Monday 21 April 2014

علامہ محمّد اقبال رحمة الله علیہ

علامہ محمّد اقبال رحمة الله علیہ 
شاعر مشرق 
حکیم الامّت 
مفکّر پاکستان 
مصور پاکستان 
ایک  فلسفی 
ایک دانشور 
ایک مدبّر 
ایک عالم 
 ایک سیاستدان 
 میرے محسن اور میرے رہنما 

بلکہ میں تو نفسیاتی مریضوں کا معالج بھی کہتی ہیں-  ذرا حزن و ملال و مایوسی ہو، کلّیات اقبال پڑھ لیں-  طبیعت صاف ہو جاتی ہے-  
فرماتے ہیں 

حقیقت ازلی ہے رقابت اقوام 
نگاہ پیر فلک میں نہ میں عزیز نہ تو 
خودی میں ڈوب، زمانے سے نا امید نہ ہو 
کہ اسکا زخم ہے در پردہ اہتمام رفو 
رہے گا تو ہی جہاں میں یگانہ و یکتہ 
اتر گیا جو ترے دل میں لا شریک لہ 

یہی نشاں ہے زمانے میں زندہ قوموں کا 
کہ صبح شام بدلتی ہیں انکی تقدیریں 
کمال صدق و مروّت ہے زندگی انکی 
معاف کرتی ہے فطرت بھی انکی تقصیریں 

اور جتنی میری تقدیر صبح و شام بدلتی ہے لگتا ہے کہ سب سے زیادہ زندہ میں ہی ہوں-  اور دنیا میں سب سے زیادہ سفر میں بھی میں ہی ہوں-  ابھی کہیں ٹکتی نہیں کہ اٹھنے اٹھانے کے حالات پیدا ہو جاتے ہیں-  اگرقرآن اور کلّیات اقبال کی خوراکیں نہ لے رہی ہوتی تو کافر ہو چکی ہوتی شاید-  الله کا کرم ہے-  الله میری اور میرے تمام گھر والوں کی تقصیریں معاف فرماۓ-  آمین 

اور پتہ نہیں کب سے تلاش کر رہی تھی  وہ ایمان جسے حضرت علی کے مطابق انہوں نے قرآن سے پہلے سیکھ لیا تھا-  

ابھی کلّیات پڑھتے پڑھتے نظر پڑی "علم ہے ابن الکتاب، عشق ہے ام الکتاب"- اب 
جو مطلب مجھے سمجھ آیا دونوں کو ملا کر وہ یہ کہ 
١- کتاب کے اندر علم ہوتا ہے اور کتاب کے باہر عشق- 
٢- تو کیا حضرت علی اور دوسرے صحابۂ کرام نے جو ایمان قرآن سے پہلے سیکھا تھا اسکا نام عشق تھا-  اور علم بعد میں انکی تصدیق کے لئے نازل ہوا- 

اور یہ عشق کیا ہے؟

کبھی تنہائ کوہ و دمن عشق 
کبھی سوز و سرور انجمن عشق 
کبھی سرمایہ محراب و منبر 
کبھی مولا علی خیبر شکن عشق 

عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولین ہے عشق 
عشق نہ ہو تو شرع دیں بت کدہ تصورات 
صدق خلیل بھی ہے عشق، صبر حسین بھی ہے عشق 
معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق 

اور علامہ کے طنز و مزاح پڑھ کر ہنسی آرہی تھی- کہتے ہیں 

ہاتھوں سے اپنے دامن دنیا نکل گیا 
رخصت ہوا دلوں سے خیال معاد بھی 
قانون وقف کے لئے لڑتے تھے شیخ جی 
پوچھو تو وقف کے لئے ہے جائیداد بھی 

شیخ صاحب بھی تو پردے کے کوئی حامی نہیں 
مفت میں کالج کے لڑکے ان سے بد ظن ہو گۓ 
وعظ میں فرمادیا تھا آپ نے یہ صاف صاف 
پردہ آخر کس سے ہو جب مرد ہی زن ہو گۓ 

آخر میں علامہ کے شعر جو انہوں نے اپنی والدہ کی یاد میں لکھے تھے انہیں کے نام- 

زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر 
خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر 
مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو ترا 
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا 
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے 
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے 



الزام اور گواہی

حامد میر کے معاملے میں صحافت کے کنوئیں کے مکینوں کا خیال ہے کہ کیونکہ حامد میر نے اپنا خوف، اپنے خدشات ریکارڈ کروادئیے ہیں جنرل ظہیر الاسلام کے بارے میں لہٰذا اب جنرل ظہیر الاسلام کا فرض ہے کہ وہ ثبوت پیش کریں کہ آیا کہ حامد میر سچا ہے یا جھوٹا-  

میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ کوئی ایک شخص دوسرے پر الزام لگاۓ اور پھر سارا کا سارا دباؤ اس ملزم پر آجاۓ کہ اگر تو وہ ثبوت لاۓ اپنی سچائی کے ورنہ وہ واقعی مجرم ہے-  مجھے اس معاملے میں صرف قرآن سے ایک آیت ملی جسے میں فی الحال تو ہر معاملے کے حق میں عدل کا طریقۂ کار سمجھوں گی اور وہ ہے سورہ النور کی آیت- 

"اور جو لوگ پرہیزگار عورتوں کو بدکاری کا عیب لگائیں اور اس پر چار گواہ نہ لائیں تو ان کو اسی درے مارو اور کبھی ان کی شہادت قبول نہ کرو۔ اور یہی بدکردار ہیں"- سوره النور 

اس کو میں نے کم از کم اس طرح سمجھا کہ اگر کوئی کسی پر الزام لگاتا ہے تو پھر قرآن کے مطابق ثبوت بھی اسی کو پیش کرنے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے الزام میں کتنا سچا یا جھوٹا ہے-  قرآن کی اس آیت کے مطابق اگر الزام لگانے اپنے الزام کو درست ثابت نہ کرسکے تو پھر سزا اسی کو ملے گی اور اسکی گواہی بھی قبول نہ ہوگی اور وہ بدکردار  یا کم سے کم جھوٹا کہلاۓ گا-  

Saturday 12 April 2014

انسان


"اور انسان تو بڑا ناشکرا ہے"- 
 سورہ الحج

" بےشک انسان صریح ناشکرا ہے"-  
سوره الزخرف 

" بےشک انسان بڑا ناشکرا ہے" - 
سوره الشعراء 

"کہ انسان اپنے پروردگار کا احسان فراموش (اور ناشکرا) ہے"  
سوره العادیات 

 کچھ شک نہیں کہ انسان بڑا بےانصاف اور ناشکرا ہے"-
 سوره ابراہیم 

"انسان ہلاک ہو جائے کیسا ناشکرا ہے"-
 سوره عبس 

"اور انسان (اپنی طبیعت میں) جلد باز ہے"- 
 سورہ الانبیاء 

 اور انسان (طبعاً) کمزور پیدا ہوا ہے"- 
سوره النساء 

"کہ ہم نے انسان کو تکلیف (کی حالت) میں (رہنے والا) بنایا ہے"-
 سورہ البلد 

"کچھ شک نہیں کہ انسان کم حوصلہ پیدا ہوا ہے"- 
سوره المعارج 

"مگر انسان سرکش ہو جاتا ہے"- 
سورہ العلق 

"مگر انسان چاہتا ہے کہ آگے کو خود سری کرتا جائے"-
 سوره القیامہ 

"اور انسان جس طرح (جلدی سے) بھلائی مانگتا ہے اسی طرح برائی مانگتا ہے۔
 اور انسان جلد باز (پیدا ہوا) ہے"- 
سوره بنی اسرائیل

"اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں (کے سمجھانے) کے لئے طرح طرح کی مثالیں بیان فرمائی ہیں۔ لیکن انسان سب چیزوں سے بڑھ کر جھگڑالو ہے"-
سوره الکھف 

"انسان بھلائی کی دعائیں کرتا کرتا تو تھکتا نہیں اور اگر تکلیف پہنچ جاتی ہے تو ناامید ہوجاتا اور آس توڑ بیٹھتا ہے"-
 سوره الفصلات 

"اور جب ہم انسان پر کرم کرتے ہیں تو منہ موڑ لیتا ہے اور پہلو پھیر کر چل دیتا ہے۔ اور جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے تو لمبی لمبی دعائیں کرنے لگتا ہے"- سوره الفصلات 

"ہم نے (بار) امانت کو آسمانوں اور زمین پر پیش کیا تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے۔ اور انسان نے اس کو اٹھا لیا۔ بےشک وہ ظالم اور جاہل تھا"- 
سوره الاحزاب 

"کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے تو تم خرچ ہوجانے کے خوف سے (ان کو) بند رکھتے۔
 اور انسان دل کا بہت تنگ ہے"-
 سوره بنی اسرائیل 

"اور طبیعتیں تو بخل کی طرف مائل ہوتی ہیں" 
سورہ النساء

 یہ ہے انسان کی تعریف قرآن کے مطابق-  ناشکرا، احسان فراموش، جلد باز، جگھڑالو، بخیل، تنگ دل، ظالم، جاہل، خود سر، سرکش، کم حوصلہ، مایوس، لالچی، کمزور، تکلیف میں رہنے والا-  

"بھلا وہی نہ جانے گا جس نے تخلیق کیا"-
 سوره الملک

ہم میں سے کسی کو بھی اپنی یہ تعریفیں نہیں معلوم-  شاید اس لئے کہ قرآن نہیں پڑھتے-  پڑھتے ہیں تو ترجمہ نہیں پڑھتے-  صرف ایک دوسرے کے الفاظ میں اپنی شخصیت تلاش کرتے ہیں اور مطمئن ہو جاتے ہیں کہ ہم ایسے ہی ہیں جیسے کہ ہمارے گھر والوں، دوستوں، جاننے والوں نے بتا دیا-  حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ہم دوسروں کی تعریف یا برائی میں کس حد تک مخلص ہوتے ہیں-  اور دوسرے بھی ہمارا عکس ہیں-  کوئی اچھا کہے تو یقین کر لیتے ہیں اور کوئی برا کہے تو برا مان جاتے ہیں-  کبھی خود اپنے آپ کو قرآن کی نظر سے نہیں دیکھتے-  ہو سکتا ہے کہ اچھا کہنے والے اور برا کہنے والے-  دونوں غلط ہوں یا دونوں صحیح ہوں-  اپنی مسلمانیت کو علماء اور مولویوں کی تعریفوں اور فتووں میں ڈھونڈتے ہیں- 

جس کا مطلب ہے کہ انسان بے وقوف بھی ہے  اور خود غرض بھی-  

"اور کوئی دوست کسی دوست کا پرسان حال نہ ہوگا- ایک دوسرے کو سامنے دیکھ رہے ہوں گے (اس روز) گنہگار خواہش کرے گا کہ کسی طرح اس دن کے عذاب کے بدلے میں (سب کچھ) دے دے یعنی اپنے بیٹے- اور اپنی بیوی اور اپنے بھائی- اور اپنا خاندان جس میں وہ رہتا تھا- اور جتنے آدمی زمین میں ہیں (غرض) سب (کچھ دے دے) اور خود کو عذاب سے چھڑا لے"-
 سوره المعارج 

"اس دن آدمی اپنے بھائی سے دور بھاگے گا-  اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے-  اور اپنی بیوی اور اپنے بیٹے سے"- 
 سوره عبس

اپنے ہم خیال, ہم مزاج اور ہم عقیدہ  لوگوں کا سہارا ڈھونڈتے ہیں کہ ایک حلقہ بن جاۓ-  اور پھر بد قسمتی سے وہ حلقہ ایک کنواں بن جاتا ہے اور ہم خیال اور ہم مزاج لوگ اس کے مینڈک-  ہر کنوئیں کے ڈریس کوڈز ہیں، شرائط ہیں-  کچھ مخصوص طرز عمل، مخصوص باتیں-  ہر کنوئیں سے اس کے مینڈک اچھل اچھل کر تماشہ دکھاتے ہیں اور پھر اس میں چلے جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں عبادت بھی ہوگئی اور فرض بھی ادا ہو گۓ-  اور دنیا کا نظام دے دیا ہے غیر مسلموں کے ہاتھہ میں-  جو ان سارے کنوؤں کو کنٹرول کر رہے ہیں-

وہ انسان کہاں ہیں جو مکّے کے تیرہ سالوں میںہر قسم کے کنوؤں کی قید سے آزاد کراۓ گۓ تھے-  اقرباء پروری، فرقہ پرستی، قبیلہ پرستی، نسلی تعصب، لسانی تعصب - یہ ایمان کی طرف جانے والے راستے ہیں ہی نہیں-



Elders - بزرگ

یا الٰھی، دے  لوگائی، جس سے بچے ہوں ہزار 
پانچ سو ڈپٹی کلکٹر، پانچ سو ہوں صوبیدار 

پرانے زمانے کا شعر ہے-  آج بابا نے سنایا-  کہنے لگے کہ چند دن پہلے کوئی مجھ سے اچھی سی دعا پوچھ رہا تھا تو میں اسے مسجد کے دروازے پر لے گیا اور بسم الله پڑھا کر یہ شعر پڑھا دیا-  شرارت میں-  آج اسی پچاسی سال کی عمر میں بھی ماشاء الله مسجد سے بھی دلچسپی ہے، لوگوں کے معاملات بھی سنتے رہتے ہیں-  ہر وقت تسبیح ہاتھ میں رکھتے کچھ پڑھتے رہتے ہیں-  کبھی کبھی قبر میں پوچھے جانے والے سوالات بھول جاتے ہیں تو پوچھتے ہیں کہ وہ کیا سوال تھا عربی میں- کبھی کوئی آیات بھول جاتے ہیں تو وہ بھی پوچھتے ہیں-  اپنے زندگی میں کی گئی غلطیوں پر خوب روتے بھی ہیں اور الله سے معافی بھی مانگتے رہتے ہیں-  جب میں فجر کے بعد  بچوں کو سکائپ پر قرآن پڑھاتی ہوں تو انکے پاس بیٹھہ کر سن رہے ہوتے ہیں اور اپنا تلفّظ بھی ٹھیک کر رہے ہوتے ہیں-  ہر بات کا شروع الله کے شکر سے اور بات کا آخر الله توکّل سے کرتے ہیں-  "الله مالک ہے بیٹا، اچھا ہی کرے گا"-   دعا بہت مانگتے ہیں لیکن یا تو اپنی معافی کی یا ہم سب کی خوشیوں کی-  لیکن دو مرتبہ تو اڑ گۓ- کہنے لگے میں نے الله سے کہہ  دیا کہ یہ تو ہونا ہی چاہیے اور وہ ہوا-   ایک مرتبہ اپنے اور ایک مرتبہ دادا کے نام کا حج کر چکے ہیں-  اور انکی خواہش ہے کہ اپنی والدہ کے نام کا حج بھی کریں-  زندگی میں کبھی انہیں کسی سے ڈرتے نہیں دیکھا- آج بھی سیدھے چلتے ہیں-  خود کو جوان نہیں تو بوڑھا بھی نہیں سمجھتے کیونکہ اکثر کہتے ہیں کہ فلاں آدمی سے بات ہوئی بے چارہ بہت ہی بوڑھا تھا- یا کہیں گے کہ بھئی ایسے بوڑھے بوڑھے لوگ دکھتے ہیں کہ حیران ہوتا ہوں یہ زندہ کیسے ہیں- اپنے دماغ اور مزاج کے مطابق جو چاہے کرتے رہتے ہیں- بابا سے زیادہ  اپنے باپ کا ادب اور لحاظ کرنے والا بیٹا نہ سنا نہ دیکھا-  مکمّل تو صرف الله کی ذات ہے-  لیکن جو اپنے کئے پر الله سے نادم رہے اور اپنی زندگی کو کسی بھی طور بہتر بناتا رہے وہ کبھی بوڑھا نہیں ہوتا- جوان ہی رہتا ہے-  امی کو بھی شعور پاتے ہی گھر کے کاموں میں مگن دیکھا-  کبھی ایک دن بھی صبح دیر تک سوتے نہیں دیکھا-  دوپہر میں ایک گھنٹے کا قیلولہ ضرور کرتیں تھیں-  حد سے زیادہ مثبت کاموں کی طرف راغب پایا-  کبھی نئے نئے کپڑوں، زیورات کی فرمائش کرتے نہیں دیکھا-  حد سے زیادہ خوش اخلاق اور ملنسار-  دونوں امی اور بابا دوسروں کے کام آنے والے-  بے وقوفی کی حد تک-  اکثر امی بابا کو دیکھ کر ہم کو اپنے پر شرم آتی ہے- 

ہمارے معاشرے میں کچھ رجحانات پرانے زمانے سے چلے آرہے ہیں-  ہو سکتا ہے وہ چند دھائیوں پہلے تک اچھے معاشرتی اقدار کا حصّہ ہوں-  اور اس وقت بوجھ کے بجاۓ رحمت اور برکت کی نشانیاں سمجھی جاتی ہوں-  مثلا، زیادہ بیٹے یا زیادہ اولادیں، بیٹوں کا کمانا بیٹوں کے بڑے ہونے کی نشانی، اولاد کے بڑے ہونے کے بعد مذہبی رجحانات کا بڑھنا، اولاد کے بڑے ہونے کے بعد حج اور زیارتوں کی خواھشات پوری کرنا، ایک مرد کی کمائی پر پورے گھر کا انحصار، اولاد ہونے کے بعد پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے خواب دیکھنا،  بڑھاپے میں پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے ساتھہ وقت گزارنا، وغیرہ وغیرہ 

