Monday, 19 May 2014

جمہوریت

اسلامی جمہوریت  اور غیر اسلامی جمہوریت میں کیا فرق ہے؟
اسلام میں زندگی کا مقصد کیا ہے؟ 
موت کا مقصد کیا ہے؟
اسلامی جمہوریت کا مقصود اور مطلوب کیا ہے؟
اسلامی جمہوریت کے لئے عدل کے قیام کی کیا صورت ہے؟ 
اسلامی جمہوریت کی روح کیا ہے؟
اسلامی خلافت/ریاست/جمہوریت کے اصول کیاہیں؟ 

پولیٹکل سائنس پڑھنے والے طلباء و طالبات کو نہ صرف ان کورس کی کتابوں پر جو انھیں پڑھنے کے لئے دی جاتی تحقیق کرنی چاہیے بلکہ اس سلیبس میں بہتری کے لئے بھی کوشش کرنی چاہیے-  پولیٹکل سائنس کے سلیبس میں بہت بہتری کی گنجائش موجود ہے-  اس بات پر اندھا ایمان رکھنے کے بجاۓ کہ جو کچھ کورس کی کتابوں میں لکھا ہے یہی علم ہے اور نجات کی راہ ہے، خود بھی اپنی عقل کو استعمال کرنا چاہیے کہ آیا یہ سب ہمارے معاشرے اور ملک کے لئے ٹھیک بھی ہے کہ نہیں-  

بہت ہی سادہ اور آسان الفاظ میں اسلامی طرز حکومت کا واحد مقصود عدل کا قیام ہے جو کہ اسلامی ریاست کے حکمرانوں کی ذمّہ داری ہے-  اسکے ساتھ ہی اخلاقیات یعنی صفت کردار، آداب و اطوار اور عبادات اسکی روح ہیں-  اور روح کے بغیر جسم کوئی معنی نہیں رکھتا-  لہٰذا عدل کا تصور اخلاقیات کے بغیر  ایک مردہ جسم کے جیسا ہے-  اور جہاں عدل نہ ہو وہاں خود بخود ظلم کے لئے راستہ ہموار ہو جاتا ہے-  

اسلامی جمہوریت اورغیر اسلامی جمہوریت میں کیا فرق ہے؟
جمہور عربی میں عوام کو کہتے ہیں اور کیونکہ اسلامی نظام، چاہے اسے جو بھی نام دے لیں، کا مقصد عوام کی فلاح و بہبود کے لئے امن اور خوشحالی کا قیام ہے اس لئے اسلامی خلافت یا نفاذ شریعت کے لئے "اسلامی جمہوریت" کی اصطلاح استعمال کرنے میں کوئی مذائقہ نہیں-  شاید اس طرح یہ آزاد خیال اور ترقی پسند لوگوں کو آسانی سے سمجھ میں آجاۓ-  

جمہوریت یا مغربی جمہوریت کی تعریف عام طور پر ایسے نظام کی صورت میں کی جاتی ہے جس میں معاشرے کے ہر فرد کو برابری اور مساوات کے اصولوں کے تحت بغیر کسی تعصب کے اپنی اظہار راۓ کی آزادی اور اپنی مرضی سے جینے کا حق ہو-  مغربی جمہوریت کے مطابق معاشرے کی اکثریت کو نظام بنانے کا حق حاصل ہوتا ہے چاہے اقلیت اس سے متّفق ہو یا نہ ہو-  الله کے وجود پر ایمان رکھنا یا نہ رکھنا مغربی جمہوریت کی بنیاد نہیں-  اس میں انسانوں کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ اگر اکثریت  میں  ہوں تو الله کے قوانین میں تبدیلی بھی کر سکتے ہیں اور اپنی مرضی کے قوانین نافذ کر سکتے ہیں-  یعنی کہ یہ نظام انسانوں کی پسند ناپسند پر قائم کیا جاتا ہے-  اس کا مذہبی عقائد سے کوئی تعلق نہیں ہوتا-  

"جمہوریت اب تک آزماۓ گۓ حکومتی نظاموں میں بد ترین نظام ہے"
سر ونسٹن چرچل 

"سیاست میں، ایک منظّم اقلیت ہی سیاسی اکثریت ہوتی ہے"  جیسی جیکسن 

"جمہوریت ایک لوٹ مار سے زیادہ کچھ نہیں جس میں اکیاون فیصد لوگ باقی اننچاس  فیصد لوگوں کا حق سلب کر لیتے ہیں" 
تھامس جیفرسن 

اسلام کسی شخص کو اسکی اظہار راۓ کی آزادی سے نہیں روکتا اور نہ ہی ان سے اپنی مرضی سے جینے کا حق چھینتا ہے-  لیکن اسلام میں جمہوریت یعنی عوامی فلاح و بہبود کے مطلوب و مقصود کچھ اور ہے-  مسلمانوں کا اس بات پر عقیدہ ہے اور ہونا چاہیے کہ انسانوں کی فلاح و بہبود سے متعلق تمام احکامات قرآن میں بیان کر دیے گۓ ہیں-  اور کسی انسان کو ان میں ترمیم کرنے کی اجازت نہیں-  اور نہ ہی ان احکامات کے مقابلے پر کوئی نۓ قوانین بنانے کی اجازت ہے-  

اسلامی خلافت/امامت/جمہوریت کا مقصود ان احکامات کا صحیح طور پر نفاذ ہے-   اور مطلوب ایک ایسا نظام ہے جو امن، عدل اور خوشحالی کی ضمانت ہو-  لوگوں کو حق حاصل ہے کہ ایسے لوگوں کا انتخاب کریں جو اس ذمّہ داری نبھانے کے قابل اور اہل ہوں-  جسکے لئے لازمی خود لوگوں کے پاس اتنا علم اور قابلیت ہونی چاہیے کہ وہ اس اہلیت اور قابلیت کو جانچنے کی اہلیت رکھتے ہوں-  اور ساتھ ہی ان عناصر کا مقابلہ اور قلع قمع کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں جو اس مطلوب و مقصود میں رکاوٹ بنے-  

مختصرا یہ کہ مغربی جمہوریت کی بنیاد دو کردار ہوتے ہیں: حکمران اکثریت یعنی حزب اقتدار اور اسکے بالمقابل اقلیت یعنی حزب اختلاف-  

جبکہ اسلامی خلافت/امامت/جمہوریت کی بنیاد دو کردار ہوتے ہیں: عادل یا حزب الله یا حزب اقتدار اور ظالم حزب الشیطان یا حزب اختلاف- 

مغربی جمہوریت میں مذہب اور سیاست دو الگ الگ شعبہ ہیں-  مذہب ذاتی  عقیدہ جبکہ سیاست اجتماعی نظام ہے- 
اسلامی جمہوریت میں سارے نظام قرآن و سنّت کے تابع ہیں- 

جمہوریت اگر لوگوں کی پسند اور نا پسند کا نام ہے تو اصل اسلامی جمہوریت آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے مدینے میں قائم ہوئی جب مدینے کے لوگوں نے محمّد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلّم کو اپنے حکمران کے طور پر قبول کیا اور مکّے کے مہاجرین کے ساتھ دنیا کی پہلی اور منفرد ترین مساوات قائم کر کے دکھائی-  یہ اصل اسلامی جمہوریت صرف چالیس سال قائم رہ  سکی- جس میں دس سال رسول الله کی خلافت کے اور انتیس یا تیس سال خلفاء راشدین کی خلافت کے تھے-  

یہ اصل جمہوریت چالیس سال بعد اس لئے ختم نہیں ہوئی کہ معاذ الله اسلام میں یا رسول الله کے نظام میں کوئی کمی تھی-  اس کی وجہ صرف اور صرف عوام کی اسلامی نظام کو جاری رکھنے میں عدم دلچسپی تھی-  جیسے جیسے لوگ اسلامی تعلیمات کی روح یعنی اخلاقیات سے قطع تعلق کرتے گۓ، فتنہ و شر میں مبتلا ہوتے گۓ-  اور یہ ایک فطری امر اور عمل ہے کہ انسان کی جس چیز سے دلچسپی ختم ہو جاۓ وہ چیز اس سے دور کردی جاتی ہے-  

 بہرحال، مغربی جمہوریت کا تعلق دو کرداروں یعنی اکثریت اور اقلیت سے ہے جو انسانی پسند اور نا پسند کے تابع ہوتی ہیں اور اسلامی جمہوریت کا تعلق دو کرداروں یعنی عادل یا حزب الله اور ظالم یا حزب الشیطان سے ہے جس میں عادل الله کے نظام کو نافذ کر تا ہے اور ظالم کے خلاف چوکس رہتا ہے-   

زندگی کا مقصد کیا ہے؟

ایک معبود کی عبادت کرنا-  
قرآن کے یہ الفاظ اتنے واضح اور آسان ہیں کہ انکو سمجھنے کے لئے کسی تشریح اور تفسیر کی ضرورت نہیں-  

"اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں- میں ان سے طالب رزق نہیں اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ مجھے کھلائیں- خدا ہی تو رزق دینے والا زور آور اور مضبوط ہے"
سورہ الذاریات 

""بڑی با برکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے- اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے عمل کرتا ہے۔ اور وہ زبردست (اور) بخشنے والا ہے"- 
سوره الملک 

"بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے اور باوجود جاننے بوجھنے کے (گمراہ ہو رہا ہے تو) الله نے (بھی) اس کو گمراہ کردیا اور اس کے کانوں اور دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ اب الله کے سوا اس کو کون راہ پر لاسکتا ہے۔ بھلا تم کیوں نصیحت نہیں پکڑتے؟"
 سورہ الجاثیہ 

"اور کہتے ہیں کہ ہماری زندگی تو صرف دنیا ہی کی ہے کہ (یہیں) مرتے اور جیتے ہیں اور ہمیں تو زمانہ مار دیتا ہے۔
 اور ان کو اس کا کچھ علم نہیں۔ صرف ظن سے کام لیتے ہیں"  
سورہ الجاثیہ 

موت کا مقصد کیا ہے؟  
ایک شاعر کے الفاظ میں، 
موت اک زندگی کا وقفہ ہے 
ذرا آگے بڑھیں گے دم لے کر

یعنی دی گئی زندگی کے حساب کتاب  سے پہلے وقفہ-   
مردہ انسان دنیا کی نظروں میں خاموش اور بے کار ہو چکا ہوتا ہے لیکن اسکی اپنی زندگی ایک اور رخ پر جاری رہتی ہے  جسے زندہ لوگ نہیں دیکھ پاتے-  موت کا مقصد زندگی کا مقصد سمجھے بغیر سمجھ میں نہیں آسکتا-  آج دنیا کے لوگوں کی اکثریت موت کے بعد زندگی کی منکر ہے یا پھر اس بارے میں شک میں ہے-  بہت سے ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ اگر آخرت ہے بھی تو انکو وہاں بھی اچھا صلہ ملے گا-  یہی حال مکّے کے لوگوں کا بھی تھا-  الله کے وجود سے منکر نہیں تھے لیکن آخرت پر ایمان نہیں رکھتے تھے-  قرآن کی بہت سی آیات انکے اس رویے کی گواہ ہیں-  قرآن میں جا بجا انسانوں کے عقیدہ آخرت کی اصلاح کی ہے کہ موت کا مقصد ہے ہی آخرت کا حساب کتاب-  ورنہ زندگی میں کسی بھی قائدے قانون اور فرائض اور حقوق  کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے-  

"اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو میری زمین فراخ ہے تو میری ہی عبادت کرو- ہر متنفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے۔ پھر تم ہماری ہی طرف لوٹ کر آؤ گے"- 
سورہ العنکبوت 

"جو لوگ برے کام کرتے ہیں کیا وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم ان کو ان لوگوں جیسا کردیں گے جو ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے اور ان کی زندگی اور موت یکساں ہوگی۔ یہ جو دعوے کرتے ہیں برے ہیں" 
سورہ الجاثیہ 

"کہہ دو کہ الله ہی تم کو جان بخشتا ہے پھر (وہی) تم کو موت دیتا ہے پھر تم کو قیامت کے روز جس (کے آنے) میں کچھ شک نہیں تم کو جمع کرے گا لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے" 
سورہ الجاثیہ 

"(الله) پوچھے گا کہ تم زمین میں کتنے برس رہے؟  وہ کہیں گے کہ ہم ایک روز یا ایک روز سے بھی کم رہے تھے، شمار کرنے والوں سے پوچھ لیجیئے- (الله) فرمائے گا کہ تم (بہت ہی) کم رہے۔ کاش تم جانتے ہوتے-
کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تم کو بےفائدہ پیدا کیا ہے
 اور یہ تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے؟"- 
سورہ المؤمنون 

"اور کہنے لگے کہ جب ہم زمین میں ملیامیٹ ہوجائیں گے تو کیا ازسرنو پیدا ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے پروردگار کے سامنے جانے ہی کے قائل نہیں- 
کہہ دو کہ موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تمہاری روحیں قبض کر لیتا ہے پھر تم اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤ گے"- 
سورہ السجدہ 

"اس دن لوگ گروہ گروہ ہو کر آئیں گے تاکہ ان کو ان کے اعمال دکھا دیئے جائیں- تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا- اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا"- 
سورہ ازلزال 

