Thursday, 19 March 2020

عشق کے سجدے

وہ دھوپوں میں تپتی زمینوں پہ سجدے
سفر میں وہ گھوڑوں کی زینوں پہ سجدے
چٹانوں کی اونچی جبینوں پہ سجدے
وہ صحرا بیاباں کے سینوں پہ سجدے
علالت میں سجدے مصیبت میں سجدے
وہ فاقوں میں حاجت میں غربت میں سجدے
وہ جنگوں جدل میں حراست میں سجدے
لگا تیر زخموں کی حالت میں سجدے
وہ غاروں کی وحشت میں پُر نور سجدے
وہ خنجر کے ساۓ میں مسرور سجدے
وہ راتوں میں خلوت سے مامور سجدے
وہ لمبی رکعتوں سے مسحور سجدے
وہ سجدے محافظ مدد گار سجدے
غموں کے مقابل عطردار سجدے
نجات اور بخشش کے سالار سجدے
جھکا سر تو بنتے تھے تلوار سجدے
وہ سجدوں کے شوقین غازی کہاں ہیں؟ ؟
زمیں پوچھتی ہے نمازی کہاں ہیں؟؟؟؟

ہمارے بجھے دل سے بیزار سجدے
خیالوں میں الجھے ہوے چار سجدے
مصلے ہیں ریشم کے بیمار سجدے
چمکتی دیواروں میں لاچار سجدے
ریا کار سجدے ہیں، نادار سجدے ہیں،
بے نور، بے ذوق ، مردار سجدے
سروں کے ستم سے ہیں سنگسار سجدے
دلوں کی نحوست سے مسمار سجدے
ہیں مفرور سجدے ہیں مغرور سجدے ہیں
کمزور ، بے جان ،معذور سجدے
گناہوں کی چکی میں ہیں چُور سجدے
گھسیٹے غلاموں سے مجبور سجدے
کہ سجدوں میں سر ہیں بھٹکتے ہیں سجدے
سراسر سروں پر لٹکتے ہیں سجدے
نگاہ خضوع میں کھٹکتے ہیں سجدے
دعاؤں سے دامن جھٹکتے ہیں سجدے
وہ سجدوں کے شوقین غازی کہاں ہیں؟؟
زمیں پوچھتی ہے نمازی کہاں ہیں؟؟؟؟

چلو آؤ کرتے ہیں توبہ کے سجدے
بہت تشنگی سے توجہ کے سجدے
مسیحا کے آگے مداوا کے سجدے
ندامت سے سر خم شکستہ سجدے
رضا والے سجدے، وفا والے سجدے
عمل کی طرف رہنما والے سجدے
سراپاِ ادب التجا والے سجدے
بہت عاجزی سے حیا والے سجدے
نگاہوں کے دربان رو دار سجدے
وہ چہرے کی زہرہ چمک دار سجدے
سراسر بدل دیں جو کردار سجدے
کہ بن جائیں جینے کے اطوار سجدے
خضوع کی قبا میں یقین والے سجدے
رفا عرش پر ہوں زمیں والے سجدے
لحد کے مکین ہم نشیں والے سجدے
ہو شافع محشر جبین والے سجدے
وہ سجدوں کے شوقین غازی کہاں ہیں ؟؟؟؟
زمیں پوچھتی ہے نمازی کہاں ہیں !!!!

Sunday, 15 March 2020

جمہوریت

مغربی جمہوریت اور اسلامی جمہوریت 

بظاہر نظر آنے والا بہت تھوڑا سا فرق اصل میں بہت گہرا ہے- 

بچپن میں قیامت کی جن نشانیوں کو پڑھ کر سوچتے تھے کہ پتہ نہیں کون سا زمانہ ہوگا اور کون سے لوگ ہونگے جو ان حالات سے گزریں گے جو کہ احادیث میں بیان کیے گۓ ہیں-  جیسے جیسے بڑے ہوتے گۓ اور سمجھ آتی گئی تو معلوم ہو گیا بلکہ یقین آگیا کہ وہ زمانہ تو شروع ہو چکا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی رسالت اور ختم نبوّت کے اعلان کے ساتھ ہی-  

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے اپنے ہاتھ کی دو انگلیاں ملاتے ہوۓ فرمایا کہ 
"میں اور قیامت اس طرح ہیں"-  

بات بڑی سادہ سی ہے کہ جب ہدایت مکمّل ہو گئی یعنی قرآن فائنل ایڈیشن بن گیا انسانی زندگی کے مینول کا تو مزید کسی نئے ہادی کی ضرورت بھی نہیں رہی لہٰذا رسول اللہ خود بخود خاتم النبیّین ڈکلئیراورختم الرسل ہو گۓ-  نبی یعنی خبریں پہنچانے والا-  رسول یعنی پیغام پہنچانے والا-  

مدینہ کی حکومت شاید دنیا کی پہلی حکومت تھی جسے جمہوری حکومت کہا جاسکتا ہے-  اس سے پہلے بادشاہ ہوتے تھے-  عسکری حکمران ہوتے تھے-  طاقتورکی حکمرانی ہوتی تھی-  عوام کی مرضی کا تو سوال ہی نہیں تھا-

مکّے کے بعد طائف کے شہر میں تبلیغ کے نتیجے میں بدترین صورتحال کا سامنا کرتے ہوۓ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی زبان مبارک سے اللہ کے حضورجوفریاد نکلی تھی اسکا جواب بہت شاندار تھا-  جلد ہی مدینے سے وفد آتا ہے یہ خبر لے کر کہ مدینے کے عوام کی اکثریت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کو اپنا بادشاہ بنانے کے لئے تیّار ہے-  اور پھر ہجرت ہوتی ہے اور پھر دنیا کی پہلی اسلامی خلافت یا ریاست مدینہ کی بنیاد ڈالی جاتی ہے-  اور یہ ریاست عوام کی مرضی سے بنی-  یقینا مدینے کے سمجھدار لوگوں نے اپنی عوام سے بات کی ہوگی- انکی راۓ لی ہوگی- صلاح مشورے کیے ہونگے-  بہت سوچ بچار کے بعد وہ رسول اللہ کے پاس آۓ ہونگے- کوئی تو فائدہ دیکھا ہوگا اس کمزور گروہ میں جو اپنے ہی شہر میں بے یارو مددگار، سیاسی، معاشی اور قانونی طور پر کمزور تھے-  

عوام کی مرضی سے بننے والی حکومت- عوام نے اپنا رہنما، اپنا حکمران چنا-  کوئی سیاسی جماعت نہیں بنی-  کوئی الیکشن نہیں ہوا-  کوئی مہم نہیں چلائی گئی-  کسی طاقت کا مظاہرہ نہیں کیا گیا- اخلاقیات کے سوا کوئی رول ماڈلنگ نہیں ہوئی جس میں سچائی تھی، امانت داری تھی، حکمت تھی، صبر تھا، احسان تھا، رواداری تھی، نرمی تھی، برداشت تھی، سادگی تھی، بھروسہ تھا، زبان کی پاسداری تھی، احترام تھا انسانوں کے لئے بھی اور جانوروں کے لئے بھی، رسول کی اطاعت تھی اور اللہ سے محبّت-  

جسکا مطلب تھا کہ مدینے کے عوام کی ترجیحات اپنے حکمران کے معاملے میں اخلاقیات کی تھیں-  

مکّے کے عوام بھی چالیس سال رسول اللہ کی ذات اور تیرہ سال رسول اللہ کی جماعت کے اخلاق کے گواہ تھے-  لیکن وہ اپنی زندگی اس کے مطابق گزارنے کو تیّار نہ تھے-  

جس عوام نے اپنے لئے بہترین لیڈر چنا وہ دس سال کے عرصے میں پورے عرب پر چھا گۓ-  معاشرتی اعتبار سے قابل بھروسہ اورپرامن, معاشی اعتبار سے خوشحال اورعسکری اعتبار سے بڑی قوّت بن گۓ-   

یہ تھی اسلامی جمہوریت-  عقلمند اور باشعور لوگوں کا اپنے حکمران کو منتخب کرنا- 

اور جس عوام نے اس بہترین لیڈر کو ریجیکٹ کر دیا تھا وہ آٹھ سال بعد اسی شخص کی کمانڈ میں فتح کر لئے جاتے ہیں-  

مسلمانوں کا عروج اور انکی آزادانہ روش دیکھتے ہوۓ مغربی دنیا نے بھی جمہوریت کو اپنانہ شروع کیا-  لیکن شیطانی سوچ رکھنے والی قوّتوں نے اسے اپنا ہتھیار بنا لیا-  اور اپنے فلسفے اور اپنے نظریات کے تسلّط کے لئے "جمہوری طرز حکومت" پر زور دینا شروع کردیا-  