پچھلے زمانے کے بزرگ اپنا ایک حلقۂ احباب بنا لیتے تھے اور اس میں ہر قسم کے بزرگ ہوتے-  وہ پھر اپنے سے چھوٹوں کے معاملات میں نہیں بولتے تھے-  خود جتنا ہو سکتا تھا گھر میں ہاتھ بٹاتے ورنہ الله الله کرتے-  گھر کے چھوٹے بھی ان پر زیادہ اعتراضات نہیں کرتے-  بزرگوں کا مذھب کی طرف رجحان انکے لئے ایک طریقے سے  دل کی تسلی کا باعث بنتا کہ گناہ معاف ہو رہے ہیں-  اور ماحول میں بھی ایک سکون قائم رہتا- 

اکثر پڑھے لکھے بزرگ ہاتھوں میں اخبار سے پہچانے جاتے اور سارا علاقہ انکی عزت کرتا-  کچھ اپنے بچوں کے بچوں کو لے کر ٹہلنے نکل جاتے-  کچھ انہیں مسجد لے جاتے-  کچھ بزرگ گھروں میں بچوں کو قرآن پڑھا دیتے- کچھ بچوں کو اسکول پہنچانے کی ذمّہ داری لے لیتے-  کچھ گھر سے ادھر ادھر  لوگوں سے خوش گپیاں کرکے وقت گذارتے- کچھ ہفتے میں دوسرے رشتہ داروں کے گھر کے چکّر لگا آتے اور خاندان بھر کی خبریں انکے ذریعے ایک دوسرے تک پہنچ جاتیں-  اگر کوئی بزرگ حج یا عمرہ کر لیتا توآس پاس کے محلّے تک مبارکباد کے لئے پہنچ جاتے-  اکثر بیٹھکوں میں ہی گھریلو مسائل بھی زیر بحث آتے-  اور وہیں انکے کچھ نہ کچھ حل بھی پیش کر دیے جاتے-  گھر کی خواتین ہوں یا مرد-  ان میں ایک دو ایسے ضرور ہوتے جو اپنی سمجھداری، دور اندیشی اور معاملہ فہمی کے لئے مشھور ہوتے-  اور سب ان سے مسلے حل کرواتے اور انکے فیصلوں کو حرف آخر سمجھتے-  اکثر گھروں میں پالتو جانور بھی ہوتے اور انکا بھی خیال رکھا جا رہا ہوتا-  اکثر لوگ اپنے شوق کی وجہ سے بھی مشہور ہوتے-  

اب جوان ہوں یا بزرگ، ہر کوئی چڑچڑا نظر آتا ہے-  ہر کوئی بیرزار-  اپنی زندگی سے ناخوش-  غیر مطمئن- 
بزرگوں کو جوانوں سے شکایات اور جوانوں کے بزرگوں پر الزامات-  ہر کوئی حساب کتاب کرتا نظر آتا ہے-  
پہلے کیسے اتنا وقت اور پیسے ہوتے تھے کہ کنبہ کے کنبہ پل جاتے اور سارے کام بھی ہو جاتے- 
پچھلی چند دھائیوں سے کیا ہو گیا؟

آج اپنے ارد گرد نگاہ ڈالیں تو بزرگوں کے ٹولے اکّا دکّا ہی کہیں نظر آتے ہیں اور وہ ایک خاص معیار کے مطابق-  جو پینسٹھ سال کے یا اس سے زیادہ عمر کے ہیں-  یا تو انکو یہ شکایات ہیں کہ انکی اولادیں فرمانبردار نہیں-  یا ان کو توجہ نہیں دیتیں-  یا انکو خرچہ پورا نہیں کرتیں- یا انکے بچوں کے بچے ان کو پریشان کرتے ہیں-  ایدھی سنٹرز میں بوڑھوں سے بات کریں تو ان کے لبوں پر ہر قسم کی شکایات ہوتی ہیں-  گھروں میں بوڑھے بیزار نظر آتے ہیں-  کبھی بیٹوں سے کبھی بیٹیوں سے، کبھی بہو سے کبھی داماد سے-  

ان بزرگوں نے اپنی جوانی ہمیں آسائشیں پہنچانے میں کاٹ دی-  ہمارے لئے صرف اپنے دن رات ہی ایک نہیں کے بلکہ اپنے اسلامی فرائض سے بھی غافل ہوگۓ-  اور الله کے نافرمان بھی بنے-  انہوں نے یہ سوچا ہی نہیں کہ ہم تو انکے لئے ایک آزمائش کا سامان ہیں-  پھر سب کچھ ہم پر لٹاتے وقت یہ بھی نہ سوچا کہ انکا اپنا بڑھاپا کیسے کٹے گا-  اگر انہوں نے یہ سب رزق حلال کے ساتھہ کیا تو پھر سب سے بڑا جہاد یہی کیا-  اور بہت ہی افضل زندگی گذاری-  اور اب انکو یہ سمجھ نہیں آتی کہ اس وقت انہیں کیا کرنا چاہیے-  پچھلی روایات کے مطابق تو یہ انکے آرام کا زمانہ ہے-  اور اکثر تو اپنے گھروں میں ہی ہیں-  اپنی اولادوں کے ساتھ-  لیکن پھر یہ بے سکونی کیوں ہے-  

جو پینسٹھ سال سے زیادہ کے ہو گۓ ان پر الزام دینے سے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ انھیں سب سے زیادہ پتہ ہے کہ انہوں نے کیا کیا کیا-  انکو انکی ناکامیوں کا احساس دلانا ان پر تیر چلانے کے مترادف ہے-  نہ دلائیں کیونکہ شاید انکی ناکامیاں ہی ہماری کامیابیاں بنی ہیں-  آج ہمارے لئے زندگی جتنی دشوار ہے، کل انکے لئے بھی تھی-  

اکثر جوان گھر میں بڑے بوڑھوں کے زیادہ بولنے سے بھی پریشان ہوتے ہیں-  یہ سوچیں کہ پتہ نہیں کون کون سی بھڑاس انکے دل میں ہے جو وہ اب نکالنا چاہ رہے ہیں-  کیونکہ اولاد پالتے وقت ہمارے ماں باپ خود پر ظلم یہ کرتے ہیں کہ اپنی شخصیت کی نفی کر دیتے ہیں خود پر بھی توجہ دینا بند کر دیتے ہیں-  اتنی قربانیاں دیتے ہیں جو شاید جائز بھی نہ ہوں- اور جب جوانی کی حدود اور اپنی ذمّہ داریوں سے فارغ ہوتے ہیں تو بالکل ایک بچے کی طرح حیران و پریشان ہوتے ہیں کہ اب کیا کریں-  شاید انہوں نے اپنا آرام اس لئے قربان کیا ہوتا ہے کہ انکے بچے بڑے ہو کر اس آرام کا موقع انہیں دیں گے-   

جنگل میں بھی انسان کے فائدے کی جڑی بوٹیاں اگتی رہتی ہیں لیکن جنگل کسی کھیت کی طرح منظّم اور مسلسل غذا کا ذریعہ نہیں ہوتا-  نہیں ہوتا-  برصغیر کا معاشرہ بھی ایک جنگل کی طرح ہے-  اس میں وقفہ وقفہ سے نیک، مخلص اور سمجھدار لوگ پیدا ہوتے رہتے ہیں-  لیکن ایک منفی ماحول میں یہ سخت  آزمائشوں کا شکار رہتے ہیں اور آخر میں تھک جاتے یا مایوس  ہو جاتے ہیں- علامہ اقبال، قائد اعظم اور ان سے پہلے اور بعد کے مخلص انسان بھی جنگل میں پیدا ہونے والی جڑی بوٹیوں کی طرح تھے جو بیماری میں بہترین دوائیں ثابت ہوئیں-  لیکن مسلسل صحت کے لئے معاشرے کے ایک ایک فرد کو اپنے پرہیز اور ماحول کی صفائی کا خود خیال رکھنا پڑتا ہے-  

اس عمر کے لوگوں کو سب سے زیادہ دعا اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے-  دو تین سال پہلے جب امی بابا آۓ تھے تو انکے لئے سب سے زیادہ یہی حکمت عملی کام آئی تھی-  بابا تہجّد سے اٹھے ہوتے تھے اس لئے فجر کے بعد سو جاتے تھے-  میں نے ایک دن ایسے ہی صبح صبح انکے بچپن کے بارے میں پوچھ لیا- کوئی دو گھنٹے تک وہ رامپور کے بارے میں بتاتے رہے-  دوسری صبح وہ سونے کے بجاۓ میز پر بیٹھے تھے-  میں نے پھر انکے بچپن کی شرارتوں کا پوچھ لیا-  اسی طرح چار پانچ دن ہوا-  اس دوران وہ بڑے پر جوش ہوجاتے-  ایک کے بعد ایک بات انھیں یاد آتی چلی جاتی-  یہی امی کے ساتھہ بھی ایک دو مرتبہ کیا- 

اس میں کوئی شک نہیں کہ بزرگ گھر میں الله کی رحمت ہوتے ہیں-  ان کے دم سے ماحول میں نور ہوتا ہے-  انکی وجہ سے رحمت کے فرشتے گھروں کا رخ کرتے ہیں-  لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ بزرگوں کو نئے زمانے کے نئے تقاضوں کے مطابق اپنی زندگی اور سوچ  میں تھوڑی سی تبدیلی لانی چاہیے-  آج جس مشکل ترین طرز زندگی کو یہ جوان گذار رہے ہیں اس سے تعارف بہر حال بزرگوں نے ہی کرایا تھا-  ایک خوشحال، آرام دہ، اپنی اپنی زندگی کے خواب، بزرگوں نے ہی ان کو دکھاۓ تھے-  آج یہ انہی خوابوں کو حقیقت بنانے پر تلے ہوۓ ہیں-  یہ بھول کر کہ کل ان کا کوئی پرسان حال نہ ہوگا- ایک غیر منظّم معاشرے میں اگر بزرگوں کا قصور نہیں تو جوانوں کا بھی نہیں-  سواۓ اس کے کہ اگر یہ جوان اپنے بچوں کی بہتری چاہتے ہیں تو پھر تھوڑے صبر و برداشت اور عقلمندی کے ساتھہ ایک مربوط نظام بنائیں- اس جنگل کو کھیت میں تبدیل کریں- ورنہ اپنے بزرگوں سے بھی زیادہ بد تر بڑھاپے کے لئے تیّار رہیں-  

جو بزرگ ایدھی سنٹرز اور ایسے ہی دوسرے اداروں میں ہیں وہ تو وہیں ایک دوسرے پر اپنے ہنر آزما سکتے ہیں-  ایک دوسرے کو کچھ سکھا سکتے ہیں- ساتھہ مل کر عبادت کر سکتے ہیں-  ادارے میں پھول پودے لگا سکتے ہیں-  بجاۓ کہ اپنی اولادوں کی شکایات کریں-  ایک طریقے سے خوش ہو سکتے ہیں کہ چلو اس بہانے پتہ نہیں کتنے لوگوں سے ملاقات ہو گئی-  اپنی اپنی زندگی کی اچھی یادیں ایک دوسرے کے ساتھ شئیر کر سکتے ہیں-  بلکہ کوئی انٹر ویو لینے کے بہانے منفیت پھیلانے اور مایوس کرنے کی کوشش کرے تو انکی کوشش بھی ناکام کر دیں-  جب بچوں کی شادیاں کردیں-  تو اب کیا فرق پڑتا ہے کہ کہاں رہیں-  الله کی دنیا دیکھیں-  اسکی قدرت پر توجہ کریں-  اسکا ذکر کریں، شکر کریں-  بچے جانیں اور انکی زندگی-  اگر انکو مدد کی ضرورت ہو تو ضرور مدد کریں-  لیکن خود کو انکے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں-  کیونکہ وہ بھی بڑے مشکل ترین دور سے گذر رہے ہیں-  اور بہت مرتبہ مجبور بھی ہوتے ہیں-  اور نہیں تو کوئی شوق پال لیں-  اپنی آخرت کے لئے نیکیاں جمع کرنی شروع کردیں-  

 ایک بوڑھا ہوا کرتا تھا- جو اپنے ساتھ بڑا سا تھیلا لئے گھر گھر شام کے وقت روٹیاں اور کھانا جمع کرتا تھا-  لوگ اس کے پیٹھ پیچھے اس پر تنقید کرتے کہ یہ اتنے کھانے کا کرتا کیا ہے-  پاگل ہے-  وغیرہ وغیرہ -  پھر کچھ دن وہ نظر نہ آیا-  معلومات کرنے پر پتہ چلا کہ اسکا انتقال ہو گیا- اور وہ کچھ یتیم بچوں کے لئے کھانا جمع کیا کرتا تھا-  اور اگر اس بوڑھے کا انتقال نہ ہوا ہوتا تو لوگوں کو یہ بھی نہ پتہ چلتا کہ اس علاقے میں کچھ یتیم بچے بھی ہیں جن کی باسی روٹی کا آسرا بھی چھن گیا ہے-  

ہم بہن بھائیوں اور کزنوں کے کے بچپن میں بہت شوق ہوا کرتے تھے-  ایک تو گھر میں طوطے اور بلّیاں-  اور طوطے ہم خریدتے نہیں تھے بلکہ ٹماٹر، ہری مرچیں اور روٹی کے ٹکڑے رکھ رکھ کر انھیں پکڑا کرتے-  اور امی انکے پر کاٹ دیتیں-  پھر چھوٹے بھائی کو کبھی کنیریز، چوزوں کا شوق چڑھتا-  کبھی وہ تنکوں اور تیلیوں سے گاڑیاں اور جہاز بنا رہا ہوتا-  باجی اپنی ڈائریاں اور دوستیاں اور کڑاہیاں میں مصروف ہوتیں- میری مختلف چھوٹی چھوٹی کاپیاں ہوتی تھیں ایک ریکارڈ کی صورت میں-  ایک میں نعتیں لکھی ہوتیں اور مساجد کی تصویریں-  ایک میں فوجی نغنے اور فوجیوں کی تصویریں-  کچھ ڈرائنگ کی کاپیاں جس میں کلیگرافی، ڈیزائنز اور پتہ نہیں کیا کیا بنایا ہوا تھا-  ہم کزنز مل کر پتہ نہیں کتنے کھیل کھیل رہے ہوتے تھے- کبھی اپنی گڑیوں کے کپڑے سی رہے ہوتے-  کبھی اون سلائیاں ہاتھ میں- کبھی آپا آپا، کبھی کلاس کا منظر, کبھی اسپتال کا منظر-  چوڑیاں جمع کرنے کا شوق- اور ٹوٹی ہوئی چوڑیوں سے چیزیں بنانے کا شوق-  کیا کیا ترکیبیں لڑا رہے ہوتے شرارتوں کی-  دو گھر چھوڑ کر ایک گھر میں آم کا درخت تھا جس پر سے اپنے گھر سے کیریاں توڑی جاتیں-  امی کو آج تک بھی نہیں پتہ کہ انکا پسا ہوا دھنیے میں چینی ملا کر میں کھا جاتی تھی- ایک دوسرے کی سالگرہ منا رہے ہوتے- حتیٰ کہ بلّیوں کی بھی سالگرہ منا لیتے- ایک دوسرے کی مجلسوں میلادوں میں جارہے ہوتے- کبھی خود ہی بچوں کا میلاد کرتے-  مجلسوں میں مقابلہ کرتے کہ کون سب سے زور سے ماتم کرے گا-  چھوٹی خالہ کو گھومنے پھرنے اور ہلّے گلّے کا شوق تھا- تو کراچی انکی وجہ سے گھوما- فلمیں بھی وہی دکھاتی تھیں- امی کی ایک دوست کے والد، شوق مرادآبادی صاحب شاعر تھے تو انکی وجہ سے علاقے کے کئی مشاعروں میں بھی گۓ وہاں اقبال عظیم صاحب اور دوسرے شعراء کو دیکھتے اور سنتے-  اور ایک مرتبہ تو انتہا کردی کہ اپنی ایک کزن کی سالگرہ کو پورا فنکشن بنا ڈالا-  سارے خاندان کو بلایا- کرسیاں لگائیں- ایک مہینہ اسکی ریہرسل کی-   بڑوں نے اسٹیج بنایا-  ہم چھوٹوں نے ڈرامے، گانوں اور لطیفوں میں کردار ادا کیے-  اور کیا کمال کی اداکاریاں کیں-  مصروفیت سی مصروفیت تھی- زندگی تخلیق ,خوشیوں اور جوش کی انتہاؤں پر تھی-  اور ہمارا گھر ایک مکمّل مونٹیسوری کی مثال تھا-   

اس ملک کے لوگ شدید ترین نفسیاتی بحران کا شکار ہیں-  اس لئے کہ نہ ان میں کسی چیز کا شوق نہ ذوق- کسی چیز سے خوش نہیں- ہر کام مشکل،   ہر چیز اور ہر کام بے کار لگتا ہے انکو-  اور ہر عمر میں کرنا بے کار لگتا ہے-  طویل خواہشات اور پھر اس میں ناکامی-  سب کے لئے عذاب بن گئی ہے-  ہر کوئی خود کو حق پر سمجھتا ہے-  ہر کوئی خود معصوم سمجھتا ہے-  ہر کوئی خود کو عاقل اور دوسرے کو بے وقوف سمجھتا ہے-  ہر کوئی دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے-  ہر کسی نے اپنی مجبوریوں اور اپنے اعمال کو جسٹیفائی کیا ہوا ہے- اور کم سے کم پرفارمنس پر زیادہ سے زیادہ اجر کا امید وار ہے-  بقول بابا کے پرانے شعر کے 