"(لوگو) تم کو(مال کی) کثرت/طلب نے غافل کر دیا- یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں- دیکھو تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا- پھر دیکھو تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا-  دیکھو اگر تم جانتے (یعنی) علم الیقین (رکھتے تو غفلت نہ کرتے)- تم ضرور دوزخ کو دیکھو گے-  پھر اس کو (ایسا) دیکھو گے آنکھوں سے کہ یقین آجاۓ گا- پھر اس روز تم سے نعمت کے بارے میں پرسش ہو گی"-
سورہ التکاثر 

اسلامی خلافت/امات/جمہوریت کا کل مقصود کیا ہے؟ 
عدل کا نفاذ  اور فتنہ و فساد کا خاتمہ 

"ہم نے ہر چیز اندازہٴ مقرر کے ساتھ پیدا کی ہے"- 
سورہ القمر 

"بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ اہل حال کو ہدایت کرے- وہی کہ آسمان اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے اور جس نے (کسی کو) بیٹا نہیں بنایا اور جس کا بادشاہی میں کوئی شریک نہیں اور جس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور پھر اس کا ایک اندازہ ٹھہرایا"- 
سورہ الفرقان 

"اور اسی نے آسمان کو بلند کیا اور ترازو قائم کی"- 
سورہ الرحمن 

الله سبحانہ و تعالی نے جو چیز پیدا کی ہے اس میں ایک توازن رکھا ہے اور یہ توازن اس شئی کی جسامت اور کام کے اعتبار سے بھی ہے اور انسان کے اس سے حاصل ہونے والے فوائد کے اعتبار سے بھی-  اور یہی عدل کہلاتا ہے-  

بہت ہی آسان الفاظ میں، عدل اور ظلم دو اصطلاحات نہیں بلکہ دو نظام ہیں جس پر زندگی اور موت  کا خاکہ ترتیب دیا گیا ہے اور جو ایک دوسرے کے مدّمقابل رہتے ہیں-  یہ ایک دوسرے کے خلاف پوری قوّت سے نبرد آزما رہتے ہیں-  عدل کا نظام تمام اچھی خصوصیات اور ظلم کا نظام بری خصوصیات کے تابع ہوتا ہے-  کسی بھی معاشرے میں رائج نظام اسکی اکثریت کے کردار کی نمائندگی کرتا ہے کہ آیا وجہ اچھی خصوصیات کے حامل ہیں یا بری-

اسلامی خلافت/امامت/جمہوریت کا کل مقصود بھی الله کی زمین پر عدل کا نفاذ ہے-  اور یہ نفاذ انسانوں کی مرضی سے نہیں بلکہ الله کے دیے گۓ قوانین کے مطابق ہے-  اسکی وجہ بہت آسانی سے سمجھ آجانے والی ہے-  انسان چاہے جتنا بھی مساوات اور انسانیت سے ہمدردی کا دعویٰ کرے اسکا مزاج اسے کسی نہ کسی طور خود غرضی، اقرباء پروری، قوم پرستی اور خود پرستی کی طرف مائل کرتا ہے کیونکہ اسکی غرض ان سے بندھی ہوتی ہے-  یا اگر وہ دولت کا پجاری ہے تو پھر وہ صرف اور صرف اپنے فائدے کو مدّ نظر رکھے گا-  الله بے نیاز ہے اور تمام فائدے اور نقصان سے بے پرواہ-  اس لئے وہی ایسے قوانین دے سکتا ہے جو اسکے تمام  بندوں کے لئے یکساں فائدہ مند ہوں-  

عدل کا قیام چاہے انفرادی طور پر ہو یا اجتماعی سطح پر، یہ امن اور خوشحالی کا ضامن ہے- 

"عدل" کے معنی ہر چیز کو اس کے اصل مقام پر رکھنے کے ہیں-  یا حقوق، ذمّہ داریوں یا اشیاء کی مناسب تقسیم-  اور ظلم اس کی ضد کے یعنی کسی چیز کا بے جگہ ہونا یا حقوق، ذمّہ داریوں یا اشیاء کی نامناسب تقسیم-  

"اور کہہ دو کہ جو کتاب الله نے نازل فرمائی ہے میں اس پر ایمان رکھتا ہوں۔ اور مجھے حکم ہوا ہے کہ تم میں انصاف کروں"- سورہ الشوریٰ 

"الله تم کو انصاف اور احسان کرنے اور رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے۔ اور بےحیائی اور نامعقول کاموں سے اور سرکشی سے منع کرتا ہے (اور) تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو"-
 سورہ النحل

"اے ایمان والوں! الله کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جایا کرو۔ اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ عدل چھوڑ دو۔ عدل کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے اور الله سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ الله تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے"-
سورہ المائدہ 

" اور لوگوں کی دشمنی اس وجہ سے کہ انہوں نے تم کو عزت والی مسجد سے روکا تھا تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ان پر زیادتی کرنے لگو"
 سورہ المائدہ 

"اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو اور الله کے لئے سچی گواہی دو خواہ (اس میں) تمہارا یا تمہارےماں باپ اور رشتہ داروں کا نقصان ہی ہو۔ اگر کوئی امیر ہے یا فقیر تو الله ان کا خیر خواہ ہے۔ تو تم خواہش نفس کے پیچھے چل کر عدل کو نہ چھوڑ دینا۔ اگر تم غلط شہادت دو گے یا (شہادت سے) بچنا چاہو گے تو (جان رکھو) الله تمہارے سب کاموں سے واقف ہے"- 
سورہ النساء 

" اور جب (کسی کی نسبت) کوئی بات کہو تو انصاف سے کہو گرچہ وہ (تمہارا) رشتہ دار ہی ہو اور الله کے عہد کو پورا کرو ان باتوں کا الله تمہیں حکم دیتا ہے تاکہ تم یاد رکھو"- 
سورہ الانعام 

"(اے پیغمبر) کفار سے کہہ دو کہ اگر وہ اپنے افعال سے باز آجائیں تو جو ہوچکا وہ انہیں معاف کردیا جائے گا۔ اور اگر پھر (وہی حرکات) کرنے لگیں گے تو اگلے لوگوں کا (جو) طریق جاری ہوچکا ہے (وہی ان کے حق میں برتا جائے گا)-  اور ان لوگوں سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ (یعنی کفر کا فساد) باقی نہ رہے اور دین سب الله ہی کا ہوجائے اور اگر باز آجائیں توالله ان کے کاموں کو دیکھ رہا ہے- اور اگر روگردانی کریں تو جان رکھو کہ الله تمہارا حمایتی ہے۔ (اور) وہ کیا خوب حمایتی اور خوب مددگار ہے"-  
سورہ الانفال 

اسلامی جمہوریت کے لئے عدل کے قیام کی کیا صورت ہے؟  

ٹیم ورک یا اجتماعی/متّفقہ کوشش اور آپس میں شوریٰ یا مشورہ- 

یہ دو جزو یا عناصر ہیں جو کسی بھی نظام میں عدل کے قیام کوممکن بناتے ہیں-  اور ان کا تسلسل اس نظام کو دیرپا کرتا ہے-  

نظام کیا ہے؟  مختلف عناصر یا اجزاء کا ایک منظّم طریقے سے ایک مخصوص مقصد کو حاصل کرنے کے لئے کام کرنا- جیسا کہ نظام شمسی جو سورج کے  گرد سیّاروں کی گردش کی وجہ سے  دن رات اور موسموں کی تبدیلی کا باعث بنتا ہے- یا انسان کے اپنے اندر سانس لینے کا نظام، نظام ہاضمہ، وغیرہ- 

اور یہی ٹیم ورک کہلاتا ہے- ٹیم ورک کی ایک صفت یہ بھی ہوتی ہے کہ اس میں کسی ایک شخص کی اجارہ داری یا ڈکٹیٹر شپ یا بادشاہت قائم نہیں ہونے پاتی اور نظام "ون مین یا ون وومین شو" نہیں بننے پاتا-  اس طرح کسی بھی عنصر کی غیر حاضری یا نہ ہونے کی صورت میں اسکا نعم البدل موجود ہوتا ہے اور نظام رکنے نہیں پاتا-

شوریٰ کیا ہے؟ سادہ سے الفاظ میں انھیں مختلف عناصر کا ایک دوسرے سے ربط اور رابطہ-

قرآن میں ٹیم ورک   
"اور سب مل کر الله کی (ہدایت کی رسی) کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا اور الله کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو الله نے تم کو اس سے بچا لیا اس طرح  الله تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ"-  
سورہ آل عمران 

"اور ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو متفرق ہو گئے اور احکام بین آنے کے بعد ایک دوسرےسے اختلاف کرنے لگے یہ وہ لوگ ہیں جن کو قیامت کے دن بڑا عذاب ہوگا"- 
سورہ آل عمران 

" اور (دیکھو) نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ الله کا عذاب سخت ہے"- 
سورہ المائدہ 

"بے شک الله محبّت کرتا ہے ان سے جو الله کی راہ میں ایسے لڑتے کہ گویا سیسہ پلائی دیوار ہیں"-
سورہ الصف 

قرآن میں اسلامی نظام کو چلانے کے لئے محکمے اور ادارے بنانے کی تجاویزاور حکمت عملی بھی وضع کی گئیں ہیں-  خلفاء راشدین نے بھی حکومتی کاموں میں آسانی کے لئے یہی طریقہ اختیار کیا تھا- 


"اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہیئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور اچھے کام کرنے کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کرے یہی لوگ ہیں جو نجات پانے والے ہیں"- 
سورہ آل عمران 

"اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب نکل آئیں۔ تو یوں کیوں نہ کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا (علم سیکھتے اور اس) میں سمجھ پیدا کرتے اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آتے تو ان کو ڈر سناتے تاکہ وہ حذر کرتے"- سورہ التوبه 

"اور (اے پیغمبر) جب تم ان (مجاہدین کے لشکر) میں ہو اور ان کو نماز پڑھانے لگو تو چاہیئے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ مسلح ہو کر کھڑی رہے جب وہ سجدہ کرچکیں تو پرے ہو جائیں پھر دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی (ان کی جگہ) آئے اور ہوشیار اور مسلح ہو کر تمہارے ساتھ نماز ادا کرے کافر اس گھات میں ہیں کہ تم ذرا اپنے ہتھیاروں اور سامان سے غافل ہو جاؤ تو تم پر یکبارگی حملہ کردیں
اگر تم بارش کے سبب تکلیف میں یا بیمار ہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ ہتھیار اتار رکھو مگر ہوشیار ضرور رہنا-  
الله نے کافروں کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے"-
 سورہ النساء  

"اور کفار کا پیچھا کرنے میں سستی نہ کرنا اگر تم بےآرام ہوتے ہو تو جس طرح تم بےآرام ہوتے ہو اسی طرح وہ بھی بےآرام ہوتے ہیں اور تم خدا سے ایسی ایسی امیدیں رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھ سکتے اور خدا سب کچھ جانتا اور (بڑی) حکمت والا ہے"
 سورہ النساء 


قرآن میں شوریٰ 
"اور جو بڑے بڑے گناہوں اور بےحیائی کی باتوں سے پرہیز کرتے ہیں۔ اور جب غصہ آتا ہے تو معاف کردیتے ہیں- اور جو اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔ اور اپنے کام آپس کے مشورے سے کرتے ہیں۔ اور جو مال ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں- اور جو ایسے ہیں کہ جب ان پر ظلم وتعدی ہو تو (مناسب طریقے سے) بدلہ لیتے ہیں- اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے۔ مگر جو درگزر کرے اور (معاملے کو) درست کردے تو اس کا بدلہ الله کے ذمّہ ہے۔ اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا- اور جس پر ظلم ہوا ہو اگر وہ اس کے بعد انتقام لے تو ایسے لوگوں پر کچھ الزام نہیں- الزام تو ان لوگوں پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کو تکلیف دینے والا عذاب ہوگا- اور جو صبر کرے اور قصور معاف کردے تو یہ ہمت کے کام ہیں"- 
سورہ الشوریٰ 

"(اے محمدﷺ) الله کی مہربانی سے تمہاری نرم مزاجی  ان لوگوں کے لئے نرم واقع ہوئی ہے۔ اور اگر تم بدخو اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے۔ تو ان کو معاف کردو اور ان کے لئے  مغفرت مانگو۔ اور اپنے کاموں میں ان سے مشورت لیا کرو۔ اور جب (کسی کام کا) عزم مصمم کرلو تو  الله پر بھروسہ  رکھو۔ بےشک الله بھروسہ  رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے"-  
سوره آل عمران 

"مومنو! جب تم آپس میں سرگوشیاں کرنے لگو تو گناہ اور زیادتی اور پیغمبر کی نافرمانی کی باتیں نہ کرنا بلکہ نیکوکاری اور پرہیزگاری کی باتیں کرنا۔ اور الله  سے جس کے سامنے جمع کئے جاؤ گے ڈرتے رہنا-  کافروں کی) سرگوشیاں تو شیطان (کی حرکات) سے ہیں (جو) اس لئے (کی جاتی ہیں) کہ مومن (ان سے) غمناک ہوں مگر الله کے حکم کے سوا ان سے انہیں کچھ نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ تو مومنوں کو چاہیئے کہ الله ہی پر بھروسہ رکھیں"- 
سورہ المجادله 

