی پورے ہو رہے ہیں-  


تحریک پاکستان لیکن ابھی بھی جاری ہے اور اسی پورے خطّے میں جاری ہے-  


پاکستانی آج بھی دو قومی نظریے کی زد میں ہیں-  ملک میں بسنے والوں کا ایک حصّہ پاکستان مخالف قوّتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے-  اور باقی انکا مقابلہ کر رہے ہیں-  


اس یقین کے ساتھ کہ 


"آگاہ ہو جاؤ کہ اللہ کا گروہ ہی کامیاب ہونے والا ہے"- 

سورہ الحشر 

Tuesday 22 March 2022

OIC Conference 2022

 الحمد للہ 

شکر اور مبارکباد کے لمحات- 


پاکستان کے وجود کے مقاصد کی طرف ایک اور قدم-  اس پر اللہ کا شکر 


پاکستان امّت کا شیر ہے تو اسکا سربراہ بھی اسی اسٹینڈرڈ کا ہونا چاہئے-  اس پر اللہ کا شکر-  


اگر اس دنیا سے چلے جانے والوں کو جانے کے بعد بھی اس دنیا کے حالات پتہ چلتے رہتے ہیں تو آج علّامہ اقبال رحمة اللہ علیہ اور قائد اعظم رحمة اللہ علیہ کی روحیں بہت خوش ہوئی ہونگی- 


اللہ پاک عمران خان پر اور انکے والدین پر اور ہر اس شخص پر  جس نے اس اسلامی کانفرنس کروانے میں اپنا کردار ادا کیا اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائیں-  آمین 


اللہ پاک سے دعا ہے کہ اس ملک کے عوام اجتماعی توبہ کریں اور اپنی اصلاح خود کریں اور اپنے نفس کو لالچ اور حسد اور ریاکاری سے پاک کریں-  آمین 

Saturday 19 March 2022

شاہین کا جہاں اور

کتاب ملّت بیضاء کی پھر شیرازہ بندی ہے 

یہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا 


اقوام متّحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسلامو فوبیا کے خلاف قرارداد منظور کر لی- یہ ایک بہت بڑی فتح ہے مسلمانوں کی غیر مسلم دنیا میں-  اقوام متّحدہ کے اس اقدام سے کسی حد تک  لاکھوں مسلمانوں کے اسلام کی خاطر، رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کی عزت و وقار کی خاطر جانیں دینے اور مظالم سہنے کا ازالہ ہوا ہے-  


اور اس اقدام کے پیچھے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی بہترین کاوشوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا-  کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کے درد کو محسوس کیا-  اور جو مسلمانوں کے درد کو محسوس کرتا ہے-  اللہ رب العزت کی کائنات اس کے ساتھ ہو جاتی ہے-  


اقوام متّحدہ کا مطلب ہے پوری دنیا-  دنیاوی سپر پاورز کی دنیا-  مسلمانوں کے معاملات میں ایک اندھیر نگری-  کیونکہ بکاؤ مسلمان حکمرانوں نے مسلمانوں کی کوئی عزت ہی نہیں رکھ چھوڑی اور خود اس اندھیر نگری کا حصّہ بنے ہوۓ ہیں-  


ایسے میں عمران خان صاحب نے صرف پاکستانیوں کا ہی نہیں بلکہ ساری مسلم امّہ کی خواہشات کا نہ صرف احترام کیا بلکہ اسے ایک قراداد کی صورت میں دنیا سے منظور بھی کرالیا-  یہ شکر کا موقع ہے-  خوشی کا موقع ہے-  مبارکباد کا موقع ہے-  عمران خان صاحب نے عالمی نظام خلافت کے قیام میں اپنا حصّہ ڈال دیا ہے-  پاکستان کا حصّہ ڈال دیا ہے-   


لیکن مذہبی علماء کو لگتا ہے سانپ سونگھ گیا ہے-  انکی سمجھ بوجھ کی پرواز اتنی نیچی ہے کہ شاید یہ اوپر ہونے والے فیصلے نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ سمجھ سکتے ہیں-  بے چارے 


 

Friday 4 December 2020

بابا تو اللہ کے ولی ہیں

 بابا تو اللہ کے ولی ہیں- 

یہ جملہ باجی نے تقریبا ایک سال پہلے بابا کے بارے میں کہا- 

اور میں نے فورا کہا 'بے شک، یقینا'- دل چاہا کہ بابا کے ساتھ رحمة اللہ علیہ کا اضافہ بھی کر دیا جاۓ- 

