Saturday 30 June 2018

الله کو اچھا قرض

اِنۡ تُقۡرِضُوا اللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنًا يُّضٰعِفۡهُ لَـكُمۡ وَيَغۡفِرۡ لَـكُمۡ​ؕ وَاللّٰهُ شَكُوۡرٌ حَلِيۡمٌۙ- 

"اگر تم الله کو قرض دو گے- تو وہ اسے بڑھا دے گا کئی گنا تمھارے لئے-  
اور تمہیں معاف کر دیگا-  اور الله قدر کرنے والا حلم والا ہے-" 
سوره التغابن 

مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً ۚ 
وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ- 

"کون ہے جو الله کو اچھا قرض دے تو وہ اسے کئی گنا بڑھا دے- 
اور الله ہی تنگی اور کشائش کرتا ہے- اور تم اسی کی  طرف لوٹاۓ جاؤ گے-"
سوره البقرہ 

وَقَالَ اللّٰهُ اِنِّىۡ مَعَكُمۡ​ؕ لَـئِنۡ اَقَمۡتُمُ الصَّلٰوةَ وَاٰتَيۡتُمُ الزَّكٰوةَ وَاٰمَنۡتُمۡ بِرُسُلِىۡ
 وَعَزَّرۡتُمُوۡهُمۡ وَاَقۡرَضۡتُمُ اللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنًا لَّاُكَفِّرَنَّ عَنۡكُمۡ سَيِّاٰتِكُمۡ 
وَلَاُدۡخِلَـنَّكُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ​ۚ 
فَمَنۡ كَفَرَ بَعۡدَ ذٰ لِكَ مِنۡكُمۡ فَقَدۡ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِيۡلِ‏- 

"اور الله نے فرمایا بے شک میں تمھارے ساتھ ہوں-  
اگر تم نماز قائم رکھو اور زکواة دو اور اور میرے رسولوں پر ایمان لاؤ 
اور انکی تعظیم کرو اور الله کو اچھا قرض دو- تو میں تمھارے گناہ اتار دونگا 
اور تمہیں باغوں میں لے کے جاؤں گا جن کے نیچے نہریں رواں ہیں-
 پس اسکے بعد تم میں سے جو کوئی کفر کرے 
تو وہ ضرور سیدھی راہ سے بھٹکا-" 
سوره المائدہ

الله سبحانہ و تعالیٰ قادر مطلق ہے-  جس نے سب کچھ تخلیق کیا اسے قرض کی ضرورت نہیں-  یہ تو اعمال کا وہ اکاؤنٹ ہے جو ہر انسان کا الله سبحانہ و تعالیٰ کے پاس کھلا ہوا ہے-  اب چاہے وہ اس میں برائیاں جمع کرے یا اچھائیاں-  گناہ ذخیرہ کرے یا نیکیاں- جو بھی اکاؤنٹ میں جمع کیا ہوگا وہ آخرت میں واپس کردیا جاۓ گا-  عملوالصالحات اور بر اورعبادات وہ نیکیاں ہیں جو اچھا قرض ہیں اور جن کا کئی گنا بڑھا کر دینے کا وعدہ قرآن میں کیا گیا ہے-  برائیاں اور گناہ برا قرض ہیں لیکن انکے معاف کردینے، مٹا دینے کا وعدہ کیا گیا ہے-  

اِنَّ الۡحَسَنٰتِ يُذۡهِبۡنَ السَّيِّاٰتِ- 

"بے شک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں-"
سوره ہود

ایک صحابی حضرت ابو الدحداح نے جب قرض حسنہ کی آیت سنی تو حاضر خدمت ہوئے اور فرمایا کہ یارسول اللہ! کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض مانگتا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ہاں۔ وہ بولے اپنا دست مبارک مجھے دکھائیے۔ انہوں نے حضور کا ہاتھ پکڑا اورکہا کہ میں نے اپنا یہ باغ اللہ تعالیٰ کو قرض دیا۔ اس باغ میں کھجور کے چھ سو درخت تھے۔ ان کی بیوی اور بچے اسی میں رہائش پذیر تھے۔  انکی بیوی نے جب یہ سنا تو پکار اٹھیں۔ "اے دحداح کے باپ تم نے بڑا نفع والا سودا کیا ہے۔" 

اور ایسے ایک نہیں ہزاروں واقعات دور نبوی اور اسکے بعد کے ادوار سے پیش کئے جا سکتے ہیں-  جب لوگ اس آیت کی مثل ہوا کرتے تھے جسے اکثر مفسّرین قرآن حضرت علی اور حضرت فاطمہ کے واقعات سے منسلک کرتے ہیں

وَيُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسۡكِيۡنًا وَّيَتِيۡمًا وَّاَسِيۡرًا‏- 
اِنَّمَا نُطۡعِمُكُمۡ لِـوَجۡهِ اللّٰهِ لَا نُرِيۡدُ مِنۡكُمۡ جَزَآءً وَّلَا شُكُوۡرًا‏- 
اِنَّا نَخَافُ مِنۡ رَّبِّنَا يَوۡمًا عَبُوۡسًا قَمۡطَرِيۡرًا- 

"اور وہ کھلاتے ہیں کھانا اس (الله) کی محبّت میں مسکین، یتیم اور اسیر کو-
اور ان سے کہتے ہیں کہ ہم تمہیں خاص الله کے لئے کھلاتے ہیں 
اور تم سے کوئی بدلہ یا شکر گزاری نہیں مانگتے-  
بے شک ہمیں اپنے رب سے ایک ایسے دن کا خوف ہے 
جو بہت ترش نہایت سخت ہے-" 
سوره الدھر

عملو الصالحات کیا ہیں؟ ہر اچھا عمل- 

اور بر کیا ہے؟ وہ نیکی یا اچھا عمل جو اپنی محبوب ترین شئی الله کی راہ میں خرچ کرنے سے مشروط ہے-  بر کا ترجمہ "تقویٰ" سے کیا جاتا ہے- 

لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰى تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ - 

"اور تم ہرگزنہیں پہنچ سکتے تقویٰ کو- جب تک کہ 
خرچ نہ کرو ان میں سے  جو تمہیں محبوب ترین ہیں-"
سوره آل عمران

مسلمانوں کی اکثریت جس میں دین کے دعویدار بھی شامل ہیں شاید اب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو قرض دینے پر یقین بھی نہیں رکھتی- اسی لئے ہرکام کی طرح نیکیوں اور عبادتوں میں بھی کیش کا کاروبار کرنے لگے ہیں-  یہاں تک کہ اپنےغم، اپنا صبر، اپنی تکالیف، اپنی دوستیاں، اپنی رشتہ داریاں، اپنے تعلقات- ہرعملوالصالحات اور ہر بر اورہرعبادت کا بدلہ دنیا میں اور وہ بھی فورا وصول کرنا چاہتے ہیں بلکہ کر لیتے ہیں-   یہ دیکھ کر لگتا ہے کہ مسلمانوں کو اب نہ آخرت پریقین رہا ہے نہ آنے والے وقت پر-  اگر تمام کی تمام نیکیاں اور عبادتیں دنیا میں ہی کیش کروالیں گے تو آخرت میں کیا بچے گا جس کا بدلہ دیا جاۓ- 

اور اس نیکیوں اور عبادتوں کا کیش کاروبار نے معاشرے کا بیڑہ غرق کردیا ہے-  کیونکہ جب انسان اس قسم کے رویے میں مبتلا ہو جاۓ تو پھر وہ صرف اپنا فائدہ سوچتا ہے-  میں تکلیف اٹھائی تو صرف مجھے اسکا بدلہ ملے-  میں نے ساری محنت کی تو پھل بھی میں ہی کھاؤں-  میں نے سارے اقدامات کئے تو میری تعریف ہو- مجھے سراہا جاۓ-  جبکہ رسول الله صلی الله علیہ وسلّم کی تربیت تھی کہ صرف اور صرف الله کی رضا کے لئے کام کیا جاۓ اور وقت اصل مقاصد کے حصول میں لگایا جاۓ-  

اسلام میں ہر وہ کام بھی عبادت کا درجہ پا لیتا ہے جو الله کی رضا کی نیّت سے اس کے بندوں کی بھلائی کے لئے کیا جاۓ-  کیونکہ سیاست  ایک ملک شہریوں یا علاقے کے باسیوں کی فلاح و بہبود اور جان و مال کی حفاظت کے نظام چلانے کو کہتے ہیں-  اسی اسلام میں سیاست بھی عبادت ہے- 

لیکن یہ بات کم از کم پاکستان کے لوگوں کو نہیں پتہ-  اسی لئے ان میں سے کچھ الیکشن کو ایک دنگل یا اکھاڑا سمجھ کر اپنے اپنے وار آزماتے ہیں اور عوام انکا تماشہ لگاتے ہیں-  عوام سیاست کی شرعی اہمیت اور سیاست دان اسکی ذمّہ داریوں سے ناواقف ہیں-  شاید اسکی ایک بڑی وجہ تو یہی ہے کہ یہاں سیاست  اصل اسلامی جمہوریت کے طریقے پر نہیں بلکہ مغربی انداز سے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے-  جس میں گدھے اور گھوڑے میں تمیز بھی باقی نہیں رہتی-  اسی رویے کی وجہ سے پاکستان میں سیاست کو برائی یا جرم سمجھا جاتا ہے جس میں صرف جرائم پیشہ لوگ حصّہ لے سکتے ہیں- 

عوام اپنے چھوٹے چھوٹے ذاتی اور علاقائی مفادات کو مدّ نظر رکھ کر ووٹ دیتی ہے یا پھر نہیں دیتی-  اور سیاست دان بڑے ممالک کے مفادات کے نتیجے میں حاصل ہونے والے اپنے ذاتی مفادات کو ذہن میں رکھ کر الیکشن لڑتے ہیں اور پارٹیوں کا الٹ پھیر کرتے ہیں-  کیونکہ سب کے مقاصد چھوٹے ہیں-  اسی لئے نقد پر کام کرتے ہیں-  کسی نے الله سبحانہ و تعالیٰ سے تجارت نہیں کی ہوئی نہ ہی اسے قرض دیا ہے-  انکو یہ نہیں معلوم کہ جنکے مقاصد بڑے ہوتے ہیں انکے پاس نقد لینے کا وقت نہیں ہوتا اس لئے وہ اپنی امانت الله تعالیٰ کے پاس رکھوا دیتے ہیں کہ آخرت میں وصول لیں گے منافع کے ساتھ-  اور پاکستانیوں کے لئے بڑا مقصد پاکستان ہونا چاہئے-  پارٹی ٹکٹ یا جیت نہیں- کیا ہے اگر لوگ نہ پہچانیں-  کیا یہ کافی نہیں کہ الله سبحانہ و تعالیٰ جانتے ہیں اور وہی بہترین قدر دان ہیں- 