اسلامی خلافت/امامت/ریاست/جمہوریت کی روح کیا ہے؟ 
اخلاقیات  ہر انفرادی اور اجتماعی نظام کی روح ہوتے ہیں-  اسلام میں اخلاقیات پر بے انتہا زور دیا گیا ہے-  اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مکّے کے تیرہ سالوں میں رسول الله نے اہل ایمان کی تربیت میں سب سے زیادہ زور اخلاقیات پر ہی دیا تھا-  ورنہ قرآن تو تئیس سالوں میں نازل ہوا ہے-  رسول الله نے انسان کی اپنی ذات سے لے کر، ماں پاب، بیوی، بچوں، بہن بھائیوں، رشتہ داروں، پڑوسیوں، استادوں، مسافروں، حتیٰ کہ جانوروں اور پودوں تک کے حقوق مقرر فرماۓ- طہارت و پاکیزگی، صدقہ و خیرات، غم کے موقع، خوشی کی تقریبات، ہر موقع کے اصول مقرر فرماۓ- 

رسول الله صلی الله علیہ وسلّم نے فرمایا،
"مجھے اخلاقیات کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہے"- 


"تمھارے لئے الله کے رسول (کے کردار) میں بہترین طریقہ (زندگی) موجود ہے-  اس شخص کے لئے جو الله سے ملنے کی امید رکھتا ہو اور آخرت کے دن پر (ایمان) اور الله کا کثرت سے ذکر کرتا ہو"- 
سورہ الاحزاب  

"اور (اے محمّد) تمہیں اخلاق کے اعلی مرتبے پر فائز کیا گیا"- 
سورہ القلم 

" اور الله کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔ بےشک  الله سب کچھ جاننے والا (اور) سب سے خبردار ہے"-  
سورہ الحجرات 

اخلاق صرف دوسروں سے ہنسنے بولنے اور لطیفے سنانے کا نام نہیں- ادب آداب کے علاوہ انسانی صفات  اور عبادات بھی اخلاق ہی کا حصّہ ہوتے ہیں-  اور یہ سب مل کر ایک مسلمان کی شخصیت اور اسکے اخلاق کو مکمّل کرتے ہیں-  اسلامی اخلاقیات بنیادی طور پر تین حصّوں پر مشتمل ہیں یعنی صفات، آداب اور عبادت-  اور ان کا پورا کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے-  

١) انسانی صفات جیسے کہ سچائی، ایمانداری، امانتداری، وفاداری، صبر، بہادری، حکمت، رواداری، شائستگی، ہمدردی، رحم، وغیرہ 
٢) آداب جیسے کہ سلام کرنے، اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے، ملنے جلنے، تلاوت کرنے، غم اور خوشی منانے کے طور طریقے 
٣) عبادات جیسے کہ نماز، زکواة، روزے، حج، دعائیں، تلاوت قرآن وغیرہ 

اس پر غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ اسلام کا سماجی اور معاشی نظام بھی اخلاقیات ہی کے زمرے میں آتا ہے-  لہٰذا اسے کسی اور نظام میں ڈھونڈنا یا کسی اور طرح فٹ کرنے کی کوشش کرنا بے سود اور مسلمانوں کے حق میں نقصان دہ ہے-  

یہ تینوں حصّے اخلاقیات کا وہ آئینہ ہیں جس میں دیکھ کر ہر مومن خود کو درست کر سکتا ہے- یہی وہ پیمانہ ہیں جس پر ہر مسلمان اور مومن کے کردار کو جانچا جاۓ گا-  رسول الله کی ایک حدیث کے مطابق "قیامت کے دن سب سے بھاری اعمال اسکے ہوں گا جس کا اخلاق اچھا ہوگا"- 

سورہ القلم اور سورہ الاحزاب کی آیات کی روشنی میں یہ اخلاقیات اسلامی ریاست یا مملکت کے سربراہ کی شخصیت کا لازمی حصّہ ہونی چاہئیں اور مسلمان عوام کو اپنے رہنما کے طور پر انھیں خصوصیات کے حامل شخص کا انتخاب کرنا چاہیے- اور یہی اسلامی جمہوریت کا  اصول ہے-  کیونکہ ایسا شخص ہی الله کے دین کو الله کی زمین پر نافذ کر سکتا ہے-  لیکن جو عوام خود اس معیار پر پورا نہیں اترتی وہ لازما اپنے سربراہ کا انتخاب بھی درست طریقے سے نہیں کرسکتی-  مندرجہ ذیل آیات میں کوئی لفظ ایسا نہیں جو کسی پڑھے لکھے یا ان پڑھ کی سمجھ میں نہ اسکے یا جس کو سمجھنے کے لئے کسی عالم یا مولوی کی ضرورت پڑے-  ہر کوئی ان آیات کے آئینے میں اپنی شخصیت دیکھ بھی سکتا ہے اور سنوار بھی سکتا ہے-  کہ یہی ہمارے رب کا ہم سے تقاضہ ہے-  


 "اور رحمٰن کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں تو سلام کہتے ہیں-  اور جو وہ اپنے پروردگار کے آگے سجدے کرکے اور (عجز وادب سے) کھڑے رہ کر راتیں بسر کرتے ہیں- اور جو دعا مانگتے رہتے ہیں کہ اے پروردگار دوزخ کے عذاب کو ہم سے دور رکھیو کہ اس کا عذاب بڑی تکلیف کی چیز ہے-  اور دوزخ  ٹہرنے اور رہنے کی بہت بری جگہ ہے-  اور وہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بےجا اُڑاتے ہیں اور نہ تنگی کو کام میں لاتے ہیں بلکہ اعتدال کے ساتھ۔ نہ ضرورت سے زیادہ نہ کم-  اور وہ جو الله  کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے  اور جن جاندار کو مار ڈالنا الله نے حرام کیا ہے اس کو قتل نہیں کرتے  مگر جائز طریق پر-
 اور بدکاری نہیں کرتے۔   اور جو یہ کام کرے گا سخت گناہ میں مبتلا ہوگا"- 
سورہ الفرقان 

"بےشک ایمان والے کامیاب ہوگئے-  جو نماز میں عجزو نیاز کرتے ہیں- اور جو بیہودہ باتوں سے منہ موڑے رہتے ہیں- اور جو زکوٰة ادا کرتے ہیں- اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں- مگر اپنی بیویوں سے یا جو ان کی مِلک ہوتی ہیں کہ (ان سے) مباشرت کرنے سے انہیں ملامت نہیں- اور جو ان کے سوا اوروں کے طالب ہوں وہ حد سے نکل جانے والے ہیں- اور جو امانتوں اور اقراروں کو ملحوظ رکھتے ہیں- اور جو نمازوں کی پابندی کرتے ہیں- یہ ہی لوگ میراث حاصل کرنے والے ہیں- (یعنی) جو بہشت کی میراث حاصل کریں گے۔
 اور اس میں ہمیشہ رہیں گے"-  
سورہ المومنون 

"جو نماز کا التزام رکھتے ہیں- اور جن کے مال میں حصہ مقرر ہے- (یعنی) مانگنے والے کا اور نہ مانگے والے والا کا- اور جو روز جزا کو سچ سمجھتے ہیں- اور جو اپنے پروردگار کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں- بےشک ان کے پروردگار کا عذاب ہے ہی ایسا کہ اس سے بےخوف نہ ہوا جائے-  اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں- مگر اپنی بیویوں یا لونڈیوں سے کہ (ان کے پاس جانے پر) انہیں کچھ ملامت نہیں- اور جو لوگ ان کے سوا اور کے خواستگار ہوں وہ حد سے نکل جانے والے ہیں- اور جو اپنی امانتوں اور اقراروں کا پاس کرتے ہیں- اور جو اپنی شہادتوں پر قائم رہتے ہیں- اور جو اپنی نماز کی خبر رکھتے ہیں- یہی لوگ باغ بہشت میں عزت واکرام سے ہوں گے"-  
سوره المعارج 

"اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی۔ کہ الله کا شکر کرو۔ اور جو شخص شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے۔ اور جو ناشکری کرتا ہے تو الله خدا بھی بےپروا اور لائق حمد و ثنا ہے-  اور (اُس وقت کو یاد کرو) جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ بیٹا الله کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا۔ شرک تو بڑا (بھاری) ظلم ہے- اور ہم نے انسان کو جسے اُس کی ماں تکلیف پر تکلیف سہہ کر پیٹ میں اُٹھائے رکھتی ہے (پھر اس کو دودھ پلاتی ہے) اور( آخرکار) دو برس میں اس کا دودھ چھڑانا ہوتا ہے (اپنے نیز) اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید کی ہے کہ میرا بھی شکر کرتا رہ اور اپنے ماں باپ کا بھی (کہ تم کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے- اور اگر وہ تیرے درپے ہوں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک کرے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کا کہا نہ ماننا۔ ہاں دنیا (کے کاموں) میں ان کا اچھی طرح ساتھ دینا اور جو شخص میری طرف رجوع لائے اس کے رستے پر چلنا پھر تم کو میری طرف لوٹ کر آنا ہے۔ تو جو کام تم کرتے رہے میں سب سے تم کو آگاہ کروں گا- ( لقمان نے یہ بھی کہا کہ) بیٹا اگر کوئی عمل (بالفرض) رائی کے دانے کے برابر بھی (چھوٹا) ہو اور ہو بھی کسی پتھر کے اندر یا آسمانوں میں (مخفی ہو) یا زمین میں۔ الله اُس کو قیامت کے دن لاموجود کرے گا۔ کچھ شک نہیں کہ الله باریک بین (اور) خبردار ہے- بیٹا نماز کی پابندی رکھنا اور (لوگوں کو) اچھے کاموں کے کرنے کا امر اور بری باتوں سے منع کرتے رہنا اور جو مصیبت تجھ پر واقع ہو اس پر صبر کرنا۔ بیشک یہ بڑی ہمت کے کام ہیں- اور (ازراہ غرور) لوگوں سے گال نہ پھلانا اور زمین میں اکڑ کر نہ چلنا۔ کہ الله کسی اترانے والے خود پسند کو پسند نہیں کرتا-  اور اپنی چال میں اعتدال کئے رہنا اور (بولتے وقت) آواز نیچی رکھنا کیونکہ کچھ شک نہیں کہ سب آوازوں سے بُری آواز گدھے کی ہے"- 
سورہ لقمان 


"نیکی یہی نہیں کہ تم مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرلو بلکہ نیکی یہ ہے کہ لوگ الله پر اور روز آخرت پر اور فرشتوں پر اور (الله کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائیں۔ اور مال باوجود عزیز رکھنے کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں اور مانگنے والوں کو دیں اور گردنوں (کے چھڑانے) میں (خرچ کریں) اور نماز پڑھیں اور زکوٰة دیں۔ اور جب عہد کرلیں تو اس کو پورا کریں۔ اور سختی اور تکلیف میں اور (معرکہ) کارزار کے وقت ثابت قدم رہیں۔ یہی لوگ ہیں جو (ایمان میں) سچے ہیں اور یہی ہیں جو (الله سے) ڈرنے والے ہیں"-   سورہ البقرہ 


اسلامی خلافت/جمہوریت/ریاست کے اصول کیا ہونے چاہئیں؟
اسلامی طرز حکومت  کا نمونہ رسول الله صلی الله علیہ وسلّم عملی طور پر دنیا کو دکھا چکے ہیں-  اور خلفاء راشدین اس کی پیروی بھی کرکے دکھا چکے ہیں-  اسلامی حکومت میں "شوریٰ اور ٹیم ورک/با جماعت کام" کے دونوں عناصر کا مقصد ہی یہ ہے کہ اسلامی حکومت/ریاست کے کام مل کر آپس کے مشورے سے کیے جائیں اور اس میں اختلاف کی گنجائش ہو فتنہ و فساد کی نہیں-  

"مومنو! الله اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں ان کی بھی-  اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر الله اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں الله اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مآل بھی اچھا ہے"- سوره النساء 

رسول الله صلی الله علیہ وسلّم نے فرمایا, "دین خلوص/نصیحت ہے"  صحابہ کرام نے پوچھا "کس کے ساتھ؟" ارشاد ہوا، 
"الله کے ساتھ، اسکی کتابوں کے ساتھ، اسکے پیغمبروں کے ساتھ، مسلمانوں کے حکمرانوں کے ساتھ، اور عوام الناس کے ساتھ"- 

خلوص اور نیک نیّتی سے بڑھ کر زندگی کا اور کیا اصول ہو سکتا ہے-

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس مغربی طرز جمہوریت کو مسلمان معاشروں میں تباہی کی علامت سمجھا جاتا ہے وہ مغربی ممالک میں کس طرح ایک نظام کو قائم کر نے میں کامیاب ہو گئی؟ 