جو زندگی کی آزمائشیں ان پر گزریں وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے ہی تھیں اور اللہ عزوجل نے ہی اس میں آسانیاں بھی پیدا کیں-  لیکن جیسی آزمائشیں تھیں اور جسطرح اللہ جلّ شانه نے بابا کو سنبھالے رکھا اور انہیں صبر و استقامت عطا فرمائی وہ یا تو انبیاء علیھم السّلام کے ساتھ ہوتا رہا یا پھر صدّیقین اور صالحین کے ساتھ ہوتا رہا-  انکی اپنی ذات کی ہی حد تک اتنی ناکامیاں اور مشکلات کہ بلآخر وہ ہر حال میں شکر اور صبر کے ساتھ جینا سیکھ گۓ- 

ہر حال میں شکر اور صبر سے جینے کے ساتھ ساتھ خود تکلیفوں پر تکلیفیں  اٹھا کر اپنی اولادوں سمیت بہت سوں کی زندگی سنوار گۓ-  یہ بھی اللہ جلّ جلالہ کے محبوب بندوں کا کردار ہوتا ہے-   

ہم سب چاہتے ہوۓ بھی بے بس تھے کہ انکے لئے کچھ کر نہ سکے اور اللہ تبارک و تعالیٰ بابا کو آزماتے چلے گۓ اور آخری سانس تک آزما لیا- 

ایسا بیٹا جس نے ماں کی خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑی- 

ایسا بیٹا جس نے باپ سے پٹ پٹ کر بھی کبھی آنکھ اٹھا کر انکو نہیں دیکھا-  زبان سے کچھ کہنا تو دور کی بات- اور جب تک اپنے والد کے نام کا حج نہ کرلیا اس وقت تک چین نہیں آیا-  

ایسا انسان جس نے کبھی بیوی بیٹوں بیٹیوں سے یا کسی سے بھی ایک گلاس پانی نہیں مانگا- 

ایسا باپ جس نے بیٹوں بیٹیوں کی خوشیوں کے لئے اپنے آپ کو بھلا دیا- 

ایسا دوست جس نے جہاں کسی دوست کو تکلیف میں دیکھا اپنی جیب خالی کردی- 

اپنی زندگی بھر کی غلطیوں اور کوتاہیوں پر بچوں کی رو رو کر اللہ ربّ العالمین سے معافی مانگنے والے- 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے عاشق-  ایسے کہ درودوں پر درود پڑھتے اور رسول کا نام آتے ہی آنسوؤں سے رونے لگتے-  

ایسے باحیا اور اپنی نظروں کی حفاظت کر نے والے- 

 اور آخری چند سال میں تو اپنی زبان کی اتنی حفاظت کہ ذکر اللہ اور دعاؤں کے سوا شاید ہی گنے چنے الفاظ منہ سے نکلتے ہونگے-  

  بابا کو زندگی کے لئے زندگی سے اتنا لڑتے دیکھا کہ اب یہ کہنے کو دل نہیں چاہتا کہ انکا انتقال ہو چکا ہے-  


یا اللہ تبارک و تعالیٰ، 

بابا واپس آپ کے پاس پہنچ چکے ہیں-  

بابا نے آپ کو اپنا سمجھا-  آپ بھی ان سے اپنوں کی طرح سلوک کیجئے گا-  

بابا نے آپ پر بھروسہ کیا-  آپ انکے بھروسے کا مان رکھئے گا- 

انکی اس  خدمت کو یاد رکھئے گا جو انہوں نے اپنی ماں کی بیماری میں کی- 

انکی فرمانبرداری کو یاد رکھئے گا جو انہوں نے اپنے باپ سے کی-  

انکی ہتھیلیوں کو یاد رکھئے گا جو آپکے گھر کو آگ سے بچاتے ہوۓ جل گئیں تھیں- 

انکے صبر کو یاد رکھئے گا جس کی وجہ سے وہ خاموشی سے سہہ جاتے تھے-  

انکی قناعت کو یاد رکھئے گا جس کی وجہ سے شکر کیا کرتے تھے- 

انکی بہادری کو یاد رکھئے گا جس کی وجہ سے وہ کسی پر ظلم برداشت نہیں کرتے تھے- 

انکی سخاوت کو یاد رکھئے گا جس سے وہ ہر ایک کی تکلیف دور کرنے کی کوشش کرتے تھے- 

انکے توکّل کو یاد رکھئے گا جو انہیں بخل سے بچاتا رہا-  

انکی سادگی کو یاد رکھئے گا جس کی وجہ سے وہ سیدھی بات کیا کرتے تھے-  

انکی حیا کو یاد رکھئے گا جس کی گواہی ان کی زندگی میں آنے والا ہر مرد و عورت دیتا رہا ہے-  