Saturday 23 June 2018

بیماریاں اور بیمار معاشرہ

کچھ سالوں سے لوگوں کے گھروں میں عجیب عجیب بیماریوں کے پڑاؤ کی خبریں دکھائی جارہی ہیں-  لاکھوں کی تعداد میں لوگ نفسیاتی مریض ہیں-  ہزاروں کی تعداد میں ایسے کہ کسی کی اولادیں چل نہیں سکتیں حرکت نہیں کرسکتیں-  نہ ڈاکٹرز کے علاج کام آرہے ہیں-  نہ عاملوں کے دم-  نہ حکیمانہ نسخے-  بس علاج پر علاج کے لئے مسلسل چندہ-  اس ملک کے کونے کونے میں خیراتی ادارے یا فلاحی ادارے یا این جی اوز موجود ہیں جن میں سے کچھ بہت مشھور لوگوں کے ہیں اور کچھ عام لوگوں کے-  سب کے سب چندے پر-  اس ملک کی مسجدیں چندے پر-  پھر اس ملک کی سڑکوں پر لاکھوں کی تعداد میں مانگنے والے بھکاری-  پھر ہر سڑک کے کنارے گھر بساۓ ہوۓ خانہ بدوش جو مانگ کر گزارا کرتے ہیں-  پھر آۓ دن چینلز پر سینکڑوں ایسے ایسے بیماریوں کے کیسز دکھاۓ جاتے ہیں اور انکے لئے بھی لاکھوں کا چندہ مانگا جاتا ہے-  

آخر اس ملک کے کچھ لوگوں کے پاس کتنی دولت ہے جو یوں کڑوڑوں لوگوں میں بانٹ رہے ہیں اور اتنی کہ سیاست دان بھی ان کے ٹیکسز سے لوٹ کھسوٹ کر رہے ہیں؟  اور کب تک دیتے رہیں گے؟

اور اتنی سخاوت اور اتنے صدقہ و خیرات کے بعد بھی بیماریاں، مصیبتیں، بے چینیاں، مفلسی، بھوک، جہالت، گندگی، بد عنوانیاں، بیزاری، سپر پاورز کی دھمکیاں اس ملک کا نصیب ہیں-  کیوں؟  

سوچنے کی بات ہے کہ کہاں کہاں ہم نے الله سبحانہ و تعالیٰ کی خدائی کو اپنے ہاتھ میں لیکر اس سے زیادہ رحیم و کریم اور عقلمند ہونے کا گناہ کیا ہے اور مسلسل کئے جارہے ہیں-  اور اس کے رسول صلی الله علیہ و آلہ وسلّم جن کو رحمت اللعالمین کہا گیا ہے- کی تعلیمات سے بغاوت کی ہے-  

بہت سی نفسیاتی بیماریوں کا حل اتنا آسان ہوتا ہے کہ کوئی ان نفسیاتی مریضوں کی بات سن لے اور بس-  کیونکہ آجکل گھروں اور خاندانوں میں تو کوئی کسی کی بات نہیں سنتا-  امریکہ میں اکثر اس قسم کی پارٹ ٹائم جابس ہوتی ہیں جس میں کسی طالب علم کو ہفتے میں دو تین دن ایک دو گنتے کسی بوڑھے تنہا شخص کے ساتھ گزارنے ہوتے ہیں کہ وہ صرف انکی باتیں سنتا رہے-  تو اس قسم کے انتظامات تو یہاں بھی کئے جا سکتے ہیں اور یہ حکومت کا کام نہیں-  دینی لوگوں کو پڑھنے یعنی "اقراء" سے زیادہ سننے کی بہت عادت ہوتی ہے-  گھنٹوں گھنٹوں اپنے عالموں کی باتیں بیٹھ کر, جھوم جھوم کر سنتے رہتے ہیں-  وہ تو یہ جاب آسانی سے کر سکتے ہیں کیونکہ اس میں نہ دماغ لڑانا ہے نہ کسی مسلے کا حل پیش کرنا ہے-  بس صرف سننا ہے- 

بہت سی نفسیاتی، جسمانی اور روحانی بیماریوں کا علاج قرآنی سورتوں اور آیات سے ہو جاتا ہے کسی عامل یا عالم کے آستانے پر خوار ہوۓ بغیر-   اور دعا تو ہے ہی مومن کا سب سے بڑا ہتھیار-  رسولوں اور پیغمبروں تک نے دعائیں کی ہیں الله سے اپنے لئے ہر قسم کے حالات میں-  اور لوگوں کو بھی دعائیں دی ہیں-  تو یہ کام بھی دینی لوگ کر سکتے ہیں-  آمدنی کے لئے ہی سہی-  

بہت سے روحانی اور جسمانی علاج لیموں، لہسن، کلونجی، خوشبو یعنی پرفیوم، زعفران، بیری کے پتّوں، نیم کے پتّوں، زیتون کے تیل وغیرہ سے بھی ہو جاتے ہیں- 

ایک حدیث کے مطابق بیمار کی عیادت کرنا بیمار کا حق ہے-  لیکن کتنے لوگ ہمارے معاشرے میں یہ حق پورا کرتے ہیں-  اور تو اور مولانا طارق جمیل بھی جاتے ہیں تو نواز شریف کی بیگم کی عیادت کو-  ان بے چارے الله کے پیارے سے بھی یہ سنّت غریبوں کے لئے نہیں نبھائی جاتی کہ کبھی کبھی ہسپتالوں کے چکّر لگا کر مریضوں کے لئے دعائیں کرلیں-  یہ کام چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کر رہے ہیں حالانکہ انہوں نے کسی مدرسے سے بھی نہیں پڑھا-  حافظ قرآن بھی نہیں شاید- لیکن لوگوں کو ان سے امید ملتی ہے-  الله انہیں زندگی، صحت اور خوشیاں دے-  آمین 

کچھ معاشرے دنیا میں ایسے بھی ہیں-  جو زندگی کی ساری تگ و دو اس لئے کرتے ہیں کہ کسی طرح بیمار ہو جائیں یا کم از کم بیمار نظر آئیں-  اور اسکے بعد بیماری کا علاج بھی غیرمنطقی طریقے سے کرتے ہیں-  پاکستانی معاشرہ بھی اسی قسم کا معاشرہ ہے-  

گندگی اور کوڑا پھیلانے میں ایک دوسرے پر فخر کرنے والی یہ قوم جب روز مرّہ کی بیماریوں سے لے کر انتہائی عجیب و غریب بیماریوں میں مبتلا ہوتی ہے تو علاج کے لئے بھی ان ڈاکٹرز کے پاس جاتی ہے جو خود انکی ہی طرح انسانیت بیزار, جھوٹے اورغلیظ ہوتے ہیں-  جنکے کلینک اور ہسپتال بھی اتنے ہی گندے ہوتے ہیں جتنے کوئی اور جگہیں- 

اس معاشرے کو ایسے مسیحا کی ضرورت ہے جو انہیں یہ سمجھاۓ  کہ تمھاری اسّی فیصد بیماریوں کا علاج تمھارے اپنے جسم، اپنے گھر، اپنی گلیاں صاف ستھرا رکھنے میں ہے-  جسے تم نے  حکومت کے کھاتے میں ڈال دیا ہے-  کون سی حکومت صفائی رکھتی ہے جو چوبیس گھنٹے سڑکوں کی صفائیاں کرتے رہیں-  اور کون سی حکومتیں پارکوں کی نگرانی کے لئے پولیس والے تعینات کرتیں ہیں- یہ کام تو شہریوں کے ہیں اور انہیں کے ذریعے ایک ایک دو دو کڑوڑ نوکریاں پیدا کی جاتی ہیں-   صدر اور وزیر اعظم کے لئے تو اور بہت کام ہوتے ہیں-  

حکومت کو ذمّہ دار ٹہرانے سے پہلے عوام اپنے گریبان میں جھانکیں کہ وہ خود اپنے اور اپنے بچوں کی صحت کے لئے کیا کرتے ہیں-  

آدھی سے زیادہ نفسیاتی اور جسمانی اور روحانی بیماریاں ختم ہو جائیں اگر لوگوں کو یہ احساس ہوجانے کہ ان سے آخرت میں ماحول کی صفائی اور پاکی اور ماحولیات کے تحفّظ کا بھی حساب لیا جاۓ گا-  اگر لوگوں کو یہ سمجھ آجانے کہ فائدہ صرف لوگوں کو خیرات کے بکرے کھلانے کے پیسے جمع کرنے اور خرچ کرنے سے نہیں ہوتا-  ماحول کی صفائی اور پاکی اور ماحولیات کے تحفّظ کی سوچ بھی عبادت ہے-  اس پر خرچ کرنا بھی عبادت ہیے- یہ سب بھی صدقات و خیرات میں آتا ہے-  بلکہ صدقہ جاریہ ہے- کیونکہ اس سے خلق خدا کو ایک لمبے عرصے تک فائدہ ہوتا ہے-  لیکن یہ باتیں کسی دینی شخص کو تو سمجھ ہی نہیں آ کر دینگی-  ڈگری یافتہ کے نصاب میں یہ تعلیم نہیں ہوتی-  سیاست دانوں کو اس سے غرض نہیں کہ قوم کے لئے کیا فائدہ مند ہے اور کیا نہیں- یہ کام صرف اور صرف عوام میں سے وہ لوگ کر سکتے ہیں جنہیں الله کے سامنے کھڑے ہونے کا اور جواب دینے کا خوف ہے کہ اپنی زندگی کس طرح گزاری- اپنا وقت کن کاموں میں صرف کیا-  

آدھی سے زیادہ نفسیاتی اور جسمانی اور روحانی بیماریاں ختم ہو جائیں- 

١) اگر گھر اور محلّے صاف ہو جائیں- 

٢) اگر سبزیوں اور پھلوں کے چھلکے اور باقیات مویشیوں کو کھلا دئیے جائیں-  

٣) اگر مویشیوں کو بیچ شہر میں رکھنے کے بجاۓ انکے لئے گنجان شہری 
علاقوں سے ہٹ کر جگہیں مختص کی جائیں- 

٤) اگر لوگ اس وقت کوڑا باہر رکھیں جب کوڑا اٹھانے والے کے آنے کا وقت ہو-  

٥) اگر پان گٹکے پر پابندی لگا دی جاۓ-  اور جگہ جگہ تھوکا نہ جاۓ- 

٦) اگر علاج کے لئے قدرتی طریقے استعمال کیا جاۓ- 

٧) اگر لوگ علاج کروانے سے پہلے ڈاکٹرز کی ڈگری کی چھان بین کر لئے کریں- 

٩) اگر لوگ وقت پر سونے اور وقت پر جاگنے کی عادت ڈال لیں- 

١٠) اگر متوازن غذا کی عادت ڈال لیں- بہت سی سبزیاں جیسے کہ ادرک، لہسن، مرچیں، لیموں، پودینہ، ہرا دھنیا، ٹماٹر اور مصالحہ جات تو گھروں میں ہی اگاۓ جاسکتے ہیں اور اسطرح بچت بھی کی جاسکتی ہے اور پودوں کی کم بھی پوری ہو سکتی ہے-  

١١) اگر لوگ جگہ جگہ پھول پودے لگا کر شہرکوخوبصورت بنا دیں-  

١٢) اگر پبلک پارکس کی لوگ خود حفاظت کریں اور وہاں صفائی رکھیں-  

١٣) اگر ٹریفک قوانین کی پابندی کریں تاکہ حادثات کم ہوں-  

١٤) اگر مزدور ماسکس پہن کر کام کریں تاکہ دھول مٹی سے انکے پھیپھڑے اور گردے خراب نہ ہوں-  

١٥) اگر ٹھیلوں پر سامان اور روٹی کی دکان پر آٹا اور پکوڑوں اور سموسوں کی دکان پر پکوڑے اور سموسے ڈھکے ہوۓ ہوں تاکہ مکّھیوں سے بچے رہیں-   

١٦) اگر لوگ فالتو باتیں سوچنے کے بجاۓ کام کی باتیں سوچنا شروع کردیں-  اور بلاوجہ جگت بازیوں، جملے بازیوں کے بجاۓ اچھے الفاظ، وظائف اور دعاؤں کی عادت ڈال لیں- 