اس کا جواب بہت آسان ہے-  
١) مغربی ممالک کی عوام کو اپنے نظام سے دلچسپی ہوتی ہے-  وہ اپنے لوگوں کے ساتھ اور جو بھی انکا طرز معاشرت ہے اس سے پر خلوص ہوتے ہیں-  
٢) مغربی ممالک میں انسانی فطرت کے تقاضوں پر زیادہ زور دیا جاتا ہے-  اس لئے مذہب کی قید سے آزاد ہونے کے باوجود وہ زندگی گزارنے کے لئے سچائی، محنت، اور ایمانداری کے اصولوں کو ہی اپناتے ہیں اور اپنی قوم اور اپنے ملک سے مخلص ہوتے ہے-  اس حالت میں جب قرآن انکی نظروں سے گزرتا ہے تو وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اس پر ایمان لے آتے ہیں اور فرقہ بندی اور تعصب سے رہتے ہیں-  
٣)  مسلمان ممالک میں کربلا کے واقعے سے لے کر آج تک عوام کی دلچسپی حکومتی معاملات سے کم ہی رہی ہے-  اسلامی خلافت کے ختم ہونے کی بھی یہی وجہ تھی-  درمیان میں تحریک پاکستان ایک نشانی بن کر ابھری-  یہ یاد دلانے کے لئے کہ "زبان خلق نقارہ خدا ہوتی ہے"-  اور ایک حدیث کے مطابق، 
"جیسی عوام ہوتی ہے اس پر ویسے ہی حکمران مسلّط کر دے جاتے ہیں"-  
٤) مسلمان عوام کے ذہنوں کو جان بوجھ مغربی تہذیب کے سحر میں مبتلا کیا گیا-  انھیں ترقی کے نام پر مغربی معاشرے کے برائیوں کا دلدادہ بنایا گے-  اور مسلمان عوام بے سوچے سمجھے جانوروں کی طرح اس بھگڈر میں شامل ہوگۓ- 
٥) دورسرا سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ بہت سے دینی حلقوں نے کسی بھی قسم کی بہتری کو "کفر کا راستہ"  قرار دے کر ہر قسم کی بہتری کے دروازے بند کر کردیے اور مسلمانوں کو خود انکی پاکیزہ طرز معاشرت سے دور کردیا-  اسکا نتیجہ جہالت کی صورت میں نکلا-  قرآن پڑھنے پر پہرے بٹھا دیے گۓ-  قرآن کو سمجھنے پر فتوے لگا دیے گۓ -  علم کو دین و دنیا میں تقسیم کردیا گیا-  قرآن  اور سائنس کو جدا کر دیا گیا-  سوچنے سمجھنے پر پابندی-  سوال کرنے پر ناراضگی-  

علّامہ اقبال نے فرمایا 
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلمان 
الله کرے تجھ کو عطا جدّت کردار 

ترے وجود پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب 
گرہ کشا ہے رہی نہ صاحب کشاف 

مختصرا یہ کہ نظام تب ہی بدلتا ہے جب عوام کی اکثریت اس کی حامی ہو-  ورنہ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے رسول بھی دنیاوی طور پر ناکام ہو گۓ تھے-  حضرت نوح علیہ السلام، حضرت لوط علیہ السلام اور دوسرے پیغمروں کی قوموں کو کیوں عذاب ملا کہ انکی اکثریت ہدایت کا رسستہ اپنانا نہیں چاہتی تھی-  


پاکستانی قوم بھی اگر قدرت کے تقاضوں کو نہ سمجھی تو  پھر اسے بدتر سے بدتر حالات کے لئے خود کو تیّار کر لینا چاھئے-  اگر جمہوریت "عوام" کی پسند نہ پسند کا نام ہےاور اسکو قائم رہنا چاہیے- تو پھر کسی عالم یا مولوی کے فتوے کے بغیر قرآن اٹھائیں اور اپنی ترجیحات درست کریں-  ورنہ الله بے نیاز ہے- 






Thursday, 15 May 2014

Good Speech is Charity -

یہ وہ  حدیثیں ہیں جو ہم نے اپنے بچوں کو کئی سال پہلے یاد کرائیں تھیں-  ان بچوں میں اسکول کے بچے بھی شامل تھے-   یہ چھوٹی چھوٹی چند الفاظ پر مشتمل حدیثیں نہ صرف با آسانی یاد ہو جاتی ہیں بلکہ سمجھ بھی آ جاتی ہیں-  انکو سمجھنے کے لئے کسی مولوی یا عالم کی ضرورت نہیں-  صرف ان پر یقین رکھنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے-


اللهُ جَمِيلٌ وَ يُحِبٌّ الْجَمَال
الله جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے- 
1- Allah is beautiful and He loves beauty.

إِنَّ الدِّينَ النَّصِيحَةُ
بے شک دین خلوص/بھلائی ہے- 
2- Indeed, religion is sincerity.

اَلدُّعَآءُ مُخُّ الْعِبَادَةِ  
دعا عبادت کا اصل ہے- 
3- Prayer is the base of worship.

الْكَلِمَةُ الطَّيِّبَةُ صَدَقَةٌ
 اچھی بات کہنا بھی صدقہ ہے۔ 
4- Saying good words (good speech) is charity.

الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ
صفائی نصف ایمان ہے- 
5- Purity/cleanliness is the part of faith.

لا يَأتِى حَيَاءٌ اِلَا بِالْخَيْرِ
حیاء نہیں لاتی مگر صرف خیر- 
6- Modesty brings not but only goodness.

أَفْشُوا السَّلَامَ بَيْنَكُمْ 
آپس میں سلام کو رواج دو۔ 
7- preach the greeting (of peace) among yourselves.

اَلسَّلامُ قَبْلَ الْكَلامِ
بات سے پہلے سلام/سلامتی- 
8- Say salam before you talk.

اَلْمُسْلِمُ اَخُوالْمُسْلِم  
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے- 
9- Muslims are brothers.

الْمُؤْمِنُ مِرْآةُ الْمُؤْمِنِ
مومن مومن کا آئینہ ہے۔
10- Believer is the mirror for a believer.

اَلصَّلوةُ مِفْتَاحُ الْجَنَّةِ  
نماز جنّت کی کنجی/چابی ہے- 
11- Salah is the key of Paradise.

اَلصَّلَاةُ نُورٌ
نماز نورِ ہے۔ 
12- Salah is the light.

الصَّلاةُ مِعْرَاجُ المُؤمِنِ
 نماز مومن کی معراج ہے۔
13- Salah is the ascension of believer.

الصِّيَامُ جُنَّةٌ
 روزہ مسلمان کی (گناہوں سے) ڈھال ہے۔ 
14- Fasting is a shield against sins.

إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ  
بے شک، اعمال کا دارومدار نیّت پر ہے- 
15- Indeed, actions are based on intentions.

اَلَْجَنَّةُ تَحْتَ اَقْدَامِ الأُمَّهَاتِ  
جنّت ماں کے قدموں تلے ہے- 
16- Paradise lies under the feet of your mother.

مَنْ ضَآرَّ ضَآرَّاللهَ بِهِ
جو نقصان پہنچاتا ہے-  الله اسے اسی (طریقے/چیز) سے نقصان پہنچاتا ہے- 
جو دوسروں کے لئے گڑھا کھودتا ہے خود اس میں گرتا ہے- 
17- One who harms, Allah harms him/her with the same (way/thing).

اِنَّ الْحَسَنَةَ بِِعَشْرِ اَمْثَالِهَا 
بے شک اچھائی کا بدلہ اسی جیسی دس اچھائیاں ہیں- 
18- Indeed, goodness is rewarded with the same ten goodness. 

مَنْ لَا يَشْكُرُالنَّاسَ لَا يَشْكُرُالله  
جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ الله کا شکر ادا نہیں کرتا- 
19- One who does not thank people, is not grateful to Allah either.

لَا يَرْحَمُ اللَّهُ مَنْ لَا يَرْحَمُ النَّاسَ
الله نہیں رحم کر تا اس پر جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا- 
20- Allah is not merciful on the one who is not merciful on people.
کرو مہربانی تم اہل زمین پر 
خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر

الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ
مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان (کے شر) سے دوسرے مسلمان محفوظ ہیں۔
21- Muslim is the one, from (the evil of) whose hands and tongues other Muslims are safe.

إِنَّ مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكَهُ مَا لَا يَعْنِيهِ -  
بے شک اسلام کا حسن یہ ہے کہ جس کام/چیز سے تمہارا تعلق نہ ہو اسے چھوڑ دو- 
22- Indeed, the perfection of Islam is that leave what does not concern you.

مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يُؤْذِي جَارَهُ -  
جو ایمان رکھتا ہے الله پر اور آخرت کے دن پر پس اسے چاہیے کہ اپنے پڑوسی کی تکلیف نہ دے- 
23- One who believes in Allah and the Last Day should not harm his/her neighbour.

مَنْ كَانَ يُؤمِنُ بِاللهِ وَالْيَومِ الآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَو لِيَصْمُتْ
جو ایمان رکھتا ہے الله پر اور آخرت کے دن پر پس اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے یا چپ رہے- 
24- One who believes in Allah and the Last Day should speak good or remain silent.

إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ   .
بہت زیادہ گمان سے بچو کیونکہ بیشتر گمان گناہ ہوتے ہيں۔ 
25- Beware of suspicion, for suspicion is the most false of speech.

لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَيُوَقِّرْ كَبِيرَنَا
جو چھوٹوں  شفقت اور بڑوں کی عزت نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں- 
26- One who is not kind to children and respectful to elders is not one of us.

لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ
تم میں سے کوئی مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے- 
27- None of you is a believer unless he likes for his brother what he likes for himself.

عَن عُثْمَان اِبْن عَفَّان رضي الله عـنه ، قـال رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسـلم 
"خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ"
تم میں بہترین شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور اسے (دوسروں) کو سکھاۓ- 
28- From Uthman ibn Affan, the Prophet said,
"The best among you is the one who learns Qur'an and teaches it to others."

عَنْ أبي عـبد الرحمن عبد الله بن عـمر بـن الخطاب رضي الله عـنه ، قـال : سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسـلم يَقُـولُ
"بُـنِيَ الإِسْـلَامِ عَلى خُـُمـسٍ : شَـهـادةِ أَنْ لَا إِلَـهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولَ اللهِ ، وَإِقَامَةِ الصَّلَاةِ ، وَإِيـتَآءِ الـزَّكَـاةِ ، وَحَـجِّ البَيْتِ ، وَصَـومِ رَمَضَانَ"
 رواه البخاري والمسلم

عبدللہ ابن عمر ابن الخطاب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول الله صلی علیہ وسلّم نے 
"اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے-  گواہی دینا کہ الله کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمّد الله کے رسول ہیں-  اور نماز قائم کرنا، اور زکواة دینا، اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا-  
29- From Abi Abdur-Rahman Abdullah ibn Umar, the Prophet said, 
"Islam is built on five pillars, being witness that there is no deity but except Allah and that Prophet Muhammad is His messenger, and establishing salah, and paying zakah, and pilgrimage to the House of Allah and fasting in Ramadan."

 أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا
اے لوگوں، بے شک الله پاک ہے اور نہیں قبول کرتا مگر پاک (چیزیں/مال)- 
O people, Allah is pure and He accepts only what is pure.


Monday, 5 May 2014

The Law of Attraction


"(جو لوگ الله کے آگے سر اطاعت خم کرنے والے ہیں یعنی)
 مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں
 اور فرماں بردار مرد اور فرماں بردار عورتیں
 اور راست باز مرد اور راست باز عورتیں
اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں
 اور فروتنی کرنے والے مرد اور فروتنی کرنے والی عورتیں
 اور خیرات کرنے والے مرد اور اور خیرات کرنے والی عورتیں
 اور روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں
 اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں
اور الله کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں۔
 بے شک ان کیلئے الله نے بخشش اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے"- 
سوره الاحزاب 
"Indeed, the Muslim men and Muslim women, the believing men and believing women, the obedient men and obedient women, the truthful men and truthful women, the patient men and patient women, the humble men and humble women, the charitable men and charitable women, the fasting men and fasting women, the men who guard their private parts and the women who do so, and the men who remember Allah often and the women who do so - for them Allah has prepared forgiveness and a great reward."
Surah Al-Ahzab

"اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں کہ اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے اور نماز پڑھتے اور زکوٰة دیتے اور الله اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پرالله رحم کرے گا۔ بےشک خدا غالب حکمت والا ہے"- 
سوره التوبہ 
"The believing men and believing women are allies of one another. They enjoin what is right and forbid what is wrong and establish prayer and give zakah and obey Allah and His Messenger. Those - Allah will have mercy upon them. Indeed, Allah is Exalted in Might and Wise."
Surah At-Taubah

"منافق مرد اور منافق عورتیں ایک دوسرے کے ہم جنس (یعنی ایک طرح کے) ہیں کہ برے کام کرنے کو کہتے اور نیک کاموں سے منع کرتے اور ہاتھ بند کئے رہتے ہیں۔ انہوں نے الله کو بھلا دیا توالله نے ان کو بھلا دیا۔ بےشک منافق نافرمان ہیں"- 
سوره التوبہ 
"The hypocrite men and hypocrite women are of one another. They enjoin what is wrong and forbid what is right and close their hands. They have forgotten Allah , so He has forgotten them [accordingly]. Indeed, the hypocrites - it is they who are the defiantly disobedient."
Surah At-Taubah

"ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کے لئے اور ناپاک مرد ناپاک عورتوں کے لئے۔
 اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لئے" -
 سوره النور 
"Evil women are for evil men, and evil men are [subjected] to evil women. And good women are for good men, and good men are [an object] of good women..." 
Surah An-Nur

"بدکار مرد تو بدکار یا مشرک عورت کے سوا نکاح نہیں کرتا اور بدکار عورت کو بھی بدکار یا مشرک مرد کے سوا اور کوئی نکاح میں نہیں لاتا"-
 سوره النور 
"The fornicator does not marry except a [female] fornicator or polytheist, and none marries her except a fornicator or a polytheist..."
Surah An-Nur