انکی مسجدوں سے محبّت کو یاد رکھئے گا جہاں ان کا دل اٹکا رہنے لگا تھا- 

انکی فرض نمازوں کو یاد رکھئے گا جنکا وہ انتظار کیا کرتے تھے- 

انکی تہجد کی نمازوں کو یاد رکھئے گا جو وہ صرف آپ کی محبّت میں پڑھا کرتے تھے-  

انکے نفل روزوں کو یاد رکھئے گا جو وہ محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلّم کی پیروی میں رکھا کرتے تھا-  

انکی آواز کو یاد رکھئے گا جو شوق سے اذان دینے کے لئے نکلتی تھی-  

انکے آنسوؤں کو یاد رکھئے گا جو محمّد مصطفیٰ کا نام سن کر انکی آنکھوں سے بہنے لگتے تھے- 

انکے آخرت کے خوف کو یاد رکھئے گا جس کی وجہ سے وہ خود اپنی اصلاح کرنے لگے تھے-  

انکی عاجزی کو یاد رکھئے گا جس کی وجہ سے اپنی تعریف کروانا بھی پسند نہیں کرتے تھے- 

یا ربّ العالمین! یقینا انکی لاتعداد نیکیاں ایسی ہونگی جن سے صرف آپ واقف ہونگے-  

اور انکی کوتاہیوں اور نافرمانیوں کو معاف کردیجئے گا جو انہوں نے اپنی اولاد کی محبّت میں کیں- 

اور انکی توبہ کو یاد رکھئے گا جس میں ندامت بھی تھی اور آپ کی رحمت پر یقین بھی اور آپ سے معافی کی امید بھی-  بے شک جو آپ سے امید لگاتا ہے آپ اسے مایوس نہیں کرتے-  

بابا اب آپ کے پاس ہیں-  آپ کی رحمت سے پوری امید ہے کہ وہ نہایت خوش اور اطمینان سے ہونگے اور دن رات اپنی جنّت کے باغوں کے نظارے کرتے ہونگے-  


Wednesday 15 April 2020

پغمبروں کی سنّت

حضرت آدم علیہ السّلام اور حضرت حوّا علیھاالسّلام کی دعا 

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا -  
وَاِنۡ لَّمۡ تَغۡفِرۡ لَـنَا وَتَرۡحَمۡنَا لَـنَكُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِيۡنَ‏- 
"دونوں عرض کرنے لگے کہ اے ہمارے رب، 
ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر آپ ہمیں نہیں بخشیں گے 
اور ہم پر رحم نہیں فرمائیں گے تو ہم ہو جائیں گے 
نقصان اٹھانے والوں میں سے"-  
سوره الاعراف 


حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی دعا نماز کے لئے 

رَبِّ اجۡعَلۡنِىۡ مُقِيۡمَ الصَّلٰوةِ وَمِنۡ ذُرِّيَّتِىۡ‌‌ۖ-  رَبَّنَا وَتَقَبَّلۡ دُعَآءِ‏ 
اے پروردگار مجھ کو اور میری اولاد کو نماز قائم کرنے کی توفیق دے- 
اے ہمارے پروردگاراور میری دعا قبول فرما"- 


حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی دعا 

رَبِّ هَبۡ لِىۡ حُكۡمًا وَّاَلۡحِقۡنِىۡ بِالصّٰلِحِيۡنَۙ‏- 
وَاجۡعَلْ لِّىۡ لِسَانَ صِدۡقٍ فِىۡ الۡاٰخِرِيۡنَۙ‏- 
وَاجۡعَلۡنِىۡ مِنۡ وَّرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِيۡمِۙ- 
اے رب! مجھے علم ودانش عطا فرمائیں اور 
مجھے صالحین کے ساتھ جوڑ دیں-  
اور میرے پیچھے آنے والوں میں میرا ذکر خیر جاری کردیں-  
اور مجھے ان میں سے کردیں جو نعمتوں کے باغوں کے وارث ہیں"- 
سورہ الشعراء 


حضرت یعقوب علیہ السّلام کے الفاظ بے بسی میں 

قَالَ اِنَّمَآ اَشْکُوْا بَثِّیْ وَحُزْنِیْٓ اِلَی اللہ 
 «یعقوب نے فرمایا: میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کی فریاد 
اللہ ہی سے کرتا ہوں»
سوره یوسف 


حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی دعا ہدایت، آسانی اور بیان کے لئے 

قَالَ رَبِّ اشۡرَحۡ لِىۡ صَدۡرِىۙ‏ وَيَسِّرۡ لِىۡۤ اَمۡرِىۙ‏ 
وَاحۡلُلۡ عُقۡدَةً مِّنۡ لِّسَانِىۙ 
کہا (موسیٰ) نے کہ اے رب میرا سینہ (ہدایت) کے لئے کھول دے 
اور میرے کاموں میں آسانی دے اور میری زبان کی گرہ کھول دے.."- 
سورہ طہ 

حضرت ایّوب علیہ السّلام کے الفاظ بیماری میں 

وَاَيُّوۡبَ اِذۡ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّىۡ مَسَّنِىَ الضُّرُّ وَاَنۡتَ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِيۡنَ‌ ۖ‌ۚ‏ 
 اور ایوب کو (یاد کرو) جب انہوں نے 
اپنے پروردگار سے دعا کی کہ مجھے ایذا ہو رہی ہے 
اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے - 
سوره الانبیاء 


حضرت سلیمان علیہ السّلام کے الفاظ شکرگزاری میں 

وَقَالَ رَبِّ اَوۡزِعۡنِىۡۤ اَنۡ اَشۡكُرَ نِعۡمَتَكَ الَّتِىۡۤ اَنۡعَمۡتَ عَلَىَّ 
وَعَلٰى وَالِدَىَّ وَاَنۡ اَعۡمَلَ صَالِحًـا تَرۡضٰٮهُ 
وَاَدۡخِلۡنِىۡ بِرَحۡمَتِكَ فِىۡ عِبَادِكَ الصّٰلِحِيۡنَ‏ 
 "اور (سلیمان) کہنے لگے کہ اے پروردگار! 
مجھے توفیق عطا فرما کہ جو احسان تونے مجھ پر
 اور میرے ماں باپ پر کئے ہیں ان کا شکر کروں 
اور ایسے نیک کام کروں کہ تو ان سے خوش ہوجائے 
اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیک بندوں میں داخل فرما"- 
سوره النمل 

حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے الفاظ مذاق کے معاملے میں 

قال أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ
"کہا (موسیٰ) نے کہ میں پناہ مانگتا ہوں 
اللہ کی اس بات سے کہ میں جاہلوں میں سے ہوں"- 
سوره البقرہ 

حضرت یونس علیہ السّلام کی دعا اندھیروں میں 

لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَۚۖ
نہیں کوئی معبود سواۓ آپکے- پاک ہیں آپ - 
بیشک میں ظالموں میں سے ہوں"- 
سوره الانبیاء 


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی فریاد طائف کے واقعہ کے بعد 

«اَللّٰھُمَّ اِلَیْکَ اَشْکُوْ ضُعْفَ قُوَّتِیْ وَقِلَّۃَ حِیْلَتِیْ 
وَھَوَانِیْ عَلَی النَّاسِ، اِلٰی مَنْ تَـکِلُنِیْ؟ …»   « 
"اے اللہ! میں تیری جناب میں فریاد لے کر آیا ہوں 
اپنی قوت کی کمزوری اور اپنے وسائل کی کمی کی، 
اور لوگوں کے سامنے میری جو توہین ہو رہی ہے اس کی۔ 
اے اللہ ! تو نے مجھے کس کے حوالے کر دیا ہے؟…»

Saturday 11 April 2020

جاگتی قوم

تو دنیا کے منطقی انجام کا عمل شروع ہوگیا ہے-  گو کہ دنیا کے انسانوں نے بہت دیر کردی-  اتنی دیر کہ باطل قوّتوں کو اب پرواہ نہیں کہ کون انکے خلاف کیا کرسکتا ہے-  اب انہیں کوئی جلدی نہیں، ہار جانے کا خوف نہیں-  اوور کانفیڈنٹ ہوگۓ ہیں- 

پاکستانیوں نے دیر تو کی لیکن جلد ہی سنبھلتے بھی جارہے ہیں-  شاید اس لئے کہ یہ قوم اپنی شناخت سے اب تک معرکوں میں گھری رہی ہے-  اسی لئے سو نہیں پاتی-  جاگتی رہتی ہے-  یقین اور اتحاد تو دکھا دیتی ہے-  بس تنظیم کی کمی ہے-   

