Saturday 30 June 2018

الله کو اچھا قرض

اِنۡ تُقۡرِضُوا اللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنًا يُّضٰعِفۡهُ لَـكُمۡ وَيَغۡفِرۡ لَـكُمۡ​ؕ وَاللّٰهُ شَكُوۡرٌ حَلِيۡمٌۙ- 

"اگر تم الله کو قرض دو گے- تو وہ اسے بڑھا دے گا کئی گنا تمھارے لئے-  
اور تمہیں معاف کر دیگا-  اور الله قدر کرنے والا حلم والا ہے-" 
سوره التغابن 

مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً ۚ 
وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ- 

"کون ہے جو الله کو اچھا قرض دے تو وہ اسے کئی گنا بڑھا دے- 
اور الله ہی تنگی اور کشائش کرتا ہے- اور تم اسی کی  طرف لوٹاۓ جاؤ گے-"
سوره البقرہ 

وَقَالَ اللّٰهُ اِنِّىۡ مَعَكُمۡ​ؕ لَـئِنۡ اَقَمۡتُمُ الصَّلٰوةَ وَاٰتَيۡتُمُ الزَّكٰوةَ وَاٰمَنۡتُمۡ بِرُسُلِىۡ
 وَعَزَّرۡتُمُوۡهُمۡ وَاَقۡرَضۡتُمُ اللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنًا لَّاُكَفِّرَنَّ عَنۡكُمۡ سَيِّاٰتِكُمۡ 
وَلَاُدۡخِلَـنَّكُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ​ۚ 
فَمَنۡ كَفَرَ بَعۡدَ ذٰ لِكَ مِنۡكُمۡ فَقَدۡ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِيۡلِ‏- 

"اور الله نے فرمایا بے شک میں تمھارے ساتھ ہوں-  
اگر تم نماز قائم رکھو اور زکواة دو اور اور میرے رسولوں پر ایمان لاؤ 
اور انکی تعظیم کرو اور الله کو اچھا قرض دو- تو میں تمھارے گناہ اتار دونگا 
اور تمہیں باغوں میں لے کے جاؤں گا جن کے نیچے نہریں رواں ہیں-
 پس اسکے بعد تم میں سے جو کوئی کفر کرے 
تو وہ ضرور سیدھی راہ سے بھٹکا-" 
سوره المائدہ

الله سبحانہ و تعالیٰ قادر مطلق ہے-  جس نے سب کچھ تخلیق کیا اسے قرض کی ضرورت نہیں-  یہ تو اعمال کا وہ اکاؤنٹ ہے جو ہر انسان کا الله سبحانہ و تعالیٰ کے پاس کھلا ہوا ہے-  اب چاہے وہ اس میں برائیاں جمع کرے یا اچھائیاں-  گناہ ذخیرہ کرے یا نیکیاں- جو بھی اکاؤنٹ میں جمع کیا ہوگا وہ آخرت میں واپس کردیا جاۓ گا-  عملوالصالحات اور بر اورعبادات وہ نیکیاں ہیں جو اچھا قرض ہیں اور جن کا کئی گنا بڑھا کر دینے کا وعدہ قرآن میں کیا گیا ہے-  برائیاں اور گناہ برا قرض ہیں لیکن انکے معاف کردینے، مٹا دینے کا وعدہ کیا گیا ہے-  

اِنَّ الۡحَسَنٰتِ يُذۡهِبۡنَ السَّيِّاٰتِ- 

"بے شک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں-"
سوره ہود

ایک صحابی حضرت ابو الدحداح نے جب قرض حسنہ کی آیت سنی تو حاضر خدمت ہوئے اور فرمایا کہ یارسول اللہ! کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض مانگتا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ہاں۔ وہ بولے اپنا دست مبارک مجھے دکھائیے۔ انہوں نے حضور کا ہاتھ پکڑا اورکہا کہ میں نے اپنا یہ باغ اللہ تعالیٰ کو قرض دیا۔ اس باغ میں کھجور کے چھ سو درخت تھے۔ ان کی بیوی اور بچے اسی میں رہائش پذیر تھے۔  انکی بیوی نے جب یہ سنا تو پکار اٹھیں۔ "اے دحداح کے باپ تم نے بڑا نفع والا سودا کیا ہے۔" 

