Friday 4 December 2020

بابا تو اللہ کے ولی ہیں

 بابا تو اللہ کے ولی ہیں- 

یہ جملہ باجی نے تقریبا ایک سال پہلے بابا کے بارے میں کہا- 

اور میں نے فورا کہا 'بے شک، یقینا'- دل چاہا کہ بابا کے ساتھ رحمة اللہ علیہ کا اضافہ بھی کر دیا جاۓ- 

جو زندگی کی آزمائشیں ان پر گزریں وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے ہی تھیں اور اللہ عزوجل نے ہی اس میں آسانیاں بھی پیدا کیں-  لیکن جیسی آزمائشیں تھیں اور جسطرح اللہ جلّ شانه نے بابا کو سنبھالے رکھا اور انہیں صبر و استقامت عطا فرمائی وہ یا تو انبیاء علیھم السّلام کے ساتھ ہوتا رہا یا پھر صدّیقین اور صالحین کے ساتھ ہوتا رہا-  انکی اپنی ذات کی ہی حد تک اتنی ناکامیاں اور مشکلات کہ بلآخر وہ ہر حال میں شکر اور صبر کے ساتھ جینا سیکھ گۓ- 

ہر حال میں شکر اور صبر سے جینے کے ساتھ ساتھ خود تکلیفوں پر تکلیفیں  اٹھا کر اپنی اولادوں سمیت بہت سوں کی زندگی سنوار گۓ-  یہ بھی اللہ جلّ جلالہ کے محبوب بندوں کا کردار ہوتا ہے-   

ہم سب چاہتے ہوۓ بھی بے بس تھے کہ انکے لئے کچھ کر نہ سکے اور اللہ تبارک و تعالیٰ بابا کو آزماتے چلے گۓ اور آخری سانس تک آزما لیا- 

ایسا بیٹا جس نے ماں کی خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑی- 

ایسا بیٹا جس نے باپ سے پٹ پٹ کر بھی کبھی آنکھ اٹھا کر انکو نہیں دیکھا-  زبان سے کچھ کہنا تو دور کی بات- اور جب تک اپنے والد کے نام کا حج نہ کرلیا اس وقت تک چین نہیں آیا-  

ایسا انسان جس نے کبھی بیوی بیٹوں بیٹیوں سے یا کسی سے بھی ایک گلاس پانی نہیں مانگا- 

ایسا باپ جس نے بیٹوں بیٹیوں کی خوشیوں کے لئے اپنے آپ کو بھلا دیا- 

ایسا دوست جس نے جہاں کسی دوست کو تکلیف میں دیکھا اپنی جیب خالی کردی- 

اپنی زندگی بھر کی غلطیوں اور کوتاہیوں پر بچوں کی رو رو کر اللہ ربّ العالمین سے معافی مانگنے والے- 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے عاشق-  ایسے کہ درودوں پر درود پڑھتے اور رسول کا نام آتے ہی آنسوؤں سے رونے لگتے-  

ایسے باحیا اور اپنی نظروں کی حفاظت کر نے والے- 

 اور آخری چند سال میں تو اپنی زبان کی اتنی حفاظت کہ ذکر اللہ اور دعاؤں کے سوا شاید ہی گنے چنے الفاظ منہ سے نکلتے ہونگے-  

  بابا کو زندگی کے لئے زندگی سے اتنا لڑتے دیکھا کہ اب یہ کہنے کو دل نہیں چاہتا کہ انکا انتقال ہو چکا ہے-  


یا اللہ تبارک و تعالیٰ، 

بابا واپس آپ کے پاس پہنچ چکے ہیں-  

بابا نے آپ کو اپنا سمجھا-  آپ بھی ان سے اپنوں کی طرح سلوک کیجئے گا-  

بابا نے آپ پر بھروسہ کیا-  آپ انکے بھروسے کا مان رکھئے گا- 

انکی اس  خدمت کو یاد رکھئے گا جو انہوں نے اپنی ماں کی بیماری میں کی- 

انکی فرمانبرداری کو یاد رکھئے گا جو انہوں نے اپنے باپ سے کی-  

انکی ہتھیلیوں کو یاد رکھئے گا جو آپکے گھر کو آگ سے بچاتے ہوۓ جل گئیں تھیں- 

انکے صبر کو یاد رکھئے گا جس کی وجہ سے وہ خاموشی سے سہہ جاتے تھے-  

انکی قناعت کو یاد رکھئے گا جس کی وجہ سے شکر کیا کرتے تھے- 

انکی بہادری کو یاد رکھئے گا جس کی وجہ سے وہ کسی پر ظلم برداشت نہیں کرتے تھے- 

انکی سخاوت کو یاد رکھئے گا جس سے وہ ہر ایک کی تکلیف دور کرنے کی کوشش کرتے تھے- 

انکے توکّل کو یاد رکھئے گا جو انہیں بخل سے بچاتا رہا-  

انکی سادگی کو یاد رکھئے گا جس کی وجہ سے وہ سیدھی بات کیا کرتے تھے-  

انکی حیا کو یاد رکھئے گا جس کی گواہی ان کی زندگی میں آنے والا ہر مرد و عورت دیتا رہا ہے-  

انکی مسجدوں سے محبّت کو یاد رکھئے گا جہاں ان کا دل اٹکا رہنے لگا تھا- 

انکی فرض نمازوں کو یاد رکھئے گا جنکا وہ انتظار کیا کرتے تھے- 

انکی تہجد کی نمازوں کو یاد رکھئے گا جو وہ صرف آپ کی محبّت میں پڑھا کرتے تھے-  

انکے نفل روزوں کو یاد رکھئے گا جو وہ محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلّم کی پیروی میں رکھا کرتے تھا-  

انکی آواز کو یاد رکھئے گا جو شوق سے اذان دینے کے لئے نکلتی تھی-  

انکے آنسوؤں کو یاد رکھئے گا جو محمّد مصطفیٰ کا نام سن کر انکی آنکھوں سے بہنے لگتے تھے- 

انکے آخرت کے خوف کو یاد رکھئے گا جس کی وجہ سے وہ خود اپنی اصلاح کرنے لگے تھے-  

انکی عاجزی کو یاد رکھئے گا جس کی وجہ سے اپنی تعریف کروانا بھی پسند نہیں کرتے تھے- 

یا ربّ العالمین! یقینا انکی لاتعداد نیکیاں ایسی ہونگی جن سے صرف آپ واقف ہونگے-  

اور انکی کوتاہیوں اور نافرمانیوں کو معاف کردیجئے گا جو انہوں نے اپنی اولاد کی محبّت میں کیں- 

اور انکی توبہ کو یاد رکھئے گا جس میں ندامت بھی تھی اور آپ کی رحمت پر یقین بھی اور آپ سے معافی کی امید بھی-  بے شک جو آپ سے امید لگاتا ہے آپ اسے مایوس نہیں کرتے-  

بابا اب آپ کے پاس ہیں-  آپ کی رحمت سے پوری امید ہے کہ وہ نہایت خوش اور اطمینان سے ہونگے اور دن رات اپنی جنّت کے باغوں کے نظارے کرتے ہونگے-  


Wednesday 15 April 2020

پغمبروں کی سنّت

حضرت آدم علیہ السّلام اور حضرت حوّا علیھاالسّلام کی دعا 

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا -  
وَاِنۡ لَّمۡ تَغۡفِرۡ لَـنَا وَتَرۡحَمۡنَا لَـنَكُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِيۡنَ‏- 
"دونوں عرض کرنے لگے کہ اے ہمارے رب، 
ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر آپ ہمیں نہیں بخشیں گے 
اور ہم پر رحم نہیں فرمائیں گے تو ہم ہو جائیں گے 
نقصان اٹھانے والوں میں سے"-  
سوره الاعراف 


حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی دعا نماز کے لئے 

رَبِّ اجۡعَلۡنِىۡ مُقِيۡمَ الصَّلٰوةِ وَمِنۡ ذُرِّيَّتِىۡ‌‌ۖ-  رَبَّنَا وَتَقَبَّلۡ دُعَآءِ‏ 
اے پروردگار مجھ کو اور میری اولاد کو نماز قائم کرنے کی توفیق دے- 
اے ہمارے پروردگاراور میری دعا قبول فرما"- 


حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی دعا 

رَبِّ هَبۡ لِىۡ حُكۡمًا وَّاَلۡحِقۡنِىۡ بِالصّٰلِحِيۡنَۙ‏- 
وَاجۡعَلْ لِّىۡ لِسَانَ صِدۡقٍ فِىۡ الۡاٰخِرِيۡنَۙ‏- 
وَاجۡعَلۡنِىۡ مِنۡ وَّرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِيۡمِۙ- 
اے رب! مجھے علم ودانش عطا فرمائیں اور 
مجھے صالحین کے ساتھ جوڑ دیں-  
اور میرے پیچھے آنے والوں میں میرا ذکر خیر جاری کردیں-  
اور مجھے ان میں سے کردیں جو نعمتوں کے باغوں کے وارث ہیں"- 
سورہ الشعراء 


حضرت یعقوب علیہ السّلام کے الفاظ بے بسی میں 

قَالَ اِنَّمَآ اَشْکُوْا بَثِّیْ وَحُزْنِیْٓ اِلَی اللہ 
 «یعقوب نے فرمایا: میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کی فریاد 
اللہ ہی سے کرتا ہوں»
سوره یوسف 


حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی دعا ہدایت، آسانی اور بیان کے لئے 

قَالَ رَبِّ اشۡرَحۡ لِىۡ صَدۡرِىۙ‏ وَيَسِّرۡ لِىۡۤ اَمۡرِىۙ‏ 
وَاحۡلُلۡ عُقۡدَةً مِّنۡ لِّسَانِىۙ 
کہا (موسیٰ) نے کہ اے رب میرا سینہ (ہدایت) کے لئے کھول دے 
اور میرے کاموں میں آسانی دے اور میری زبان کی گرہ کھول دے.."- 
سورہ طہ 

حضرت ایّوب علیہ السّلام کے الفاظ بیماری میں 

وَاَيُّوۡبَ اِذۡ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّىۡ مَسَّنِىَ الضُّرُّ وَاَنۡتَ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِيۡنَ‌ ۖ‌ۚ‏ 
 اور ایوب کو (یاد کرو) جب انہوں نے 
اپنے پروردگار سے دعا کی کہ مجھے ایذا ہو رہی ہے 
اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے - 
سوره الانبیاء 


حضرت سلیمان علیہ السّلام کے الفاظ شکرگزاری میں 

وَقَالَ رَبِّ اَوۡزِعۡنِىۡۤ اَنۡ اَشۡكُرَ نِعۡمَتَكَ الَّتِىۡۤ اَنۡعَمۡتَ عَلَىَّ 
وَعَلٰى وَالِدَىَّ وَاَنۡ اَعۡمَلَ صَالِحًـا تَرۡضٰٮهُ 
وَاَدۡخِلۡنِىۡ بِرَحۡمَتِكَ فِىۡ عِبَادِكَ الصّٰلِحِيۡنَ‏ 
 "اور (سلیمان) کہنے لگے کہ اے پروردگار! 
مجھے توفیق عطا فرما کہ جو احسان تونے مجھ پر
 اور میرے ماں باپ پر کئے ہیں ان کا شکر کروں 
اور ایسے نیک کام کروں کہ تو ان سے خوش ہوجائے 
اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیک بندوں میں داخل فرما"- 
سوره النمل 

حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے الفاظ مذاق کے معاملے میں 

قال أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ
"کہا (موسیٰ) نے کہ میں پناہ مانگتا ہوں 
اللہ کی اس بات سے کہ میں جاہلوں میں سے ہوں"- 
سوره البقرہ 

حضرت یونس علیہ السّلام کی دعا اندھیروں میں 

لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَۚۖ
نہیں کوئی معبود سواۓ آپکے- پاک ہیں آپ - 
بیشک میں ظالموں میں سے ہوں"- 
سوره الانبیاء 


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی فریاد طائف کے واقعہ کے بعد 

«اَللّٰھُمَّ اِلَیْکَ اَشْکُوْ ضُعْفَ قُوَّتِیْ وَقِلَّۃَ حِیْلَتِیْ 
وَھَوَانِیْ عَلَی النَّاسِ، اِلٰی مَنْ تَـکِلُنِیْ؟ …»   « 
"اے اللہ! میں تیری جناب میں فریاد لے کر آیا ہوں 
اپنی قوت کی کمزوری اور اپنے وسائل کی کمی کی، 
اور لوگوں کے سامنے میری جو توہین ہو رہی ہے اس کی۔ 
اے اللہ ! تو نے مجھے کس کے حوالے کر دیا ہے؟…»

Saturday 11 April 2020

جاگتی قوم

تو دنیا کے منطقی انجام کا عمل شروع ہوگیا ہے-  گو کہ دنیا کے انسانوں نے بہت دیر کردی-  اتنی دیر کہ باطل قوّتوں کو اب پرواہ نہیں کہ کون انکے خلاف کیا کرسکتا ہے-  اب انہیں کوئی جلدی نہیں، ہار جانے کا خوف نہیں-  اوور کانفیڈنٹ ہوگۓ ہیں- 

پاکستانیوں نے دیر تو کی لیکن جلد ہی سنبھلتے بھی جارہے ہیں-  شاید اس لئے کہ یہ قوم اپنی شناخت سے اب تک معرکوں میں گھری رہی ہے-  اسی لئے سو نہیں پاتی-  جاگتی رہتی ہے-  یقین اور اتحاد تو دکھا دیتی ہے-  بس تنظیم کی کمی ہے-   

دگرگوں جہاں ان کے زور عمل سے
بڑے معرکے زندہ قوموں نے مارے

حق والے گھبرا بھی رہے ہیں اور خوف میں بھی ہیں-  یہ بھی پیغمبروں کی سنّت رہی ہے-  ورنہ اللہ کے ارادوں سے بے خوف ابلیس اور شیاطین ہوا کرتے ہیں-  

آگے آنے والے دنوں میں یہی سادگی، قناعت، اخوّت اور تڑپ کام آئیگی جو آج پاکستان میں نظر آرہی ہے-  وزیراعظم نے صحیح مشورہ دیا تھا مرغیاں اور گائیں پالنے کا-  صحیح جا رہی دنیا گھروں میں سبزیاں اگانے کی طرف-  کاش کہ ہماری حکومتوں نے اپنے بجٹ سے اور خیراتی اداروں نے بکروں پر بکرے کھلانے کے بجاۓ جمع ہونے والے فنڈز سے گلی گلی پھلوں کے درخت لگا دئیے ہوتے جن سے لوگ جب چاہے بھوک مٹا لیتے تو آج اتنے زیادہ راشن کے لئے پریشان نہیں ہونا پڑتا-  کاش کہ اتنے پھول لگاۓ ہوتے کہ یہاں شہد کی فراوانی ہوتی- اور کیا ہی اچھا ہو کہ لوگ انتہائی کم حد تک ٹیکنالوجی استعمال کرنا شروع کردیں-  موبائل صرف ضرورت کے وقت آن کریں ورنہ آف رکھیں- بلکہ تمام الیکٹرانکس کے ساتھ یہی کریں-  

مذاق سے ہٹ کے چودہ سو سال پرانے نہ سہی لیکن کم از کم تین سو سال پرانی دنیا کو جینے کا وقت آگیا ہے-  

خوش قسمت ہوگا وہ جسے بھوک میں کھانا اور خوف میں امن مل جاۓ- 

لیکن جیسا کہ قرآن میں انسان کی تعریف کی گئی ہے-  انسان جاہل، ناشکرا، بے صبرا، جلدباز، مشقّت پسند اور گھبرا جانے والا ہے-  

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم سے جو کچھ کہلوایا -  وہ تو ہو کر رہنا ہے-  یہ تقدیر ہے-  

دجال آۓ گا اور اپنی چالیس روز کی مدّت پوری کرے گا-  اور جن جن پر اللہ نے چاہا اسکا زور چلے گا اور جن جن پر اللہ نے نہیں چاہا اسکا زور نہیں چلے گا-  یہ بھی تقدیر ہے-  

اس میں دیکھنے کے قابل مومن کی تدابیر ہونگی-  بہت سی تدابیر تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے بتادیں ہیں-  

- سورہ الکہف کی تلاوت اور اسکی پہلی کچھ اور آخری دو آیات کو یاد کرنا- 
- آیة الکرسی کی تلاوت اور اسکی کی فضیلت 
- سورہ البقرہ کی تلاوت 
- ایک حدیث کے مطابق بہت سے لوگ اپنے گاؤں کو لوٹ جائیں گے اور وہ بچ جائیں گے- 
- ایک اور حدیث کے مطابق رسول اللہ نے فرمایا کہ چھوٹے شہر بساؤ-  

اور سب سے بڑھ کے یہ یقین کہ دجال اور اسکے تابع ساری باطل قوّتیں اللہ کے مقابل نہیں بلکہ اللہ کی ہی مخلوق ہیں-  اور اللہ کی ڈھیل جن تک ہوگی وہ قابض رہیں گی اور جب اللہ ان کی رسّی کھینچے گا تو مٹ جائیں گی-  اور یہ یقین کہ وہ ایک بہت بڑا شعبدہ باز ہوگا کہ آج تک اس جیسا پیدا نہ ہوا-  

اور یہ یقین کہ آیة الکرسی ہر شعبدہ بازی کا توڑ ہے قیامت تک کے لئے کہ شیاطین اسکے آگے ٹھہر نہیں سکتے-  

اور یہ یقین کہ دعا مومن کا ہتھیار ہے اور قضاء یعنی جو فیصلہ مقدّر ہو چکا ہو اسکو بھی بدل دیتی ہیں اور جو عذاب سروں تک آچکا ہو اسے بھی روک دیتی ہے-  

اور یہ یقین کہ تقویٰ مومن کی ڈھال- 

دجال کی فلم کا کلائمکس شروع ہونے والا ہے-  ایک شخص اپنی بہت سی شیطانی طاقتوں کے ساتھ آکر وہی کریگا جو ہر فلم میں ولن کرتا ہے-  بہت سے بے بس ایکسٹراز ہونگے جو صرف تماشائی ہونگے اور ظلم کو خاموشی سے ہوتا دیکھیں گے-  اور وہ چند بہادر ہونگے جو اس ولن کو اسکے انجام تک پہنچائیں گے-  اور پھر دنیا انکے لئے تالیاں بجاۓ گی اور انکو اپنا ہیرو تسلیم کرے گی اور اپنا حکمران بھی-  

آگے کے چند سال بہت سے انسانوں کو دو سو تین سو سال پیچھے لے جائیں گے-  بہت سے اس سے مقابلہ کریں گے اور شہید ہونگے-  اور بہت سے ایسے بھی ہونگے جن کو اللہ بھوک میں کھانا دیتا رہے گا  اور خوف میں امن دیتا رہے گا-  اور وہ سسٹم کو آگے بڑھائیں گے-  

اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہم سب کے لئے اگلے چند سالوں کو آسان فرماۓ اور ہم سبکو وہ زندگی عطا فرماۓ جس سے ہماری دنیا بھی پر امن رہے اور آخرت بھی بچ جاۓ-  آمین 

Friday 10 April 2020

دو کہانیاں اپنے عروج پر

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، لب پہ آسکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی 
علّامہ اقبال 

حیرت ہو رہی ہے کہ دنیا کیا سے کیا بن گئی ہے-  ایسا لگ رہا ہے کہ اک خواب دیکھا جا رہا ہے-  جس میں ہر چیز الٹ گئی ہے-  انسان کو آزاد پیدا کیا گیا تھا کہ دنیا کو بہتر بناۓ گا-  اور دنیا کو بہتر بنانے کے لئے انسان کو قید کرنا لازمی ہو گیا ہے-  اچھے اخلاق کی علامتیں موت کے ہتھیار بن گئیں ہیں-  انسان کی عافیت ایک دوسرے سے دور رہنے میں ہے-  سڑکیں ویران اور گھر آباد ہو گۓ ہیں-  

قناعت کا مطلب سمجھ نہیں آتا تھا-  تقویٰ کا مطلب سمجھ نہیں آتا تھا-  اب سمجھ آرہا ہے لیکن یقین نہیں آرہا- 

سنتے تھے کہ دجال کے زمانے میں ہر چیز الٹ ہو جاۓ گی تو سمجھ نہیں آتا تھا کہ کیسے ہوگی-  اب سمجھ آگیا- 

دو کہانیاں اپنے عروج پر ہیں اور آمنے سامنے ہیں-  دجال کی کہانی اور پاکستان کی کہانی-  

اقبال نے کہا تھا کہ 
فضاۓ بدر پیدا کر، فرشتے تیری نصرت کو 
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی 

تو فضاۓ بدر پیدا ہو چکی ہے-  باطل قوّتوں کا ایک عظیم جتھا خود کو بچانے کے لئے اب وہ حربے آزمانے جارہا ہے جو اسکے زوال کی وجہ بنیں گے-  اور دوسری طرف اسکے مقابلے میں ایک ہی لشکر ہے-  جو ہار ماننے والا نہیں ہے-  دجال کے زوال کے لئے پاکستان لازمی ہے-  ظاہر ہے مکّہ اور مدینہ سے تو فوجیں نہیں جائیں گی باطل کے خاتمے کے لئے-  کیونکہ دونوں مقدّس اور امن کے شہر ہیں-  لہٰذا پاکستان کا وجود تو لازمی ہے-   

اور جیسا کہ سوره الحشر میں بیان ہوا ہے کہ یہ سب جتھے ایمان والوں سے نہیں لڑ سکتے مگر پیچھے سے-  اور یہ جو ایک قوّت خیال کیے جاتے ہیں انکے دل آپس میں پھٹے ہوۓ ہیں-  

مسلہ اسلام بچانے کا نہیں-  اسلام تو بچانے آیا تھا-  اسلام تو تلوار بن کر بھی موجود ہے جسے  اللہ کی فوجیں استعمال کررہی ہیں-   

اور اسلام ڈھال بن کر بھی موجود ہے لیکن اس ڈھال کو کوئی استعمال نہیں کررہا-  تقویٰ کی ڈھال-  

مسلہ ہے انسان بچانے کا-  اپنے اپنے ایمان بچانے کا-  

تقویٰ یعنی ڈرنا اللہ سے-  تقویٰ یعنی پرہیز یا دوری اختیار کرنا-  تقویٰ یعنی بچ کر رہنا-  

 یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ
اے ایما ن والو! اللہ سے ڈرو-  
سورہ البقرہ 

فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیۡ وَقُوۡدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ
اور اس آگ سے بچو جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں۔
سورہ البقرہ 

تقویٰ کی بہترین تربیت ہر سال رمضان میں ہوتی ہے-  جس کو کہ مسلمانوں نے چھوڑ دیا تھا-  اسی لئے اس سال یہ تربیت رجب سے ہی شروع کردی گئی ہے-  

اب انسانوں کی مرضی ہے-  کہ اس تربیت کو عذاب سمجھیں-  یا آزمائش سمجھیں-  یا موقع- 


Friday 3 April 2020

مرکز کس کی وجہ سے بھکاری ہے؟

حال ہی میں اسرائیل کے وزیر صحت کا بیان اس بات کی شہادت دینے کے لئے کافی ہے کہ یہودی اپنی تاریخ نہیں بھولے- اور نہ اپنا مقصد- انکے پاس کوئی پیغبر اور رسول آنے والا نہیں لہٰذا ایک جعلی مسیح کی تیّاری کر لی گئی ہے-  

دنیا پر حکومت کرنے کا خواب بہت سے انسان صدیوں سے دیکھتے چلے آۓ ہیں-  
کبھی طاقت کے ذریعے، کبھی دولت اور معیشت کے ذریعے اور کبھی شہرت کے ذریعے، کبھی علم اور سائنس کے ذریعے- 
لیکن ابھی تک کوئی بھی مکمّل کامیابی حاصل نہیں کرسکا-  

یہودی دو ہزار سال تک دنیا کے امام رہے-  لیکن وہ رسولوں اور پیغمبروں کے ذریعے سے-  محمّد صلی اللہ علیہ وسلّم کی بعثت کے بعد سے یہ مقام ان سے چھن گیا اور یہ امامت محمّد صلی اللہ علیہ وسلّم کے ماننے والوں کے پاس آگئی-  جو کہ یہودیوں سے برداشت نہ ہوا-  

اور پھر جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم خاتم النّبیین بنے-  اس وقت سے دنیا کے مسائل کی جڑ یہی مسلہ بنا ہوا ہے-  

یہودیوں کو اپنی دنیا کی امامت اور دنیا میں عزت واپس چاہئے اور وہ پچھلے چودہ سو سال سے اس کے لئے سر دھڑ کی بازی لگاۓ ہوۓ ہیں-  انہوں نے اپنا کھویا ہوا منصب واپس لینے کے لئے ہمّت نہیں ہاری-  اور سیاسی، معاشرتی، قانونی، غرض یہ کہ ہر محاذ پر مسلمانوں کے مقابلہ کیا ہے-  اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ مسلمانوں کو تقسیم کروانے میں کامیاب رہے-  

باقی سب تو طاقت اور معاشی استحصال کے ذریعے سے اپنی کوششیں کرتے رہتے ہیں-  لیکن دنیا پر ایک حکومت کے ویژن کا مقابلہ نظریاتی طور پر صرف مسلمان اور یہودیوں میں ہے-  

اور صاف ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی جو حالت زار ہے کسی بھی معیار کو سامنے رکھ کر-  یہ کبھی خود تو دنیا پر ایک حکومت قائم کر ہی نہیں سکتے-  دماغ پر زور دیے بغیر ہی سوچیں کہ پاکستان پر کسی دینی طبقے کی حکومت ممکن ہے؟  بچّہ بھی کہے گا کہ نہیں-  اتنے فرقے پاکستان میں ایک حکومت نہیں بنا سکتے تو بھلا دنیا پر اسلام کی ایک حکومت کیسے قائم کر سکتے ہیں-  

یہ کام غیر مسلموں کو آتا ہے کیونکہ انکے ہاں تیّاری کی جاتی ہے تربیت کی جاتی ہے اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفاد پر قربان کرنے کی-  

جبکہ مسلمان فرقے قومی مفادات تو کیا اسلامی مفاد پر بھی اپنے ذاتی مفادات قربان نہیں کر سکتے-  

لہٰذا دجال کی حکومت پوری دنیا پر قائم ہونا کوئی انہونی بات نہیں-  اور خاص طور پر جب رسول اللہ صلی علیہ وسلّم نے اسکی پیشنگوئی بھی کردی ہے-  جو کہ ایک سال، ایک مہینے، ایک ہفتے اور ایک دن رہے گی-  

شاید کرونا وائرس کی طرح اسکا مقصد بھی دنیا کے لوگوں کو ایک مسلہ اور اسکے ایک حل کی تربیت کروانا ہوگی-  کہ ساری دنیا کو ایک ہی مسلہ در پیش ہو چاہے وہ بھوک ہو، بیماری ہو، جہالت ہو، خوف ہو یا غلامی-  حل کے لئے سب نے ایک ہی مرکز کی طرف دیکھنا ہے-  اجتماعی طور پر-  

کاش مسلمان ذاتی مفادات کو قومی مفاد پر قربان کرنا جانتے ہوتے تو دجال کے زمانے سے نہ گزرنا پڑتا شاید-  

لیکن سب مسلمانوں نے اپنے اپنے فرقے، ذاتیں، ادارے، مدرسے، عبادتگاہیں پکڑی ہوئی ہیں-  

مرکز کی تربیت کسی کی نہیں ہے-  

مرکز کو تو سب ایمرجنسی میں احسان کے طور پر فنڈز دے دیتے ہیں-  

مرکز کو یہ احساس دلاتے ہوۓ کہ مرکز بھکاری ہے-  

اور اس بات سے صاف نظریں چراتے ہوۓ کہ "مرکز بھکاری ہے کس کی وجہ سے؟"-  

Thursday 19 March 2020

عشق کے سجدے

وہ دھوپوں میں تپتی زمینوں پہ سجدے
سفر میں وہ گھوڑوں کی زینوں پہ سجدے
چٹانوں کی اونچی جبینوں پہ سجدے
وہ صحرا بیاباں کے سینوں پہ سجدے
علالت میں سجدے مصیبت میں سجدے
وہ فاقوں میں حاجت میں غربت میں سجدے
وہ جنگوں جدل میں حراست میں سجدے
لگا تیر زخموں کی حالت میں سجدے
وہ غاروں کی وحشت میں پُر نور سجدے
وہ خنجر کے ساۓ میں مسرور سجدے
وہ راتوں میں خلوت سے مامور سجدے
وہ لمبی رکعتوں سے مسحور سجدے
وہ سجدے محافظ مدد گار سجدے
غموں کے مقابل عطردار سجدے
نجات اور بخشش کے سالار سجدے
جھکا سر تو بنتے تھے تلوار سجدے
وہ سجدوں کے شوقین غازی کہاں ہیں؟ ؟
زمیں پوچھتی ہے نمازی کہاں ہیں؟؟؟؟

ہمارے بجھے دل سے بیزار سجدے
خیالوں میں الجھے ہوے چار سجدے
مصلے ہیں ریشم کے بیمار سجدے
چمکتی دیواروں میں لاچار سجدے
ریا کار سجدے ہیں، نادار سجدے ہیں،
بے نور، بے ذوق ، مردار سجدے
سروں کے ستم سے ہیں سنگسار سجدے
دلوں کی نحوست سے مسمار سجدے
ہیں مفرور سجدے ہیں مغرور سجدے ہیں
کمزور ، بے جان ،معذور سجدے
گناہوں کی چکی میں ہیں چُور سجدے
گھسیٹے غلاموں سے مجبور سجدے
کہ سجدوں میں سر ہیں بھٹکتے ہیں سجدے
سراسر سروں پر لٹکتے ہیں سجدے
نگاہ خضوع میں کھٹکتے ہیں سجدے
دعاؤں سے دامن جھٹکتے ہیں سجدے
وہ سجدوں کے شوقین غازی کہاں ہیں؟؟
زمیں پوچھتی ہے نمازی کہاں ہیں؟؟؟؟

چلو آؤ کرتے ہیں توبہ کے سجدے
بہت تشنگی سے توجہ کے سجدے
مسیحا کے آگے مداوا کے سجدے
ندامت سے سر خم شکستہ سجدے
رضا والے سجدے، وفا والے سجدے
عمل کی طرف رہنما والے سجدے
سراپاِ ادب التجا والے سجدے
بہت عاجزی سے حیا والے سجدے
نگاہوں کے دربان رو دار سجدے
وہ چہرے کی زہرہ چمک دار سجدے
سراسر بدل دیں جو کردار سجدے
کہ بن جائیں جینے کے اطوار سجدے
خضوع کی قبا میں یقین والے سجدے
رفا عرش پر ہوں زمیں والے سجدے
لحد کے مکین ہم نشیں والے سجدے
ہو شافع محشر جبین والے سجدے
وہ سجدوں کے شوقین غازی کہاں ہیں ؟؟؟؟
زمیں پوچھتی ہے نمازی کہاں ہیں !!!!

Sunday 15 March 2020

جمہوریت

مغربی جمہوریت اور اسلامی جمہوریت 

بظاہر نظر آنے والا بہت تھوڑا سا فرق اصل میں بہت گہرا ہے- 

بچپن میں قیامت کی جن نشانیوں کو پڑھ کر سوچتے تھے کہ پتہ نہیں کون سا زمانہ ہوگا اور کون سے لوگ ہونگے جو ان حالات سے گزریں گے جو کہ احادیث میں بیان کیے گۓ ہیں-  جیسے جیسے بڑے ہوتے گۓ اور سمجھ آتی گئی تو معلوم ہو گیا بلکہ یقین آگیا کہ وہ زمانہ تو شروع ہو چکا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی رسالت اور ختم نبوّت کے اعلان کے ساتھ ہی-  

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے اپنے ہاتھ کی دو انگلیاں ملاتے ہوۓ فرمایا کہ 
"میں اور قیامت اس طرح ہیں"-  

بات بڑی سادہ سی ہے کہ جب ہدایت مکمّل ہو گئی یعنی قرآن فائنل ایڈیشن بن گیا انسانی زندگی کے مینول کا تو مزید کسی نئے ہادی کی ضرورت بھی نہیں رہی لہٰذا رسول اللہ خود بخود خاتم النبیّین ڈکلئیراورختم الرسل ہو گۓ-  نبی یعنی خبریں پہنچانے والا-  رسول یعنی پیغام پہنچانے والا-  

مدینہ کی حکومت شاید دنیا کی پہلی حکومت تھی جسے جمہوری حکومت کہا جاسکتا ہے-  اس سے پہلے بادشاہ ہوتے تھے-  عسکری حکمران ہوتے تھے-  طاقتورکی حکمرانی ہوتی تھی-  عوام کی مرضی کا تو سوال ہی نہیں تھا-

مکّے کے بعد طائف کے شہر میں تبلیغ کے نتیجے میں بدترین صورتحال کا سامنا کرتے ہوۓ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی زبان مبارک سے اللہ کے حضورجوفریاد نکلی تھی اسکا جواب بہت شاندار تھا-  جلد ہی مدینے سے وفد آتا ہے یہ خبر لے کر کہ مدینے کے عوام کی اکثریت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کو اپنا بادشاہ بنانے کے لئے تیّار ہے-  اور پھر ہجرت ہوتی ہے اور پھر دنیا کی پہلی اسلامی خلافت یا ریاست مدینہ کی بنیاد ڈالی جاتی ہے-  اور یہ ریاست عوام کی مرضی سے بنی-  یقینا مدینے کے سمجھدار لوگوں نے اپنی عوام سے بات کی ہوگی- انکی راۓ لی ہوگی- صلاح مشورے کیے ہونگے-  بہت سوچ بچار کے بعد وہ رسول اللہ کے پاس آۓ ہونگے- کوئی تو فائدہ دیکھا ہوگا اس کمزور گروہ میں جو اپنے ہی شہر میں بے یارو مددگار، سیاسی، معاشی اور قانونی طور پر کمزور تھے-  

عوام کی مرضی سے بننے والی حکومت- عوام نے اپنا رہنما، اپنا حکمران چنا-  کوئی سیاسی جماعت نہیں بنی-  کوئی الیکشن نہیں ہوا-  کوئی مہم نہیں چلائی گئی-  کسی طاقت کا مظاہرہ نہیں کیا گیا- اخلاقیات کے سوا کوئی رول ماڈلنگ نہیں ہوئی جس میں سچائی تھی، امانت داری تھی، حکمت تھی، صبر تھا، احسان تھا، رواداری تھی، نرمی تھی، برداشت تھی، سادگی تھی، بھروسہ تھا، زبان کی پاسداری تھی، احترام تھا انسانوں کے لئے بھی اور جانوروں کے لئے بھی، رسول کی اطاعت تھی اور اللہ سے محبّت-  

جسکا مطلب تھا کہ مدینے کے عوام کی ترجیحات اپنے حکمران کے معاملے میں اخلاقیات کی تھیں-  

مکّے کے عوام بھی چالیس سال رسول اللہ کی ذات اور تیرہ سال رسول اللہ کی جماعت کے اخلاق کے گواہ تھے-  لیکن وہ اپنی زندگی اس کے مطابق گزارنے کو تیّار نہ تھے-  

جس عوام نے اپنے لئے بہترین لیڈر چنا وہ دس سال کے عرصے میں پورے عرب پر چھا گۓ-  معاشرتی اعتبار سے قابل بھروسہ اورپرامن, معاشی اعتبار سے خوشحال اورعسکری اعتبار سے بڑی قوّت بن گۓ-   

یہ تھی اسلامی جمہوریت-  عقلمند اور باشعور لوگوں کا اپنے حکمران کو منتخب کرنا- 

اور جس عوام نے اس بہترین لیڈر کو ریجیکٹ کر دیا تھا وہ آٹھ سال بعد اسی شخص کی کمانڈ میں فتح کر لئے جاتے ہیں-  

مسلمانوں کا عروج اور انکی آزادانہ روش دیکھتے ہوۓ مغربی دنیا نے بھی جمہوریت کو اپنانہ شروع کیا-  لیکن شیطانی سوچ رکھنے والی قوّتوں نے اسے اپنا ہتھیار بنا لیا-  اور اپنے فلسفے اور اپنے نظریات کے تسلّط کے لئے "جمہوری طرز حکومت" پر زور دینا شروع کردیا-  

اور اب بقول اقبال 
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں 
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

سب برابر ہیں-  ہر ایک کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہے-  جس کو اپنے حقوق کے نہیں پتہ-  جسے اپنی ہی زندگی کے فائدے نقصان کے نہیں پتہ-  جس میں کوئی حکمت اور دور اندیشی نہیں-  جو اپنے گھر اور خاندان کے معاملات کو سلجھانے کا اہل نہیں-  جو اپنے ذاتی فائدے کے لئے سرکاری اداروں کو رشوت دے کر جھوٹے لائسنز، کاغذات اور پتہ نہیں کیا کیا بنوالیتا ہے-  جو جھوٹی گواہی دے دیتا ہے-  جھوٹا حلف لے لیتا ہے-  نہ بڑوں کا ادب کرے نہ بچوں سے شفقت کرے-  جس نے کہ مسجد سے مدرسے تک کی ڈور کو کل اسلام سمجھ لیا ہے-  جن کے خطبات اور دروس کا موضوع صرف خواتین ہوتی ہیں-   جو ابھی تک بچوں کے ریپ کیسز میں پکڑا نہیں گیا ہے-  جس نے کہ ملاوٹ اور مضر صحت اشیاء بنا بنا کر اور کھلا کھلا کر اپنی ہی قوم کی صحت کا بیڑہ غرق کیا ہے-  جو خود اپنے لئے اور اپنے گھر والوں کے لئے صادق و امین نہیں-  
اس سے قوم کی تقدیر کے فیصلوں میں شامل ہونے پر زور ڈالا جاتا ہے-    
یہ ہے مغربی طرز حکومت-

کسی قوم سے جس قسم کے حکمران کے لئے ووٹ لینے ہوں پہلے اس قوم کو ان برائیوں میں مبتلا کردو-  یہ ہے مغربی جمہوریت- 

کسی قوم میں مساوات کا خنّاس بھر دو-  انسانی اقدار سے آزادی کا بھوت سوار کرادو-  اور پھر اسے الیکشن میں ووٹ کا حق دو-  یہ ہے مغربی جمہوریت-  

شیطانی قوّتوں نے بڑی باریکی کے ساتھ انسانی تاریخ پڑھی ہے-  حضرت عیسیٰ علیہ السّلام جنکی پہچان اس وقت بھی شرم و حیا اور مروّت تھی- انکی کی قوم کی ہمدردیاں انکے ساتھ ضرور تھیں لیکن وہ اطاعت بادشاہ کی ہی کرتے تھے طاقت وہ بادشاہ کی بنے ہوۓ تھے-  اس لئے حضرت عیسیٰ انکے مطابق قتل کردئیے گۓ-  لہٰذا اب مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق آ بھی جائیں تو ان کی وہی پرانی تعلیمات کون قبول کرے گا-  کیونکہ مغربی طرز جمہوریت کے مطابق تو دنیا کی اکثریت دجال کو ووٹ ڈال چکی ہوگی-  لہٰذا اپنی عقل کے مطابق انہوں نے حضرت عیسیٰ کو شکست دینے کا انتظام کر رکھا ہے-  نئی دنیا، نیا کلچر، نیا نظام-  اور ساری دنیا کے انسان اس نئے نظام کے نیچے-  

اسی لئے پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف جو جنگ جاری ہے جس میں ہر جگہ مسلمان کچلے جا رہے ہیں-  اپنے سیاسی اور معاشرتی حقوق سے محروم کئے جارہے ہیں-  تقسیم کیے جارہے ہیں الگ الگ رکھے جارہے ہیں-  اسکی وجہ یہی ہے کہ یہ کہیں عیسیٰ علیہ السّلام کی طاقت نہ بن جائیں-  