١٧) اگر لوگ خواتین کے احترام میں نظریں جھکا کر رکھیں-

١٩) اگر بچوں سے مسکرا کر بات کریں اور ان کی بھی عزت کریں-  کافی سال پہلے محلّوں میں کوئی نیاز وغیرہ ہوتی یا دعا یا منّت کا موقع ہوتا تو بچوں میں شرینی بانٹتے تھے کہ بچوں کے خوش ہونے سے دعا قبول ہوتی ہے- 

٢٠) اگر صبح اٹھ کر ایک دو گلاس پانی پی لیں-  ٹھنڈا پانی پینے سے گریز کریں-  اور پرندوں اور جانوروں کے لئے پانی کا انتظام رکھیں-  


Monday 4 June 2018

عالم بننے کا سلیقہ

تمام بشر نوع میں بہترین عالم انبیاء و رسل علیھم السلام ہیں-  انسانوں میں ان سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں-  

الله سبحانہ و تعالیٰ کو تو ہمیشہ سے معلوم تھا کہ اپنی قوم میں پیدا کئے جانے والے یہ بچے بڑے ہو کر نبی اور رسول بنیں گے-  لیکن ان بچوں کو یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ بڑے ہو کر کیا بنیں گے اور کس وقت ان کے پاس حضرت جبرائیل رب کا پیغام لے آئیں گے اور کب ان پر وحی کا نزول ہوگا-  ہر نبی اور رسول کو آزمائشوں سے گزارا گیا-  کسی کے والدین چھین لئے تو کسی سے صحت-  کسی کو مچھلی کے پیٹ میں ڈال دیا کسی کو کنویں میں اور قید میں-  کسی کا سر کاٹا گیا تو کس کو سولی پر لٹکایا گیا-  کسی کو آگ میں ڈلوایا تو کسی کو صحرا میں تنہا ماں کے ساتھ چھوڑ دیا-  کوئی غار میں پل کر بڑا ہوا تو کسی نے طور پر جاکر رب سے کلام کیا-  کسی سے گاۓ کا معجزہ تو کسی سے اونٹنی کا-  کوئی سورج اور چاند ستاروں سے رب کو پہچان رہا ہے-  کوئی دریا کو پھاڑ کر الله کی طاقت کا یقین دلا رہا ہے-  کوئی ہاتھ سے لوہا پگھلا رہا ہے تو کوئی پرندوں اور جانوروں سے گفتگو فرما رہا ہے-  کیونکہ انہوں نے ایک عظیم انسان بننا تھا-  رحمت بننا تھا-  عقلمند بننا تھا-  عالم بننا تھا-  عادل بننا تھا-  رہنما بننا تھا-  ہادی بننا تھا-  لیڈر بننا تھا-  نظام دینے والا بننا تھا-  رول ماڈل بننا تھا- 

اسی طرح ان انبیاء کرام پر کبھی یہ ذمّہ داری نہیں  ڈالی گئی کہ وہ الله کے دین کو بچائیں گے-  ان کو کام دیا گیا وہ الله کے پیغام کو پھیلانا تھا-  انسانوں کا انکے رب سے تعلق جوڑنا تھا جو کہ کسی نہ کسی طور ٹوٹ جاتا ہے-  انسانوں کو یہ بتانا تھا کہ الله کن باتوں سے راضی ہوتا ہے اور کن باتوں سے ناراض-  اور یہ کہ کس طرح اس زمین پر انسانوں کی بھلائی کے لئے الله کی مرضی کا نظام نافذ کر کے دکھایا جا سکتا ہے-  اور کس طرح انسان خود کو آخرت میں الله سبحانہ و تعالیٰ کی ناراضگی سے بچا سکتے ہیں-  اور بار بار انبیاء اور رسل کو یہ یاد دہانی کرائی جاتی تھی کہ آپ الله کی حفاظت میں ہیں-  دین خالص ہے اور الله کی حفاظت میں ہے-  آپ تو بس اپنا کام کریں- 

"اور الله کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو-  اور اگر تم منہ پھیرو گے 
تو یاد رکھو ہمارے رسول کے ذمّہ تو صریح پہنچانا (پیغام کا) ہے-" 
 سورہ التغابن 

پورے قرآن میں انبیاء و رسل کے علاوہ ایک اور ہستی ہیں جو نہ نبی نہ رسول لیکن پھر بھی قرآن کی ایک صورت انکی تعظیم کی گواہی دیتی ہے-  یعنی کہ حضرت لقمان-  انہوں نے حکمت کو اپنے لئے پسند فرمایا-  اور انہوں نے جو اپنے بیٹے کو نصیحت کی وہ بھی قرآن میں بیان کی گئی ہے-  

اور بے شک ہم نے لقمان کو حکمت عطا فرمائی-  کہ اللہ کا شکر کر-  
اور جو کوئی شکر کرے تو اپنے بھلے کو شکر کرتا ہے-  
اور جو کوئی ناشکری کرے تو بیشک الله بے پرواہ ہے تمام تر خوبیوں والا-  
سورہ لقمان 

لیکن خاتم النبین اور ختم الرسل محمّد مصطفیٰ صلی الله علیہ و آلہ وسلّم کے بعد نبوّت اور رسالت کا سلسلہ تو ختم ہو گیا-  لیکن علم اور ہدایت کا سلسلہ جاری ہے اور رہے گا کیونکہ علم ہی اخلاص کے ساتھ ملکر اصل میں ہدایت کا ذریعہ بنتا ہے-

پچھلی کی صدیوں سے مسلمان دنیا میں علم کا حصول مذاق بنا لیا گیا ہے اور عالم بننا ایک کھیل-  علم اور عالم دونوں ڈگریوں اور سندوں کے محتاج ہو گۓ ہیں-  پیدائش سے عالم بننے تک کا سفر مدرسے یا اسکول کی چار دیواری میں بیٹھے بیٹھے لوگوں سے ملنے والے چندے سے پکنے والے کھانے کو کھا کھا کر طے کرلیا جاتا ہے-  کس قدر پھیکی، بے ذوق، بے رنگ زندگی ہے ان لوگوں کی جنہیں عالموں کے خطاب سے نوازا جاتا ہے-  کس قدر بیزار نظر آتے ہیں یہ اپنے رب کی قدرتوں سے-  نہ کسی پہاڑ پر چڑھتے ہیں-  نہ سمندر اور دریا میں غوطے لگاتے ہیں-  نہ صحراؤں کی خاک چھانتے ہیں نہ جنگلوں میں بسیرا کرتے ہیں-  نہ پھول اگاتے ہیں نہ درخت لگاتے ہیں-  نہ جانوروں سے دل لگاتے ہیں نہ پرندوں سے لطف اٹھاتے ہیں-   دوسروں کی دنیا تو کیا بدلیں گے خود اپنی دنیا سے بے خبر عالم-وہ تمام کوششیں جو انسان کے زندہ ہونے کا ثبوت دیتی ہیں ان سب کوششوں سے بے خبر دو روٹی، مٹھی بھر چاول اور دو جوڑے کپڑے پر مطمئن چادر لپیٹ کو سو جانے والے عالم- 

اور مزے کی بات کہ زندگی کی کوئی لائف اسکلز نہ ہوتے ہوۓ بھی جس پر کہ انسان نااہل قرار پا جاتا ہے-  یہ خود کو دین کا محافظ سمجھنے لگ جاتے ہیں-  انبیاء کا محافظ سمجھنے لگ جاتے ہیں-  قرآن کا محافظ سمجھنے لگ جاتے ہیں-  کیا یہ انبیاء اور رسولوں سے بھی بڑھ گۓ ہیں-  اور جو اصل ذمّہ داری دی گئی ہے اسے سے غافل ہیں-  ارے قرآن اور دین تو خود انکی حفاظت کرنے کے لئے ہے تاکہ یہ اپنی ذمّہ داریاں پوری کریں-  الله کے بجاۓ اپنے اپنے علماء کے پیغامبر بن جاتے ہیں-  
  
یہ تو خیر بے ضرر بے کار عالموں کا قصّہ ہے-  ایک بدتر قسم بھی ہے جو کہ شاید سب سے زیادہ پاکستان میں پائی جاتی ہے-  وہ ہے مفاد پرست عالموں کی جن کی زبان ایک نہیں، چہرہ ایک نہیں-  کئی کئی چہروں اور زبانوں کے ساتھ قلابازیاں کھانے والے عالم-  تہذیب و حکمت سے عاری، دولت اور شہرت کے بھوکے عالم-  نفرتوں اور فساد کے بیج بونے والے عالم- جنکے فتوے، جن کی چرب زبانی اس قوم کے لئے وبال جان بن گئی ہے-  

یا الله! پاکستان پر رحم فرمائیں-  پاکستانیوں کو ایک تہذیب یافتہ اور باشعور اور باوقار قوم بنا دیں-  اس قوم کے نوجوانوں کو چھچھورے پن اور خرافات سے دور کردیں- اور انہیں صادق و امین بنا دیں- اس نوجوان نسل کو پاکستان کا امین بنا دیں-  کوئی تو ہونگے اس قابل-  آمین 

Tuesday 17 October 2017

معیشت کا بہترین نظام

انسان روزگار تلاش کیوں کرتا ہے؟
اسکی ایک وجہ تو یہ ہے کہ محنت کرنا ، کام کرنا انسان کی فطرت ہے-  سوره البلد میں ارشاد ہوتا ہے- 
"بے شک ہم نے انسان کو تکلیف میں رہنے والا بنایا"

دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ زندگی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے کمانا-  اور تیسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ضروریات سے بڑھ کر کچھ حاصل کرنا-  ساری ضروریات اور اس سے بڑھ کر نعمتیں رزق کہلاتی ہیں- اور رزق ہر وہ چیز یا نعمت ہے جسے انسان کھاتا پیتا، پہنتا اوڑھتا اور استعمال کرتا ہے-  اور قرآن میں بار بار انسان کو اس بات کا یقین دلایا گیا ہے کہ رزق الله سبحانہ و تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے-  وہ جس کو چاہے زیادہ دیتا ہے اور جسے چاہے کم-  اور یہ کمی اور زیادتی 'حصّہ' کہلاتی ہے جس کے لئے عربی میں لفظ ہے 'نصیب'-  یعنی انسان کے نصیب میں کتنا رزق ہے یہ الله سبحانہ و تعالیٰ کے کنٹرول میں ہے-  جب چاہے جس کے لئے زیادہ کردے اور جس وقت چاہے اور جس کے لئے کم کردے- 

دنیا میں صنعتی انقلاب آنے سے پہلے دنیا کی اتنی خراب حالت نہیں تھی جتنی اب ہوگئی ہے-  کڑوروں کی تعداد میں فیکٹریوں اور کارخانوں نے ماحولیات کو نقصان پہنچایا، ہوا، پانی اور مٹی کو آلودہ کردیا یہاں تک کہ یہ آلودگی اب موسموں پر اثر انداز ہونے لگی ہے-  ماس پروڈکشن کے وجہ سے قدرتی وسائل برے طریقے سے ضائع ہونے لگے-   نئی نئی ایجادات نے اور ستم ڈھایا-  آج دنیا کی معیشت حرص و ہوس کا شکار ہو کر دولت کے پجاریوں کے ہاتھ میں جاچکی ہے-  آج دنیا کی معیشت جن بنیادوں پر چل رہی ہے اسکے لئے ضروری ہے کہ دنیا کی تمام انسانوں میں مثبت صفات کا خاتمہ کر کے مقابلہ بازی، ریاکاری، لالچ اور خودغرضی پیدا کی جاۓ-  انسانوں کو کسی بھی دنیاوی اور اخروی احتساب سے غافل کر کے صرف دنیا کے معاملات میں الجھا دیا جاۓ-  ترقی کے نام پر سہولیات کا اس طرح عادی بنادیا جاۓ کہ اگر یہ سہولیات کچھ دیر کے لئے بھی چھن جائیں تو انسان بے چین اور حواس باختہ ہو جاۓ- انہی سہولیات کی حسرت میں زندگی گزاردے-  اور انہی سہولیات کو حاصل کرنے کے لئے اپنی تمام توانائی اور وسائل صرف کردے-  

سورہ التکاثر میں الله تعالیٰ فرماتے ہیں- 
"تمہیں غافل رکھا مال کی زیادہ طلبی نے-  
یہاں تک کہ تم نے قبروں کا منہ دیکھا..."