دگرگوں جہاں ان کے زور عمل سے
بڑے معرکے زندہ قوموں نے مارے

حق والے گھبرا بھی رہے ہیں اور خوف میں بھی ہیں-  یہ بھی پیغمبروں کی سنّت رہی ہے-  ورنہ اللہ کے ارادوں سے بے خوف ابلیس اور شیاطین ہوا کرتے ہیں-  

آگے آنے والے دنوں میں یہی سادگی، قناعت، اخوّت اور تڑپ کام آئیگی جو آج پاکستان میں نظر آرہی ہے-  وزیراعظم نے صحیح مشورہ دیا تھا مرغیاں اور گائیں پالنے کا-  صحیح جا رہی دنیا گھروں میں سبزیاں اگانے کی طرف-  کاش کہ ہماری حکومتوں نے اپنے بجٹ سے اور خیراتی اداروں نے بکروں پر بکرے کھلانے کے بجاۓ جمع ہونے والے فنڈز سے گلی گلی پھلوں کے درخت لگا دئیے ہوتے جن سے لوگ جب چاہے بھوک مٹا لیتے تو آج اتنے زیادہ راشن کے لئے پریشان نہیں ہونا پڑتا-  کاش کہ اتنے پھول لگاۓ ہوتے کہ یہاں شہد کی فراوانی ہوتی- اور کیا ہی اچھا ہو کہ لوگ انتہائی کم حد تک ٹیکنالوجی استعمال کرنا شروع کردیں-  موبائل صرف ضرورت کے وقت آن کریں ورنہ آف رکھیں- بلکہ تمام الیکٹرانکس کے ساتھ یہی کریں-  

مذاق سے ہٹ کے چودہ سو سال پرانے نہ سہی لیکن کم از کم تین سو سال پرانی دنیا کو جینے کا وقت آگیا ہے-  

خوش قسمت ہوگا وہ جسے بھوک میں کھانا اور خوف میں امن مل جاۓ- 

لیکن جیسا کہ قرآن میں انسان کی تعریف کی گئی ہے-  انسان جاہل، ناشکرا، بے صبرا، جلدباز، مشقّت پسند اور گھبرا جانے والا ہے-  

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم سے جو کچھ کہلوایا -  وہ تو ہو کر رہنا ہے-  یہ تقدیر ہے-  

دجال آۓ گا اور اپنی چالیس روز کی مدّت پوری کرے گا-  اور جن جن پر اللہ نے چاہا اسکا زور چلے گا اور جن جن پر اللہ نے نہیں چاہا اسکا زور نہیں چلے گا-  یہ بھی تقدیر ہے-  

اس میں دیکھنے کے قابل مومن کی تدابیر ہونگی-  بہت سی تدابیر تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے بتادیں ہیں-  

- سورہ الکہف کی تلاوت اور اسکی پہلی کچھ اور آخری دو آیات کو یاد کرنا- 
- آیة الکرسی کی تلاوت اور اسکی کی فضیلت 
- سورہ البقرہ کی تلاوت 
- ایک حدیث کے مطابق بہت سے لوگ اپنے گاؤں کو لوٹ جائیں گے اور وہ بچ جائیں گے- 
- ایک اور حدیث کے مطابق رسول اللہ نے فرمایا کہ چھوٹے شہر بساؤ-  

اور سب سے بڑھ کے یہ یقین کہ دجال اور اسکے تابع ساری باطل قوّتیں اللہ کے مقابل نہیں بلکہ اللہ کی ہی مخلوق ہیں-  اور اللہ کی ڈھیل جن تک ہوگی وہ قابض رہیں گی اور جب اللہ ان کی رسّی کھینچے گا تو مٹ جائیں گی-  اور یہ یقین کہ وہ ایک بہت بڑا شعبدہ باز ہوگا کہ آج تک اس جیسا پیدا نہ ہوا-  

اور یہ یقین کہ آیة الکرسی ہر شعبدہ بازی کا توڑ ہے قیامت تک کے لئے کہ شیاطین اسکے آگے ٹھہر نہیں سکتے-  

اور یہ یقین کہ دعا مومن کا ہتھیار ہے اور قضاء یعنی جو فیصلہ مقدّر ہو چکا ہو اسکو بھی بدل دیتی ہیں اور جو عذاب سروں تک آچکا ہو اسے بھی روک دیتی ہے-  

