حال ہی میں اسرائیل کے وزیر صحت کا بیان اس بات کی شہادت دینے کے لئے کافی ہے کہ یہودی اپنی تاریخ نہیں بھولے- اور نہ اپنا مقصد- انکے پاس کوئی پیغبر اور رسول آنے والا نہیں لہٰذا ایک جعلی مسیح کی تیّاری کر لی گئی ہے-
دنیا پر حکومت کرنے کا خواب بہت سے انسان صدیوں سے دیکھتے چلے آۓ ہیں-
کبھی طاقت کے ذریعے، کبھی دولت اور معیشت کے ذریعے اور کبھی شہرت کے ذریعے، کبھی علم اور سائنس کے ذریعے-
لیکن ابھی تک کوئی بھی مکمّل کامیابی حاصل نہیں کرسکا-
یہودی دو ہزار سال تک دنیا کے امام رہے- لیکن وہ رسولوں اور پیغمبروں کے ذریعے سے- محمّد صلی اللہ علیہ وسلّم کی بعثت کے بعد سے یہ مقام ان سے چھن گیا اور یہ امامت محمّد صلی اللہ علیہ وسلّم کے ماننے والوں کے پاس آگئی- جو کہ یہودیوں سے برداشت نہ ہوا-
اور پھر جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم خاتم النّبیین بنے- اس وقت سے دنیا کے مسائل کی جڑ یہی مسلہ بنا ہوا ہے-
یہودیوں کو اپنی دنیا کی امامت اور دنیا میں عزت واپس چاہئے اور وہ پچھلے چودہ سو سال سے اس کے لئے سر دھڑ کی بازی لگاۓ ہوۓ ہیں- انہوں نے اپنا کھویا ہوا منصب واپس لینے کے لئے ہمّت نہیں ہاری- اور سیاسی، معاشرتی، قانونی، غرض یہ کہ ہر محاذ پر مسلمانوں کے مقابلہ کیا ہے- اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ مسلمانوں کو تقسیم کروانے میں کامیاب رہے-
باقی سب تو طاقت اور معاشی استحصال کے ذریعے سے اپنی کوششیں کرتے رہتے ہیں- لیکن دنیا پر ایک حکومت کے ویژن کا مقابلہ نظریاتی طور پر صرف مسلمان اور یہودیوں میں ہے-
اور صاف ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی جو حالت زار ہے کسی بھی معیار کو سامنے رکھ کر- یہ کبھی خود تو دنیا پر ایک حکومت قائم کر ہی نہیں سکتے- دماغ پر زور دیے بغیر ہی سوچیں کہ پاکستان پر کسی دینی طبقے کی حکومت ممکن ہے؟ بچّہ بھی کہے گا کہ نہیں- اتنے فرقے پاکستان میں ایک حکومت نہیں بنا سکتے تو بھلا دنیا پر اسلام کی ایک حکومت کیسے قائم کر سکتے ہیں-
یہ کام غیر مسلموں کو آتا ہے کیونکہ انکے ہاں تیّاری کی جاتی ہے تربیت کی جاتی ہے اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفاد پر قربان کرنے کی-
جبکہ مسلمان فرقے قومی مفادات تو کیا اسلامی مفاد پر بھی اپنے ذاتی مفادات قربان نہیں کر سکتے-
لہٰذا دجال کی حکومت پوری دنیا پر قائم ہونا کوئی انہونی بات نہیں- اور خاص طور پر جب رسول اللہ صلی علیہ وسلّم نے اسکی پیشنگوئی بھی کردی ہے- جو کہ ایک سال، ایک مہینے، ایک ہفتے اور ایک دن رہے گی-
شاید کرونا وائرس کی طرح اسکا مقصد بھی دنیا کے لوگوں کو ایک مسلہ اور اسکے ایک حل کی تربیت کروانا ہوگی- کہ ساری دنیا کو ایک ہی مسلہ در پیش ہو چاہے وہ بھوک ہو، بیماری ہو، جہالت ہو، خوف ہو یا غلامی- حل کے لئے سب نے ایک ہی مرکز کی طرف دیکھنا ہے- اجتماعی طور پر-
کاش مسلمان ذاتی مفادات کو قومی مفاد پر قربان کرنا جانتے ہوتے تو دجال کے زمانے سے نہ گزرنا پڑتا شاید-
لیکن سب مسلمانوں نے اپنے اپنے فرقے، ذاتیں، ادارے، مدرسے، عبادتگاہیں پکڑی ہوئی ہیں-
مرکز کی تربیت کسی کی نہیں ہے-
مرکز کو تو سب ایمرجنسی میں احسان کے طور پر فنڈز دے دیتے ہیں-
مرکز کو یہ احساس دلاتے ہوۓ کہ مرکز بھکاری ہے-
اور اس بات سے صاف نظریں چراتے ہوۓ کہ "مرکز بھکاری ہے کس کی وجہ سے؟"-