اور ایسے ایک نہیں ہزاروں واقعات دور نبوی اور اسکے بعد کے ادوار سے پیش کئے جا سکتے ہیں-  جب لوگ اس آیت کی مثل ہوا کرتے تھے جسے اکثر مفسّرین قرآن حضرت علی اور حضرت فاطمہ کے واقعات سے منسلک کرتے ہیں

وَيُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسۡكِيۡنًا وَّيَتِيۡمًا وَّاَسِيۡرًا‏- 
اِنَّمَا نُطۡعِمُكُمۡ لِـوَجۡهِ اللّٰهِ لَا نُرِيۡدُ مِنۡكُمۡ جَزَآءً وَّلَا شُكُوۡرًا‏- 
اِنَّا نَخَافُ مِنۡ رَّبِّنَا يَوۡمًا عَبُوۡسًا قَمۡطَرِيۡرًا- 

"اور وہ کھلاتے ہیں کھانا اس (الله) کی محبّت میں مسکین، یتیم اور اسیر کو-
اور ان سے کہتے ہیں کہ ہم تمہیں خاص الله کے لئے کھلاتے ہیں 
اور تم سے کوئی بدلہ یا شکر گزاری نہیں مانگتے-  
بے شک ہمیں اپنے رب سے ایک ایسے دن کا خوف ہے 
جو بہت ترش نہایت سخت ہے-" 
سوره الدھر

عملو الصالحات کیا ہیں؟ ہر اچھا عمل- 

اور بر کیا ہے؟ وہ نیکی یا اچھا عمل جو اپنی محبوب ترین شئی الله کی راہ میں خرچ کرنے سے مشروط ہے-  بر کا ترجمہ "تقویٰ" سے کیا جاتا ہے- 

لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰى تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ - 

"اور تم ہرگزنہیں پہنچ سکتے تقویٰ کو- جب تک کہ 
خرچ نہ کرو ان میں سے  جو تمہیں محبوب ترین ہیں-"
سوره آل عمران

مسلمانوں کی اکثریت جس میں دین کے دعویدار بھی شامل ہیں شاید اب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو قرض دینے پر یقین بھی نہیں رکھتی- اسی لئے ہرکام کی طرح نیکیوں اور عبادتوں میں بھی کیش کا کاروبار کرنے لگے ہیں-  یہاں تک کہ اپنےغم، اپنا صبر، اپنی تکالیف، اپنی دوستیاں، اپنی رشتہ داریاں، اپنے تعلقات- ہرعملوالصالحات اور ہر بر اورہرعبادت کا بدلہ دنیا میں اور وہ بھی فورا وصول کرنا چاہتے ہیں بلکہ کر لیتے ہیں-   یہ دیکھ کر لگتا ہے کہ مسلمانوں کو اب نہ آخرت پریقین رہا ہے نہ آنے والے وقت پر-  اگر تمام کی تمام نیکیاں اور عبادتیں دنیا میں ہی کیش کروالیں گے تو آخرت میں کیا بچے گا جس کا بدلہ دیا جاۓ- 

اور اس نیکیوں اور عبادتوں کا کیش کاروبار نے معاشرے کا بیڑہ غرق کردیا ہے-  کیونکہ جب انسان اس قسم کے رویے میں مبتلا ہو جاۓ تو پھر وہ صرف اپنا فائدہ سوچتا ہے-  میں تکلیف اٹھائی تو صرف مجھے اسکا بدلہ ملے-  میں نے ساری محنت کی تو پھل بھی میں ہی کھاؤں-  میں نے سارے اقدامات کئے تو میری تعریف ہو- مجھے سراہا جاۓ-  جبکہ رسول الله صلی الله علیہ وسلّم کی تربیت تھی کہ صرف اور صرف الله کی رضا کے لئے کام کیا جاۓ اور وقت اصل مقاصد کے حصول میں لگایا جاۓ-  