زیادہ دولت کمانے میں برائی نہیں- کیونکہ زکواة جو کہ اسلام کا معاشی ستون ہے، فرض ہی تب ہوتی ہے جب انسان کے پاس ضرورت سے زیادہ بچ جاۓ اور اس کو بھی پورا سال گزر جاۓ-  ترقی کرنے میں برائی نہیں-  کیونکہ خود قرآن کہتا ہے کہ ساری دنیا انسان کے لئے مسخر کر دی گئی ہے= جس میں وجہ چلے پھرے اور رزق تلاش کرے- الله کی قدرتوں کو پہچانے- لیکن انسان کو الله سبحانہ و تعالیٰ کے نظام قدرت کو تباہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی-  لہٰذا برائی تو اس رویے میں ہے جو الله سبحانہ و تعالیٰ کے نظام قدرت کو برباد کرتا ہے-  اور معاشی ذرائع کو خصوصا معاشرے میں بدامنی، غربت، جہالت اور کفر پھیلانے کے لئے استعمال کرتا ہے-  

سوره طہ کی ایک سو چوبیس آیہ میں الله سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ 
"اور جو کوئی میری یاد سے رو گردانی کرتا ہے 
اس زندگی تنگ کردی جاتی ہے..."

آج دنیا کے زیادہ ترمعاشروں میں ظلم، کفر، جہالت، غربت، بدامنی کا دور دورہ ہے-  انسان زیادہ سے زیادہ کے حصول میں ہر وہ چیز کھو بیٹھا ہے جس کی وہ تمنا کرتا ہے-  ذہنی اور نفسیاتی حالت یہ ہوگئی ہے کہ اکثریت کو یہ سوچنے کا وقت ہی نہیں کہ انکے ساتھ کیا ہوگیا، کیا ہورہا ہے اور کیا ہونے جارہا ہے-  لوگوں سے اگر یہ پوچھا جاۓ کہ آپکو روزگار کی تلاش کیوں ہے تو شاید انکو اس کا بھی صحیح جواب نہ پتہ ہو- زیادہ سے زیادہ تعداد اور مقدار میں مصنوعات,  برانڈز اور اشیاء بنانے کے لئے بے دریغ قدرتی وسائل کا استعمال، پھر انکو زیادہ سے زیادہ تعداد اور مقدار میں بیچنے کے لئے مختلف طریقے اختیار کرنا-  لوگوں کو دنیا و ما فیھا سے بے خبر کر کے صرف اور صرف خریدار اور بیوپاری بنادینا- اور پھر جو بچ جاۓ اسے ضائع کردینا-  کیا اسی کا نام معیشت ہے؟  اتنی بے جا اسراف کے ساتھ کیا کبھی کسی معیشت کو قائم رکھا جا سکتا ہے؟  کبھی کسی معاشرے میں خوشحالی آسکتی ہے؟  

معیشت کا سب سے بہترین نظام رسول الله صلی الله علیہ وسلّم نے آج سے چودہ سو سال پہلے قائم کر کے دکھایا-  اور وہ بھی صرف تئیس سال کے عرصے میں-  سود کے بغیر-  قرضوں کے بغیر-  کسی حرص اور لالچ کے بغیر-  کسی استحصال کے بغیر-  فحاشی و عریانی کے بغیر-  کسی غیر اخلاقی اور غیر قانونی ذرائع کے بغیر-  حلال اور پاکیزہ روزگار کے مواقع فراہم کرنے والا معاشی اور سیاسی نظام-     

Saturday 30 September 2017

کرپشن سے پاک پاکستان


اور بے شک ہر امّت میں سے ہم نے ایک رسول بھیجا- (یہ کہتا ہوا) کہ ایک الله کی عبادت کرو اور کنارہ کش ہو جاؤ تمام جھوٹے ممبودوں سے- تو ان میں سے کچھ کو الله نے ہدایت دی اور کچھ پر گمراہی ٹھیک اتری- تو زمین میں چل پھر کر دیکھو کیسا انجام ہوا جھٹلانے والوں کا
(سوره النحل، آیات ٣٦)

آج سے ١٤٣٩ سال پہلے عرب کا معاشرہ بھی اخلاقی اور قانونی جرائم سے بھر پور تھا-  حضرت جعفر طیّار نے جب نجاشی کے دربار میں تقریر کی تو اپنے معاشرے کی برائیاں بیان کرنے کے بعد کہا کہ 

کہ پھر الله نے ہم میں سے ایک شخص اٹھایا جس کی سچائی، ایمانداری 
اور پاکیزگی کے ہم گواہ تھے- اور اس نے ہمیں الله کی وحدانیت کا درس دیا 
ہمیں الله کے ساتھ شریک بنانے سے منع کیا اور بتوں کی پوجا کرنے روکا  

ایمان مفصّل کے سات ارکان ہیں 
میں ایمان رکھتا/رکھتی ہوں الله پر، اسکے فرشتوں پر، اسکی کتابوں پر 
اسکے رسولوں پر، اور آخرت کے دن پر، اور اس بات پر کہ مقدّر کی 
اچھائی اور برائی الله کی طرف سے ہے، اور مر کر اٹھائے جانے پر 

پہلا کام جو رسول الله صلی الله علیہ وسلّم نے کیا وہ تھا ہی یہی کہ انسان اپنے سچے معبود کو پہچان لے- اپنی زندگی اور موت، اپنے رکوع اور سجدوں، اپنے فائدے اور نقصان اور تقدیر کے تمام معاملات کے لئے الله ساتھ تعلق جوڑ لے-   جس انسان کا تعلق الله تعالیٰ سے قائم ہو جاتا ہے تو اسے اپنے ذاتی فائدے اور نقصان سے زیادہ اس نظام کو بچانے کی فکر جو جاتی ہے جو تمام انسانوں کے لئے فلاح و نجات کا باعث بنے-  سچے معبود اور جھوٹے معبودوں کے درمیان فرق صرف عقیدے کی بنیاد پر ہی نہیں بلکہ عقل اور سائنس کی بناء پر بھی ثابت کیا جا سکتا ہے جیسے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کیا 

بھلا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو اس (غرور کے) سبب سے کہ 
خدا نے اس کو سلطنت بخشی تھی ابراہیم سے پروردگار کے بارے میں 
جھگڑنے لگا۔ جب ابراہیم نے کہا میرا پروردگار تو وہ ہے جو جلاتا اور 
مارتا ہے۔ وہ بولا کہ جلا اور مار تو میں بھی سکتا ہوں۔ ابراہیم نے کہا کہ 
خدا تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تم اسے مغرب سے نکال کر 
دکھادو(یہ سن کر) کافر حیران رہ گیا اور 
خدا بےانصافوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا 
سوره البقرہ، آیة ٢٥٨ 

ایک عام انسان دوراندیش نہیں ہوتا- اس کی عقل صرف طاقت اور قوّت کے مظاہرے اور فائدے اور نقصان کی بنیاد پر ہی کسی کو خود سے برتر تسلیم کرتی ہے-  چاہیے وہ خاندان میں کسی کو امین ماننے کی بات ہو یا کسی قبیلے میں کسی کو سردار ماننے کا مسلہ ہو یا قوم میں کسی کو رہنما تسلیم کرنے کا معاملہ ہو یا مذہب میں خدا کے وجود کا تصوّر- الله تعالیٰ بھی جب زلزلوں اور طوفانوں کی صورت میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں تو سب اپنے صدروں، وزیراعظموں، سرداروں، چودھریوں، وڈیروں اور علماء اور انکے بناۓ ہوۓ نظاموں کو چھوڑ کر اپنی اپنی عبادت گاہوں کر رخ کرتے ہیں- اسی لئے رسول الله صلی الله علیہ وسلّم نے جس نکتہ پر سب سے زیادہ کام کیا وہ تھا ہی یہی لا الہ الّا اللہ

سوره النّاس میں بیان ہوتا ہے کہ 
میں پناہ مانگتا ہوں انسانوں کے رب کی 
انسانوں کے بادشاہ کی، انسانوں کے معبود کی  
یعنی سائیں بھی الله، بادشاہ بھی الله اورعبادت کے لائق بھی الله 

پاکستان میں سیاست دانوں نے جو جمہوری تماشہ لگایا ہوا ہے وہ بھی فرعون، نمرود، شدّاد  اور یزید کے نظریات کا ہی تسلسل ہے - ان سیاست دانوں کا ساتھ دینے والے تاجر، وکیل، صحافی، ججز، ڈاکٹرز، انجینئرز، استاتذہ، اداکار، گلوکار، مصنّف، شاعر،  پولیس، سردار،وڈیرے، چودھری اور علماء وہ مہرے ہیں جو ان سیاست دانوں کو جھوٹا معبود ثابت کرنے میں مدد دیتے ہیں-  کہ یہی ہے جو تمھارے رزق پر قادر ہے اور تمہیں روٹی، کپڑا اور مکان دلا سکتا ہے- یہی ہے عزت و ذلّت کا مالک جو تمہیں دنیا میں ترقی دے سکتا ہے- یہی ہے وہ عالم جو تمہیں جہنّم سے نجات دلوا سکتا ہے اور جنّت میں داخل کرواسکتا ہے- کیونکہ جو لوٹ مار ان سیاسی اور دینی بادشاہوں نے مچائی ہوتی ہے اس میں سے انھیں بھی حصّہ ملتا ہے- کچھ نہ کرنے کی صلاحیت یعنی نا اہل ہونے کے باوجود یہ سیاست دان اور علماء سب کچھ کرنے کے دعوے کرتے ہیں اور یہ مہرے ان کا سہارا بنتے ہیں-  کبھی حزب اقتدار بن کر اور کبھی حزب اختلاف بن کر- یہ سیاست دان فرعون، نمرود اور شدّاد کی طرح صرف اپنی سیاسی بادشاہت بچانے کی فکر میں ہوتے ہیں-  انہی کی طرح بے حس اور بے غیرت بن کر عوام کے ٹیکس پر شاہانہ زندگی گزارتے ہیں اور انہی کی طرح اس سیاسی بادشاہت کو اپنی نسلوں اور خاندانوں تک محدود رکھتے ہیں-  اور یہ سارے کے سارے وہی جھٹلانے والے لوگ ہیں جن کا ذکر قرآن میں بار بار آیا ہے- کہ وہ عقل پکڑیں اور سدھر جائیں- لیکن جیسے کہ حضرت علّامہ اقبال رحمة الله علیہ نے فرمایا کہ 
نہ ہو طبیعت ہی جن کی قابل وہ تربیت سے نہیں سنورتے 
ہوا نہ سرسبز رہ کے پانی میں عکس سرو کنار جو کا 