اور اب بقول اقبال 
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں 
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

سب برابر ہیں-  ہر ایک کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہے-  جس کو اپنے حقوق کے نہیں پتہ-  جسے اپنی ہی زندگی کے فائدے نقصان کے نہیں پتہ-  جس میں کوئی حکمت اور دور اندیشی نہیں-  جو اپنے گھر اور خاندان کے معاملات کو سلجھانے کا اہل نہیں-  جو اپنے ذاتی فائدے کے لئے سرکاری اداروں کو رشوت دے کر جھوٹے لائسنز، کاغذات اور پتہ نہیں کیا کیا بنوالیتا ہے-  جو جھوٹی گواہی دے دیتا ہے-  جھوٹا حلف لے لیتا ہے-  نہ بڑوں کا ادب کرے نہ بچوں سے شفقت کرے-  جس نے کہ مسجد سے مدرسے تک کی ڈور کو کل اسلام سمجھ لیا ہے-  جن کے خطبات اور دروس کا موضوع صرف خواتین ہوتی ہیں-   جو ابھی تک بچوں کے ریپ کیسز میں پکڑا نہیں گیا ہے-  جس نے کہ ملاوٹ اور مضر صحت اشیاء بنا بنا کر اور کھلا کھلا کر اپنی ہی قوم کی صحت کا بیڑہ غرق کیا ہے-  جو خود اپنے لئے اور اپنے گھر والوں کے لئے صادق و امین نہیں-  
اس سے قوم کی تقدیر کے فیصلوں میں شامل ہونے پر زور ڈالا جاتا ہے-    
یہ ہے مغربی طرز حکومت-

کسی قوم سے جس قسم کے حکمران کے لئے ووٹ لینے ہوں پہلے اس قوم کو ان برائیوں میں مبتلا کردو-  یہ ہے مغربی جمہوریت- 

کسی قوم میں مساوات کا خنّاس بھر دو-  انسانی اقدار سے آزادی کا بھوت سوار کرادو-  اور پھر اسے الیکشن میں ووٹ کا حق دو-  یہ ہے مغربی جمہوریت-  

شیطانی قوّتوں نے بڑی باریکی کے ساتھ انسانی تاریخ پڑھی ہے-  حضرت عیسیٰ علیہ السّلام جنکی پہچان اس وقت بھی شرم و حیا اور مروّت تھی- انکی کی قوم کی ہمدردیاں انکے ساتھ ضرور تھیں لیکن وہ اطاعت بادشاہ کی ہی کرتے تھے طاقت وہ بادشاہ کی بنے ہوۓ تھے-  اس لئے حضرت عیسیٰ انکے مطابق قتل کردئیے گۓ-  لہٰذا اب مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق آ بھی جائیں تو ان کی وہی پرانی تعلیمات کون قبول کرے گا-  کیونکہ مغربی طرز جمہوریت کے مطابق تو دنیا کی اکثریت دجال کو ووٹ ڈال چکی ہوگی-  لہٰذا اپنی عقل کے مطابق انہوں نے حضرت عیسیٰ کو شکست دینے کا انتظام کر رکھا ہے-  نئی دنیا، نیا کلچر، نیا نظام-  اور ساری دنیا کے انسان اس نئے نظام کے نیچے-  

اسی لئے پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف جو جنگ جاری ہے جس میں ہر جگہ مسلمان کچلے جا رہے ہیں-  اپنے سیاسی اور معاشرتی حقوق سے محروم کئے جارہے ہیں-  تقسیم کیے جارہے ہیں الگ الگ رکھے جارہے ہیں-  اسکی وجہ یہی ہے کہ یہ کہیں عیسیٰ علیہ السّلام کی طاقت نہ بن جائیں-  

لیکن ایسا ہوگا- 

اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سے پہلے خاص طور پر مسلمان دنیا میں بادشاہتوں کا خاتمہ ہوگا-  جیسا کہ سعودی عرب میں شروع ہو چکا ہے-






Sunday, 1 March 2020

دہلی فسادات

قائداعظم نے ہندوستان کو توڑ دیا-  قائداعظم نے صدیوں مل کر رہنے والے ہندو مسلمانوں کو تقسیم کردیا-  قائداعظم کی وجہ سے ہزاروں مسلمان قتل ہوۓ-  ظاہری حلیے کی وجہ سے دینی لوگ کہیں کہ قائداعظم انگریزوں کے ایجنٹ تھے-  اور لبلرز انکی اسلامی تحقیق چھپانے کے لئے انکی خاص تقریروں کے حصّے دلیل کے طور پر پیش کریں کہ پاکستان کو اسلامی ملک نہیں ہونا چاہیے-  بلکہ ایک سیکولر ملک ہونا چاہئے-  

سمجھ نہیں آتا کہ پچھلے کئی دھائیوں سے ایسی باتیں کرنے والے لوگ آج کس طرح دہلی میں ہونے والے ظلم کو جسٹیفائی کریں گے-  کس طرح دہلی کے مسلمانوں کو اور بھارت کے مسلمانوں کو کیا مشورہ دیںگے اور کس نظریہ اور کس فلسفے کے تحت ان مسائل اور فسادات کا حل نکالیں گے-  اور اگر بھارت کے مسلمان آج یہ سوچ کر کہ ہندؤں کے ساتھ گزارا نہیں ہو سکتا لہٰذا ایک الگ ریاست کا مطالبہ کرتے ہیں تو کیا انکی مخالفت کریں گے؟  

سالوں پاکستان، نظریہ پاکستان اور قائداعظم کے خلاف زہر اگلتے لوگ اور وہ بھی مسلمان-  اور وہ بھی دونوں جانب-  یعنی پاکستان میں بھی اور بھارت میں بھی-  اور ١٩٤٧ اور اس کے پہلے سالوں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے فسادات کو جھٹلانے والے لوگ- اور وہ بھی مسلمان-   

اور پھر پاکستان میں پیدا ہونے والی وہ نسلیں اور وہ بھی مسلمان نسلیں جنہوں نے ١٩٤٧ اور اس سے پہلے کے فسادات کو ایک افسانہ ایک کہانی سمجھا ہوا تھا-  اور انکی تمام ہمدردیاں بھارت کے ساتھ زیادہ اور پاکستان کے ساتھ صرف اس حد تک تھیں کہ یہاں سے جس حد تک فائدہ اٹھا سکتے ہیں اٹھا لیں-  

آج دہلی فسادات اور اس سے پہلے بھارت کے مختلف شہروں میں ہونے والے فسادات ان تمام لوگوں کو غلط ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں-  یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ پاکستان کن حالات میں بنا اور بنانا ضروری ہوگیا-  

یہ فسادات نظریہ پاکستان کی اہمیت بیان کرنے کے لئے کافی ہیں-  دو قومی نظریہ-  

اسلام نیا نہیں بلکہ دنیا کا سب سے پہلا دین اور سب سے پہلا مذہب تھا-  تمام انسان ایک ہی آدم کی اولاد ہیں جو کہ مسلمان تھے-  انکی اولادیں بعد میں اپنے اپنے مذہب، اپنے اپنے نظریہ ایجاد کرتی چلی گئیں-  تو اصولا تو دو قومی نظریہ اس وقت سے شروع ہوگیا تھا جب ابلیس نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نافرمانی کی تھی-  ایک قوم تھی آدم علیہ السلام کے رستے پر چلنے والے اور دوسری ابلیس کے رستے پر چلنے والی-  ایک جنّت میں جانے والی قوم اور دوسری جہنّم میں جانے والی قوم-  اور ابلیس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ انسانوں کو ہر جانب سے بہکاۓ گا-  اور اسکا کام ہی یہی ہے-  ابلیس کی زندگی کا کوئی اور مقصد ہے ہی نہیں-  انسانوں کو بھٹکانا-  

لیکن پھر اتنے عقلمند لوگ پیدا ہوگۓ جو انسانوں کو نہ صرف ایک جنس ماننے لگے بلکہ انکے مذہب و دین کے جدا ہونے کے بھی مخالف ہیں-  اور انکے خیال میں اصل مذہب انسانیت ہے-  سارے ادیان اور سارے مذاہب پرے کر کے صرف اور صرف انسانیت یعنی انسانوں کی نفسیات اور انسانوں کی بھلائی پر توجہ دی جاۓ-  مقصد ظاہر ہے روحانی نہیں بلکہ خالص دنیاوی اور مادّی تھا-  اور بقول قرآن انسان جلد حاصل ہونے والی چیز پر لپکتا ہے اور اس پر عقیدہ بھی رکھتا ہے-  لہٰذا اکثریت اس بہکاوے میں آگئی-  