اسلام میں ہر وہ کام بھی عبادت کا درجہ پا لیتا ہے جو الله کی رضا کی نیّت سے اس کے بندوں کی بھلائی کے لئے کیا جاۓ-  کیونکہ سیاست  ایک ملک شہریوں یا علاقے کے باسیوں کی فلاح و بہبود اور جان و مال کی حفاظت کے نظام چلانے کو کہتے ہیں-  اسی اسلام میں سیاست بھی عبادت ہے- 

لیکن یہ بات کم از کم پاکستان کے لوگوں کو نہیں پتہ-  اسی لئے ان میں سے کچھ الیکشن کو ایک دنگل یا اکھاڑا سمجھ کر اپنے اپنے وار آزماتے ہیں اور عوام انکا تماشہ لگاتے ہیں-  عوام سیاست کی شرعی اہمیت اور سیاست دان اسکی ذمّہ داریوں سے ناواقف ہیں-  شاید اسکی ایک بڑی وجہ تو یہی ہے کہ یہاں سیاست  اصل اسلامی جمہوریت کے طریقے پر نہیں بلکہ مغربی انداز سے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے-  جس میں گدھے اور گھوڑے میں تمیز بھی باقی نہیں رہتی-  اسی رویے کی وجہ سے پاکستان میں سیاست کو برائی یا جرم سمجھا جاتا ہے جس میں صرف جرائم پیشہ لوگ حصّہ لے سکتے ہیں- 

عوام اپنے چھوٹے چھوٹے ذاتی اور علاقائی مفادات کو مدّ نظر رکھ کر ووٹ دیتی ہے یا پھر نہیں دیتی-  اور سیاست دان بڑے ممالک کے مفادات کے نتیجے میں حاصل ہونے والے اپنے ذاتی مفادات کو ذہن میں رکھ کر الیکشن لڑتے ہیں اور پارٹیوں کا الٹ پھیر کرتے ہیں-  کیونکہ سب کے مقاصد چھوٹے ہیں-  اسی لئے نقد پر کام کرتے ہیں-  کسی نے الله سبحانہ و تعالیٰ سے تجارت نہیں کی ہوئی نہ ہی اسے قرض دیا ہے-  انکو یہ نہیں معلوم کہ جنکے مقاصد بڑے ہوتے ہیں انکے پاس نقد لینے کا وقت نہیں ہوتا اس لئے وہ اپنی امانت الله تعالیٰ کے پاس رکھوا دیتے ہیں کہ آخرت میں وصول لیں گے منافع کے ساتھ-  اور پاکستانیوں کے لئے بڑا مقصد پاکستان ہونا چاہئے-  پارٹی ٹکٹ یا جیت نہیں- کیا ہے اگر لوگ نہ پہچانیں-  کیا یہ کافی نہیں کہ الله سبحانہ و تعالیٰ جانتے ہیں اور وہی بہترین قدر دان ہیں- 

Saturday 23 June 2018

بیماریاں اور بیمار معاشرہ

کچھ سالوں سے لوگوں کے گھروں میں عجیب عجیب بیماریوں کے پڑاؤ کی خبریں دکھائی جارہی ہیں-  لاکھوں کی تعداد میں لوگ نفسیاتی مریض ہیں-  ہزاروں کی تعداد میں ایسے کہ کسی کی اولادیں چل نہیں سکتیں حرکت نہیں کرسکتیں-  نہ ڈاکٹرز کے علاج کام آرہے ہیں-  نہ عاملوں کے دم-  نہ حکیمانہ نسخے-  بس علاج پر علاج کے لئے مسلسل چندہ-  اس ملک کے کونے کونے میں خیراتی ادارے یا فلاحی ادارے یا این جی اوز موجود ہیں جن میں سے کچھ بہت مشھور لوگوں کے ہیں اور کچھ عام لوگوں کے-  سب کے سب چندے پر-  اس ملک کی مسجدیں چندے پر-  پھر اس ملک کی سڑکوں پر لاکھوں کی تعداد میں مانگنے والے بھکاری-  پھر ہر سڑک کے کنارے گھر بساۓ ہوۓ خانہ بدوش جو مانگ کر گزارا کرتے ہیں-  پھر آۓ دن چینلز پر سینکڑوں ایسے ایسے بیماریوں کے کیسز دکھاۓ جاتے ہیں اور انکے لئے بھی لاکھوں کا چندہ مانگا جاتا ہے-  