کرنی کرے تو کیوں کرے اور کر کے کیوں پچتاۓ 
بیج بوۓ ببول کا تو آم کہاں سے کھاۓ 

اور یہ بات بزرگوں کو بچے نہ بتائیں کیونکہ یہ بزرگوں کے لئے کسی صدمے سے کم نہیں ہوتا-  اور مروت اور شرافت کا تقاضہ بھی نہیں-  یہ بات سمجھدار بزرگ ہی دوسرے بزرگوں کو سمجھا سکتے ہیں-  

ہمارے ہاں ایک سوچ نے آہستہ آہستہ اس معاشرے میں ایک شخصیت کا روپ دھار لیا ہے کہ بڑھاپے میں زندگی بے کار ہوجاتی ہے-  جوں  جوں  لوگ عمر رسیدگی کی طرف گامزن ہوتے ہیں وہ یہ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں کہ جب جوانی میں ہم کامیابی حاصل نہ کرسکے تو بڑھاپے میں کیا کریں گے-  اور کامیابی ان کے نزدیک بنگلہ، گاڑیاں، بینک بیلنس، نوکر چاکر، شہرت کا نام ہوتا ہے-  وہ یہ نہیں سوچتے کہ کروڑوں لوگوں کے ایک بے ہنگم ہجوم میں زندہ رہنا، اور اخلاقی اصولوں کے مطابق زندہ رہنا اور اس دوران اپنی اولادوں کو بھی اخلاقی اصولوں کے مطابق تعلیم و تربیت دینا بھی بہت بڑی کامیابی ہے-  کامیابی وہ نہیں جسے دوسرے کامیابی کہیں-  


"اور خدا کی رضا مندی تو سب سے بڑھ کر نعمت ہے-  یہی بڑی کامیابی ہے"- سوره التوبہ، آیت ٧٢ 

سعید ہاشمی کی ایک نعت کا شعر ہے کہ 
اگر کوئی اپنا بھلا چاہتا ہے   
اسے چاہے جس کو خدا چاہتا ہے 
خدا کی رضا مصطفیٰ چاہتے ہیں 
خدا مصطفیٰ کی رضا چاہتا ہے 


یہ نکتۂ رضا چودہ سو سال پہلے اہل بیت اور اصحابہ کرام کو سمجھ آگیا تھا-  اور آدھی سے زیادہ دنیا چالیس سال میں مسلمانوں کے زیر حکومت تھی-  

Sunday 6 April 2014

Stages of Human Life - انسانی زندگی کے مراحل

 ایک حدیث کے مطابق، قیامت کے دن انسان کے قدم الله کی عدالت میں کٹہرے سے ہٹ نہیں سکیں گے جب تک وہ پانچ سوالوں کے جواب نہ دے لے- 
١- زندگی کیسے گزاری؟ 
٢- جوانی کیسے گزاری؟
٣- دولت کیسے کمائی؟
٤- دولت کہاں خرچ کی؟
٥- اور حاصل کئے ہوۓ علم پر کتنا عمل کیا؟ 

قرآن (٦١٠ - ٦٣٢ / 610 - 632) نے انسان کی زندگی کے تمام ادوار آٹھہ حصّوں میں تقسیم کیا ہے- "وہ حالت جس میں تمام انسانوں سے عہد لیا گیا تھا کہ الله کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے- ماں کے پیٹ میں زندگی کا جسم اور روح کی صورت میں ڈھلنا-  ماں کے پیٹ سے باہر کی زندگی یا بچپن- جوانی یعنی طاقت کی زندگی - بڑھاپا یعنی عمر کا لوٹایا جانا - قبر یعنی عالم برزخ میں زندگی - روز احتساب کی زندگی - آخرت کی زندگی دوزخ یا جنّت کی صورت میں"

اور دنیاوی زندگی کو پیدائش سے موت تک بنیادی طور پرچار حصّوں میں بانٹا ہے- "بچپن یعنی کھیل کود - نوجوانی یعنی زینت و آرائش - جوانی یعنی فخر اور ستائش - بڑھاپا یعنی مال اور اولاد بڑھنے کی خواہش-"

"جان رکھو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا اور زینت (وآرائش) اور تمہارے آپس میں فخر (وستائش) اور
مال واولاد کی ایک دوسرے سے زیادہ طلب   ہے- 
سورہ الحدید

 اور دنیا کی زندگی تو متاع فریب ہے"-
سورہ الحدید 

ابن سینا (٩٨٠ - ١٠٣٧ / 980 - 1037) انسان کی دنیاوی زندگی کو اسکی شخصیت کی تکمیل کے مراحل کے لحاظ سے تین حصّوں میں تقسیم کرتے ہیں- 
١- پہلا حصّہ پیدائش سے چھ سال تک کی عمر، جس میں بچے کو انتہائی نگہداشت اور آزادی کی ضرورت ہوتی ہے- 
٢- دوسرا حصّہ چھ سے چودہ سال تک کی عمر، جس میں بچے کو اتنا سمجھدار ہو جانا چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کے لئے فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو- 
٣- تیسرا حصّہ بلوغت یا نوجوانی کی عمر جو کہ تیرہ یا چودہ سے چوبیس سال تک ہوتی ہے- یعنی اپنی زندگی کے فیصلوں کا اختیار- 
٤- شخصیت کی تکمیل اور تعلیم کے حصول کے بعد یک عاقل و بالغ انسان کی حیثیت سے موت کے وقت تک زندگی گذارنا

شکسپیئر (١٥٦٤- ١٦١٦ / 1564 - 1616) نے زندگی کو سات حصّوں میں تقسیم کیا- Seven Stages of Man
"پیدائش سے اسکول جانے تک کی عمر - اسکول جانے کی عمر - نوجوانی کی شروع کے سال - نوجوانی کے بھرپور سال - جوانی - ادھیڑ عمر - بڑھاپا"

ماریا مونٹیسوری (١٨٧٠ - ١٩٥٢ / 1870 - 1952) انسان کی زندگی کو پانچ حصّوں میں تقسیم کرتی ہیں- 
 ١- پہلا حصّہ پیدائش سے چھہ سال تک کی عمر  
٢- دوسرا حصّہ چھ سال سے لے کر بارہ سال تک کی عمر- 
٣- تیسرا حصّہ بارہ سال سے اٹھارہ سال تک کی عمر-  جس میں سے بارہ سے پندرہ یعنی تین سال کا عرصہ بچے کی انتہائی حسّاسیت کا ہوتا ہے اور پھر پندرہ سے اٹھارہ یعنی تین سال کا عرصہ اسکی خود مختاری کی طرف رغبت کا ہوتا ہے-  
٤- چوتھا حصّہ اٹھارہ سے چوبیس سال تک کی عمر- یعنی نوجوانی- 
٥- نوجوانی کے بعد سے موت تک کی عمر یعنی جوانی اور بڑھاپا

خلاصه یہ کہ 
١- بارہ سے چودہ پر آکر بچپن ختم ہو جاتا ہے- 
٢- مزید دس سال بعد نوجوانی ختم ہو جاتی ہے- 
٣- مزید  چھبیس سال بعد جوانی ختم ہو جاتی ہے- 
٤- اور میری عقل کے مطابق ذرا دیر کے لئے پچاس سے ساٹھ کے درمیان کے دس سال, جسکا نام میں نے "دنیا کا عالم برزخ  یا سکتہ کی حالت" رکھا ہے, نکال دیں تو 
٥- ساٹھویں سال سے بڑھاپے کا آغاز- اور موت کی طرف سفر شروع ہو جاتا ہے- 
٦- موت- آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل- اس دنیا سے رخصتی- 
٧- دوسری منزل قبر یعنی عالم برزخ - کسی شاعر نے کہا کہ "موت اک زندگی کا وقفہ ہے- ذرا آگے بڑھیں گے دم لے کر"- 
٨- تیسری منزل صور اوّل اور دوئم یعنی حشر- 
٩- چوتھی منزل قیامت یا یوم القیامه (لغوی معنی کھڑے ہونے کا دن) یعنی روز احتساب - جسے اقبال نے کہا "ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب"-
١٠- جنّت یا جہنّم میں رہائش 

"اور جس کو ہم بڑی عمر دیتے ہیں تو اسے خلقت میں اوندھا کردیتے ہیں
تو کیا یہ سمجھتے نہیں؟" - 
سورہ یٰسین 

رسول الله صلی الله علیہ وسلّم نے عمر رسیدگی کی دعا بھی امّت کو سکھائی- 
" اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْجُبْنِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْبُخْلِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ أَرْذَلِ الْعُمُرِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدُّنْيَا وَعَذَابِ الْقَبْرِ"
"یا الله! میں آپکی پناہ مانگتا/مانگتی ہوں بزدلی سے اور بخل سے اور عمر کے لوٹاۓ جانے یعنی بڑھاپے سے اور دنیا کی آزمائشوں سے اور قبر کے عذاب سے"- 

اگر ماریا مونٹیسوری کا بارہ سے پندرہ سال تک کے بچوں کی عمر کا فلسفہ اور نفسیات پڑھیں- اور اپنی زندگی میں ملنے والے اپنے گھر اور خاندان کے لوگوں سمیت ہر شخص کی زندگی پر غور کریں جو پچاس سے ساٹھ سال کے دورانی عرصہ میں ہے تو یہ حقیقت سامنے آۓ گی کہ اپنی ساٹھ سے زیادہ سالہ زندگی میں (اگر کسی کو اتنی زندہ رہنا نصیب ہو) ہر انسان کم از کم دو مرتبہ اپنی عمر پر لوٹایا جاتا ہے-  دو مرتبہ عالم برزخ کا تجربہ کرتا ہے-  یا ایسے جیسے اعراف پر کھڑا ہوا کشمکش میں ہو کہ اب کیا ہوگا یا کیا کرنا ہے- اگر ان دونوں مراحل سے پہلے کا دور مثبت ہو تو انسان بہت جلد کشمکش سے باہر نکل آتا ہے- ورنہ اکثر بھٹکتا رہ جاتا ہے- 

١- بارہ سے پندرہ تک کے تین سال، جب وہ انسان اپنی شخصیت کی تکمیل کے بچپن سے بلوغت کے مراحل طے کر رہا ہوتا ہے-  اور اس دوران حسّاسیت اور جذباتیت کے اسی انتہائی لیول پر ہوتا ہے جس پر ایک دو سے چار سال کا بچہ ہوتا ہے-  اس مرحلہ کے دوران بچہ نہ بڑوں میں ایڈجسٹ ہو پاتا ہے نہ چھوٹوں میں- 
وہ شاید اس ڈویلوپمنٹ کے لئے تیّار نہیں ہوتا اور اکثر ضد، غصّے اور ہٹ دھرمی کا رویّہ اپناتا ہے یا پھر تنقید, خوف اور بزدلی کا- اس دوران اکثر انکی ذہنی اور جسمانی نشو نما کا گراف نیچے گرتا ہے- اور اگر اس وقت بچے پر توجہ نہ دی جاۓ تو یہی رویے اسکی شخصیت کا حصّہ بن جاتے ہیں اور بہت عرصے تک اس کی زندگی کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں-  

ایک حدیث بہت پہلے کہیں پڑھی تھی کہ "جو اپنی جوانی برباد کرتا ہے الله اس کا بڑھاپا برباد کردیتا ہے"- 

٢- پچاس سے ساٹھہ کے درمیان دس سال کا دورانیہ ہوتا ہے-  اور دس سال کا عرصہ کوئی تھوڑا عرصہ نہیں ہوتا- تین ہزار چھہ سو پچاس دن یا ستاسی ہزار چھ سو گھنٹے بنتے ہیں- اگر کوئی روزانہ سات گھنٹے کے حساب سے سال میں دو ہزار پانچ سو پچپن گھنٹے سوتا ہے تو بھی دس سال میں اس کے پاس باسٹھ ہزار پچاس گھنٹے بچتے ہیں دوسرے کاموں کے لئے-  

اکثر لوگ ان سالوں کے دوران اپنے بلوغیت کے ابتدائی دور کی طرح ایک انتہائی حسّسیات اور جذباتیت کے لیول پر ہوتے ہیں-  لیکن اسی دور کے بر خلاف جسمانی طور پر کمزوری اور تھکن کی طرف مائل ہوتے ہیں اور اسکا انھیں شدید ادراک بھی ہوتا ہے اور آگے کے سالوں میں اسی کا خوف بھی- 

عام طور پر اس دوران لوگوں کی اولاد بڑے ہو کر اپنی نوجوانی کے اختتام اور جوانی کے آغاز پر ہوتی ہے-  وہ اپنے سے چھوٹوں سے یہ نہیں سننا چاہتے کہ انہوں نے ساری زندگی ضائع کردی اور کتنی بڑی بڑی بے وقوفیاں یا گناہ کئے- وہ اپنے ہم عصروں کے مذاق کا نشانہ بھی نہیں بننا چاہتے کہ انہوں نے کیا کیا غلطیاں کی ہیں- وہ اپنے بڑوں سے بھی شرمندہ ہوتے ہیں- ایک فلم کی طرح انکی زندگی انکے سامنے ہوتی ہے اور وہ خود اپنی کمیوں اور زیادتیوں پر گواہ ہوتے ہیں- اور انھیں شدید ترین احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے کہاں کہاں وقت، صلاحیتیں اور پیسہ ضائع کیا- اسی لئے اکثر عمر رسیدہ لوگ وہ وہ نصیحتیں کر رہے ہوتے ہیں جنھیں وہ خود ایک مذاق اور فضولیات سمجھتے تھے اور جواب میں انہیں نوجوانوں اور جوانوں  سے طعنے پڑ رہے ہوتے ہیں-  

ان سالوں کے دوران وہ اپنی ذہنی سطح کے مطابق ایک ایسی زندگی کے خواہشمند ہوتے ہیں جس میں ذہنی سکون بھی ہو، جسمانی آرام بھی، ایسے مواقع بھی ہوں جس سے وہ اپنے نا مکمّل خوابوں (اگر کوئی ہیں) کی تکمیل کرسکیں، عبادت (کسی بھی قسم کی) کرسکیں، تھوڑی بہت خود کفالت بھی کر سکیں (اس میں خواتین کی اکثریت شامل نہیں)- اور معاشرے میں ایک سلجھے ہوۓ، پرسکون،تہذیب یافتہ شخص کی طرح-  اور یہ تعریف پچھلے تیس سال کے کراچی کے لوگوں کے لئے نہیں ہے- اس سے پہلے وہ بھی کسی حد تک نارمل ہوا کرتے تھے- 

اس دورانیہ میں کافی لوگ اپنی ساری زندگی کی کاہلی کے باوجود ذرا دیر کے لئے چاق و چوبند ہوجاتے ہیں-  دنیا کو یہ یقین دلانے کے لئے کہ وہ ابھی جوان ہیں- اپنا حلیہ اور وضع قطع بھی ویسی ہی بنانے کی کوشش کرتے ہیں- ویسا ہی جذبہ دکھاتے ہیں جو جوانی میں دکھانا چاہیے تھا- اور اس دور کو آخری موقع سمجھ کر ضائع نہیں کرنا چاہتے- جو کہ کوئی بری بات بھی نہیں بلکہ اچھی بات ہے- 
اور اکثر اپنے ہی گھر والوں اور جاننے والوں کے رویے سے ناامیدی اور مایوسی میں ڈوب کر اپنی شخصیت کی نفی کرتے ہوۓ ذہنی مریض بن جاتے ہیں اور دوسروں کے محتاج بن جاتے ہیں- 

پچھلے تیس سالوں میں اور خاص کر پچھلے بیس سالوں میں دنیا کی سماجی اور معاشی حالت میں جس بدترین طریقے سے تبدیلی آئی اور جس کے ذمّہ دار جانور، درخت، پھول، پودے، زمین، آسمان، تارے، بادل، دریا، سمندر، پہاڑ، صحرا اور پتھر نہیں- انسان ہے-  اس نے انسان ہی کے لئے وقت سے پہلے روز حشر بپا کردیا ہے- دنیا پر حکمرانی کے خواب اور ایک دوسرے پر حکمرانی کی خواھشات نے خود انسان کی زندگی مشکل ترین بنادی ہے-  اور اسکا فوری حل گو کہ انہیں دنیاوی عذابوں سے چھٹکارہ تو نہیں دلا سکتا لیکن آخرت کا سہارا بن سکتا ہے- اور وہ ہے 
کرو مہربانی تم اہل زمین پر 
خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر 

 