کیا فرق ہے نواز شریف، زرداری، الطاف حسین، مغل بادشاہوں، فرعون، نمرود، شدّاد اور یزید میں؟  نام اور زمانہ بدلنے سے کردار نہیں بدل جاتے اور نہ ہی انکے انجام-  ہر فرعون اور نمرود اور یزید کے کردار والے  شخص کے مقابلے پر کوئی نہ کوئی موسیٰ اور ابراہیم اور حسین کے کردار والا شخص موجود ہوتا ہے-   یہ دو قومی نظریہ کرداروں کی شکل میں ہمیشہ سے ہے اور رہے گا کیونکہ یہی تو اعمال کو اور نیّتوں کو پرکھنے کا پیمانہ ہے-  فرق یہ ہے کہ یہ جھوٹے خدا اور انکو سہارا دینے والے آج بھی اتنے اہل ہیں کہ ساری کی ساری قوم کی توجہ اور وسائل اپنے اوپر ضائع کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کیوں کہ انکو کام ہی یہ دیا گیا ہوتا ہے کہ اپنی اور قوم وقت اور وسائل کسی طرح بھی ضائع کرنا ہیں اورانکی تربیت بھی یہی کی جاتی ہے- کیونکہ اسی طرح کسی بھی ملک کی عوام کو غافل کروا کر ہی تو اسلام دشمن طاقتیں اپنے عزائم پورے کرتی ہیں

جس معاشرے میں عوام اپنے رب کو بھول کر اپنے فائدے اور نقصان کے لئے اپنے ہی جیسے انسانوں کی طرف رجوع کرے تو وہاں کے حالات ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے آج پاکستان کے ہیں-  لوگ کسی ایک انسان کو جھوٹا معبود بنا کر اسی کی حفاظت میں لگ جاتے ہیں جیسے عرب کے لوگ اپنے بتوں کی حفاظت خود کیا کرتے- جس طرح سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کی قوم کو معلوم تھا کہ یہ بت کسی فائدے یا نقصان پر قدرت نہیں رکھتے بلکہ یہ بت انہوں نے خود تراشے ہیں اور خود انکی کم عقلی کی وجہ سے پتھر سے خدا بن گئے ہیں- اسی طرح پاکستان کی عوام کو بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ نواز شریف، زرداری، الطاف حسین اور ان جیسے کتنے ہی جھوٹے خدا کسی چیز پر ذرّہ برابر قدرت نہیں رکھتے اور کسی فائدے اور نقصان کے مالک نہیں- اور نواز شریف، زرداری، الطاف حسین جیسے کردار انہوں نے خود منتخب کئے ہوتے ہیں  اور خود عوام کی اپنی غفلت اور جہالت کی وجہ سے عام آدمی سے خاص بن گئے ہیں-  یہ تو خود عوام کی دولت سے اپنی جان کی حفاظت کے لئے  بلٹ پروف گاڑیاں خریدتے ہیں اور قوم کے محافظوں کو اپنے خاندان کا چوکیدار بنا دیتے ہیں- عوام کے بھکاری عوام کو کیا دے سکتے ہیں 

رسول الله صلی الله علیہ وسلّم نے بت تراش کرعوام کو نہیں دیئے بلکہ کردار تراشے- اور سخت ترین حالات میں بھی علی اور ابوبکر اور عمر اور عثمان اور بلال اور بیشمار اعلیٰ  اور بے مثال کردار دنیا کو عطا کے- اور ان کرداروں نے کسی شخصیت کو نہیں بلکہ ایک  نظام کو مظبوط کیا- کیونکہ انھیں صرف اپنی ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کی بھلائی منظور تھی اور یہی انسانیت کی فلاح و بہبود انکی زندگی کا مقصد تھا- کسی ادارے سے ڈگریاں نہ لینے کے باوجود انھیں یہ بات سمجھ آ گئی تھی کہ انسان تو باقی نہیں رہتا لیکن اس کا دیا ہوا نظام پیچھے آنے والے انسانوں کی فلاح کا ضامن ہوتا ہے

گو کہ ان جھوٹے خداؤں کا انجام فرعون، شدّاد، نمرود اور یزید سے کچھ مختلف نہیں ہوگا جو عبرت اور ذلّت کا نشان بن چکے ہیں لیکن ان کے پاس یہ سب باتیں سوچنے کا وقت ہی نہیں ہے-  دوسری طرف عوام کے پاس بھی وقت نہیں کہ وہ یہ سمجھے کہ کہ نواز شریف، زرداری اور الطاف حسین جیسے جھوٹے خدا سورج کو مغرب سے نکال کر دکھانے میں ناکام ہو چکے ہیں اور اب اس سے پہلے کہ عوام ان سے ان کے وعدوں کا اور انکے فرائض منصبی کا حساب لینے کے لئے جاگے، یہ اپنے جھوٹے معبودوں کے ساتھ مل کر پہلے ہی عوام کے لئے آگ کا الاؤ تیّار کر چکے ہیں

آگ ہے اولاد ابراہیم ہے نمرود ہے 
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے؟  

الله تعالیٰ پاکستان کی زمین کو، پاکستان کی ہواؤں کو، پاکستان کے پانیوں کو، ایک لمبے عرصے کے لئے سمجھدار، مخلص، صادق و امین قیادتیں اور رہنما عطا فرمائے اور  پاکستانی عوام کو ایسے لیڈرز کو پہچاننے کی اور انکی قدر کرنے کی اور انکی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے- آمین 



Friday 25 July 2014

Night of Power - Night of Pakistan

Just got this feeling on the 27th Night of Ramadan - The Night of Power, 
Gaza is in the process of setting another example of "TNT - Two Nation Theory" on international level.  All good regardless of their race, colour, faith and nationality are gathering up against all evils.

Just wonder if TNT in the Sub-Continent can produce Pakistan, 
what would TNT on international level will end up with, 
surely the "Islamic Renaissance", 
Global Islamic Rule. 

Monday 26 May 2014

Unified Educational System - یکساں تعلیمی نظام

ہمارے ملک میں تعلیم کی منصوبہ بندی کی جتنی  کمی ہے اس سے کہیں زیادہ زندگی کی منصوبہ بندی کی کمی ہے- تعلیم کا معیار جتنا کم ہے تربیت کا معیار اس سے بھی کم- جتنا تعلیمی نظام بگڑاہواہے اس سے زیادہ سماجی اورسیاسی نظام بگڑا ہوا ہے- حالانکہ تعلیم سے پہلے ان سب چیزوں کا درست ہونا ضروری ہے- یعنی زندگی کی منصوبہ بندی,  تربیت کا معیار اور مضبوط سماجی اورسیاسی نظام- 

ارسطو نے کہا کہ "دل کی تربیت کیے بغیر ذہن کو تعلیم دینا تعلیم نہیں کہلاتا"-  

 اسی لئے رسول الله پر پہلی آیت "اقراء یعنی پڑھو" اتری-  لیکن کسی تعلیمی ادارے کی بنیاد نہیں ڈالی گئی بلکہ تیرہ سال صبر و برداست، مساوات، اخوّت، رواداری اور ایک دوسرے کے حقوق کے تحفّظ کی تربیت دی گئی-  ہم میں سے کتنے ہیں جو ڈگری یافتہ کے لئے اٹھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں-  اور کتنے ہیں جو عبدالستار ایدھی کے نام پر احتراما آنکھیں بھی جھکا لیتے ہیں اور اٹھ کر کھڑے بھی ہو جاتے ہیں-  

ہمارے ہاں عام تعلیم کی حد میٹرک یعنی دسویں جماعت ہے- اسکی ایک وجہ لوگوں کے معاشی حالات  ہیں اور کچھ انکی زندگی میں منصوبہ بندی کی کمی-  جو انھیں لڑکوں کو آگے پڑھانے کی اجازت نہیں دیتےاور وہ کسی کام سیکھنے پر بٹھا دئے جاتے ہیں- لڑکیوں کی شادی ہوجاتی ہے یا منگنی- پھر وہ جب موقع ملے پرائیوٹ ہی پڑھتی ہیں- اکثر پرائیوٹ اسکول میں میٹرک یا انٹر پاس لڑکیوں کوٹیچرز رکھا جاتا ہے جو کم تنخواہ پر کام کرنے پر راضی ہو جاتی ہیں- دوسری وجہ تعلیم کی اہمیت کو نہ پہچاننا- اکثریت اسے اسکول کالجز کی کاروائی سمجھتی ہے, جس میں امتحان پاس کرنا ایک بڑا مرحلہ ہوتاہے- اور جو اہمیت بتائی جاتی ہے اسکے مطابق ملازمتوں کا نہ ملنا- کم عمر میں کم تعلیم اوربے تربیتی کے ساتھہ آگے بڑھنے کاراستہ بدعنوانی ہوتا ہے- 

میٹرک پاس بچوں میں ان صلاحیتوں کی ازحد کمی ہوتی ہے جو ایک لڑکا یا لڑکی میں پندرہ سولہ سال کی اسکولنگ اور گھریلو تربیت کے نتیجے میں ہونی چاہئیں-  سوچ, رکھہ رکھاؤ, انفرادیت, معلومات عامہ, آگے بڑھنے کا جذبہ, بہتری کی خواہش, مسائل کو سمجھنا انکا حل تلاش کرنا, منصوبہ بندی کرنا, خودانحصاری- 

ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ نویں جماعت سے جومضامین کی گروپنگ کی جاتی ہے اور اس میں موجود مواد کا انتخاب  اکثر بے فائدہ ہوتا ہے- مثال کے طور پر سائنس گروپ کے بچے ایجوکیشن, سیاسیات, معاشیات کے تصور سے بھی ناآشنا ہوتے ہیں بلکہ اسے فضول سمجھتے ہیں- حالانکہ ایک سائنس کے طالب علم کو کمانا تو ہوتا ہی ہے, اس کا تعلق ملکی سیاست اور تعلیمی نظام سے بھی ہو تا ہے, لوگوں کی نفسیات سے بھی ہوتا ہے-  

خاص طورپر ان بچوں کے لئے جنھوں نےمیٹرک کے بعد تعلیم کو خیرآباد کہہ دیناہو- لازمی ہے کہ وہ ضروری مضامین کے بنیادی تصور اور انکی حقیقی زندگی میں کارآمد ہونے سے واقف ہوں-  

آٹھویں جاعت کابچہ عموما تیرہ چودہ سال کاہوتا ہے- اگر نویں اور دسویں یعنی دو سال مضامین کی گروپنگ کے بجائےایک ایسا تعلیمی کورس مرتب کردیا جائے جس میں موجود مواد انکے کام کاہو تو تعلیمی نظام اورسماجی نظام دونوں میں بہتری آسکتی ہے-  فوری طور پر حکومتی سطح پر تو تبدیلی ناممکن ہے- لیکن دن بہ دن بڑھتی ہوئی آزمائشوں کا آسانی سے مقابلہ کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی نئی راہ تو نکالنی چاہیے-  لوگوں کے ذہنوں کو بہتر تبدیلی کے لئے آمادہ کرنا شاید دنیاکاسب سے مشکل کام ہوتاہے- باہر ممالک کی طرح اگر ایک سال یا دو سال کا  آکیوپیشنل اسٹڈیز کا انٹینسو کورس جس میں کتابوں سے زیادہ تحقیق, بحث اور لکھنا شامل ہو متعارف کرائے جاسکتے ہیں۔۔۔ جس سائنس, آرٹس, کامرس, کمپیوٹر کے علیحدہ مضامین کی تقسیم کے بجائے پروفیشنل اسکلز کو ابھارنے پر مرکوز کیا جائے۔-  کیونکہ ابھی تو حال یہ ہے کہ ہمارے ببیچلرز اور ماسٹرز کوبھی ملازمت کی درخواستیں نہیں  لکھنی آتیں-  