آخر اس ملک کے کچھ لوگوں کے پاس کتنی دولت ہے جو یوں کڑوڑوں لوگوں میں بانٹ رہے ہیں اور اتنی کہ سیاست دان بھی ان کے ٹیکسز سے لوٹ کھسوٹ کر رہے ہیں؟  اور کب تک دیتے رہیں گے؟

اور اتنی سخاوت اور اتنے صدقہ و خیرات کے بعد بھی بیماریاں، مصیبتیں، بے چینیاں، مفلسی، بھوک، جہالت، گندگی، بد عنوانیاں، بیزاری، سپر پاورز کی دھمکیاں اس ملک کا نصیب ہیں-  کیوں؟  

سوچنے کی بات ہے کہ کہاں کہاں ہم نے الله سبحانہ و تعالیٰ کی خدائی کو اپنے ہاتھ میں لیکر اس سے زیادہ رحیم و کریم اور عقلمند ہونے کا گناہ کیا ہے اور مسلسل کئے جارہے ہیں-  اور اس کے رسول صلی الله علیہ و آلہ وسلّم جن کو رحمت اللعالمین کہا گیا ہے- کی تعلیمات سے بغاوت کی ہے-  

بہت سی نفسیاتی بیماریوں کا حل اتنا آسان ہوتا ہے کہ کوئی ان نفسیاتی مریضوں کی بات سن لے اور بس-  کیونکہ آجکل گھروں اور خاندانوں میں تو کوئی کسی کی بات نہیں سنتا-  امریکہ میں اکثر اس قسم کی پارٹ ٹائم جابس ہوتی ہیں جس میں کسی طالب علم کو ہفتے میں دو تین دن ایک دو گنتے کسی بوڑھے تنہا شخص کے ساتھ گزارنے ہوتے ہیں کہ وہ صرف انکی باتیں سنتا رہے-  تو اس قسم کے انتظامات تو یہاں بھی کئے جا سکتے ہیں اور یہ حکومت کا کام نہیں-  دینی لوگوں کو پڑھنے یعنی "اقراء" سے زیادہ سننے کی بہت عادت ہوتی ہے-  گھنٹوں گھنٹوں اپنے عالموں کی باتیں بیٹھ کر, جھوم جھوم کر سنتے رہتے ہیں-  وہ تو یہ جاب آسانی سے کر سکتے ہیں کیونکہ اس میں نہ دماغ لڑانا ہے نہ کسی مسلے کا حل پیش کرنا ہے-  بس صرف سننا ہے- 

بہت سی نفسیاتی، جسمانی اور روحانی بیماریوں کا علاج قرآنی سورتوں اور آیات سے ہو جاتا ہے کسی عامل یا عالم کے آستانے پر خوار ہوۓ بغیر-   اور دعا تو ہے ہی مومن کا سب سے بڑا ہتھیار-  رسولوں اور پیغمبروں تک نے دعائیں کی ہیں الله سے اپنے لئے ہر قسم کے حالات میں-  اور لوگوں کو بھی دعائیں دی ہیں-  تو یہ کام بھی دینی لوگ کر سکتے ہیں-  آمدنی کے لئے ہی سہی-  

بہت سے روحانی اور جسمانی علاج لیموں، لہسن، کلونجی، خوشبو یعنی پرفیوم، زعفران، بیری کے پتّوں، نیم کے پتّوں، زیتون کے تیل وغیرہ سے بھی ہو جاتے ہیں- 