اور یہ یقین کہ تقویٰ مومن کی ڈھال- 

دجال کی فلم کا کلائمکس شروع ہونے والا ہے-  ایک شخص اپنی بہت سی شیطانی طاقتوں کے ساتھ آکر وہی کریگا جو ہر فلم میں ولن کرتا ہے-  بہت سے بے بس ایکسٹراز ہونگے جو صرف تماشائی ہونگے اور ظلم کو خاموشی سے ہوتا دیکھیں گے-  اور وہ چند بہادر ہونگے جو اس ولن کو اسکے انجام تک پہنچائیں گے-  اور پھر دنیا انکے لئے تالیاں بجاۓ گی اور انکو اپنا ہیرو تسلیم کرے گی اور اپنا حکمران بھی-  

آگے کے چند سال بہت سے انسانوں کو دو سو تین سو سال پیچھے لے جائیں گے-  بہت سے اس سے مقابلہ کریں گے اور شہید ہونگے-  اور بہت سے ایسے بھی ہونگے جن کو اللہ بھوک میں کھانا دیتا رہے گا  اور خوف میں امن دیتا رہے گا-  اور وہ سسٹم کو آگے بڑھائیں گے-  

اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہم سب کے لئے اگلے چند سالوں کو آسان فرماۓ اور ہم سبکو وہ زندگی عطا فرماۓ جس سے ہماری دنیا بھی پر امن رہے اور آخرت بھی بچ جاۓ-  آمین 

Friday 10 April 2020

دو کہانیاں اپنے عروج پر

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، لب پہ آسکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی 
علّامہ اقبال 

حیرت ہو رہی ہے کہ دنیا کیا سے کیا بن گئی ہے-  ایسا لگ رہا ہے کہ اک خواب دیکھا جا رہا ہے-  جس میں ہر چیز الٹ گئی ہے-  انسان کو آزاد پیدا کیا گیا تھا کہ دنیا کو بہتر بناۓ گا-  اور دنیا کو بہتر بنانے کے لئے انسان کو قید کرنا لازمی ہو گیا ہے-  اچھے اخلاق کی علامتیں موت کے ہتھیار بن گئیں ہیں-  انسان کی عافیت ایک دوسرے سے دور رہنے میں ہے-  سڑکیں ویران اور گھر آباد ہو گۓ ہیں-  

قناعت کا مطلب سمجھ نہیں آتا تھا-  تقویٰ کا مطلب سمجھ نہیں آتا تھا-  اب سمجھ آرہا ہے لیکن یقین نہیں آرہا- 

سنتے تھے کہ دجال کے زمانے میں ہر چیز الٹ ہو جاۓ گی تو سمجھ نہیں آتا تھا کہ کیسے ہوگی-  اب سمجھ آگیا- 

دو کہانیاں اپنے عروج پر ہیں اور آمنے سامنے ہیں-  دجال کی کہانی اور پاکستان کی کہانی-  

اقبال نے کہا تھا کہ 
فضاۓ بدر پیدا کر، فرشتے تیری نصرت کو 
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی 

تو فضاۓ بدر پیدا ہو چکی ہے-  باطل قوّتوں کا ایک عظیم جتھا خود کو بچانے کے لئے اب وہ حربے آزمانے جارہا ہے جو اسکے زوال کی وجہ بنیں گے-  اور دوسری طرف اسکے مقابلے میں ایک ہی لشکر ہے-  جو ہار ماننے والا نہیں ہے-  دجال کے زوال کے لئے پاکستان لازمی ہے-  ظاہر ہے مکّہ اور مدینہ سے تو فوجیں نہیں جائیں گی باطل کے خاتمے کے لئے-  کیونکہ دونوں مقدّس اور امن کے شہر ہیں-  لہٰذا پاکستان کا وجود تو لازمی ہے-   

اور جیسا کہ سوره الحشر میں بیان ہوا ہے کہ یہ سب جتھے ایمان والوں سے نہیں لڑ سکتے مگر پیچھے سے-  اور یہ جو ایک قوّت خیال کیے جاتے ہیں انکے دل آپس میں پھٹے ہوۓ ہیں-  

مسلہ اسلام بچانے کا نہیں-  اسلام تو بچانے آیا تھا-  اسلام تو تلوار بن کر بھی موجود ہے جسے  اللہ کی فوجیں استعمال کررہی ہیں-   

اور اسلام ڈھال بن کر بھی موجود ہے لیکن اس ڈھال کو کوئی استعمال نہیں کررہا-  تقویٰ کی ڈھال-  

مسلہ ہے انسان بچانے کا-  اپنے اپنے ایمان بچانے کا-  

تقویٰ یعنی ڈرنا اللہ سے-  تقویٰ یعنی پرہیز یا دوری اختیار کرنا-  تقویٰ یعنی بچ کر رہنا-  

 یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ
اے ایما ن والو! اللہ سے ڈرو-  
سورہ البقرہ 

فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیۡ وَقُوۡدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ
اور اس آگ سے بچو جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں۔
سورہ البقرہ 

تقویٰ کی بہترین تربیت ہر سال رمضان میں ہوتی ہے-  جس کو کہ مسلمانوں نے چھوڑ دیا تھا-  اسی لئے اس سال یہ تربیت رجب سے ہی شروع کردی گئی ہے-  

اب انسانوں کی مرضی ہے-  کہ اس تربیت کو عذاب سمجھیں-  یا آزمائش سمجھیں-  یا موقع- 


Friday 3 April 2020

مرکز کس کی وجہ سے بھکاری ہے؟

حال ہی میں اسرائیل کے وزیر صحت کا بیان اس بات کی شہادت دینے کے لئے کافی ہے کہ یہودی اپنی تاریخ نہیں بھولے- اور نہ اپنا مقصد- انکے پاس کوئی پیغبر اور رسول آنے والا نہیں لہٰذا ایک جعلی مسیح کی تیّاری کر لی گئی ہے-  

دنیا پر حکومت کرنے کا خواب بہت سے انسان صدیوں سے دیکھتے چلے آۓ ہیں-  
کبھی طاقت کے ذریعے، کبھی دولت اور معیشت کے ذریعے اور کبھی شہرت کے ذریعے، کبھی علم اور سائنس کے ذریعے- 
لیکن ابھی تک کوئی بھی مکمّل کامیابی حاصل نہیں کرسکا-  

یہودی دو ہزار سال تک دنیا کے امام رہے-  لیکن وہ رسولوں اور پیغمبروں کے ذریعے سے-  محمّد صلی اللہ علیہ وسلّم کی بعثت کے بعد سے یہ مقام ان سے چھن گیا اور یہ امامت محمّد صلی اللہ علیہ وسلّم کے ماننے والوں کے پاس آگئی-  جو کہ یہودیوں سے برداشت نہ ہوا-  

اور پھر جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم خاتم النّبیین بنے-  اس وقت سے دنیا کے مسائل کی جڑ یہی مسلہ بنا ہوا ہے-  

یہودیوں کو اپنی دنیا کی امامت اور دنیا میں عزت واپس چاہئے اور وہ پچھلے چودہ سو سال سے اس کے لئے سر دھڑ کی بازی لگاۓ ہوۓ ہیں-  انہوں نے اپنا کھویا ہوا منصب واپس لینے کے لئے ہمّت نہیں ہاری-  اور سیاسی، معاشرتی، قانونی، غرض یہ کہ ہر محاذ پر مسلمانوں کے مقابلہ کیا ہے-  اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ مسلمانوں کو تقسیم کروانے میں کامیاب رہے-  

باقی سب تو طاقت اور معاشی استحصال کے ذریعے سے اپنی کوششیں کرتے رہتے ہیں-  لیکن دنیا پر ایک حکومت کے ویژن کا مقابلہ نظریاتی طور پر صرف مسلمان اور یہودیوں میں ہے-  

اور صاف ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی جو حالت زار ہے کسی بھی معیار کو سامنے رکھ کر-  یہ کبھی خود تو دنیا پر ایک حکومت قائم کر ہی نہیں سکتے-  دماغ پر زور دیے بغیر ہی سوچیں کہ پاکستان پر کسی دینی طبقے کی حکومت ممکن ہے؟  بچّہ بھی کہے گا کہ نہیں-  اتنے فرقے پاکستان میں ایک حکومت نہیں بنا سکتے تو بھلا دنیا پر اسلام کی ایک حکومت کیسے قائم کر سکتے ہیں-  

یہ کام غیر مسلموں کو آتا ہے کیونکہ انکے ہاں تیّاری کی جاتی ہے تربیت کی جاتی ہے اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفاد پر قربان کرنے کی-  

جبکہ مسلمان فرقے قومی مفادات تو کیا اسلامی مفاد پر بھی اپنے ذاتی مفادات قربان نہیں کر سکتے-  

لہٰذا دجال کی حکومت پوری دنیا پر قائم ہونا کوئی انہونی بات نہیں-  اور خاص طور پر جب رسول اللہ صلی علیہ وسلّم نے اسکی پیشنگوئی بھی کردی ہے-  جو کہ ایک سال، ایک مہینے، ایک ہفتے اور ایک دن رہے گی-  