اور تو اور ایسے ایسے مولوی پیدا ہو گۓ جن کے لئے اپنی ذاتی مفادات کے لئے اسی فلسفے کا استعمال کیا اور دین پیچھے کر کے فرقہ آگے کرلیا-   

اور ایسے ہی لوگوں اور ایسے ہی مولویوں نے تحریک پاکستان کی بھی مخالفت کی-  

پاکستانی تو بہتّر سال تک دنیا کو قائل نہ کرسکے-  اب جو فسادات بھارت میں ہو رہے ہیں وہ انکو نہ صرف آئینہ دکھانے کے لئے ہیں بلکہ دنیا کو قائل کرنے کے لئے ہیں کہ پاکستان صحیح بنا تھا-  یہ یقین دلانے کے لئے ہیں کہ علّامہ اقبال اور قائداعظم رحمة اللہ علیہما کے نظریات صحیح تھے-  تحریک پاکستان سچ تھی-  دو قومی نظریہ حق تھا- 

اور یہ کہ جسطرح اسلام جان لے کر نہیں، جان دے کر پھیلا- اسی طرح پاکستان جان لے کر نہیں جان دے کر بنا- 






Friday, 24 January 2020

دجالیت

ہر زمانے کی توحید-  اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات پہلے اور باقی سب اس سے نیچے-  

آج کے زمانے کا سب سے بڑا شرک، "مغربی طرز جمہوریت"-  انسان کا خود اپنے آپ کو، اپنی خواہشات کو، اپنے قوانین کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات، رضا اور قوانین کے مقابلے پر لا کھڑا کرنا-  اللہ پیچھے اور بندہ آگے-  اور اس کے لئے آلۂ کار بنی "دجالیت"-  

دجالیت کیا ہے؟  "انتہا درجے کی دھوکے بازی"-  اور اسکی شخصی علامت ہوگا "دجال" جس کے مطلب ہیں "انتہائی درجے کا جھوٹا اور دھوکہ باز"-  اور اسکے ظہور سے پہلے ساری دنیا دجالیت یعنی دھوکہ بازی کو اتنا پریکٹس کر چکی ہوگی کہ اسے "دجال" کے کردار میں کوئی اخلاقی خرابی نظر نہیں آۓ گی-  اور حقیقتا "مغربی طرز جمہوریت" کے ذریعے ہی اقتدار میں آۓ گا-  ایک حدیث کے مطابق تو یہ ایسا فتنہ ہوگا کہ مسلمان علماء تک اسکو سچ مان کر تسلیم کر لیں گے-   کوئی تو وجہ ہے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت کرپٹ حکمرانوں اور سیاست دانوں کو سپورٹ کرتی ہے-  کیونکہ یہی تو دجالیت کے آلۂ کار ہیں-  سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا کر کڑوروں کو گمراہ کرنے والے-  

روتے اس لئے نہیں کہ برکت ختم ہوگئی-  رونا یہ ہے مہنگائی زیادہ ہوگئی ہے- خرچے پورے نہیں ہو رہے- 
روتے اسلئے نہیں کہ احساس ختم ہو گیا-  رونا یہ ہے کہ کرپشن زیادہ ہوگئی- اور کہتے وقت یہ بھی نہیں سوچتے کہ اس بات کا مطلب کیا ہے کہ "کرپشن زیادہ ہو گئی ہے"-  

دجالیت-  یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے دنیا سے "گناہ" کے تصوّر کو تبدیل کردیا گیا ہے " جرم"سے-  اللہ کی نافرمانی "گناہ" ہے تو اسے اللہ اور بندے کا ذاتی معاملہ قرار دے دیا حالانکہ اللہ کی نافرمانی سے صرف انسان کی اپنی ذات پر اثر نہیں پڑتا بلکہ گلی محلّے شہر اور معاشرے بھی متاثر ہوتے ہیں-  اور انسانوں کے بناۓ ہوۓ قوانین کی خلاف ورزی "جرم" ہے تو اسکے لئے سزائیں مقرّر کر دی گئیں ہیں-  یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات پیچھے اور انسان کی ذات آگے-  جب ایسا ہو تو لوگوں کو زنابالرضا ہو زنابالجبر، گناہ نہیں لگتا بلکہ جرم لگتا ہے  لوگوں کو جعلی کاغذات بنوانا، رشوت لینا، سود پر لین دین کرنا، وغیرہ گناہ نہیں بلکہ جرم لگتا ہے-  جس سے نجات ممکن ہوسکتی ہے اگر دولت ہو، اختیار ہو، بااثر افراد سے تعلقات ہوں، اگر جج اور وکیل خرید لئے جائیں-  اور جرم وہ ہے جو ثابت کردیا جاۓ- 

دجالیت- جیسے شہادت اور انتہا پسندی کے تصوّرات کو تبدیل کردیا گیا-  اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات کے مطابق جئیں اور اسی کی خاطر جان دیں تو انتہا پسندی اور دہشت گردی-  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلّم کی عزت و ناموس پر آواز اٹھائیں تو شدّت پسندی اور دہشت گردی-   اور یہی سب کسی سیاسی یا دینی لیڈر کے لئےکیا جاۓ تو "شہادت"-  

دجالیت-  جو معاملات اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مکمّل اپنے ہاتھ میں رکھے ہیں اور انکی شرائط رکھیں ہیں- ان پر دعوے قائم کرکے بندوں کو اللہ کی ذات سے اپنی ذات کی طرف راغب کرنا-  بھوک مٹائیں گے، بیماریاں مٹائیں گے، سب کو گھر دیں گے، سب کو ملازمتیں دیں گے، سب کی زندگی بدل دیں گے-  خیراتی ادارے دس ہزار کو کھانا کھلانا شروع کرتے ہیں اور ایک سال بعد خوش ہو رہے ہوتے ہیں کہ اب وہ پچاس ہزار کو کھانا کھلا رہے ہیں حالانکہ یہ تو رونے کا مقام ہونا چاہئے انکے لئے کہ کس طرح بھوک مٹانے میں ناکام ہو گۓ-  یہ دعوے تو کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے بھی نہیں کئے حالانکہ ان کے پاس تو فرشتے اور روح الامین آتے تھے-  

دجالیت- "ترقی" کو کردار کی بہتری کے بجاۓ ظاہری مال و متاع کے حصول سے منسلک کردیا-  حالانکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلّم نے اخلاق ہی تو سنوارے تھے باقی ترقی تو اسکے اثر سے ہوتی چلی گئی-  تہذیب کو الفاظ سے نہیں بلکہ انگریزی زبان سے مشروط کر دیا-  صحت کو سنّت کا نہیں بلکہ میڈیکل سائنس کا محتاج بنا دیا-  معیشت کو زکواة کے بجاۓ سود اور اضافی ٹیکسز کے زیر اثر کردیا-  

دجالیت- سیدھے سادھے معاملات کو اپنے مفاد کے لئے توڑ مڑوڑ کر الجھا دینا- چاہے کاروباری معاملات ہوں، دینی معاملات ہوں، سیاسی معاملات ہوں یا گھریلو معاملات، تعلیمی معاملات ہوں، سماجی معاملات ہوں-  یا کچھ بھی-  لوگ اشتہارات دیکھ کر ہی چیزیں خریدتے ہیں-  اس میں کیا سچ ہوتا ہے-  کوئی دوائی اثر نہیں کر رہی-  کوئی اسکول علم نہیں پھیلا رہا-  کوئی والدین تربیت نہیں کررہے- 

دجالیت کا منطقی انجام-  ایک قوم خود اپنے ہی لیڈرز کے ہاتھوں برباد ہوتی ہے-  
ایک ہی گھر کے افراد ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں کرتے-  بچے اپنے ہی گھر کے بڑوں سے خوفزدہ اور غیر محفوظ ہوجائیں-  خواتین اپنے ہی معاشرے کے مردوں کے ہاتھوں ذلیل ہوتی ہیں-  ظلم، بے برکتی اور بے حسی بڑھتی ہے-  میڈیا اپنے ہی قوم میں مایوسی اور انتشار پھیلاتا ہے-  عوام ہی مہنگائی اور کرپشن کے نام پر ایک دوسرے کو لوٹ کھسوٹ رہے ہوتے ہیں-  

اور ہر شخص یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ انسانوں کے اس بڑا خیر خواہ اور معاشرہ کا اس سے بڑا مصلح کوئی ہے ہی نہیں چاہے وہ اسکے لئے کوئی بھی طریقه استعمال کرے- 

کیونکہ سب کو، سب کو کمانا ہے-  دولت، شہرت، اونچا رتبہ، عہدہ، اختیار.......
سب کو بڑا آدمی بننا ہے-  