Saturday 5 April 2014

نوجوانی اور جوانی - چودہ سے چوبیس اور چالیس تک کے سال

گن کے تو نہیں دیکھا- لیکن سنی سنائی باتوں کے مطابق پاکستان کی آبادی ٦٥ فیصد بچوں اور نوجوانوں پر مشتمل ہے- اور اس میں بھی لڑکیوں کا تناسب لڑکوں کے مقابلے پر زیادہ ہے- اور کیونکہ پاکستان کے نوجوان لڑکے اداکاراؤں، گلوکاراؤں اور کھلاڑیوں کی پرفارمنس بار بار دیکھنے میں اور پھر ان جیسی "کاپی پیسٹ دولت اور شہرت " کے لئے  اپنا سنہری دور ضائع کردیتے ہیں- اور بعد میں پاکستان کو، سیاستدانوں کو اور پورے نظام کو گالیاں دیتے ہوۓ پاکستان سے باہر بھاگ جاتے ہیں-  اور ان کی مردانگی کا قصّہ یہاں ختم ہو جاتا ہے اور وہ ایک فرد کی حیثیت سے بے حیثیت ہو کر زندہ رہتے ہیں-  لہٰذا ملک و قوم کی ذمّہ داری خود بخود لڑکیوں پر آجاتی ہے-   

ان نوجوانوں کو یہ سوچنے کا وقت بھی نہیں ملتا کہ آج سے پچیس تیس سال بعد یہ کس قسم کے معاشرے میں سانس لے رہے ہونگے-  جو معاشرہ آج ٣٥ فیصد ادھیڑ عمر اور بوڑھے لوگوں کے لئے عذاب بن گیا ہے وہ کل ٦٥ فیصد ادھیڑ عمر اور بوڑھے لوگوں کے ساتھہ کیا سلوک کرے گا؟ جس قسم کے یہ خود ہیں اور جس نہج اور سوچ پر یہ اپنی اولادوں کو بڑا بنانے کے خواب دیکھتے ہیں- کیا واقعی انکی اولادیں ان سے بہتر انسان، ان سے بہتر مسلمان، ان سے بہتر معاشرے کی مخلص اور ان سے بہتر انکے بڑھاپے کے سکون اور آرام کی ضامن ہونگی؟  جبکہ بڑھاپا خود زندگی کی آزمائشوں اور عذابوں میں سب سے بڑی آزمائش اور سب سے بڑا عذاب ہے-  

اکثر تو یہ کہہ دیتے ہیں کہ جب موت آۓ گی دیکھا جاۓ گا، جب بڑھاپا آۓ گا دیکھا جاۓ گا، جب قیامت آۓ گی دیکھا جاۓ گا- اور بہت سوں کو یہ کہتے سنا کہ بس یہ قوم اب اسی قابل ہے کہ اس پر عذاب نازل ہوں- یا یہ کہ ہم ہیں ہی اس قابل کہ ہم پر عذاب نازل ہوں-  

"ایک طلب کرنے والے نے عذاب طلب کیا جو نازل ہو کر رہے گا- (یعنی) کافروں پر (اور) کوئی اس کو ٹال نہ سکے گا- (اور وہ) خدائے صاحب درجات کی طرف سے (نازل ہوگا)- جس کی طرف روح (الامین) اور فرشتے پڑھتے ہیں (اور) اس روز (نازل ہوگا) جس کا اندازہ پچاس ہزار برس کا ہوگا-" 
سورہ المعارج 

"خدا ہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو چیزیں ان دونوں میں ہیں سب کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جا ٹھہرا۔ اس کے سوا نہ تمہارا کوئی دوست ہے اور نہ سفارش کرنے والا۔ کیا تم نصیحت نہیں پکڑتے؟ وہی آسمان سے زمین تک (کے) ہر کام کا انتظام کرتا ہے۔ پھر وہ ایک روز جس کی مقدار تمہارے شمار کے مطابق ہزار برس ہوگی۔ اس کی طرف صعود (اور رجوع) کرے گا-" 
سورہ السجدہ 

منہ سے نکلے یہ جملے علامت ہیں معاشرے کے ہر فرد، ہر فرقے، ہر جماعت اور ہر نظام کی ناکامی کی- انہوں نے اگر قرآن نہیں پڑھا یا نہیں پڑھنا چاہتے تو کم از کم سائنس پڑھ لیں-  

دل میں بسنے والا خیال، ذہن میں رہنے والی سوچ اور منہ سے نکلے الفاظ --- یہ سب انسان کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں- الفاظ منہ سے نکل کر مادّے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور "فطرت کے قانون تحفظ" کے مطابق مادّہ فنا نہیں ہوتا بلکہ توانائی کی ایک شکل سے دوسری شکل اختیار کر لیتا ہے-  الفاظ منہ سے نکلنے کے بعد ختم نہیں ہوجاتے- بلکہ آواز سے حرارت میں تبدیل ہوکر ہوا کی لہروں پر سفر کرتے رہتے ہیں- ہر شخص کی آواز بھی اسکی فنگر پرنٹس کی طرح منفرد ہوتی ہے- حتیٰ کہ جڑواں بچوں کی شکلیں ایک جیسی ہونے کے باوجود انکے فنگر پرنٹس فرق ہوتے ہیں-  اور انکی آواز تقریبا ایک جیسی ہونے کے باوجود اسکا اتار چڑھاؤ اور مخارج فرق ہوتے ہیں- (اور میری ننھی منھی عقل کے مطابق الفاظ انسانی جسم یا انسانی جسم کی الیکٹرومگنیٹک فیلڈ کا وہ حصّہ ہوتے ہیں جو اسکی اجازت اور ارادوں کے بغیر اس کائنات میں پھیل جاتے ہیں)- اور انکا تعلق اسی الیکٹرومگنیٹک فیلڈ کی بدولت پوری کائنات سے جڑا ہوتا ہے-  اس لحاظ سے یہ الفاظ جو اب حرارت کی شکل میں ہوتے ہیں کسی اور کی الیکٹرو مگنیٹک فیلڈ پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں- اور کیونکہ انسان کے جسم میں کل حرارت روح کی بدولت ہے لہٰذا اس کا تعلق اس کائنات سے باہر اس عالم سے بھی ہوتا ہے جہاں سے روح انسانی جسم میں بھیجی جاتی ہے- اور روح کے نکلنے کے بعد ساری کی ساری انسانی مشینری زمین کے اندر دفن کردی جاتی ہے-  اور باہر صرف وہ آوازیں سفر کرتی رہ جاتی ہیں-  پرسوں ہی باجی سے بات ہو رہی تھی تو انہوں نے یہی بات کی کہ انسان کی زندگی میں سب سے بڑا کردار اسکی سوچ اور الفاظ کا ہوتا ہے اور جادو اصل میں الفاظ کے زریعے سوچ کو قابو کرنے کا ہی نام ہے- 

"اور ہم ہی نے انسان کو پیدا کیا ہے اور جو خیالات اس کے دل میں گزرتے ہیں ہم ان کو جانتے ہیں۔ اور ہم اس کی رگ جان سے بھی اس سے زیادہ قریب ہیں- جب (وہ کوئی کام کرتا ہے تو) دو لکھنے والے جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں، لکھ لیتے ہیں-  کوئی بات اس کی زبان پر نہیں آتی مگر ایک نگہبان اس کے پاس تیار رہتا ہے"- سورہ قاف 

سوچوں کے ذریعے پیغام رسانی یا ٹیلی پیتھی کے کمال کی ایک مثال تو حضرت عمر کا واقعہ ہے جب وہ جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے کہ انکے منہ سے الفاظ نکلے "ساریہ بچو، پہاڑ کے پیچھے سے"- یہ الفاظ حضرت ساریہ کو کئی سو میل دور پہاڑی کے پاس سنائی دیے جہاں وہ جنگ کے لئے بھیجے گۓ تھے- حضرت عمر منہ سے خطبہ دے رہے تھے جبکہ انکا ذہن مکمّل طور پر اس جنگ کی طرف متوجہ تھا-  جبکہ حضرت ساریہ وہاں موجود ہوتے ہوۓ بھی جسمانی اور ذہنی طور پر سامنے دشمن کی طرف متوجہ تھے-  جیسے کہ پاؤلو کوہیلو کے مطابق جب انسان کسی چیز کو حاصل کرنے کے بارے میں سوچتا ہے تو ساری کائنات اس کوشش میں اس کا ساتھہ دیتی ہے-   

ایسے لوگوں کے لئے اقبال نے کہا-
 مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں آفاق 

اور انکے نزدیک کافر اور مومن کی تعریف مولوی کے ذہن والی نہیں ہے- 

کچھ سالوں سے ایک عقیدہ "قانون/اصول کشش The Law of Attraction" کے نام سے بہت مشھور ہوا ہے- جس کی بنیاد سائنسی اصول "کائنات کے عناصر کے مابین کشش کسی بھی ایک جیسی خصوصیت کی وجہ سے ہوتی ہے" بتائی گئی ہے -  اسکی مووی " دا سیکریٹ The Secret" بھی بہت مشھورہوئی جس میں صاف صاف خدا کے وجود سے انکار کیا گیا ہے- ایک کتاب بھی "قانون/اصول کشش- ابراھیم کی بنیادی تعلیمات The Law of Attraction -The Basics of The Teachings of Abraham" کے نام سے شائع ہو چکی ہے-  مزے کی بات کہ اس میں حضرت ابراھیم کو ایک پیغنبر یا نبی کی حیثیت سے نہیں بلکہ محض  ایک عقلمند انسان, ایک مذہبی شخص کی حیثیت سے متعارف کرایا گیا ہے-  بالکل اسی طرح جیسے ترقی پسند اور آزاد خیالی کا نعرہ لگانے والے رسول الله کی تمام تعلیمات کو نظر انداز کر کے صرف ایک حدیث پکڑ لیتے ہیں کہ خدا اپنے حقوق معاف کردے گا لیکن بندوں کے نہیں-  توہین رسالت والے پتہ نہیں کہاں سوۓ ہوۓ ہیں-  یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعے کروڑوں لوگوں کی زندگی بدل چکی ہے- 

اس عقیدے کے مطابق، جس کی بنیاد خدا کے وجود سے انکار پر ہے، انسان اپنی سوچ کے ذریعے کائنات کے ہر عنصر سے رابطہ کرسکتا ہے کیونکہ "بگ بینگ نظریہ یا اصول" کے مطابق ساری کائنات ایک ہی مادّے کے مختلف روپ یا اجسام ہیں-  "دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے" ورنہ جن کو اپنے جسم کے اندر روح کی حرارت محسوس نہیں ہوتی وہ ضرور اس قسم کے سینکڑوں عقیدوں پہ ایمان لا سکتے ہیں- اپرا ونفرے Oprah Winfrey، جم کیری Jim Carey اور لاکھوں مشہور لوگ اس عقیدے کے پیروکار ہیں-  کیونکہ خدا کے وجود سے انکاری کھل کر خدا کے وجود سے انکار نہیں کرتے بلکہ اس سوچ اور ان دلائل کو پہلے عام کرتے ہیں جو خود بخود خدا کے وجود کے بارے میں انسان کو شک میں ڈال دے-  اسلئے لاکھوں مسلمان اس عقیدے کی اصلیت جانے بغیرمحض اچھی زندگی کی خواہش میں اس عقیدے پر یقین کرنے لگتے ہیں- میری چھوٹی بہن نے کوئی پانچ چھ سال پہلے اس اصول کے بارے میں بتایا تھا اور وہ بھی اوپرا ونفرے Oprah Winfrey کے اسی موضوع پر کیا گیا پروگرام دیکھ کر-  

اس عقیدے کے اصول یہ ہیں کہ کائنات میں اچھے برے واقعات و حادثات بکھرے پڑے ہیں- آپ کی سوچ ان میں سے جس کے بارے میں سوچتی ہے وہ آپکی توجہ کے ذریعے آپکی زندگی کا حصّہ بن جاتا ہے-  اور اپنی زندگی کے حالات کو تبدیل کرنے کے لئے انکے بارے وہی سوچیں جیسا آپ چاہتے ہیں-  اور اپنی سوچ کے مؤثر اثرات کے لئے مراقبے وغیرہ سے مدد لے سکتے ہیں- ہمیشہ پر امید رہیں-  شکریہ اور احسان کا رویہ اپنائیں- اپنی صلاحیتوں، سوچ اور کائنات پر بھروسہ کریں- یہ آپ کو آپ کی توقع کے مطابق نتیجہ دے گی- آپ اپنے رویے سے لوگوں کو اچھا یا برا بنا سکتے ہیں-  

ظاہری طور پر اس کے اصولوں میں کوئی بات غیر اسلامی محسوس نہیں ہوتی سواۓ خدا کے وجود سے انکار کے-  حیرت کی بات یہ ہے یہی اصول تمام انبیاء کرام کی تعلیمات کا حصّہ تھے اور تمام آسمانی کتابوں کا محور بھی- لیکن انسان انبیاء کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں، انکی تعلیمات کا بھی انکار کر دیتے ہیں اور آسمانی کتابوں کو بھی پس پشت ڈال کر اپنے ہی جیسے عام انسانوں کی چرب دماغی اور چرب زبانی پر یقین کر لیتے ہیں-  صرف ایک خداۓ واحد کے ہونے یا نہ ہونے کی دلیل کی بنیاد پر؟  
جب قرآن کہتا ہے کہ کائنات کو انسان کے لئے مسخر کردیا، دیکھو چاند ستاروں کو، اونٹ اور گاۓ اور پہاڑوں اور پودوں اور خود اپنی بناوٹ کو- تو ہم اسے سائنس اور کفر کہتے ہیں- اور جب غیر مسلم یہ سب کر دکھاتے ہیں تو ہم اسے وقت کی ضرورت اور عالم اقوام سے مقابلے کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں؟  
کس ایمان، کس جنّت، کس شفاعت اور کس ترقی کی توقع پرزندہ ہیں ہم لوگ؟

علامہ اقبال رحمہ الله علیہ نے فرمایا، 
فراغت دے اسے کار جہاں سے 
کہ چھوٹے ہر نفس کے امتحاں سے 
ہوا پیری سے شیطاں کہنہ اندیش 
گناہ تازہ تر لاۓ کہاں سے 

تو جس طرح چودہ سو سال پہلے رسالت اور نبوت رسول الله صلی الله علیہ وسلّم پر ہوئی اور آسمانی کتابوں کا نزول قرآن پر ختم ہوا-  اسی طرح چودہ سو سال پہلے شیطان کی نت نئی چالیں بھی ختم ہو گئیں-  چودہ سو سال سے وہ پرانے حربوں کو نئے نئے تماشوں کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہے-  بقول اقبال شیطان بھی بوڑھا ہوکر تھک چکا ہے- ہزاروں سال پرانے رسم و رواج، لباس، طعام و قیام، روایات، علوم، فلسفے، عقائد اور ثقافت کو میڈیا اور ثقافتی شوز کی صورت میں آج کی دنیا کے سامنے لایا جارہا ہے اور آج کا انسان پچھلے انسانوں کے مقابلے پر تمام ظاہری جدیدیت کا دعویٰ کرنے کے باوجود اپنے معاش اور بقاء کے لئے پچھلے انسانی ادوار کا محتاج بن چکا ہے-  

http://www.guardianlv.com/2014/02/the-secret-law-of-attraction-doesnt-work-heres-proof/ 

ہمارے بچوں اور نوجوانوں کو خیالی سپرمین  اور سپائیڈر مین اور دوسرے خیالی کرداروں کے وہ ایڈونچرز اچھے لگتے ہیں جو قابل عمل نہیں-  لیکن محمّد بن قاسم، سلطان محمّد الفاتح اور دوسرے نوجوانوں کے حقیقی مہمات کو پڑھنے کا ان کے پاس نہ وقت ہے اور نہ دلچسپی- 

رسول الله صلی علیہ وسلّم کی ایک حدیث کے مطابق، "نوجوانی یا جوانی کی عبادت بڑھاپے کی عبادت کے مقابلے میں ستائیس گنا افضل ہے- اور الله کو بہت خوش کرتی ہے ایک نوجوان یا جوان کی توبہ ایک بوڑھے کی توبہ کے مقابلے پہ"- اور یہ توبہ بھی مولوی والی نہیں، جس میں ذکر و فکر و خانقاہی کے علاوہ کوئی اور اسلوب نہیں ہوتا- 
بقول اقبال, شیطان کا اپنے ماننے والوں کو آخری پیغام...