"اور ابراہیم نے کہا کہ تم جوالله کو چھوڑ کر بتوں کو لے بیٹھے ہو تو دنیا کی زندگی میں باہم دوستی کے لئے (مگر) پھر قیامت کے دن تم ایک دوسرے (کی دوستی) سے انکار کر دو گے اور ایک دوسرے پر لعنت بھیجو گے اور تمہارا ٹھکانا دوزخ ہوگا اور کوئی تمہارا مددگار نہ ہوگا"- 
سوره العنکبوت 

"And [Abraham] said, "You have only taken, other than Allah , idols as [a bond of] affection among you in worldly life. Then on the Day of Resurrection you will deny one another and curse one another, and your refuge will be the Fire, and you will not have any helpers."
Surah Al-Ankaboot

"اور کہتے ہیں کہ جس چیز کی طرف تم ہمیں بلاتے ہو اس سے ہمارے دل پردوں میں ہیں اور ہمارے کانوں میں بوجھ (یعنی بہراپن) ہے اور ہمارے اور تمہارے درمیان پردہ ہے تو تم (اپنا) کام کرو ہم (اپنا) کام کرتے ہیں"-
سوره فصلات 
"And they say, "Our hearts are within coverings from that to which you invite us, and in our ears is deafness, and between us and you is a partition, so work; indeed, we are working."
Surah Fussilaat

"جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار الله ہے پھر وہ (اس پر) قائم رہے ان پر فرشتے اُتریں گے (اور کہیں گے) کہ نہ خوف کرو اور نہ غمناک ہو اور بہشت کی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا خوشی مناؤ- ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست تھے اور آخرت میں بھی (تمہارے رفیق ہیں)"-
سوره فصلات 


  "Indeed, those who have said, "our Lord is Allah" and then remained on the right course - the angels will descend upon them, (saying), 'Do not fear and do not grieve but receive good tidings of Paradise, which you were promised.  We were your allies in the worldly life and in the Hereafter." 
Surah Fussilat 
  










Monday, 21 April 2014

علامہ محمّد اقبال رحمة الله علیہ

علامہ محمّد اقبال رحمة الله علیہ 
شاعر مشرق 
حکیم الامّت 
مفکّر پاکستان 
مصور پاکستان 
ایک  فلسفی 
ایک دانشور 
ایک مدبّر 
ایک عالم 
 ایک سیاستدان 
 میرے محسن اور میرے رہنما 

بلکہ میں تو نفسیاتی مریضوں کا معالج بھی کہتی ہیں-  ذرا حزن و ملال و مایوسی ہو، کلّیات اقبال پڑھ لیں-  طبیعت صاف ہو جاتی ہے-  
فرماتے ہیں 

حقیقت ازلی ہے رقابت اقوام 
نگاہ پیر فلک میں نہ میں عزیز نہ تو 
خودی میں ڈوب، زمانے سے نا امید نہ ہو 
کہ اسکا زخم ہے در پردہ اہتمام رفو 
رہے گا تو ہی جہاں میں یگانہ و یکتہ 
اتر گیا جو ترے دل میں لا شریک لہ 

یہی نشاں ہے زمانے میں زندہ قوموں کا 
کہ صبح شام بدلتی ہیں انکی تقدیریں 
کمال صدق و مروّت ہے زندگی انکی 
معاف کرتی ہے فطرت بھی انکی تقصیریں 

اور جتنی میری تقدیر صبح و شام بدلتی ہے لگتا ہے کہ سب سے زیادہ زندہ میں ہی ہوں-  اور دنیا میں سب سے زیادہ سفر میں بھی میں ہی ہوں-  ابھی کہیں ٹکتی نہیں کہ اٹھنے اٹھانے کے حالات پیدا ہو جاتے ہیں-  اگرقرآن اور کلّیات اقبال کی خوراکیں نہ لے رہی ہوتی تو کافر ہو چکی ہوتی شاید-  الله کا کرم ہے-  الله میری اور میرے تمام گھر والوں کی تقصیریں معاف فرماۓ-  آمین 

اور پتہ نہیں کب سے تلاش کر رہی تھی  وہ ایمان جسے حضرت علی کے مطابق انہوں نے قرآن سے پہلے سیکھ لیا تھا-  

ابھی کلّیات پڑھتے پڑھتے نظر پڑی "علم ہے ابن الکتاب، عشق ہے ام الکتاب"- اب 
جو مطلب مجھے سمجھ آیا دونوں کو ملا کر وہ یہ کہ 
١- کتاب کے اندر علم ہوتا ہے اور کتاب کے باہر عشق- 
٢- تو کیا حضرت علی اور دوسرے صحابۂ کرام نے جو ایمان قرآن سے پہلے سیکھا تھا اسکا نام عشق تھا-  اور علم بعد میں انکی تصدیق کے لئے نازل ہوا- 

اور یہ عشق کیا ہے؟

کبھی تنہائ کوہ و دمن عشق 
کبھی سوز و سرور انجمن عشق 
کبھی سرمایہ محراب و منبر 
کبھی مولا علی خیبر شکن عشق 

عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولین ہے عشق 
عشق نہ ہو تو شرع دیں بت کدہ تصورات 
صدق خلیل بھی ہے عشق، صبر حسین بھی ہے عشق 
معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق 

اور علامہ کے طنز و مزاح پڑھ کر ہنسی آرہی تھی- کہتے ہیں 

ہاتھوں سے اپنے دامن دنیا نکل گیا 
رخصت ہوا دلوں سے خیال معاد بھی 
قانون وقف کے لئے لڑتے تھے شیخ جی 
پوچھو تو وقف کے لئے ہے جائیداد بھی 

شیخ صاحب بھی تو پردے کے کوئی حامی نہیں 
مفت میں کالج کے لڑکے ان سے بد ظن ہو گۓ 
وعظ میں فرمادیا تھا آپ نے یہ صاف صاف 
پردہ آخر کس سے ہو جب مرد ہی زن ہو گۓ 

آخر میں علامہ کے شعر جو انہوں نے اپنی والدہ کی یاد میں لکھے تھے انہیں کے نام- 

زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر 
خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر 
مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو ترا 
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا 
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے 
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے 



الزام اور گواہی

حامد میر کے معاملے میں صحافت کے کنوئیں کے مکینوں کا خیال ہے کہ کیونکہ حامد میر نے اپنا خوف، اپنے خدشات ریکارڈ کروادئیے ہیں جنرل ظہیر الاسلام کے بارے میں لہٰذا اب جنرل ظہیر الاسلام کا فرض ہے کہ وہ ثبوت پیش کریں کہ آیا کہ حامد میر سچا ہے یا جھوٹا-  

میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ کوئی ایک شخص دوسرے پر الزام لگاۓ اور پھر سارا کا سارا دباؤ اس ملزم پر آجاۓ کہ اگر تو وہ ثبوت لاۓ اپنی سچائی کے ورنہ وہ واقعی مجرم ہے-  مجھے اس معاملے میں صرف قرآن سے ایک آیت ملی جسے میں فی الحال تو ہر معاملے کے حق میں عدل کا طریقۂ کار سمجھوں گی اور وہ ہے سورہ النور کی آیت- 

"اور جو لوگ پرہیزگار عورتوں کو بدکاری کا عیب لگائیں اور اس پر چار گواہ نہ لائیں تو ان کو اسی درے مارو اور کبھی ان کی شہادت قبول نہ کرو۔ اور یہی بدکردار ہیں"- سوره النور 

اس کو میں نے کم از کم اس طرح سمجھا کہ اگر کوئی کسی پر الزام لگاتا ہے تو پھر قرآن کے مطابق ثبوت بھی اسی کو پیش کرنے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے الزام میں کتنا سچا یا جھوٹا ہے-  قرآن کی اس آیت کے مطابق اگر الزام لگانے اپنے الزام کو درست ثابت نہ کرسکے تو پھر سزا اسی کو ملے گی اور اسکی گواہی بھی قبول نہ ہوگی اور وہ بدکردار  یا کم سے کم جھوٹا کہلاۓ گا-  

Saturday, 12 April 2014

انسان


"اور انسان تو بڑا ناشکرا ہے"- 
 سورہ الحج

" بےشک انسان صریح ناشکرا ہے"-  
سوره الزخرف 

" بےشک انسان بڑا ناشکرا ہے" - 
سوره الشعراء 

"کہ انسان اپنے پروردگار کا احسان فراموش (اور ناشکرا) ہے"  
سوره العادیات 

 کچھ شک نہیں کہ انسان بڑا بےانصاف اور ناشکرا ہے"-
 سوره ابراہیم 

"انسان ہلاک ہو جائے کیسا ناشکرا ہے"-
 سوره عبس 

"اور انسان (اپنی طبیعت میں) جلد باز ہے"- 
 سورہ الانبیاء 

 اور انسان (طبعاً) کمزور پیدا ہوا ہے"- 
سوره النساء 

"کہ ہم نے انسان کو تکلیف (کی حالت) میں (رہنے والا) بنایا ہے"-
 سورہ البلد 

"کچھ شک نہیں کہ انسان کم حوصلہ پیدا ہوا ہے"- 
سوره المعارج 

"مگر انسان سرکش ہو جاتا ہے"- 
سورہ العلق 

"مگر انسان چاہتا ہے کہ آگے کو خود سری کرتا جائے"-
 سوره القیامہ 

"اور انسان جس طرح (جلدی سے) بھلائی مانگتا ہے اسی طرح برائی مانگتا ہے۔
 اور انسان جلد باز (پیدا ہوا) ہے"- 
سوره بنی اسرائیل

"اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں (کے سمجھانے) کے لئے طرح طرح کی مثالیں بیان فرمائی ہیں۔ لیکن انسان سب چیزوں سے بڑھ کر جھگڑالو ہے"-
سوره الکھف 

"انسان بھلائی کی دعائیں کرتا کرتا تو تھکتا نہیں اور اگر تکلیف پہنچ جاتی ہے تو ناامید ہوجاتا اور آس توڑ بیٹھتا ہے"-
 سوره الفصلات 

"اور جب ہم انسان پر کرم کرتے ہیں تو منہ موڑ لیتا ہے اور پہلو پھیر کر چل دیتا ہے۔ اور جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے تو لمبی لمبی دعائیں کرنے لگتا ہے"- سوره الفصلات 

"ہم نے (بار) امانت کو آسمانوں اور زمین پر پیش کیا تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے۔ اور انسان نے اس کو اٹھا لیا۔ بےشک وہ ظالم اور جاہل تھا"- 
سوره الاحزاب 

"کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے تو تم خرچ ہوجانے کے خوف سے (ان کو) بند رکھتے۔
 اور انسان دل کا بہت تنگ ہے"-
 سوره بنی اسرائیل 

"اور طبیعتیں تو بخل کی طرف مائل ہوتی ہیں" 
سورہ النساء

 یہ ہے انسان کی تعریف قرآن کے مطابق-  ناشکرا، احسان فراموش، جلد باز، جگھڑالو، بخیل، تنگ دل، ظالم، جاہل، خود سر، سرکش، کم حوصلہ، مایوس، لالچی، کمزور، تکلیف میں رہنے والا-  

"بھلا وہی نہ جانے گا جس نے تخلیق کیا"-
 سوره الملک

ہم میں سے کسی کو بھی اپنی یہ تعریفیں نہیں معلوم-  شاید اس لئے کہ قرآن نہیں پڑھتے-  پڑھتے ہیں تو ترجمہ نہیں پڑھتے-  صرف ایک دوسرے کے الفاظ میں اپنی شخصیت تلاش کرتے ہیں اور مطمئن ہو جاتے ہیں کہ ہم ایسے ہی ہیں جیسے کہ ہمارے گھر والوں، دوستوں، جاننے والوں نے بتا دیا-  حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ہم دوسروں کی تعریف یا برائی میں کس حد تک مخلص ہوتے ہیں-  اور دوسرے بھی ہمارا عکس ہیں-  کوئی اچھا کہے تو یقین کر لیتے ہیں اور کوئی برا کہے تو برا مان جاتے ہیں-  کبھی خود اپنے آپ کو قرآن کی نظر سے نہیں دیکھتے-  ہو سکتا ہے کہ اچھا کہنے والے اور برا کہنے والے-  دونوں غلط ہوں یا دونوں صحیح ہوں-  اپنی مسلمانیت کو علماء اور مولویوں کی تعریفوں اور فتووں میں ڈھونڈتے ہیں- 

جس کا مطلب ہے کہ انسان بے وقوف بھی ہے  اور خود غرض بھی-  

"اور کوئی دوست کسی دوست کا پرسان حال نہ ہوگا- ایک دوسرے کو سامنے دیکھ رہے ہوں گے (اس روز) گنہگار خواہش کرے گا کہ کسی طرح اس دن کے عذاب کے بدلے میں (سب کچھ) دے دے یعنی اپنے بیٹے- اور اپنی بیوی اور اپنے بھائی- اور اپنا خاندان جس میں وہ رہتا تھا- اور جتنے آدمی زمین میں ہیں (غرض) سب (کچھ دے دے) اور خود کو عذاب سے چھڑا لے"-
 سوره المعارج 

"اس دن آدمی اپنے بھائی سے دور بھاگے گا-  اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے-  اور اپنی بیوی اور اپنے بیٹے سے"- 
 سوره عبس