ایک حدیث کے مطابق بیمار کی عیادت کرنا بیمار کا حق ہے-  لیکن کتنے لوگ ہمارے معاشرے میں یہ حق پورا کرتے ہیں-  اور تو اور مولانا طارق جمیل بھی جاتے ہیں تو نواز شریف کی بیگم کی عیادت کو-  ان بے چارے الله کے پیارے سے بھی یہ سنّت غریبوں کے لئے نہیں نبھائی جاتی کہ کبھی کبھی ہسپتالوں کے چکّر لگا کر مریضوں کے لئے دعائیں کرلیں-  یہ کام چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کر رہے ہیں حالانکہ انہوں نے کسی مدرسے سے بھی نہیں پڑھا-  حافظ قرآن بھی نہیں شاید- لیکن لوگوں کو ان سے امید ملتی ہے-  الله انہیں زندگی، صحت اور خوشیاں دے-  آمین 

کچھ معاشرے دنیا میں ایسے بھی ہیں-  جو زندگی کی ساری تگ و دو اس لئے کرتے ہیں کہ کسی طرح بیمار ہو جائیں یا کم از کم بیمار نظر آئیں-  اور اسکے بعد بیماری کا علاج بھی غیرمنطقی طریقے سے کرتے ہیں-  پاکستانی معاشرہ بھی اسی قسم کا معاشرہ ہے-  

گندگی اور کوڑا پھیلانے میں ایک دوسرے پر فخر کرنے والی یہ قوم جب روز مرّہ کی بیماریوں سے لے کر انتہائی عجیب و غریب بیماریوں میں مبتلا ہوتی ہے تو علاج کے لئے بھی ان ڈاکٹرز کے پاس جاتی ہے جو خود انکی ہی طرح انسانیت بیزار, جھوٹے اورغلیظ ہوتے ہیں-  جنکے کلینک اور ہسپتال بھی اتنے ہی گندے ہوتے ہیں جتنے کوئی اور جگہیں- 

اس معاشرے کو ایسے مسیحا کی ضرورت ہے جو انہیں یہ سمجھاۓ  کہ تمھاری اسّی فیصد بیماریوں کا علاج تمھارے اپنے جسم، اپنے گھر، اپنی گلیاں صاف ستھرا رکھنے میں ہے-  جسے تم نے  حکومت کے کھاتے میں ڈال دیا ہے-  کون سی حکومت صفائی رکھتی ہے جو چوبیس گھنٹے سڑکوں کی صفائیاں کرتے رہیں-  اور کون سی حکومتیں پارکوں کی نگرانی کے لئے پولیس والے تعینات کرتیں ہیں- یہ کام تو شہریوں کے ہیں اور انہیں کے ذریعے ایک ایک دو دو کڑوڑ نوکریاں پیدا کی جاتی ہیں-   صدر اور وزیر اعظم کے لئے تو اور بہت کام ہوتے ہیں-  

حکومت کو ذمّہ دار ٹہرانے سے پہلے عوام اپنے گریبان میں جھانکیں کہ وہ خود اپنے اور اپنے بچوں کی صحت کے لئے کیا کرتے ہیں-  

آدھی سے زیادہ نفسیاتی اور جسمانی اور روحانی بیماریاں ختم ہو جائیں اگر لوگوں کو یہ احساس ہوجانے کہ ان سے آخرت میں ماحول کی صفائی اور پاکی اور ماحولیات کے تحفّظ کا بھی حساب لیا جاۓ گا-  اگر لوگوں کو یہ سمجھ آجانے کہ فائدہ صرف لوگوں کو خیرات کے بکرے کھلانے کے پیسے جمع کرنے اور خرچ کرنے سے نہیں ہوتا-  ماحول کی صفائی اور پاکی اور ماحولیات کے تحفّظ کی سوچ بھی عبادت ہے-  اس پر خرچ کرنا بھی عبادت ہیے- یہ سب بھی صدقات و خیرات میں آتا ہے-  بلکہ صدقہ جاریہ ہے- کیونکہ اس سے خلق خدا کو ایک لمبے عرصے تک فائدہ ہوتا ہے-  لیکن یہ باتیں کسی دینی شخص کو تو سمجھ ہی نہیں آ کر دینگی-  ڈگری یافتہ کے نصاب میں یہ تعلیم نہیں ہوتی-  سیاست دانوں کو اس سے غرض نہیں کہ قوم کے لئے کیا فائدہ مند ہے اور کیا نہیں- یہ کام صرف اور صرف عوام میں سے وہ لوگ کر سکتے ہیں جنہیں الله کے سامنے کھڑے ہونے کا اور جواب دینے کا خوف ہے کہ اپنی زندگی کس طرح گزاری- اپنا وقت کن کاموں میں صرف کیا-  