خیر اسی میں ہے قیامت تک رہے مومن غلام 
چھوڑ کر اوروں کی خاطر یہ جہاں بے ثبات 
ہر نفس ڈرتا ہوں اس امت کی بیداری سے میں 
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب کائنات 
مست رکھو ذکر و فکر صبح گاہی میں اسے 

پختہ تر کردو مزاج خانقاہی میں اسے 

اور توبہ کے لفظی معنی ہیں "پلٹ آنا" کے ہیں-  اصل راستے پر پلٹ آنا-  اور اصل راستے کا پتہ ان لوگوں کے پاس تھا جو چودہ سال پہلے اسی طرح پلٹے تھے-  اگر بہت سی تاریخی کتابیں پڑھنے کا وقت نہیں تو "مسدّس حالی" بھی کافی ہے- 


کسی نے یہ بقراط سے جا کے پوچھا       مرض تیرے نزدیک مہلک ہیں کیا کیا
کہا  دکھ جہاں میں نہیں کوئی ایسا            کہ جس کی دوا حق نے کی ہو نہ پیدا
مگر وہ مرض جس کو آسان سمجھیں       کہے جو طبیب اس کو ہذیان سمجھیں 
سبب یا علامت گر ان کو سجھائیں             تو تشخیص میں سو نکالیں خطائیں 
دوا اور پرہیز سے جی چرائیں               یونہی رفتہ رفتہ مرض کو بڑھائیں 
طبیبوں سے ہر گز نہ مانوس ہوں وہ        یہاں تک کہ جینے سے مایوس ہوں وہ
یہی حال دنیا میں اس قوم کا ہے            بھنور میں جہاز آ کے جس کا گھرا ہے
کنارہ ہے دُور اور طوفان بپا ہے             گماں ہے یہ ہر دم کہ اب ڈوبتا ہے
نہیں لیتے کروٹ مگر اہلِ کشتی             پڑے سوتے ہیں بے خبر اہلِ کشتی
گھٹا سر پہ ادبار کی چھار رہی ہے         فلاکت سماں اپنا دکھلا رہی ہے
نحوست پس و پیش منڈلا رہی ہے         چپ و راست سے یہ صدا آ رہی ہے
کہ کل کون تھے آج کیا ہو گئے تم؟          ابھی جاگتے تھے ابھی سو گئے تم؟
پر اس قومِ غافل کی غفلت وہی ہے           تنزّل پہ اپنے قناعت وہی ہے
ملے خاک میں پررعُونت وہی ہے       
ہوئی صُبح اور خوابِ راحت وہی ہے
نہ افسوس انہیں اپنی ذلت پہ ہے کچھ      
نہ رشک اور قوموں کی عزت پہ ہے کچھ
بہائم کی اور ان کی حالت ہے یکساں   
کہ جس حال میں ہیں اسی میں ہیں شاداں 
نہ ذلت سے نفرت نہ عزت کا ارماں       
نہ دوزخ سے ترساں نہ جنت کے خواہا ں 
لیا عقل و دیں سے نہ کچھ کام انہوں نے            
کیا دینِ برحق کو بدنام انہوں نے
وہ دیں جس نے اعدا کو اخواں بنایا          
وحوش اور بہائم کو انساں بنایا
درندوں کو غمخوارِ دوراں بنایا        
گڈریوں کو عالم کا سُلطان بنایا
وہ خطہ جو تھا ایک ڈھوروں کا گلہ     
گراں کر دیا اس کا عالم سے پلہ

عرب جس کا چرچا ہے یہ کچھ وہ کیا تھا  
جہاں سے الگ اک جزیرہ نما تھا
زمانہ سے پیوند جس کا جدا تھا
نہ کشورستاں تھا، نہ کشور کشا تھا
تمدن کا اس پر پڑا تھا نہ سایا
ترقی کا تھا واں قدم تک نہ آیا
نہ آب و ہوا ایسی تھی روح پرور
کہ قابل ہی پیدا ہوں خود جس سے جوہر
نہ کچھ ایسے سامان تھے واں میسر
کنول جس سے کھل جائی دل کے سراسر
نہ سبزہ تھا صحرا میں پیدا نہ پانی
فقط آبِ باراں پہ تھی زندگانی
زمیں سنگلاخ اور ہوا آتش افشاں
لوؤں کی لپٹ بادِ صرصر کے طوفاں
پہاڑ اور ٹیلے سراب اور بیاباں
کھجوروں کے جھنڈ اور خارِ مغلیاں
نہ کھیتوں میں غلہ نہ جنگل میں کھیتی
عرب اور کل کائنات اس کی یہ تھی
نہ واں مصر کی روشنی جلوہ گر تھی
نہ یونان کے علم و فن کی خبر تھی
وہی اپنی فطرت پہ طبع بشر تھی
خدا کی زمیں بن جتی سر بسر تھی
پہاڑ اور صحرا میں ڈیرا تھا سب کا
تلے آسماں کے بسیرا تھا سب کا
کہیں آگ پجتی تھی واں بے محابا
کہیں تھا کواکب پرستی کا چرچا
بہت سے تھے تثلیث پر دل سے شیدا
بتوں کا عمل سو بسو جا بچا تھا
کرشموں کا راہب کے تھا صید کوئی
طلسموں میں کاہن کے تھا قید کوئی
وہ دنیا میں گھر سب سے پہلا خدا کا
خلیل ایک معمار تھا جس بنا کا
ازل میں مشیت نے تھا جس کو تا کا
کہ اس گھر سے ابلے گا چشمہ بدی کا
وہ تیرتھ تھا اک بت پرستوں کا گویہ
جہاں نامِ حق کا نہ تھا کوئی جویا
قبیلے قبیلے کا بت اک جدا تھا
کسی کا ببل تھا کسی کا صفا تھا
یہ عزا پہ وہ نائلہ پر فدا تھا
اسی طرح گھر گھر نیا اک خدا تھا
نہاں ابرِ ظلمت میں تھا مہرِ انور
اندھیرا تھا فاران کی چوٹیوں پر
چلن ان کے جتنے تھے سب وحشیانہ
ہر اک لوٹ اور مار میں تھا یگانہ
فسادوں میں کٹتا تھا ان کا زمانہ
نہ تھا کوئی قانوان کا تازیانہ
وہ تھے قتل و غارت میں چالاک ایسے
درندے ہوں جنگل میں بے باک جیسے
نہ ٹلتے تھے ہر گز جواڑ بیٹھتے تھے
سلجھتے نہ تھے جب جھگڑ بیٹھتے تھے
جو وہ شخص آپس میں لڑ بیٹھتے تھے
تو صدہا قبیلے بگ بیٹھتے تھے
بلند ایک ہوتا تھا گرواں شرار
تو اس سے بھڑک اٹھتا تھا ملک سارا
بہ بکر اور تغلب کی باہم لڑ ائی
صدی جس میں آدھی انھوں نے گنوائی
قبیلوں کی کردی تھی جس نے صفائی
تھی اک آگ ہر سو عرب میں لگائی
نہ جھگڑا کوئی ملک و دولت کا تھا وہ
کرشمہ اک ان کی جہالت کا تھا وہ
کہیں تھا مویشی چرانے پہ جھگڑا
کہیں پہلے گھوڑا بڑھانے پہ جھگڑا
لبِ جو کہیں آنے جانے پہپ جھگڑا
کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا
یونہی روز ہوتی تھی تکرار ان میں
یونہی چلتی رہتی تھی تلوار ان میں
جو ہوتی تھی پیدا کسی گھر میں دختر
تو خوفِ شماتت سے بے رحم مادر
پھرے دیکھتی جب تھی شوہر کے تیور
کہیں زندہ گاڑ آتی تھی اس کو جاکر
وہ گود ایسی نفرت سے کرتی تھی خالی
جنے سانپ جیسے کوئی جننے والی
جوا ان کی دن رات کی دل لگی تھی
شراب ان کی گھٹی میں گویا پڑی تھی
تعیش تھا غفلت تھی، دیوانگی تھی
غرض ہر طرح ان کی حالت بری تھی
بہت اس طرح ان کو گزری تھیں صدیاں
کہ چھائی ہوئی نیکیوں پر تھی بدیاں
یکایک ہوئی غیرتِ حق کو حرکت
بڑھا جانبِ بوقبیں ابرِ رحمت
ادا خاکِ بطحا نے کی وہ ودیعت
چلے آتے تھے جس کی دیتے شہادت
ہوئی پہلوئے آمنہ سے ہویدا
دعائے خلیل اور نویدِ مسیحا
ہوئے محو عالم سے آثارِ ظلمت
کہ طالع ہوا ماہِ برجِ سعادت
نہ چٹکی مگر چاندنی ایک مدت
کہ تھا ابر میں ماہتابِ رسالت
یہ چالیسیویں سال لطفِ خدا سے
کیا چاند نے کھیت غارِ حرا سے
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ
خطا کار سے درگزر کرنے والا
بد انیش کے دل میں گھر کرنے والا
مفاسد کلا زیر و زبر کرنے والا
قبائل کو شیر و شکر کرنے والا
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخۂ  کیمیا ساتھ لایا
مسِ خام کو جس نے کندن بنایا
کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا
عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا
رہا ڈرنہ بیڑے کو موجِ بلا کا
ادھر سے ادھر پھر گیا رخ ہوا کا
پڑی کان میں دھات تھی اک نکمی
نہ کچھ قدر تھی اور نہ قیمت تھی جس کی
طبیعت میں جو اس کے جو ہر تھے اصلی
ہوئے سب تھے مٹی میں مل کر وہ مٹی
پہ تھا ثبت علمِ قضا و قدر میں
کہ بن جائے گی وہ طلا اک نظر میں
وہ فخرِ عرب زیبِ محراب و منبر
تمام اہلِ مکہ کو ہمراہ لے کر
گیا ایک دن حسبِ فرمانِ داور
سوئے دشت اور چڑھ کے کوہِ صفا پر
یہ فرمایا سب سے کہ " اے آلِ غالب
سمجھتے ہو تم مجھ کو صادق کہ کاذب؟"
کہا سب نے " قول آج تک کوئی تیرا
کبھی ہم نے جھوٹا سنا اور نہ دیکھا"
کہا" گر سمجھتے ہو تم مجھ کو ایسا
تو باور کروگے اگر میں کہوں گا؟
کہ فوجِ گراں پشتِ کوہِ صفا پر
پڑی ہے کہ لوٹے تمہیں گھات پاکر"
کہا" تیری ہر بات کا یاں یقیں ہے
کہ بچپن سے صادق ہے تو اور امیں ہے"
کہا" گر مری بات یہ دل نشیں ہے"
تو سن لو خلاف اس میں اصلا نہیں ہے
کہ سب قافلہ یاں سے ہے جانے والا
ڈرو اس سے جو وقت ہے آنے والا
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلادی
نئی اک لگن دل میں سب کے لگادی
اک آواز میں سوتی بستی جگا دی
پڑا ہر طرف غل یہ پیغام حق سے
کہ گونج اٹھے دشت و جبل نامِ حق سے

وہ نبیوں ؑمیں رحمت لقب پانے والا        مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا       وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ             یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ
خطا کار سے درگزر کرنے والا          بد اندیش کے دل میں گھر کرنے والا
مفاسد کا زیر و زبر کرنے والا             قبائل کو شِیر و شکر کرنے والا
اُتر کر حرا سے سوئے قوم آیا           اور اک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا
مسِ خام کو جس نے کندن بنایا             کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا

سبق پھر شریعت کا ان کو پڑھایا
حقیقت کا گُر ان کو ایک اک بتایا
زمانہ کے بگڑے ہوؤں کو بنایا
بہت دن کے سوتے ہوؤں کو جگایا
کھلے تھے نہ جو راز اب تک جہاں پر
وہ دکھلا دیئے ایک پردہ اٹھا کر
کسی کو ازل کا نہ تھا یاد پیماں
بھلائے تھے بندوں نے مالک کے فرماں
زمانہ میں تھا دورِ صہبائے بطلاں
مئے حق سے محرم نہ تھی بزمِ دوراں
اچھوتا تھا توحید کا جام اب تک
خم معرفت کا تھا منہ خام اب تک
نہ واقف تھے انساں قضا اور جزا سے
نہ آگاہ تھے مبداء و منتبا سے
لگائی تھی ایک اک نے لوماسوا سے
پڑے تھے بہت دور بندے خدا سے
یہ سنتے ہی تھرا گیا گلہ سارا
یہ راعی نے للکار کر جب پکارا
کہ ہے ذاتِ واحد عبادت کے لایق
زبان اور دل کی شہادت کے لایق
اسی کے ہیں فرماں اطاعت کے لایق
اسی کی ہے سرکار خدمت کے لایق
لگاؤ تو لو اس سے اپنی لگاؤ
جھکاؤ تو سر اس کے آگے جھکاؤ
اسی پر ہمیشہ بھروسا کرو تم
اسی کے سدا عشق کا دم بھرو تم
اسی کے غضب سے ڈرو گر ڈرو تم
اسی کی طلب میں مرد گر مرد تم
مبرا ہے شرکت سے اس کی خدائی
نہیں اس کے آگے کسی کو بڑائی
خرد اور ادراک رنجور ہیں واں
مہ و مہر ادنیٰ سے مزدور ہیں واں
جہاندار مغلوب و مقہور ہیں واں
نبی اور صدیق مجبور ہیں واں
نہ پرسش ہے رہبان و احبار کی واں
نہ پروا ہے ابرار و احرار کی واں
تم اوروں کی مانند دھوکا نہ کھانا
کسی کو خدا کا نہ بیٹا بنانا
مری حد سے رتبہ نہ میرا بڑھانا
بڑھا کر بہت تم نہ مجھ کو گھٹانا
سب انساں ہیں واں جس طرح سر فگندہ
اسی طرح ہوں میں بھی اک اس کا بندہ
بنانا نہ تربت کو میری صنم تم
نہ کرنا مری قبر پر سر کو خم تم
نہیں بندہ ہونے میں کچھ مجھے سے کم تم
کہ بے چارگی میں برابر ہیں ہم تم
مجھے دی ہے حق نے بس اتنی بزرگی
کہ بندہ بھی ہوں اس کا اور ایلچی بھی
اسی طرح دل ان کا ایک اک سے توڑا
ہر اک قبلئہ کج سے منہ ان کا موڑا
کہیں ماسویٰ کا علاقہ نہ چھوڑا
خداوند سے رشتہ بندوں کا جوڑا
کبھی کے جو پھرتے تھے مالک سے بھا گے
دئیے سر جھکا ان کے مالک کے آگے
پتا اصل مقصود کا پاگیا جب
نشاں گنجِ دولت کا ہاتھ آگیا جب
محبت سے دل ان کا گرما گیا جب
سماں ان پہ تو حید کا چھا گیا جب
سکھائے معیشت کے آداب ان کو
پڑھائے تمدن کے سب باب ان کو
جتائی انھیں وقت کی قدر و قیمت
دلائی انہیں کام کی حرص و رغبت
کہا چھوڑ دیں گے سب آخر رفاقت
ہو فرزندو زن اس مں یا مال و دولت
نہ چھوڑے گا پر ساتھ ہر گز تمہارا
بھلائی میں جو وقت تم نے گزارا
غنیمت ہے صحت علالت سے پہلے
فراغت مشاغل کی کثرت سے پہلے
جوانی، بڑھاپے کی زحمت سے پہلے
اقامت، مسافر کی رحلت سے پہلے
فقیری سے پہلے غنیمت ہے دولت
جو کرنا ہے کر لو کہ تھوڑی ہے مہلت
یہ کہہ کر کیا علم پر ان کو شیدا
کہ ہیں دور رحمت سے سب اہلِ دنیا
مگر دھیان ہے جن کو ہر دم خدا کا
ہے تعلیم کا یا سدا جن میں جرچا
انہی کے لیے یان ہے نعمت خدا کی
انہی پر ہے واں جاکے رحمت خدا کی"
سکھائی انہیں نوعِ انساں پہ شفقت
کہا " ہے یہ اسلامیوں کی علامت
کہ ہمسایہ سے رکھتے ہیں وہ محبت
شب و روز پہنچاتے ہیں اس کو راحت
وہ برحق سے اپنے لیے چاہتے ہیں
وہی ہر بشر کے لیے چاہتے ہیں
خدا رحم کرتا نہیں اس بشر پر
نہ ہو درد کی چوٹ جس کے جگر پر
کسی کے گر آفت گزر جائے سر پر
پڑے غم کا سایہ نہ اس بے اثر پر
کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر۔
ڈرایا تعصب سے ان کو یہ کہہ کر
کہ زندہ رہا اور مرا جو اسی پر
ہوا وہ ہماری جماعت سے باہر
وہ ساتھی ہمارا نہ ہم اس کے یاور
نہیں حق سے کچھ اس محبت کو بہرہ
کہ جو تم کو اندھا کرے اور بہرہ
بچایا برائی سے ان کو یہ کہہ کر
کہ طاعت سے ترکِ معاصی ہے بہتر
تو رع کا ہے ذات میں جن کی جوہر
نہ ہوں گے کبھی عابد ان کے برابر
کرو ذکر اہلِ ورع کا جہاں تم
نہ لو عابدوں کا کبھی نام واں تم
غریبوں کو محنت کی رغبت دلائی
کہ بازو سے اپنے کرو تم کمائی
خبر تاکہ لو اس سے اپنی پرائی
نہ کرنی پڑے تم کو در در گدائی
طلب سے ہے دنیا کی گریاں یہ نیت
تو چمکو گے واں ماہِ کامل کی صورت
امیروں کو تنبیہ کی اس طرح پر
کہ ہیں تم میں جو اغنیا اور تو نگر
اگر اپنے طبقہ میں ہوں سب سے بہتر
بنی نوع کے ہوں مددگار و یاور
نہ کرتے ہوں بے مشورت کام ہر گز
اٹھاتے نہ ہوں بے دھڑک گام ہر گز
تو مردوں سے آسودہ تر ہے وہ طبقہ
زمانہ مبارک ملے جس کو ایسا
پہ جب اہلِ دولت ہوں اشرارِ دنیا
نہ ہو عیش میں جن کو اوروں کی پروا
نہیں اس زمانہ میں کچھ خیرو برکت
اقامت سے بہتر ہے اس وقت رحلت
دیے پھیر دل ان کے مکرو ریا سے
بھرا ان کے سینہ کو صدق و صفا سے
بچایا انہیں کذب سے، افترا سے
کیا سرخرو خلق سے اور خدا سے
رہا قول حق میں نہ کچھ باک ان کو
بس اک شوب میں کردیا پاک ان کو
کہیں حفظِ صحت کے آئیں سکھائے
سفر کے کہیں شوق ان کو دلائے
مفاد ان کو سوداگری کے سجھائے
اصول ان کو فرماں دہی کے بتائے
نشاں راہِ منزل کا ایک اک دکھایا
بنی نوع کا ان کو رہبر بنایا
ہوئی ایسی عادت پہ تعلیم غالب
کہ باطل کے شیدا ہوئے حق کے طالب
مناقب سے بدلے گئے سب مثالب
ہوئے روح سے بہرہ وران کے قالب
جسے راج رد کر چکے تھے، وہ پتھر
ہوا جاکے آخر کو قایم سرے پر
جب امت کو سب مل چکی حق کی نعمت
ادا کر چکی فرض اپنا رسالت
رہی حق پہ باقی نہ بندوں کی حجت
نبی نے کیا خلق سے قصدِ رحلت
تو اسلام کی وارث اک قوم چھوڑی
کہ دنیا میں جس کی مثالیں ہیں تھوڑی
سب اسلام کے حکم بردار بندے
سب اسلامیوں کے مددگار بندے
خدا اور بنی کے وفادار بندے
یتیموں کے رانڈوں کے غمخوار بندے
رہِ کفر و باطر سے بیزار سارے
نشہ میں مئے حق کے سرشار سارے
جہالت کی رشمیں مٹا دینے والے
کہانیت کی بنیاد ڈھا دینے والے
سر احکام دیں پر جھکا دینے والے
خدا کے لیے گھر لٹا دینے والے
ہر آفت میں سینہ سپر کرنے والے
فقط ایک اللہ سے ڈرنے والے
اگر اختلاف ان میں باہم دگر تھا
تو بالکل مدار اس کا اخلاص پر تھا
جھگڑتے تھے لیکن نہ جھگڑوں میں شرتھا
خلاف آشتی سے خوش آیندہ تر تھا
یہ تھی موج پہلی اس آزادگی کی
ہرا جس سے ہونے کو تھا باغ گیتی
نہ کھانوں میں تھی واں تکلف کی کلفت
نہ پوشش سے مقصود تھی زیب و زینت
امیر اور لشکر کی تھی ایک صورت
فقیر اور غنی سب کی تھی ایک حالت
لگایا تھا مالی نے اک باغ ایسا
نہ تھا جس میں چھوٹا بڑا کوئی پود ا
خلیفہ تھے امت کے ایسے نگہباں
ہو گلہ کا جیسے نگہبان چوپاں
سمجھتے تھے ذی و مسلم کو یکساں
نہ تھا عبد و حر میں تقاوت نمایا
کنیز اور بانو تھی آپس میں ایسی
زمانہ میں ماں جائی بہنیں ہوں جیسی
رہِ حق میں تھی دوڑ اور بھاگ ان کی
فقط حق پہ تھی جس سے تھی لاگ ان کی
بھڑکتی نہ تھی خود بخود آگ ان کی
شریعت کے قبضہ میں تھی باگ ان کی
جہاں کر دیا نرم نرما گئے وہ
جہاں کردیا گم، گرما گئے وہ
کفایت جہاں چاہیے واں کفایت
سخاوت جہاں چاہیے، واں سخاوت
جچی اور تلی دشمنی اور محبت
نہ بے وجہ الفت نہ بہ بے وجہ نفرت
جھکا حق سے جو، جھک گئے اس سے وہ بھی
رکا حق سے جو، رک گئے اس سے وہ بھی
ترقی کا جس دم خیال ان کو آیا
اک اندھیر تھا ربعِ مسکوں میں چھایا
ہر اک قوم پر تھا تنزل کا سایہ
بلندی سے تھا جس نے سب کو گرایا
وہ نیشن جو ہیں آج گردوں کے تارے
دھند لکے میں پستی کے پنہاں تھے سارے
نہ وہ دور دورہ تھا عبرانیوں کا
نہ یہ بخت و اقبال نصرانیوں کا
پراگندہ دفتر تھا یونانیوں کا
پریشاں تھا شیرازہ ساسانیوں کا
جہاز اہلِ روما کا تھا ڈگمگاتا
چراغ اہلِ ایراں کا تھا ٹمٹماتا
ادھر ہند میں ہر طرف تھا اندھیرا
کہ تھا گیان گن کا لدایاں سے ڈیرا
ادھر تھا عجم کو جہالت نے گھیرا
کہ دل سب نے کیش و کنش سے تھا پھیرا
نہ بھگوان و دھیان تھا گیانیوں میں
نہ یزداں پرستی تھی یزدانیوں میں
ہوا ہر طرف موجزن تھی بلا کی
گلوں پہ چھری چل رہی تھی جفا کی
عقوبت کی حد تھی نہ پرسش خطا کی
پڑی لٹ رہی تھی ودیعت خدا کی
زمیں پر تھا ابرِ ستم کا دڑیڑا
تباہی میں تھا نوع انساں کا بیڑا
وہ قومیں جو ہیں آج غمخوار انساں
درندوں کی اور ان کی طینت تھی یکساں
جہاں عدل کے آج جاری ہیں فرماں
بہت دور پہنچا تھا واںِ ظلم و طغیاں
بنے آج جو گلہ باں ہیں ہمارے
وہ تھے بھیڑئیے آدمی خوار سارے
ہنر کا جہاں گرم بازار ہے اب
جہاں عقل و دانش کا بہورا ہے اب
جہاں ابرِ رحمت گہربار ہے اب
جہاں ہن برستا لگاتار ہے اب
تمدن کا پیدا نہ تھا واں نشاں تک
سمندر کی آئی نہ تھی موج واں تک
نہ رستہ ترقی کا کوئی کھلا تھا
نہ زینہ بلندی پہ کوئی لگا تھا
وہ صحرا انھیں قطع کرنا پڑا تھا
جہاں نقشِ پا تھا نہ شورِ درا تھا
جونہی کان میں حق کی آواز آئی
لگا کرنے خود ان کا دل رہنمائی
گھٹا اک پہاڑوں سے بطحا کے اٹھی
پڑی چارسو یک بیک دھوم جس کی
کڑک اور دمک دور دور اس کی پہنچی
جو ٹیکس پہ گرجی تو گنگا پہ برسی
رہے اس سے محروم آبی نہ خاکی
ہری ہوگئی ساری کھیتی خدا کی
کیا امیوں نے جہاں میں اجالا
ہوا جس سے اسلام کا بول بالا
بتوں کو عرب اور عجم سے نکالا
ہر اک ڈوبتی ناؤ کو جا سنبھالا
زمانہ میں پھیلائی توحید مطلق
لگی آنے گھر گھر سے آواز حق حق
ہوا غلغلہ نیکیوں کا بدوں میں
پڑی کھلبلی کفر کی سرحدوں میں
ہوئی آتش افسردہ آتشکدوں میں
لگی خاک سی اڑنے سب معبدوں میں
ہوا کعبہ آباد سب گھر اجڑ کر
جمے ایک جا سارے دنگل بچھڑ کر
لیے علم و فن ان سے نصرانیوں نے
کیا کسبِ اخلاق روحانیوں نے
ادب ان سے سیکھا صفاہانیوں نے
کہا بڑھ کے لبیک یزدانیوں نے
ہر اک دل سے رشتہ جہالت کا توڑا
کوئی گھر نہ دنیا میں تاریک چھوڑا
ارسطو کے مردہ فنوں کو جلایا
فلاطون کو زندہ پھر کر دکھایا
ہر اک شہر و قریہ کو یاناں بنایا
مزا علم و حکمت کا سب کو چکھایا
کیا برطرف پردہ چشمِ جہاں سے
جگایا زمانے کو خوابِ گراں سے
ہر اک میکدے سے بھرا جاکے ساغر
ہر اک گھاٹ سے آئے سیراب ہوکر
گرے مثلِ پروانہ ہر روشنی پر
گرہ میں لیا باندھ حکم پیمبر
کہ" حکمت کو اک گم شدہ مال سمجھو
جہاں پاؤ اپنا اسے مال سمجھو"
ہر اک علم کے فن کے جویا ہوئے وہ
ہر اک کام میں سب سے بالا ہوئے وہ
فلاحت میں بے مثل و یکتا ہوئے وہ
سیاحت میں مشہورِ دنیا ہوئے
ہر اک ملک میں ان کی پھیلی عمارت
ہر اک قوم نے ان سے سیکھی تجارت
کیا جاکے آباد ہر ملک ویراں
مہیا کیے سب کی راحت کے ساماں
خطرناک تھے جو پہاڑ اور بیاباں
انہیں کردیا رشکِ صحنِ گلستاں
بہار اب جو دنیا میں آئی ہوئی ہے
یہ سب پودا انہی کی لگائی ہوئی ہے
یہ ہموار سڑکیں یہ راہیں مصفا
دو طرفہ برابر درختوں کا سایا
نشاں جابجا میل و فرسخ کے برپا
سرِ رہ کوئیں اور سرائیں مہیا
انہی کے ہیں سب نے یہ چربے اتارے
اسی قافلہ کے نشاں ہیں یہ سارے
سدا ان کو مرغوب سیرو سفر تھا
ہر اک بر اعظم میں ان کا گزر تھا
تمام ان کا چھانا ہوا بحرو بر تھا
جو لنکا میں ڈیرا تو بربر میں گھر تھا
وہ گنتے تھے یکساں وطن اور سفر کو
گھر اپنا سمجھتے تھے ہر دشت و در کو
جہاں کو ہے یاد ان کی رفتار اب تک
کہ نقشِ قدم ہیں نمودار اب تک
ملایا میں ہیں ان کے آربار اب تک
انہیں رو رہا ہے میلیبار اب تک
ہمالہ کو ہیں واقعات ان کے ازبر
نشاں ان کے باقی ہیں جبرالٹر پر
نہیں اس طبق پر کوئی بر اعظم
نہ ہوں جس میں ان کی عمارت محکم
عرب، ہند، مصر، اندلس و شام، ویلم
بناؤں سے ہیں ان کی معمور عالم
سرِ کوہِ آدم سے تا کوہِ بیضا
جہاں جاؤ گے کھوج پاؤ گے ان کا
وہ سنگیں محل اور وہ ان کی صفائی
جمی جن کے کھنڈروں پہ ہے آج کائی
وہ مرقد کی گنبد تھے جن کے طلائی
وہ معبد جہاں جلوہ گر تھی خدائی
زمانہ نے گو ان کی برکت اٹھالی
نہیں کوئی ویرانہ پر ان سے خالی
ہوا اندلس ان سے گلزار یکسر
جہاں ان کے آثار باقی ہیں اکثر
جو چاہے کوئی دیکھ لے آج جاکر
یہ ہے بیت حمرا کی گویا زباں پر
کہ تھے آلِ عدنان سے میرے بانی
عرب کی ہوں میں اس زمیں پر نشانی
ہویدا ہے غرناطہ ہے شوکت ان کی
عیاں ہے بلنسیہ سے قدرت ان کی
بطلیوس کو یا دہے عظمت ان کی
ٹپکتی ہے قادس میں سر حسرت ان کی
نصیب ان کا اشبیلیہ میں ہے سوتا
شب و روز ہے قرطبہ ان کو روتا
کوئی قرطبہ کے کھنڈر جاکے دیکھے
مساجد کے محراب و در جاکے دیکھے
حجازی امیروں کے گھر جاکے دیکھے
خلافت کو زیر و زبر جاکے دیکھے
جلالا ان کا کھنڈروں میں ہے یوں چمکتا
کہ ہو خاک میں جیسے کندن دمکتا
وہ بلدہ کہ فخرِ بلادِ جہاں تھا
ترو خشک پر جس کا سکہ روں تھا
گڑا جس میں عباسیوں کا نشاں تھا
عراقِ عرب جس سے رشکِ جناں تھا
اڑا لے گئی بادِ پندار جس کو
بہا لے گئی سیلِ تاتار جس کو
سنے گوشِ عبرت سے گرجا کے انساں
تو واں ذرہ ذرہ یہ کرتا ہے اعلاں
کہ تھا جن دنوں مہرِ اسلام تاباں
ہوا یاں کی تھی زندگی بخش دواں
پڑی خاک ایتھنز میں جاں یہیں سے
ہوا زندہ پھر نام یوناں یہیں سے
وہ لقمان و سقراط کے درمکنوں
وہ اسرارِ بقراط و درسِ فلاطوں
ارسطو کی تعلیم سولن کے قانوں
پڑے تھے کسی قبر کہنہ میں مدفوں
یہیں آکے مہرِ سکوت ان کی ٹوٹی
اسی باغِ رعنا سے بو ان کی پھوٹی
یہ تھا علم پر واں توجہ کا عالم
کہ ہو جیسے مجروح جو یائے مرہم
کسی طرح پیاس ان کی ہوتی نہ تھی کم
بجھاتا تھا آگ ان کی باراں نہ شبنم
حریمِ خلافت میں اونٹوں پہ لد کر
چلے آتے تھے مصر و یوناں کے دفتر
وہ تارے جو تھے شرق میں لمعہ افگن
پہ تھا ان کی کرنوں سے تا غرب روشن
نوشتوں سے ہیں جن کے اب تک مزین
کتب خانئہ پیرس و روم و لندن
پڑا غلغلہ جن کا تھا کشوروں میں
وہ سوتے ہیں بغداد کے مقبروں میں
وہ سنجار کا اور کوفہ کا میداں
فراہم ہوئے جس میں مساحِ دوراں
کرہ کی مساحت کے پھیلائے ساماں
ہوئی جزو سے قدر کل کی نمایاں
زمانہ وہاں آج تک نوح گر ہے
کہ عباسیوں کی سبھا وہ کدھر ہے
سمر قند سے اندلس تک سراسر
انھی کی رصدگاہیں تھیں جلوہ گستر
سوادِ مراغہ میں اور قاسیوں پر
زمیں سے صدا آرہی ہے برابر
کہ جن کی رصد کے یہ باقی نشاں ہیں
وہ اسلامیوں کے منجم کہاں ہیں
مورخ جو ہیں آج تحقیق والے
تفحص کے ہیں جن کے آئیں نرالے
جنہوں نے ہیں عالم کے دفتر کھنگالے
زمیں کے طبق سر بسر چھان ڈالے
عرب ہی نے دل ان کے جاکر ابھارے
عرب ہی سے وہ بھرنے سیکھے ترارے
اندھیرا تواریخ پر چھا رہا تھا
ستارہ روایت کا گہنا رہا تھا
درایت کے سورج پہ ابر آرہا تھا
شہادت کا میدان دھندلا رہا تھا
سرِ رہ چراغ اک عرب نے جلایا
اہر اک قافلہ کا نشاں جس سے پایا
گروہ ایک جو یا تھا علمِ نبی کا
لگایا پتا جس نے ہر مفتری کا
نہ چھوڑا کوئی رخنہ کذبِ خفی کا
کیا قافیہ تنگ ہر مدعی کا
کیے جرح و تعدیل کے وضع قانوں
نہ چلنے دیا کوئی باطل کا افسوس
اسی دھن میں آساں کیا ہر سفر کو
اسی شوق میں طے کیا بحرو بر کو
سنا خازنِ علم دیں جس بشر کو
لیا اس سے جاکر خبر اور اثر کو
پھر آپ اس کو پرکھا کسوٹی پہ رکھ کر
دیا اور کو خود مزا اس کا چکھ کر
کیا فاش راوی میں جو عیب پایا
مناقب کو چھانا مثالب کو تایا
مشائخ میں جو قبح نکلا جتایا
ائمہ میں جو داغ دیکھا، بتایا
طلسم ورع ہر مقدس کا توڑا
نہ ملا کو چھوڑا نہ صوفی کو چھوڑا
رجال اور اسانید کے جو ہیں دفتر
گواہ ان کی آزادگی کے ہیں یکسر
نہ تھا ان کا احساں یہ اک اہلِ دیں پر
وہ تھے اس میں ہر قوم و ملت کے رہبر
لبرٹی میں جوآج جائق ہیں سب سے
بتائیں کہ لبرل بنے ہیں وہ کب سے
فصاحت کے دفتر تھے سب گاؤ خوردہ
بلاغت کے رستے تھے سب ناسپردہ