اپنے ہم خیال, ہم مزاج اور ہم عقیدہ  لوگوں کا سہارا ڈھونڈتے ہیں کہ ایک حلقہ بن جاۓ-  اور پھر بد قسمتی سے وہ حلقہ ایک کنواں بن جاتا ہے اور ہم خیال اور ہم مزاج لوگ اس کے مینڈک-  ہر کنوئیں کے ڈریس کوڈز ہیں، شرائط ہیں-  کچھ مخصوص طرز عمل، مخصوص باتیں-  ہر کنوئیں سے اس کے مینڈک اچھل اچھل کر تماشہ دکھاتے ہیں اور پھر اس میں چلے جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں عبادت بھی ہوگئی اور فرض بھی ادا ہو گۓ-  اور دنیا کا نظام دے دیا ہے غیر مسلموں کے ہاتھہ میں-  جو ان سارے کنوؤں کو کنٹرول کر رہے ہیں-

وہ انسان کہاں ہیں جو مکّے کے تیرہ سالوں میںہر قسم کے کنوؤں کی قید سے آزاد کراۓ گۓ تھے-  اقرباء پروری، فرقہ پرستی، قبیلہ پرستی، نسلی تعصب، لسانی تعصب - یہ ایمان کی طرف جانے والے راستے ہیں ہی نہیں-



Elders - بزرگ

یا الٰھی، دے  لوگائی، جس سے بچے ہوں ہزار 
پانچ سو ڈپٹی کلکٹر، پانچ سو ہوں صوبیدار 

پرانے زمانے کا شعر ہے-  آج بابا نے سنایا-  کہنے لگے کہ چند دن پہلے کوئی مجھ سے اچھی سی دعا پوچھ رہا تھا تو میں اسے مسجد کے دروازے پر لے گیا اور بسم الله پڑھا کر یہ شعر پڑھا دیا-  شرارت میں-  آج اسی پچاسی سال کی عمر میں بھی ماشاء الله مسجد سے بھی دلچسپی ہے، لوگوں کے معاملات بھی سنتے رہتے ہیں-  ہر وقت تسبیح ہاتھ میں رکھتے کچھ پڑھتے رہتے ہیں-  کبھی کبھی قبر میں پوچھے جانے والے سوالات بھول جاتے ہیں تو پوچھتے ہیں کہ وہ کیا سوال تھا عربی میں- کبھی کوئی آیات بھول جاتے ہیں تو وہ بھی پوچھتے ہیں-  اپنے زندگی میں کی گئی غلطیوں پر خوب روتے بھی ہیں اور الله سے معافی بھی مانگتے رہتے ہیں-  جب میں فجر کے بعد  بچوں کو سکائپ پر قرآن پڑھاتی ہوں تو انکے پاس بیٹھہ کر سن رہے ہوتے ہیں اور اپنا تلفّظ بھی ٹھیک کر رہے ہوتے ہیں-  ہر بات کا شروع الله کے شکر سے اور بات کا آخر الله توکّل سے کرتے ہیں-  "الله مالک ہے بیٹا، اچھا ہی کرے گا"-   دعا بہت مانگتے ہیں لیکن یا تو اپنی معافی کی یا ہم سب کی خوشیوں کی-  لیکن دو مرتبہ تو اڑ گۓ- کہنے لگے میں نے الله سے کہہ  دیا کہ یہ تو ہونا ہی چاہیے اور وہ ہوا-   ایک مرتبہ اپنے اور ایک مرتبہ دادا کے نام کا حج کر چکے ہیں-  اور انکی خواہش ہے کہ اپنی والدہ کے نام کا حج بھی کریں-  زندگی میں کبھی انہیں کسی سے ڈرتے نہیں دیکھا- آج بھی سیدھے چلتے ہیں-  خود کو جوان نہیں تو بوڑھا بھی نہیں سمجھتے کیونکہ اکثر کہتے ہیں کہ فلاں آدمی سے بات ہوئی بے چارہ بہت ہی بوڑھا تھا- یا کہیں گے کہ بھئی ایسے بوڑھے بوڑھے لوگ دکھتے ہیں کہ حیران ہوتا ہوں یہ زندہ کیسے ہیں- اپنے دماغ اور مزاج کے مطابق جو چاہے کرتے رہتے ہیں- بابا سے زیادہ  اپنے باپ کا ادب اور لحاظ کرنے والا بیٹا نہ سنا نہ دیکھا-  مکمّل تو صرف الله کی ذات ہے-  لیکن جو اپنے کئے پر الله سے نادم رہے اور اپنی زندگی کو کسی بھی طور بہتر بناتا رہے وہ کبھی بوڑھا نہیں ہوتا- جوان ہی رہتا ہے-  امی کو بھی شعور پاتے ہی گھر کے کاموں میں مگن دیکھا-  کبھی ایک دن بھی صبح دیر تک سوتے نہیں دیکھا-  دوپہر میں ایک گھنٹے کا قیلولہ ضرور کرتیں تھیں-  حد سے زیادہ مثبت کاموں کی طرف راغب پایا-  کبھی نئے نئے کپڑوں، زیورات کی فرمائش کرتے نہیں دیکھا-  حد سے زیادہ خوش اخلاق اور ملنسار-  دونوں امی اور بابا دوسروں کے کام آنے والے-  بے وقوفی کی حد تک-  اکثر امی بابا کو دیکھ کر ہم کو اپنے پر شرم آتی ہے- 

ہمارے معاشرے میں کچھ رجحانات پرانے زمانے سے چلے آرہے ہیں-  ہو سکتا ہے وہ چند دھائیوں پہلے تک اچھے معاشرتی اقدار کا حصّہ ہوں-  اور اس وقت بوجھ کے بجاۓ رحمت اور برکت کی نشانیاں سمجھی جاتی ہوں-  مثلا، زیادہ بیٹے یا زیادہ اولادیں، بیٹوں کا کمانا بیٹوں کے بڑے ہونے کی نشانی، اولاد کے بڑے ہونے کے بعد مذہبی رجحانات کا بڑھنا، اولاد کے بڑے ہونے کے بعد حج اور زیارتوں کی خواھشات پوری کرنا، ایک مرد کی کمائی پر پورے گھر کا انحصار، اولاد ہونے کے بعد پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے خواب دیکھنا،  بڑھاپے میں پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے ساتھہ وقت گزارنا، وغیرہ وغیرہ 

پچھلے زمانے کے بزرگ اپنا ایک حلقۂ احباب بنا لیتے تھے اور اس میں ہر قسم کے بزرگ ہوتے-  وہ پھر اپنے سے چھوٹوں کے معاملات میں نہیں بولتے تھے-  خود جتنا ہو سکتا تھا گھر میں ہاتھ بٹاتے ورنہ الله الله کرتے-  گھر کے چھوٹے بھی ان پر زیادہ اعتراضات نہیں کرتے-  بزرگوں کا مذھب کی طرف رجحان انکے لئے ایک طریقے سے  دل کی تسلی کا باعث بنتا کہ گناہ معاف ہو رہے ہیں-  اور ماحول میں بھی ایک سکون قائم رہتا- 

اکثر پڑھے لکھے بزرگ ہاتھوں میں اخبار سے پہچانے جاتے اور سارا علاقہ انکی عزت کرتا-  کچھ اپنے بچوں کے بچوں کو لے کر ٹہلنے نکل جاتے-  کچھ انہیں مسجد لے جاتے-  کچھ بزرگ گھروں میں بچوں کو قرآن پڑھا دیتے- کچھ بچوں کو اسکول پہنچانے کی ذمّہ داری لے لیتے-  کچھ گھر سے ادھر ادھر  لوگوں سے خوش گپیاں کرکے وقت گذارتے- کچھ ہفتے میں دوسرے رشتہ داروں کے گھر کے چکّر لگا آتے اور خاندان بھر کی خبریں انکے ذریعے ایک دوسرے تک پہنچ جاتیں-  اگر کوئی بزرگ حج یا عمرہ کر لیتا توآس پاس کے محلّے تک مبارکباد کے لئے پہنچ جاتے-  اکثر بیٹھکوں میں ہی گھریلو مسائل بھی زیر بحث آتے-  اور وہیں انکے کچھ نہ کچھ حل بھی پیش کر دیے جاتے-  گھر کی خواتین ہوں یا مرد-  ان میں ایک دو ایسے ضرور ہوتے جو اپنی سمجھداری، دور اندیشی اور معاملہ فہمی کے لئے مشھور ہوتے-  اور سب ان سے مسلے حل کرواتے اور انکے فیصلوں کو حرف آخر سمجھتے-  اکثر گھروں میں پالتو جانور بھی ہوتے اور انکا بھی خیال رکھا جا رہا ہوتا-  اکثر لوگ اپنے شوق کی وجہ سے بھی مشہور ہوتے-  

اب جوان ہوں یا بزرگ، ہر کوئی چڑچڑا نظر آتا ہے-  ہر کوئی بیرزار-  اپنی زندگی سے ناخوش-  غیر مطمئن- 
بزرگوں کو جوانوں سے شکایات اور جوانوں کے بزرگوں پر الزامات-  ہر کوئی حساب کتاب کرتا نظر آتا ہے-  
پہلے کیسے اتنا وقت اور پیسے ہوتے تھے کہ کنبہ کے کنبہ پل جاتے اور سارے کام بھی ہو جاتے- 
پچھلی چند دھائیوں سے کیا ہو گیا؟

آج اپنے ارد گرد نگاہ ڈالیں تو بزرگوں کے ٹولے اکّا دکّا ہی کہیں نظر آتے ہیں اور وہ ایک خاص معیار کے مطابق-  جو پینسٹھ سال کے یا اس سے زیادہ عمر کے ہیں-  یا تو انکو یہ شکایات ہیں کہ انکی اولادیں فرمانبردار نہیں-  یا ان کو توجہ نہیں دیتیں-  یا انکو خرچہ پورا نہیں کرتیں- یا انکے بچوں کے بچے ان کو پریشان کرتے ہیں-  ایدھی سنٹرز میں بوڑھوں سے بات کریں تو ان کے لبوں پر ہر قسم کی شکایات ہوتی ہیں-  گھروں میں بوڑھے بیزار نظر آتے ہیں-  کبھی بیٹوں سے کبھی بیٹیوں سے، کبھی بہو سے کبھی داماد سے-  

ان بزرگوں نے اپنی جوانی ہمیں آسائشیں پہنچانے میں کاٹ دی-  ہمارے لئے صرف اپنے دن رات ہی ایک نہیں کے بلکہ اپنے اسلامی فرائض سے بھی غافل ہوگۓ-  اور الله کے نافرمان بھی بنے-  انہوں نے یہ سوچا ہی نہیں کہ ہم تو انکے لئے ایک آزمائش کا سامان ہیں-  پھر سب کچھ ہم پر لٹاتے وقت یہ بھی نہ سوچا کہ انکا اپنا بڑھاپا کیسے کٹے گا-  اگر انہوں نے یہ سب رزق حلال کے ساتھہ کیا تو پھر سب سے بڑا جہاد یہی کیا-  اور بہت ہی افضل زندگی گذاری-  اور اب انکو یہ سمجھ نہیں آتی کہ اس وقت انہیں کیا کرنا چاہیے-  پچھلی روایات کے مطابق تو یہ انکے آرام کا زمانہ ہے-  اور اکثر تو اپنے گھروں میں ہی ہیں-  اپنی اولادوں کے ساتھ-  لیکن پھر یہ بے سکونی کیوں ہے-  

جو پینسٹھ سال سے زیادہ کے ہو گۓ ان پر الزام دینے سے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ انھیں سب سے زیادہ پتہ ہے کہ انہوں نے کیا کیا کیا-  انکو انکی ناکامیوں کا احساس دلانا ان پر تیر چلانے کے مترادف ہے-  نہ دلائیں کیونکہ شاید انکی ناکامیاں ہی ہماری کامیابیاں بنی ہیں-  آج ہمارے لئے زندگی جتنی دشوار ہے، کل انکے لئے بھی تھی-  

اکثر جوان گھر میں بڑے بوڑھوں کے زیادہ بولنے سے بھی پریشان ہوتے ہیں-  یہ سوچیں کہ پتہ نہیں کون کون سی بھڑاس انکے دل میں ہے جو وہ اب نکالنا چاہ رہے ہیں-  کیونکہ اولاد پالتے وقت ہمارے ماں باپ خود پر ظلم یہ کرتے ہیں کہ اپنی شخصیت کی نفی کر دیتے ہیں خود پر بھی توجہ دینا بند کر دیتے ہیں-  اتنی قربانیاں دیتے ہیں جو شاید جائز بھی نہ ہوں- اور جب جوانی کی حدود اور اپنی ذمّہ داریوں سے فارغ ہوتے ہیں تو بالکل ایک بچے کی طرح حیران و پریشان ہوتے ہیں کہ اب کیا کریں-  شاید انہوں نے اپنا آرام اس لئے قربان کیا ہوتا ہے کہ انکے بچے بڑے ہو کر اس آرام کا موقع انہیں دیں گے-   

جنگل میں بھی انسان کے فائدے کی جڑی بوٹیاں اگتی رہتی ہیں لیکن جنگل کسی کھیت کی طرح منظّم اور مسلسل غذا کا ذریعہ نہیں ہوتا-  نہیں ہوتا-  برصغیر کا معاشرہ بھی ایک جنگل کی طرح ہے-  اس میں وقفہ وقفہ سے نیک، مخلص اور سمجھدار لوگ پیدا ہوتے رہتے ہیں-  لیکن ایک منفی ماحول میں یہ سخت  آزمائشوں کا شکار رہتے ہیں اور آخر میں تھک جاتے یا مایوس  ہو جاتے ہیں- علامہ اقبال، قائد اعظم اور ان سے پہلے اور بعد کے مخلص انسان بھی جنگل میں پیدا ہونے والی جڑی بوٹیوں کی طرح تھے جو بیماری میں بہترین دوائیں ثابت ہوئیں-  لیکن مسلسل صحت کے لئے معاشرے کے ایک ایک فرد کو اپنے پرہیز اور ماحول کی صفائی کا خود خیال رکھنا پڑتا ہے-  