آدھی سے زیادہ نفسیاتی اور جسمانی اور روحانی بیماریاں ختم ہو جائیں- 

١) اگر گھر اور محلّے صاف ہو جائیں- 

٢) اگر سبزیوں اور پھلوں کے چھلکے اور باقیات مویشیوں کو کھلا دئیے جائیں-  

٣) اگر مویشیوں کو بیچ شہر میں رکھنے کے بجاۓ انکے لئے گنجان شہری 
علاقوں سے ہٹ کر جگہیں مختص کی جائیں- 

٤) اگر لوگ اس وقت کوڑا باہر رکھیں جب کوڑا اٹھانے والے کے آنے کا وقت ہو-  

٥) اگر پان گٹکے پر پابندی لگا دی جاۓ-  اور جگہ جگہ تھوکا نہ جاۓ- 

٦) اگر علاج کے لئے قدرتی طریقے استعمال کیا جاۓ- 

٧) اگر لوگ علاج کروانے سے پہلے ڈاکٹرز کی ڈگری کی چھان بین کر لئے کریں- 

٩) اگر لوگ وقت پر سونے اور وقت پر جاگنے کی عادت ڈال لیں- 

١٠) اگر متوازن غذا کی عادت ڈال لیں- بہت سی سبزیاں جیسے کہ ادرک، لہسن، مرچیں، لیموں، پودینہ، ہرا دھنیا، ٹماٹر اور مصالحہ جات تو گھروں میں ہی اگاۓ جاسکتے ہیں اور اسطرح بچت بھی کی جاسکتی ہے اور پودوں کی کم بھی پوری ہو سکتی ہے-  

١١) اگر لوگ جگہ جگہ پھول پودے لگا کر شہرکوخوبصورت بنا دیں-  

١٢) اگر پبلک پارکس کی لوگ خود حفاظت کریں اور وہاں صفائی رکھیں-  

١٣) اگر ٹریفک قوانین کی پابندی کریں تاکہ حادثات کم ہوں-  

١٤) اگر مزدور ماسکس پہن کر کام کریں تاکہ دھول مٹی سے انکے پھیپھڑے اور گردے خراب نہ ہوں-  

١٥) اگر ٹھیلوں پر سامان اور روٹی کی دکان پر آٹا اور پکوڑوں اور سموسوں کی دکان پر پکوڑے اور سموسے ڈھکے ہوۓ ہوں تاکہ مکّھیوں سے بچے رہیں-   

١٦) اگر لوگ فالتو باتیں سوچنے کے بجاۓ کام کی باتیں سوچنا شروع کردیں-  اور بلاوجہ جگت بازیوں، جملے بازیوں کے بجاۓ اچھے الفاظ، وظائف اور دعاؤں کی عادت ڈال لیں- 

١٧) اگر لوگ خواتین کے احترام میں نظریں جھکا کر رکھیں-

١٩) اگر بچوں سے مسکرا کر بات کریں اور ان کی بھی عزت کریں-  کافی سال پہلے محلّوں میں کوئی نیاز وغیرہ ہوتی یا دعا یا منّت کا موقع ہوتا تو بچوں میں شرینی بانٹتے تھے کہ بچوں کے خوش ہونے سے دعا قبول ہوتی ہے- 

٢٠) اگر صبح اٹھ کر ایک دو گلاس پانی پی لیں-  ٹھنڈا پانی پینے سے گریز کریں-  اور پرندوں اور جانوروں کے لئے پانی کا انتظام رکھیں-  


Monday 4 June 2018

عالم بننے کا سلیقہ

تمام بشر نوع میں بہترین عالم انبیاء و رسل علیھم السلام ہیں-  انسانوں میں ان سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں-  