ادھر روم کی شمع انشا تھی مردہ
ادھر آتشِ پارسی تھی فسردہ
یکاک جو برق آکے چمکی عرب کی
کھلی کی کھلی رہ گئی آنکھ سب کی
عرب کی جو دیکھی وہ آتش زبانی
سنی بر محل ان کی شیوا بیانی
وہ اشعار کی دل میں ریشہ دوانی
وہ خطبوں کی مانند دریا روانی
وہ جادو کے جملے وہ فقرے فسوس کے
تو سمجھے کہ گویا ہم اب تک تھے گونگے
سلیقہ کسی کو نہ تھا مدح و ذم کا
بنہ ڈھب یاد تھا شرحِ شادی و غم کا
نہ انداز تلقین و عظ و حکم کا
خزانہ تھا مدفوں زباں اور قلم کا
نواسنجیاں ان سے سیکھیں یہ سب نے
زباں کھول دی سب کی نطقِ عرب نے
زمانہ میں پھیلی طب ان کی بدولت
وہئی بہرہ ور جس سے ہر قوم و ملت
نہ صرف ایک مشرق میں تھی ان کی شہرت
مسلم تھی مغرب تک ان کی حذاقت
سلر نو میں جو ایک نامی مطب تھا
وہ مغرب میں عطارِ مشکِ عرب تھا
ابو بکر رازی علی ابنِ عیسیٰ
حکیم گرامی حسین ابن سینا
حنین ابن اسحٰق قسمیں دانا
ضیا ابنِ بیطار راس الاطبا
انھیں کے ہیں مشرق میں سب نام لیوا
انہیں سے ہوا پار مغرب کا کھیوا
غرض فن ہیں جو مائیہ دین و دولت
طبیعی ، الہی، ریاضی و حکمت
طب اور کیمیا، ہندہ اور ہئیبت
سیاست، تجارت، عمارت، فلاحت
لگاؤگے کھوج ان کا جاکر جہاں تم
نشاں ان کے قدموں کے پاؤ گے واں تم
ہوا گو کہ پامال بستاں عرب کا
مگر اک جہاں ہے غزالخواں عرب کا
ہراکر گیا سب کو باروں عرب کا
سپیدو سیہ پر ہے احساس عرب کا
وہ قومیں جو ہیں آج سرتاج سب کی
کنونڈی رہیں گی ہمیشہ عرب کی
رہے جب تک ارکان اسلام برپا
چلن اہلِ دیں کا رہا سیدھا سادا
رہا میل سے شہد صافی مصفآ
رہی کھوٹ سے سیمِ خالص مبرا
نہ تھا کوئی اسلام کا مردِ میداں
علم ایک تھا شش جہت میں درافشاں
پہ گدلا ہوا جب کہ چشمہ صفا کا
گیا چھوٹ سر رشتہ دینِ ہدیٰ کا
رہا سر پہ باقی نہ سایہ ہما کا
تو پورا ہوا عہد جو تھا خدا کا
کہ ہم نے بگاڑا نہیں کوئی اب تک
وہ بگڑا نہیں دنیا میں جب تک
برے ان پہ وقت آکے پڑنے لگے اب
وہ دنیا میں بس کر اجڑنے لگے اب
بھرے ان کے میلے بچھڑنے لگے اب
بنے تھے وہ جیسے بگڑنے لگے اب
ہری کھیتیاں جل گئیں لہلہا کر
گھٹا کھل گئی سارے عالم پہ چھاکر
نہ ثروت رہی ان کی قائم نہ عزت
گئے چھوڑ ساتھ ان کا اقبال و دولت
ہوئے علم و فن ان سے ایک ایک رخصت
مٹیں خوبیاں ساری نوبت بہ نوبت
رہا دین باقی نہ اسلام باقی
اک اسلام کا رہ گیا نام باقی
ملے کوئی ٹیلہ اگر ایسا اونچا
کہ آتی ہوواں سے نظر ساری دنیا
چڑھے اس پہ پھر اک خرومند دانا
کہ قدرت کے دنگل کا دیکھے تماشا
تو قوموں میں فرق اس قدر پائے گا وہ
کہ عالم کو زیر و زبر پائے گا وہ
وہ دیکھے گا ہر سو ہزاروں چمن واں
بہت تازہ تر صورتِ باغِ رضواں
بہت ان سے کمتر پہ سر سبز و خنداں
بہت خشک اور بے طراوت مگر ہاں
نہیں لائے گو برگ و باران کے پودے
نظر آتے ہیں ہونہار ان کے پودے
پھر اک باغ دیکھے گا اجڑ سراسر
جہاں خاک اڑتی ہے ہر سو برابر
نہیں تازگی کا کہیں نام جس پر
ہری ٹہنیاں جھڑگئیں جس کی جل کر
نہیں پھول پھل جس میں آنے کے قابل
ہوئے دکھ جس کے جلانے کے قابل
جہاں زہر کا کام کرتا ہے باراں
جہاں آکے دیتا ہے رُو اَبر نیساں
تردو سے جو اور ہوتا ہے ویراں
نہیں راس جس کو خزاں اور بہاراں
یہ آواز پیہم وہاں آرہی ہے
کہ اسلام کا باغ ویراں یہی ہے
وہ دینِ حجازی کا بیباک بیڑا
نشاں جس کا اقصاء عالم میں پہنچا
مزاحم ہوا کوئی خطرہ نہ جس کا
نہ عماں میں ٹھٹکا نہ قلزم میں جھجکا
کئے پے سپر جس نے ساتوں سمندر
وہ ڈوبا دہانے میں گنگا کے آکر
اگر کان دھر کر سنیں اہلِ عبرت
تو سیلون سے تابہ کشمیر و تبت
زمیں روکھ بن پھول پھل ریت پر بت
یہ فریاد سب کر رہے ہیں بہ حسرت
کہ کل فخر تھا جن سے اہلِ جہاں کو
لگا ان سے عیب آج ہندوستاں کو
حکومت نے تم سے کیا گر کنارا
تو اس میں نہ تھا کچھ تمہارا اجارا
زمانہ کی گردش سے ہے کس کو چارا
کبھی یاں سکندر کبھی یاں ہے دارا
نہیں بادشاہی کچھ آخر خدائی
جو ہے آج اپنی تو کل ہے پرائی
ہوئی متقفی جب کہ حکمت خدا کی
کہ تعلیم جاری ہو خیرالوریٰ کی
پڑے دھوم عالم میں دینِ ہدیٰ کی
تو عالم کی تم کو حکومت عطا کی
کہ پھیلاؤ دنیا میں حکمِ شریعت
کرو ختم بندوں پہ مالک کی حجت
ادا کرچکی جب حق اپنا حکومت
رہی اب نہ اسلام کو اس کی حاجت
مگر حیف اے فخرِ آدم کی امت
ہوئی آدمیت بھی ساتھ اس کے رخصت
حکومت تھی گویا کہ اک جھول تم پر
کہ اڑتے ہی اس کے نکل آئے جوہر
زمانہ میں ہیں ایسی قومیں بہت سی
نہیں جس میں تخصیص فرماندہی کی
پر آفت کہیں ایسی آئی نہ ہوگی
کہ گھر گھر پہ یاں چھا گئی آکے پستی
چکور اور شہباز سب اوج پر ہیں
مگر ایک ہم ہیں کہ بے بال و پر ہیں
وہ ملت کہ گردوں پہ جس کا قدم تھا
ہر اک کھونٹ میں جس کا برپا علم تھا
ہو فرقہ جو آفاق میں محترم تھا
وہ امت لقب جس کا خیر الامم تھا
نشاں اس کا باقی ہے صرف اس قدریاں
کہ گنتے ہیں اپنے کو ہم بھی مسلماں
وگر ہماری رگوں میں لہو میں
ہمارے ارادوں  میں اور جستجو میں
دلوں میں زبانوں میں اور گفتگو میں
طبعیت میں فطرت میں عادت میں خومیں
نہیں کوئی ذرہ نجابت کا باقی
اگر ہو کسی میں تو ہے اتفاقی
ہماری ہر اک بات میں سفلہ پن ہے
کمینوں سے بدتر ہمارا چلن ہے
لگا نام آبا کو ہم سے گہن ہے
ہمارا قدم ننگِ اہلِ وچن ہے
بزرگوں کی توقیر کھوئی ہے ہم نے
عرب کی شرافت ڈبوائی ہے ہم نے
نہ قوموں میں عزت، نہ جلسوں میں وقعت
نہ اپنوں سے الفت، نہ غیروں سے ملت
مزاجوں میں سستی، دماغوں میں نخوت
خیالوں میں پستی، کمالوں سے نفرت
عداوت نہاں، دوستی آشکارا
غرض کہ تواضع، غرض کی مدارا
نہ اہلِ حکومت کے ہمراز ہیں ہم
نہ درباریوں میں سرافراز ہیں ہم
نہ علموں میں شایانِ اعزاز ہیں ہم
نہ صنعت میں حرفت میں ممتاز ہیں ہم
نے رکھتے ہیں کچھ منزلت نوکری میں
نہ حصۃ ہمارا ہے سوداگری میں
تنزل نے کی ہے بری گت ہماری
بہت دور پہنچی ہے نکبت ہماری
گئی گزری دنیا سے عزت ہماری
نہیں کچھ ابھرنے کی صورت ہماری
پڑے ہیں اک امید کے ہم سہارے
توقع پہ جنت کی جیتے ہیں سارے
سیاحت کی گوں ہیں نہ مردِ سفر ہیں
خدا کی خدائی سے ہم بے خبر ہیں
یہ دیواریں گھر کی و پیشِ نظر ہیں
یہی اپنے نزدیک حدِ بشر ہیں
ہیں تالاب میں مچھلیاں کچھ فراہم
وہی ان کی دنیا وہی ان کا عالم
بہشت اور ارم اسلسبیل اور کوثر
پہاڑ اور جنگل جزیرے سمندر
اسی طرح کے اور بھی نام اکثر
کتابوں میں پڑھتے رہے ہیں برابر
یہ جب تک نہ دیکھں کہیں کس یقیں پر
کہ یہ آسماں پر ہیں یا ہیں زمیں پر
وہ بے مول پونجی کہ ہے اصل دولت
وہ شائستہ لوگوں کا گنجِ سعادت
وہ آسودہ قوموں کا راس البضاعت
وہ دولت کہ ہے وقت جس سے عبارت
نہیں اس کی وقعت نظر میں ہماری
یو نہیں مفت جاتی ہے برباد ساری
اگر ہم سے مانگے کوئی ایک پیسا
تو ہوگا کم وبیش بار اس کا دنیا
مگر ہاں وہ سرمائیہ دین و دنیا
کہ ایک ایک لمحہ ہے انمول جس کا
نہیں کرتے خست اڑانے میں اس کے
بہت ہم سخی ہیں لٹانے میں اس کے
اگر سانس دن رات کے سب گنیں ہم
تو نکلیں گے انفاز ایسے بہت کم
کہ ہو جن میں کل کیلئے کچھ فراہم
یونہیں گزرے جاتے ہیں دن رات پیہم
نہیںکوئی گویا خبردار ہم میں
کہ یہ سانس آخر ہیں اب کوئی دم میں
گڈریے کا وہ حکم بردار کتا
کہ بھیڑوں کی ہر دم ہے رکھوال کرتا
جو ریوڑ میں ہوتا ہے پتے کا کھڑکا
تو وہ شیر کی طرح پھرتا ہے بھپرا
گر انصاف کیجئے تو ہم سے بہتر
کہ غافل نہیں فرض سے اپنے دم بھر
وہ قومیں جو سب راہیں طے کرچی ہیں
ذخیرے ہر اک جنس کے بھر چکی ہیں
ہر اک بوجھ بار اپنے سر دھر چکی ہیں
ہوئیں تب ہیں زندہ کہ جب مرچکی ہیں
اسی طرح راہِ طلب میں ہیں پویا
بہت دور ابھی ان کو جانا ہے گویا
کسی وقت جی بھر کے سوتے نہیں وہ
کبھی سیر محنت سے ہوتے نہیں وہ
بضاعت کو اپنی ڈبوتے نہیں وہ
کوئی لمحہ بے کار کھوتے نہیں وہ
نہ چلنے سے تھکتے نہ اکتاتے ہیں وہ
بہت بڑھ گئے اور بڑھے جاتے ہیں وہ
مگر ہم کہ اب تک جہاں تھے وہیں ہیں
جمادات کی طرح بارِ زمیں ہیں
جہاں میں ہیں ایسے کہ گویا نہیں ہیں
زمانہ سے کچھ ایسے فارغ نشیں ہیں
کہ گویا ضرویری تھا جو کام کرنا
وہ سب کر چکے ایک باقی ہے مرنا
یہاں اور ہیں جتنی قومیں گرامی
خود اقبال ہے آج ان کا سلامی
تجارت میں ممتاز دولت میں نامی
زمانہ کے ساتھی ترقی کے حامی
نہ فارغ ہیں اولاد کی تربیت سے
نہ بے فکر ہیں قوم کی تقویت سے
دکان ان کی ہے اوعر بازار ان کا
بنج ان کا ہے اور بہوار ان کا
زمانہ میں پھیلا ہے بیوپار ان کا
ہے پیر و جواں برسرِ کار ان کا
مدار اہلکاری کا ہے اب انہیں پر
انہیں کے ہیں آفس انہیں کے ہیں دفتر
معزز ہیں ہر ایک دربار میں وہ
گرامی ہیں ہر ایک سرکار میں وہ
نہ رسوا ہیں عادات و اطوار میں وہ
نہ بدنام گفتار و کردار میں وہ
نہ پیشہ سے حرفہ سے انکار ان کو
نہ محنت مشقت سے کچھ عار ان کو
جو گرتے ہیں گر کر سنبھل جاتے ہیں وہ
پڑے زد تو بچ کر نکل جاتے ہیں وہ
ہر اک سانچے میں جاکے ڈھل جاتے ہیں وہ
جہاں رنگ بدلا بدل جاتے ہیں وہ
ہر اک وقت کا مقتضیٰ جانتے ہیں
زمانہ کے تیور وہ پہچانتے ہیں
مگر ہے ہماری نظر اتنی اونچی
کہ یکساں ہے واں سب بلدی و پستی
نہیں اب تک اصلا خبر ہم کو یہ بھی
کہ ہے کون مردار کتیا ترقی
جدھر کھول کر آنکھ ہم دیکھتے ہیں
زمانہ کو اپنے سے کم دیکھتے ہیں
زمانہ کا دن رات ہے یہ اشارا
کہ ہے آشتی مین مری یاں گزارا
نہیں پیروی جن کو میری گوارا
مجھے ان سے کرنا پڑے گا کنارا
سدا ایک ہی رخ نہیں ناؤ چلتی
چلو تم ادھر کو، ہوا ہو جدھر کی
چمن میں وا آچکی ہے خزاں کی
پھری ہے نظر دیر سے باغباں کی
صدا اور ہے بلبلِ نغمہ خواں کی
کوئی دم میں رحلت ہے اب گلستاں کی
تباہی کے خواب آرہے ہیں نظر سب
مصیبت کی ہے آنے والی سحر اب
فلاکت جسے کہئے ام الجرائم
نہیں رہتے ایماں پہ دل جس سے قائم
بناتی ہے انسان کو جو بہائم
مصلّی ہیں دل جمع جس سے نہ صائم
وہ یوں اہلِ اسلام پر چھا رہی ہے
کہ مسلم کی گویا نشانی یہی ہے
کہیں مگر کے گر سکھاتی ہے ہم کو
کہیں جھوٹ کی لو لگاتی ہے ہم کو
خیانت کی چالیس سجھاتی ہے ہم کو
خوشامد کی گھاتیں بناتی ہے ہم کو
فسوں جب یہ پاتی نہیں کار گر وہ
تو کرتی ہے آخر کو دریوزہ گر وہ
یہاں جتنی قومیں ہمارے سوا ہیں
ہزار ان میں خوش ہیں تو دو بینوا ہیں
یہاں لاکھ میں دو اگر اغنیا ہیں
تو سو نیم بسمل ہیں باقی گدا ہیں
ذرا کام غیرت کو فرمائیں گر ہم
تو سمجھیں کہ ہیں متبذل کس قدر ہم
بگاڑے ہیں گردش نے جو خاندانی
نہیں جانتے بس کہ روٹی کمانی
دلوں میں ہے یہ یک قلم سب بے ٹھانی
کہ کیجئے بسر مانگ کر زندگانی
جہاں قدر دانوں کا ہیں کھوج پاتے
پہنچتے ہیں واں مانگتے اور کھاتے
کہیں باپ دادا کا ہیں نام لیتے
کہیں روشناسی سے ہیں کام لیتے
کہیں جھوٹے وعدوں پہ ہیں دام لیتے
یونہی ہیں وہ دے دے کے دم دام لیتے
بزرگوں کے نازاں ہیں جس نام پر وہ
اسے بیچتے پھرتے ہیں در بدر وہ
یہ ہیں ڈھنگ ان تازہ آفت زدوں کے
بہت کم زمانہ ہوا جن بگڑے
ابھی ایک عالم ہے آگاہ جن سے
کہ ہیں کس کے بیٹے وہ اور کس کے پوتے
جنہیں دیس پردیس سب جانتے ہیں
حسب اور نسب جن کا پہچانتے ہیں
مگر منٹ چکا جن کا نام و نشاں ہے
پرانی ہوئی جن کی اب داستاں ہے
فسانوں میں قصوں میں جن کا بیاں
بہت نسل پر تنگ ان کی جہاں ہے
نہیں ان کی قدر اور پرسش کہیں اب
انہیں بھیک تک کوئی دیتا نہیں اب
بہت آگ چلموں کی سلگانے والے
بہت گھانس کی گھٹڑیاں لانے والے
بہت دربدر مانگ کر کھانے والے
بہت فاقے کرکر کے مرجانے والے
جو پوچھو کہ کس کان کے ہیں وہ جوہر
تو نکلیں گے نسلِ ملوک ان میں اکثر
انہی کے بزرگ ایک دن حکمراں تھے
انہی کے پرستار پیر و جواں تھے
یہی مامنِ عاجز و ناتواں تھے
یہی مرجعِ ویلم و اصفہاں تھے
یہی کرتے تھے ملک کی گلہ بانی
انہیں کے گھروں میں تھی صاحب قرآنی
یہ اے قومِ اسلام عبرت کی جاہے
کہ شاہوں کی اولاد در درگدا ہے
جسے سنئے افلاس میں مبتلا ہے
جسے دیکھئے مفلس و بینوا ہے
نہیں کوئی ان میں کمانے کے قابل
اگر ہیں تو ہیں مانگ کھانے کے قابل
نہیں مانگنے کا طریق ایک ہی یاں
گدائی کی ہیں صورتیں نت نئی یاں
نہیں حصر کنگلوں پہ گدیہ گری یاں
کوئی دے تو منگتوں کی ہے کہا کمی
بہت ہاتھ پھیلائے زیرِ ردا ہیں
چھپے اجلے کپڑوں میں اکثر گدا ہیں
بہت آپ کو کہہ کے مسجد کے بانی
بہت بن کے خود سیدِ خاندانی
بہت سیکھ کر نوحہ و سوز خوانی
بہت مدح میں کرکے رنگیں بیانی
بہت آستانوں کے خدّام بن کر
پڑے مانگتے کھاتے پھرتے ہیں در در
مشقت کو محنت کو جو عار سمجھیں
ہنر اور پیشہ کو جو خوار سمجھیں
تجارت کو کھیتی کو دشوار سمجھیں
فرنگی کے پیسے کو مردار سمجھیں
تن آسانیاں چاہیں اور آبرو بھی
یہ قوم آج ڈوبے گی گر کل نہ ڈوبی
کریں نوکری بھی تو بے عزتی کی
جو روٹی کمائیں تو بے حرمتی کی
کہیں پائیں خدمت تو بے عزتی کی
قسم کھائیے ان کی خوش قسمتی کی
امیروں کے بنتے ہیں جب یہ مصاحب
تو جاتے ہیں ہو کر حمت سے تائب
کہیں ان کی صحبت میں گانا بجانا
کہیں مسخرہ بن کے ہنسنا ہنسانا
کہیں پھبتیاں کہہ کے انعام پانا
کہیں چھیڑ کر گالیاں سب سے کھانا
یہ کام اور بھی کرتے ہیں پر نہ ایسے
مسلمان بھائی سے بن آئیں جیسے
امیروں کا عالم نہ پوچھو کہ کیا ہے
خمیران کا اور ان کی طینت جدا ہے
سزاوار ہے ان کو جو نا سزا ہے
روا ہے انہیں سب کہ جو ناروا ہے
شریعت ہوئی ہے نکو نام ان سے
بہت فخر کرتا ہے اسلام ان سے
ہر اک بول پر ان کے مجلس فدا ہے
ہر اک بات پر واں درست اور بجا ہے
نہ گفتار میں ان کی کوئی خطا ہے
نہ کردار ان کا کوئی ناسزا ہے
وہ جو کچھ کہ ہیں ، کہہ سکے کون ان کو
بنایا ندیموں نے فرعون ان کو
وہ دولت کہ ہے مائیہ دین و دنیا
وہ دولت کہ ہے تو شئہ راہِ عقبیٰ
سلیماں نے کی جس کی حق سے تمنا
بڑھا جس سے آفاق میں نام کسریٰ
کیا جس نے حاتم کو مشہور دوراں
کیا جس نے یوسف کو مسبحودِ اخواں
ملا ہے یہ فخر اس کو ان کی بدولت
کہ سمجھی گئی ہے وہ اصلِ شقاوت
کہیں ہے وہ سرمائیہ جہل و غفلت
کہیں نشئہ بادئہ کبر و نخوت
جہاں کے لئے جو کہ آبِ بقا ہے
وہ اقوم کے حق میں سمی دوا ہے
ادھر مال و دولت نے یاں منہ دکھایا
ادھر ساتھ ساتھ اس کے ادبار آیا
پڑا آکے جس گھر پہ ثروت کا سایا
عمل واں سے برکت نے اپنا اٹھایا
نہیں راس یاں چار پیسے کسی کو
مبارک نہیں جیسے پر چیونٹی کو
سمجھتے ہیں سب عیب جن عادتوں کو
بہائم سے نسبت ہے جن سیرتوں کو
چھپاتے ہیں اوباش جن خصلتوں کو
نہیں کرتے اجلاف جن حرکتوں کو
وہ یاں اہلِ دولت کو ہیں شیرِ مادر
نہ خوفِ خدا ہے نہ شرمِ پیمبر
طبعیت اگر لہو و بازی پہ آئی
تو دولت بہت سی اسی میں لٹائی
جو کی حضرتِ عشق نے رہنمائی
تو کردی بھرے گھر کی دم میں صفائی
پھر آخر لگے مانگنے اور کھانے
یونہیں مٹ گئے یاں ہزاروں گھرانے
نہ آغاز پر اپنے غور ان کو اصلا
نہ انجام کا اپنے کچھ ان کو کھٹکا
نہ فکر ان کو اولاد کی تربیت کا
نہ کچھ ذلتِ قوم کی ان کو پروا
نہ حق کوئی دنیا پہ ان کا نہ دیںپر
خدا کو وہ کیا منہ دکھائیں گے جاکر
کسی قوم کا جب الٹتا ہے دفتر
تو ہوتے ہیں مسخ ان میں پہلے تو نگر
کمال ان میں رہتے ہیں باقی نہ جوہر
نہ عقل ان کی ہادی نہ دین انکا رہبر
نہ دنیا میں ذات نہ عزت کی پروا
نہ عقبیٰ میں دوزخ نہ جنت کی پروا
نہ مظلوم کی آہ و زاری سے ڈرنا
نہ مفلوک کے حال پر رحم کرنا