اس عمر کے لوگوں کو سب سے زیادہ دعا اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے-  دو تین سال پہلے جب امی بابا آۓ تھے تو انکے لئے سب سے زیادہ یہی حکمت عملی کام آئی تھی-  بابا تہجّد سے اٹھے ہوتے تھے اس لئے فجر کے بعد سو جاتے تھے-  میں نے ایک دن ایسے ہی صبح صبح انکے بچپن کے بارے میں پوچھ لیا- کوئی دو گھنٹے تک وہ رامپور کے بارے میں بتاتے رہے-  دوسری صبح وہ سونے کے بجاۓ میز پر بیٹھے تھے-  میں نے پھر انکے بچپن کی شرارتوں کا پوچھ لیا-  اسی طرح چار پانچ دن ہوا-  اس دوران وہ بڑے پر جوش ہوجاتے-  ایک کے بعد ایک بات انھیں یاد آتی چلی جاتی-  یہی امی کے ساتھہ بھی ایک دو مرتبہ کیا- 

اس میں کوئی شک نہیں کہ بزرگ گھر میں الله کی رحمت ہوتے ہیں-  ان کے دم سے ماحول میں نور ہوتا ہے-  انکی وجہ سے رحمت کے فرشتے گھروں کا رخ کرتے ہیں-  لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ بزرگوں کو نئے زمانے کے نئے تقاضوں کے مطابق اپنی زندگی اور سوچ  میں تھوڑی سی تبدیلی لانی چاہیے-  آج جس مشکل ترین طرز زندگی کو یہ جوان گذار رہے ہیں اس سے تعارف بہر حال بزرگوں نے ہی کرایا تھا-  ایک خوشحال، آرام دہ، اپنی اپنی زندگی کے خواب، بزرگوں نے ہی ان کو دکھاۓ تھے-  آج یہ انہی خوابوں کو حقیقت بنانے پر تلے ہوۓ ہیں-  یہ بھول کر کہ کل ان کا کوئی پرسان حال نہ ہوگا- ایک غیر منظّم معاشرے میں اگر بزرگوں کا قصور نہیں تو جوانوں کا بھی نہیں-  سواۓ اس کے کہ اگر یہ جوان اپنے بچوں کی بہتری چاہتے ہیں تو پھر تھوڑے صبر و برداشت اور عقلمندی کے ساتھہ ایک مربوط نظام بنائیں- اس جنگل کو کھیت میں تبدیل کریں- ورنہ اپنے بزرگوں سے بھی زیادہ بد تر بڑھاپے کے لئے تیّار رہیں-  

جو بزرگ ایدھی سنٹرز اور ایسے ہی دوسرے اداروں میں ہیں وہ تو وہیں ایک دوسرے پر اپنے ہنر آزما سکتے ہیں-  ایک دوسرے کو کچھ سکھا سکتے ہیں- ساتھہ مل کر عبادت کر سکتے ہیں-  ادارے میں پھول پودے لگا سکتے ہیں-  بجاۓ کہ اپنی اولادوں کی شکایات کریں-  ایک طریقے سے خوش ہو سکتے ہیں کہ چلو اس بہانے پتہ نہیں کتنے لوگوں سے ملاقات ہو گئی-  اپنی اپنی زندگی کی اچھی یادیں ایک دوسرے کے ساتھ شئیر کر سکتے ہیں-  بلکہ کوئی انٹر ویو لینے کے بہانے منفیت پھیلانے اور مایوس کرنے کی کوشش کرے تو انکی کوشش بھی ناکام کر دیں-  جب بچوں کی شادیاں کردیں-  تو اب کیا فرق پڑتا ہے کہ کہاں رہیں-  الله کی دنیا دیکھیں-  اسکی قدرت پر توجہ کریں-  اسکا ذکر کریں، شکر کریں-  بچے جانیں اور انکی زندگی-  اگر انکو مدد کی ضرورت ہو تو ضرور مدد کریں-  لیکن خود کو انکے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں-  کیونکہ وہ بھی بڑے مشکل ترین دور سے گذر رہے ہیں-  اور بہت مرتبہ مجبور بھی ہوتے ہیں-  اور نہیں تو کوئی شوق پال لیں-  اپنی آخرت کے لئے نیکیاں جمع کرنی شروع کردیں-  

 ایک بوڑھا ہوا کرتا تھا- جو اپنے ساتھ بڑا سا تھیلا لئے گھر گھر شام کے وقت روٹیاں اور کھانا جمع کرتا تھا-  لوگ اس کے پیٹھ پیچھے اس پر تنقید کرتے کہ یہ اتنے کھانے کا کرتا کیا ہے-  پاگل ہے-  وغیرہ وغیرہ -  پھر کچھ دن وہ نظر نہ آیا-  معلومات کرنے پر پتہ چلا کہ اسکا انتقال ہو گیا- اور وہ کچھ یتیم بچوں کے لئے کھانا جمع کیا کرتا تھا-  اور اگر اس بوڑھے کا انتقال نہ ہوا ہوتا تو لوگوں کو یہ بھی نہ پتہ چلتا کہ اس علاقے میں کچھ یتیم بچے بھی ہیں جن کی باسی روٹی کا آسرا بھی چھن گیا ہے-  

ہم بہن بھائیوں اور کزنوں کے کے بچپن میں بہت شوق ہوا کرتے تھے-  ایک تو گھر میں طوطے اور بلّیاں-  اور طوطے ہم خریدتے نہیں تھے بلکہ ٹماٹر، ہری مرچیں اور روٹی کے ٹکڑے رکھ رکھ کر انھیں پکڑا کرتے-  اور امی انکے پر کاٹ دیتیں-  پھر چھوٹے بھائی کو کبھی کنیریز، چوزوں کا شوق چڑھتا-  کبھی وہ تنکوں اور تیلیوں سے گاڑیاں اور جہاز بنا رہا ہوتا-  باجی اپنی ڈائریاں اور دوستیاں اور کڑاہیاں میں مصروف ہوتیں- میری مختلف چھوٹی چھوٹی کاپیاں ہوتی تھیں ایک ریکارڈ کی صورت میں-  ایک میں نعتیں لکھی ہوتیں اور مساجد کی تصویریں-  ایک میں فوجی نغنے اور فوجیوں کی تصویریں-  کچھ ڈرائنگ کی کاپیاں جس میں کلیگرافی، ڈیزائنز اور پتہ نہیں کیا کیا بنایا ہوا تھا-  ہم کزنز مل کر پتہ نہیں کتنے کھیل کھیل رہے ہوتے تھے- کبھی اپنی گڑیوں کے کپڑے سی رہے ہوتے-  کبھی اون سلائیاں ہاتھ میں- کبھی آپا آپا، کبھی کلاس کا منظر, کبھی اسپتال کا منظر-  چوڑیاں جمع کرنے کا شوق- اور ٹوٹی ہوئی چوڑیوں سے چیزیں بنانے کا شوق-  کیا کیا ترکیبیں لڑا رہے ہوتے شرارتوں کی-  دو گھر چھوڑ کر ایک گھر میں آم کا درخت تھا جس پر سے اپنے گھر سے کیریاں توڑی جاتیں-  امی کو آج تک بھی نہیں پتہ کہ انکا پسا ہوا دھنیے میں چینی ملا کر میں کھا جاتی تھی- ایک دوسرے کی سالگرہ منا رہے ہوتے- حتیٰ کہ بلّیوں کی بھی سالگرہ منا لیتے- ایک دوسرے کی مجلسوں میلادوں میں جارہے ہوتے- کبھی خود ہی بچوں کا میلاد کرتے-  مجلسوں میں مقابلہ کرتے کہ کون سب سے زور سے ماتم کرے گا-  چھوٹی خالہ کو گھومنے پھرنے اور ہلّے گلّے کا شوق تھا- تو کراچی انکی وجہ سے گھوما- فلمیں بھی وہی دکھاتی تھیں- امی کی ایک دوست کے والد، شوق مرادآبادی صاحب شاعر تھے تو انکی وجہ سے علاقے کے کئی مشاعروں میں بھی گۓ وہاں اقبال عظیم صاحب اور دوسرے شعراء کو دیکھتے اور سنتے-  اور ایک مرتبہ تو انتہا کردی کہ اپنی ایک کزن کی سالگرہ کو پورا فنکشن بنا ڈالا-  سارے خاندان کو بلایا- کرسیاں لگائیں- ایک مہینہ اسکی ریہرسل کی-   بڑوں نے اسٹیج بنایا-  ہم چھوٹوں نے ڈرامے، گانوں اور لطیفوں میں کردار ادا کیے-  اور کیا کمال کی اداکاریاں کیں-  مصروفیت سی مصروفیت تھی- زندگی تخلیق ,خوشیوں اور جوش کی انتہاؤں پر تھی-  اور ہمارا گھر ایک مکمّل مونٹیسوری کی مثال تھا-   

اس ملک کے لوگ شدید ترین نفسیاتی بحران کا شکار ہیں-  اس لئے کہ نہ ان میں کسی چیز کا شوق نہ ذوق- کسی چیز سے خوش نہیں- ہر کام مشکل،   ہر چیز اور ہر کام بے کار لگتا ہے انکو-  اور ہر عمر میں کرنا بے کار لگتا ہے-  طویل خواہشات اور پھر اس میں ناکامی-  سب کے لئے عذاب بن گئی ہے-  ہر کوئی خود کو حق پر سمجھتا ہے-  ہر کوئی خود معصوم سمجھتا ہے-  ہر کوئی خود کو عاقل اور دوسرے کو بے وقوف سمجھتا ہے-  ہر کوئی دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے-  ہر کسی نے اپنی مجبوریوں اور اپنے اعمال کو جسٹیفائی کیا ہوا ہے- اور کم سے کم پرفارمنس پر زیادہ سے زیادہ اجر کا امید وار ہے-  بقول بابا کے پرانے شعر کے 

کرنی کرے تو کیوں کرے اور کر کے کیوں پچتاۓ 
بیج بوۓ ببول کا تو آم کہاں سے کھاۓ 

اور یہ بات بزرگوں کو بچے نہ بتائیں کیونکہ یہ بزرگوں کے لئے کسی صدمے سے کم نہیں ہوتا-  اور مروت اور شرافت کا تقاضہ بھی نہیں-  یہ بات سمجھدار بزرگ ہی دوسرے بزرگوں کو سمجھا سکتے ہیں-  

ہمارے ہاں ایک سوچ نے آہستہ آہستہ اس معاشرے میں ایک شخصیت کا روپ دھار لیا ہے کہ بڑھاپے میں زندگی بے کار ہوجاتی ہے-  جوں  جوں  لوگ عمر رسیدگی کی طرف گامزن ہوتے ہیں وہ یہ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں کہ جب جوانی میں ہم کامیابی حاصل نہ کرسکے تو بڑھاپے میں کیا کریں گے-  اور کامیابی ان کے نزدیک بنگلہ، گاڑیاں، بینک بیلنس، نوکر چاکر، شہرت کا نام ہوتا ہے-  وہ یہ نہیں سوچتے کہ کروڑوں لوگوں کے ایک بے ہنگم ہجوم میں زندہ رہنا، اور اخلاقی اصولوں کے مطابق زندہ رہنا اور اس دوران اپنی اولادوں کو بھی اخلاقی اصولوں کے مطابق تعلیم و تربیت دینا بھی بہت بڑی کامیابی ہے-  کامیابی وہ نہیں جسے دوسرے کامیابی کہیں-  


"اور خدا کی رضا مندی تو سب سے بڑھ کر نعمت ہے-  یہی بڑی کامیابی ہے"- سوره التوبہ، آیت ٧٢ 

سعید ہاشمی کی ایک نعت کا شعر ہے کہ 
اگر کوئی اپنا بھلا چاہتا ہے   
اسے چاہے جس کو خدا چاہتا ہے 
خدا کی رضا مصطفیٰ چاہتے ہیں 
خدا مصطفیٰ کی رضا چاہتا ہے 


یہ نکتۂ رضا چودہ سو سال پہلے اہل بیت اور اصحابہ کرام کو سمجھ آگیا تھا-  اور آدھی سے زیادہ دنیا چالیس سال میں مسلمانوں کے زیر حکومت تھی-  

Sunday, 6 April 2014

Stages of Human Life - انسانی زندگی کے مراحل

 ایک حدیث کے مطابق، قیامت کے دن انسان کے قدم الله کی عدالت میں کٹہرے سے ہٹ نہیں سکیں گے جب تک وہ پانچ سوالوں کے جواب نہ دے لے- 
١- زندگی کیسے گزاری؟ 
٢- جوانی کیسے گزاری؟
٣- دولت کیسے کمائی؟
٤- دولت کہاں خرچ کی؟
٥- اور حاصل کئے ہوۓ علم پر کتنا عمل کیا؟ 