یکساں تعلیم کا کوئی بھی آئیڈیا فضول ہے اگر وہ عام لوگوں کو ملک کے سیاسی  اور سماجی عمل میں حصہ لینے کا اوراقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کا موقع فراہم نہ کرے-  لہذا پاکستان میں امن, ترقی, خوشحالی اور مضبوط  دفاعی طاقت کے لئے یکساں تعلیم کے ساتھہ ساتھہ  قوانین میں تبدیلی یا نئے قوانین ضروری ہیں-  مثلا سیاسی عمل میں حصہ لینے کے لئے انٹرمیڈیٹ کے ساتھہ سیاسیات, بین الاقوامی تعلقات, معاشیات کا علم لازمی ہو- امیدوار لازمی طور پر حکومت پاکستان سے سند یافتہ ہو۔۔۔ لازمی طور پر پاکستانی قومیت رکھتا ہو- اپنے علاقے میں اسکا کردار کیا ہے-   ذریعہ آمدنی, ذاتی اثاثے کیا ہیں-  

ایک یکساں یا قومی تعلیمی نظام کے لئے ضروری نہیں ہوتا کہ مضامین اور موضوعات سب کے لئے لازمی ہوں- بلکہ ایسا نظام تعلیم جس میں مختلف عقائد, مختلف نظریات اور مختلف زبان بولنے والوں کے لئے چوائس موجود ہو- اوریہ کسی کے لئے بھی علم وہنر سے متعلق بنیادی معلومات فراہم کرسکے- لیکن ہوں مرکزی حکومت کے کنٹرول میں-  دنیا کا کوئی ملک اورکوئی نظام اس سے زیادہ یونیفائیڈ تعلیمی نظام نہیں دے سکتا-  

اگر کسی جگہ کے لوگ ایک زبان بولتے ہوں, انکے عقائد ایک ہوں اور نظریات میں بھی فرق نہ ہو- اسکے باوجود بھی وہ اس سے زیادہ یکساں تعلیم کا تصور نہیں دے سکتے-   کیونکہ بہرحال اگرانھوں دنیا کی باقی قوموں کے ساتھہ معاشی اور سیاسی روابط رکھنے ہیں توپھران کے نظام اور نظریات کو کسی حد تک اپنے تعلیمی نظام کا حصہ بنانا پڑے گا-  اور یہ کوئی نیا آئیڈیا نہیں-  دنیا کے بہت سے ملکوں میں یہ نظام موجود ہے- اور غیر اسلامی بھی نہیں-   

کیا پاکستان میں مدرسے, سرکاری اسکول, پرائیویٹ اسکول, آغا خان سسٹم, اولیولز, خیراتی اسکول, یتیم خانے, سیاسی شخصیات کے اسکول اور ہوم اسکولنگ مرکزی حکومت کے تحت کام نہیں کر سکتے؟  کرسکتے ہیں اگر بنیادی تعلیم کے علاوہ پرائیویٹ اسکولز کے مشکل, مہنگےاور درآمد شدہ سلیبس کو اور مدرسے کے کورسزکو ایڈوانس مضامین کی فہرست میں ڈال دیا جائے-   اس طرح بنیادی تعلیم تو سب کے لئے ایک جیسی ہو گی لیکن ایلیٹ, غیر ملکی, مذہبی, صوبائی یا اور دوسری زبانیں بولنے والوں کے لئے اختیاری مضامین کی شکل میں چوائس موجود ہوگی-  اہم بات یہ ہوگی کہ سند حکومت پاکستان کی ہو-   اس کے لئے جگہیں بدلنے کی بھی ضرورت نہیں-  اپنے اپنے اسکولوں، مدرسوں، گھروں میں تعلیم حاصل کریں اور امتحانات دیں- اسکا مطلب یہ بھی نہیں کہ تعلیمی اداروں کو نیشنلائز کردیا جائے-  پرائیویٹ اسکول کالجز, مدرسے- سب اپنی جگہ پر بنیادی تعلیم کا سرکاری ریکوائرمنٹ پوری کریں۔۔۔ پھر طلبہ چاہیں جو مضامین ایڈوانس لیول پرپڑھیں-  

اسکے فوائد کیا ہونگے-
١) سارا کا سارا تعلیمی نظام ایک مرکز کے تحت کام کرے گا-  جس سے مرکزی حکومت کو اہمیت حاصل ہو گی, وہ مضبوط بھی ہوگی-

٢) علمی بنیادوں پرلوگوں کی تقسیم اور تفاخر بہت حد تک کم ہو جائے گی-  کیونکہ تمام کے تمام مضامین پر تعلیمی اسناد پہ ٹھپہ یاسیل مرکزی حکومت کی ہو گی-  

٣) پاکستان میں سب سے بڑا تعلیمی فرق مدرسہ اور اسکولز کی تعلیم میں ہے- ایک کو شرعی تعلیم کہہ کر محدود کردیا- دوسرے کو جدید تعلیم کہہ کر کفر یا غیر شرعی یا دنیاوی قرار دے دیا-  پاکستان کے ماحول میں دینی اور ماڈریٹ کا فرق بھی کچھہ کم ہوگا-  اوردینی لوگوں کی آئے دن کے نفاذ شریعت کی دھمکیوں کا زور بھی کم ہوگا-  اور دونوں قسم کے لوگ ایک ہی مرکز تلےآجائیں گے-  

٤) صوبوں کے درمیان تعلیمی فرق بھی کم رہ جائے گا-  ایک صوبے کے رہنے والے کو دوسرے صوبے میں جاکر تعلیمی سلسلہ بدل جانے کی شکایت نہیں ہوگی- خیراتی اسکولوں اور فلاحی اداروں کے بچوں کا کم از کم علمی بنیادوں پر احساس محرومی ختم ہوجائے گا-  انکے پاس بھی کیونکہ  سرکاری سند ہوگی- 

٥) پھر یہ کہ پرائیویٹ یا ہوم اسکولنگ والے بچوں کے لئے جو سائنس نہ لینے کی پابندی ہے وہ بھی ختم ہو جائے گی کیونکہ سائنس تو میٹرک تک لازمی ہی ہوگی-  

یہ سب کرنا آسان نہیں- 

پہلا مسلہ ہیں ہمارے سیاست دان-  چوں کہ ہمارا حکمران طبقہ جاہل اور ذہنی طور پر غلامانہ سوچ رکھتا ہے وہ امریکہ اور مغربی دنیا کےاشارے کے بغیر کچھہ نہیں کرتا-  اس لئے عوام کو ہی شور مچانا پڑے گا-   اپنے اپنے علاقے کے سیاستدانوں اور حکومت پر دباؤ ڈالنا پڑے گا-   اور وہ بھی کافی عرصے تک اور مسلسل، سانس لینے کی طرح-   

دوسرا بڑا مسئلہ مذہبی فرقے ہیں-  انکا کسی بھی معاملے کو سمجھداری سے نمٹانا نا ممکن سا لگتا ہے-  لیکن بہرحال معجزات بھی تو ہو سکتے ہیں-  دوسرے یہ الله اور رسول سے زیادہ اپنا ضمیر، زبان اور دماغ اپنے اپنے علماء، مولانا اور شیوخ کے پاس گروی رکھ چکے ہوتے ہیں-  لہٰذا ان کے علماء، مولانا اور شیوخ اگر سمجھ جائیں تو باقی بھی بھیڑ بکریوں کی طرح میں میں کرتے انکے پیچھے ہو لیں گے-

تیسرا مسئلہ او لیولز اور آغا خان بورڈ-  پرائیوٹ اسکولز اورحکومت برطانیہ تو او لیولز کے نام پر کڑوڑوں روپے احمق پاکستانیوں سے کمارہے ہیں-  بھلا وہ اس لوٹ مار کو کیسے بند ہونے دینگے-  دو سال بعد کا کورس دوسال پہلے پڑھا دیا تو بے شک اسے او لیولز کہہ لیں رہا تو پھر بھی آرڈنری لیول-  ایک بچہ گدھے کی طرح دن رات اپنی عمر اور سوچ سے بڑی کتابیں پڑھ رہا ہے اور اسے تعریف اور ایوارڈز کا چارہ ڈالا جارہا ہوتا ہے-  یہ تعلیم ہے؟  

چوتھا مسئلہ ہے ہمارا طریقہ تعلیم جو خاص طور پر ابتدائی درجات میں اور ویسے بھی کتابوں اور کاپیوں کے گرد گھومتا ہے- اکثر تین یا چار سال کےبچوں کو بھی کتابوں اور کاپیوں سے لکھنے پڑھنے پر لگادیا جاتا ہے- یکساں تعلیم کا سن کر سب کا ذہن جائے گا ایک جیسی کتابوں کی طرف-  حالانکہ یکساں تعلیم کا مقصد یکساں نتیجہ حاصل کرنا ہوتا ہے نہ کہ یکساں طریقہ کار-  کم از کم آٹھ نو سال کی عمر تک تو طریقہ تعلیم مونٹیسوری اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے-  کوئی امتحان نہیں-  کوئی مقابلہ بازی نہیں-  صرف علم و روز مرّہ زندگی کی صلاحیتوں پر توجہ-  

پانچواں مسئلہ ہے خیراتی اسکولوں سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا-  یہ تو چلتے ہی عطیات زکات پر ہیں-  کوئی معیارقائم ہوگیا تو چندہ کون دے گا-  لہٰذا انکی نکیل کسی باشعور انسان کے پاس ہونی چاہیے-  اور عبد الستار ایدھی کو چاہیے کہ اس معاملے میں میمن برادری کے علاوہ بھی کسی اور سے مدد حاصل کرلیا کریں-  اگر کوئی انکے ادارے میں بچوں کی تعلیم کو معیاری کرنے کی بات کرے تو اسے کرنے دیں-  اور جن کے ہاتھ میں اپنے ادارے دے رکھیں ہیں انہیں میمنزم سے پاک کرکے انکی بھی ذہنی و اخلاقی تربیت کا انتظام کریں-  خیراتی اداروں کا مطلب یہ نہیں کہ وہ پسماندگی کی تصویر بنے رہیں-  یہ بات تو غیر مسلموں تک نے ثابت کردی ہے-  ادارے قائم کرنا ایک الگ بات ہے-  اور انھیں بہتر بنانا اس الگ بات کی دوسری قسط- 

چھٹا مسئلہ وہ اسکول جو سیاسی شخصیات نے کھولے ہیں یا انکے پرنسپلز بنکے بیٹھے ہیں-  اور یہ اسکولوں کو خطرناک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں-  وہ برداشت کر لیں گے کہ انکا اور انکی مخالف  پارٹی کے اسکول کا معیار ایک جیسا ہو-  اور قوم کو آگے بڑھنے کی راہ ملے-  یا انکے سیاسی باس کے بجاۓ علّامہ اقبال، قائداعظم اور کسی باشعور شخص کے بارے میں تعلیم دی جاۓ-   کبھی بھی نہیں-  لہٰذا عوام کو تو سیاسی اسکولوں سے دور ہی رہنا چاہیے-  اس سے ہزار گنا بہتر ہے ہوم اسکولنگ-  ایسے اسکولوں کا ختم ہونا بھی ایک رحمت سے کم نہیں ہوگا-  