لیکن ایسا ہوگا- 

اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سے پہلے خاص طور پر مسلمان دنیا میں بادشاہتوں کا خاتمہ ہوگا-  جیسا کہ سعودی عرب میں شروع ہو چکا ہے-






Sunday 1 March 2020

دہلی فسادات

قائداعظم نے ہندوستان کو توڑ دیا-  قائداعظم نے صدیوں مل کر رہنے والے ہندو مسلمانوں کو تقسیم کردیا-  قائداعظم کی وجہ سے ہزاروں مسلمان قتل ہوۓ-  ظاہری حلیے کی وجہ سے دینی لوگ کہیں کہ قائداعظم انگریزوں کے ایجنٹ تھے-  اور لبلرز انکی اسلامی تحقیق چھپانے کے لئے انکی خاص تقریروں کے حصّے دلیل کے طور پر پیش کریں کہ پاکستان کو اسلامی ملک نہیں ہونا چاہیے-  بلکہ ایک سیکولر ملک ہونا چاہئے-  

سمجھ نہیں آتا کہ پچھلے کئی دھائیوں سے ایسی باتیں کرنے والے لوگ آج کس طرح دہلی میں ہونے والے ظلم کو جسٹیفائی کریں گے-  کس طرح دہلی کے مسلمانوں کو اور بھارت کے مسلمانوں کو کیا مشورہ دیںگے اور کس نظریہ اور کس فلسفے کے تحت ان مسائل اور فسادات کا حل نکالیں گے-  اور اگر بھارت کے مسلمان آج یہ سوچ کر کہ ہندؤں کے ساتھ گزارا نہیں ہو سکتا لہٰذا ایک الگ ریاست کا مطالبہ کرتے ہیں تو کیا انکی مخالفت کریں گے؟  

سالوں پاکستان، نظریہ پاکستان اور قائداعظم کے خلاف زہر اگلتے لوگ اور وہ بھی مسلمان-  اور وہ بھی دونوں جانب-  یعنی پاکستان میں بھی اور بھارت میں بھی-  اور ١٩٤٧ اور اس کے پہلے سالوں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے فسادات کو جھٹلانے والے لوگ- اور وہ بھی مسلمان-   

اور پھر پاکستان میں پیدا ہونے والی وہ نسلیں اور وہ بھی مسلمان نسلیں جنہوں نے ١٩٤٧ اور اس سے پہلے کے فسادات کو ایک افسانہ ایک کہانی سمجھا ہوا تھا-  اور انکی تمام ہمدردیاں بھارت کے ساتھ زیادہ اور پاکستان کے ساتھ صرف اس حد تک تھیں کہ یہاں سے جس حد تک فائدہ اٹھا سکتے ہیں اٹھا لیں-  

آج دہلی فسادات اور اس سے پہلے بھارت کے مختلف شہروں میں ہونے والے فسادات ان تمام لوگوں کو غلط ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں-  یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ پاکستان کن حالات میں بنا اور بنانا ضروری ہوگیا-  

یہ فسادات نظریہ پاکستان کی اہمیت بیان کرنے کے لئے کافی ہیں-  دو قومی نظریہ-  

اسلام نیا نہیں بلکہ دنیا کا سب سے پہلا دین اور سب سے پہلا مذہب تھا-  تمام انسان ایک ہی آدم کی اولاد ہیں جو کہ مسلمان تھے-  انکی اولادیں بعد میں اپنے اپنے مذہب، اپنے اپنے نظریہ ایجاد کرتی چلی گئیں-  تو اصولا تو دو قومی نظریہ اس وقت سے شروع ہوگیا تھا جب ابلیس نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نافرمانی کی تھی-  ایک قوم تھی آدم علیہ السلام کے رستے پر چلنے والے اور دوسری ابلیس کے رستے پر چلنے والی-  ایک جنّت میں جانے والی قوم اور دوسری جہنّم میں جانے والی قوم-  اور ابلیس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ انسانوں کو ہر جانب سے بہکاۓ گا-  اور اسکا کام ہی یہی ہے-  ابلیس کی زندگی کا کوئی اور مقصد ہے ہی نہیں-  انسانوں کو بھٹکانا-  

لیکن پھر اتنے عقلمند لوگ پیدا ہوگۓ جو انسانوں کو نہ صرف ایک جنس ماننے لگے بلکہ انکے مذہب و دین کے جدا ہونے کے بھی مخالف ہیں-  اور انکے خیال میں اصل مذہب انسانیت ہے-  سارے ادیان اور سارے مذاہب پرے کر کے صرف اور صرف انسانیت یعنی انسانوں کی نفسیات اور انسانوں کی بھلائی پر توجہ دی جاۓ-  مقصد ظاہر ہے روحانی نہیں بلکہ خالص دنیاوی اور مادّی تھا-  اور بقول قرآن انسان جلد حاصل ہونے والی چیز پر لپکتا ہے اور اس پر عقیدہ بھی رکھتا ہے-  لہٰذا اکثریت اس بہکاوے میں آگئی-  

اور تو اور ایسے ایسے مولوی پیدا ہو گۓ جن کے لئے اپنی ذاتی مفادات کے لئے اسی فلسفے کا استعمال کیا اور دین پیچھے کر کے فرقہ آگے کرلیا-   

اور ایسے ہی لوگوں اور ایسے ہی مولویوں نے تحریک پاکستان کی بھی مخالفت کی-  

پاکستانی تو بہتّر سال تک دنیا کو قائل نہ کرسکے-  اب جو فسادات بھارت میں ہو رہے ہیں وہ انکو نہ صرف آئینہ دکھانے کے لئے ہیں بلکہ دنیا کو قائل کرنے کے لئے ہیں کہ پاکستان صحیح بنا تھا-  یہ یقین دلانے کے لئے ہیں کہ علّامہ اقبال اور قائداعظم رحمة اللہ علیہما کے نظریات صحیح تھے-  تحریک پاکستان سچ تھی-  دو قومی نظریہ حق تھا- 

اور یہ کہ جسطرح اسلام جان لے کر نہیں، جان دے کر پھیلا- اسی طرح پاکستان جان لے کر نہیں جان دے کر بنا- 






Friday 24 January 2020

دجالیت

ہر زمانے کی توحید-  اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات پہلے اور باقی سب اس سے نیچے-  

آج کے زمانے کا سب سے بڑا شرک، "مغربی طرز جمہوریت"-  انسان کا خود اپنے آپ کو، اپنی خواہشات کو، اپنے قوانین کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات، رضا اور قوانین کے مقابلے پر لا کھڑا کرنا-  اللہ پیچھے اور بندہ آگے-  اور اس کے لئے آلۂ کار بنی "دجالیت"-  