Sunday, 17 November 2019

اسلامی ریاست الله کا وہ نور ہوتی ہے

"اور یہ چاہتے ہیں کہ الله کے نور کو اپنے منہ (پھونکوں سے) سے بجھا دیں 
مگر الله اپنا نور مکمّل کر کے رہے گا 
چاہے کافروں (جھٹلانے والوں) کو کتنا ہی برا کیوں نہ لگے"  
سورہ توبہ آیت ٣٢ 

ایک اسلامی ریاست الله کا وہ نور ہوتی ہے جو میزان یعنی قرآن یعنی عدل کو زمین پر قائم کرتی ہے-  

ریاست مدینہ - ایک عرب اسلامی ریاست جس میں قبائل بہت تھے لیکن سب کی مشترکہ زبان عربی تھی- اس لئے قرآن کا پیغام ایک بڑے اور اہم خطّے میں پہنچ گیا، سمجھا گیا اور بالآخر ذاتوں اور نسلوں کی بنیاد پر تعصب اور لڑائیوں کے خاتمے کا باعث بنا-   

ریاست مدینہ - فائنل ایڈیشن تھا ان تعلیمات کا جو براہ راست الله سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے انبیاء علیہم السلام کے ذریعے بھیجی جاتی رہیں-  وہ تعلیمات جن سے مکّے کے لوگوں کو ضد تھی اور وہ اپنی غلط عادتوں، غلط رویوں اور غلط سوچ پر اڑے رہنا چاہتے تھے اور جسے مدینے کے عوام نے خوش آمدید کہا کیونکہ وہ غلط کو غلط سمجھتے تھے اور اسے صحیح کرنا چاہتے تھے-  تو الله سبحانہ و تعالیٰ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلّم کے لئے آسانی پیدا فرمائی اور پہلی اسلامی آئینی ریاست کا آغاز مدینہ سے ہوا- 

ریاست مدینہ - کہ جب انسانی شیاطین کو یقین ہو گیا کہ چودہ سو سال میں درجہ بدرجہ عربوں کے زوال بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلّم اور انکا پیغام جڑ سے اکھاڑ پھینک دیا گیا ہے-  کسی نبی اور رسول کی آمد بھی متوقع نہیں-  مدینہ اب صرف روحانی فیض حاصل کرنے کی جگہ ہے-  وہاں سے کوئی سیاسی و عسکری قوّت جنم نہیں لے سکتی لہٰذا مسلمانوں میں اب کوئی طاقت باقی نہیں رہ گئی-  تو ریاست پاکستان وجود میں آگئی-  

"اور یہ چاہتے ہیں کہ الله کے نور کو اپنے منہ (پھونکوں سے) سے بجھا دیں 
مگر الله اپنا نور مکمّل کر کے رہے گا 
چاہے کافروں (جھٹلانے والوں) کو کتنا ہی برا کیوں نہ لگے"  
سورہ الصّف آیت ٨ 

ریاست پاکستان - جو تسلسل ہے ریاست مدینہ کا-  ایک غیر عرب اسلامی ریاست جو کہ تحریک پاکستان کے نتیجے میں وجود میں آئی-  اردو زبان جو کہ برّ اعظم ایشیا کی بہت سی قوموں کی مشترکہ زبان ہے علّامہ اقبال اور قائداعظم رحمة الله علیہا کی فکر اور پیغام کو پھیلانے کا ذریعہ بنی- اور بالآخر پاکستان ایک عجمی اسلامی ریاست کے طور پر وجود میں آیا اور بہت سی قوموں اور نسلوں کے لئے جاۓ پناہ بن گیا-  

ریاست پاکستان - نسلی اور لسانی طور پر غیرعرب شخصیات کی جدّ و جہد کا نتیجہ-  

ریاست پاکستان - جو کہ ایک سیاسی قوّت بھی ہے اور عسکری قوّت بھی-  

تحریک پاکستان جو کہ ابھی جاری ہے اور جسکی منزل ہے خلافت ارضی-  الله کی زمین پر الله کا نظام- ریاست مدینہ کے آئین یعنی قرآن و سنّت کے تحت قائم کیا گیا نظام- 

تحریک پاکستان اپنی منزل تک پہنچ کر رہے گی چاہے پوری پاکستانی قوم بھی اگر نواز شریف اور زرداری, الطاف حسین اور فضل الرحمان  کی طرح شیطان کا آلۂ کار بن کر اس میں رکاوٹیں ڈالے-  تب بھی یہ کام تو مکمّل ہو کر رہے گا- 

اور الله اسکے لئے اپنے بندوں کا انتخاب کرتا رہے گا- 

Sunday, 28 July 2019

دنیا کا منطقی انجام

آج سے چند سال پہلے قرآن کا علم رکھنے والے ایک عالم نے کہا تھا کہ "دنیا اپنے منطقی انجام کی طرف واپس آرہی ہے-" 

قرآن کے مطابق، 
"اس میں نشانیاں ہیں غور و فکر کرنے والوں کے لئے..." 

آج دنیا کے بہت سے لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ الله رب العزت کا کوئی وجود نہیں اور اگر ہے بھی تو بہت محدود-  اگر یہ دعویٰ سچا ہوتا اور لوگ خود بخود ایک ارتقائی عمل کے تحت زندگی گزار رہے ہوتے اور پھر مر کر مٹی میں مل جاتے اور پھر کچھ لوگ ان کی جگ لینے کے لئے پیدا ہو جاتے تو پھر سوچ اور اعمال کی واپسی کا سفر شروع نہ ہوتا بلکہ زندگی آگے سے آگے اپنے طریقے سے بڑھتی-  

لیکن ایسا نہیں ہے-  رب العزت موجود بھی ہے اور وہ بھی اپنے مکمّل اختیارات اور طاقت کے ساتھ-  

الله عزوجل نے انسان سے زبردستی اپنے آپ کو نہیں منوایا-  بلکہ آزادی دی سوچنے کی سمجھنے کی تجربات کرنے کی-  انسان کو ہر زمانے میں ڈھیل دی کہ وہ اپنی عقل اور اپنے حربے آزمالے اور خود اپنی مرضی سے، اپنے تجربات سے الله کی ذات، اسکے  کمالات،اسکی طاقت، اسکی صفات کو پہچانے-  اور یہیں انسان باقی تمام مخلوق سے ممتاز ہو جاتا ہے-  جو کہ سب بقول علّامہ اقبال رحمة الله علیہ "تقدیر کے پابند" ہیں-  

رسول الله صلّی الله علیہ وسلّم کے ذریعے ٹیکنالوجی کے دور اور صنعتی دور سے پہلے ہی انسان کو معاشرے کی اصلاح اور ترقی کے صحیح معنی سکھا دئیے-  

پھر انسان جب صنعتی دور میں اور ٹیکنا لوجی کے دور میں داخل ہوا تو اس نے اسی کو ترقی سمجھ لیا-  اشیاء کے جوڑ توڑ اور نۓ پن کو ترقی سمجھا اور جو اخلاقیات سکھاۓ گۓ انکو ترقی کی راہ میں رکاوٹ-  نتیجہ یہ نکلا کہ الله کی دنیا کو الٹ پلٹ کر کے بھی سکون اور خوشی سے محروم ہو گیا-  اور یہ سوچ کر کہ شاید مادّی چیزوں کے ڈھیر لگانے بے سکونی اور غم ختم ہو جائیں گے صرف اور صرف دنیا کمانے میں لگ گیا-  

لیکن بہرحال- کیونکہ اس کائنات کا رب موجود ہے اور غافل بھی نہیں-  اس نے انسان کو یادآشت بھی عطا فرمائی، معاملات کو سمجھنے، انکا موازنہ کرنے اور اس سے نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت بھی-  تو دنیا کے باشعور انسانوں نے نتیجہ نکالا کہ چودہ سو سال پہلے والا اسلام، چودہ سو سال پہلے والا اخلاق اور چودہ سو سال پہلے والے قوانین ہی دراصل صرف انسانیت کی ہی نہیں بلکہ کائنات کی روح بھی ہیں اور وہ اس لئے کہ الله عزوجل کی ہر تخلیق اور ہر مخلوق اکیلی کچھ بھی نہیں بلکہ ایک دوسرے سے جڑی ہوئی بھی ہیں اور ایک دوسرے کی محتاج بھی-  انسان میں اتنی طاقت نہیں کہ بھوکا رہ سکے بھوک مٹانے کے لئے وہ جانوروں اور پودوں کا محتاج ہے-  

صرف ایک الله سبحانہ و تعالیٰ کی مبارک ذات ہے جو ہر محتاجی سے پاک ہے-  

کیونکہ صرف انسانیت پر عقیدہ رکھنے والوں نے تو انسانوں کے مفادات کی خاطر ماحولیات کا بیڑہ غرق کردیا، درخت، پودے، پھول، پرندے، جانور، پانی، مٹی، پہاڑ، دریا، سمندر، سمندری مخلوق، سب کو برباد کردیا اور اب خود انسان پریشان ہے کہ کیا کرے-   