شاید کرونا وائرس کی طرح اسکا مقصد بھی دنیا کے لوگوں کو ایک مسلہ اور اسکے ایک حل کی تربیت کروانا ہوگی-  کہ ساری دنیا کو ایک ہی مسلہ در پیش ہو چاہے وہ بھوک ہو، بیماری ہو، جہالت ہو، خوف ہو یا غلامی-  حل کے لئے سب نے ایک ہی مرکز کی طرف دیکھنا ہے-  اجتماعی طور پر-  

کاش مسلمان ذاتی مفادات کو قومی مفاد پر قربان کرنا جانتے ہوتے تو دجال کے زمانے سے نہ گزرنا پڑتا شاید-  

لیکن سب مسلمانوں نے اپنے اپنے فرقے، ذاتیں، ادارے، مدرسے، عبادتگاہیں پکڑی ہوئی ہیں-  

مرکز کی تربیت کسی کی نہیں ہے-  

مرکز کو تو سب ایمرجنسی میں احسان کے طور پر فنڈز دے دیتے ہیں-  

مرکز کو یہ احساس دلاتے ہوۓ کہ مرکز بھکاری ہے-  

اور اس بات سے صاف نظریں چراتے ہوۓ کہ "مرکز بھکاری ہے کس کی وجہ سے؟"-  

Thursday 19 March 2020

عشق کے سجدے

وہ دھوپوں میں تپتی زمینوں پہ سجدے
سفر میں وہ گھوڑوں کی زینوں پہ سجدے
چٹانوں کی اونچی جبینوں پہ سجدے
وہ صحرا بیاباں کے سینوں پہ سجدے
علالت میں سجدے مصیبت میں سجدے
وہ فاقوں میں حاجت میں غربت میں سجدے
وہ جنگوں جدل میں حراست میں سجدے
لگا تیر زخموں کی حالت میں سجدے
وہ غاروں کی وحشت میں پُر نور سجدے
وہ خنجر کے ساۓ میں مسرور سجدے
وہ راتوں میں خلوت سے مامور سجدے
وہ لمبی رکعتوں سے مسحور سجدے
وہ سجدے محافظ مدد گار سجدے
غموں کے مقابل عطردار سجدے
نجات اور بخشش کے سالار سجدے
جھکا سر تو بنتے تھے تلوار سجدے
وہ سجدوں کے شوقین غازی کہاں ہیں؟ ؟
زمیں پوچھتی ہے نمازی کہاں ہیں؟؟؟؟

ہمارے بجھے دل سے بیزار سجدے
خیالوں میں الجھے ہوے چار سجدے
مصلے ہیں ریشم کے بیمار سجدے
چمکتی دیواروں میں لاچار سجدے
ریا کار سجدے ہیں، نادار سجدے ہیں،
بے نور، بے ذوق ، مردار سجدے
سروں کے ستم سے ہیں سنگسار سجدے
دلوں کی نحوست سے مسمار سجدے
ہیں مفرور سجدے ہیں مغرور سجدے ہیں
کمزور ، بے جان ،معذور سجدے
گناہوں کی چکی میں ہیں چُور سجدے
گھسیٹے غلاموں سے مجبور سجدے
کہ سجدوں میں سر ہیں بھٹکتے ہیں سجدے
سراسر سروں پر لٹکتے ہیں سجدے
نگاہ خضوع میں کھٹکتے ہیں سجدے
دعاؤں سے دامن جھٹکتے ہیں سجدے
وہ سجدوں کے شوقین غازی کہاں ہیں؟؟
زمیں پوچھتی ہے نمازی کہاں ہیں؟؟؟؟

چلو آؤ کرتے ہیں توبہ کے سجدے
بہت تشنگی سے توجہ کے سجدے
مسیحا کے آگے مداوا کے سجدے
ندامت سے سر خم شکستہ سجدے
رضا والے سجدے، وفا والے سجدے
عمل کی طرف رہنما والے سجدے
سراپاِ ادب التجا والے سجدے
بہت عاجزی سے حیا والے سجدے
نگاہوں کے دربان رو دار سجدے
وہ چہرے کی زہرہ چمک دار سجدے
سراسر بدل دیں جو کردار سجدے
کہ بن جائیں جینے کے اطوار سجدے
خضوع کی قبا میں یقین والے سجدے
رفا عرش پر ہوں زمیں والے سجدے
لحد کے مکین ہم نشیں والے سجدے
ہو شافع محشر جبین والے سجدے
وہ سجدوں کے شوقین غازی کہاں ہیں ؟؟؟؟
زمیں پوچھتی ہے نمازی کہاں ہیں !!!!