ساتواں مسئلہ یہ کہ حکومت کی طرف سے بنیادی تعلیم کا سلیبس ترتیب کون دے گا-  ملک میں ہزاروں کی تعداد میں بپبلیکیشنز ہیں اور ساری ہی کہیں نہ کہیں استعمال ہورہی ہیں-  اسی طرح مدرسے کے کورسز ہیں, سینکڑوں کی تعداد میں کتابیں ہیں- کوئی کسی کتاب کو ابتدائی درجہ کے لئے موزوں سمجھتا ہے تو دوسرا اسے ایڈوانس لیول رکھتا ہے۔-  کیا مدرسے, سرکاری اسکول, پرائیویٹ اسکول, آغا خان سسٹم, اولیولز, خیراتی اسکول, یتیم خانے, سیاسی شخصیات کے اسکول کےنمائندے اور ہوم اسکولنگ کی طرف سے والدین اس نظام میں ایک سطح پہ آکر حصہ لیں گے۔۔۔  میرے خیال میں بالکل نہیں-  

آٹھواں مسئلہ بنیادی تعلیم کی تعریف اور اسکا معیارکیا ہونا چاہئے-  یہ کون بتائے گا- 




















Saturday 24 May 2014

Right of Allah - الله کا حق

پاکستان میں مذہبی عقائد زمینی حقائق میں سے ایک ہیں-  بہت سے فرقے ہیں لیکن سب کی بنیاد الله، رسول اور قرآن ہی ہیں-  آگے کے مسلے خود انکے مولویوں، شیخوں، علماء اور مولاناؤں نے پیدا کئے ہوۓ ہیں اپنی فلسفے، بد زبانی اور بدتمیزیوں کی وجہ سے-  ورنہ الله کے دین میں فتنہ مٹانے کی بات ہے بڑھانے کی نہیں-  لیکن شاید یہ سارے فرقے ایک دوسرے کو فتنہ سمجھتے ہیں اس لئے ایک دوسرے کو مٹانے پر تلے ہوۓ ہیں-   جہاں تک عام لوگوں کا تعلق ہے انہوں نے اپنے دل، دماغ، آنکھیں سب کچھ اہل منصب اور با اختیار لوگوں کے پاس گروی رکھ دیا ہے-  پتہ نہیں حساب کس چیز کا دیں گے-  

بچپن سے ایک حدیث سنتے آرہے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ 
"الله قیامت کے دن اپنے حقوق معاف کر دے گا لیکن اگر بندوں نے آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کی ہو گی تو وہ معاف نہیں کرے گا جب تک کہ وہ بندہ جس پر ظلم کیا گیا ہے خود دوسرے کو معاف نہ کردے"-  

سیدھے سادھے دماغ والے لوگوں کے لئے اس حدیث کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں-  نہایت سادہ الفاظ ہیں اور رسول الله صلی الله علیہ وسلّم کی باتیں ذو معنی نہیں ہوتی تھیں کہ کہا کچھ اور مطلب کچھ اور کہ دوسرا پاگل ہی ہو جاۓ سمجھتے سمجھتے- 

اس سے کہیں یہ مطلب نہیں نکلتا کہ الله نے اجازت دے دی ہے کہ اسکے حقوق پورے کرو یا نہ کرو لیکن اسکے بندوں کے حقوق ضرور پورے کرو-  گویا کہ الله نے بلاوجہ نماز روزے فرض کر دیے- کرو کرو ، نہ کرو نہ کرو-  کوئی فکر کی بات نہیں- 

سیدھی سی وضاحت ہے کہ الله کے حقوق بھی پورے کرنے ہیں اور اسکے  بندوں کے وہ حقوق جو خود الله نے مقرّر کئے ہیں-  لہٰذا عام لوگوں کو جو بات معلوم ہونی چاہیے وہ یہ کہ ان پر کس کے حقوق کس حد تک ہیں اور انکے حقوق کس پر کس حد تک ہیں-  نہ تو وہ کسی کے حقوق ماریں اور دوسروں کو جذباتی بلیک میلنگ کریں اور نہ ہی کسی دوسرے کو اپنا حق مارنے کی اجازت دیں-  عام لوگ خود تو وہ علم حاصل کرتے نہیں اور جب انکی اپنی جہالت کی وجہ سے بات بگڑنے لگتی ہے تو بھاگتے ہیں علماء اور مولویوں کے پیچھے-  دنیا کے سارے کام اپنی مرضی سے کریں گے اور جواز کے لئے علماء اور مولویوں کا سہارا-  اور علماء اور مولوی بھی بے چارے انسان ہی ہیں خطا کے پتلے-  وہ سیکنڈز میں یہ بھانپ لیتے ہیں کہ آنے میں والوں میں سے بااختیار کون ہے بس گھما پھرا کر اسی کے حق میں فیصلہ دے دیتے ہیں-  مال بھی مل جاتا ہے تعریف بھی ہو جاتی ہے-  یہی معیار پاکستان کی سپریم کورٹ اور عدالتوں کا بھی ہے- 

علماء ہوں یا مولوی یا لبرل دانشور-  عقل کسی مدرسے یا کالج یونیورسٹی کی سند کی محتاج نہیں-  الله نا انصاف نہیں کہ صرف چند لوگوں کو عقل کا ڈنڈا دے کر باقی کو انکے بھیڑ بکریاں بننے کا حکم دے دے-  یہ عقل اور حکمت انسانی تفکّر و تدبّر و تجربہ سے خود بخود ہر ایک کو ملتی ہے-  استعمال کرنا یا نہ کرنا انسانی کی اپنی مرضی ہے-  

یہ تو خیر ایک المیہ ہے-  لیکن اس میں لطف پیدا کیا ہے نام نہاد لبرلز نے-  ان میں سے شاید اکثر کو یہ بھی نہ معلوم ہو کہ جس نے یہ حدیث کہی ہے اس شخص کا نام کیا ہے یا حدیث کہتے کسے ہیں-  لیکن مزے کی بات ہے کہ صرف ایک اس حدیث پر انہوں نے اپنی تمام طرز زندگی اور طرز معاشرت کی بنیاد رکھ دی ہے-  اور اکثر دینی لوگوں سے مقابلے کیلئے بھی اسی حدیث کا استعمال کرتے ہیں-  کہ گویا دینی لوگ بندوں کے حقوق مارتے ہیں اور دوسروں پر ظلم کرتے ہیں-  بندوں کی خوشی اور حقوق انسانیت کے نام پر کس طرح پورے کرتے ہیں یہ لبرلز، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے-  انسانوں کا جھوٹا کھانے میں جراثیم اور بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں انکے لئے اور کتے بلی کا جھوٹا کھانے میں انسانیت-  اپنے بچوں کو الگ کمرے میں سلائیں گے اور کتے کو اپنے ساتھ-  دادا دادی نانا نانی امّاں ابّا کے لئے وقت نہیں ہوتا انکے پاس، کتے کو صبح ٹہلانے کے لئے وقت نکالنا تہذیب اور انسانیت ہے- 

جنکو دین اور دینی ذمّہ داریوں سے بچنا ہوتا ہے وہ فورا یہ حدیث بیان کرکے کہتا ہے کہ دیکھو الله اپنے حقوق معاف کردے گا لہٰذا ہمیں بندوں کو خوش رکھنا ہے کیونکہ انکی خوشی اہم ہے-  اور ذرا ان لبرلز سے یہ تو پوچھیں کہ بندوں کے حقوق کہتے کسے ہیں اور انہیں کس طرح پورا کیا جاتا ہے- 

اور یہی تو الله نے کہا ہے قرآن میں کہ قیامت کے دن ماں باپ بہن بھائی دوست رشتہ دار سب خود غرض بن جائیں گے اور چاہیں گے کہ خود کو آگ سے بچنے کے لئے دوسروں کو آگ میں پھنکوا دیں-  انسان کی تعریف جو الله نے قرآن میں بیان کی ہے وہ ہے ہی ساری کی ساری منفی سواۓ اس کے جو قرآن و حدیث کے مطابق عمل کر لیں-  

اگر واقعی ان کی یہ تشریح درست ہے اور انسان اتنا ہی انسان کی خوشیوں کا خیال رکھ رہا ہے تو اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ امن اور خوشحالی ہونی چاہیے-  کیونکہ ہر کوئی ہر کسی کا خیال رکھ رہا ہے، ہر کوئی حق پر ہے، ہر کوئی خوش اخلاق اور با حیا ہے-  انسانی تاریخ میں جتنے خیراتی ادارے آج ہیں کبھی نہیں تھے-  پاکستانی قوم دنیا میں سب سے زیادہ خیرات دینے والی قوم ہے-  سب سے اعلی خاندانی نظام پاکستان میں ہے-  رسول الله نے تو ایک بھی خیراتی ادارہ نہیں بنایا تھا ساری کی ساری ذمّہ داری حکومت کی ہوتی تھی-  اور اعلی خاندانی نظام یہ تھا کہ کوئی بلاوجہ کسی کے گھر یا زندگی میں مداخلت نہیں کرتا تھا-  

اسی ایک حدیث کے بل پر ہم دوسروں کو بلیک میل کرکے اپنے کام نکلوالیتے ہیں کہ تمھاری نمازوں اور روزوں کا کوئی فائدہ نہیں اگر تم مجھے خوش نہ رکھ سکے اور میری فرمانبرداری نہیں کی-  اور پھر وقت پڑنے پر دوسرے ہمیں بلیک میل کر رہے ہوتے ہیں-  وہ جو دوسروں کے لئے کچھ کر جاتے ہیں یا کر رہے ہوتے ہیں بالآخر اخلاقیات کے بوجھ تلے تھک کرشکایتیں کر رہے ہوتے ہیں یا پھر افسوس کہ ہو کیا رہا ہے-  

اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ بہت سی دینی کتابوں میں اور خود دینی علماء کے مطابق حقوق دو قسم کے ہوتے ہیں-  ایک الله کے حقوق اور دوسرے اسکے بندوں کے حقوق اور پھر بندوں کے حقوق کے مختلف روپ-  عام انسان خود کو دوراہے پر کھڑا محسوس کرتا ہے کہ آیا وہ ہر وقت نمازیں اور قرآن پڑھتا رہے یا پھر گھر، خاندان اور معاشرے کی ذمّہ داریاں نبھاۓ-  جو کرے اسکے دل میں ایک کھٹکا سا ہوتا ہے کہ وہ کون سا کام غلط کر رہا ہے اور کون سا صحیح-  بہت سے نوجوان اور جوان اس بحث سے گھبرا کر کہ کون صحیح ہے کون غلط-  سب کچھ چھوڑ دیتے ہیں اور جو انکا دل چاہتا ہے کرتے پھرتے ہیں-  