آج دنیا کے بہت سے بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک میں لوگ پرانی طرز زندگی پر واپس آ رہے ہیں-  چھوٹے گھر، خود گھروں میں اگایا ہوا کھانا، جانور پالنا، اپنے ہاتھ کی بنی ہوئی چیزیں استعمال کرنا-  سورج کی روشنی پر انحصار کرنا-  

ماس پروڈکشن کا دور ختم ہونے جارہا ہے-   چاہے وہ چیزوں کی پروڈکشن ہو یا اسکولوں میں بچوں کی تعلیم کی- 

لوگ ہوم اسکولنگ اور ایکٹیویٹیز کے ذریعے تعلیم کے عمل کی طرف راغب ہو رہے ہیں کیونکہ ڈگریوں نے اور ایک غلامانہ سوچ پر پڑھے لکھے لوگوں نے کسی کو کچھ  نہیں دیا-  ذاتی صلاحیتوں کے ذریعے زندگی گزارنے کا دور واپس آرہا ہے-  بہت جلد کلاس رومز تبدیل ہو جائیں گے ایسے کمروں میں جہاں ہنر سکھاۓ جائیں گے-  دنیا کے کچھ ممالک میں یہ عمل شروع ہو چکا ہے-

اور تعلیم کے نام پر جو بے سروپا نظام قائم کیا ہوا تھا بچوں کی زندگی ضائع کرنے کا- وہ نظام بھی آہستہ آہستہ اپنی موت آپ مر جاۓ گا-  کیونکہ اب تو بچوں کو بھی پتہ چل چکا ہے کہ جو لکھنے پڑھنے اور حساب کتاب کی صلاحیت وہ ایک مہینے میں حاصل کر سکتے ہیں اس پر پورا پورا سال اور دن کے بارہ چودہ گھنٹے ضائع کرنا فضول ہے-  اور اسکے با وجود بھی رزلٹ میں بچے فیل-  

حکومت کو بھی اور عوام کو بھی "قدرت کے تقاضوں" اور انسانی مزاج کے مطابق خود کو تبدیل کرنا چاہئے-  ورنہ یہ عمل خود بخود تو ہو ہی جاۓ گا-  

کیونکہ جتنا بھی تبدیل کرلیں-  ہر چیز اپنے اصل پر واپس پلٹ آتی ہے- 


Saturday, 23 March 2019

فرض اور نفل

شریعت میں فرض وہ کام یا اعمال ہیں جنکا آخرت میں احتساب ہوگا-  جبکہ نفل یا نوافل وہ کام جنکے بارے میں پوچھا نہیں جاۓ گا کہ کیوں نہیں کیے-  لیکن اگر کیے ہیں اور قبول بھی ہو گۓ تو انکا اجر ملے گا-  نوافل اعمال کرنا بری بات نہیں بلکہ بہترین عمل ہے لیکن شاید اس وقت جب اس سے پہلے فرائض ادا کیے جا چکے ہوں-  

مذہبی فرائض کی حد تک تو یہ فرق تقریبا سب کو معلوم ہے-  حالانکہ تب بھی اس پر عمل کم ہی کرتے ہیں-  لیکن روزمرّہ کی زندگی میں فرائض کی پہچان شاید ہی کسی کو ہو-    

پاکستان میں پانچ وقت کی نماز کی پابندی بہت کم لوگ کرتے ہیں حالانکہ اس میں مشکل سے دس منٹ صرف ہوتے ہیں-  جنکو نہیں پڑھنی وہ بڑے دلائل بھی دے دیتے ہیں-  جبکہ اس کی سخت پکڑ بھی ہے اوراسے اسلام اور کفر کے درمیان فرق بھی کہا گیا ہے-  اس کے برعکس شب معراج، شب برأت اور باقی نفل راتوں میں ساری ساری رات جاگنے کا اہتمام ہوتا ہے اور دوسرے دن چھٹی کا بہانہ بھی-  اور جاگنے والے اس کے حق میں بڑے بڑے دلائل بھی دیتے ہیں-  حالانکہ تعلیم، ملازمت، معاشرے میں امن امان، سرحدوں کی حفاظت، بیمار کی عیادت فرض ہیں ان راتوں کی عبادت کے مقابلے میں-  

اسی طرح قران کی تلاوت سے تلفّظ اور دیگر وجوہات کی وجہ سے اور مسنون اذکار سے دامن بچانے والے مولویوں اور عاملوں کے بناۓ ہوۓ بہت سے وظائف کا ورد کرتے نظر اتے ہیں-  اور اس کے حق میں بھی دلائل دے دیتے ہیں- 

صاحب نصاب ہوتے ہوۓ زکواة کا فرض ادا نہ کرنے والے آۓ دن صدقہ خیرات کرتے ہیں-  یا زکواة ادا بھی کی تو رشتہ داروں میں مستحقین تلاش کرنے کے بجاۓ دوسروں میں بانٹ دی-  اولیاؤں اور پیروں کے نام پر دیگیں پکوا کر بانٹتے ہیں-  یہ سوچے بغیر کہ اگر کسی معاشرے میں صاحب نصاب زکواة ادا کرنا شروع ہو جائیں تو وہاں بھوک اور مفلسی خود بخود دور ہو جاتی ہے-   

لوگ حج تو ایک مرتبہ کر لیتے ہیں لیکن پھر ہر سال اور کبھی تو سال میں کئی مرتبہ عمرہ بھی کرتے ہیں-  اور وہ بھی ان حالات میں کہ اس معاشرے میں ظلم و ستم جہالت  اور مفلسی کا راج ہو-  عمرہ تو نفل ہے جبکہ معاشرے سے ظلم و جہالت کا خاتمہ کرنا فرض ہے-  یہی تو سنّت رسول صلی الله علیہ وسلّم اور سنّت حسین ہے-  یہ ایک سے زیادہ حج اور عمروں کے پیسوں سے مقروضوں کا قرض اتارا جا سکتا ہے جسکی وجہ سے وہ جبری مشقّت اور غلامی کی ذلّت سہتے ہیں- 

جب دینی فرائض میں یہ حال تو عام زندگی میں کسی عدل کی توقع رکھنا فضول ہو جاتا ہے- 

اکثر اساتذہ خاص طور پر اگر وہ سرکاری ہوں (اس میں دینی اور غیر دینی دونوں شامل ہیں) اور اسی طرح اور بھی دوسرے سرکاری اداروں کے ملازم- تو اپنی اس ملازمت کو جسکی تنخواہ لے رہے ہیں ایک زحمت سمجھتے ہوۓ آۓ دن چھٹی کرتے ہیں مختلف بہانوں سے-  لیکن انہی بہانوں کے ذریعے وہ مخلتف جگہوں پر جوش و جذبے کے ساتھ مختلف سرگرمیوں میں حصّہ لیتے دکھائی دیتے ہیں-  یہ نہیں سمجھتے کہ یہ دھوکہ ہے-  جھوٹ ہے-  بےایمانی ہے-  یہاں لوگوں کو یہ نہیں سمجھ آتی کہ جب آپ ملازمت پر ہوتے ہیں تو باقی سب کام سواۓ نماز یا الله کی طرف سے جو براہ راست عبادتیں ہیں- نفل ہوجاتے ہیں اور ان تمام کاموں کو مینج کرنا آنا چاہئے-  اور ان سب کے انتظامات کرنا معاشرے کے بااختیار اور با شعور افراد کا فرض ہے-  

اسی طرح معاشرے میں بھوک بکرے کھلانے سے ختم نہیں ہوتی-  لوگوں کے معاش کا انتظام کرنا ہوتا ہے-  رسول الله صلی الله علیہ وسلّم کے زمانے میں لوگ باغ صدقہ کرتے تھے-  کنوئیں کھدواتے تھے-  آج کسی بھی خیراتی ادارے کو بکرے کے پیسے دے کر جان چھڑا لیتے ہیں-  اور یہ خیراتی ادارے آگے ایک بے لگے بندھے طریقہ کار کے تحت اپنی سمجھ کے مطابق لوگوں کی خدمت کرتے ہیں-  لیکن یہ نہیں جان پاتے کہ پھر بھی معاشرے میں بھوک و افلاس بڑھ رہا ہے اور جہالت اور جرائم عام ہو رہے ہیں- گندگی اور غلاظت بڑھ رہی ہے-  بکرے کھلانا فرض نہیں ہے لیکن آلودگی ختم کرنا اور ایسے انتظامات کرنا جس سے بیماریاں ختم ہوں یہ  فراز ہے- 