الله سبحانہ و تعالیٰ کو تو ہمیشہ سے معلوم تھا کہ اپنی قوم میں پیدا کئے جانے والے یہ بچے بڑے ہو کر نبی اور رسول بنیں گے-  لیکن ان بچوں کو یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ بڑے ہو کر کیا بنیں گے اور کس وقت ان کے پاس حضرت جبرائیل رب کا پیغام لے آئیں گے اور کب ان پر وحی کا نزول ہوگا-  ہر نبی اور رسول کو آزمائشوں سے گزارا گیا-  کسی کے والدین چھین لئے تو کسی سے صحت-  کسی کو مچھلی کے پیٹ میں ڈال دیا کسی کو کنویں میں اور قید میں-  کسی کا سر کاٹا گیا تو کس کو سولی پر لٹکایا گیا-  کسی کو آگ میں ڈلوایا تو کسی کو صحرا میں تنہا ماں کے ساتھ چھوڑ دیا-  کوئی غار میں پل کر بڑا ہوا تو کسی نے طور پر جاکر رب سے کلام کیا-  کسی سے گاۓ کا معجزہ تو کسی سے اونٹنی کا-  کوئی سورج اور چاند ستاروں سے رب کو پہچان رہا ہے-  کوئی دریا کو پھاڑ کر الله کی طاقت کا یقین دلا رہا ہے-  کوئی ہاتھ سے لوہا پگھلا رہا ہے تو کوئی پرندوں اور جانوروں سے گفتگو فرما رہا ہے-  کیونکہ انہوں نے ایک عظیم انسان بننا تھا-  رحمت بننا تھا-  عقلمند بننا تھا-  عالم بننا تھا-  عادل بننا تھا-  رہنما بننا تھا-  ہادی بننا تھا-  لیڈر بننا تھا-  نظام دینے والا بننا تھا-  رول ماڈل بننا تھا- 

اسی طرح ان انبیاء کرام پر کبھی یہ ذمّہ داری نہیں  ڈالی گئی کہ وہ الله کے دین کو بچائیں گے-  ان کو کام دیا گیا وہ الله کے پیغام کو پھیلانا تھا-  انسانوں کا انکے رب سے تعلق جوڑنا تھا جو کہ کسی نہ کسی طور ٹوٹ جاتا ہے-  انسانوں کو یہ بتانا تھا کہ الله کن باتوں سے راضی ہوتا ہے اور کن باتوں سے ناراض-  اور یہ کہ کس طرح اس زمین پر انسانوں کی بھلائی کے لئے الله کی مرضی کا نظام نافذ کر کے دکھایا جا سکتا ہے-  اور کس طرح انسان خود کو آخرت میں الله سبحانہ و تعالیٰ کی ناراضگی سے بچا سکتے ہیں-  اور بار بار انبیاء اور رسل کو یہ یاد دہانی کرائی جاتی تھی کہ آپ الله کی حفاظت میں ہیں-  دین خالص ہے اور الله کی حفاظت میں ہے-  آپ تو بس اپنا کام کریں- 

"اور الله کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو-  اور اگر تم منہ پھیرو گے 
تو یاد رکھو ہمارے رسول کے ذمّہ تو صریح پہنچانا (پیغام کا) ہے-" 
 سورہ التغابن 

پورے قرآن میں انبیاء و رسل کے علاوہ ایک اور ہستی ہیں جو نہ نبی نہ رسول لیکن پھر بھی قرآن کی ایک صورت انکی تعظیم کی گواہی دیتی ہے-  یعنی کہ حضرت لقمان-  انہوں نے حکمت کو اپنے لئے پسند فرمایا-  اور انہوں نے جو اپنے بیٹے کو نصیحت کی وہ بھی قرآن میں بیان کی گئی ہے-  

اور بے شک ہم نے لقمان کو حکمت عطا فرمائی-  کہ اللہ کا شکر کر-  
اور جو کوئی شکر کرے تو اپنے بھلے کو شکر کرتا ہے-  
اور جو کوئی ناشکری کرے تو بیشک الله بے پرواہ ہے تمام تر خوبیوں والا-  
سورہ لقمان 