دجالیت کیا ہے؟  "انتہا درجے کی دھوکے بازی"-  اور اسکی شخصی علامت ہوگا "دجال" جس کے مطلب ہیں "انتہائی درجے کا جھوٹا اور دھوکہ باز"-  اور اسکے ظہور سے پہلے ساری دنیا دجالیت یعنی دھوکہ بازی کو اتنا پریکٹس کر چکی ہوگی کہ اسے "دجال" کے کردار میں کوئی اخلاقی خرابی نظر نہیں آۓ گی-  اور حقیقتا "مغربی طرز جمہوریت" کے ذریعے ہی اقتدار میں آۓ گا-  ایک حدیث کے مطابق تو یہ ایسا فتنہ ہوگا کہ مسلمان علماء تک اسکو سچ مان کر تسلیم کر لیں گے-   کوئی تو وجہ ہے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت کرپٹ حکمرانوں اور سیاست دانوں کو سپورٹ کرتی ہے-  کیونکہ یہی تو دجالیت کے آلۂ کار ہیں-  سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا کر کڑوروں کو گمراہ کرنے والے-  

روتے اس لئے نہیں کہ برکت ختم ہوگئی-  رونا یہ ہے مہنگائی زیادہ ہوگئی ہے- خرچے پورے نہیں ہو رہے- 
روتے اسلئے نہیں کہ احساس ختم ہو گیا-  رونا یہ ہے کہ کرپشن زیادہ ہوگئی- اور کہتے وقت یہ بھی نہیں سوچتے کہ اس بات کا مطلب کیا ہے کہ "کرپشن زیادہ ہو گئی ہے"-  

دجالیت-  یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے دنیا سے "گناہ" کے تصوّر کو تبدیل کردیا گیا ہے " جرم"سے-  اللہ کی نافرمانی "گناہ" ہے تو اسے اللہ اور بندے کا ذاتی معاملہ قرار دے دیا حالانکہ اللہ کی نافرمانی سے صرف انسان کی اپنی ذات پر اثر نہیں پڑتا بلکہ گلی محلّے شہر اور معاشرے بھی متاثر ہوتے ہیں-  اور انسانوں کے بناۓ ہوۓ قوانین کی خلاف ورزی "جرم" ہے تو اسکے لئے سزائیں مقرّر کر دی گئیں ہیں-  یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات پیچھے اور انسان کی ذات آگے-  جب ایسا ہو تو لوگوں کو زنابالرضا ہو زنابالجبر، گناہ نہیں لگتا بلکہ جرم لگتا ہے  لوگوں کو جعلی کاغذات بنوانا، رشوت لینا، سود پر لین دین کرنا، وغیرہ گناہ نہیں بلکہ جرم لگتا ہے-  جس سے نجات ممکن ہوسکتی ہے اگر دولت ہو، اختیار ہو، بااثر افراد سے تعلقات ہوں، اگر جج اور وکیل خرید لئے جائیں-  اور جرم وہ ہے جو ثابت کردیا جاۓ- 

دجالیت- جیسے شہادت اور انتہا پسندی کے تصوّرات کو تبدیل کردیا گیا-  اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات کے مطابق جئیں اور اسی کی خاطر جان دیں تو انتہا پسندی اور دہشت گردی-  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلّم کی عزت و ناموس پر آواز اٹھائیں تو شدّت پسندی اور دہشت گردی-   اور یہی سب کسی سیاسی یا دینی لیڈر کے لئےکیا جاۓ تو "شہادت"-  

دجالیت-  جو معاملات اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مکمّل اپنے ہاتھ میں رکھے ہیں اور انکی شرائط رکھیں ہیں- ان پر دعوے قائم کرکے بندوں کو اللہ کی ذات سے اپنی ذات کی طرف راغب کرنا-  بھوک مٹائیں گے، بیماریاں مٹائیں گے، سب کو گھر دیں گے، سب کو ملازمتیں دیں گے، سب کی زندگی بدل دیں گے-  خیراتی ادارے دس ہزار کو کھانا کھلانا شروع کرتے ہیں اور ایک سال بعد خوش ہو رہے ہوتے ہیں کہ اب وہ پچاس ہزار کو کھانا کھلا رہے ہیں حالانکہ یہ تو رونے کا مقام ہونا چاہئے انکے لئے کہ کس طرح بھوک مٹانے میں ناکام ہو گۓ-  یہ دعوے تو کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے بھی نہیں کئے حالانکہ ان کے پاس تو فرشتے اور روح الامین آتے تھے-  

دجالیت- "ترقی" کو کردار کی بہتری کے بجاۓ ظاہری مال و متاع کے حصول سے منسلک کردیا-  حالانکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلّم نے اخلاق ہی تو سنوارے تھے باقی ترقی تو اسکے اثر سے ہوتی چلی گئی-  تہذیب کو الفاظ سے نہیں بلکہ انگریزی زبان سے مشروط کر دیا-  صحت کو سنّت کا نہیں بلکہ میڈیکل سائنس کا محتاج بنا دیا-  معیشت کو زکواة کے بجاۓ سود اور اضافی ٹیکسز کے زیر اثر کردیا-  

دجالیت- سیدھے سادھے معاملات کو اپنے مفاد کے لئے توڑ مڑوڑ کر الجھا دینا- چاہے کاروباری معاملات ہوں، دینی معاملات ہوں، سیاسی معاملات ہوں یا گھریلو معاملات، تعلیمی معاملات ہوں، سماجی معاملات ہوں-  یا کچھ بھی-  لوگ اشتہارات دیکھ کر ہی چیزیں خریدتے ہیں-  اس میں کیا سچ ہوتا ہے-  کوئی دوائی اثر نہیں کر رہی-  کوئی اسکول علم نہیں پھیلا رہا-  کوئی والدین تربیت نہیں کررہے- 

دجالیت کا منطقی انجام-  ایک قوم خود اپنے ہی لیڈرز کے ہاتھوں برباد ہوتی ہے-  
ایک ہی گھر کے افراد ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں کرتے-  بچے اپنے ہی گھر کے بڑوں سے خوفزدہ اور غیر محفوظ ہوجائیں-  خواتین اپنے ہی معاشرے کے مردوں کے ہاتھوں ذلیل ہوتی ہیں-  ظلم، بے برکتی اور بے حسی بڑھتی ہے-  میڈیا اپنے ہی قوم میں مایوسی اور انتشار پھیلاتا ہے-  عوام ہی مہنگائی اور کرپشن کے نام پر ایک دوسرے کو لوٹ کھسوٹ رہے ہوتے ہیں-  

اور ہر شخص یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ انسانوں کے اس بڑا خیر خواہ اور معاشرہ کا اس سے بڑا مصلح کوئی ہے ہی نہیں چاہے وہ اسکے لئے کوئی بھی طریقه استعمال کرے- 

کیونکہ سب کو، سب کو کمانا ہے-  دولت، شہرت، اونچا رتبہ، عہدہ، اختیار.......
سب کو بڑا آدمی بننا ہے-