بہت ضروری ہے معاشرے کی اصلاح کے لئے کہ وہاں کے با شعور افراد اور بااختیار افراد لوگوں کی اخلاقی اصلاح کے ساتھ ساتھ انھیں مہذب طریقے سے جینا بھی سکھائیں اور جو وسائل اس پر خرچ ہونگے بلاشبہ وہ اس صدقہ و خیرات سے بڑھ کر ہونگے جس سے صرف ایک وقت کی بھوک ہی مٹتی ہے اور وہ بھی اکثر عزت نفس کی قیمت پر-  کاش یہ بات سیلانی اور دوسرے خیراتی اداروں کو سمجھ آجاۓ کہ کیوں رسول الله صلی الله علیہ وسلّم نے مکّہ اور مدینے میں خیراتی اداروں کے قیام بجاۓ حکومتی خزانے یعنی بیت المال کو مضبوط کیا- 

Thursday, 20 September 2018

کربلا

فرعون ہو، نمرود ہو، ابو جہل ہو، یزید ہو یا نواز شریف-  کسی بھی زمانے کے ظالم اور جاہل یہ نہیں چاہتے کہ کوئی عوام میں شعور بیدار کرے-  ہاں انکی شدید خواہش یہ ہوتی ہے کہ انکی اپنی ذات کو نشانہ بنایا جاۓ تاکہ ایک تماشہ لگے اور وہ عوام کو اپنے پیچھے لگائیں-  تقریریں ہوں-  جلسے ہوں-  ایک دشمنی کی ابتداء ہو-  کوئی مخالف ہو-  کوئی ہنگامہ ہو-  اس دوران حادثات ہوں جو انتقام کی بنیاد بنیں-  اور عوام کے دل و دماغ پر صرف یہ ظالم راج کریں یا تو نفرت کے ساتھ یا محبّت کے ساتھ-  

عوام وہ سیڑھی ہوتے ہیں جو اگر خود بدعنوان اور جرائم سے محبّت کرنے والے ہوں تو ان پر چڑھ کر کوئی بھی انسان فرعون بن سکتاہے-  جتنا ان حکمرانوں کو نشانہ بناتے رہیں اتنی ہی طاقت غافل اور خود غرض عوام سے ملتی ہے-  اور وہ کامیاب ہو جاتے ہیں-  

ظالم اور جاہل حکمران-  غافل اور خودغرض عوام-  ایسی ہی صورت حال ہوتی ہے جب کربلا جیسا سانحہ ہوتا ہے-  

جن گناہوں اور جرائم کی اونچی منزل پر مکّے کے سردار بیٹھے تھے اسکی سیڑھی عوام میں سے ہی مجرم لوگ تھے-  رسول صلی الله علیہ وسلّم نے مدینہ کی خلافت سے پہلے تیرہ سال مکّے میں انسانوں کی تربیت کی-  عام عوام کے کردار پر کام کیا-  اس سیڑھی کو نیچے سے کمزور کیا-  وہ سیڑھی نیچے سے ٹوٹی تو مکّے کے سردار منہ کے بل گرے-  

آج اس جرائم کی سیڑھی کو جس پر نواز شریف اور زرداری بیٹھے ہیں اسے متحدہ مجلس عمل کے ساتھ ساتھ میڈیا نے بھی مضبوط کیا ہوا ہے-  عوام کے ساتھ مذاق نہیں تو کیا ہے کہ عمران خان پر تنقید کے لئے چور خاندان اور چور جماعتوں کے نمائندوں کو بٹھایا جاتا ہے-  ملک ماہرین اور قابل لوگوں سے بھرا پڑا ہے-  

اصلاح کا طریقہ ہے تو بس وہی جو رسول الله صلی الله علیہ وسلّم کا-  درود و سلام ان پر- 

Friday, 20 July 2018

ذاتی کرئیر- سوشل ورک- سیاست

کتنا مشکل ہوتا ہے یہ سمجھنا اور سمجھانا کہ ذاتی کریئر اور سوشل ورک برابر نہیں ہیں سیاست کے-  سیاست کسی کا ذاتی یا خاندانی معاملہ نہیں-  سیاست ذاتی کاروبار نہیں-  سیاست مولوی کا خطبہ نہیں-  سیاست کسی عالم کا فتویٰ نہیں-  سیاست کسی مسلک کی فقہہ نہیں-  سیاست جھوٹ اور دھوکہ نہیں- سیاست کسی صوبے کی زبان نہیں-  سیاست روٹی، کپڑا اور مکان نہیں-   

عمران خان نے پروفیشنل کرکٹر کے کرئیر سے ریٹائر ہو کر سوشل ورک کی ابتداء کی-  اور سوشل ورک میں صحت اور تعلیم کے میدان میں کامیابی کے ساتھ ہی سیاست میں قدم رکھ دیا-  اور آج کی تاریخ میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بحیثیت سیاست دان عمران خان نے عوام کی اکثریت کے دل میں جگہ بنا لی ہے-  اور جو سیاست میں آ کر عوام کے دل میں جگہ بنا لے اسے اقتدار بھی مل ہی جاتا ہے-  یہ سب کچھ ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور بہت سے سیاست دانوں کے ساتھ بھی ہوا-  لیکن اب ان میں سے کچھ ماضی کا حصّہ بن چکے ہیں اور کچھ بننے والے ہیں-  

کسی بھی کرئیر میں کامیابی قربانی اور لگن کے بغیر نہیں ملتی اور اس میں گھر، خاندان، برادری اور لوگوں کے مفادات سے زیادہ اپنے مفادات محبوب ہوتے ہیں اور یہی پروفیشنلزم ہے- لیکن کامیابی کی صورت میں اکثر ملک و قوم کا نام بھی روشن ہوتا ہے-  پاکستان ایسے افراد سے بھرا پڑا ہے جنہوں نے اپنے کرئیر سے ملک و قوم کو بھی فائدہ پہنچایا-  کرکٹ ورلڈ کپ کی صورت میں عمران خان نے صرف ذاتی کامیابی حاصل نہیں کی بلکہ ملک و قوم کو بھی سرخرو کیا-  اور خود کو ٹیم کا لیڈر اور عوام کا ہیرو ثابت کردکھایا-  

سوشل ورک کا تعلق لوگوں سے انکی بھلائی سے ہوتا ہے لہٰذا لوگوں سے تعلق رکھے بغیر سوشل ورکر بننا ممکن نہیں-  یہ فیلڈ بھی قربانی، لگن، اخلاص، ایمانداری اور امانتداری کا تقاضہ کرتی ہے-  پاکستان میں جتنے لوگ سیاست میں ہیں اس سے دس گنا یا اس سے بھی زیادہ لوگ انسانیت کی خدمت کے نام پہ سوشل ورک کر رہے ہیں- عبدالستّار ایدھی صاحب نے کوئی تجربہ اور اعلیٰ تعلیم نہ ہوتے ہوۓ بھی صرف جذبہ، ہمّت، خلوص نیّت اور احترام انسانیت کی بنیاد پر ایسی مثال قائم کی کہ ایدھی فاونڈیشن کو کام اور مقصد کی نوعیت، وسعت اور انتظامی اعتبار سے حکومت کے مدّمقابل لاکھڑا کیا- عمران خان نے ایک متعین مقصد کے تحت اپنی ہیرو شپ کو کام میں لاتے ہوۓ شوکت خانم میموریل ہسپتال اور نمل کالج کو بحیثیت اداروں کے کامیاب بنایا- عطیات کی بنیاد پر کسی بھی ادارے کو ایک کامیاب فلاحی ادارہ ثابت کرنا وہ بھی اس طرح کہ وہ حکومت کے مدّ مقابل آنے کے بجاۓ اپنی ترجیحات کے ذریعے ملک و قوم کو فائدہ پہنچاۓ یہ بھی پروفیشنلزم ہے-  عمران خان نے یہاں بھی خود کو صرف ایک فلنٹروپسٹ یا انسان دوست شخص کی حیثیت سے نہیں بلکہ اداروں کے بہترین منتظم اعلیٰ کی حیثیت سے بھی منوایا-  

"جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ"- عمران خان نے کرئیر اور سوشل ورک دونوں فیلڈز میں عوام کے دلوں کو فتح کرلیا-  