قرآن (٦١٠ - ٦٣٢ / 610 - 632) نے انسان کی زندگی کے تمام ادوار آٹھہ حصّوں میں تقسیم کیا ہے- "وہ حالت جس میں تمام انسانوں سے عہد لیا گیا تھا کہ الله کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے- ماں کے پیٹ میں زندگی کا جسم اور روح کی صورت میں ڈھلنا-  ماں کے پیٹ سے باہر کی زندگی یا بچپن- جوانی یعنی طاقت کی زندگی - بڑھاپا یعنی عمر کا لوٹایا جانا - قبر یعنی عالم برزخ میں زندگی - روز احتساب کی زندگی - آخرت کی زندگی دوزخ یا جنّت کی صورت میں"

اور دنیاوی زندگی کو پیدائش سے موت تک بنیادی طور پرچار حصّوں میں بانٹا ہے- "بچپن یعنی کھیل کود - نوجوانی یعنی زینت و آرائش - جوانی یعنی فخر اور ستائش - بڑھاپا یعنی مال اور اولاد بڑھنے کی خواہش-"

"جان رکھو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا اور زینت (وآرائش) اور تمہارے آپس میں فخر (وستائش) اور
مال واولاد کی ایک دوسرے سے زیادہ طلب   ہے- 
سورہ الحدید

 اور دنیا کی زندگی تو متاع فریب ہے"-
سورہ الحدید 

ابن سینا (٩٨٠ - ١٠٣٧ / 980 - 1037) انسان کی دنیاوی زندگی کو اسکی شخصیت کی تکمیل کے مراحل کے لحاظ سے تین حصّوں میں تقسیم کرتے ہیں- 
١- پہلا حصّہ پیدائش سے چھ سال تک کی عمر، جس میں بچے کو انتہائی نگہداشت اور آزادی کی ضرورت ہوتی ہے- 
٢- دوسرا حصّہ چھ سے چودہ سال تک کی عمر، جس میں بچے کو اتنا سمجھدار ہو جانا چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کے لئے فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو- 
٣- تیسرا حصّہ بلوغت یا نوجوانی کی عمر جو کہ تیرہ یا چودہ سے چوبیس سال تک ہوتی ہے- یعنی اپنی زندگی کے فیصلوں کا اختیار- 
٤- شخصیت کی تکمیل اور تعلیم کے حصول کے بعد یک عاقل و بالغ انسان کی حیثیت سے موت کے وقت تک زندگی گذارنا

شکسپیئر (١٥٦٤- ١٦١٦ / 1564 - 1616) نے زندگی کو سات حصّوں میں تقسیم کیا- Seven Stages of Man
"پیدائش سے اسکول جانے تک کی عمر - اسکول جانے کی عمر - نوجوانی کی شروع کے سال - نوجوانی کے بھرپور سال - جوانی - ادھیڑ عمر - بڑھاپا"

ماریا مونٹیسوری (١٨٧٠ - ١٩٥٢ / 1870 - 1952) انسان کی زندگی کو پانچ حصّوں میں تقسیم کرتی ہیں- 
 ١- پہلا حصّہ پیدائش سے چھہ سال تک کی عمر  
٢- دوسرا حصّہ چھ سال سے لے کر بارہ سال تک کی عمر- 
٣- تیسرا حصّہ بارہ سال سے اٹھارہ سال تک کی عمر-  جس میں سے بارہ سے پندرہ یعنی تین سال کا عرصہ بچے کی انتہائی حسّاسیت کا ہوتا ہے اور پھر پندرہ سے اٹھارہ یعنی تین سال کا عرصہ اسکی خود مختاری کی طرف رغبت کا ہوتا ہے-  
٤- چوتھا حصّہ اٹھارہ سے چوبیس سال تک کی عمر- یعنی نوجوانی- 
٥- نوجوانی کے بعد سے موت تک کی عمر یعنی جوانی اور بڑھاپا

خلاصه یہ کہ 
١- بارہ سے چودہ پر آکر بچپن ختم ہو جاتا ہے- 
٢- مزید دس سال بعد نوجوانی ختم ہو جاتی ہے- 
٣- مزید  چھبیس سال بعد جوانی ختم ہو جاتی ہے- 
٤- اور میری عقل کے مطابق ذرا دیر کے لئے پچاس سے ساٹھ کے درمیان کے دس سال, جسکا نام میں نے "دنیا کا عالم برزخ  یا سکتہ کی حالت" رکھا ہے, نکال دیں تو 
٥- ساٹھویں سال سے بڑھاپے کا آغاز- اور موت کی طرف سفر شروع ہو جاتا ہے- 
٦- موت- آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل- اس دنیا سے رخصتی- 
٧- دوسری منزل قبر یعنی عالم برزخ - کسی شاعر نے کہا کہ "موت اک زندگی کا وقفہ ہے- ذرا آگے بڑھیں گے دم لے کر"- 
٨- تیسری منزل صور اوّل اور دوئم یعنی حشر- 
٩- چوتھی منزل قیامت یا یوم القیامه (لغوی معنی کھڑے ہونے کا دن) یعنی روز احتساب - جسے اقبال نے کہا "ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب"-
١٠- جنّت یا جہنّم میں رہائش 

"اور جس کو ہم بڑی عمر دیتے ہیں تو اسے خلقت میں اوندھا کردیتے ہیں
تو کیا یہ سمجھتے نہیں؟" - 
سورہ یٰسین 

رسول الله صلی الله علیہ وسلّم نے عمر رسیدگی کی دعا بھی امّت کو سکھائی- 
" اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْجُبْنِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْبُخْلِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ أَرْذَلِ الْعُمُرِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدُّنْيَا وَعَذَابِ الْقَبْرِ"
"یا الله! میں آپکی پناہ مانگتا/مانگتی ہوں بزدلی سے اور بخل سے اور عمر کے لوٹاۓ جانے یعنی بڑھاپے سے اور دنیا کی آزمائشوں سے اور قبر کے عذاب سے"- 

اگر ماریا مونٹیسوری کا بارہ سے پندرہ سال تک کے بچوں کی عمر کا فلسفہ اور نفسیات پڑھیں- اور اپنی زندگی میں ملنے والے اپنے گھر اور خاندان کے لوگوں سمیت ہر شخص کی زندگی پر غور کریں جو پچاس سے ساٹھ سال کے دورانی عرصہ میں ہے تو یہ حقیقت سامنے آۓ گی کہ اپنی ساٹھ سے زیادہ سالہ زندگی میں (اگر کسی کو اتنی زندہ رہنا نصیب ہو) ہر انسان کم از کم دو مرتبہ اپنی عمر پر لوٹایا جاتا ہے-  دو مرتبہ عالم برزخ کا تجربہ کرتا ہے-  یا ایسے جیسے اعراف پر کھڑا ہوا کشمکش میں ہو کہ اب کیا ہوگا یا کیا کرنا ہے- اگر ان دونوں مراحل سے پہلے کا دور مثبت ہو تو انسان بہت جلد کشمکش سے باہر نکل آتا ہے- ورنہ اکثر بھٹکتا رہ جاتا ہے- 

١- بارہ سے پندرہ تک کے تین سال، جب وہ انسان اپنی شخصیت کی تکمیل کے بچپن سے بلوغت کے مراحل طے کر رہا ہوتا ہے-  اور اس دوران حسّاسیت اور جذباتیت کے اسی انتہائی لیول پر ہوتا ہے جس پر ایک دو سے چار سال کا بچہ ہوتا ہے-  اس مرحلہ کے دوران بچہ نہ بڑوں میں ایڈجسٹ ہو پاتا ہے نہ چھوٹوں میں- 
وہ شاید اس ڈویلوپمنٹ کے لئے تیّار نہیں ہوتا اور اکثر ضد، غصّے اور ہٹ دھرمی کا رویّہ اپناتا ہے یا پھر تنقید, خوف اور بزدلی کا- اس دوران اکثر انکی ذہنی اور جسمانی نشو نما کا گراف نیچے گرتا ہے- اور اگر اس وقت بچے پر توجہ نہ دی جاۓ تو یہی رویے اسکی شخصیت کا حصّہ بن جاتے ہیں اور بہت عرصے تک اس کی زندگی کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں-  

ایک حدیث بہت پہلے کہیں پڑھی تھی کہ "جو اپنی جوانی برباد کرتا ہے الله اس کا بڑھاپا برباد کردیتا ہے"- 

٢- پچاس سے ساٹھہ کے درمیان دس سال کا دورانیہ ہوتا ہے-  اور دس سال کا عرصہ کوئی تھوڑا عرصہ نہیں ہوتا- تین ہزار چھہ سو پچاس دن یا ستاسی ہزار چھ سو گھنٹے بنتے ہیں- اگر کوئی روزانہ سات گھنٹے کے حساب سے سال میں دو ہزار پانچ سو پچپن گھنٹے سوتا ہے تو بھی دس سال میں اس کے پاس باسٹھ ہزار پچاس گھنٹے بچتے ہیں دوسرے کاموں کے لئے-  

اکثر لوگ ان سالوں کے دوران اپنے بلوغیت کے ابتدائی دور کی طرح ایک انتہائی حسّسیات اور جذباتیت کے لیول پر ہوتے ہیں-  لیکن اسی دور کے بر خلاف جسمانی طور پر کمزوری اور تھکن کی طرف مائل ہوتے ہیں اور اسکا انھیں شدید ادراک بھی ہوتا ہے اور آگے کے سالوں میں اسی کا خوف بھی- 

عام طور پر اس دوران لوگوں کی اولاد بڑے ہو کر اپنی نوجوانی کے اختتام اور جوانی کے آغاز پر ہوتی ہے-  وہ اپنے سے چھوٹوں سے یہ نہیں سننا چاہتے کہ انہوں نے ساری زندگی ضائع کردی اور کتنی بڑی بڑی بے وقوفیاں یا گناہ کئے- وہ اپنے ہم عصروں کے مذاق کا نشانہ بھی نہیں بننا چاہتے کہ انہوں نے کیا کیا غلطیاں کی ہیں- وہ اپنے بڑوں سے بھی شرمندہ ہوتے ہیں- ایک فلم کی طرح انکی زندگی انکے سامنے ہوتی ہے اور وہ خود اپنی کمیوں اور زیادتیوں پر گواہ ہوتے ہیں- اور انھیں شدید ترین احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے کہاں کہاں وقت، صلاحیتیں اور پیسہ ضائع کیا- اسی لئے اکثر عمر رسیدہ لوگ وہ وہ نصیحتیں کر رہے ہوتے ہیں جنھیں وہ خود ایک مذاق اور فضولیات سمجھتے تھے اور جواب میں انہیں نوجوانوں اور جوانوں  سے طعنے پڑ رہے ہوتے ہیں-  

ان سالوں کے دوران وہ اپنی ذہنی سطح کے مطابق ایک ایسی زندگی کے خواہشمند ہوتے ہیں جس میں ذہنی سکون بھی ہو، جسمانی آرام بھی، ایسے مواقع بھی ہوں جس سے وہ اپنے نا مکمّل خوابوں (اگر کوئی ہیں) کی تکمیل کرسکیں، عبادت (کسی بھی قسم کی) کرسکیں، تھوڑی بہت خود کفالت بھی کر سکیں (اس میں خواتین کی اکثریت شامل نہیں)- اور معاشرے میں ایک سلجھے ہوۓ، پرسکون،تہذیب یافتہ شخص کی طرح-  اور یہ تعریف پچھلے تیس سال کے کراچی کے لوگوں کے لئے نہیں ہے- اس سے پہلے وہ بھی کسی حد تک نارمل ہوا کرتے تھے- 

اس دورانیہ میں کافی لوگ اپنی ساری زندگی کی کاہلی کے باوجود ذرا دیر کے لئے چاق و چوبند ہوجاتے ہیں-  دنیا کو یہ یقین دلانے کے لئے کہ وہ ابھی جوان ہیں- اپنا حلیہ اور وضع قطع بھی ویسی ہی بنانے کی کوشش کرتے ہیں- ویسا ہی جذبہ دکھاتے ہیں جو جوانی میں دکھانا چاہیے تھا- اور اس دور کو آخری موقع سمجھ کر ضائع نہیں کرنا چاہتے- جو کہ کوئی بری بات بھی نہیں بلکہ اچھی بات ہے- 
اور اکثر اپنے ہی گھر والوں اور جاننے والوں کے رویے سے ناامیدی اور مایوسی میں ڈوب کر اپنی شخصیت کی نفی کرتے ہوۓ ذہنی مریض بن جاتے ہیں اور دوسروں کے محتاج بن جاتے ہیں- 

پچھلے تیس سالوں میں اور خاص کر پچھلے بیس سالوں میں دنیا کی سماجی اور معاشی حالت میں جس بدترین طریقے سے تبدیلی آئی اور جس کے ذمّہ دار جانور، درخت، پھول، پودے، زمین، آسمان، تارے، بادل، دریا، سمندر، پہاڑ، صحرا اور پتھر نہیں- انسان ہے-  اس نے انسان ہی کے لئے وقت سے پہلے روز حشر بپا کردیا ہے- دنیا پر حکمرانی کے خواب اور ایک دوسرے پر حکمرانی کی خواھشات نے خود انسان کی زندگی مشکل ترین بنادی ہے-  اور اسکا فوری حل گو کہ انہیں دنیاوی عذابوں سے چھٹکارہ تو نہیں دلا سکتا لیکن آخرت کا سہارا بن سکتا ہے- اور وہ ہے 
کرو مہربانی تم اہل زمین پر 
خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر