Sunday 17 November 2019

اسلامی ریاست الله کا وہ نور ہوتی ہے

"اور یہ چاہتے ہیں کہ الله کے نور کو اپنے منہ (پھونکوں سے) سے بجھا دیں 
مگر الله اپنا نور مکمّل کر کے رہے گا 
چاہے کافروں (جھٹلانے والوں) کو کتنا ہی برا کیوں نہ لگے"  
سورہ توبہ آیت ٣٢ 

ایک اسلامی ریاست الله کا وہ نور ہوتی ہے جو میزان یعنی قرآن یعنی عدل کو زمین پر قائم کرتی ہے-  

ریاست مدینہ - ایک عرب اسلامی ریاست جس میں قبائل بہت تھے لیکن سب کی مشترکہ زبان عربی تھی- اس لئے قرآن کا پیغام ایک بڑے اور اہم خطّے میں پہنچ گیا، سمجھا گیا اور بالآخر ذاتوں اور نسلوں کی بنیاد پر تعصب اور لڑائیوں کے خاتمے کا باعث بنا-   

ریاست مدینہ - فائنل ایڈیشن تھا ان تعلیمات کا جو براہ راست الله سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے انبیاء علیہم السلام کے ذریعے بھیجی جاتی رہیں-  وہ تعلیمات جن سے مکّے کے لوگوں کو ضد تھی اور وہ اپنی غلط عادتوں، غلط رویوں اور غلط سوچ پر اڑے رہنا چاہتے تھے اور جسے مدینے کے عوام نے خوش آمدید کہا کیونکہ وہ غلط کو غلط سمجھتے تھے اور اسے صحیح کرنا چاہتے تھے-  تو الله سبحانہ و تعالیٰ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلّم کے لئے آسانی پیدا فرمائی اور پہلی اسلامی آئینی ریاست کا آغاز مدینہ سے ہوا- 

ریاست مدینہ - کہ جب انسانی شیاطین کو یقین ہو گیا کہ چودہ سو سال میں درجہ بدرجہ عربوں کے زوال بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلّم اور انکا پیغام جڑ سے اکھاڑ پھینک دیا گیا ہے-  کسی نبی اور رسول کی آمد بھی متوقع نہیں-  مدینہ اب صرف روحانی فیض حاصل کرنے کی جگہ ہے-  وہاں سے کوئی سیاسی و عسکری قوّت جنم نہیں لے سکتی لہٰذا مسلمانوں میں اب کوئی طاقت باقی نہیں رہ گئی-  تو ریاست پاکستان وجود میں آگئی-  

"اور یہ چاہتے ہیں کہ الله کے نور کو اپنے منہ (پھونکوں سے) سے بجھا دیں 
مگر الله اپنا نور مکمّل کر کے رہے گا 
چاہے کافروں (جھٹلانے والوں) کو کتنا ہی برا کیوں نہ لگے"  
سورہ الصّف آیت ٨ 

ریاست پاکستان - جو تسلسل ہے ریاست مدینہ کا-  ایک غیر عرب اسلامی ریاست جو کہ تحریک پاکستان کے نتیجے میں وجود میں آئی-  اردو زبان جو کہ برّ اعظم ایشیا کی بہت سی قوموں کی مشترکہ زبان ہے علّامہ اقبال اور قائداعظم رحمة الله علیہا کی فکر اور پیغام کو پھیلانے کا ذریعہ بنی- اور بالآخر پاکستان ایک عجمی اسلامی ریاست کے طور پر وجود میں آیا اور بہت سی قوموں اور نسلوں کے لئے جاۓ پناہ بن گیا-  

ریاست پاکستان - نسلی اور لسانی طور پر غیرعرب شخصیات کی جدّ و جہد کا نتیجہ-  

ریاست پاکستان - جو کہ ایک سیاسی قوّت بھی ہے اور عسکری قوّت بھی-  

تحریک پاکستان جو کہ ابھی جاری ہے اور جسکی منزل ہے خلافت ارضی-  الله کی زمین پر الله کا نظام- ریاست مدینہ کے آئین یعنی قرآن و سنّت کے تحت قائم کیا گیا نظام- 

تحریک پاکستان اپنی منزل تک پہنچ کر رہے گی چاہے پوری پاکستانی قوم بھی اگر نواز شریف اور زرداری, الطاف حسین اور فضل الرحمان  کی طرح شیطان کا آلۂ کار بن کر اس میں رکاوٹیں ڈالے-  تب بھی یہ کام تو مکمّل ہو کر رہے گا- 

اور الله اسکے لئے اپنے بندوں کا انتخاب کرتا رہے گا- 

Sunday 28 July 2019

دنیا کا منطقی انجام

آج سے چند سال پہلے قرآن کا علم رکھنے والے ایک عالم نے کہا تھا کہ "دنیا اپنے منطقی انجام کی طرف واپس آرہی ہے-" 

قرآن کے مطابق، 
"اس میں نشانیاں ہیں غور و فکر کرنے والوں کے لئے..." 

آج دنیا کے بہت سے لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ الله رب العزت کا کوئی وجود نہیں اور اگر ہے بھی تو بہت محدود-  اگر یہ دعویٰ سچا ہوتا اور لوگ خود بخود ایک ارتقائی عمل کے تحت زندگی گزار رہے ہوتے اور پھر مر کر مٹی میں مل جاتے اور پھر کچھ لوگ ان کی جگ لینے کے لئے پیدا ہو جاتے تو پھر سوچ اور اعمال کی واپسی کا سفر شروع نہ ہوتا بلکہ زندگی آگے سے آگے اپنے طریقے سے بڑھتی-  

لیکن ایسا نہیں ہے-  رب العزت موجود بھی ہے اور وہ بھی اپنے مکمّل اختیارات اور طاقت کے ساتھ-  

الله عزوجل نے انسان سے زبردستی اپنے آپ کو نہیں منوایا-  بلکہ آزادی دی سوچنے کی سمجھنے کی تجربات کرنے کی-  انسان کو ہر زمانے میں ڈھیل دی کہ وہ اپنی عقل اور اپنے حربے آزمالے اور خود اپنی مرضی سے، اپنے تجربات سے الله کی ذات، اسکے  کمالات،اسکی طاقت، اسکی صفات کو پہچانے-  اور یہیں انسان باقی تمام مخلوق سے ممتاز ہو جاتا ہے-  جو کہ سب بقول علّامہ اقبال رحمة الله علیہ "تقدیر کے پابند" ہیں-  

رسول الله صلّی الله علیہ وسلّم کے ذریعے ٹیکنالوجی کے دور اور صنعتی دور سے پہلے ہی انسان کو معاشرے کی اصلاح اور ترقی کے صحیح معنی سکھا دئیے-  

پھر انسان جب صنعتی دور میں اور ٹیکنا لوجی کے دور میں داخل ہوا تو اس نے اسی کو ترقی سمجھ لیا-  اشیاء کے جوڑ توڑ اور نۓ پن کو ترقی سمجھا اور جو اخلاقیات سکھاۓ گۓ انکو ترقی کی راہ میں رکاوٹ-  نتیجہ یہ نکلا کہ الله کی دنیا کو الٹ پلٹ کر کے بھی سکون اور خوشی سے محروم ہو گیا-  اور یہ سوچ کر کہ شاید مادّی چیزوں کے ڈھیر لگانے بے سکونی اور غم ختم ہو جائیں گے صرف اور صرف دنیا کمانے میں لگ گیا-  

لیکن بہرحال- کیونکہ اس کائنات کا رب موجود ہے اور غافل بھی نہیں-  اس نے انسان کو یادآشت بھی عطا فرمائی، معاملات کو سمجھنے، انکا موازنہ کرنے اور اس سے نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت بھی-  تو دنیا کے باشعور انسانوں نے نتیجہ نکالا کہ چودہ سو سال پہلے والا اسلام، چودہ سو سال پہلے والا اخلاق اور چودہ سو سال پہلے والے قوانین ہی دراصل صرف انسانیت کی ہی نہیں بلکہ کائنات کی روح بھی ہیں اور وہ اس لئے کہ الله عزوجل کی ہر تخلیق اور ہر مخلوق اکیلی کچھ بھی نہیں بلکہ ایک دوسرے سے جڑی ہوئی بھی ہیں اور ایک دوسرے کی محتاج بھی-  انسان میں اتنی طاقت نہیں کہ بھوکا رہ سکے بھوک مٹانے کے لئے وہ جانوروں اور پودوں کا محتاج ہے-  

صرف ایک الله سبحانہ و تعالیٰ کی مبارک ذات ہے جو ہر محتاجی سے پاک ہے-  

کیونکہ صرف انسانیت پر عقیدہ رکھنے والوں نے تو انسانوں کے مفادات کی خاطر ماحولیات کا بیڑہ غرق کردیا، درخت، پودے، پھول، پرندے، جانور، پانی، مٹی، پہاڑ، دریا، سمندر، سمندری مخلوق، سب کو برباد کردیا اور اب خود انسان پریشان ہے کہ کیا کرے-   

آج دنیا کے بہت سے بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک میں لوگ پرانی طرز زندگی پر واپس آ رہے ہیں-  چھوٹے گھر، خود گھروں میں اگایا ہوا کھانا، جانور پالنا، اپنے ہاتھ کی بنی ہوئی چیزیں استعمال کرنا-  سورج کی روشنی پر انحصار کرنا-  

ماس پروڈکشن کا دور ختم ہونے جارہا ہے-   چاہے وہ چیزوں کی پروڈکشن ہو یا اسکولوں میں بچوں کی تعلیم کی- 

لوگ ہوم اسکولنگ اور ایکٹیویٹیز کے ذریعے تعلیم کے عمل کی طرف راغب ہو رہے ہیں کیونکہ ڈگریوں نے اور ایک غلامانہ سوچ پر پڑھے لکھے لوگوں نے کسی کو کچھ  نہیں دیا-  ذاتی صلاحیتوں کے ذریعے زندگی گزارنے کا دور واپس آرہا ہے-  بہت جلد کلاس رومز تبدیل ہو جائیں گے ایسے کمروں میں جہاں ہنر سکھاۓ جائیں گے-  دنیا کے کچھ ممالک میں یہ عمل شروع ہو چکا ہے-

اور تعلیم کے نام پر جو بے سروپا نظام قائم کیا ہوا تھا بچوں کی زندگی ضائع کرنے کا- وہ نظام بھی آہستہ آہستہ اپنی موت آپ مر جاۓ گا-  کیونکہ اب تو بچوں کو بھی پتہ چل چکا ہے کہ جو لکھنے پڑھنے اور حساب کتاب کی صلاحیت وہ ایک مہینے میں حاصل کر سکتے ہیں اس پر پورا پورا سال اور دن کے بارہ چودہ گھنٹے ضائع کرنا فضول ہے-  اور اسکے با وجود بھی رزلٹ میں بچے فیل-  

حکومت کو بھی اور عوام کو بھی "قدرت کے تقاضوں" اور انسانی مزاج کے مطابق خود کو تبدیل کرنا چاہئے-  ورنہ یہ عمل خود بخود تو ہو ہی جاۓ گا-  

کیونکہ جتنا بھی تبدیل کرلیں-  ہر چیز اپنے اصل پر واپس پلٹ آتی ہے- 


Saturday 23 March 2019

فرض اور نفل

شریعت میں فرض وہ کام یا اعمال ہیں جنکا آخرت میں احتساب ہوگا-  جبکہ نفل یا نوافل وہ کام جنکے بارے میں پوچھا نہیں جاۓ گا کہ کیوں نہیں کیے-  لیکن اگر کیے ہیں اور قبول بھی ہو گۓ تو انکا اجر ملے گا-  نوافل اعمال کرنا بری بات نہیں بلکہ بہترین عمل ہے لیکن شاید اس وقت جب اس سے پہلے فرائض ادا کیے جا چکے ہوں-  

مذہبی فرائض کی حد تک تو یہ فرق تقریبا سب کو معلوم ہے-  حالانکہ تب بھی اس پر عمل کم ہی کرتے ہیں-  لیکن روزمرّہ کی زندگی میں فرائض کی پہچان شاید ہی کسی کو ہو-    

پاکستان میں پانچ وقت کی نماز کی پابندی بہت کم لوگ کرتے ہیں حالانکہ اس میں مشکل سے دس منٹ صرف ہوتے ہیں-  جنکو نہیں پڑھنی وہ بڑے دلائل بھی دے دیتے ہیں-  جبکہ اس کی سخت پکڑ بھی ہے اوراسے اسلام اور کفر کے درمیان فرق بھی کہا گیا ہے-  اس کے برعکس شب معراج، شب برأت اور باقی نفل راتوں میں ساری ساری رات جاگنے کا اہتمام ہوتا ہے اور دوسرے دن چھٹی کا بہانہ بھی-  اور جاگنے والے اس کے حق میں بڑے بڑے دلائل بھی دیتے ہیں-  حالانکہ تعلیم، ملازمت، معاشرے میں امن امان، سرحدوں کی حفاظت، بیمار کی عیادت فرض ہیں ان راتوں کی عبادت کے مقابلے میں-  

اسی طرح قران کی تلاوت سے تلفّظ اور دیگر وجوہات کی وجہ سے اور مسنون اذکار سے دامن بچانے والے مولویوں اور عاملوں کے بناۓ ہوۓ بہت سے وظائف کا ورد کرتے نظر اتے ہیں-  اور اس کے حق میں بھی دلائل دے دیتے ہیں- 

صاحب نصاب ہوتے ہوۓ زکواة کا فرض ادا نہ کرنے والے آۓ دن صدقہ خیرات کرتے ہیں-  یا زکواة ادا بھی کی تو رشتہ داروں میں مستحقین تلاش کرنے کے بجاۓ دوسروں میں بانٹ دی-  اولیاؤں اور پیروں کے نام پر دیگیں پکوا کر بانٹتے ہیں-  یہ سوچے بغیر کہ اگر کسی معاشرے میں صاحب نصاب زکواة ادا کرنا شروع ہو جائیں تو وہاں بھوک اور مفلسی خود بخود دور ہو جاتی ہے-   

لوگ حج تو ایک مرتبہ کر لیتے ہیں لیکن پھر ہر سال اور کبھی تو سال میں کئی مرتبہ عمرہ بھی کرتے ہیں-  اور وہ بھی ان حالات میں کہ اس معاشرے میں ظلم و ستم جہالت  اور مفلسی کا راج ہو-  عمرہ تو نفل ہے جبکہ معاشرے سے ظلم و جہالت کا خاتمہ کرنا فرض ہے-  یہی تو سنّت رسول صلی الله علیہ وسلّم اور سنّت حسین ہے-  یہ ایک سے زیادہ حج اور عمروں کے پیسوں سے مقروضوں کا قرض اتارا جا سکتا ہے جسکی وجہ سے وہ جبری مشقّت اور غلامی کی ذلّت سہتے ہیں- 

جب دینی فرائض میں یہ حال تو عام زندگی میں کسی عدل کی توقع رکھنا فضول ہو جاتا ہے- 

اکثر اساتذہ خاص طور پر اگر وہ سرکاری ہوں (اس میں دینی اور غیر دینی دونوں شامل ہیں) اور اسی طرح اور بھی دوسرے سرکاری اداروں کے ملازم- تو اپنی اس ملازمت کو جسکی تنخواہ لے رہے ہیں ایک زحمت سمجھتے ہوۓ آۓ دن چھٹی کرتے ہیں مختلف بہانوں سے-  لیکن انہی بہانوں کے ذریعے وہ مخلتف جگہوں پر جوش و جذبے کے ساتھ مختلف سرگرمیوں میں حصّہ لیتے دکھائی دیتے ہیں-  یہ نہیں سمجھتے کہ یہ دھوکہ ہے-  جھوٹ ہے-  بےایمانی ہے-  یہاں لوگوں کو یہ نہیں سمجھ آتی کہ جب آپ ملازمت پر ہوتے ہیں تو باقی سب کام سواۓ نماز یا الله کی طرف سے جو براہ راست عبادتیں ہیں- نفل ہوجاتے ہیں اور ان تمام کاموں کو مینج کرنا آنا چاہئے-  اور ان سب کے انتظامات کرنا معاشرے کے بااختیار اور با شعور افراد کا فرض ہے-  

اسی طرح معاشرے میں بھوک بکرے کھلانے سے ختم نہیں ہوتی-  لوگوں کے معاش کا انتظام کرنا ہوتا ہے-  رسول الله صلی الله علیہ وسلّم کے زمانے میں لوگ باغ صدقہ کرتے تھے-  کنوئیں کھدواتے تھے-  آج کسی بھی خیراتی ادارے کو بکرے کے پیسے دے کر جان چھڑا لیتے ہیں-  اور یہ خیراتی ادارے آگے ایک بے لگے بندھے طریقہ کار کے تحت اپنی سمجھ کے مطابق لوگوں کی خدمت کرتے ہیں-  لیکن یہ نہیں جان پاتے کہ پھر بھی معاشرے میں بھوک و افلاس بڑھ رہا ہے اور جہالت اور جرائم عام ہو رہے ہیں- گندگی اور غلاظت بڑھ رہی ہے-  بکرے کھلانا فرض نہیں ہے لیکن آلودگی ختم کرنا اور ایسے انتظامات کرنا جس سے بیماریاں ختم ہوں یہ  فراز ہے- 

بہت ضروری ہے معاشرے کی اصلاح کے لئے کہ وہاں کے با شعور افراد اور بااختیار افراد لوگوں کی اخلاقی اصلاح کے ساتھ ساتھ انھیں مہذب طریقے سے جینا بھی سکھائیں اور جو وسائل اس پر خرچ ہونگے بلاشبہ وہ اس صدقہ و خیرات سے بڑھ کر ہونگے جس سے صرف ایک وقت کی بھوک ہی مٹتی ہے اور وہ بھی اکثر عزت نفس کی قیمت پر-  کاش یہ بات سیلانی اور دوسرے خیراتی اداروں کو سمجھ آجاۓ کہ کیوں رسول الله صلی الله علیہ وسلّم نے مکّہ اور مدینے میں خیراتی اداروں کے قیام بجاۓ حکومتی خزانے یعنی بیت المال کو مضبوط کیا- 

Thursday 20 September 2018

کربلا

فرعون ہو، نمرود ہو، ابو جہل ہو، یزید ہو یا نواز شریف-  کسی بھی زمانے کے ظالم اور جاہل یہ نہیں چاہتے کہ کوئی عوام میں شعور بیدار کرے-  ہاں انکی شدید خواہش یہ ہوتی ہے کہ انکی اپنی ذات کو نشانہ بنایا جاۓ تاکہ ایک تماشہ لگے اور وہ عوام کو اپنے پیچھے لگائیں-  تقریریں ہوں-  جلسے ہوں-  ایک دشمنی کی ابتداء ہو-  کوئی مخالف ہو-  کوئی ہنگامہ ہو-  اس دوران حادثات ہوں جو انتقام کی بنیاد بنیں-  اور عوام کے دل و دماغ پر صرف یہ ظالم راج کریں یا تو نفرت کے ساتھ یا محبّت کے ساتھ-  

عوام وہ سیڑھی ہوتے ہیں جو اگر خود بدعنوان اور جرائم سے محبّت کرنے والے ہوں تو ان پر چڑھ کر کوئی بھی انسان فرعون بن سکتاہے-  جتنا ان حکمرانوں کو نشانہ بناتے رہیں اتنی ہی طاقت غافل اور خود غرض عوام سے ملتی ہے-  اور وہ کامیاب ہو جاتے ہیں-  

ظالم اور جاہل حکمران-  غافل اور خودغرض عوام-  ایسی ہی صورت حال ہوتی ہے جب کربلا جیسا سانحہ ہوتا ہے-  

جن گناہوں اور جرائم کی اونچی منزل پر مکّے کے سردار بیٹھے تھے اسکی سیڑھی عوام میں سے ہی مجرم لوگ تھے-  رسول صلی الله علیہ وسلّم نے مدینہ کی خلافت سے پہلے تیرہ سال مکّے میں انسانوں کی تربیت کی-  عام عوام کے کردار پر کام کیا-  اس سیڑھی کو نیچے سے کمزور کیا-  وہ سیڑھی نیچے سے ٹوٹی تو مکّے کے سردار منہ کے بل گرے-  

آج اس جرائم کی سیڑھی کو جس پر نواز شریف اور زرداری بیٹھے ہیں اسے متحدہ مجلس عمل کے ساتھ ساتھ میڈیا نے بھی مضبوط کیا ہوا ہے-  عوام کے ساتھ مذاق نہیں تو کیا ہے کہ عمران خان پر تنقید کے لئے چور خاندان اور چور جماعتوں کے نمائندوں کو بٹھایا جاتا ہے-  ملک ماہرین اور قابل لوگوں سے بھرا پڑا ہے-  

اصلاح کا طریقہ ہے تو بس وہی جو رسول الله صلی الله علیہ وسلّم کا-  درود و سلام ان پر- 

Friday 20 July 2018

ذاتی کرئیر- سوشل ورک- سیاست

کتنا مشکل ہوتا ہے یہ سمجھنا اور سمجھانا کہ ذاتی کریئر اور سوشل ورک برابر نہیں ہیں سیاست کے-  سیاست کسی کا ذاتی یا خاندانی معاملہ نہیں-  سیاست ذاتی کاروبار نہیں-  سیاست مولوی کا خطبہ نہیں-  سیاست کسی عالم کا فتویٰ نہیں-  سیاست کسی مسلک کی فقہہ نہیں-  سیاست جھوٹ اور دھوکہ نہیں- سیاست کسی صوبے کی زبان نہیں-  سیاست روٹی، کپڑا اور مکان نہیں-   

عمران خان نے پروفیشنل کرکٹر کے کرئیر سے ریٹائر ہو کر سوشل ورک کی ابتداء کی-  اور سوشل ورک میں صحت اور تعلیم کے میدان میں کامیابی کے ساتھ ہی سیاست میں قدم رکھ دیا-  اور آج کی تاریخ میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بحیثیت سیاست دان عمران خان نے عوام کی اکثریت کے دل میں جگہ بنا لی ہے-  اور جو سیاست میں آ کر عوام کے دل میں جگہ بنا لے اسے اقتدار بھی مل ہی جاتا ہے-  یہ سب کچھ ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور بہت سے سیاست دانوں کے ساتھ بھی ہوا-  لیکن اب ان میں سے کچھ ماضی کا حصّہ بن چکے ہیں اور کچھ بننے والے ہیں-  

کسی بھی کرئیر میں کامیابی قربانی اور لگن کے بغیر نہیں ملتی اور اس میں گھر، خاندان، برادری اور لوگوں کے مفادات سے زیادہ اپنے مفادات محبوب ہوتے ہیں اور یہی پروفیشنلزم ہے- لیکن کامیابی کی صورت میں اکثر ملک و قوم کا نام بھی روشن ہوتا ہے-  پاکستان ایسے افراد سے بھرا پڑا ہے جنہوں نے اپنے کرئیر سے ملک و قوم کو بھی فائدہ پہنچایا-  کرکٹ ورلڈ کپ کی صورت میں عمران خان نے صرف ذاتی کامیابی حاصل نہیں کی بلکہ ملک و قوم کو بھی سرخرو کیا-  اور خود کو ٹیم کا لیڈر اور عوام کا ہیرو ثابت کردکھایا-  

سوشل ورک کا تعلق لوگوں سے انکی بھلائی سے ہوتا ہے لہٰذا لوگوں سے تعلق رکھے بغیر سوشل ورکر بننا ممکن نہیں-  یہ فیلڈ بھی قربانی، لگن، اخلاص، ایمانداری اور امانتداری کا تقاضہ کرتی ہے-  پاکستان میں جتنے لوگ سیاست میں ہیں اس سے دس گنا یا اس سے بھی زیادہ لوگ انسانیت کی خدمت کے نام پہ سوشل ورک کر رہے ہیں- عبدالستّار ایدھی صاحب نے کوئی تجربہ اور اعلیٰ تعلیم نہ ہوتے ہوۓ بھی صرف جذبہ، ہمّت، خلوص نیّت اور احترام انسانیت کی بنیاد پر ایسی مثال قائم کی کہ ایدھی فاونڈیشن کو کام اور مقصد کی نوعیت، وسعت اور انتظامی اعتبار سے حکومت کے مدّمقابل لاکھڑا کیا- عمران خان نے ایک متعین مقصد کے تحت اپنی ہیرو شپ کو کام میں لاتے ہوۓ شوکت خانم میموریل ہسپتال اور نمل کالج کو بحیثیت اداروں کے کامیاب بنایا- عطیات کی بنیاد پر کسی بھی ادارے کو ایک کامیاب فلاحی ادارہ ثابت کرنا وہ بھی اس طرح کہ وہ حکومت کے مدّ مقابل آنے کے بجاۓ اپنی ترجیحات کے ذریعے ملک و قوم کو فائدہ پہنچاۓ یہ بھی پروفیشنلزم ہے-  عمران خان نے یہاں بھی خود کو صرف ایک فلنٹروپسٹ یا انسان دوست شخص کی حیثیت سے نہیں بلکہ اداروں کے بہترین منتظم اعلیٰ کی حیثیت سے بھی منوایا-  

"جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ"- عمران خان نے کرئیر اور سوشل ورک دونوں فیلڈز میں عوام کے دلوں کو فتح کرلیا-  

ذاتی کریئر اور سوشل ورک، دونوں کا دائرہ کار اور دائرہ احتساب سیاست کے مقابلے میں بہت چھوٹا اور اختیاری ہے-  سیاست ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت، ملک کے شہریوں کی معاشی اور سماجی فلاح و بہبود، ملکی وسائل کے عادلانہ استعمال اور ملک و قوم کے مستقبل کی منصوبہ بندیوں کے انتظامات کا نام ہے-  خلافت مدینہ نے دنیا کو ایک اسلامی جمہوری نظام سے متعارف کرایا جس کی روح اخلاقیات تھیں اور جس کی تربیت تیرہ سال تک مکّہ میں کی گئی تھی-  اور اخلاقیات کا پہلا تقاضہ نظام عدل ہوتا ہے عوامی سطح پر-  یعنی ایک ایسا نظام جس میں ہر شخص دوسرے شخص کی عزت، حقوق، معاش، اور جان کی سلامتی کا ضامن ہو-  اخلاقیات کا دوسرا تقاضہ بھی نظام عدل ہوتا ہے حکومتی سطح پر یعنی ایک ایسا نظام جس میں ہر شخص کو اپنے سماجی اور معاشی استحصال کی صورت میں عدل و انصاف کا یقین ہو-  اور اس حکومت یا خلافت کے رہنما کو قانون، سپہ سالاری سے لے کر تمام جمہوری معاملات پر دسترس حاصل تھی-  

سیاست ایک نظام دیتی ہے ماضی کو بہتر حال میں تبدیل کرنے والا اور پھر اس سے بھی بہتر مستقبل کا وژن -  پاکستان میں عوام کی سوچ ذاتی کرئیر کی فرضیت اور سوشل ورک کی فضیلت تک ہی محدود ہے- ایک مسکین محتاج غریب توقع کرتا ہے کہ معاشرہ یا حکومت مجھے کھلاۓ پلاۓ پہناۓ ورنہ معاشرہ بھی ظالم ہے اور حکومت بھی- اسی لئے عوام سیاست کو سوشل ورک سے تعبیر کرتے ہیں-  نتیجہ سامنے ہے-  پہلا نتیجہ یہ کہ پاکستان میں اچھا تو کچھ ہو ہی نہیں سکتا سواۓ خیراتی اور فلاحی اداروں کے کیونکہ انہیں نیک لوگ چلا رہے ہیں-  اور دوسرا نتیجہ یہ کہ "کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے"-  یہ سوچ اتنی عام ہوگئی ہے کہ لوگ اپنے مجرم کا خود ہی دفاع کر رہے ہیں-  جبکہ عام طور پر کوئی انکے دس روپے چرا لے تو مار مار کر اسکی جان نکال لیتے ہیں-  یہ ابھی تک ملوکیت کے دور سے نہیں نکلے جس میں ایک بادشاہ جیسا بھی ہو حکمرانی صرف وہ اور اسکا خاندان ہی کرسکتے ہیں-  اور باقی رعایا نے عام، غریب، مسکین ہی رہنا ہے-  

جس قسم کی سیاست کی ابتداء عمران خان صاحب کرنا چاہ رہے ہیں لوگ اس سے واقف ضرور ہیں لیکن انکا ایمان بن چکا ہے یا بنا دیا گیا ہے کہ پاکستان میں ایسی سیاست نہیں کی جاسکتی-  خیبر پختونخواہ کی پانچ سال کی حکومت کی کارکردگی انتظامی طور پر ناکام ہونے والے سیاست دانوں کے نشانے پر ہے-   اس وقت بھی عمران خان کے جلسے میں لوگوں کی تعداد بڑھنے کی وجہ انکی نواز شریف اور دوسرے سیاست دانوں سے مایوسی ہے اور وہ تکلیفیں ہیں جن میں سے زیادہ تر خود عوام کی اپنی غفلت اور جہالت کا نتیجہ ہیں-  انہوں نے اپنا ناخدا یا نجات دہندہ بدل لیا ہے جیسے کہ پہلے بدلتے رہے لیکن اپنے آپ کو نہیں بدلا ہے-  ایک رہنما کو کس لئے ووٹ دے کر منتخب کیا جاتا ہے اور کس طرح بھی اس رہنما کی مدد کی جاتی ہے ایک اچھا شہری بن کر اپنی ذاتی ذمّہ داریاں نبھاتے ہوۓ اسکا اندازہ ابھی اس قوم کو ہے ہی نہیں-  اور یہی اصل انقلاب ہوگا اور 'نئے پاکستان' کی بنیاد بھی-  پچھلے کئی سال سے ایک تسلسل کے ساتھ وہی بیس پچیس جملے مختلف انداز میں دہرا دہرا کر تو یہ وقت آیا ہے کہ لوگوں کو منی لانڈرنگ اور بدعنوانی ایک جرم لگنے لگی ہے وہ بھی نواز شریف کی حد تک اور اسکی سزا کی حد تک-  خود توقع عمران خان سے لگاۓ بیٹھے ہیں-  

ایک طرف ایک عجیب سی قوم ہے-  جبکہ دوسری طرف پیشہ ور سیاستدان ہیں جنکا ایمان پیسہ ہے-  وہ کبھی بھی عمران خان کو چین سے حکومت کرنے نہیں دیں گے کہ اس نے انہیں قوم کے لیڈرز سے قوم کے مجرم بنا دیا-  تو وہ تو عمران خان کو اپنا مجرم ہی سمجھیں گے اور اسکو ناکام کرنے کی ہر ممکن کوشش کرینگے-  عمران خان کی پارٹی پر ذمّہ داری عائد ہوتی ہے کہ الیکشن جیتنے کے بعد اگلے پانچ سال وقف کر دیں عوامی سطح پر آکر عوام کی تعلیم و تربیت کرنے پر-  انکو یہ اعتماد اور یہ پریکٹس دینے پر کہ اچھے شہری کی ذمّہ داری وہ خود کس طرح نبھا سکتے ہیں جو کہ ان پر فرض ہے اور ایک احتساب عدالت لگے گی جس میں خود الله سبحانہ و تعالیٰ ان سے حساب لیں گے-  انکو یہ سمجھانے پر کہ حکومت کی ذمّہ داریاں اور حکومت کا خزانہ کس مقصد کے لئے ہیں- اس ملک سے جاگیر دارانہ نظام ختم کرنا ہے-  وی آئی پی کلچر ختم کرنا ہے-  ایسا ہو ہی نہیں سکتا جب تک سیاسی نمائندے ڈرائنگ روم سیاست چھوڑ کر عوام کے ساتھ شانہ بشانہ کام کریں-  جیسا کہ خلافت راشدہ میں ہوا کرتا تھا-  

کتنا مشکل ہے یہ سب عوام کو بتانا-   سیاست بہت بڑی ذمّہ داری ہے-  سیاست لوگوں کی بھلائی کی سمت رہنمائی ہے-  سیاست امانتداری اور سچائی ہے-  سیاست نعمتوں کی حفاظت ہے-  سیاست ایک عبادت ہے- 

Saturday 30 June 2018

الله کو اچھا قرض

اِنۡ تُقۡرِضُوا اللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنًا يُّضٰعِفۡهُ لَـكُمۡ وَيَغۡفِرۡ لَـكُمۡ​ؕ وَاللّٰهُ شَكُوۡرٌ حَلِيۡمٌۙ- 

"اگر تم الله کو قرض دو گے- تو وہ اسے بڑھا دے گا کئی گنا تمھارے لئے-  
اور تمہیں معاف کر دیگا-  اور الله قدر کرنے والا حلم والا ہے-" 
سوره التغابن 

مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً ۚ 
وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ- 

"کون ہے جو الله کو اچھا قرض دے تو وہ اسے کئی گنا بڑھا دے- 
اور الله ہی تنگی اور کشائش کرتا ہے- اور تم اسی کی  طرف لوٹاۓ جاؤ گے-"
سوره البقرہ 

وَقَالَ اللّٰهُ اِنِّىۡ مَعَكُمۡ​ؕ لَـئِنۡ اَقَمۡتُمُ الصَّلٰوةَ وَاٰتَيۡتُمُ الزَّكٰوةَ وَاٰمَنۡتُمۡ بِرُسُلِىۡ
 وَعَزَّرۡتُمُوۡهُمۡ وَاَقۡرَضۡتُمُ اللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنًا لَّاُكَفِّرَنَّ عَنۡكُمۡ سَيِّاٰتِكُمۡ 
وَلَاُدۡخِلَـنَّكُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ​ۚ 
فَمَنۡ كَفَرَ بَعۡدَ ذٰ لِكَ مِنۡكُمۡ فَقَدۡ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِيۡلِ‏- 

"اور الله نے فرمایا بے شک میں تمھارے ساتھ ہوں-  
اگر تم نماز قائم رکھو اور زکواة دو اور اور میرے رسولوں پر ایمان لاؤ 
اور انکی تعظیم کرو اور الله کو اچھا قرض دو- تو میں تمھارے گناہ اتار دونگا 
اور تمہیں باغوں میں لے کے جاؤں گا جن کے نیچے نہریں رواں ہیں-
 پس اسکے بعد تم میں سے جو کوئی کفر کرے 
تو وہ ضرور سیدھی راہ سے بھٹکا-" 
سوره المائدہ

الله سبحانہ و تعالیٰ قادر مطلق ہے-  جس نے سب کچھ تخلیق کیا اسے قرض کی ضرورت نہیں-  یہ تو اعمال کا وہ اکاؤنٹ ہے جو ہر انسان کا الله سبحانہ و تعالیٰ کے پاس کھلا ہوا ہے-  اب چاہے وہ اس میں برائیاں جمع کرے یا اچھائیاں-  گناہ ذخیرہ کرے یا نیکیاں- جو بھی اکاؤنٹ میں جمع کیا ہوگا وہ آخرت میں واپس کردیا جاۓ گا-  عملوالصالحات اور بر اورعبادات وہ نیکیاں ہیں جو اچھا قرض ہیں اور جن کا کئی گنا بڑھا کر دینے کا وعدہ قرآن میں کیا گیا ہے-  برائیاں اور گناہ برا قرض ہیں لیکن انکے معاف کردینے، مٹا دینے کا وعدہ کیا گیا ہے-  

اِنَّ الۡحَسَنٰتِ يُذۡهِبۡنَ السَّيِّاٰتِ- 

"بے شک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں-"
سوره ہود

ایک صحابی حضرت ابو الدحداح نے جب قرض حسنہ کی آیت سنی تو حاضر خدمت ہوئے اور فرمایا کہ یارسول اللہ! کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض مانگتا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ہاں۔ وہ بولے اپنا دست مبارک مجھے دکھائیے۔ انہوں نے حضور کا ہاتھ پکڑا اورکہا کہ میں نے اپنا یہ باغ اللہ تعالیٰ کو قرض دیا۔ اس باغ میں کھجور کے چھ سو درخت تھے۔ ان کی بیوی اور بچے اسی میں رہائش پذیر تھے۔  انکی بیوی نے جب یہ سنا تو پکار اٹھیں۔ "اے دحداح کے باپ تم نے بڑا نفع والا سودا کیا ہے۔" 

اور ایسے ایک نہیں ہزاروں واقعات دور نبوی اور اسکے بعد کے ادوار سے پیش کئے جا سکتے ہیں-  جب لوگ اس آیت کی مثل ہوا کرتے تھے جسے اکثر مفسّرین قرآن حضرت علی اور حضرت فاطمہ کے واقعات سے منسلک کرتے ہیں

وَيُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسۡكِيۡنًا وَّيَتِيۡمًا وَّاَسِيۡرًا‏- 
اِنَّمَا نُطۡعِمُكُمۡ لِـوَجۡهِ اللّٰهِ لَا نُرِيۡدُ مِنۡكُمۡ جَزَآءً وَّلَا شُكُوۡرًا‏- 
اِنَّا نَخَافُ مِنۡ رَّبِّنَا يَوۡمًا عَبُوۡسًا قَمۡطَرِيۡرًا- 

"اور وہ کھلاتے ہیں کھانا اس (الله) کی محبّت میں مسکین، یتیم اور اسیر کو-
اور ان سے کہتے ہیں کہ ہم تمہیں خاص الله کے لئے کھلاتے ہیں 
اور تم سے کوئی بدلہ یا شکر گزاری نہیں مانگتے-  
بے شک ہمیں اپنے رب سے ایک ایسے دن کا خوف ہے 
جو بہت ترش نہایت سخت ہے-" 
سوره الدھر

عملو الصالحات کیا ہیں؟ ہر اچھا عمل- 

اور بر کیا ہے؟ وہ نیکی یا اچھا عمل جو اپنی محبوب ترین شئی الله کی راہ میں خرچ کرنے سے مشروط ہے-  بر کا ترجمہ "تقویٰ" سے کیا جاتا ہے- 

لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰى تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ - 

"اور تم ہرگزنہیں پہنچ سکتے تقویٰ کو- جب تک کہ 
خرچ نہ کرو ان میں سے  جو تمہیں محبوب ترین ہیں-"
سوره آل عمران

مسلمانوں کی اکثریت جس میں دین کے دعویدار بھی شامل ہیں شاید اب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو قرض دینے پر یقین بھی نہیں رکھتی- اسی لئے ہرکام کی طرح نیکیوں اور عبادتوں میں بھی کیش کا کاروبار کرنے لگے ہیں-  یہاں تک کہ اپنےغم، اپنا صبر، اپنی تکالیف، اپنی دوستیاں، اپنی رشتہ داریاں، اپنے تعلقات- ہرعملوالصالحات اور ہر بر اورہرعبادت کا بدلہ دنیا میں اور وہ بھی فورا وصول کرنا چاہتے ہیں بلکہ کر لیتے ہیں-   یہ دیکھ کر لگتا ہے کہ مسلمانوں کو اب نہ آخرت پریقین رہا ہے نہ آنے والے وقت پر-  اگر تمام کی تمام نیکیاں اور عبادتیں دنیا میں ہی کیش کروالیں گے تو آخرت میں کیا بچے گا جس کا بدلہ دیا جاۓ- 

اور اس نیکیوں اور عبادتوں کا کیش کاروبار نے معاشرے کا بیڑہ غرق کردیا ہے-  کیونکہ جب انسان اس قسم کے رویے میں مبتلا ہو جاۓ تو پھر وہ صرف اپنا فائدہ سوچتا ہے-  میں تکلیف اٹھائی تو صرف مجھے اسکا بدلہ ملے-  میں نے ساری محنت کی تو پھل بھی میں ہی کھاؤں-  میں نے سارے اقدامات کئے تو میری تعریف ہو- مجھے سراہا جاۓ-  جبکہ رسول الله صلی الله علیہ وسلّم کی تربیت تھی کہ صرف اور صرف الله کی رضا کے لئے کام کیا جاۓ اور وقت اصل مقاصد کے حصول میں لگایا جاۓ-  

اسلام میں ہر وہ کام بھی عبادت کا درجہ پا لیتا ہے جو الله کی رضا کی نیّت سے اس کے بندوں کی بھلائی کے لئے کیا جاۓ-  کیونکہ سیاست  ایک ملک شہریوں یا علاقے کے باسیوں کی فلاح و بہبود اور جان و مال کی حفاظت کے نظام چلانے کو کہتے ہیں-  اسی اسلام میں سیاست بھی عبادت ہے- 

لیکن یہ بات کم از کم پاکستان کے لوگوں کو نہیں پتہ-  اسی لئے ان میں سے کچھ الیکشن کو ایک دنگل یا اکھاڑا سمجھ کر اپنے اپنے وار آزماتے ہیں اور عوام انکا تماشہ لگاتے ہیں-  عوام سیاست کی شرعی اہمیت اور سیاست دان اسکی ذمّہ داریوں سے ناواقف ہیں-  شاید اسکی ایک بڑی وجہ تو یہی ہے کہ یہاں سیاست  اصل اسلامی جمہوریت کے طریقے پر نہیں بلکہ مغربی انداز سے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے-  جس میں گدھے اور گھوڑے میں تمیز بھی باقی نہیں رہتی-  اسی رویے کی وجہ سے پاکستان میں سیاست کو برائی یا جرم سمجھا جاتا ہے جس میں صرف جرائم پیشہ لوگ حصّہ لے سکتے ہیں- 

عوام اپنے چھوٹے چھوٹے ذاتی اور علاقائی مفادات کو مدّ نظر رکھ کر ووٹ دیتی ہے یا پھر نہیں دیتی-  اور سیاست دان بڑے ممالک کے مفادات کے نتیجے میں حاصل ہونے والے اپنے ذاتی مفادات کو ذہن میں رکھ کر الیکشن لڑتے ہیں اور پارٹیوں کا الٹ پھیر کرتے ہیں-  کیونکہ سب کے مقاصد چھوٹے ہیں-  اسی لئے نقد پر کام کرتے ہیں-  کسی نے الله سبحانہ و تعالیٰ سے تجارت نہیں کی ہوئی نہ ہی اسے قرض دیا ہے-  انکو یہ نہیں معلوم کہ جنکے مقاصد بڑے ہوتے ہیں انکے پاس نقد لینے کا وقت نہیں ہوتا اس لئے وہ اپنی امانت الله تعالیٰ کے پاس رکھوا دیتے ہیں کہ آخرت میں وصول لیں گے منافع کے ساتھ-  اور پاکستانیوں کے لئے بڑا مقصد پاکستان ہونا چاہئے-  پارٹی ٹکٹ یا جیت نہیں- کیا ہے اگر لوگ نہ پہچانیں-  کیا یہ کافی نہیں کہ الله سبحانہ و تعالیٰ جانتے ہیں اور وہی بہترین قدر دان ہیں- 

Saturday 23 June 2018

بیماریاں اور بیمار معاشرہ

کچھ سالوں سے لوگوں کے گھروں میں عجیب عجیب بیماریوں کے پڑاؤ کی خبریں دکھائی جارہی ہیں-  لاکھوں کی تعداد میں لوگ نفسیاتی مریض ہیں-  ہزاروں کی تعداد میں ایسے کہ کسی کی اولادیں چل نہیں سکتیں حرکت نہیں کرسکتیں-  نہ ڈاکٹرز کے علاج کام آرہے ہیں-  نہ عاملوں کے دم-  نہ حکیمانہ نسخے-  بس علاج پر علاج کے لئے مسلسل چندہ-  اس ملک کے کونے کونے میں خیراتی ادارے یا فلاحی ادارے یا این جی اوز موجود ہیں جن میں سے کچھ بہت مشھور لوگوں کے ہیں اور کچھ عام لوگوں کے-  سب کے سب چندے پر-  اس ملک کی مسجدیں چندے پر-  پھر اس ملک کی سڑکوں پر لاکھوں کی تعداد میں مانگنے والے بھکاری-  پھر ہر سڑک کے کنارے گھر بساۓ ہوۓ خانہ بدوش جو مانگ کر گزارا کرتے ہیں-  پھر آۓ دن چینلز پر سینکڑوں ایسے ایسے بیماریوں کے کیسز دکھاۓ جاتے ہیں اور انکے لئے بھی لاکھوں کا چندہ مانگا جاتا ہے-  

آخر اس ملک کے کچھ لوگوں کے پاس کتنی دولت ہے جو یوں کڑوڑوں لوگوں میں بانٹ رہے ہیں اور اتنی کہ سیاست دان بھی ان کے ٹیکسز سے لوٹ کھسوٹ کر رہے ہیں؟  اور کب تک دیتے رہیں گے؟

اور اتنی سخاوت اور اتنے صدقہ و خیرات کے بعد بھی بیماریاں، مصیبتیں، بے چینیاں، مفلسی، بھوک، جہالت، گندگی، بد عنوانیاں، بیزاری، سپر پاورز کی دھمکیاں اس ملک کا نصیب ہیں-  کیوں؟  

سوچنے کی بات ہے کہ کہاں کہاں ہم نے الله سبحانہ و تعالیٰ کی خدائی کو اپنے ہاتھ میں لیکر اس سے زیادہ رحیم و کریم اور عقلمند ہونے کا گناہ کیا ہے اور مسلسل کئے جارہے ہیں-  اور اس کے رسول صلی الله علیہ و آلہ وسلّم جن کو رحمت اللعالمین کہا گیا ہے- کی تعلیمات سے بغاوت کی ہے-  

بہت سی نفسیاتی بیماریوں کا حل اتنا آسان ہوتا ہے کہ کوئی ان نفسیاتی مریضوں کی بات سن لے اور بس-  کیونکہ آجکل گھروں اور خاندانوں میں تو کوئی کسی کی بات نہیں سنتا-  امریکہ میں اکثر اس قسم کی پارٹ ٹائم جابس ہوتی ہیں جس میں کسی طالب علم کو ہفتے میں دو تین دن ایک دو گنتے کسی بوڑھے تنہا شخص کے ساتھ گزارنے ہوتے ہیں کہ وہ صرف انکی باتیں سنتا رہے-  تو اس قسم کے انتظامات تو یہاں بھی کئے جا سکتے ہیں اور یہ حکومت کا کام نہیں-  دینی لوگوں کو پڑھنے یعنی "اقراء" سے زیادہ سننے کی بہت عادت ہوتی ہے-  گھنٹوں گھنٹوں اپنے عالموں کی باتیں بیٹھ کر, جھوم جھوم کر سنتے رہتے ہیں-  وہ تو یہ جاب آسانی سے کر سکتے ہیں کیونکہ اس میں نہ دماغ لڑانا ہے نہ کسی مسلے کا حل پیش کرنا ہے-  بس صرف سننا ہے- 

بہت سی نفسیاتی، جسمانی اور روحانی بیماریوں کا علاج قرآنی سورتوں اور آیات سے ہو جاتا ہے کسی عامل یا عالم کے آستانے پر خوار ہوۓ بغیر-   اور دعا تو ہے ہی مومن کا سب سے بڑا ہتھیار-  رسولوں اور پیغمبروں تک نے دعائیں کی ہیں الله سے اپنے لئے ہر قسم کے حالات میں-  اور لوگوں کو بھی دعائیں دی ہیں-  تو یہ کام بھی دینی لوگ کر سکتے ہیں-  آمدنی کے لئے ہی سہی-  

بہت سے روحانی اور جسمانی علاج لیموں، لہسن، کلونجی، خوشبو یعنی پرفیوم، زعفران، بیری کے پتّوں، نیم کے پتّوں، زیتون کے تیل وغیرہ سے بھی ہو جاتے ہیں- 

ایک حدیث کے مطابق بیمار کی عیادت کرنا بیمار کا حق ہے-  لیکن کتنے لوگ ہمارے معاشرے میں یہ حق پورا کرتے ہیں-  اور تو اور مولانا طارق جمیل بھی جاتے ہیں تو نواز شریف کی بیگم کی عیادت کو-  ان بے چارے الله کے پیارے سے بھی یہ سنّت غریبوں کے لئے نہیں نبھائی جاتی کہ کبھی کبھی ہسپتالوں کے چکّر لگا کر مریضوں کے لئے دعائیں کرلیں-  یہ کام چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کر رہے ہیں حالانکہ انہوں نے کسی مدرسے سے بھی نہیں پڑھا-  حافظ قرآن بھی نہیں شاید- لیکن لوگوں کو ان سے امید ملتی ہے-  الله انہیں زندگی، صحت اور خوشیاں دے-  آمین 

کچھ معاشرے دنیا میں ایسے بھی ہیں-  جو زندگی کی ساری تگ و دو اس لئے کرتے ہیں کہ کسی طرح بیمار ہو جائیں یا کم از کم بیمار نظر آئیں-  اور اسکے بعد بیماری کا علاج بھی غیرمنطقی طریقے سے کرتے ہیں-  پاکستانی معاشرہ بھی اسی قسم کا معاشرہ ہے-  

گندگی اور کوڑا پھیلانے میں ایک دوسرے پر فخر کرنے والی یہ قوم جب روز مرّہ کی بیماریوں سے لے کر انتہائی عجیب و غریب بیماریوں میں مبتلا ہوتی ہے تو علاج کے لئے بھی ان ڈاکٹرز کے پاس جاتی ہے جو خود انکی ہی طرح انسانیت بیزار, جھوٹے اورغلیظ ہوتے ہیں-  جنکے کلینک اور ہسپتال بھی اتنے ہی گندے ہوتے ہیں جتنے کوئی اور جگہیں- 

اس معاشرے کو ایسے مسیحا کی ضرورت ہے جو انہیں یہ سمجھاۓ  کہ تمھاری اسّی فیصد بیماریوں کا علاج تمھارے اپنے جسم، اپنے گھر، اپنی گلیاں صاف ستھرا رکھنے میں ہے-  جسے تم نے  حکومت کے کھاتے میں ڈال دیا ہے-  کون سی حکومت صفائی رکھتی ہے جو چوبیس گھنٹے سڑکوں کی صفائیاں کرتے رہیں-  اور کون سی حکومتیں پارکوں کی نگرانی کے لئے پولیس والے تعینات کرتیں ہیں- یہ کام تو شہریوں کے ہیں اور انہیں کے ذریعے ایک ایک دو دو کڑوڑ نوکریاں پیدا کی جاتی ہیں-   صدر اور وزیر اعظم کے لئے تو اور بہت کام ہوتے ہیں-  

حکومت کو ذمّہ دار ٹہرانے سے پہلے عوام اپنے گریبان میں جھانکیں کہ وہ خود اپنے اور اپنے بچوں کی صحت کے لئے کیا کرتے ہیں-  

آدھی سے زیادہ نفسیاتی اور جسمانی اور روحانی بیماریاں ختم ہو جائیں اگر لوگوں کو یہ احساس ہوجانے کہ ان سے آخرت میں ماحول کی صفائی اور پاکی اور ماحولیات کے تحفّظ کا بھی حساب لیا جاۓ گا-  اگر لوگوں کو یہ سمجھ آجانے کہ فائدہ صرف لوگوں کو خیرات کے بکرے کھلانے کے پیسے جمع کرنے اور خرچ کرنے سے نہیں ہوتا-  ماحول کی صفائی اور پاکی اور ماحولیات کے تحفّظ کی سوچ بھی عبادت ہے-  اس پر خرچ کرنا بھی عبادت ہیے- یہ سب بھی صدقات و خیرات میں آتا ہے-  بلکہ صدقہ جاریہ ہے- کیونکہ اس سے خلق خدا کو ایک لمبے عرصے تک فائدہ ہوتا ہے-  لیکن یہ باتیں کسی دینی شخص کو تو سمجھ ہی نہیں آ کر دینگی-  ڈگری یافتہ کے نصاب میں یہ تعلیم نہیں ہوتی-  سیاست دانوں کو اس سے غرض نہیں کہ قوم کے لئے کیا فائدہ مند ہے اور کیا نہیں- یہ کام صرف اور صرف عوام میں سے وہ لوگ کر سکتے ہیں جنہیں الله کے سامنے کھڑے ہونے کا اور جواب دینے کا خوف ہے کہ اپنی زندگی کس طرح گزاری- اپنا وقت کن کاموں میں صرف کیا-  

آدھی سے زیادہ نفسیاتی اور جسمانی اور روحانی بیماریاں ختم ہو جائیں- 

١) اگر گھر اور محلّے صاف ہو جائیں- 

٢) اگر سبزیوں اور پھلوں کے چھلکے اور باقیات مویشیوں کو کھلا دئیے جائیں-  

٣) اگر مویشیوں کو بیچ شہر میں رکھنے کے بجاۓ انکے لئے گنجان شہری 
علاقوں سے ہٹ کر جگہیں مختص کی جائیں- 

٤) اگر لوگ اس وقت کوڑا باہر رکھیں جب کوڑا اٹھانے والے کے آنے کا وقت ہو-  

٥) اگر پان گٹکے پر پابندی لگا دی جاۓ-  اور جگہ جگہ تھوکا نہ جاۓ- 

٦) اگر علاج کے لئے قدرتی طریقے استعمال کیا جاۓ- 

٧) اگر لوگ علاج کروانے سے پہلے ڈاکٹرز کی ڈگری کی چھان بین کر لئے کریں- 

٩) اگر لوگ وقت پر سونے اور وقت پر جاگنے کی عادت ڈال لیں- 

١٠) اگر متوازن غذا کی عادت ڈال لیں- بہت سی سبزیاں جیسے کہ ادرک، لہسن، مرچیں، لیموں، پودینہ، ہرا دھنیا، ٹماٹر اور مصالحہ جات تو گھروں میں ہی اگاۓ جاسکتے ہیں اور اسطرح بچت بھی کی جاسکتی ہے اور پودوں کی کم بھی پوری ہو سکتی ہے-  

١١) اگر لوگ جگہ جگہ پھول پودے لگا کر شہرکوخوبصورت بنا دیں-  

١٢) اگر پبلک پارکس کی لوگ خود حفاظت کریں اور وہاں صفائی رکھیں-  

١٣) اگر ٹریفک قوانین کی پابندی کریں تاکہ حادثات کم ہوں-  

١٤) اگر مزدور ماسکس پہن کر کام کریں تاکہ دھول مٹی سے انکے پھیپھڑے اور گردے خراب نہ ہوں-  

١٥) اگر ٹھیلوں پر سامان اور روٹی کی دکان پر آٹا اور پکوڑوں اور سموسوں کی دکان پر پکوڑے اور سموسے ڈھکے ہوۓ ہوں تاکہ مکّھیوں سے بچے رہیں-   

١٦) اگر لوگ فالتو باتیں سوچنے کے بجاۓ کام کی باتیں سوچنا شروع کردیں-  اور بلاوجہ جگت بازیوں، جملے بازیوں کے بجاۓ اچھے الفاظ، وظائف اور دعاؤں کی عادت ڈال لیں- 

١٧) اگر لوگ خواتین کے احترام میں نظریں جھکا کر رکھیں-

١٩) اگر بچوں سے مسکرا کر بات کریں اور ان کی بھی عزت کریں-  کافی سال پہلے محلّوں میں کوئی نیاز وغیرہ ہوتی یا دعا یا منّت کا موقع ہوتا تو بچوں میں شرینی بانٹتے تھے کہ بچوں کے خوش ہونے سے دعا قبول ہوتی ہے- 

٢٠) اگر صبح اٹھ کر ایک دو گلاس پانی پی لیں-  ٹھنڈا پانی پینے سے گریز کریں-  اور پرندوں اور جانوروں کے لئے پانی کا انتظام رکھیں-  


Monday 4 June 2018

عالم بننے کا سلیقہ

تمام بشر نوع میں بہترین عالم انبیاء و رسل علیھم السلام ہیں-  انسانوں میں ان سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں-  

الله سبحانہ و تعالیٰ کو تو ہمیشہ سے معلوم تھا کہ اپنی قوم میں پیدا کئے جانے والے یہ بچے بڑے ہو کر نبی اور رسول بنیں گے-  لیکن ان بچوں کو یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ بڑے ہو کر کیا بنیں گے اور کس وقت ان کے پاس حضرت جبرائیل رب کا پیغام لے آئیں گے اور کب ان پر وحی کا نزول ہوگا-  ہر نبی اور رسول کو آزمائشوں سے گزارا گیا-  کسی کے والدین چھین لئے تو کسی سے صحت-  کسی کو مچھلی کے پیٹ میں ڈال دیا کسی کو کنویں میں اور قید میں-  کسی کا سر کاٹا گیا تو کس کو سولی پر لٹکایا گیا-  کسی کو آگ میں ڈلوایا تو کسی کو صحرا میں تنہا ماں کے ساتھ چھوڑ دیا-  کوئی غار میں پل کر بڑا ہوا تو کسی نے طور پر جاکر رب سے کلام کیا-  کسی سے گاۓ کا معجزہ تو کسی سے اونٹنی کا-  کوئی سورج اور چاند ستاروں سے رب کو پہچان رہا ہے-  کوئی دریا کو پھاڑ کر الله کی طاقت کا یقین دلا رہا ہے-  کوئی ہاتھ سے لوہا پگھلا رہا ہے تو کوئی پرندوں اور جانوروں سے گفتگو فرما رہا ہے-  کیونکہ انہوں نے ایک عظیم انسان بننا تھا-  رحمت بننا تھا-  عقلمند بننا تھا-  عالم بننا تھا-  عادل بننا تھا-  رہنما بننا تھا-  ہادی بننا تھا-  لیڈر بننا تھا-  نظام دینے والا بننا تھا-  رول ماڈل بننا تھا- 

اسی طرح ان انبیاء کرام پر کبھی یہ ذمّہ داری نہیں  ڈالی گئی کہ وہ الله کے دین کو بچائیں گے-  ان کو کام دیا گیا وہ الله کے پیغام کو پھیلانا تھا-  انسانوں کا انکے رب سے تعلق جوڑنا تھا جو کہ کسی نہ کسی طور ٹوٹ جاتا ہے-  انسانوں کو یہ بتانا تھا کہ الله کن باتوں سے راضی ہوتا ہے اور کن باتوں سے ناراض-  اور یہ کہ کس طرح اس زمین پر انسانوں کی بھلائی کے لئے الله کی مرضی کا نظام نافذ کر کے دکھایا جا سکتا ہے-  اور کس طرح انسان خود کو آخرت میں الله سبحانہ و تعالیٰ کی ناراضگی سے بچا سکتے ہیں-  اور بار بار انبیاء اور رسل کو یہ یاد دہانی کرائی جاتی تھی کہ آپ الله کی حفاظت میں ہیں-  دین خالص ہے اور الله کی حفاظت میں ہے-  آپ تو بس اپنا کام کریں- 

"اور الله کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو-  اور اگر تم منہ پھیرو گے 
تو یاد رکھو ہمارے رسول کے ذمّہ تو صریح پہنچانا (پیغام کا) ہے-" 
 سورہ التغابن 

پورے قرآن میں انبیاء و رسل کے علاوہ ایک اور ہستی ہیں جو نہ نبی نہ رسول لیکن پھر بھی قرآن کی ایک صورت انکی تعظیم کی گواہی دیتی ہے-  یعنی کہ حضرت لقمان-  انہوں نے حکمت کو اپنے لئے پسند فرمایا-  اور انہوں نے جو اپنے بیٹے کو نصیحت کی وہ بھی قرآن میں بیان کی گئی ہے-  

اور بے شک ہم نے لقمان کو حکمت عطا فرمائی-  کہ اللہ کا شکر کر-  
اور جو کوئی شکر کرے تو اپنے بھلے کو شکر کرتا ہے-  
اور جو کوئی ناشکری کرے تو بیشک الله بے پرواہ ہے تمام تر خوبیوں والا-  
سورہ لقمان 

لیکن خاتم النبین اور ختم الرسل محمّد مصطفیٰ صلی الله علیہ و آلہ وسلّم کے بعد نبوّت اور رسالت کا سلسلہ تو ختم ہو گیا-  لیکن علم اور ہدایت کا سلسلہ جاری ہے اور رہے گا کیونکہ علم ہی اخلاص کے ساتھ ملکر اصل میں ہدایت کا ذریعہ بنتا ہے-

پچھلی کی صدیوں سے مسلمان دنیا میں علم کا حصول مذاق بنا لیا گیا ہے اور عالم بننا ایک کھیل-  علم اور عالم دونوں ڈگریوں اور سندوں کے محتاج ہو گۓ ہیں-  پیدائش سے عالم بننے تک کا سفر مدرسے یا اسکول کی چار دیواری میں بیٹھے بیٹھے لوگوں سے ملنے والے چندے سے پکنے والے کھانے کو کھا کھا کر طے کرلیا جاتا ہے-  کس قدر پھیکی، بے ذوق، بے رنگ زندگی ہے ان لوگوں کی جنہیں عالموں کے خطاب سے نوازا جاتا ہے-  کس قدر بیزار نظر آتے ہیں یہ اپنے رب کی قدرتوں سے-  نہ کسی پہاڑ پر چڑھتے ہیں-  نہ سمندر اور دریا میں غوطے لگاتے ہیں-  نہ صحراؤں کی خاک چھانتے ہیں نہ جنگلوں میں بسیرا کرتے ہیں-  نہ پھول اگاتے ہیں نہ درخت لگاتے ہیں-  نہ جانوروں سے دل لگاتے ہیں نہ پرندوں سے لطف اٹھاتے ہیں-   دوسروں کی دنیا تو کیا بدلیں گے خود اپنی دنیا سے بے خبر عالم-وہ تمام کوششیں جو انسان کے زندہ ہونے کا ثبوت دیتی ہیں ان سب کوششوں سے بے خبر دو روٹی، مٹھی بھر چاول اور دو جوڑے کپڑے پر مطمئن چادر لپیٹ کو سو جانے والے عالم- 

اور مزے کی بات کہ زندگی کی کوئی لائف اسکلز نہ ہوتے ہوۓ بھی جس پر کہ انسان نااہل قرار پا جاتا ہے-  یہ خود کو دین کا محافظ سمجھنے لگ جاتے ہیں-  انبیاء کا محافظ سمجھنے لگ جاتے ہیں-  قرآن کا محافظ سمجھنے لگ جاتے ہیں-  کیا یہ انبیاء اور رسولوں سے بھی بڑھ گۓ ہیں-  اور جو اصل ذمّہ داری دی گئی ہے اسے سے غافل ہیں-  ارے قرآن اور دین تو خود انکی حفاظت کرنے کے لئے ہے تاکہ یہ اپنی ذمّہ داریاں پوری کریں-  الله کے بجاۓ اپنے اپنے علماء کے پیغامبر بن جاتے ہیں-  
  
یہ تو خیر بے ضرر بے کار عالموں کا قصّہ ہے-  ایک بدتر قسم بھی ہے جو کہ شاید سب سے زیادہ پاکستان میں پائی جاتی ہے-  وہ ہے مفاد پرست عالموں کی جن کی زبان ایک نہیں، چہرہ ایک نہیں-  کئی کئی چہروں اور زبانوں کے ساتھ قلابازیاں کھانے والے عالم-  تہذیب و حکمت سے عاری، دولت اور شہرت کے بھوکے عالم-  نفرتوں اور فساد کے بیج بونے والے عالم- جنکے فتوے، جن کی چرب زبانی اس قوم کے لئے وبال جان بن گئی ہے-  

یا الله! پاکستان پر رحم فرمائیں-  پاکستانیوں کو ایک تہذیب یافتہ اور باشعور اور باوقار قوم بنا دیں-  اس قوم کے نوجوانوں کو چھچھورے پن اور خرافات سے دور کردیں- اور انہیں صادق و امین بنا دیں- اس نوجوان نسل کو پاکستان کا امین بنا دیں-  کوئی تو ہونگے اس قابل-  آمین 

Tuesday 17 October 2017

معیشت کا بہترین نظام

انسان روزگار تلاش کیوں کرتا ہے؟
اسکی ایک وجہ تو یہ ہے کہ محنت کرنا ، کام کرنا انسان کی فطرت ہے-  سوره البلد میں ارشاد ہوتا ہے- 
"بے شک ہم نے انسان کو تکلیف میں رہنے والا بنایا"

دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ زندگی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے کمانا-  اور تیسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ضروریات سے بڑھ کر کچھ حاصل کرنا-  ساری ضروریات اور اس سے بڑھ کر نعمتیں رزق کہلاتی ہیں- اور رزق ہر وہ چیز یا نعمت ہے جسے انسان کھاتا پیتا، پہنتا اوڑھتا اور استعمال کرتا ہے-  اور قرآن میں بار بار انسان کو اس بات کا یقین دلایا گیا ہے کہ رزق الله سبحانہ و تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے-  وہ جس کو چاہے زیادہ دیتا ہے اور جسے چاہے کم-  اور یہ کمی اور زیادتی 'حصّہ' کہلاتی ہے جس کے لئے عربی میں لفظ ہے 'نصیب'-  یعنی انسان کے نصیب میں کتنا رزق ہے یہ الله سبحانہ و تعالیٰ کے کنٹرول میں ہے-  جب چاہے جس کے لئے زیادہ کردے اور جس وقت چاہے اور جس کے لئے کم کردے- 

دنیا میں صنعتی انقلاب آنے سے پہلے دنیا کی اتنی خراب حالت نہیں تھی جتنی اب ہوگئی ہے-  کڑوروں کی تعداد میں فیکٹریوں اور کارخانوں نے ماحولیات کو نقصان پہنچایا، ہوا، پانی اور مٹی کو آلودہ کردیا یہاں تک کہ یہ آلودگی اب موسموں پر اثر انداز ہونے لگی ہے-  ماس پروڈکشن کے وجہ سے قدرتی وسائل برے طریقے سے ضائع ہونے لگے-   نئی نئی ایجادات نے اور ستم ڈھایا-  آج دنیا کی معیشت حرص و ہوس کا شکار ہو کر دولت کے پجاریوں کے ہاتھ میں جاچکی ہے-  آج دنیا کی معیشت جن بنیادوں پر چل رہی ہے اسکے لئے ضروری ہے کہ دنیا کی تمام انسانوں میں مثبت صفات کا خاتمہ کر کے مقابلہ بازی، ریاکاری، لالچ اور خودغرضی پیدا کی جاۓ-  انسانوں کو کسی بھی دنیاوی اور اخروی احتساب سے غافل کر کے صرف دنیا کے معاملات میں الجھا دیا جاۓ-  ترقی کے نام پر سہولیات کا اس طرح عادی بنادیا جاۓ کہ اگر یہ سہولیات کچھ دیر کے لئے بھی چھن جائیں تو انسان بے چین اور حواس باختہ ہو جاۓ- انہی سہولیات کی حسرت میں زندگی گزاردے-  اور انہی سہولیات کو حاصل کرنے کے لئے اپنی تمام توانائی اور وسائل صرف کردے-  

سورہ التکاثر میں الله تعالیٰ فرماتے ہیں- 
"تمہیں غافل رکھا مال کی زیادہ طلبی نے-  
یہاں تک کہ تم نے قبروں کا منہ دیکھا..."

زیادہ دولت کمانے میں برائی نہیں- کیونکہ زکواة جو کہ اسلام کا معاشی ستون ہے، فرض ہی تب ہوتی ہے جب انسان کے پاس ضرورت سے زیادہ بچ جاۓ اور اس کو بھی پورا سال گزر جاۓ-  ترقی کرنے میں برائی نہیں-  کیونکہ خود قرآن کہتا ہے کہ ساری دنیا انسان کے لئے مسخر کر دی گئی ہے= جس میں وجہ چلے پھرے اور رزق تلاش کرے- الله کی قدرتوں کو پہچانے- لیکن انسان کو الله سبحانہ و تعالیٰ کے نظام قدرت کو تباہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی-  لہٰذا برائی تو اس رویے میں ہے جو الله سبحانہ و تعالیٰ کے نظام قدرت کو برباد کرتا ہے-  اور معاشی ذرائع کو خصوصا معاشرے میں بدامنی، غربت، جہالت اور کفر پھیلانے کے لئے استعمال کرتا ہے-  

سوره طہ کی ایک سو چوبیس آیہ میں الله سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ 
"اور جو کوئی میری یاد سے رو گردانی کرتا ہے 
اس زندگی تنگ کردی جاتی ہے..."

آج دنیا کے زیادہ ترمعاشروں میں ظلم، کفر، جہالت، غربت، بدامنی کا دور دورہ ہے-  انسان زیادہ سے زیادہ کے حصول میں ہر وہ چیز کھو بیٹھا ہے جس کی وہ تمنا کرتا ہے-  ذہنی اور نفسیاتی حالت یہ ہوگئی ہے کہ اکثریت کو یہ سوچنے کا وقت ہی نہیں کہ انکے ساتھ کیا ہوگیا، کیا ہورہا ہے اور کیا ہونے جارہا ہے-  لوگوں سے اگر یہ پوچھا جاۓ کہ آپکو روزگار کی تلاش کیوں ہے تو شاید انکو اس کا بھی صحیح جواب نہ پتہ ہو- زیادہ سے زیادہ تعداد اور مقدار میں مصنوعات,  برانڈز اور اشیاء بنانے کے لئے بے دریغ قدرتی وسائل کا استعمال، پھر انکو زیادہ سے زیادہ تعداد اور مقدار میں بیچنے کے لئے مختلف طریقے اختیار کرنا-  لوگوں کو دنیا و ما فیھا سے بے خبر کر کے صرف اور صرف خریدار اور بیوپاری بنادینا- اور پھر جو بچ جاۓ اسے ضائع کردینا-  کیا اسی کا نام معیشت ہے؟  اتنی بے جا اسراف کے ساتھ کیا کبھی کسی معیشت کو قائم رکھا جا سکتا ہے؟  کبھی کسی معاشرے میں خوشحالی آسکتی ہے؟  

معیشت کا سب سے بہترین نظام رسول الله صلی الله علیہ وسلّم نے آج سے چودہ سو سال پہلے قائم کر کے دکھایا-  اور وہ بھی صرف تئیس سال کے عرصے میں-  سود کے بغیر-  قرضوں کے بغیر-  کسی حرص اور لالچ کے بغیر-  کسی استحصال کے بغیر-  فحاشی و عریانی کے بغیر-  کسی غیر اخلاقی اور غیر قانونی ذرائع کے بغیر-  حلال اور پاکیزہ روزگار کے مواقع فراہم کرنے والا معاشی اور سیاسی نظام-     

Saturday 30 September 2017

کرپشن سے پاک پاکستان


اور بے شک ہر امّت میں سے ہم نے ایک رسول بھیجا- (یہ کہتا ہوا) کہ ایک الله کی عبادت کرو اور کنارہ کش ہو جاؤ تمام جھوٹے ممبودوں سے- تو ان میں سے کچھ کو الله نے ہدایت دی اور کچھ پر گمراہی ٹھیک اتری- تو زمین میں چل پھر کر دیکھو کیسا انجام ہوا جھٹلانے والوں کا
(سوره النحل، آیات ٣٦)

آج سے ١٤٣٩ سال پہلے عرب کا معاشرہ بھی اخلاقی اور قانونی جرائم سے بھر پور تھا-  حضرت جعفر طیّار نے جب نجاشی کے دربار میں تقریر کی تو اپنے معاشرے کی برائیاں بیان کرنے کے بعد کہا کہ 

کہ پھر الله نے ہم میں سے ایک شخص اٹھایا جس کی سچائی، ایمانداری 
اور پاکیزگی کے ہم گواہ تھے- اور اس نے ہمیں الله کی وحدانیت کا درس دیا 
ہمیں الله کے ساتھ شریک بنانے سے منع کیا اور بتوں کی پوجا کرنے روکا  

ایمان مفصّل کے سات ارکان ہیں 
میں ایمان رکھتا/رکھتی ہوں الله پر، اسکے فرشتوں پر، اسکی کتابوں پر 
اسکے رسولوں پر، اور آخرت کے دن پر، اور اس بات پر کہ مقدّر کی 
اچھائی اور برائی الله کی طرف سے ہے، اور مر کر اٹھائے جانے پر 

پہلا کام جو رسول الله صلی الله علیہ وسلّم نے کیا وہ تھا ہی یہی کہ انسان اپنے سچے معبود کو پہچان لے- اپنی زندگی اور موت، اپنے رکوع اور سجدوں، اپنے فائدے اور نقصان اور تقدیر کے تمام معاملات کے لئے الله ساتھ تعلق جوڑ لے-   جس انسان کا تعلق الله تعالیٰ سے قائم ہو جاتا ہے تو اسے اپنے ذاتی فائدے اور نقصان سے زیادہ اس نظام کو بچانے کی فکر جو جاتی ہے جو تمام انسانوں کے لئے فلاح و نجات کا باعث بنے-  سچے معبود اور جھوٹے معبودوں کے درمیان فرق صرف عقیدے کی بنیاد پر ہی نہیں بلکہ عقل اور سائنس کی بناء پر بھی ثابت کیا جا سکتا ہے جیسے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کیا 

بھلا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو اس (غرور کے) سبب سے کہ 
خدا نے اس کو سلطنت بخشی تھی ابراہیم سے پروردگار کے بارے میں 
جھگڑنے لگا۔ جب ابراہیم نے کہا میرا پروردگار تو وہ ہے جو جلاتا اور 
مارتا ہے۔ وہ بولا کہ جلا اور مار تو میں بھی سکتا ہوں۔ ابراہیم نے کہا کہ 
خدا تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تم اسے مغرب سے نکال کر 
دکھادو(یہ سن کر) کافر حیران رہ گیا اور 
خدا بےانصافوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا 
سوره البقرہ، آیة ٢٥٨ 

ایک عام انسان دوراندیش نہیں ہوتا- اس کی عقل صرف طاقت اور قوّت کے مظاہرے اور فائدے اور نقصان کی بنیاد پر ہی کسی کو خود سے برتر تسلیم کرتی ہے-  چاہیے وہ خاندان میں کسی کو امین ماننے کی بات ہو یا کسی قبیلے میں کسی کو سردار ماننے کا مسلہ ہو یا قوم میں کسی کو رہنما تسلیم کرنے کا معاملہ ہو یا مذہب میں خدا کے وجود کا تصوّر- الله تعالیٰ بھی جب زلزلوں اور طوفانوں کی صورت میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں تو سب اپنے صدروں، وزیراعظموں، سرداروں، چودھریوں، وڈیروں اور علماء اور انکے بناۓ ہوۓ نظاموں کو چھوڑ کر اپنی اپنی عبادت گاہوں کر رخ کرتے ہیں- اسی لئے رسول الله صلی الله علیہ وسلّم نے جس نکتہ پر سب سے زیادہ کام کیا وہ تھا ہی یہی لا الہ الّا اللہ

سوره النّاس میں بیان ہوتا ہے کہ 
میں پناہ مانگتا ہوں انسانوں کے رب کی 
انسانوں کے بادشاہ کی، انسانوں کے معبود کی  
یعنی سائیں بھی الله، بادشاہ بھی الله اورعبادت کے لائق بھی الله 

پاکستان میں سیاست دانوں نے جو جمہوری تماشہ لگایا ہوا ہے وہ بھی فرعون، نمرود، شدّاد  اور یزید کے نظریات کا ہی تسلسل ہے - ان سیاست دانوں کا ساتھ دینے والے تاجر، وکیل، صحافی، ججز، ڈاکٹرز، انجینئرز، استاتذہ، اداکار، گلوکار، مصنّف، شاعر،  پولیس، سردار،وڈیرے، چودھری اور علماء وہ مہرے ہیں جو ان سیاست دانوں کو جھوٹا معبود ثابت کرنے میں مدد دیتے ہیں-  کہ یہی ہے جو تمھارے رزق پر قادر ہے اور تمہیں روٹی، کپڑا اور مکان دلا سکتا ہے- یہی ہے عزت و ذلّت کا مالک جو تمہیں دنیا میں ترقی دے سکتا ہے- یہی ہے وہ عالم جو تمہیں جہنّم سے نجات دلوا سکتا ہے اور جنّت میں داخل کرواسکتا ہے- کیونکہ جو لوٹ مار ان سیاسی اور دینی بادشاہوں نے مچائی ہوتی ہے اس میں سے انھیں بھی حصّہ ملتا ہے- کچھ نہ کرنے کی صلاحیت یعنی نا اہل ہونے کے باوجود یہ سیاست دان اور علماء سب کچھ کرنے کے دعوے کرتے ہیں اور یہ مہرے ان کا سہارا بنتے ہیں-  کبھی حزب اقتدار بن کر اور کبھی حزب اختلاف بن کر- یہ سیاست دان فرعون، نمرود اور شدّاد کی طرح صرف اپنی سیاسی بادشاہت بچانے کی فکر میں ہوتے ہیں-  انہی کی طرح بے حس اور بے غیرت بن کر عوام کے ٹیکس پر شاہانہ زندگی گزارتے ہیں اور انہی کی طرح اس سیاسی بادشاہت کو اپنی نسلوں اور خاندانوں تک محدود رکھتے ہیں-  اور یہ سارے کے سارے وہی جھٹلانے والے لوگ ہیں جن کا ذکر قرآن میں بار بار آیا ہے- کہ وہ عقل پکڑیں اور سدھر جائیں- لیکن جیسے کہ حضرت علّامہ اقبال رحمة الله علیہ نے فرمایا کہ 
نہ ہو طبیعت ہی جن کی قابل وہ تربیت سے نہیں سنورتے 
ہوا نہ سرسبز رہ کے پانی میں عکس سرو کنار جو کا 

کیا فرق ہے نواز شریف، زرداری، الطاف حسین، مغل بادشاہوں، فرعون، نمرود، شدّاد اور یزید میں؟  نام اور زمانہ بدلنے سے کردار نہیں بدل جاتے اور نہ ہی انکے انجام-  ہر فرعون اور نمرود اور یزید کے کردار والے  شخص کے مقابلے پر کوئی نہ کوئی موسیٰ اور ابراہیم اور حسین کے کردار والا شخص موجود ہوتا ہے-   یہ دو قومی نظریہ کرداروں کی شکل میں ہمیشہ سے ہے اور رہے گا کیونکہ یہی تو اعمال کو اور نیّتوں کو پرکھنے کا پیمانہ ہے-  فرق یہ ہے کہ یہ جھوٹے خدا اور انکو سہارا دینے والے آج بھی اتنے اہل ہیں کہ ساری کی ساری قوم کی توجہ اور وسائل اپنے اوپر ضائع کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کیوں کہ انکو کام ہی یہ دیا گیا ہوتا ہے کہ اپنی اور قوم وقت اور وسائل کسی طرح بھی ضائع کرنا ہیں اورانکی تربیت بھی یہی کی جاتی ہے- کیونکہ اسی طرح کسی بھی ملک کی عوام کو غافل کروا کر ہی تو اسلام دشمن طاقتیں اپنے عزائم پورے کرتی ہیں

جس معاشرے میں عوام اپنے رب کو بھول کر اپنے فائدے اور نقصان کے لئے اپنے ہی جیسے انسانوں کی طرف رجوع کرے تو وہاں کے حالات ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے آج پاکستان کے ہیں-  لوگ کسی ایک انسان کو جھوٹا معبود بنا کر اسی کی حفاظت میں لگ جاتے ہیں جیسے عرب کے لوگ اپنے بتوں کی حفاظت خود کیا کرتے- جس طرح سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کی قوم کو معلوم تھا کہ یہ بت کسی فائدے یا نقصان پر قدرت نہیں رکھتے بلکہ یہ بت انہوں نے خود تراشے ہیں اور خود انکی کم عقلی کی وجہ سے پتھر سے خدا بن گئے ہیں- اسی طرح پاکستان کی عوام کو بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ نواز شریف، زرداری، الطاف حسین اور ان جیسے کتنے ہی جھوٹے خدا کسی چیز پر ذرّہ برابر قدرت نہیں رکھتے اور کسی فائدے اور نقصان کے مالک نہیں- اور نواز شریف، زرداری، الطاف حسین جیسے کردار انہوں نے خود منتخب کئے ہوتے ہیں  اور خود عوام کی اپنی غفلت اور جہالت کی وجہ سے عام آدمی سے خاص بن گئے ہیں-  یہ تو خود عوام کی دولت سے اپنی جان کی حفاظت کے لئے  بلٹ پروف گاڑیاں خریدتے ہیں اور قوم کے محافظوں کو اپنے خاندان کا چوکیدار بنا دیتے ہیں- عوام کے بھکاری عوام کو کیا دے سکتے ہیں 

رسول الله صلی الله علیہ وسلّم نے بت تراش کرعوام کو نہیں دیئے بلکہ کردار تراشے- اور سخت ترین حالات میں بھی علی اور ابوبکر اور عمر اور عثمان اور بلال اور بیشمار اعلیٰ  اور بے مثال کردار دنیا کو عطا کے- اور ان کرداروں نے کسی شخصیت کو نہیں بلکہ ایک  نظام کو مظبوط کیا- کیونکہ انھیں صرف اپنی ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کی بھلائی منظور تھی اور یہی انسانیت کی فلاح و بہبود انکی زندگی کا مقصد تھا- کسی ادارے سے ڈگریاں نہ لینے کے باوجود انھیں یہ بات سمجھ آ گئی تھی کہ انسان تو باقی نہیں رہتا لیکن اس کا دیا ہوا نظام پیچھے آنے والے انسانوں کی فلاح کا ضامن ہوتا ہے

گو کہ ان جھوٹے خداؤں کا انجام فرعون، شدّاد، نمرود اور یزید سے کچھ مختلف نہیں ہوگا جو عبرت اور ذلّت کا نشان بن چکے ہیں لیکن ان کے پاس یہ سب باتیں سوچنے کا وقت ہی نہیں ہے-  دوسری طرف عوام کے پاس بھی وقت نہیں کہ وہ یہ سمجھے کہ کہ نواز شریف، زرداری اور الطاف حسین جیسے جھوٹے خدا سورج کو مغرب سے نکال کر دکھانے میں ناکام ہو چکے ہیں اور اب اس سے پہلے کہ عوام ان سے ان کے وعدوں کا اور انکے فرائض منصبی کا حساب لینے کے لئے جاگے، یہ اپنے جھوٹے معبودوں کے ساتھ مل کر پہلے ہی عوام کے لئے آگ کا الاؤ تیّار کر چکے ہیں

آگ ہے اولاد ابراہیم ہے نمرود ہے 
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے؟  

الله تعالیٰ پاکستان کی زمین کو، پاکستان کی ہواؤں کو، پاکستان کے پانیوں کو، ایک لمبے عرصے کے لئے سمجھدار، مخلص، صادق و امین قیادتیں اور رہنما عطا فرمائے اور  پاکستانی عوام کو ایسے لیڈرز کو پہچاننے کی اور انکی قدر کرنے کی اور انکی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے- آمین