ذاتی کریئر اور سوشل ورک، دونوں کا دائرہ کار اور دائرہ احتساب سیاست کے مقابلے میں بہت چھوٹا اور اختیاری ہے-  سیاست ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت، ملک کے شہریوں کی معاشی اور سماجی فلاح و بہبود، ملکی وسائل کے عادلانہ استعمال اور ملک و قوم کے مستقبل کی منصوبہ بندیوں کے انتظامات کا نام ہے-  خلافت مدینہ نے دنیا کو ایک اسلامی جمہوری نظام سے متعارف کرایا جس کی روح اخلاقیات تھیں اور جس کی تربیت تیرہ سال تک مکّہ میں کی گئی تھی-  اور اخلاقیات کا پہلا تقاضہ نظام عدل ہوتا ہے عوامی سطح پر-  یعنی ایک ایسا نظام جس میں ہر شخص دوسرے شخص کی عزت، حقوق، معاش، اور جان کی سلامتی کا ضامن ہو-  اخلاقیات کا دوسرا تقاضہ بھی نظام عدل ہوتا ہے حکومتی سطح پر یعنی ایک ایسا نظام جس میں ہر شخص کو اپنے سماجی اور معاشی استحصال کی صورت میں عدل و انصاف کا یقین ہو-  اور اس حکومت یا خلافت کے رہنما کو قانون، سپہ سالاری سے لے کر تمام جمہوری معاملات پر دسترس حاصل تھی-  

سیاست ایک نظام دیتی ہے ماضی کو بہتر حال میں تبدیل کرنے والا اور پھر اس سے بھی بہتر مستقبل کا وژن -  پاکستان میں عوام کی سوچ ذاتی کرئیر کی فرضیت اور سوشل ورک کی فضیلت تک ہی محدود ہے- ایک مسکین محتاج غریب توقع کرتا ہے کہ معاشرہ یا حکومت مجھے کھلاۓ پلاۓ پہناۓ ورنہ معاشرہ بھی ظالم ہے اور حکومت بھی- اسی لئے عوام سیاست کو سوشل ورک سے تعبیر کرتے ہیں-  نتیجہ سامنے ہے-  پہلا نتیجہ یہ کہ پاکستان میں اچھا تو کچھ ہو ہی نہیں سکتا سواۓ خیراتی اور فلاحی اداروں کے کیونکہ انہیں نیک لوگ چلا رہے ہیں-  اور دوسرا نتیجہ یہ کہ "کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے"-  یہ سوچ اتنی عام ہوگئی ہے کہ لوگ اپنے مجرم کا خود ہی دفاع کر رہے ہیں-  جبکہ عام طور پر کوئی انکے دس روپے چرا لے تو مار مار کر اسکی جان نکال لیتے ہیں-  یہ ابھی تک ملوکیت کے دور سے نہیں نکلے جس میں ایک بادشاہ جیسا بھی ہو حکمرانی صرف وہ اور اسکا خاندان ہی کرسکتے ہیں-  اور باقی رعایا نے عام، غریب، مسکین ہی رہنا ہے-  

جس قسم کی سیاست کی ابتداء عمران خان صاحب کرنا چاہ رہے ہیں لوگ اس سے واقف ضرور ہیں لیکن انکا ایمان بن چکا ہے یا بنا دیا گیا ہے کہ پاکستان میں ایسی سیاست نہیں کی جاسکتی-  خیبر پختونخواہ کی پانچ سال کی حکومت کی کارکردگی انتظامی طور پر ناکام ہونے والے سیاست دانوں کے نشانے پر ہے-   اس وقت بھی عمران خان کے جلسے میں لوگوں کی تعداد بڑھنے کی وجہ انکی نواز شریف اور دوسرے سیاست دانوں سے مایوسی ہے اور وہ تکلیفیں ہیں جن میں سے زیادہ تر خود عوام کی اپنی غفلت اور جہالت کا نتیجہ ہیں-  انہوں نے اپنا ناخدا یا نجات دہندہ بدل لیا ہے جیسے کہ پہلے بدلتے رہے لیکن اپنے آپ کو نہیں بدلا ہے-  ایک رہنما کو کس لئے ووٹ دے کر منتخب کیا جاتا ہے اور کس طرح بھی اس رہنما کی مدد کی جاتی ہے ایک اچھا شہری بن کر اپنی ذاتی ذمّہ داریاں نبھاتے ہوۓ اسکا اندازہ ابھی اس قوم کو ہے ہی نہیں-  اور یہی اصل انقلاب ہوگا اور 'نئے پاکستان' کی بنیاد بھی-  پچھلے کئی سال سے ایک تسلسل کے ساتھ وہی بیس پچیس جملے مختلف انداز میں دہرا دہرا کر تو یہ وقت آیا ہے کہ لوگوں کو منی لانڈرنگ اور بدعنوانی ایک جرم لگنے لگی ہے وہ بھی نواز شریف کی حد تک اور اسکی سزا کی حد تک-  خود توقع عمران خان سے لگاۓ بیٹھے ہیں-  

ایک طرف ایک عجیب سی قوم ہے-  جبکہ دوسری طرف پیشہ ور سیاستدان ہیں جنکا ایمان پیسہ ہے-  وہ کبھی بھی عمران خان کو چین سے حکومت کرنے نہیں دیں گے کہ اس نے انہیں قوم کے لیڈرز سے قوم کے مجرم بنا دیا-  تو وہ تو عمران خان کو اپنا مجرم ہی سمجھیں گے اور اسکو ناکام کرنے کی ہر ممکن کوشش کرینگے-  عمران خان کی پارٹی پر ذمّہ داری عائد ہوتی ہے کہ الیکشن جیتنے کے بعد اگلے پانچ سال وقف کر دیں عوامی سطح پر آکر عوام کی تعلیم و تربیت کرنے پر-  انکو یہ اعتماد اور یہ پریکٹس دینے پر کہ اچھے شہری کی ذمّہ داری وہ خود کس طرح نبھا سکتے ہیں جو کہ ان پر فرض ہے اور ایک احتساب عدالت لگے گی جس میں خود الله سبحانہ و تعالیٰ ان سے حساب لیں گے-  انکو یہ سمجھانے پر کہ حکومت کی ذمّہ داریاں اور حکومت کا خزانہ کس مقصد کے لئے ہیں- اس ملک سے جاگیر دارانہ نظام ختم کرنا ہے-  وی آئی پی کلچر ختم کرنا ہے-  ایسا ہو ہی نہیں سکتا جب تک سیاسی نمائندے ڈرائنگ روم سیاست چھوڑ کر عوام کے ساتھ شانہ بشانہ کام کریں-  جیسا کہ خلافت راشدہ میں ہوا کرتا تھا-  

کتنا مشکل ہے یہ سب عوام کو بتانا-   سیاست بہت بڑی ذمّہ داری ہے-  سیاست لوگوں کی بھلائی کی سمت رہنمائی ہے-  سیاست امانتداری اور سچائی ہے-  سیاست نعمتوں کی حفاظت ہے-  سیاست ایک عبادت ہے- 

Saturday, 30 June 2018

الله کو اچھا قرض

اِنۡ تُقۡرِضُوا اللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنًا يُّضٰعِفۡهُ لَـكُمۡ وَيَغۡفِرۡ لَـكُمۡ​ؕ وَاللّٰهُ شَكُوۡرٌ حَلِيۡمٌۙ- 

"اگر تم الله کو قرض دو گے- تو وہ اسے بڑھا دے گا کئی گنا تمھارے لئے-  
اور تمہیں معاف کر دیگا-  اور الله قدر کرنے والا حلم والا ہے-" 
سوره التغابن 

مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً ۚ 
وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ- 

"کون ہے جو الله کو اچھا قرض دے تو وہ اسے کئی گنا بڑھا دے- 
اور الله ہی تنگی اور کشائش کرتا ہے- اور تم اسی کی  طرف لوٹاۓ جاؤ گے-"
سوره البقرہ 

وَقَالَ اللّٰهُ اِنِّىۡ مَعَكُمۡ​ؕ لَـئِنۡ اَقَمۡتُمُ الصَّلٰوةَ وَاٰتَيۡتُمُ الزَّكٰوةَ وَاٰمَنۡتُمۡ بِرُسُلِىۡ
 وَعَزَّرۡتُمُوۡهُمۡ وَاَقۡرَضۡتُمُ اللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنًا لَّاُكَفِّرَنَّ عَنۡكُمۡ سَيِّاٰتِكُمۡ 
وَلَاُدۡخِلَـنَّكُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ​ۚ 
فَمَنۡ كَفَرَ بَعۡدَ ذٰ لِكَ مِنۡكُمۡ فَقَدۡ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِيۡلِ‏- 

"اور الله نے فرمایا بے شک میں تمھارے ساتھ ہوں-  
اگر تم نماز قائم رکھو اور زکواة دو اور اور میرے رسولوں پر ایمان لاؤ 
اور انکی تعظیم کرو اور الله کو اچھا قرض دو- تو میں تمھارے گناہ اتار دونگا 
اور تمہیں باغوں میں لے کے جاؤں گا جن کے نیچے نہریں رواں ہیں-
 پس اسکے بعد تم میں سے جو کوئی کفر کرے 
تو وہ ضرور سیدھی راہ سے بھٹکا-" 
سوره المائدہ