ہوا و ہوس میں خودی سے گزرنا
تعیش میں جینا نمائش پہ مرنا
سدا خوابِ غفلت میں بیہوش رہنا
دمِ نزع تک خود فراموش رہنا
پریشاں اگر قحط سے اک جہاں ہے
تو بے فکر ہیں کیونکہ گھر میں سماں ہے
اگر باغِ امت میں فصلِ خزاں ہے
تو خوش ہیں کہ اپنا چمن گل فشاں ہے
بنی نوعِ انساں کا حق ان پہ کیا ہے
وہ اک نوع، نوعِ بشر سے جدا ہے
کہاں بندگانِ ذلیل اور کہاں وہ
بسر کرتے ہیں بے غمِ قوت و ناں وہ
پہنتے نہیں جز سمور و کتاں وہ
مکاں رکھتے ہیں رشکِ خلدِ جناں وہ
نہیں چلتے وہ بے سواری قدم بھر
نہیں رہتے بے نغمہ و ساز دم بھر
کمر بستہ ہیں لوگ خدمت میں ان کی
گل و لالہ رہتے ہیں صحبت میں ان کی
نفاست بھری ہے طبعیت میں ان کی
نزاکت سو داخل ہے عادت میں ان کی
دواؤں میں مشک ان کی اٹھتا ہے ڈھیروں
وہ پوشاک میں عطر ملتے ہیں سیروں
یہ ہوسکتے ہیں ان کے ہم جنس کیونکر
نہیں چین جن کو زمانے سے دم بھر
سواری کو گھوڑا نہ خدمت کو نوکر
نہ رہنے کو گھر اور نہ سونے کو بستر
پہننے کو کپڑا نہ کھانے کو روٹی
جو تدبیر الٹی تو تقدیر کھوٹی
یہ پہلا سبق تھا کتاب ہُدیٰ  کا
کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا
وہی دوست ہے خالقِ دوسرا کا
خلائق سے ہی جس کو رشتہ ولا کا
یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں
عمل جن کا ہے اس کلامِ متیں پر
وہ سر سبز ہیں آج روئے زمیں پر
تفوق ہے ان کو کہین و مہیں پر
مدار آدمت کا ہے اب انہیں پر
شریعت کے جو ہم نے پیمان توڑے
وہ لے جاکے سب اہلِ مغرب نے جوڑے
سمجھتے ہیں گمراہ جن کو مسلمان
نہیں جن کو عقبیٰ میں امیدِ غفراں
نہ حصہ میں فردوس جن کے نہ رضواں
نہ تقدیر میں حور جن کے نہ غلماں
پس از مرگ دوزخ ٹھکانا ہے جن کا
حمیم آب و زقوم کھانا ہے جن کا
وہ ملک اور ملت پہ اپنی فدا ہیں
سب آپس میں ایک اک کے حاجت روا ہیں
اولوالعلم ہیں ان میں یا اغنیا ہیں
طلب گار بہبود خلقِ خدا ہیں
یہ تمغہ تھا گویا کہ حصۃ انہیں کا
کہ حب الوطن ہے نشان مومنیں کا
امیروں کی دولت غریبوں کی ہمت
ادیبوں کی انشا حکیموں کی حکمت
فصیحوں کے خطبے شجاعوں کی جرئات
سپاہی کے ہتیار شاہوں کی طاقت
دلوں کی امیدیں امنگوں کی خوشیاں
سب اہلِ وطن اور وطن پر ہیں قرباں
عروج ان کا جو تم عیاں دیکھتے ہو
جہاں میں انہیں کامراں دیکھتے ہو
مطیع ان کا سارا جہاں دیکھتے ہو
انہیں بر تر از آسماں دیکھتے ہو
یہ ثمرے ہیں ان کی جوانمردیوں کے
نتیجے ہیں آپس کی ہمدردیوں کے
غنی ہم میں ہیں جو کہ اربابِ ہمت
مسلم ہے عالم میں جن کی سخاوت
اگر ہے مشائخ سے ان کو عقیدت
تو ہے پیرزادوں پہ وقف ان کی دولت
نکمے ہیں دن رات واں عیش کرتے
پہ نوکر ہیں جتنے وہ بھوکے ہیں مرتے
عمل واعظوں کے اگر قول پر ہے
تو بخشش کی امید بے صرفِ زر ہے
نماز اور روزہ کی عادت اگر ہے
تو روزِ حساب ان کو پھر کس کا ڈر ہے
اگر شہر میں کوئی مسجد بنا دی
تو فردوس میں نیو اپنی جمادی
عمارت کی بنیاد ایسی اٹھانی
نہ نکلے کہیں ملک میں جس کا ثانی
تماشوں میں ثروت بڑوں کی اڑانی
نمائش میں دولت خدا کی لٹانی
چھٹی بیاہ مین کرنے لاکھوں کے ساماں
یہ ہیں ان کی خوشیاں یہ ہیں انکے ارماں
مگر دینِ بر حق کا بوسیدہ ایواں
تزلزل مین مدت سے ہیں جس کے ارکاں
زمانہ میں ہے جو کوئی دن کا مہماں
نہ پائیں گے ڈھونڈا جسے پھر مسلماں
عزیزوں نے اس سے توجہ اٹھا لی
عمارت کا ہے اس کی اللہ والی
پڑی ہیں سب اجڑی ہوئی خانقاہیں
وہ درویش و سلطاں کی امید گاہیں
کھیلیں تھیں جہاں علمِ باطن کی راہیں
فرشتوں کی پڑتی تھیں جن پر نگاہیں
کہاں ہیں وہ جذبِ الٰہی کے پھندے
کہاں ہیں وہ اللہ کے پاک بندے
وہ علمِ شریعت کے ماہر کدھر ہیں
وہ اخبار دیں کے مبصر کدھر ہیں
اصولی کدھر ہیں، مناظر کدھر ہیں
محدث کہاں ہیں، مفسر کدھر ہیں
وہ مجلس جو کل سر بسر تھی چراغاں
چراغ اب کہیں ٹمٹماتا نہیں واں
مدارس وہ تعلیم دیں کے کہاں ہیں
مراحل وہ علم و یقیں کے کہاں ہیں
وہ ارکاں شرعِ متیں کے کہاں ہیں
وہ وارث رسول امیں کے کہاں ہیں
رہا کوئی امت کا ملجا نہ ماویٰ
نہ قاضی نہ مفتی نہ صوفی نہ مُلّا
کہاں ہیں وہ دینی کتابوں کے دفتر
کہاں ہیں وہ علمِ الٰہی کے منظر
چلی ایسی اس بزم میں بادِ صرصر
بجھیں مشعلیں نورِ حق کی سراسر
رہا کوئی ساماں نہ مجلس میں باقی
صراحی نہ طنبور، مطرب نہ ساقی
بہت لوگ بن کے ہوا خواہِ امت
سفیہوں سے منوا کے اپنی فضیلت
سدا گاؤں درگاؤں نوبت بہ نوبت
پڑے پھرتے ہیں کرتے تحصیلِ دولت
یہ ٹھہرے ہیں اسلام کے رہنما اب
لقب ان کا ہے وارثِ انبیا اب
بہت لوگ پیروں کی اولاد بن کر
نہیں ذات والا میں کچھ جن کے جوہر
بڑا فخر ہے جن کو لے دے کے اس پر
کہ تھے ان کے اسلاف مقیولِ داور
کرشمے ہیں جاجا کے جھوٹے دکھاتے
مریدوں کو ہیں لوٹتے اور کھاتے
یہ ہیں جادہ پیمائے راہِ طریقت
مقام ان کا ہے ماورائے شریعت
انہیں پر ہے ختم آج کشف و کرامت
انہیں کے ہے قبضہ میں بندوں کی قسمت
یہی ہیں مراد اور یہی ہیں مرید اب
یہی ہیں جنید اور یہی بایزید اب
بڑھے جس سے نفرت وہ تقریر کرنی
جگر جس سے شق ہوں وہ تحریر کرنی
گنہگار بندوں کی تحقیر کرنی
مسلمان بھائی کی تکفیر کرنی
یہ ہے عالموں کا ہمارے طریقہ
یہ ہے ہادیوں کا ہمارے سلیقہ
کوئی مئسلہ پوچھنے ان سے جائے
تو گردن پہ بارِ گراں لے کے آئے
اگر بد نصیبی سے شک اس میں لائے
تو قطعی خطاب اہلِ دوزخ کا پائے
اگر اعتراض اس کی نکلا زباں سے
تو آنا سلامت ہے دشوار وں سے
کبھی وہ گلے کی رگیں ہیں پھلاتے
کبھی جھاگ پر جھاگ ہیں منہ پہ لاتے
کبھی خوک اور سگ ہیں اس کو بتاتے
کبھی مارنے کو عصا ہیں اٹھاتے
ستوں چشمِ بددور ہیں آپ دیں کے
نمونہ ہیں خلقِ رسولامیں گے
جو چاہے کہ خوش ان سے مل کر ہو انساں
تو ہے شرط وہ قوم کا ہو مسلماں
نشاں سجدہ کا ہو جبیں پر نمایاں
تشرع میں اس کے نہ ہو کوئی نقصاں
لبیں بڑھ رہی ہوں نہ ڈاڑھی چڑھی ہو
ازار اپنی حد سے نہ آگے بڑھی ہو
عقائد میں حضرت کا ہم داستاں ہو
ہر اک اصل مین فرع میں ہم زباں ہو
حریفوں سے ان کے بہت بد گماں ہو
مریدوں کا ان کے بڑا مدح خواح ہو
نہیں ہے گر ایسا تو مردود دیں ہے
بزرگوں سے ملنے کے قابل نہیں ہے
شریعت کے احکام تھے وہ گوارا
کہ شیدا تھے ان پر یہود و انصاریٰ
گواہ ان کی نرمی کا قرآن ہے سارا
خود اَلدّینُ یُسر نبی نے پکارا
مگر یاں کیا ایسا دشوار ان کو
کہ مومن سمجھنے لگے بار ان کو
نہ کی ان کی اخلاق میں رہنمائی
نہ باطن میں کی ان کے پیدا صفائی
پہ احکام ظاہر کے لے یہ بڑھائی
کہ ہوتی نہیں ان سے دم بھر رہائی
وہ دیں جو کہ چشمہ تھا خلقِ نکو کا
کیا قلتیں اس کو غسل و وضو کا
سدا اہلِ تحقیق سے دل میں بل ہے
حدیثوں پہ چلنے میں دیں کا خلل ہے
فتاووں پہ بالکل مدارِ عمل ہے
ہر اک رائے قرآں کا نعم البدل ہے
کتاب اور سنت کا ہے نام باقی
خدا اور نبی سے نہیں کام باقی
جہاں مختلف ہوں روایات باہم
کبھی ہوں نہ سیدھی روایت سے خوش ہم
جسے عقل رکھے نہ ہر گز مسلم
اسے ہر روایت سے سمجھیں مقدم
سب اس میں گرفتار چھوٹے بڑے ہیں
سمجھ پر ہماری یہ پتھر پڑے ہیں
کرے غیر گربت کی پوجا تو کافر
جو ٹھرائے بیٹا خدا کا تو کافر
جھکے آگ پر بہر سجدہ تو کافر
کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر
مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں
پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں
نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں
اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں
مزاروں پہ دن رات نذریں چڑھائیں
شہیدوں سے جاجا کے مانگیں دعائیں
نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے
نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے
وہ دیں جس سے توحید پھیلی جہاں میں
ہوا جلوہ گر حق زمین و زماں میں
رہا شرک باقی نہ وہم و گماں میں
وہ بدلا گیا آکے ہندوستاں میں
ہمیشہ سے اسلام تھا جس پہ نازاں
وہ دولت بھی کھو بیٹھے آخر مسلماں
تعصب کہ ہے دشمنِ نوع انساں
بھرے گھر کیے سیکڑوں جس نے ویراں
ہوئی بزمِ نمرود جس سے پریشاں
کیا جس نے فرعون کو نذرِ طوفاں
گیا جوش میں بو لہب جس کے کھویا
ابو جہل کا جس نے بیڑا ڈبوبا
وہ یاں اک عجب بھیس میں جلوہ گر ہے
چھپا جس کے پردے میں اس میں ضرر ہے
بھرا زہر جس جام میں سر بسر ہے
وہ آبِ بقا ہم کو آتا نظر ہے
تعصب کو اک جزوِ دیں سمجھے ہیں ہم
جہنم کو خلدِ بریں سمجھے ہیں ہم
ہمیں واعظوں نے یہ تعلیم دی ہے
کہ جو کام دینی  ہے یا دنیوی ہے
مخالف کی ریس اس میں کرنی بڑی ہے