اور انجام اس وضاحت کا یہ ہوا کہ دینی انتہا پسند اور دنیاوی انتہا پسند-  دونوں نے اپنا اپنا ملاکھڑا شروع کررکھا ہے-  اور اس بحث میں الجھا کر دین اور حقوق دونوں کا بیڑا غرق کردیا ہے-  ایک گروپ بندوں کی نفی کررہا ہوتا ہے اور الله کے طرف سے دیے ہوۓ اختیارات بھی ان سے چھین لیتا ہے تو دوسرا الله اور رسول کے احکامات کی نفی کر رہا ہوتا ہے سواۓ اس حدیث کے-  اور اسطرح اپنی من پسند دنیا کے لئے جواز فراہم کرتا رہتا ہے- اور ساتھ ہی الله کی قائم کی ہوئی حدوں کو بھی توڑتا رہتا ہے- 

میں سالوں ان تمام مسائل سے نہ صرف پریشان رہی بلکہ الله سبحانہ و تعالی سے خفا بھی کہ یہ کیا نا انصافی ہے-  کس قسم کا دین آپ نے مجھ پر مسلّط کر دیا ہے-  مجھے یہ سمجھ ہی نہیں آتی تھی کہ دین تو سیدھا سادھا ہے ہم خود ٹیڑھے دماغ کے ہیں-  الله بھلا کرے ان ہزاروں لوگوں کا جنہوں نہ جانے انجانے میں الله کی حکمت کا چراغ بن کر میری رہنمائی کی-  الله خود زمین پر نہیں اترتا لیکن اسکی کائنات اسکے اختیار میں ہے اور اس میں سے جس عنصر کو جب چاہے کسی کی رہنمائی کا وسیلہ بنادے-  یہ اسکے کام ہیں-  میں الله کی زمین میں سفر نہ کرتی تو ان لوگوں سے ملاقات بھی مشکل تھی اور ان سے سیکھنا بھی اور ذہن کا کھلنا بھی- 

قرآن کی ایک سورہ ہے "سورہ الاخلاص"-  جو کہ قرآن کا ایک تہائی کہلاتا ہے کیونکہ اسلام کے تین بنیادی جزو یعنی ایمان باللہ ، ایمان بالرسل اور ایمان بالآخرہ میں سے ایک ا"ایمان باللہ" س میں بیان کیا گیا ہے-   

"شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے-  کہو کہ الله ایک ہے-  الله بے نیاز ہے-  نہ اس نے ہرگز کوئی بیٹا جنا اور نہ وہ ہرگز کسی کہ بیٹا ہے-  اور ہرگز نہ کوئی (اسکے جیسا) اسکا ہمسر (برابری) کرنے والاہے"-  
سورہ الاخلاص 

اس سورہ پر میرے ایمان کے مطابق اگر الله کی ذات میں برابری نہیں، صفات میں برابری نہیں تو حقوق میں بھی کوئی برابری نہیں-  اس کائنات میں صرف ایک ہی حق ہے اور وہ ہے الله-  اور الله کا حق ہی تمام حقوق کا مجموعہ ہے-  اور یہی فرق ہے بنیادی طور پر اسلام میں دوسرے مذاہب میں-  دوسرے مذاہب میں مذہب الگ ہے دنیا الگ-  مذہبی رسومات کے لئے دن اور موقع مقرّر ہیں اور پھر اپنی ایک الگ زندگی-  مذہبی لوگوں کی ایک مخصوص جگہ یعنی کہ عبادت گاہیں جب پر انکا قبضہ ہوتا ہے اور دنیاوی لوگوں کے لئے باقی زمین کے حصّے-  جبکہ اسلام میں دین اور دنیا ایک ہی ہیں-  اسلام میں مسجد کسی مولوی اور عالم کی میراث نہیں کہ وہ اپنے فرقے کے نام پر عبادت گاہ بناۓ اور اس پر اپنے فرقے کے امراء اور حکماء کی راجدھانی قائم کرے-  اور ہوتا یہ ہے کہ مسجھ کو الله سے چھین کر اپنے اپنے علماء اور مولویوں کے حوالے کرنے سے لبرلز اور اسلام کے دشمن زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں-  اور اسلام کو بدنام کرتے ہیں-  مسجد الله کا گھر ہے جس پر ہر مرد و عورت کا حق ہے الله کی مقرّر کی ہوئی حدود کے مطابق-  

"نہیں پیدا کیا ہم نے جن و انس کو مگر صرف اسلئے کہ وہ میری عبادت کریں"-  سورہ الذّاریات 

جسطرح مسجد الله کی ہے اسی طرح ہر جگہ، ہر ملک اور ہر شہر الله کا ہے-  اور دن رات کے چوبیس گھنٹے بھی الله کے ہیں-  لہٰذا اس قرآنی آیت کے مطابق انسان کا ہر پل الله کی اطاعت میں گزرنا چاہیے-  اور دین و دنیا کے الگ الگ فلسفے کا فساد یہ ہونے نہیں دیتا-  

الله کی ذات کے مقابل کوئی ذات نہیں- الله کے حق کے مقابل کوئی حق نہیں-  

الله کی عبادت کا کیا مطلب ہے الله کی بات ماننا-  الله کا حق چوبیس گھنٹے کا ہے لہٰذا چوبیس گھنٹے اسکی بات ماننا-  اور اس حق کو ادا کرنے کے خود الله سبحانہ و تعالی نے دو طریقے وضع کئے ہیں-  ایک براہ راست طریقہ جسے "عبادت" کہتے ہیں اور دوسرا غیر براہ راست طریقہ یعنی اسکی پیدا کی ہوئی چیزوں کے حقوق یا سیدھے اور سادے الفاظ میں دیکھ بھال-  تو چوبیس گھنٹے اسکی عبادت میں گزارنے کا مطلب ہے دونوں یعنی براہ راست اور غیر براہ راست طریقوں سے اسکا حق ادا کرنا-  

الله کے حق کو براہ راست ادا کرنے کا طریقہ ہیں براہ راست عبادات-  چوبیس گھنٹے میں پانچ فرض نمازیں، سال میں انتیس یا تیس دن رمضان کے روزے، سال میں ایک مرتبہ زکواة اگر اتنا مال بچ گیا ہے، زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ حج اگر تمام شرائط پوری ہوتی ہوں تو-  اسکے علاوہ قرآن کی تلاوت، قرآن پر غور و فکر-  الله کر ذکر و تسبیحات- آخرت میں ان سب کا احتساب ہوگا-  

الله کا غیر براہ راست حق ادا کرنے کا طریقہ غیر براہ راست عبادات-  یعنی ماں باپ کا حق، بہن بھائیوں کا حق، اولاد کا حق، بیوی کا حق، شوہر کا حق، میکےکا حق، سسرال کا حق، رشتہ داروں کا حق، پڑوسیوں کا حق، اساتذہ کا حق، طالبعلموں کا حق، جانوروں کا حق، پھول پودوں کا حق، پھلوں اور سبزیوں کا حق، راستوں کا حق،  پانی کا حق، ہوا کا حق، استعمال کی چیزوں کا حق، وغیرہ وغیرہ-  یہ سب بھی الله کی عبادت کا ہی حصّہ ہے اور اس عبادت کا احتساب بھی ہے-  

نماز کے وقت نماز پڑھ لی الله کا حق ادا ہوا-  اسکے اگلے لمحے بھی الله کا حق جاری ہے-  کیونکہ شاید ماں نے اپنے بچوں کو کھانا دینا ہے یا باپ نے اپنے والد کی دوا لانی ہے یا استاد نے اپنے طالبعلموں کے لئے ریسرچ کرنی ہے یا بہن نے بھائی کے کپڑے استری کرنے ہیں یا بھائی نے بہن کے لئے چاٹ لانی ہے یا پھر دادا نانا کو اخبار پڑھ کر سنانا نے یا پھر محلّے میں کسی کی مدد کی ضرورت ہے یا پھر گھر والوں کے لئے بستر لگانا ہے-   ان سب کاموں کا صلہ بھی تو الله ہی نے دینا ہے- 

کتاب پڑھنا، کمپیوٹر پر کام کرنا، گھر بنانا، فرنیچر بنانا، کھانا پکانا، کپڑے دھونا، نقصان دہ کیڑے مکوڑے مارنا، گھر صفائی رکھنا، مکڑی کے جالے ہٹانا، چادریں تکیے دھونا،  کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونا، برتن دھونا، کسی کو پانی پلانا، کسی کو کھانا کھلانا،کسی کے لئے سوپ بنادینا، کسی کو کپڑے پہنانا، کسی کے کام میں مدد کرنا، راستے سے نقصان دہ چیز ہٹانا، راستے میں نہیں تھوکنا، کوڑا نہ پھینکنا، قطار میں کھڑا ہونا، اپنی باری کا انتظار کرنا، گاڑی احتیاط سے چلانا، دروازے پر دستک دینا، چیزوں کو آہستہ نرمی سے اٹھانا اور رکھنا-  اور پتہ نہیں کیا کیا-  ہزاروں لاکھوں کام ہی ہیں اور اگر الله کا تصور ذہن میں رکھ کر اسکی خوشی کے لئے کیے جائیں تو عبادت بھی- 

اصل ایمان الله کے حق کے ان دونوں طریقوں میں توازن قائم رکھنا ہے-  اور یہ کسی سائنسی فارمولے کے تحت نہیں ہوتا-  کسان کے لئے کھیتی پر توجہ دینا عبادت ہے کیونکہ اس کے ذریعے لاکھوں لوگوں کا رزق ان تک پہنچتا ہے-  ان کو حقیر سمجھنے والے خود اپنے رزق کا دروازہ بند کرتے ہیں-  اساتذہ پر علم پر توجہ دینا لازمی ہے کیونکہ انکے ذریعے لاکھوں انسانوں نے صحیح فہم و تدبّر سیکھنا ہوتا ہے-  جمعدار اگر سیٹھ بن جاۓ تو سارے سیٹھوں کو جمعدار بننا پر جاۓ-  ہرمرد جہاد نہیں اور نہ ہی عالم بن سکتا ہے-  ہرعورت نہ چاند بی بی یا رضیہ سلطانہ ہو سکتی ہے اور نہ امراؤ جان ادا یا ثریا بھوپالی-  الله نے ہر ایک کی زندگی کی آزمائشیں اور حالات انفرادی بھی رکھے ہیں اور اجتماعی بھی-  انکو انفرادی طور پر اجتماعی طور حکمت کے ساتھ  بسر کرنا ہی صلاحیت ہے-   ہر ایک کو بلاوجہ اس آزادی کی راہ دکھانا جس کی نہ اسے تمنّا ہو نہ اہلیت بھی ایک فساد کھڑا کرنا ہے-  اگر الله کے بتاۓ ہوۓ طریقوں کو خود سمجھیں تو نہ کوئی کسی کا فائدہ اٹھاۓ اور نہ کوئی کسی سے نقصان-  

حقوق کا پورا کرنا عدل ہے- ہم حقوق میں ہیرا پھیری کرتے ہیں اپنے  اور یہی ظلم ہے-  جس کی سزا ہم سب بھگت رہے ہیں-  

رسول الله نے فرمایا کہ "گناہ وہ ہے جو تیرے دل کو کھٹکے"- 

اسی بات کو علامہ اقبال نے س طرح فرمایا کہ 
پوچھ اس سے کہ مقبول ہے فطرت کی گواہی 
تو صاحب منزل ہے کہ بھٹکا ہوا رہی 

دل کی گواہی مقبول ہوتی ہے-   کبھی کسی وقت سارے انسانوں کو، انکے الفاظ کو، انکے طریقوں کو ذہن سے نکال کر صرف اپنے دل سے پوچھیں کہ
"بتا تیری رضا کیا ہے"-