الله سبحانہ و تعالیٰ قادر مطلق ہے-  جس نے سب کچھ تخلیق کیا اسے قرض کی ضرورت نہیں-  یہ تو اعمال کا وہ اکاؤنٹ ہے جو ہر انسان کا الله سبحانہ و تعالیٰ کے پاس کھلا ہوا ہے-  اب چاہے وہ اس میں برائیاں جمع کرے یا اچھائیاں-  گناہ ذخیرہ کرے یا نیکیاں- جو بھی اکاؤنٹ میں جمع کیا ہوگا وہ آخرت میں واپس کردیا جاۓ گا-  عملوالصالحات اور بر اورعبادات وہ نیکیاں ہیں جو اچھا قرض ہیں اور جن کا کئی گنا بڑھا کر دینے کا وعدہ قرآن میں کیا گیا ہے-  برائیاں اور گناہ برا قرض ہیں لیکن انکے معاف کردینے، مٹا دینے کا وعدہ کیا گیا ہے-  

اِنَّ الۡحَسَنٰتِ يُذۡهِبۡنَ السَّيِّاٰتِ- 

"بے شک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں-"
سوره ہود

ایک صحابی حضرت ابو الدحداح نے جب قرض حسنہ کی آیت سنی تو حاضر خدمت ہوئے اور فرمایا کہ یارسول اللہ! کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض مانگتا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ہاں۔ وہ بولے اپنا دست مبارک مجھے دکھائیے۔ انہوں نے حضور کا ہاتھ پکڑا اورکہا کہ میں نے اپنا یہ باغ اللہ تعالیٰ کو قرض دیا۔ اس باغ میں کھجور کے چھ سو درخت تھے۔ ان کی بیوی اور بچے اسی میں رہائش پذیر تھے۔  انکی بیوی نے جب یہ سنا تو پکار اٹھیں۔ "اے دحداح کے باپ تم نے بڑا نفع والا سودا کیا ہے۔" 

اور ایسے ایک نہیں ہزاروں واقعات دور نبوی اور اسکے بعد کے ادوار سے پیش کئے جا سکتے ہیں-  جب لوگ اس آیت کی مثل ہوا کرتے تھے جسے اکثر مفسّرین قرآن حضرت علی اور حضرت فاطمہ کے واقعات سے منسلک کرتے ہیں

وَيُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسۡكِيۡنًا وَّيَتِيۡمًا وَّاَسِيۡرًا‏- 
اِنَّمَا نُطۡعِمُكُمۡ لِـوَجۡهِ اللّٰهِ لَا نُرِيۡدُ مِنۡكُمۡ جَزَآءً وَّلَا شُكُوۡرًا‏- 
اِنَّا نَخَافُ مِنۡ رَّبِّنَا يَوۡمًا عَبُوۡسًا قَمۡطَرِيۡرًا- 

"اور وہ کھلاتے ہیں کھانا اس (الله) کی محبّت میں مسکین، یتیم اور اسیر کو-
اور ان سے کہتے ہیں کہ ہم تمہیں خاص الله کے لئے کھلاتے ہیں 
اور تم سے کوئی بدلہ یا شکر گزاری نہیں مانگتے-  
بے شک ہمیں اپنے رب سے ایک ایسے دن کا خوف ہے 
جو بہت ترش نہایت سخت ہے-" 
سوره الدھر

عملو الصالحات کیا ہیں؟ ہر اچھا عمل- 

اور بر کیا ہے؟ وہ نیکی یا اچھا عمل جو اپنی محبوب ترین شئی الله کی راہ میں خرچ کرنے سے مشروط ہے-  بر کا ترجمہ "تقویٰ" سے کیا جاتا ہے- 

لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰى تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ - 

"اور تم ہرگزنہیں پہنچ سکتے تقویٰ کو- جب تک کہ 
خرچ نہ کرو ان میں سے  جو تمہیں محبوب ترین ہیں-"
سوره آل عمران

مسلمانوں کی اکثریت جس میں دین کے دعویدار بھی شامل ہیں شاید اب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو قرض دینے پر یقین بھی نہیں رکھتی- اسی لئے ہرکام کی طرح نیکیوں اور عبادتوں میں بھی کیش کا کاروبار کرنے لگے ہیں-  یہاں تک کہ اپنےغم، اپنا صبر، اپنی تکالیف، اپنی دوستیاں، اپنی رشتہ داریاں، اپنے تعلقات- ہرعملوالصالحات اور ہر بر اورہرعبادت کا بدلہ دنیا میں اور وہ بھی فورا وصول کرنا چاہتے ہیں بلکہ کر لیتے ہیں-   یہ دیکھ کر لگتا ہے کہ مسلمانوں کو اب نہ آخرت پریقین رہا ہے نہ آنے والے وقت پر-  اگر تمام کی تمام نیکیاں اور عبادتیں دنیا میں ہی کیش کروالیں گے تو آخرت میں کیا بچے گا جس کا بدلہ دیا جاۓ- 

اور اس نیکیوں اور عبادتوں کا کیش کاروبار نے معاشرے کا بیڑہ غرق کردیا ہے-  کیونکہ جب انسان اس قسم کے رویے میں مبتلا ہو جاۓ تو پھر وہ صرف اپنا فائدہ سوچتا ہے-  میں تکلیف اٹھائی تو صرف مجھے اسکا بدلہ ملے-  میں نے ساری محنت کی تو پھل بھی میں ہی کھاؤں-  میں نے سارے اقدامات کئے تو میری تعریف ہو- مجھے سراہا جاۓ-  جبکہ رسول الله صلی الله علیہ وسلّم کی تربیت تھی کہ صرف اور صرف الله کی رضا کے لئے کام کیا جاۓ اور وقت اصل مقاصد کے حصول میں لگایا جاۓ-  

اسلام میں ہر وہ کام بھی عبادت کا درجہ پا لیتا ہے جو الله کی رضا کی نیّت سے اس کے بندوں کی بھلائی کے لئے کیا جاۓ-  کیونکہ سیاست  ایک ملک شہریوں یا علاقے کے باسیوں کی فلاح و بہبود اور جان و مال کی حفاظت کے نظام چلانے کو کہتے ہیں-  اسی اسلام میں سیاست بھی عبادت ہے- 

لیکن یہ بات کم از کم پاکستان کے لوگوں کو نہیں پتہ-  اسی لئے ان میں سے کچھ الیکشن کو ایک دنگل یا اکھاڑا سمجھ کر اپنے اپنے وار آزماتے ہیں اور عوام انکا تماشہ لگاتے ہیں-  عوام سیاست کی شرعی اہمیت اور سیاست دان اسکی ذمّہ داریوں سے ناواقف ہیں-  شاید اسکی ایک بڑی وجہ تو یہی ہے کہ یہاں سیاست  اصل اسلامی جمہوریت کے طریقے پر نہیں بلکہ مغربی انداز سے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے-  جس میں گدھے اور گھوڑے میں تمیز بھی باقی نہیں رہتی-  اسی رویے کی وجہ سے پاکستان میں سیاست کو برائی یا جرم سمجھا جاتا ہے جس میں صرف جرائم پیشہ لوگ حصّہ لے سکتے ہیں- 

عوام اپنے چھوٹے چھوٹے ذاتی اور علاقائی مفادات کو مدّ نظر رکھ کر ووٹ دیتی ہے یا پھر نہیں دیتی-  اور سیاست دان بڑے ممالک کے مفادات کے نتیجے میں حاصل ہونے والے اپنے ذاتی مفادات کو ذہن میں رکھ کر الیکشن لڑتے ہیں اور پارٹیوں کا الٹ پھیر کرتے ہیں-  کیونکہ سب کے مقاصد چھوٹے ہیں-  اسی لئے نقد پر کام کرتے ہیں-  کسی نے الله سبحانہ و تعالیٰ سے تجارت نہیں کی ہوئی نہ ہی اسے قرض دیا ہے-  انکو یہ نہیں معلوم کہ جنکے مقاصد بڑے ہوتے ہیں انکے پاس نقد لینے کا وقت نہیں ہوتا اس لئے وہ اپنی امانت الله تعالیٰ کے پاس رکھوا دیتے ہیں کہ آخرت میں وصول لیں گے منافع کے ساتھ-  اور پاکستانیوں کے لئے بڑا مقصد پاکستان ہونا چاہئے-  پارٹی ٹکٹ یا جیت نہیں- کیا ہے اگر لوگ نہ پہچانیں-  کیا یہ کافی نہیں کہ الله سبحانہ و تعالیٰ جانتے ہیں اور وہی بہترین قدر دان ہیں-