لیکن خاتم النبین اور ختم الرسل محمّد مصطفیٰ صلی الله علیہ و آلہ وسلّم کے بعد نبوّت اور رسالت کا سلسلہ تو ختم ہو گیا-  لیکن علم اور ہدایت کا سلسلہ جاری ہے اور رہے گا کیونکہ علم ہی اخلاص کے ساتھ ملکر اصل میں ہدایت کا ذریعہ بنتا ہے-

پچھلی کی صدیوں سے مسلمان دنیا میں علم کا حصول مذاق بنا لیا گیا ہے اور عالم بننا ایک کھیل-  علم اور عالم دونوں ڈگریوں اور سندوں کے محتاج ہو گۓ ہیں-  پیدائش سے عالم بننے تک کا سفر مدرسے یا اسکول کی چار دیواری میں بیٹھے بیٹھے لوگوں سے ملنے والے چندے سے پکنے والے کھانے کو کھا کھا کر طے کرلیا جاتا ہے-  کس قدر پھیکی، بے ذوق، بے رنگ زندگی ہے ان لوگوں کی جنہیں عالموں کے خطاب سے نوازا جاتا ہے-  کس قدر بیزار نظر آتے ہیں یہ اپنے رب کی قدرتوں سے-  نہ کسی پہاڑ پر چڑھتے ہیں-  نہ سمندر اور دریا میں غوطے لگاتے ہیں-  نہ صحراؤں کی خاک چھانتے ہیں نہ جنگلوں میں بسیرا کرتے ہیں-  نہ پھول اگاتے ہیں نہ درخت لگاتے ہیں-  نہ جانوروں سے دل لگاتے ہیں نہ پرندوں سے لطف اٹھاتے ہیں-   دوسروں کی دنیا تو کیا بدلیں گے خود اپنی دنیا سے بے خبر عالم-وہ تمام کوششیں جو انسان کے زندہ ہونے کا ثبوت دیتی ہیں ان سب کوششوں سے بے خبر دو روٹی، مٹھی بھر چاول اور دو جوڑے کپڑے پر مطمئن چادر لپیٹ کو سو جانے والے عالم- 

اور مزے کی بات کہ زندگی کی کوئی لائف اسکلز نہ ہوتے ہوۓ بھی جس پر کہ انسان نااہل قرار پا جاتا ہے-  یہ خود کو دین کا محافظ سمجھنے لگ جاتے ہیں-  انبیاء کا محافظ سمجھنے لگ جاتے ہیں-  قرآن کا محافظ سمجھنے لگ جاتے ہیں-  کیا یہ انبیاء اور رسولوں سے بھی بڑھ گۓ ہیں-  اور جو اصل ذمّہ داری دی گئی ہے اسے سے غافل ہیں-  ارے قرآن اور دین تو خود انکی حفاظت کرنے کے لئے ہے تاکہ یہ اپنی ذمّہ داریاں پوری کریں-  الله کے بجاۓ اپنے اپنے علماء کے پیغامبر بن جاتے ہیں-  
  
یہ تو خیر بے ضرر بے کار عالموں کا قصّہ ہے-  ایک بدتر قسم بھی ہے جو کہ شاید سب سے زیادہ پاکستان میں پائی جاتی ہے-  وہ ہے مفاد پرست عالموں کی جن کی زبان ایک نہیں، چہرہ ایک نہیں-  کئی کئی چہروں اور زبانوں کے ساتھ قلابازیاں کھانے والے عالم-  تہذیب و حکمت سے عاری، دولت اور شہرت کے بھوکے عالم-  نفرتوں اور فساد کے بیج بونے والے عالم- جنکے فتوے، جن کی چرب زبانی اس قوم کے لئے وبال جان بن گئی ہے-  

یا الله! پاکستان پر رحم فرمائیں-  پاکستانیوں کو ایک تہذیب یافتہ اور باشعور اور باوقار قوم بنا دیں-  اس قوم کے نوجوانوں کو چھچھورے پن اور خرافات سے دور کردیں- اور انہیں صادق و امین بنا دیں- اس نوجوان نسل کو پاکستان کا امین بنا دیں-  کوئی تو ہونگے اس قابل-  آمین